• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم حدیث کو کھلواڑ اور بازیچہ اطفال بنانے کی ایک مذموم کاوش

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
علم حدیث کو کھلواڑ اور بازیچہ اطفال بنانے کی ایک مذموم کاوش

(النصيحة المفيدة في تحذير الناس من فتنة من ادعی فرضية علم المصطلح ومتعلقاته علي العامة)
ابو المحبوب سید انور شاہ راشدی
آج دوپہر بتاریخ) ۱۱ / ۰۴ / ۲۰۱۴ ء) بروز منگل مجھے اپنے ایک فاضل دوست کے توسط سے : "اصول حدیث واصول تخریج " کے نام سے ایک کتاب موصول ہوئی..جزاہ اللہ خیرا.
اس کتاب کو صاحبِ کتاب نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے. :
۱ ـ اصول حدیث
۲ ـ اصول تخریج.
حصہ اولی میں چھے ابواب ہیں، جن کے عنوان درج ذیل ہیں:
۱ ـ اصول حدیث.
۲ ـ صحیح حدیث
۳ ـ بیان خبر مردود بلحاظ طعن راوی
۴ ـ مرفوع
۵ ـ اسناداور اسکے متعلقات.
۶ ـ علم جرح وتعدیل کا بیان.
دوسرے حصے ( اصول تخریج) میں اصول حدیث اور اصول تخریج، دونوں کو آپس میں خلط ملط کردیا ہے، حالانکہ جب پہلے اصول حدیث کو ذکر کیا ہے تو پھر دوبارہ اس کو اصول تخریج میں ذکر کرنا کیا ظاہر کرتا ہے ....؟؟؟!!!
یہ میں قارئین پر چھوڑتا ہوں.
زیر بحث کتاب پر دو اصحاب نے تقریظ لکھ رکھی ھے، اور انہوں نے اپنی تقاریظ میں صاحبِ کتاب کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے، جو انکا دوستانہ حق بنتا ہے. تقریظ لکھنے والے یہ دونوں اصحاب علمی دنیا میں غیر معروف ہیں ۔ البتہ ایک صاحب تو اپنے شذوذ کے سبب بعض حلقوں میں کافی " معروف " ہیں ۔
صاحبِ کتاب کے حوالے سے علمی دنیا میں کافی چہ مگوئیاں ہوئی ہیں، اور علمائے کرام نےاس کا زبردست نوٹس بھی لیا، خصوصا راقم الحروف اور برادرم حافظ شاہد محمود حفظہ اللہ تعالی نے وٹس اپ گروپوں میں موصوف پر علمی اعتبار سے رد بھی کیا، اور اسی طرح فیس بوک پر بھی انکے خلاف لکھا، جسکا موصوف کوئی بھی نہ جواب دے سکے، بلکہ سرے سےبحث کرنے ہی سے کتراتے رہے ۔ لیکن غلط بیانی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔
موصوف اپنی مذکورہ بالا کتاب میں لکھتے ہیں :
"بعض الناس ہماری اس طرح کی مخلصانہ کاوشوں سے خوش ہونے کی بجائے ناراض ہوتے ہیں، کیونکہ حق کو تسلیم کرنے میں انکی ضد آڑے ہے، پھر ہم پر وہ اپنا غصہ دلائل دینے کے بجائے ادھر ادھر کی باتوں سے پورا کرتے ہیں۔" (۶۶)
اب ذرا" ادھر "کی طرف متوجہ ہوں۰۰۰۰۰!
* موصوف نے ایک کتاب بعنوان " کتاب الضعفاء والمتروکین " لکھی ہے، جو انکے بقول "تہذیب التہذیب " لابن حجر کا ترجمہ ہے، جیسا کہ انہوں نے اس کتاب کے سرورق پر لکھا ہے: "اسماء الرجال کی مشہور کتاب تہذیب التہذیب کا اردو ترجمہ." اگر یہ کتاب تہذیب التہذیب " کا ترجمہ ہے تو کیا "التہذیب " میں صرف ضعفاء اور متروکین ہیں، جو ان صاحب نے یہ نام رکھا ہے، ...؟؟
پھر اسی کتاب کے ٹائٹل پر موصوف نے اسی ترجمے کو اپنی " تالیف " بھی لکھا ہے ۰۰۰ یعنی یہ ترجمہ بھی ہے اور تالیف بھی۰۰۰۰!!!
* ان صاحب نے "کتاب الضعفاء .. " کے سرورق پر نظر ثانی میں "مولانا ابوسیف جمیل احمد حفظہ اللہ تعالی " کا نام لکھا ھے، لیکن انہوں نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ یہ اسکی سراسر کذب بیانی ہے، یہ نظرثانی میری نہیں۔ ابو سیف صاحب کا یہ بیان باقاعدہ ایک اڈیو میں موجود ہے جس کے بہت سارے علمائے کرام گواہ ہیں۔ اور یہ آڈیو ریکارڈنگ بھی موجود ہے۔
بلکہ انکی تردید والا بیان "اشاعة الحديث " (شماره: 129 تا 132) میں بھی شایع ہوا تھا، مذکورہ شمارے میں ہے :
محترم جناب مولانا حافظ ابو سیف جمیل حفظہ اللہ نے ہمیں بذریعہ فون اطلاع دی اور فرمایا: میری طرف سے یہ اعلان (شایع) کیاجائے کہ: ..............کی تالیف "کتاب الضعفاء والمتروکین " سے میں بری ہوں ۔ میرا اسکے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ میرے منع کرنے کے باوجود اس نے اپنی مذکورہ کتاب پر میرا نام لکھ دیا ہے، جس سے مؤلف مذکور کی اخلاقی اقدار کا پتہ چلتا ہے، میں........کی اس حرکت کی پرزور مذمت کرتا ہوں.
( المعلن : ابوسیف جمیل احمد۔ ص : ۱۰۵)
اسی شمارے میں یہ بھی اعلان شایع ہوا ہے کہ موصوف، شیخ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے باقاعدہ شاگرد نہیں ہیں.
* موصوف نے کسی استاذ سے نہ باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہے اور نہ علم حدیث سے متعلقہ کتب کی قراءت کی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ موصوف حتی الامکان اردو مترجم کتب ہی سے استفادہ کرتے ہیں، اور ان کی کتب میں منقول عربی عبارات کے تراجم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عربیت سے نا آشنا ہیں ۔
اسی لیے شیخ محترم مولانا مبشر ربانی نے موصوف کی اپنی کتاب : "الصحیفہ فی الاحادیث الضعیفہ " پر تقریظ میں موصوف کے بارے میں لکھا ہے:
" ۰۰۰۰علماء کی صف کے آدمی نہیں ہیں۔ ۰۰۰۰اللہ تعالی انھیں کسی ماہر استاذ کے پاس بیٹھ کر حصول علم کا موقع فراہم کرے۔" ( الصحیفہ ، ص: ۱۱-۱۲)
اسی لیے موصوف کو بارہا منع کیا گیا کہ اصول حدیث اور علم الرجال آپ کا فن نہیں،اس کے لیے طویل مزاولت وممارست کی ضرورت ہے، اور آپ فی الحال اس کے لائق نہیں، کیوںکہ جس کا جو فن نہیں تو اسے اس میں گفتگو کرنے کا بھی حق نہیں۔ کیا محض شوق کی بنا پر اس عظیم فن پر بغیر کسی معرفت کے اسے کھلواڑ بنایا جائے گا، ....؟؟
دنیا میں کبھی کسی نے یہ کہا ہے کہ :
* ـ مجھے ڈاکٹری کا شوق ہے، اور وہ کلینک کھول کر لوگوں کو علاج کرنا شروع کردے...؟؟؟
* کیا کوئی یہ کہے کہ مجھے انجینیئرنگ کا شوق ہے، لہذا میں انجینیئر والا کام شروع کرتا ہوں...؟؟؟
* اگر کوئی یہ کہے کہ مجھے پڑھانے کا شوق ھے جبکہ وہ پڑھا ہی نہیں، تو کیا اسکو بچوں پر استاذ مقرر کیا جاسکتا ھے؟!
غرض کہ ہم نے اس قسم کی بہت سی مثالیں دیں کہ جب دنیا کے یہ اصول اور ضابطے ہیں کہ جس کا جو فن ہوگا، وہ اس پر لب کشائی کا حق رکھتا ہے، ہر ایرا غیرا اس پر بولنے کا مجاز نہیں۔ یہ اصول حدیث اور علم الرجال وغیرہ یہ بھی ایک فن ھے، جس پر گفتگو کرنے کے لیے بھی انکے اہل کو ہی اجازت ہے.ورنہ یہ عظیم فن محض کھلواڑ بن جائیگا، بلکہ اس دفعہ تو ان صاحب نے حد ہی پار کردی ۔
کہتے ہیں :
یہ علم حاصل کرنا ہر انسان پر فرض ہے، چاھے ریڑھی چلانے والا ہو، چاہے کار چلانے والا ہو، چاہے فیکٹری چلانے والا ہو ، چاہےمسجد والا ہو، مدرسہ چلانے والا ہو، اسکول چلانے والا ہو، یا کالج چلانے والا ہو، چاہے یونیورسٹی چلانے والا ہو .....( اصول حدیث : ۵۸)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
انکی اس بات کا یہ مقصد ہوا کہ تمام مسلمان اپنا سارا کام کاج چھوڑ کر صرف اصول حدیث ومتعلقاتہ کو سیکھنے میں مصروف ہوجائیں۔
گویا :
* فوجی اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر سارا دن ان علوم کے سیکھنے میں گزار دیں.
