- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
علم حدیث کو کھلواڑ اور بازیچہ اطفال بنانے کی ایک مذموم کاوش
(النصيحة المفيدة في تحذير الناس من فتنة من ادعی فرضية علم المصطلح ومتعلقاته علي العامة)
ابو المحبوب سید انور شاہ راشدی
آج دوپہر بتاریخ) ۱۱ / ۰۴ / ۲۰۱۴ ء) بروز منگل مجھے اپنے ایک فاضل دوست کے توسط سے : "اصول حدیث واصول تخریج " کے نام سے ایک کتاب موصول ہوئی..جزاہ اللہ خیرا.
اس کتاب کو صاحبِ کتاب نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے. :
۱ ـ اصول حدیث
۲ ـ اصول تخریج.
حصہ اولی میں چھے ابواب ہیں، جن کے عنوان درج ذیل ہیں:
۱ ـ اصول حدیث.
۲ ـ صحیح حدیث
۳ ـ بیان خبر مردود بلحاظ طعن راوی
۴ ـ مرفوع
۵ ـ اسناداور اسکے متعلقات.
۶ ـ علم جرح وتعدیل کا بیان.
دوسرے حصے ( اصول تخریج) میں اصول حدیث اور اصول تخریج، دونوں کو آپس میں خلط ملط کردیا ہے، حالانکہ جب پہلے اصول حدیث کو ذکر کیا ہے تو پھر دوبارہ اس کو اصول تخریج میں ذکر کرنا کیا ظاہر کرتا ہے ....؟؟؟!!!
یہ میں قارئین پر چھوڑتا ہوں.
زیر بحث کتاب پر دو اصحاب نے تقریظ لکھ رکھی ھے، اور انہوں نے اپنی تقاریظ میں صاحبِ کتاب کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے، جو انکا دوستانہ حق بنتا ہے. تقریظ لکھنے والے یہ دونوں اصحاب علمی دنیا میں غیر معروف ہیں ۔ البتہ ایک صاحب تو اپنے شذوذ کے سبب بعض حلقوں میں کافی " معروف " ہیں ۔
صاحبِ کتاب کے حوالے سے علمی دنیا میں کافی چہ مگوئیاں ہوئی ہیں، اور علمائے کرام نےاس کا زبردست نوٹس بھی لیا، خصوصا راقم الحروف اور برادرم حافظ شاہد محمود حفظہ اللہ تعالی نے وٹس اپ گروپوں میں موصوف پر علمی اعتبار سے رد بھی کیا، اور اسی طرح فیس بوک پر بھی انکے خلاف لکھا، جسکا موصوف کوئی بھی نہ جواب دے سکے، بلکہ سرے سےبحث کرنے ہی سے کتراتے رہے ۔ لیکن غلط بیانی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔
موصوف اپنی مذکورہ بالا کتاب میں لکھتے ہیں :
"بعض الناس ہماری اس طرح کی مخلصانہ کاوشوں سے خوش ہونے کی بجائے ناراض ہوتے ہیں، کیونکہ حق کو تسلیم کرنے میں انکی ضد آڑے ہے، پھر ہم پر وہ اپنا غصہ دلائل دینے کے بجائے ادھر ادھر کی باتوں سے پورا کرتے ہیں۔" (۶۶)
اب ذرا" ادھر "کی طرف متوجہ ہوں۰۰۰۰۰!
* موصوف نے ایک کتاب بعنوان " کتاب الضعفاء والمتروکین " لکھی ہے، جو انکے بقول "تہذیب التہذیب " لابن حجر کا ترجمہ ہے، جیسا کہ انہوں نے اس کتاب کے سرورق پر لکھا ہے: "اسماء الرجال کی مشہور کتاب تہذیب التہذیب کا اردو ترجمہ." اگر یہ کتاب تہذیب التہذیب " کا ترجمہ ہے تو کیا "التہذیب " میں صرف ضعفاء اور متروکین ہیں، جو ان صاحب نے یہ نام رکھا ہے، ...؟؟
پھر اسی کتاب کے ٹائٹل پر موصوف نے اسی ترجمے کو اپنی " تالیف " بھی لکھا ہے ۰۰۰ یعنی یہ ترجمہ بھی ہے اور تالیف بھی۰۰۰۰!!!
