• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
کتاب: نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام

مع ضمیمہ جات:
اثبات التعدیل فی توثیق مؤمل بن اسماعیل
نصر الرب فی توثیق سماک بن حرب
حدیث اور اہلحدیث کتاب کا جواب

تالیف: حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ
ناشر: مكتبة أهل الأثر للنشر والتوزيع، ملتان پاکستان

پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ لنک

نوٹ: یہ کتاب یونیکوڈ فارمیٹ میں دیگر سائٹس پر بھی موجود ہے۔ لیکن مجھے ان فائلز میں گرامر، ٹائپنگ اور خصوصاً راویان حدیث کے ناموں میں بعض مقامات پر غلطیاں ملی ہیں۔ لہٰذا ممکنہ حد تک یہ غلطیاں دور کر کے یہاں اپ لوڈنگ کی جا رہی ہے۔ اگر معزز قارئین کہیں پر کوئی غلطی موجود پائیں تو ازراہ کرم ضرور مطلع کریں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
مقدمہ


الحمد للہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ الامین ، أما بعد:
متواتر حدیث میں آیا ہے کہ:
نبی ﷺ نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھتے تھے۔ دیکھئے نظم المتناثر (ص ۹۸ حدیث:۶۸)
اس کے سراسربرعکس مالکیوں کی غیر مستند کتاب "المدونہ" میں لکھا ہوا ہے:
"وقال مالک فی وضع الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلوٰۃ قال: لا اعرف ذلک فی الفریضۃ وکان یکرھہ ولکن فی النوافل اذا طال القیام فلاباس بذلک یعین بہ نفسہ"
(امام) مالک نے نماز میں ہاتھ باندھنے کے بارے میں کہا: "مجھے فرض نماز میں اس کا ثبوت معلوم نہیں" وہ اسے مکروہ سمجھتے تھے، اگر نوافل میں قیام لمبا ہوتو ہاتھ باندھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس طرح وہ اپنے آپ کو مدد دے سکتا ہے۔ (المدونہ ۷۶/۱)
تنبیہ: مدونہ ایک مشکوک اور غیر مستند کتاب ہے۔دیکھئے القول المتین فی الجہر بالتامین(ص ۷۳)
اس غیر ثابت قول کے مقابلے میں موطا امام مالک میں باب باندھا ہوا ہے:
"باب وضع الیدین احداھما علی الاخری فی الصلوٰۃ" (۱۵۸/۱)
اس باب میں امام مالک سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ والی حدیث لائے ہیں:
"کان الناس یؤمرون أن یضع الرجل الیدالیمنیٰ علی ذراعہ الیسریٰ فی الصلوٰۃ"
لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع پر رکھے۔
(۱۵۹/۱ح ۳۷۷والتمہید ۹۶/۲۱، والاستذکار: ۳۴۷ والزرقانی: ۳۷۷)

ابن عبدالبر نے کہا:
"وروی ابن نافع وعبدالمالک ومطرف عن مالک أنہ قال: توضع الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلوٰۃ فی الفریضۃ والنافلۃ ، قال : لا باس بذلک ، قال ابو عمر: وھو قول المدنیین من اصحابہ"
ابن نافع، عبدالمالک اور مطرف نے (امام ) مالک سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا:
"فرض اور نفل (دونوں نمازوں) میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنا چاہیے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔"
ابو عمر (ابن عبدالبر) نے کہا: اور ان (امام مالک) کے مدنی شاگردوں کا یہی قول ہے۔" (الاستذکار: ۲۹۱/۲)
"مدونہ" کی تقلید کرنے والے مالکی حضرات ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں، اگر کسی مقلد مالکی سے ہاتھ چھوڑنے کی دلیل پوچھی جائے تو وہ کہتا ہے کہ :
" میں امام مالک کا مقلد ہوں، دلیل ان سے جاکر پوچھو،مجھے دلائل معلوم ہوتے تو میں تقلید کیوں کرتا؟" (تقریر ترمذی ص ۳۹۹)
شیعہ اور مقلد مالکیوں کے مقابلے میں اہل حدیث کا مسلک یہ ہے کہ ہر نماز میں حالت ِ قیام میں ہاتھ باندھنے چاہئیں۔اور دایاں ہاتھ بائیں ذراع پر رکھنا چاہیے۔
ہاتھ کہاں باندھے جائیں؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے ، اہل حدیث کے نزدیک نماز میں ناف سے اوپر سینے پر ہاتھ باندھنے چاہییں۔
سیدنا ہلب الطائی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ (نماز میں) یہ (ہاتھ) اپنے سینے پر رکھتے تھے۔ (مسند احمد ۲۲۶/۵، وسندہ حسن)
امام بیہقی لکھتے ہیں: "باب وضع الیدین علی الصدر فی الصلوٰۃ من السنۃ"
باب : نماز میں سینے پر ہاتھ رکھنا سنت ہے۔ (السنن الکبری للبیہقی ۳۰/۲)