* ملک کی ترقی میں مصروف حضرات بھی اسی کے سیکھنے میں مصروف ہوجائیں،
* بزنس مین اور کاروباری لوگ اپنا بزنس وکاروبار چھوڑ کر اس میں مصروف ہوجائیں،
* جو استاد، پروفیسر، وٹیچر حضرات ہیں، وہ پڑھانا چھوڑدیں،
* غریب مزدور لوگ جو ڈیلی کماتے ہیں ڈیلی کھاتے ہیں وہ بھی اپنا سارا کام چھوڑ کر اس فن کو سیکھنے میں لگ جائیں،
ٹرانسپورٹ والے بھی اپنا یہ دھندہ چھوڑدیں، بس یہ علم حاصل کریں.
* ڈاکٹرز بھی مریضوں کا علاج و معالجہ کرنا چھوڑدیں.
* عورتیں بھی یہ علوم سیکھنا شروع کردیں.
الغرض ہر طبقے کا انسان سارے کام چھوڑ کر بس علم مصطلح ومتعلقاتہ کے سیکھنے میں لگ جائے،لیکن بات یہیں تک نہیں رکے گی، کیونکہ اس علم کو حاصل کرنے کے بعد اصل مقصد احادیث کی تصحیح وتضعیف ہے، لہذا پھر یہ سارے لوگ حدیث کی تصحیح وتضعیف میں لگ جائیں گے، کروڑوں لوگ محقق بن جائینگے،اور پھر سب کاکام لکھنا پڑھنا تحقیق کرنا ہوجائیگا، کام کاج سارے ٹھپ ہوکررہ جائینگے۔
مجھے بتایا جائے کہ اگر :
فوجی اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر یہ علوم سیکھنا شروع کردیں تو مسلمانوں اورسرحدوں کی حفاظت کون کریگا....؟؟؟
اگر ملک کی ترقی میں مصروف حضرات ان علوم کو سیکھنے میں لگ جائیں تو ترقی کیسے ممکن ہوگی....؟؟
اگر کاروباری لوگ کاروبار چھوڑکر صرف ان.علوم.کو حاصل کرنے میں لگ جائیں تو ملک کی معیشت کا کیا ہوگا؟
زندہ رہنا ناممکن ہو جائے گا۔
ان صاحب نے کہا ہے کہ ان علوم کے متعلق قبر میں بھی ہر انسان سے سوال ہوگا، (۵۹)
لہذا جس چیز کا قبر میں سوال ہوگا وہ لازمی اور فرض ہوگی۔
یہ ساری باتیں میں اپنی طرف سے نہیں کر رہا، بلکہ ان صاحب نے خود کہا ہے کہ ہر شخص پر یہ علوم سیکھنا لازمی ہے، چاھے ریڑھے والا ہو، فیکٹری والا ہو، کار چلانے والا ہو، اسکول وکالج چلانے والا ہو ...وغیرہ وغیرہ، اور اس علم کے متعلق قبر میں سوال ہوگا،جیسا اوپر گذرا.
اب بتائیں کہ کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟!
ہرگز نہیں، قطعی طور پر ناممکن ھے، ورنہ جو تباہی وفساد بپا ہوگا، وہ کسی سے مخفی نہیں، تو اگر ایسا ہونا ناممکن ہے تو پھر بتائیں کہ جو بات ناممکنات میں سے ہو اسکو اللہ تعالی فرض اور واجب قرار دے سکتے ہیں، ..؟؟
کیا اس کا حکم حکمت ودانائی کے قبیل سے ہے، یا پاگل پن سے ہے.....؟؟؟!!!!،
ان علوم سے اس حد تک جنون پہلی دفعہ دیکھا ہے جس نے ان صاحب کو تب تک نہیں چھوڑا یہاں تک کہ انھوں نے شذوذ کی راہ اختیار کرتے ہوئے تمام امت پر انکی فرضیت کا ایسا دعوی کردیا جو آج تک کسی ایک بھی محدث وامام نے ایسا فتوی نہیں دیا،اور نہ ہی چودہ سو سال سے امت اس پر عمل کیا ہے۔
ان صاحب کے کلام کا مطلب یہ ہوا کہ امت کی اکثریت نےاس فرض کو پس پشت رکھا، اور مجرم رہی، اور پھر اس جرم میں محض وہ اکیلی نہیں ہوگی، بلکہ علماء اور محدثین بھی شامل ہونگے، جنہوں نے اسکو سرے سے انکی فرضیت کا نہیں بتایا ۔
بتائیں، آپکی تحقیق کا ما حصل یہی ھے؟!
گویا اب سزا سے کسی کا بھی بچنا ممکن نہیں ، نہ محدثین کرام اور نہ ہی پوری امت کا۔
یہ صاحب کہتے ہیں :
اس لحاظ سے یہ علم حاصل کرنا ضروری ہے، لیکن ہم نے اسے ایک خاص طبقہ علماء تک محدودکردیا ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ھے، کیونکہ اس علم کا سوال ہر شخص سے ہوگا ۔ (۵۸)
افسوس کی بات ہے، یہ علوم ایک فن کی حیثیت رکھتے ہیں، اور یہ بلکل بدیہی ہے ہے کہ فن کو سیکھنے کے لیے مخصوص اشخاص ہی منتخب ہوتے ہیں، سارے کے سارے اس میں نہیں لگ جاتے، اور پھر اس علماء کے طبقے کو کسی اور نے خاص نہیں کیا، بلکہ یہ اللہ تعالی اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ھے، اس حوالے سے قرآن کریم کی آیات اور احادیث معروف ہیں ۔
یہ صاحب باربار کہتے ہیں کہ بات صرف ائمہ متقدمی کی قبول ہوگی،متاخرین کے اصول مردود ہیں، تو براہ کرم متاخرین کو رہنے دیں، کیا ائمہ متقدمین میں سے وہ کسی ایک بھی محدث سے یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ یہ علوم ہر انسان پر فرض وواجب ہیں اور قبر میں بھی ان سے متعلق سوال ہوگا؟
نہیں، قطعا نہیں۰۰۰۰۰!
متقدمین میں سےکسی ایک امام سے بھی یہ ثابت نہیں کہ وہ عوام پر ان علوم کی فرضیت کا قائل ہو اور اس نے اسکا فتوی دیا ہو۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ان علوم کی فرضیت کا ایسا انوکھا فتوی اورعجیب استدلال ان صاحب نے کہاں سے لیا ھے، ..؟؟
آئیے ...ھم آپکو اسکا دیدار کرواتے ہیں۔
لکھتے ہیں :
حدیث میں ہے کہ فوت شدہ شخص کو جب اسکے گھر والے دفن کرکے واپس آجاتے ہیں تو دو ملائکہ اس کے پاس آتے ہیں اور اس شخص سے قبر میں سوال کرتے ہیں اور وہ شخص جو جواب دیتا ہے تو ملک اسکے جواب دینے کے بعد کہتا ہے : ( لادریت ولا تلیت) تو نے خود تحقیق کیوں نہیں کی ؟ اور نہ ہی تو نے تلاوت کی ہے
( صحیح بخاری : ۱۳۷۴).........اس حدیث میں یہ لفظ "دریت "اس علم کو حاصل کرنا لازم قرار دیتا ہے۔ (۵۹)
آگے لکھتے ہیں :
بہرکیف صحیح بخاری کی حدیث کی روشنی میں اس علم کا حاصل.کرنا ضروری ہے، ورنہ ہر شخص سوچ لے کہ قبر میں اس سوال کا کیا جواب دیگا..؟؟ اور اگر جواب نفی میں تو پھر انجام.کیا ہوگا..؟؟(۶۰)
اسی طرح تقریظ لکھنے والوں میں سے ایک صاحب نے بھی ان علوم کی فرضیت کا فتوی دیا ہے، اور دلیل بھی صحیح بخاری کی مذکورہ بالا حدیث "لادریت ولا تلیت " والی ہی پیش کی ہے۔
لکھتے ہیں :
اس حدیث میں "دریت " کا لفظ قابل غور ہے، اسکا معنی یہ ہے کہ حدیث کی تحقیق اور تخریج ہر انسان پر فرض ہے۔" ( ۳۶)
قارئین کرام : ان علوم کی فرضیت کے حوالے سے یہ ھے دلیل ان اصحاب کی، اب یہ نہیں معلوم کہ یہ استدلال مصنف صاحب کا ھے، جسکی پیروی صاحبِ تقریظ نے کی ھے، اور غالب گمان یہی ھے، یا پھر صاحب تقریظ کے استدلال کی مصنف نے پیروی کی ھے، واللہ اعلم...بہرحال معاملہ جو بھی ہو، ہمیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں، اصل بات ھے ایسے جدید اور انوکھے استدلال کی، کہ چودہ صدیاں گذر چکی ہیں، کسی ایک شارح ومحدث اور محقق ومجتہد نے مذکورہ بالا الفاظ سے یہ استدلال نہیں کیا۔ اب انکی بار بار" ائمہ متقدمین، ہی حجت ہیں، ائمہ متقدمین ہی حجت ہیں۔" کی گردان کہاں رہ گئی....؟؟
ائمہ متقدمین ومتاخرین پر تو ہم بعد میں لب کشائی کرینگے...لیکن ان صاحب نے جو مذکورہ الفاظ( لادریت ولاتیت) کے ساتھ بخاری سے جو حدیث نقل کی ہے، معلوم ہوتا ہے، کہ انھوں بخاری شریف کی پوری حدیث ہی کو نہیں دیکھا ۔ یہ ( لادریت ولاتلیت) والے الفاظ ایک مؤمن یا سچے مسلمان سے سوال کے جواب میں نہیں کہے جائینگے، بلکہ کافر اور منافق سے کہے جائینگے. مومن اور سچے مسلمان سے وہی معروف سوال ہونگے:
۱ ـ من ربک
۲ ـ من نبیک
۳ ـ مادینک.
