سینے پر ہاتھ باندھنا
دلیل نمبر ۱:
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ،
"ثم وضع یدہ الیمنیٰ علی ظھر کفہ الیسریٰ والرسغ والساعد "
پھر آپ نے دایاں ہاتھ بائیں ہتھیلی، کلائی اور (ساعد)بازوپر رکھا۔
صحیح ابن خزیمہ (۲۴۳/۱ ح ۴۸۰، ۷۱۴) صحیح ابن حبان (۱۶۷/۳ ح ۱۸۵۷ والموارد: ۴۸۵) مسند احمد (۳۱۸/۴ ح ۱۹۰۷۵) سنن نسائی(۱۲۶/۲ ح ۸۹۰) سنن ابی داؤد مع بذل المجہود (۴۳۷/۴، ۴۳۸ ح ۷۲۷ وسندہ صحیح)
جائزہ:
۱۔ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ: صحابی جلیل (تقریب التہذیب : ۷۳۹۳)
۲۔ کلیب : صدوق (تقریب التہذیب: ۵۶۶۰)
۳۔ عاصم بن کلیب:
صدوق رمی بالارجاء (تقریب التہذیب : ۳۰۷۵)
یہ صحیح مسلم کے راوی ہیں۔
۴۔ زائدہ بن قدامہ:
ثقۃ ثبت صاحب سنۃ (تقریب التہذیب: ۶۹۸۲)
۵۔ ابوالولید ہشام بن عبدالملک الطیالسی:
ثقۃ ثبت (تقریب التہذیب: ۷۳۰۱)
۶۔ الحسن بن علی الحلوانی:
ثقۃ حافظ لہ تصانیف (تقریب التہذیب: ۱۲۶۲)
معلوم ہوا کہ یہ سند صحیح ہے۔
نیموی نے بھی آثار السنن (ص۸۳) میں کہا:
"واسنادہ صحیح"
تشریح: "الکف والرسغ والساعد" اصل میں
ذراع (حدیث بخاری: ۷۴۰) کی تشریح ہے۔
المعجم الوسیط (۴۳۰/۱) میں ہے:
" الساعد: مابین المرفق الکف من اعلی"
ساعد کہنی اور ہتھیلی کے درمیان (اوپر کی طرف) کو کہتے ہیں۔
تنبیہ: " الساعد "کے مراد پوری "الساعد "ہے بعض الساعد نہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
"لان العبرۃ بعموم اللفظ حتی یقوم دلیل علی التخصیص"
جب تک تخصیص کی دلیل قائم نہ کی جائے عموم لفظ کا ہی اعتبار ہوتا ہے۔
(فتح الباری ۲۶۱/۱۲ تحت ح ۲۹۵۱)
"بعض الساعد" کی تخصیص کسی حدیث میں نہیں ہے، لہٰذا ساری "الساعد" پر ہاتھ رکھنا لازم ہے، تجربہ شاہد ہے کہ اس طرح ہاتھ رکھے جائیں تو خودبخود سینے پر ہی ہاتھ رکھے جاسکتے ہیں۔
دلیل نمبر ۲:
قال الامام احمد فی مسندہ: "ثنا یحیی بن سعید عن سفیان حدثنی سماک عن قبیصۃ بن ھلب عن ابیہ قال: رایت النبی ﷺ ینصرف عن یمینہ وعن شمالہ ورایتہ یضع ھذہ علی صدرہ/
وصف یحیی الیمنی علی الیسریٰ فوق المفصل"
ہلب الطائی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے بنی ﷺ کو (نماز سے فارغ ہوکر) دائیں اور بائیں (دونوں) طرف سلام پھیرتے ہوئے دیکھا ہے اور دیکھا ہے کہ آپ یہ (ہاتھ) اپنے سینے پر رکھتے تھے۔ یحیی (القطان راوی) نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر (عملاً) بتایا۔
(مسنداحمد ۲۲۶/۵ح۲۲۳۱۳ وسندہ حسن والتحقیق لابن الجوزی ۲۸۳/۱)
سند کی تحقیق
۱۔
یحیی بن سعید (القطان): ثقۃ متقن حافظ امام قدوۃ من کبار التاسعۃ (تقریب التہذیب: ۷۵۵۷)
۲۔
سفیان (الثوری): ثقۃ حافظ فقیہ عابدامام حجۃ من روؤس الطبقۃ السابعۃ وکان ربما دلس (تقریب التہذیب: ۲۴۴۵)
۳۔
سماک بن حرب:صدوق وروایتہ عن عکرمۃ خاصۃ مضطربۃ وقد تغیر باخرۃ فکان ربما تلقن۔ (تقریب التہذیب: ۲۶۲)
یاد رہے کہ سماک کی یہ روایت عکرمہ سے نہیں ہے، لہٰذا اضطراب کا خدشہ نہیں، سفیان الثوری نے سماک سے حدیث کا سماع قدیماً (اختلاط سے پہلے) کیا ہے لہٰذا ان کی سماک سے حدیث مستقیم ہے۔
(دیکھئے بذل المجہود ج ۴ ص۴۸۳، تصنیف خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی)
سماک کی روایت صحیح مسلم ، بخاری فی التعلیق اور سنن اربعہ میں ہے۔ (نیز دیکھئے ص۳۹)
[یہ کتاب کا صفحہ ہے: محدث فورم پر سماک کی توثیق ملاحظہ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں۔۔شاکر]