اس کے برعکس حنفی وبریلوی و دیوبندی حضرات یہ کہتے ہیں کہ
"نماز میں ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے چاہییں۔"

حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں:
"وقال الثوری وأبو حنیفۃ واسحاق : أسفل السرۃ، ورویٰ ذلک عی علی وابی ھریرۃ والنخعی ولا یثبت ذلک عنھم وھو قول أبی مجلز۔"
ثوری، ابو حنیفہ اور اسحاق (بن راہویہ) کہتے ہیں کہ ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے چاہییں(!) اور یہ بات علی ( رضی اللہ عنہ )اور ابو ہریرہ ( رضی اللہ عنہ )اور (ابراہیم )نخعی سے مروی ہے مگر ان سے ثابت نہیں ہے اور ابو مجلز کا یہی قول ہے۔ (التمہید ۷۵/۶۰)
سعودی عرب کے مشہور شیخ عبداللہ بن عبدالرحمٰن الجبرین کی تقدیم و مراجعت سے چھپی ہوئی کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ :
"الصواب: السنۃ وضع الید الیمنیٰ علی الیسریٰ علی الصدر"
صحیح یہ ہے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ، سینے پر رکھنا سنت ہے۔(القول المتین فی معرفۃ ما یہم المصلین ص ۴۹)

امام اسحاق بن راہویہ اپنے دونوں ہاتھ ، اپنی چھاتیوں پر یا چھاتیوں سے نیچے (سینے پر) رکھتے تھے۔ (مسائل الامام احمد واسحاق ص ۲۲۲ وصفۃ صلوٰۃ النبی ﷺ ص ۶۱)
اس کے برعکس دیوبندی وبریلوی حضرات یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ
"غیر مقلدین کہتے ہیں کہ ہاتھ سینے پر باندھنے چاہییں۔" (حدیث اور اہل حدیث ص۲۷۹)
دیوبندیوں وبریلویوں کا یہ دعویٰ ہے کہ "مردتو ناف سے نیچے ہاتھ باندھیں اور عورتیں سینہ پر ہاتھ باندھیں " حالانکہ اس دعویٰ کی کوئی صریح دلیل ان کے پاس نہیں ہے۔
آخر میں عرض ہے کہ بریلویوں ودیوبندیوں کے ساتھ اہل حدیث کا اصل اختلاف عقائد اور اصول میں ہے ۔ دیکھئے القول المتین فی الجہر بالتامین ص ۸ تا ۱۸

تنبیہ: رکوع کےبعد ہاتھ باندھنے چاہییں یا نہیں باندھنے چاہییں ، یہ مسئلہ اجتہادی ہے، دونوں طریقے صحیح ہیں، دیکھئے مسائل صالح بن احمد بن حنبل (قلمی ص۹۰،مطبوع ۲۰۵/۲ مسئلہ نمبر ۷۷۶)
اس سلسلے میں تشدد نہیں کرنا چاہیے، بہتر یہی ہے کہ رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑ دیئے جائیں تاہم اگر کوئی شخص ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتا ہے تو کوئی حرج نہیں۔ (۷/اگست ۲۰۰۴ء)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام

جو شخص کلمہ پڑھ کر دین اسلام میں داخل ہوتا ہے اس پر نماز کی ادائیگی فرض ہوجاتی ہے۔
دیکھئے سورۃ النساء آیت نمبر ۱۳۰، نیز ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ Oالَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ O 
یقینا فلاح پائی اہل ایمان نے جو اپنی نمازوں میں خشوع کرتے ہیں۔ (المؤمنون: ۱،۲)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اسلام کی بنیاد پانچ (چیزوں) پر رکھی گئی ہے:
۱۔ اشھد ان لا الہ الا اللہ اور اشھد ان محمدالرسول اللہ۔
۲۔ نماز قائم کرنا
۳۔ زکوٰۃ ادا کرنا
۴۔ حج کرنا
۵۔ اور رمضان کے روزے رکھنا
(ھذا حدیث صحیح متفق علی صحتہ، شرح السنۃ للبغوی ج ۱ ص۱۷، ۱۸ ح۶، البخاری:۸، مسلم: ۱۶)

قیامت کے دن انسان سے پہلا سوال نماز کے بارے میں ہوگا۔ (سنن ابن ماجہ: ۱۴۲۶ وسندہ صحیح وصححہ الحاکم علیٰ شرط مسلم ۲۶۲/۱، ۲۶۳ ووافقہ الذہبی ولہ شاہد عنداحمد ۶۵/۴، ۱۰۳،۳۷۷/۵)

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
((صلوا کما رایتمونی اصلی))
نماز اسی طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
(صحیح بخاری ۸۹/۲ ح۶۳۱)
نماز میں ایک اہم مسئلہ ہاتھ باندھنے کا ہے ،

ایک گروہ کہتا ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنا رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔

دلیل نمبر ۱:
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع پر رکھیں [یہ حدیث مرفوع ہے]
(مؤطا امام مالک ۱۵۹/۱ ح۳۷۷، صحیح بخاری مع فتح الباری ۱۷۸/۲ح ۷۲۰)

دلیل نمبر۲:
نمازمیں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنے کی احادیث متعددصحابہ سے صحیح یا حسن اسانید کے ساتھ مروی ہیں، مثلاً:

۱۔ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ (مسلم: ۴۰۱ وابوداؤد: ۷۲۷)
۲۔ جابر رضی اللہ عنہ (احمد ۳۸۱/۳ح ۱۵۱۵۶ وسندہ حسن)
۳۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ (صحیح ابن حبان ، الموارد: ۸۸۵ وسندہ صحیح)
۴۔ عبداللہ بن جابر البیاضی رضی اللہ عنہ (معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم الاصبہانی ۱۶۱۰/۳ ح۴۰۵۴وسندہ حسن واوردہ الضیاء فی المختارۃ ۱۳۰/۹ح۱۱۴)
۵۔ غضیف بن الحارث رضی اللہ عنہ (مسند احمد ۱۰۵/۴، ۲۹۰/۵ وسندہ حسن)
۶۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (ابوداؤد: ۷۵۵ وابن ماجہ: ۸۱۱ وسندہ حسن)
۷۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ (ابوداؤد: ۷۵۴ واسنادہ حسن واوردہ الضیاء المقدسی فی المختارۃ ۳۰۱/۹ح ۲۵۷)
یہ حدیث متواتر ہے۔ (نظم المتناثر من الحدیث المتواتر ص۹۸ ح ۶۸)

دوسرا گروہ کہتا ہے نما ز میں ارسال کرنا چاہیے (ہاتھ نہ باندھے جائیں)​
اس گروہ کی دلیل
المعجم الکبیرللطبرانی میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں ارسال یدین کرتے تھے اور کبھی کبھار دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھتے تھے۔
(مجمع الزوائد۱۰۲/۲)
اس دلیل کا جائزہ
اس روایت کی سند کا ایک راوی خصیف بن جحدر ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ۷۴/۲۰، ح۱۳۹)