بخاری شریف کی مذکورہ بالا حدیث کے الفاظ ہیں : (( واماالمنافق والکافر، فیقال لہ: ماکنت تقول فی ھذاالرجل ؟ فیقول : لاادری، کنت اقول مایقول الناس، فیقال لہ : لادریت ولاتلیت ...الخ ( رقم الحدیث : ۱۳۷۶)
یہ ہے اصل حقیقت ان اصحاب کی انوکھی دلیل اور استدلال کی، !!!
کیسے کھینچ تان کر وہ اپنے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں کہ کسی طرح ھمیں ان علوم پر گفتگو کرنے کی آزادی مل جائے۔ لگتا ہے موصوف باقاعدہ مدرسین کے پاس مسلسل کورس کرنے میں اپنی لیے عار سمجھتے ہیں، اور اس علم پر لب کشائی کا بھی جنون ھے، اس لیے اپنے لیے دلائل اکٹھے کرنے میں لگے ہوئے ھیں کہ اگر تعلیم کے عدم حصول کا کوئی کہ دے تو اس طرح ان دلائل سے اسکو مطمئن کیا جاسکے-
شیخ مبشر ربانی حفظہ اللہ نے فیس بک پر اپنے ایک تازہ تبصرے میں موصوف کے بارے میں کیا خوب کہا ہے :
" یہ شخص اصول و قواعد سے نابلد اور جاھل ھے۔ میں نے اسے اھل علم کے پاس پڑھنے کا مشورہ دیا تھا ، لیکن جس شخص پر متحقق بننے کا بھوت سوار ھو ، وہ کوئی نہ کوئی گل کھلا کے رھتا ھے۔
ھم اب بھی اسے کہتے ھیں : لکھنا ترک کرکے کسی معروف جامعہ میں داخلہ لے کر علم میں رسوخ پیدا کر لے، تاکہ جگ ہنسائی کا شکار نہ ھو۔"
اور موصوف نے جو دلیل اوپر دی ھے اور جو استدلال کیا ھے ، وہ آپ سب کے سامنے ھے، جس سے شیخ مکرم ربانی صاحب کی تبصرے کی مکمل تصدیق و تائید ہوتی ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اب بتایا جائے کہ علمی افلاس کی حالت جب اس حد تک پہنچ چکی ہو کہ جس دلیل پر اپنا پورا منہج رکھ رھے ہیں، اس دلیل کو بھی پوری طرح سے پڑھ اور سمجھ نہ سکے ہوں تو ان حضرات نے اپنی ساری کتاب میں کیا کیا گل نہ کھلائیں ہوں گے۰۰۰!
کسی راسخ العلم استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہ کرنے کا بالآخر ایسا ہی رسوا کن نتیجہ نکلتا ہے۔
اب جب پوزیشن ایسی ہو تو کیا اب بھی ایسے اصحاب کو کھلی چھٹی دی جاسکتی ھے کہ وہ محض اپنا شوق پورا کرنے کی خاطر اس عظیم الشان فن پر لب کشائی کرتے رہیں، اور امت کے لیے تباہی وبربادی کا سامان پیدا کریں۰۰۰؟!!!!
ھم.مسلسل موصوف کو اس طرف توجہ دلاتے رہے، لیکن آنجناب بالکل سمجھنے کی طرف نہ آئے ، اور نتیجتاً ایک مزید جہالت آمیز کاوش کے ساتھ اب اس مبارک علم کے ساتھ کھلواڑ کرتے نظر آتے ہیں۔
ہماری یہی وہ باتیں تھیں جس پر موصوف نے کہا ہے : "
پھر ہم پر وہ اپنا غصہ دلائل دینے کی بجائے ادھر ادھر کی باتوں سے پورا کرتے ہیں ۔" ( ۶۶)
محترم قارئین ! کیا ہماری یہ گزارشات " ادھر ادھر کی باتوں " کی قبیل سے ہیں؟
ھمارا دعوی شروع سے یہی تھا کہ آپ لکھنے کا شوق کسی اور مشغلے میں پورا کریں، یہ فن اسکے اھل کے لیے ہی رہنے دیں، اور وہ اپنا مشغلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ..والحمدللہ.
ویسے یہاں یہ بھی ضرور یاد رھے کہ اس علم کے حوالے سے زمانہ قدیم سے یہ رواج رہاہے کہ سب سے پہلے عربی گرائمر سکھائی جاتی ھے، پھر آہستہ آہستہ دوسرے علوم وفنون کی طرف سفر شروع ہوتا ہے، کیونکہ علوم وفنون کےاصل مصادر ہیں ہی عربی میں، تو ان صاحب نے جب عربی گرائمر ہی نہیں پڑھی، ڈائریکٹ آخری اسٹیج پر پہنچ کر علم مصطلح ومتعلقاتہ اور احادیث کا آپریشن شورع کردیا ہے، تو اس پر ہر سنجیدہ اھل علم کو غم وغصہ آنا امر طبعی ہے، اور ایسا ہونا بھی چاھیے۔ یہ غیرت ایمانی ہی کا نتیجہ ہے، اور آئندہ نسلوں کے لیے موصوف کی طرف سے یہ سبق بھی ہے کہ بغیر کسی استاد کے پاس پڑھے بھی محدث ومفسر جب بن سکتے ہیں، کتابیں لکھ سکتے ہیں تو فالتو میں اتنے سال مدارس میں تعلیم کے لیے کیوں لگائے جائیں، یہ یقینا کوئی اچھا شگون نہیں ہے،
ان صاحب نے علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی کے "سلسلہ ضعیفہ " کے رد میں ایک کتاب بنام ( الصحيفة في الاحاديث الضعيفة ...الخ) بھی لکھ رکھی ہے، اسکے متعلق شیخ شاہد محمود حفظہ اللہ نے کئی دفعہ علی الاعلان کہا ہے کہ موصوف نے بس سلسلہ ضعیفہ کی احادیث پر علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی کے کلام کو جمع کرکے اس میں محض اپنی طرف سے ترتیب دیدی ہے، جیسا کہ شیخ ربانی حفظہ اللہ نے بھی اس کتاب پر اپنی تقریظ میں ذکر کیا ہے۔
زمانہ قدیم میں سارقین احادیث کا سرقہ ( چوری) کرکے اپنی سند سے حدیثیں بیان کرتے تھے، تاکہ انکی واہ واہ ہوسکے، ایسے لوگ محدثین کرام کے ہاں متروک اور کذاب قرار پائے ہیں، اور ثقاہت سے گرے ہوئے، اور آج کل ہمارے یہاں علمی سرقہ پایاجاتا ہے، کہ کسی محقق ومصنف کے کلام میں تھوڑی سی تبدیلی کرکے اسکی محنت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کتابیں لکھی جارہی ہیں، اس قسم کے بےشمار واقعات ہیں، لہذا علامہ البانی رحمہ اللہ کی کتاب سے موصوف کا یہ سلوک قطعا ناروا ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
* مقبول کی اصطلاح سے لا علمی*
موصوف لکھتے ہیں :
"امام ابن حجر عسقلانی نے فرمایا : "مقبول یعنی مجہول ھے۔"
( الضعفاء والمتروکین : ۸۱)
اب ان صاحب نے جو راوی ابن حجر کے نزدیک "مقبول " ہے ، اسکی تفسیر " مجہول " سے کر دی ھے، حالانکہ مقبول کی یہ خاص اصطلاح ابن حجر سے ہی منقول ہے، جسکی وضاحت انہوں نے "تقریب التہذیب " کے شروع میں کردی ہے۔ فرماتے ہیں :
" السادسة من ليس له من الحديث الا القليل، ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من أجله، واليه الاشارة بلفظ "مقبول "حيث يتابع، والا فلين الحديث ".
یعنی چھٹا ( مرتبہ) وہ ( راوی) جس کی روایات کم تعداد میں ہوں، اور اس کے متعلق ایسا کچھ بھی ثابت نہ ہو کہ جس کی وجہ سے اس کی حدیث ترک کر دی جائے، متابعت کے موقع پر وہ مقبول الحدیث ہوگا، ورنہ وہ لین الحدیث رہیگا ،ایسے راوی کی طرف "مقبول " کے لفظ سے اشارہ کیا جائے گا۔( ۳)
جبکہ یہ صاحب کہہ رہے ہیں کہ ابن حجر کے نزدیک "مقبول " راوی مجہول ہوتا ھے ...!!!
مزید برآں حافظ ابن حجر نے "تقریب التہذیب " کے اندر " "مجہول " راوی کے لیے بھی الگ سے مرتبہ بنایا ہے۔ فرماتے ہیں :
"التاسعة : من لم يرو عنه غير واحد ولم يوثق، واليه الاشارة بلفظ : مجهول " .
یعنی نواں ( مرتبہ) وہ غیر موثق راوی جس سے صرف ایک ہی راوی روایت کرنے والا ہو، اور اسکی توثیق ثابت نہ ہو، ایسے راوی کی طرف " مجہول "لفظ سے اشارہ کیا جائے گا۔( ایضا)
* ایک اور شگوفہ *
اپنی کتاب "اصول حدیث..الخ " میں موصوف لکھتے ہیں :
"ربیع بن عبدالرحمن بن ابی سعید مقبول یعنی مجہول الحال ہے ۔" (۱۰۳)
پھر اس کا حوالہ " تحریر تقریب التہذیب ۱/۳۹۱) " کا دیا ہے۔ جبکہ تحریر تقریب التہذیب کتاب کے مؤلفین د.بشار عواد اور شیخ شعیب الارناؤط ہیں.
