• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں خشوع اور عاجزی یعنی سینے پر ہاتھ باندھنا

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
بسم الله الرحمن الرحيم
نام کتاب
نماز میں خشوع اور عاجزی یعنی سینے پر ہاتھ باندھنا

مصنف
شیخ العرب والعجم علامہ سید بدیع الدین شاہ الراشیدی رحمہ اللہ

مترجم
مولانا ذوالفقار طاہر حفظہ اللہ

تصحیح و نظرثانی
ابو عبدالمجید شیح محمد حسین بلتستانی حفظہ اللہ

مقدمہ
شیخ الحدیث مولانا حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ

ناشر
جمعیت اہلحدیث سندھ کراچی ڈویژن
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
مقدمہ

جناب سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ ہر شخص نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ’’ذراع‘‘ پر رکھے (صحیح البخاری ج ۱ ص ۱۰۲ ح ۷۴۰) ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ اگر آپ اپنا دایاں ہاتھ اپنی ذراع پر رکھیں گے تو خود بخود سینہ پر آ جائیں گے۔
ذراع ، ہاتھ کی انگلیوں سے لے کر کہنی تک کے حصہ کو کہتے ہیں۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ :
آپ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی کی پشت ، رسغ (کلائی) اور ساعد (کلائی سے لے کر کہنی تک) پر رکھا۔ (سنن نسائی مع حاشیہ السندھی ج ۱ ص ۱۴۱، ابوداوٗد ج ۱ ص ۱۱۲، ح ۷۲۷، اسے ابن خزیمہ ج ۱ ص۲۴۳ ح ۴۸۰ اورابن حبان موارد ح ۴۸۵ نے صحیح کہا ہے)
اس استدلال کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں آیا ہے کہ :
’’یضع ھذہ علی صدرہ‘‘ الخ ۔ آپ ﷺ یہ (ہاتھ) اپنے سینہ پر رکھتے تھے … الخ۔ (مسند احمد ج ۵ ص ۲۲۶ واللفظ ، التحقیق لابن حبان الجوزی ج ۱ ص۲۸۳ ح ۴۷۷۔ وفی نسخۃ ج ۱ ص ۳۳۸) ۔
اس کی تائید بہت سی روایات میں آئی ہے جنہیں استاذنا المحترم ، مولانا ابو محمد بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ نے اپنے اس رسالہ میں جمع فرمایا ہے ۔
حنفی ، دیوبندی اور بریلوی حضرات جو روایات پیش کرتے ہیں، اصولِ حدیث کی روشنی میں وہ ساری روایات ضعیف و مردود ہیں مثلاً سنن ابی داوٗد (ح۷۵۶) وغیرہ۔ والی روایت کا راوی عبدالرحمن بن اسحق الکوفی ضعیف ہے۔ دیکھئے نصب الرایہ للزیلعی ج ۱ ص ۳۱۴۔ البنایہ فی شرح الھدایہ ج ۲ ص ۲۰۸ وغیرہ۔ بلکہ ھدایہ اولین کے حاشیہ نمبر ۱۷ ج ۱ ص ۱۰۳ پر لکھا ہوا ہے کہ یہ روایت بالاتفاق ضعیف ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں دیوبندی ناشرین نے تحریف کر دی ہے جبکہ مخطوطہ و دیگر مطبوعہ نسخہ اس تحریف سے پاک ہیں۔ رہا یہ مسئلہ کہ مرد ناف کے نیچے اور عورتیں سینہ پر ہاتھ باندھیں کسی صحیح یا ضعیف حدیث سے قطعاً ثابت نہیں ہے۔ اور نہ اس فرق پر کوئی اجماع ہوا ہے۔
شیخ العرب والعجم رحمہ اللہ نے اس کتاب میں جو چیلنج دیا ہے اس کے جواب سے احناف ، دنیائے دیوبندیت و بریلویت عاجز ہے ۔ والحمدللہ ۔
اللہ تعالی اس رسالہ کو استاذنا المحترم رحمہ اللہ کیلئے توشہ ٔ آخرت اور صدقہ جاریہ بنائے اور مولانا ذوالفقار طاہر و ناشرین کرام کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین۔

