بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد ﷲ رب العالمین والعاقبۃ للمتقین والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ و علی آلہ و صحبہ اجمعین ۔
اما بعد
نماز اللہ تعالیٰ کی بڑی عبادت ہے اور بندہ جس وقت نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو :
فاِنَّہٗ یُناَجِیْ رَبَّہٗ (مسلم ص ۲۰۷ ج ۱ ) اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے ۔
اس لئے نماز میں کوئی بھی ایسافعل نہیں کرنا چاہیئے جو ادب کے خلاف ہو بلکہ ایسے خشوع کیساتھ نماز ادا کرنی چاہیئے جس سے تقویٰ اور خشیت الٰہی ظاہر ہو اور انسان کے تمام اعضاء میں سے رئیس الاعضاء دل ہے ۔جیسا کہ رسول اکرمﷺ کا فرمان ہے ۔
’’ الاوان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ و اذا فسدت فسد الجسد کلہ ألا و ھی القلب‘‘ (مشکاۃ ج ۲ ص۲۴۱)
انسان کے جسم میں ایک ٹکڑا ہے اگر وہ درست ہو تو پورا جسم درست رہتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے یا بیمار ہو جائے تو سارا جسم بیمار ہو جاتا ہے خبردار وہ دل ہے ۔
اور دل سینے کے برابر ہے اور یہی تقویٰ کی جگہ ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ :
’’التقوی ھھنا و یشیر الی صدرہ ثلاث مرار ‘‘۔ (مسلم ص ۳۱۷ جلد دوم مع النووی ۔)
رسول اللہ ﷺ نے اپنے سینے مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا کہ تقوی اور پرہیز گاری یہاں ہے ۔
اس لئے آپ سینے مبارک پر ہاتھ باندھتے تھے ۔ کیونکہ یہی عاجزی کی صورت ہے۔ اور سائل بندے کو اپنے پروردگار کے سامنے ایسی حالت میں کھڑا ہونا زیب دیتا ہے ۔ علامہ شیخ سعدی شیرازی نے اس راز اور حکمت کو اس طرح منظوم کیا ہے کہ :
نہ بینی کہ پیشِ خدا وند جاہ
ستائیش کناں دست بر برنھند
اور جو لوگ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے عامل اور قائل ہیں ان کے لئے حدیث میں کوئی بھی دلیل یاثبوت نہیں ملتا ۔بلکہ اس طرح بے ادبی کا اظہار ہوتا ہے چونکہ اگر کسی اچھے یا بڑے آدمی کے سامنے ناف کے نیچے ہاتھ رکھ کر مرحبا کہاجائے تو وہ اسے برا سمجھے گا ۔ بلکہ ناراض ہو گا۔ پھر ایسی کیفیت کیساتھ احکم الحاکمین کے سامنے پیش ہونا بالکل نامناسب ہے بلکہ سینے پر ہاتھ باندھ کر اپنے عزت والے عضو (دل) کو اس کے سامنے حاضر کرنا چاہیئے اور یہی معمول اور طریقہ رسول اللہ ﷺ کا تھا ۔ اور اس مختصرکتابچہ میں اسی مسئلہ کے بارے میں عام لوگوں کی راہنمائی کرنے کیلئے کچھ لکھا جارہا ہے امید ہے کہ
متلاشیان حق کیلئے یہ کتابچہ اور مقالہ مشعل راہ اور منزل آگاہ بنے گا ۔
اللّٰھم آمین