ان صاحب نے یہاں تین غلطیاں کی ہیں:
۱- مقبول حکم کا احالہ تحریر التقریب کی طرف کیا ہے، جس سے مترشح ہوتا ھے کہ یہ حکم مذکورہ بالا شیوخ کرام کا ھے، جبکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ مقبول کی اصطلاح ابن حجر کی ہے، جس پر وہ تقریب التہذیب میں کاربند ہیں، مذکورہ بالا مشایخ کی نہیں کہ وہ تحریر تقریب التہذیب کا حوالہ دے رھے ہیں، بلکہ انھیں چاہیے تھا کہ وہ اس طرح حوالہ دیتے : تقریب التہذیب لابن حجر مع التحریر.
جیسے ہم کہتے ہیں : صحیح البخاری مع الفتح.
۲- حافظ ابن حجر کے کلام میں صرف "مقبول " لکھا ہے، لیکن ان صاحب نے مقبول کے بعد اس مقبول کی تفسیر میں یہ الفاظ لکھے ہیں : "یعنی مجہول الحال ".اور پھر اس تفسیر کے بعد تحریر التقریب کا حوالہ دیا ہے، حالانکہ تفسیر اصل کلام کے پورا ہونے کے بعد کی جاتی ہے ، یعنی حوالہ دینے کے بعد توضیح وتفسیر لکھتے، مگر انھوں نے تفسیر درج کرنے کے بعد پھر حوالہ دیا ھے، جس سے معلوم ہوتا ھے کہ یہ تفسیر بھی ابن حجر ہی کی لکھی ہوئی ہے۰۰۰۰۰!!!
۳- یہ تفسیر بھی غلط ھے، ابن حجر نے مقبول، مجہول الحال، دونوں کو الگ رکھا ھے اور ان کا الگ الگ مرتبہ بنایا ھے.
یاد رھے کہ موصوف کی کتاب میں یہاں مذکور راوی کا درست نام "ربیح " حا کے ساتھ ہے، نہ کہ " ربیع "عین کے ساتھ۔
* عربیت سے نا آشنائی*
موصوف لکھتے ہیں :
امام ابن خزیمہ نے اپنی کتاب "صحیح ابن خزیمہ " میں ایک باب یوں باندھا ہے: باب استحباب قراءة بني اسرائيل والزمر كل ليلة استنانا بالنبي صلي الله عليه وسلم ان كان ابو لبابة هذا يجوز الاحتجاج بخبره، فاني لا اعرفہ بعدالة ولا جرح "
اب یہ صاحب اسکا یوں ترجمہ کرتے ہیں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے ہر رات کو سورہ بنی اسرائیل اور سورہ زمر کی قراءت کے استحباب کا باب۔ ابو لبابہ راوی کی اس حدیث سے حجت و دلیل لینا جائز ہے کیونکہ میں اس راوی کے بارے میں کسی جرح وعدالت ( تعدیل) کو نہیں جانتا۔ ( اصول حدیث : ۳۶۹ ـ ۳۵۰) ( الضعفاء... الخ : ۷۲)
اب دیکھیں ، موصوف نے امام ابن خزیمہ کے باب کا ترجمہ کرتے ہوئے کتنی فاش غلطی کردی ہے۔
امام ابن خزیمہ جس راوی کی تعدیل وتجریح کے بارے میں ناواقفی کا اقرار کررھے ہیں، کیا پھر وہ اسی راوی کی روایت کو قابل احتجاج بھی کہہ رہے ہیں اور یہ بھی کہہ رھے ہیں کہ یہ راوی اس لیے قابل حجت ہے کہ میں اسے نہ جرحا جانتا ہوں اور نہ تعدیلا ہی ۰۰۰؟؟؟
بات در اصل یہ ہے کہ امام ابن خزیمہ یہ فرما رہے ہیں کہ "ان کان ابولبابة يجوز الاحتجاج بخبره " کہ ابو لبابہ سے حجت پکڑلینا جائز ہو تو ان سورتوں کی قراءت مستحب ھے.
وہ تو یہاں ابو لبابہ کے لیے احتجاج کی شرط لگارھے ہیں، یہ تھوڑی کہہ رھے ھیں کہ اسکی روایت کو حجت ودلیل بنا لینا جائز ھے، ...؟؟
ان صاحب نے یہ ترجمہ اس لیے کیا ھے کہ انکے نزدیک ابن خزیمہ متساھل ہیں، اور مجہول الحال راوی کو بھی ثقہ کہہ دیتے ہین، اسی لیے اسکے اثبات میں انکا باب پیش کیا ھے.
میں یہ نہیں کہتا کہ انہوں نے عمداایسا کیا ھوگا، سہوا بھی ہوسکتا ہے، یعنی موصوف کی عربی سے عدم واقفیت اس کی وجہ بنی ہو، واللہ اعلم بالصواب.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
※ موصوف نے اپنی کتاب " اصول حدیث " میں دوسرے باب کا عنوان یوں قائم کیا ہے :
"صحیح حدیث"
گویا اس عنوان کے تحت صرف صحیح حدیث کے متعلق گفتگو ہوگی. مگر آئیے، ھم ملاحظہ کرتے ہیں کہ اس عنوان اور جو کچھ اس کے تحت ذکر کیا گیا ہے، ان میں باہم کس قدر مماثلت ہے۰۰۰!
* حدیث صحیح کے عنوان میں " ضعیف حدیث" (۹۶) کو ذکرکر دیا ہے۔
پھر یہ مباحث درج کیے ہیں :
* ـ حسن لغیرہ حجت نہیں.(۹۷)
* ـ خبر مردود کا بیان(۱۱۹)
* ـ معلق (۱۱۹)
* مرسل (۱۲۲)
* معضل (۱۲۸)
* منقطع (۱۲۹)
* تدلیس اور مرسل خفی(۱۳۵)
مدلس اور مرسل خفی (۱۴۶)
* ـ بعض ثقہ وصدوق مدلسین کا تذکرہ(۱۷۵)
اب آپ خود دیکھیں، باب کا عنوان کیا ہے، اور اسکے اندر کیا لکھا جارہا ہے، ..؟؟ صحیح حدیث کے عنوان میں مذکورہ بالا تمام باتوں کا کیا تعلق ہے، کس قدر حیرانی کی بات ہے، ...!!!
پھر بھی موصوف مصطلح الحدیث اور علم الرجال جیسے عظیم علم پر محض اپنا شوق پورا کرنے کے لیے لب کشائی کرنے پر مصر ہیں، اور مانعین پر حاسدین کی تہمت لگا رہے ہیں...!!!
※ اسی طرح موصوف نے اپنی کتاب :"اصول حدیث "میں تیسرے باب کا عنوان لکھا ہے :
"بیان خبر مردود بلحاظ طعن راوی "
یعنی اس عنوان میں خبر مردود کا سبب محض راوی پر طعن ہوگا، کوئی اور نہیں، مگر اب ذرا ملاحظہ فرمائیے گا کہ ان صاحب کے عنوان اور جو کچھ اس کے تحت ذکر کیا گیا ھے، ان میں کس قدر مطابقت اور موافقت ہے:
۱ ـ معلل.
موصوف نے خود ہی اسکی تعریف میں لکھا ہے :
" اصطلاح محدثین میں معلل وہ حدیث ہوتی ہے جس میں کوئی ایسی پوشیدہ علت پائی جائے جو حدیث کی صحت پر اثر انداز ہو اور اس حدیث کا ظاہر پہلو بالکل صحیح سالم ہو۔ معلل حدیث میں دو بنیادی چیزوں کا ہونا ضروری ہے، پوشیدگی اور صحت حدیث پر اثر انداز ہونا۔"(۲۲۰ ـ ۲۲۱)
یعنی معلل حدیث میں راوی کے طعن کا کوئی سبب نہیں ہوتا، بظاہر اسکی سند صحیح اور رجال ثقہ ہوتے ہیں۔ امام حاکم وغیرہ سے بھی یہی منقول ہے۔ جب یہ مان لیا کہ معلل حدیث کا سببِ طعن اسکی سند کے روات نہیں ہوتے تو پھر اس اقرار نامے کے بعد بھی اسے درج بالا عنوان میں ذکر کرنا کیا معنی ہے...؟؟؟!!!
۲ ـ مدرج.
درج بالا عنوان کے تحت موصوف نے مدرج کو بھی ذکر کیا ہے، اور اس کی تعریف یوں بیان کی ہے :
"اصطلاح میں سند کا سیاق بدل جانا یا متنِ حدیث میں بلا تعین، اضافی الفاظ داخل ہو جانا ادراج کہلاتا ہے۔" (۲۳۱)
اس کے آگے پھر مدرج کی اقسام وغیرہ پر گفتگو کی ہے۔
ہمیں بتایا جائے، مدرج کی تعریف میں یہ کہیں لکھا ھے کہ مدرج حدیث کے ضعف کا سبب راوی پر طعن ہوتا ہے...؟؟
اگر نہیں، تو پھر درج بالا عنوان کے تحت اسکو کیوں ذکر کیا گیا..؟؟
۳ ـ مقلوب۰
جناب اسکی تعریف یوں کرتے ہیں :
"اصطلاح میں مقلوب اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں کسی راوی سے متن کا کوئی لفظ یا سند میں کسی راوی کا نام ونسب بدل گیا ہو یا مقدم کو مؤخر یا مؤخر کو مقدم کیا گیا ہو یا ایک چیز کی جگہ دوسری رکھ دی گئی ہو۔" ( ۲۳۴)
اب اس مقلوب میں بھی راوی کے طعن کا کوئی ذکر نہیں کہ جس کی وجہ سے اسے ضعیف قرار دیاجاسکے، تو پھر ان صاحب نے اسے درج بالا عنوان کے تحت کیوں ذکر کیا....؟؟؟
※ باب نمبر چار کا عنوان ہے : " مرفوع"
یعنی اس باب کے تحت وہ کچھ ذکر ہونا چاھیے جس کا مرفوع حدیث سے تعلق بنتا ہو. لیکن ان صاحب نے درج ذیل چیزیں بھی درج بالا عنوان میں ذکر کی ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں :
* ـ موقوف
* ـ مقطوع
* ـ زیادات ثقہ
* ـ اعتبار
* ـ متابع
* ـ شاہد
* ـ محکم الحدیث
* ـ مختلف الحدیث
* ـ ناسخ ومنسوخ کی پہچان
* ـ صحابہ رضی اللہ عنہم کی معرفت.