حافظ زبیر علی زئی ۔ حضرو ۔ اٹک​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
الحمد ﷲ رب العالمین والعاقبۃ للمتقین والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ و علی آلہ و صحبہ اجمعین ۔
اما بعد
نماز اللہ تعالیٰ کی بڑی عبادت ہے اور بندہ جس وقت نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو :
فاِنَّہٗ یُناَجِیْ رَبَّہٗ (مسلم ص ۲۰۷ ج ۱ ) اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے ۔
اس لئے نماز میں کوئی بھی ایسافعل نہیں کرنا چاہیئے جو ادب کے خلاف ہو بلکہ ایسے خشوع کیساتھ نماز ادا کرنی چاہیئے جس سے تقویٰ اور خشیت الٰہی ظاہر ہو اور انسان کے تمام اعضاء میں سے رئیس الاعضاء دل ہے ۔جیسا کہ رسول اکرمﷺ کا فرمان ہے ۔
’’ الاوان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ و اذا فسدت فسد الجسد کلہ ألا و ھی القلب‘‘ (مشکاۃ ج ۲ ص۲۴۱)
انسان کے جسم میں ایک ٹکڑا ہے اگر وہ درست ہو تو پورا جسم درست رہتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے یا بیمار ہو جائے تو سارا جسم بیمار ہو جاتا ہے خبردار وہ دل ہے ۔
اور دل سینے کے برابر ہے اور یہی تقویٰ کی جگہ ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ :
’’التقوی ھھنا و یشیر الی صدرہ ثلاث مرار ‘‘۔ (مسلم ص ۳۱۷ جلد دوم مع النووی ۔)
رسول اللہ ﷺ نے اپنے سینے مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا کہ تقوی اور پرہیز گاری یہاں ہے ۔
اس لئے آپ سینے مبارک پر ہاتھ باندھتے تھے ۔ کیونکہ یہی عاجزی کی صورت ہے۔ اور سائل بندے کو اپنے پروردگار کے سامنے ایسی حالت میں کھڑا ہونا زیب دیتا ہے ۔ علامہ شیخ سعدی شیرازی نے اس راز اور حکمت کو اس طرح منظوم کیا ہے کہ :

نہ بینی کہ پیشِ خدا وند جاہ
ستائیش کناں دست بر برنھند
اور جو لوگ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے عامل اور قائل ہیں ان کے لئے حدیث میں کوئی بھی دلیل یاثبوت نہیں ملتا ۔بلکہ اس طرح بے ادبی کا اظہار ہوتا ہے چونکہ اگر کسی اچھے یا بڑے آدمی کے سامنے ناف کے نیچے ہاتھ رکھ کر مرحبا کہاجائے تو وہ اسے برا سمجھے گا ۔ بلکہ ناراض ہو گا۔ پھر ایسی کیفیت کیساتھ احکم الحاکمین کے سامنے پیش ہونا بالکل نامناسب ہے بلکہ سینے پر ہاتھ باندھ کر اپنے عزت والے عضو (دل) کو اس کے سامنے حاضر کرنا چاہیئے اور یہی معمول اور طریقہ رسول اللہ ﷺ کا تھا ۔ اور اس مختصرکتابچہ میں اسی مسئلہ کے بارے میں عام لوگوں کی راہنمائی کرنے کیلئے کچھ لکھا جارہا ہے امید ہے کہ
متلاشیان حق کیلئے یہ کتابچہ اور مقالہ مشعل راہ اور منزل آگاہ بنے گا ۔
اللّٰھم آمین​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اس مسئلہ کے بارے میں کچھ احادیث وارد ہیں