۴۔
قبیصۃ بن ہلب (الطائی):
ابن مدینی نے کہا: مجہول ہے
نسائی نے کہا: مجہول ۔
العجلی نے کہا: ثقہ ہے
ابن حبان نے ثقہ لوگوں میں شمار کیا۔ (تہذیب التہذیب ۳۱۴/۷)
ترمذی نے اس کی ایک حدیث کو حسن کہا (سنن الترمذی: ۲۵۲)
اور ابوداؤد نے اس کی حدیث پر سکوت کیا۔(سنن ابی داؤد ج۴ص۱۴۷،
کتاب الاطعمۃ ، باب کراہیۃ التقدز للطعام ح ۳۷۸۴)
ظفر احمد تھانوی دیوبندی کی تحقیق یہ ہے کہ ابوداؤد کا سکوت حدیث کے صالح الاحتجاج ہونے کی دلیل ہے اور اس کی سند راویوں کے صالح ہونے کی بھی دلیل ہے۔
(قواعد الدیوبندیہ فی علوم الحدیث ص:۲۲۴، ۸۳)
اگرچہ یہ قاعدہ مشکوک وباطل ہے لیکن دیوبندی حضرات پر تھانوی صاحب کی بات بہرحال حجت ہے ، امام بخاری نے اس کو التاریخ الکبیر (۱۷۷/۷) میں ذکر کیا ہے اور اس پر کوئی جرح نہیں کی۔
تھانوی صاحب کی تحقیق کے مطابق اگر امام بخاری کسی شخص پر اپنی تواریخ میں طعن (وجرح) نہ کریں تو وہ ثقہ ہوتا ہے۔
(قواعد فی علوم الحدیث ص ۲۲۳طبع بیروت)
ابن ابی حاتم نے کتاب الجرح والتعدیل (۱۲۵/۷) میں اس کا ذکر کرکے سکوت کیا ہے۔
تھانوی صاحب کے نزدیک ابن ابی حاتم کاسکوت راوی کی توثیق ہے۔
(قواعد فی علوم الحدیث ص ۳۵۸)
تھانوی صاحب کے یہ اصول علی الاطلاق صحیح نہیں ہیں، ان پر مشہور عرب محقق عداب محمود الحمش نے اپنی کتاب
"رواۃ الحدیث الذین سکت علیھم ائمۃ الجرح والتعدیل بین التوثیق والتجھیل" میں زبردست تنقید کی ہے۔ تھانوی صاحب کے اصول الزامی طور پرپیش کئے گئے ہیں۔
امام العجلی معتدل امام ہیں لہٰذا العجلی ، ابن حبان اور الترمذی کی توثیق کو مدنظر رکھتے ہوئے صحیح بات یہ ہے کہ قبیصہ بن ہلب حسن الحدیث راوی ہیں۔
قبیصہ کے والد ہلب رضی اللہ عنہ صحابی ہیں۔ (تقریب التہذیب : ۷۳۱۵)
ایک بے دلیل اعتراض
نیموی صاحب فرماتے ہیں:
"رواہ احمد واسنادہ حسن لکن قولہ علی صدرہ غیر محفوظ"
اسےاحمد نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے لیکن "علی صدرہ" کے الفاظ محفوظ نہیں ہیں۔
(آثار السنن ص۸۷ ح۲۳۶)
جواب
نیموی صاحب کا یہ فرمان قرین صواب نہیں ہے، کیونکہ انھوں نے سفیان الثوری کے تفرد کو اپنے اس فیصلہ کی بنیاد بنایا ہے جب کہ حدیث کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ کسی راوی کا کسی لفظ میں منفرد ہونا اس لفظ کے غیر محفوظ ہونے کی کافی دلیل نہیں ہوتا تاوقتیکہ وہ الفاظ اس سے زیادہ ثقہ راوی کے الفاظ کے سراسر منافی نہ ہوں۔ حافظ ابن حجرؒ شرح نخبۃ الفکر میں فرماتے ہیں:
"وزیادۃ راویھا مقبولۃ مالم تقع منافیۃ لمن ہو اوثق"
صحیح اور حسن حدیث کے راوی کے وہ الفاظ مقبو ل ہوں گے جو دوسروں کے بالمقابل زیادہ کرے بشرطیکہ وہ اوثق کے خلاف نہ ہوں۔
(تحفۃ الدر ص ۱۹)
ظاہر ہے کہ علی صدرہ کے الفاظ اضاف ہیں ، منافی نہیں ہیں۔
شاہد نمبر۱:
قال ابن خزیمۃ فی صحیحہ: "نا ابوموسیٰ : نا مؤمل : نا سفیان عن عاصم بن کلیب عن ابیہ عن وائل بن حجر قال: صلیت مع رسول اللہ ﷺ ووضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسریٰ علی ٰ صدرہ"
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ ﷺ نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر سینہ پر رکھا۔
(ابن خزیمہ۲۴۳۱/۱ح ۴۷۹ واحکام القرآن للطحاوی ۱۸۶/۱ ح ۳۲۹)
سند کا جائزہ:
بعض آل تقلید نے اس کے راوی مؤمل بن اسماعیل پر جرح نقل کی ہے۔
(بذل المجہود فی حل ابی داؤد ۴۸۶/۴ ، آثار السنن : ۳۲۵)