* ـ فضائل صحابہ
* ـ چند صحابہ رضی اللہ عنہم کی تاریخ وفات
* ـ ثقہ تابعین کی معرفت
* ـ چند ثقہ تابعین کی تاریخ ولادت
* ـ مخضرم
* ـ چند مخضرمین کی تاریخ وفات
* ـ ثقہ تبع تابعین
* ـ ثقہ تبع تابعین کی تاریخ ولادت اور وفات.
عنوان کیا ھے: "مرفوع حدیث " مگر اسکے اندر جو کچھ ذکرکیا گیا، وہ آپکے سامنے ہے!!!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
گزشتہ سے پیوستہ :
* موصوف نے پانچویں باب کا عنوان لکھا ہے :
"اسناد اور اسکے متعلقات " (۳۰۸)
گویا اس عنوان کے تحت سند کے حوالے سے بحث ہو گی ، مگر آئیے دیکھتے ہیں کہ ان صاحب نے عنوان کے برعکس اس باب میں بھی غیر متعلقہ اشیاء داخل کر دی ہیں:
السابق واللاحق (۳۱۲)
شیخوں کا ہم نام وہم وصف ہونا (۳۱۲)
شیخ کاانکار کرنا ( ۳۱۳)
سماع (۳۱۴)
قراءت ( ۳۱۵)
اجازت (۳۱۶)
مناولہ ( ۳۱۶)
مکاتبہ (۳۱۷)
اعلام ( ۳۱۷)
وصیت بالکتاب (۳۱۷)
وجادہ (۳۱۸)
متفق ومفترق (۳۱۸)
المؤتلف ومختلف (۳۱۹)
متشابہ (۳۲۰)
* اسی طرح چھٹے باب کا عنوان یہ ہے : " علم وجرح وتعدیل کا بیان "
یعنی اس میں روات کی تعدیل وتوثیق اور تعدیل وتجریح کا ذکر ہوگا، اس عنوان کے تحت درج ذیل مباحث بھی ذکر کیے گئے ہیں:
آداب محدث (۳۶۷)
طالب حدیث کے آداب (۳۶۸)
الجامع،السنن (۳۶۹)
کتب ستہ، صحیحین، متفق علیہ، (۳۷۰)
سنن اربعہ، الجزء ، الاطراف ( ۳۷۱)
راوی کا سماع ثابت ہو ( ۳۷۲)
راجح اور مرجوح کا ذکر (۳۷۴)
صیغہ جزم ( ۳۷۵)
بصیيغة التمريض(۳۷۶)
خیر الناس ومتقدمین محدثین سے اصول حدیث کے اصول وضوابط لینے کا ذکر (۳۷۷)
اس باب میں پھر اصول تخریج کی بحث شروع کردی ہے اور درج ذیل باتیں بھی اس میں ذکر کر کی ہیں جن کا اصول تخریج کے ساتھ کوئی تعلق نہیں :
اسناد
متن
اصول تحقیق
متقدمین محدثین اور متاخرین ومتساہلین کے درمیان فرق.
متقدمین محدثین واصول حدیث کی روشنی میں عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں قحط والی روایت ضعیف ہے.
اعمش کے مدلس ہونے کے دلائل
اعمش عن ابی صالح والی روایت میں تدلیس کا ثبوت
امام بخاری اور امام ابن ابی حاتم کا سکوت
محمد بن ابی احمد مولی زید بن ثابت راوی کے متعلق ایک ضروری وضاحت
کثیر التدلیس اور قلیل التدلیس کے درمیان فرق
مرسل خفی اور تدلیس کے درمیان فرق
جب راوی میں جرح وتعدیل میں تعارض آ جائے
یقیناامام عجلی متساہل ہیں
یقینا امام ابن خزیمہ متساہل ہیں
کیا حسن لغیرہ حجت ہے؟
سند کی تحقیق ضروری ہے
جس شخص کو حدیث کی صحت کا علم نہیں
صحیح حدیث کی شرائط
اصول حدیث کی بعض اصطلاحات کا ذکر
حدیث
خبر
اثر
المسند
متواتر حدیث
آحاد
صحیح
حسن
ضعیف
مرفوع
موقوف
مقطوع
موضوع
متروک
منکر
معلل
مدرج
مقلوب
مضطرب
شاذ
معلق
مرسل
معضل
منقطع
اب آپ خود اندازہ کریں کہ باب ھے "جرح وتعدیل " کا، اور اس میں ان صاحب نے بہت سے دوسرے مباحث بھی ذکر کر دیے ہیں، جن کا جرح وتعدیل سے کوئی تعلق نہیں، پھر اصول تخریج کو شروع کیا اور اس فن کے متعلق چار پانچ باتیں ذکر کین، کیا پورا اصول تخریج ان آٹھ، دس باتوں پر محیط ہے، ..؟؟ پھر دعوی یہ کیاجارہا ہے : یہ کتاب ضروری نہیں کہ آدمی کسی مدرسہ کا پڑھا ہوا ہی ہو تو سمجھ سکتا ہے، بلکہ ہر عام وخاص اس سے نہ صرف فائدہ بلکہ احادیث کی تخریج بھی کرسکتا ہے اور عام.حدیث کو بیان کرنے سے پہلے پرکھ سکتا ہے۔ ( اصول حدیث ....الخ پر تقریظ : ۳۹ ـ ۴۰)
اتنا بڑا غلو اوربلند بانگ دعوی، جبکہ اصول تخریج کا صرف لغوی واصطلاحی معنی، نسبت، مصادر اصلیہ، حکم لگانا، فن تخریج کی اہمیت، علم تخریج کے فوائد، موضوع تخریج، طریقہ تخریج، بیان کرنے پر اکتفاء کیا گیا ہے،ذرا اصول تخریج کی کتب ملاحظہ کریں، وہاں کتنے سارے مباحث ذکر کیے گئے ہیں، کتب کا تعارف، ان سے استفادہ کا طریقہ، مثلا، مسند سے تخریج کا طریقہ، معجم سے، اطراف سے، اور بھی کئی کتب سے استفادے کا طریقہ بیان کیاجاتا ہے۔ کیا ان چند باتوں سے عام آدمی حدیث کی بآسانی تخریج کرسکتا ہے؟
فیا للعجب و ضیعة الأدب۰۰۰!!!
محترم قارئین ! بات جب اصول حدیث پر چل رہی ہی ھے، باب بھی اسی پر باندھا گیا، پھر اس میں اصول تخریج کا کیا تعلق، پھر اصول تخریج کو ادھورا چھوڑ کر اصول حدیث پر آگئے، ..اب فیصلہ آپکے ہاتھ میں ھے کہ ان صاحب کو علم حدیث اور مصطلح الحدیث کا کتنا شعور و ادراک حاصل ہے !
اصول حدیث کی کتب دیکھین، انکی ترتیب کس قدر عمدہ انداز میں ھے کہ قاری مطالعہ کرتے ہوئے اتار چڑھاؤ کا شکار نہین ہوتا، بلکہ جس قدر پڑھتا جائیگا، مباحث سیکھتا جائیگا اور اسٹیپ بائے اسٹیپ آگے بڑھتا جائیگا، مگر ان صاحب کی یہ کتاب اپنی ہی نوعیت کی ہے کہ سب کچھ خلط ملط کردیا ھے، نہ کوئی ترتیب ہے اور نہ ہی کوئی ڈھنگ کااسلوب ھے، یقینا یہ کتاب اپنی ترتیب میں "منفرد " (شاذ !) ھے، جسکا دعوی کتاب کی تقریظ میں بھی کیاگیا ہے۔ (۳۹)
موصوف نے اپنی کتاب " اصول حدیث " میں ایک عنوان یوں قائم کیا ہے : " بعض ثقہ وصدوق مدلسین کا تذکرہ" (۱۷۵)
یہ بحث صفحہ نمبر ۱۹۹۹ تک ختم ہوتی ہے، یعنی پچیس صفحات اس بحث میں صرف ہوئے ہیں، جن میں ان صاحب نے ستائیس مدلسین کا تذکرہ کیا ہے۔
یہ کتاب خصوصا اردودان طبقہ کے لیے لکھی گئی ہے ، تاکہ وہ اس سے استفادہ کرسکیں اور ہر حدیث کی تحقیق و تخریج سیکھ سکیں ۔حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ اس کتاب کو عوام الناس کی طبیعت اور مذاق کے مطابق ہونا چاھیے، اور اس کا انداز، طریقہ کار اور طرز بھی ایسا ہو کہ وہ اسکو بآسانی سمجھ سکیں۔ اب یہ بات بدیہی ہے کہ عوام الناس کی اکثریت عربي نہیں جانتی، لیکن ان صاحب نے پچیس صفحات پر پھیلی مذکورہ بالا پوری بحث عربی میں لکھ دی ہے، ( یعنی محدثین کرام کے سارے اقوال اردو ترجمہ کیے بغیر عربی میں نقل کردیے ہیں) ان اقوال میں سے ایک قول کا بھی انہوں نے اردو ترجمہ نہیں کیا آخر کیوں؟
ریڑھی والے، فیکٹری والے، کالج والے، گاڑیوں والے، کیا یہ سب عربی جانتے ہیں جو ان صاحب نے یہ انداز اختیار کیا ھے....!!!