حدیث نمبر1:
عن ابی حازم عن سھل بن سعد الساعدی قَالَ کَانَ النَّاسُ یُؤْمَرُوْنَ اَنْ یَّضَعَ الرَّجُلُ یَدَہٗ الْیُمْنٰی عَلیٰ ذِرَاعِہِ الْیُسْریٰ فِی الصَّلوٰۃِ قَالَ ابو حازم لاَ اَعْلَمُہٗ اِلاَّ یَنْمِیْ ذالِکَ اِلیَ النَّبی ﷺ۔
ابو حازم سھل بن سعد ساعدی سے روایت کرتے ہیں کہ لوگوں (اصحاب) کو حکم تھا کہ ہر نمازی نماز (یعنی کھڑے ہونے والی حالت میں) اپنا دایاں ہاتھ بائیں کلائی اور بازو پر رکھے ۔راوی ابو حازم (سلمۃ بن دینار ) کہتے ہیں کہ میں اس طرح جانتا ہوں کہ یہ حدیث رسول اللہ ﷺ تک مرفوع ہے یعنی یہ آپکا ہی حکم تھا ۔
صحۃ الحدیث
اس حدیث کا صحیح بخاریؒ میں ہونا ہی کافی ہے کیونکہ صحیح بخاریؒ کی احادیث تما م احادیث میں اعلیٰ قسم کی صحت رکھتی ہین یہ ہی علماء امت کا فیصلہ ہے (شرح نخبہ ص ۲۲۴ اور تدریب الراوی للسیوطی ؒ ص ۲۵ وغیرہ)
نیز اس حدیث کو امام ابن حزم ؒ نے المحلی ص ۱۱۴ ج ۴ میں اور حافظ ابن القیم نے اعلام الموقعین ص ۶ ج ۲ طبع ھندمیں صحیح کہا ہے ۔
تشریح :
یہ حدیث مرفوع ہے جیسے راوی ابو حازم نے تصریح کی ہے نیز صحابہ کرام کو رسول اللہ ﷺ کے علاوہ یہ حکم کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟
اسی لئے حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری ص ۱۲۴ ج ۲ (السلفیہ) میں اور علامہ عینی نے عمدۃ القاری ص ۲۷۸ج ۵ (المنیریہ ) میں اس حدیث کو مرفوع ثابت کیا ہے اور اس حدیث سے سینے پر ہاتھ باندھنا ثابت ہوتا ہے
کیونکہ جب دایاں ہاتھ بائیں ذرع (بازو یا کلائی) پر ہوگا تو اس صورت میں ہاتھ سینے سے نیچے نہیں جاسکیں گے اس طرح باندھ کر دیکھنا چاہیئے اور تجربہ کرنا چاہیئے تو ساری بات واضح ہو جائے گی ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
حدیث نمبر ۲
عَنْ وَائِلِ بِنْ حُجْرٍ قَالَ صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ فَوَضَعَ یَدَہٗ الْیُمْنٰی عَلیٰ یَدِہِ الْیُسْرٰی عَلیٰ صَدْرِہِ (صحیح ابن خزیمہ ص۲۴۳ج۱)
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکے ساتھ نماز پڑھی تو آپ نے اپنا دایاں ہاتھ مبارک اپنے بائیں ہاتھ مبارک کے اوپر اپنے سینے مبارک پر رکھا ۔
صحت حدیث :
امام ابن خزیمہ اپنی صحیح کے متعلق شروع میں اپنی شرط اس طرح ذکر کرتے ہیں ۔
المختصر من المسند الصحیح عن النبی ﷺ بِنَقْلِ الْعَدْلِ عَنِ الْعَدْلِ مَوْصُوْلاً اِلَیْہِ ﷺ مِنْ غَیْرِ قَطعٍ فِیْ اَثْناَئِ الْاِسْنَادَ وَلاَ جَرح فِیْ نَاقِلِی الْاَخْبَارِ الَّتِیْ نَذْکُرُہَا بِمَشِیْئَۃِ اﷲِ تَعَالیٰ (ابن خزیمہ ص۲ ج ۱ )
یہ مختصر صحیح احادیث کا مجموعہ ہے جو رسول اللہ ﷺ تک صحیح اور متصل سند کیساتھ پہنچتی ہیں اور درمیان میں کوئی راوی ساقط یا سند میں انقطاع نہیں ہے اور نہ تو راویوں میں سے کوئی راوی مجروح یا ضعیف ہے ۔
تشریح:
اس سے ثابت ہوا کہ یہ حدیث بالکل صحیح اور سالم ہے نیز
اس حدیث کا امام نووی نے شرح مسلم ص ۱۱۵ج ۴ (المصری ) اور شرح المھذب ص۳۱۲ ج ۳ میں حافظ ابن سید الناس نے النفخ الشذی (المصور) الورق : ۲۱۱/۲ میں اور حافظ شمس الدین ابن عبدالھادی المقدسی نے المحرر فی الحدیث ص ۴۴میں اور حافظ زیلعی نے نصب الرایہ ص ۳۱۴ ج ۱ میں اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری ص ۲۲۴ج ۲ (السلفیہ) میں اور التلخیص الحبیر ص ۲۲۴ ج ۱ (المصری) میں اور الدرایۃ فی تخریج احادیث الھدایہ ص ۱۲۸ ج ۱ (المصری) اور بلوغ المرام ص ۵۵ میں اور علامہ عینی حنفی نے عمدۃ القاری ص ۳۷۹ ج ۵ (المنیریہ) میں امام الشوکانی نے نیل الاوطار ص ۱۱۵ج۲ میں اور علامہ مجدالدین الفیروز آبادی نے سفر السعادت میں اور علامہ المرتضی الزبیدی حنفی نے عقود الجواھر المنیفۃ ص ۵۹ ج ۱ میں اور دوسروں نے ذکر کیا ہے
اور علامہ ابن سید الناس اور حافظ ابن حجر اور علامہ عینی اور علامہ الشوکانی نے اس حدیث کو صحیح مانا ہے
اسی طرح ملا قائم سندھی نے رسالہ فوز الکرام میں اور مخدوم محمد ہاشم سندھی ٹھٹھوی نے دراھم الصرۃ میں بھی اس حدیث کو صحیح مانا ہے نیز علامہ ابن نجیم حنفی نے البحر الرائق میں اور علامہ ابو الحسن الکبیر سندھی نے فتح الودود شرح ابی داؤد میں اور علامہ محمد حیات سندھی نے فتح الغفور میں اور جد امجد علامہ سید ابو تراب رشد اللہ شاہ راشدی صاحب الخلافۃ نے درج الدرر میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے
یہ حدیث اپنے مطلب میں واضح ہے اور بتا رہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت و طریقہ یہ ہے کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھے جائیں ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
حدیث نمبر3:
عَنْ قَبِیْصَۃَ بِنْ ھُلْبٍ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ رَأیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ یَنْصَرِفُ عَنْ یَّمِیْنِہ وَ عَنْ یَّسَارِہ وَ رَأیْتُہ یَضَعُ ھَذِہ عَلیٰ صَدْرِہ وَصَفَ یَحْییٰ اَلْیُمْنیٰ عَلیٰ الْیُسْرٰی فَوْقَ الْمَفْصَلِ (مسند الامام احمد بن حنبل ص ۲۲۶ ج ۵)
قبصیہ بن ھلب تابعی نے اپنے والد ھلب ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپؐ نماز سے دائیں اور بائیں پھر رہے تھے ۔اور میں نے آپؐ کو دیکھا کہ نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر رکھا۔
صحت حدیث:
اس حدیث کی سند صحیح ہے اس کو امام ابن سید الناس نے شرح الترمذی میں اور حافظ ابن حجرنے فتح الباری میں صحیح مانا ہے اور علامہ نیموی نے آثار السنن ص ۶۷ ج۱ میں اس کی سند کو صحیح مانا ہے اور علامہ محدث عبدالرحمان مبارکپوری تحفۃ الاحوذی شرح جامع ترمذی میں لکھتے ہیں کہ :
وَ رُوَاۃُ ھَذَا الْحَدِیْثِ کُلُّھُمْ ثِقَاتٌ وَ اِسْنَادُہٗ مُتَّصِلْ ۔
اس حدیث کی سند کے سب راوی ثقات اور معتبر ہیں او ر اس کی سند متصل ہے ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
حدیث نمبر4:
عن سفیان الثوری عن عاصم بن کلیب عَنْ اَبِیْہِ عَنْ وَائِل انَّہٗ رَأیَ النَّبِیَّ ﷺ وَضَعَ یَمِیْنَہٗ عَلیٰ شِمَالِہٖ ثمَّ وَضَعَھُمَا عَلیٰ صَدْرِہٖ (طبقات المحدثین باصبھان لابی الشیخ ص ۱۴۸ج ۱ قلمی ، البیہقی ص۳۵ ج۲)
وائل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺکو دیکھا کہ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھ کر ان کو سینے پر رکھا ۔
صحت حدیث:
اس روایت کو جد امجد صاحب الخلافت رسالہ درج الدرد میں حسن کہتے ہیں ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
حدیث نمبر5:
عَنْ طَاؤسٍ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ یَضَعُ یَدَہُ الْیُمْنیٰ عَلیٰ یَدہِ الْیُسْریٰ ثُمَّ یَشد بھما علی صدرہ وھو فی الصلوۃ(المراسیل لابی داؤد ص۶ المصری والباکستان والمعرفۃ السنن والآثار ص ۱۹۷ ج ۱ المصور )
طاؤس یمانی تابعی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں ہوتے تو اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر رکھ کر اپنے سینے پر باندھتے تھے ۔
صحت حدیث:
امام طاؤس مشہور تابعی ہیں اس لئے یہ حدیث مرسل ہے مگر مرسل حدیث احناف کے ہاں معتبر اور مقبول ہے حنفی مذہب کے امام سرخسي کتاب الاصول ص ۳۶۰ ج۱ میں لکھتے ہیں کہ :
فَاَمَّا مَرَاسِیْلُ الْقَرْنِ الثَّانِیْ وَ الثَّالِثِ حُجَّۃٌ فِیْ قَوْلِ عُلَمَائِنَا ۔
کہ دوسرے اور تیسرے قرن(یعنی تابعین )کی مرسل روایت ہمارے (احناف ) علماء کے قول کے مطابق حجت اور دلیل ہے ۔
اسی طرح نور الانوار ص ۱۵۰ میں لکھا ہے اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی رسالہ کشف الدین ص ۱۷ میں لکھتے ہیں کہ
’’والمرسل مقبول عندا الحنفیۃ‘‘ یعنی مرسل روایت ہم احناف کے ہاں دلیل اورقابل قبول روایت ہے۔
اسی طرح علامہ ابن الھمام بھی فتح القدیر شرح ھدایہ ص۲۳۹ج ۱ میں لکھتے ہیں اور محدثین کے نزدیک بھی مرسل روایت دوسری احادیث کے موجودگی میں مقبول ہیں چونکہ یہاں دوسری متصل احادیث وارد ہیں اس لئے یہ روایت بھی دلیل بن سکتی ہے اور اسکی سند کے سب راوی معتبر اور ثقہ ہیں جیسے اما م بیہقی نے معرفۃ السنن والاٰثار میں اور علامہ محمد حیات سندھی نے فتح الغفور میں اور صاحب خلافت نے درج الدردمیں اور علامہ مبارک پوری نے تحفۃ الاحوذی ص ۲۱۶ ج ۱ میں لکھا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
حدیث نمبر6:

عن وائل بن حجر قَالَ حَضْرَتُ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ اِذَا اُوْحِیْنَ نَھَضَ اِلیٰ الْمَسْجِدِ فَدَخَلَ الْمِحْرَابَ ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ بِالتَّکْبِیْرِ ثُمَّ وَضَعَ یَمِیْنَہُ عَلیٰ یُسْرٰہُ عَلیٰ صَدْرِہِ (سنن الکبری ص ۳۰ ج ۲ ومجمع الزوائد ص۱۲۴ ج۲ طبرانی کبیر ص۵۰ج۲۲)
وائل بن حجر ؓ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا آپ جب مسجد کی طرف اٹھے پھر محراب میں داخل ہوئے اور اللہ اکبر کہہ کے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے پھر دایاں ہاتھ بائیں پر رکھ کر سینے پر رکھا ۔
صحت حدیث:
اس روایت کو حافظ ابن حجر نے فتح الباری ص۲۲۴ج۲ میں (السلفیہ ) میں بحوالہ مسند بزار میں نقل کیا ہے اور اپنے مقدمہ ص۴ میں یہ شرط بیان کی ہے کہ اس شرح میں جو احادیث لاؤں گا وہ صحیح ہو ں گی یا حسن ہوں گی اس لئے یہ حدیث حافظ ابن حجرؒ کی تحقیق کے مطابق صحیح یا حسن ہے نیز صاحب خلافت نے بھی اس حدیث کو درج الدرر میں معتبر قرار دیا ہے نیز علامہ ظفر احمد عثمانی تھانوی حنفی انھاء السکن ص۲۲ میں لکھتے ہیں کہ حافظ ابن حجر فتح الباری میں جو روایات نقل کریں اور ان پر کوئی کلام بھی نہ کریں تو وہ احایث ان کے نزدیک صحیح یا حسن ہیں ۔
 
Top