امام بکاری ، ابن الجارود، الساجی شعبہ ، القطان اور ابن معین وغیرہ نے کہا: کذاب (جھوٹا) ہے۔ (دیکھئے لسان المیزان ۴۸۶/۲)
حافظ ہیثمی نے کہا: کذاب ہے۔ (مجمع الزوائد ۱۰۲/۲)
معلوم ہوا کہ یہ سند موضوع (من گھڑت) ہے لہٰذا اس کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
تقلید پرستی کا ایک عبرتناک واقعہ


حسین احمد مدنی ٹانڈوی دیوبندی فرماتے ہیں:
"ایک واقعہ پیش آیا کہ ایک مرتبہ تین عالم (حنفی ، شافعی اور حنبلی) مل کر ایک مالکی کے گھر گئے اور پوچھا کہ تم ارسال کیوں کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ : میں امام مالک کا مقلد ہوں دلیل ان سے جاکر پوچھو، مجھے دلائل معلوم ہوتے تو تقلید کیوں کرتا ، تو وہ لوگ ساکت ہوگئے۔"
(تقریر ترمذی ص۳۹۹ مطبوعہ کتب خانہ مجیدیہ ملتان)

معلوم ہوا کہ تقلید کرنے والا دلیل کی طرف دیکھتا ہی نہیں اور نہ دلیل سنتا ہے ، یاد رہے کہ امام مالک سے ارسال یدین قطعاً ثابت نہیں ہے۔ مالکیوں کی غیر مستند کتاب "مدونہ" کا حوالہ مؤطا امام مالک کے مقابلے میں مردود ہے۔
اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ نماز میں ہاتھ باندھنا ہی سنت ہے۔ اور نمازمیں ہاتھ نہ باندھنا خلاف سنت ہے، اب ہاتھ کہاں باندھیں جائیں اس میں اہل حدیث اور اہل الرائے کا اختلاف ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
ناف سے نیچے ہاتھ باندھنا اور اس کا تجزیہ

اہل الرائے کا دعویٰ ہے کہ ہاتھ ناف سے نیچے باندھے جائیں ۔ ان کے پیش کردہ دلائل درج ذیل ہیں:

دلیل نمبر۱:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز میں سنت یہ کہ ہتھیلی کو ہتھیلی پر ناف کے نیچے رکھا جائے۔
(سنن ابی داؤد ۴۸۰/۱، ۴۸۱ ح ۷۵۸، ۷۵۶)

جائزہ:
اس روایت کا دارومدار عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی پر ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی علمائے اسماء الرجال کی نظر میں