* ان صاحب نے "کتاب الضعفاء .. " کے سرورق پر نظر ثانی میں "مولانا ابوسیف جمیل احمد حفظہ اللہ تعالی " کا نام لکھا ھے، لیکن انہوں نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ یہ اسکی سراسر کذب بیانی ہے، یہ نظرثانی میری نہیں۔ ابو سیف صاحب کا یہ بیان باقاعدہ ایک اڈیو میں موجود ہے جس کے بہت سارے علمائے کرام گواہ ہیں۔ اور یہ آڈیو ریکارڈنگ بھی موجود ہے۔
بلکہ انکی تردید والا بیان "اشاعة الحديث " (شماره: 129 تا 132) میں بھی شایع ہوا تھا، مذکورہ شمارے میں ہے :
محترم جناب مولانا حافظ ابو سیف جمیل حفظہ اللہ نے ہمیں بذریعہ فون اطلاع دی اور فرمایا: میری طرف سے یہ اعلان (شایع) کیاجائے کہ: ..............کی تالیف "کتاب الضعفاء والمتروکین " سے میں بری ہوں ۔ میرا اسکے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ میرے منع کرنے کے باوجود اس نے اپنی مذکورہ کتاب پر میرا نام لکھ دیا ہے، جس سے مؤلف مذکور کی اخلاقی اقدار کا پتہ چلتا ہے، میں........کی اس حرکت کی پرزور مذمت کرتا ہوں.
( المعلن : ابوسیف جمیل احمد۔ ص : ۱۰۵)
اسی شمارے میں یہ بھی اعلان شایع ہوا ہے کہ موصوف، شیخ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ کے باقاعدہ شاگرد نہیں ہیں.
* موصوف نے کسی استاذ سے نہ باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہے اور نہ علم حدیث سے متعلقہ کتب کی قراءت کی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ موصوف حتی الامکان اردو مترجم کتب ہی سے استفادہ کرتے ہیں، اور ان کی کتب میں منقول عربی عبارات کے تراجم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عربیت سے نا آشنا ہیں ۔
اسی لیے شیخ محترم مولانا مبشر ربانی نے موصوف کی اپنی کتاب : "الصحیفہ فی الاحادیث الضعیفہ " پر تقریظ میں موصوف کے بارے میں لکھا ہے:
" ۰۰۰۰علماء کی صف کے آدمی نہیں ہیں۔ ۰۰۰۰اللہ تعالی انھیں کسی ماہر استاذ کے پاس بیٹھ کر حصول علم کا موقع فراہم کرے۔" ( الصحیفہ ، ص: ۱۱-۱۲)
اسی لیے موصوف کو بارہا منع کیا گیا کہ اصول حدیث اور علم الرجال آپ کا فن نہیں،اس کے لیے طویل مزاولت وممارست کی ضرورت ہے، اور آپ فی الحال اس کے لائق نہیں، کیوںکہ جس کا جو فن نہیں تو اسے اس میں گفتگو کرنے کا بھی حق نہیں۔ کیا محض شوق کی بنا پر اس عظیم فن پر بغیر کسی معرفت کے اسے کھلواڑ بنایا جائے گا، ....؟؟
دنیا میں کبھی کسی نے یہ کہا ہے کہ :
* ـ مجھے ڈاکٹری کا شوق ہے، اور وہ کلینک کھول کر لوگوں کو علاج کرنا شروع کردے...؟؟؟
* کیا کوئی یہ کہے کہ مجھے انجینیئرنگ کا شوق ہے، لہذا میں انجینیئر والا کام شروع کرتا ہوں...؟؟؟
* اگر کوئی یہ کہے کہ مجھے پڑھانے کا شوق ھے جبکہ وہ پڑھا ہی نہیں، تو کیا اسکو بچوں پر استاذ مقرر کیا جاسکتا ھے؟!
غرض کہ ہم نے اس قسم کی بہت سی مثالیں دیں کہ جب دنیا کے یہ اصول اور ضابطے ہیں کہ جس کا جو فن ہوگا، وہ اس پر لب کشائی کا حق رکھتا ہے، ہر ایرا غیرا اس پر بولنے کا مجاز نہیں۔ یہ اصول حدیث اور علم الرجال وغیرہ یہ بھی ایک فن ھے، جس پر گفتگو کرنے کے لیے بھی انکے اہل کو ہی اجازت ہے.ورنہ یہ عظیم فن محض کھلواڑ بن جائیگا، بلکہ اس دفعہ تو ان صاحب نے حد ہی پار کردی ۔
کہتے ہیں :
یہ علم حاصل کرنا ہر انسان پر فرض ہے، چاھے ریڑھی چلانے والا ہو، چاہے کار چلانے والا ہو، چاہے فیکٹری چلانے والا ہو ، چاہےمسجد والا ہو، مدرسہ چلانے والا ہو، اسکول چلانے والا ہو، یا کالج چلانے والا ہو، چاہے یونیورسٹی چلانے والا ہو .....( اصول حدیث : ۵۸)