عقلمدی اور دانائی کا تو تقاضا یہی ہوتا ھے کہ لوگوں کے مزاج اور مذاق کو دیکھ کر منا سب طریقہ اپنانا چاھیے۔ کتاب خصوصا اردودان طبقہ کے لیےلکھی جارہی ھے، لیکن مذکورہ پوری بحث عربی میں ہے، اب بتایا جائے، یہ عربی والا پورا چیپٹر عوام الناس کو سمجھ میں آئیگا؟کیا وہ
صحیح طرح سے استفادہ کرسکیں گے....؟؟؟ انکو اس بحث سے کچھ حاصل ہوگا ...؟؟.
انصاف پسند طبقہ خود ہی انصاف کریگا..ان شاء اللہ العزیز..
معاملے کی ایک جہت تو یہ تھی، اب دوسری جہت ملاحظہ ہو کہ انکا بحث میں انداز واسلوب کس قدر حیرتناک اور عجیب ھے، ذرا ملاحظہ فرمائیں۔
لکھتے ہیں
- الحسن بن ابی الحسن البصری ...... (......)
1 ـ وقال محمد بن اسماعيل البخاري رحمه الله : الحسن عن سمرة مالم يذكر فيه خبرا فهو المرسل.
3 ـ ابي سعيد بن خليل العلائي رحمه الله في ذكر المدلسين.175)
7 ـ مسفر بن غرم الله الدميني في ذكر المدلسين وغيرهم.
2 ـ حفص بن غياث الكوفي..........(.......)
1 ـ وقال احمد بن حنبل رحمه الله: هذا مما لم يسمعه حفص من الشيباني....الخ
3 ـ ابي سعيد بن خليل العلائي في ذكر المدلسين،( اصول حديث : ۱۷۶)
اب آپ دیکھیں ، حسب بصری کی تدلیس کے اثبات کے لیے سب سے پہلے امام بخاری سے قول نقل کیاہے، اور ان صاحب نے "وقال ...الخ "واو عاطفہ" لگا کر ان سے یہ کلام نقل کیا ہے، حالانکہ کلام کی ابتداء ہو رہی ھے، اس میں واؤ عاطفہ کا کیا کام؟!عاطفہ کی تب ضرورت پڑتی ہے جب پہلے سے کلام جاری ہو، نہ کہ اول کلام میں۔
اسی طرح حفص بن غیاث کے ذکر میں بھی وہی غلطی کردی ہے۔
نمبر تین میں امام علائی کے نام میں جو غلطیاں ہیں وہ بالکل واضح ہیں
اول تو یہ کہ "ابی سعید " نہیں، بلکہ "ابو سعید "ہوگا، کہ بلاوجہ مجرور کر دیا،
دوسرا یہ کہ "فی ذکر المدلسین " کیا ھے، ...؟؟ اور ان صاحب نے یہ " فی ذکر المدلسین اور بھی کئی مقامات پر لکھا ھے، مثلا ملاحظہ ہو : ۱۷۶ ـ ۱۷۷ ـ ۱۷۸ ـ ۱۸۰ ـ ۱۸۱ ـ ۱۸۲ ـ ۱۸۳ ـ ۱۸۵ ـ ۱۸۶ ـ ۱۸۷ ـ ۱۸۸ ـ ۱۸۹ ـ ۱۹۰ ـ ۱۹۱ ـ ۱۹۲ ـ ۱۹۳ ـ وغیرہا..
تو محض "فی ذکر المدلسین " لکھنا کیا معنی رکھتا ہے؟یہ کلام غیر مفید ہے، لہذا کلام اس طرح ہونا چاھیے : وصفہ ......العلائی فی ذکر المدلسین " یعنی امام علائی نے اسے مدلسین کے تذکرے میں تدلیس سے متصف کیا ہے، تو اس طرح یہ کلام مفید ہوجاتا ہے.
صفحہ نمبر ۲۰۰ میں یوں عنوان قائم کیا ہے، (( ان بعض ثقہ وصدوق راویوں کا تذکرہ جن کی "عن" والی روایات سماع پر محمول ہیں))
اول : تو سیاق "راویوں " کے بجائے "مدلسین " کے الفاظ کا مقتضی ہے،
دوسرا یہ کہ اس عنوان میں ان صاحب نے جو انداز اختیار کیا ہے وہ ملاحظہ فرمائیں،
1 ـ اسماعیل بن ابی خالد....الخ.
........حدثنا عبدالرحمان، ......الخ.
2 ـ الحکم بن عتیبة ....الخ
.........حدثنا عبدالرحمن.....الخ( اصول حديث : 200)
3 ـ قال ابي ( احمد بن حنبل) .....الخ(201)
ان صاحب نے مذکورہ اقوال کے قائل کا ذکر نہیں کیا کہ ان کا قائل کون ہے، ..؟؟ اور انکا یہی طرز صفحہ نمبر ۲۰۱ ـ ۲۰۲ ـ ۲۰۳ ـ ۲۰۴ ـ ۲۰۵ ـ ۲۰۶) میں بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ تحقیق کے لیے علوم عربیہ حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے کہ دینی مصادر اصلیہ اسی زبان میں ہیں، اور ترجمہ اور نقل در نقل از حد نقصان دہ ہے، کیونکہ دیکھا گیا ھے کہ نقل یا ترجمے میں عبارت کا مفہوم کچھ سے کچھ ہوجاتا ہے اور اصل ونقل میں واضح فرق رہ جاتا ہے۔
اب ذرا آئیے اور ملاحظہ فرمائیے کہ ان صاحب نے تراجم سے کس حد تک استفادہ کیا ہے اور ان کو اساس بنا کر کس قدر فاش اغلاط کے مرتکب ہوئے ہیں، مثلا :
صحیح بخاری( مترجم )
صحیح مسلم ( مترجم )
سنن نسائي ( مترجم )
سنن ابن ماجه ( مترجم )
سنن دارمي( عربي ومترجم)
موطا امام مالک (مترجم )
مسند احمد ( عربي ومترجم)
مصنف عبدالرزاق (مترجم)
مصنف ابن ابي شيبة( عربي واردو)
مسند ابي داود الطيالسي (مترجم)
مسند الحميدي( عربي واردو)
مسند الشافعي ( عربي واردو)
مسند اسحاق بن راهويه( عربي واردو)
المنتقی لابن الجارود ( عربی ومترجم)
مسند ابي ىعلي ( عربي واردو)
عمل اليوم والليلة (مترجم )
صحيح ابن خزيمة(مترجم)
الادب المفرد(مترجم)
جزء رفع اليدين(مترجم)
سنن البیھقی ( مترجم )
دلائل النبوہ بیہقی ( مترجم )
وغيرها كثيرة..
یہ چند کتب میں نے بطور نمونہ ذکر کی ہیں. باقی موصوف کی توالیف : " اصول حدیث "اور "الضعفاء" اور "الصحیفہ " میں مصادر میں مذکور کتب کی فہرست دیکھ کر بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ھے کہ ان صاحب نے کس حد تک تراجم پر اعتماد کیا ہے اور موصوف عربیت میں کتنا "ادراک " رکھتے ہیں .!!!
ایک محقق کی شان یہ ہوتی ہے کہ جس قدر ہوسکے وہ اصل کتب اور معتمد نسخوں کی مدد سے تحقیق کرتا ہے۔ اگر وہ غیر معتمد نسخوں اور ترجمہ شدہ کتب سے استفادہ کر کے تحقیقی نوعیت کے کسی مسئلے پر کچھ لکھے گا تو علمی دنیا اور محققین کے ہاں اسکی تحقیق کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی، بلکہ وہ اس صاحب کے اس عمل کو عیب دار تصور کرکے اس پر تنبیہ اور خبردار کرینگے، اس لیے کہ اسکی تحقیق کی بنیاد ہی اصولِ تحقیق اور منہجِ تحقیق کے خلاف ہے، اور کمزور بنیاد پر بلڈنگ کی مضبوطی کا سوچنا عقل سلیم کے منافی ھے، یعنی جب بنیاد ہی کمزور ہے تو اسکے آگے والی تحقیق میں کتنی پائیداری ہوگی، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔
یہ تو اردو تراجم ہیں، علمی وتحقیقی میدان میں اگر کوئی محقق مکتبہ شاملہ وغیرہ کا حوالہ دیتا ھے تو اسکی بھی کوئی حیثیت نہین ہوتی، حالانکہ وہ کتب عربی میں ہوتی ہیں . لیکن ان کی عبارت اور صحت یقین پیدا نہیں کرتی. دیکھیں تحقیق کے لیے کس قدر سخت شرائط رکھی گئی ہیں، یہ محقق بننا کوئی آسان کام تو نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے تمام اصول، قاعدے، ضابطے، شرائط، سب کو مد نظر رکھنا پڑتا ہے۔
اب میں ایک مثال پیش کرتا ہوں، تاکہ قارئین کرام پر منکشف ہو جائے کہ اصل مصادر کو چھوڑ کر مترجم مصادر کے کتنے نقصانات ہوتے ہیں، اور یہ صاحب نقل میں غلطی کی وجہ سے خود کتنی بڑی غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں، کاش کہ بات غلطی تک ہی محدود رہتی، لیکن ان صاحب نے نقل کی غلطی کی وجہ سے ایک بہت بڑے امام ومحدث پر اچھی طرح غصہ جھاڑا ہے،ملاحظہ فرمائیں۔
موصوف لکھتے ہیں :
"اگرچہ امام بیہقی خود بھی طحاوی حنفی کی روش سے نہیں بچ سکے، امام بیہقی نے "دلائل النبوة " کے مقدمے میں کتابیں تالیف کرنے کے اپنے اسلوب وانداز پر روشنی ڈالی ہے، اس میں وہ بتاتے ہیں کہ استدلال واستنباط کے سلسلہ میں وہ ہمیشہ صحیح احادیث پر اقتصار وانحصار کرتے ہیں۔ امام بیہقی فرماتے ہیں :
میری عادت ان تمام کتب میں جو اصول وفروع میں تصنیف ہوئی ہیں، یہ انہی میں سے میں نے ان اخبار پر اکتفاء کیا ہے، جو ان میں سے صحیح ہیں،ان روایات کو ترک کردیا ہے جو صحیح نہیں ہیں اور یہ عادت رہی ہے کہ صحیح اور غیر صحیح میں تمیز اور کیا جائے، ......الخ( دلائل النبوہ مترجم )
لیکن امام بیہقی کی درج بالا بات غلط ہے، جس پر امام بیہقی کی کتب میں بے شمار بطور ثبوت ضعیف، سخت ضعیف، اور موضوع ( جھوٹی) روایات موجود ہیں،.....دراصل یہ سارے تقلید کے کرشمے ہیں۔" ( اصول حدیث : ۶۱ ـ۶۲)
انا للہ وانا الیہ راجعون۰۰۰۰۰!
ان صاحب کا جو انداز گفتگو ہے وہ تو قارئین کے سامنے ہے، لیکن اسکے علاوہ انہوں نے ایک تو امام بیہقی رحمہ اللہ کو مقلد بنادیا، دوسرا یہ کہ وہ امام بیہقی کے متعلق یہ کہہ رھے ہیں کہ انہوں نے اپنی کتب میں صرف صحیح احادیث پر اقتصار کی شرط لگائی ہے، مگر وہ اپنی اس شرط پر پورے نہیں اترے، بلکہ شدید ضعف والی اور موضوع روایات بھی ذکر کی ہیں، اور وجہ یہ قرار دی کہ یہ سارا کرشمہ انکی تقلید کا ہے، یعنی امام شافعی رحمہ اللہ کی تقلید میں اس قسم کی روایات ذکر کی ہیں، معاذاللہ، ثم معاذاللہ.
قارئین کرام ۰۰۰!
امام بیہقی نے قطعا یہ شرط نہیں لگائی کہ وہ صرف صحیح احادیث کے ذکر پر اکتفاء کرینگے، بلکہ یہ ساری غلطی ترجمے کی ہے، اصل دلائل النبوة کی عبارت اسکے بالکل برعکس ہے، امام بیہقی نے کچھ اور کہا ہے، اور مترجم نے اس سے کچھ اور ہی سمجھ کر ترجمہ کردیا ہے، اور یہ "محقق صاحب " انکی غلطی پر بنیاد رکھتے ہوئے امام بیہقی پر چڑھ دوڑے ہیں۔
اب ذرا امام بیہقی کے اپنے الفاظ ملاحظہ فرمائیں :
(( وعادتي ـــ في كتبي المصنفة في الاصول والفروع ـــ الاقتصار من الاخبار علي ما يصح دون ما لا يصح، او التمييز بين مايصح وما لا يصح ....الخ ))
کہ میری تصنیف کردہ اصولی وفروعی کتب میں عادت ہے کہ میں نے انہی احادیث پر اقتصار کیا ھے جو صحیح ہیں ضعیف احادیث کو ترک کرتے ہوئے، یا پھر صحیح اور ضعیف احادیث کے درمیان تمیز کرتا ہوں ۔(1/47)
امام صاحب کے اس کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ اپنی کتب میں صحیح احادیث ذکر کرینگے، اور اگر ہر قسم کی روایات ذکر کیں تو پھر انکے ما بین تمیز کرتے ہوئے صحیح وغیر صحیح کو الگ کریں گے ۔
اب بتائیں۰۰۰! امام صاحب کیا کہہ رھے رھیں اور مترجم نے کیا لکھا ہے ، اور ان محقق صاحب نے اس ترجمے پر اعتماد کرتے ہوئے جو سلوک امام صاحب کے ساتھ کیا وہ بھی آپ کے سامنے ہے!!
اب بتایا جائے کہ موصوف اس عظیم فن پر لب کشائی کرنے کے اہل ھیں ...!!! افسوس تو ان حضرات پر بھی ہے کہ اتنا کچھ واضح ہونے کے باوجود بھی ان صاحب کی سپورٹ کررھے ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ایک نئی لاجک
یہ صاحب کہتے ہیں :
راقم کو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے یہ غلط قاعدہ امام بیہقی نے اپنے استاد امام حاکم سے،اور امام حاکم نے اپنے استاد امام ابن حبان سے، اور امام ابن حبان نے اپنے استاد امام ابن خزیمہ سے، اور امام ابن خزیمہ نے اپنے استاد امام ترمذی سے، اور امام ترمذی نے اپنے( غالبا) استاد امام عجلی سے لیا ہے، واللہ اعلم، لہذا متساہلین محدثین کی یہ لڑی امام عجلی سے شروع ہو کر امام بیہقی پر جا کر ختم ہو جاتی ہے، اسی لیے امام ابن حجر عسقلانی کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ یہ غلط قاعدہ امام ابن حبان نے اپنے استاد شیخ امام ابن خزیمہ سے لیا ہے۔ ( اصول حدیث : ۳۶۵ و کتاب الضعفاء : ۸۶ ـ ۸۷)
قارئین عظام ! تساہل کے حوالے سے تفصیلی گفتگو تو آگے اپنے موقع پر ذکر ہوگی، ان شاءاللہ العزیز، یہاں بس کچھ اشارتا اسکو واضح کررہا ہوں، اور دوسرا اس لاجک کا جواب عرض کرتا ہوں جو ان صاحب نے مذکورہ بالا محدثین کرام کے تساہل کے سلسلے میں گھڑی ہے کہ یہ تساہل استاد در استاد منتقل ہوتا آیا ہے، یعنی اس تساہل کے موجد امام عجلی ہیں، اور ان سے یہ اصول تقلید در تقلید امام بیہقی تک منتہی ہوا ہے۔
عرض ہے کہ امام عجلی قطعا متساہل نہیں ہیں،انکو یہ الزام ائمہ متقدمین تو کجا ائمہ متاخرین نے بھی نہیں دیا، بلکہ ائمہ کرام نے ان کے اقوال پر اعتماد کرتے ہوئے انکو اپنی کتب سے مزین کیا ہے،بلکہ امام عباس دوری تو اس حد تک کہہ گئے ہیں کہ" ہم امام عجلی کو، امام احمد اور یحیی بن معین جیسا سمجھتے تھے۔" ( تاریخ بغداد : ۴/ ۴۳۶)
یہ صاحب بار بار کہتے ہیں کہ حجت صرف ائمہ متقدمین ہونگے، متاخرین نہیں، کیونکہ متاخرین کی حیثیت تو محض ناقلین کی سی ہے، اور انہوں نے خود بھی اقرار کیا ہے کہ امام عجلی پر سب سے پہلے تساہل کا الزام لگانے والے یمن کے ایک محدث علامہ معلمی یمانی رحمہ اللہ ہیں۔ ( اصول حدیث : ۳۴۵ و کتاب الضعفاء : ۶۷ ـ ۶۸)
تو جب امام عجلی کو ائمہ متقدمین نے متساہل نہیں سمجھا، بلکہ ان کے ہاں تو انکا مقام امام احمد اور یحی بن معین جیسا سمجھا جاتا تھا، اور متاخرین نے بھی انکو متساہل نہیں کہا، بلکہ ان کے اقوال وآراء پر اعتماد کیا ھے، تو پھر یہ صاحب یہاں اپنے اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیوں ماضی قریب کے ایک محدث کے قول پر اعتماد کرتے ہیں،،، ؟؟ یہاں متقدمین، متقدمین کی گردان کہاں رہ جاتی ہے ...؟؟؟،
لیکن یہاں ان صاحب نے پلٹا کھایا ہے کہ نہیں، اصل اعتبار دلائل کا ہے کہ انکا تساہل دلائل سے ثابت ہے، باقی ائمہ متاخرین محدثین کے اقوال تو محض تائید میں ہیں ۔( اصول حدیث : ۳۴۱)
ائمہ متاخرین یہ ہیں :
امام ابن خزیمہ
امام ابن حبان
امام حاکم
امام بیہقی
امام دارقطنی
امام طبرانی
خطیب بغدادی
امام ابن عساکر
ضیاء مقدسی
امام عبدالغنی المقدسی
امام ابن السکن
امام ابو نعیم الاصبہانی
امام ابن مندہ
امام ابن الصلاح
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ
حافظ ذہبی
امام علائی
ابن دقیق العید
امام نووی
حافظ الدنیا امام ابن حجر
یہاں واضح ہوناچاہیے کہ ان صاحب کا موقف ھے کہ تین سو ہجری کے بعد والے محدثین ائمہ متاخرین ہیں اور وہ محض ناقلین ہیں، انکی متقدم روات پر نہ توثیق قبول ہےاور نہ تجریح، کیونکہ جب ائمہ متقدمین ان متقدم روات کو نہ جان سکے تو ائمہ متاخرین کیسے جان سکتے ہیں ......؟؟؟؟ ( اصول حدیث ۳۶۴)
سبحان اللہ ....!!!
گویا یہ صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ محدث ( معدل ہو یا مجرح) جس راوی کی تعدیل یا تجریح کرے، وہ اس سے مل چکا ہو کہ اسکے حالات کا اس نے بنفس نفیس خود مشاہدہ کیا ہو ...!!! یا یوں کہا جائے کہ محدث محض اپنے استاد یا معاصر ملاقاتی کی ہی تعدیل وتجریح کرسکتا ہے، کسی اور کی نہیں.
انکی یہ بات اگر تسلیم کر لی جائے تو پھر ائمہ متقدمین کی تعدیل وتجریح بھی متقدم روات پر مردود ٹھہرے گی، کیوںکہ انہوں نے جن روات کی توثیق وتضعیف کی ہے، تو وہ سارے کے سارے ان سب سے بنفس نفیس لقا نہیں کرسکے ہیں،بلکہ بعض کا تو زمانہ بھی نہیں پایا، تو پھر اب ایسے روات پر ان متقدمین محدثین کی بھی تعدیل وتجریح کے رد کا اعلان فرمادیں، اور پھر ان تمام محدثین ( چاھے ائمہ متقدمین ہوں یا متاخرین ) نے ایسے روات کی تعدیل وتجریح کرکے بہت غلط کام کا ارتکاب کیا ھے، کیوںکہ انکو یہ حق نہیں تھا کہ جن سے وہ ملاقات نہیں کرسکے ، انکی توثیق یا تضعیف کر دیں،اس طرح پھر اگر انکی یہ توثیق یا تضعیف رد کردی جائے تو پھر بتایا جائے کتنے روات باقی بچیں گے جن کی توثیق یا تضعیف درست منہج پر ثابت ہوگی؟!
اور جو ثابت ہوگی وہ بھی مردود کے زمرے میں داخل ہو جائیگی، کیوںکہ انہوں نے ان روات کی تعدیل وتضعیف کردی جنکا انکو اختیار نہیں تھا، اور اس طرح نعوذ باللہ من ذلک تمام کے تمام محدثین کرام خود اپنی عدالت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے، ....یہ ہے ان صاحب کا حدیث اور اصول حدیث کے ساتھ کھلواڑ کرنے کا نتیجہ .....!!! .اناللہ وانا الیہ راجعون.
کاش یہ کسی استاد مکرم سے معلوم کرلیتے، یا انھوں نے ضوابط الجرح والتعدیل پر مشتمل کتب کا مطالعہ کیا ہوتا، تقریبا اصول حدیث کی ہر کتاب میں جرح وتعدیل کے اصول بیان کیے گئے ہین، وہاں ہی دیکھ لیا ہوتا کہ جرح وتعدیل کے اور کون کون سے طریقے ہین، ....!!!
بہرحال ان صاحب کو جاننا چاھیے کہ ائمہ متاخرین صرف ہوائی فائر نہیں کرتے تھے، جو یہ صاحب یہ گردان کہ (حجت صرف ائمہ متقدمین ہونگے، متاخرین نہیں، بلکہ وہ محض ناقلین ہیں) کر رھے ہیں، اور انکی اس گردان کا نتیجہ بھی آپکے سامنے ہے،
اب اس بحث کو ہم بعد کے لیے مؤخر کردیتے ہیں، اور یہاں ھم واپس اپنے اصل نکتے کی طرف آتے ہیں کہ امام عجلی متساہل نہیں تھے، اگر ہوتے تو ائمہ متقدمین ومتاخرین ضرور اس پر متنبہ کرتے، لیکن ان میں سے کسی ایک محدث سے امام عجلی پر تساہل کا الزام ثابت نہین، بلکہ ان سے اسکے برخلاف ثابت ہے۔
ان کے تساہل کے جو دلائل دیے گئے ہیں ان پر ہم بعد میں گفتگو کرینگے۔
اب ایک تساہل کی بنیادی کڑی تو ختم ہوگئی، اسکے بعد نمبر امام ترمذی کا آتا ہے، ان صاحب نے امام ترمذی کو امام عجلی کا شاگرد بنا دیا ہے، جبکہ وہ امام عجلی کے شاگرد ہیں ہی نہین، یہ کتب رجال ساری موجود ہین، کسی ایک میں بھی مذکور نہیں کہ امام ترمذی، امام عجلی کے شاگرد ہیں، اسی طرح انہوں نے امام ابن خزیمہ کو بھی امام ترمذی کا شاگرد بنا دیا ہے، جبکہ وہ بھی امام ترمذی کے شاگرد نہین، بس بلاوجہ اور بلا دلیل ظن وتخمین سے انکو ایک دوسرے کا شاگرد بنادیا ہے،
اور امام ترمذی، امام ابن خزیمہ، ابن حبان، امام حاکم اور امام بیہقی، یہ تمام ائمہ کرام مطلقا متساہل نہین، جیسا یہ صاحب سمجھ بیٹھے ہیں، بلکہ ان میں سے بعض کا تساہل مخصوص اور محدود مواقع میں ھے،جس کی تفصیل آگے ذکر ہوگی ، ان شاءاللہ العزیز،
بہرحال : ان صاحب کی لاجک آپ کے سامنے ہے، فیصلہ خود آپ کریں کہ محض ظن وتخمین کے پیچھے چل کر کیسا منہج اختیار کر بیٹھے ہیں۰۰۰؟؟!!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
موصوف نے اپنی کتاب "اصول حدیث " میں موضوع حدیث کی مثال دیتے ہوئے مستدرک حاکم اور طبرانی صغیر سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ایک روایت ذکر کی ہے، جس میں مکمل کلمہ طیبہ ( لاالہ الا اللہ محمدرسول اللہ) موجود ہے۔
پھر اس ( کلمہ طیبہ) کے متعلق موصوف کہتے ہیں :
"یہ دو علیحدہ کلمے ہیں، جنہیں جوڑ دیا گیا ہے۔ واو عطفی کے بغیر لکھنے اور پڑھنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ " (۲۱۴)
انکا یہ کہنا کہ "واو عطفی کے بغیر لکھنے اور پڑھنے کا کوئی ثبوت نہین " اس سے انکی کیا مراد ہے، ...؟؟
کیا انکو یہ ترتیب نحوی اعتبار سے غلط لگ رہی ہے یا اسکے جید وقوی سند سے وارد ہونے میں انھیں شک ہے؟ یا پھر دونوں ہی باتیں مراد ہیں ...؟؟
اگر تو پہلی بات ہے ، یعنی انکو یہ ترتیب نحوی اعتبار سے غلط محسوس ہو رہی ہے تو یہ انکی علمی کمزوری کا نتیجہ ہے۔ عربی زبان میں حرف عاطفہ کے بغیر بھی اسی طرح کلام مستعمل ہے، یعنی اسکے حذف ہونے مین کوئی حرج نہیں۔
امام ترمذی کی ایک معروف اصطلاح ہے کہ وہ اپنی کتاب الجامع میں بسا اوقات حدیث پر "حسن صحیح " کا حکم لگاتے ہیں ۔ محدثین کرام کا اسکی مراد میں اختلاف ہے، جس میں ایک قول یہ بھی ہے کہ اس کے درمیان سے واؤ عاطفہ محذوف ہے۔
یہ صاحب صحیح ترمذی اور ضعیف ترمذی بھی لکھ رھے ہیں، تو کیا جامع ترمذی میں امام ترمذی کا "حسن صحیح " کا جا بجا حکم انہیں نظر نہیں آیا ...؟؟
اگر نظر آیا ہے اور ضرور آیا ہوگا تو وہاں ان صاحب کی اس حکم کے متعلق کیا رائے ہے ....؟؟
کیا انکی نظر میں امام ترمذی عربیت سے ناواقف تھے، ...؟؟
اب آپ خود اندازہ فرمائیں کہ جو شخص ترمذی پر اس طرح کا کام کر رہا ہو، وہ امام ترمذی کی بنیادی اور معروف اصطلاحات سے بھی ناآشنا ہو تو اسکے "تحقیقی کام" کے متعلق کیا رائے دی جا سکتی ہے....؟!
اسی طرح ان صاحب نے "نخبة الفكر " لابن حجر مترجم سے بھی اپنی کتاب میں کافی سارے حوالے دیے ہیں، تو کیا اس میں بھی یہ بحث انکی نظر سے نہیں گزری ....؟؟ ا
اگر گذری ہے اور یقینا گذری ھوگی، تو پھر کیا وہاں انکو نظر نہیں آیا کہ ابن حجر نے " حسن صحیح "کے حوالے سے کیا کہا ھے،..؟؟
وہاں حرف عاطفہ کے حذف ہونے پر واضح الفاظ میں ابن حجر نے اسکی وضاحت کی ہے، اسی طرح دیگر شارحین نے بھی اس کے استعمال پر مثالیں ذکرکر کے اسکے جواز کی اجازت دی ہے،لہذا نحوی اعتبار سے یہ ترکیب بالکل درست ہے اور اس میں کچھ بھی غلط نہین، .
اور اگر انکو اس کلمہ طیبہ کے ثبوت میں نظر ہے، تو یہ بھی انکی بات غلط ہے، کیونکہ کلمہ طیبہ مکمل اسی ترتیب کے ساتھ جید وقوی سند سے ثابت ہے، والحمدللہ.
یہ کلمہ امام بیہقی کی کتاب "الاسماء والصفات " میں موجود ہے، اور شیخ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے بھی اسکو اپنے مقالات میں امام بیہقی کی مذکورہ کتاب سے نقل کیا ہے، ملاحظہ ہو : مقالات( ۴/۵۶۴ ـ ۵۶۵)
لہذا موصوف کو کم از کم پوری طرح اطمینان حاصل کرکے پھر کوئی رائے یا حکم لگانا چاہئے تھا۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top