۱۔ ابوزرعہ الرازی نے کہا: لیس بالقوی (الجرح والتعدیل ۲۱۳/۵)
۲۔ ابو حاتم الرازی نے کہا: ھوضعیف الحدیث ، منکر الحدیث یکتب حدیثہ ولا یحتج بہ (الجرح والتعدیل ۲۱۳/۵)
۳۔ ابن خزیمہ نے کہا: ضعیف الحدیث (کتاب التوحید ص ۲۲۰)
۴۔ ابن معین نے کہا: ضعیف ، لیس بشیء (الجرح والتعدیل ۲۱۳/۵ وسندہ صحیح ، تاریخ ابن معین ۱۵۵۹، ۳۰۷۰)
۵۔ احمد بن حنبل نے کہا: منکر الحدیث (کتاب الضعفاء للبخاری ۲۰۳، التاریخ الکبیر ۲۵۹/۵)
۶۔ بزار نے کہا: لیس حدیثہ حدیث حافظ (کشف الاستار: ۸۵۹)
۷۔ یعقوب بن سفیان نے کہا: ضعیف (کتاب المعرفۃ والتاریخ ۵۹/۳)
۸۔ عقیلی نے کہا: ذکرہ فی کتاب الضعفاء (۳۲۲/۲)
۹۔ العجلی نے کہا: ضعیف جائز الحدیث یکتب حدیثہ (تاریخ العجلی : ۹۳۰)
۱۰۔ بخاری نے کہا: ضعیف الحدیث (العلل للترمذی ۲۲۷/۱)
اور کہا:فیہ نظر (الکامل لابن عدی۱۶۱۳/۴ وسندہ صحیح)​
۱۱۔ نسائی نے کہا: ضعیف (کتاب الضعفاء للنسائی: ۳۵۸)
اور کہا: لیس بثقۃ (سنن النسائی ۹/۶ ح۳۱۰۱)​
۱۲۔ ابن سعد نے کہا: ضعیف الحدیث (طبقات ابن سعد ۳۶۱/۶)
۱۳۔ ابن حبان نے کہا: کان ممن یقلب الاخبار والاسانید وینفرد بالمناکیر عن المشاھیر ، لا یحل الاحتجاج بخیرہ (کتاب المجروحین ۵۴/۲)
۱۴۔ دارقطنی نے کہا: ضعیف (سنن دارقطنی ۱۲۱/۲ ح ۱۹۸۲)
۱۵۔ بیہقی نے کہا: متروک (السنن الکبری ۳۲/۲)
۱۶۔ ابن جوزی نے اس کو الضعفاء والمتروکین میں ذکر کیا اور کہا: "وویحدث عن النعمان عن المغیرۃ احادیث مناکیر" (۸۹/۲ ت ۱۸۵۰)
اور کہا: "المتھم بہ عبدالرحمٰن بن اسحاق" (الموضوعات ۲۵۷/۳)​
۱۷۔ الذہبی نے کہا: ضعفوہ (الکاشف ج ۲ ص ۲۶۵)
۱۸۔ ابن حجر نے کہا: کوفی ضعیف (تقریب التہذیب : ۳۷۹۹)
۱۹۔ نووی نے کہا: ھو ضعیف بالاتفاق (شرح مسلم ج۴ ص ۱۱۵، نصب الرایہ ج ۱ ص ۳۱۴)
۲۰۔ ابن الملقن نے کہا: فانہ ضعیف (البدر المنیر ۱۷۷/۴)
الزرقانی نے بھی شرح مؤطا امام مالک (ج۱ ص ۳۲۱) میں کہا: "واسنادہ ضعیف"
اس تفصیل سے معلوم ہواکہ عبدالرحمٰن بن اسحاق جمہور محدثین کرام کے نزدیک ضعیف و مجروح ہے بعض نے اس کو متہم اور متروک بھی کہا لہٰذا اس کی روایت مردود ہے۔
اسی لیے حافظ ابن حجر نے کہا: "واسنادہ ضعیف" (الدرایہ ۱۶۸/۱)
بیہقی نے کہا: "لایثبت اسنادہ"
نووی نے کہا: "ھو حدیث متفق علی تضعیفہ" (نصب الرایہ ج۱ ص۳۱۴)

زیلعی حنفی نے تو اس کی کوئی تردید نہیں کی مگر نصب الرایہ کے متعصب محشی فرماتے ہیں:
"ترمذی نے عبدالرحمٰن بن اسحاق کی حدیث کی تحسین اور حاکم نے تصحیح کی ہے" حالانکہ ترمذی اور حاکم دونوں ان لوگوں کے نزدیک تساہل کے ساتھ مشہور ہیں۔ ترمذی نے کثیر بن عبداللہ کی حدیث کی تصحیح کی ہے جبکہ کثیر کو کذاب بھی کہا گیا ہے ، اسی لیے بقول حافظ ذہبی "علماء ترمذی کی تصحیح پر اعتماد نہیں کرتے۔"
(میزان الاعتدال ۴۰۷/۳)

حاکم نے مستدرک میں عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کی حدیث کی تصحیح کی ہے ، حالانکہ یہی حاکم اپنی کتاب "المدخل الی الصحیح" میں لکھتے ہیں:
"روی عن ابیہ احادیث موضوعۃ لا یخفی علی من تاملھا من اھل الصنعۃ ان الحمل فیھا علیہ" (ص۱۰۴)
زیلعی حنفی لکھتے ہیں کہ: "وتصحیح الحاکم لا یعتد بہ" (نصب الرایہ ۳۴۴/۱)
یعنی حنفیوں کے نزدیک حاکم کی تصحیح کسی شمار وقطار میں نہیں ہے، اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ ابن خزیمہ نے تو عبدالرحمٰن پر جرح کی ہے۔ دیکھئے کتاب التوحید (ص۲۲۰)

یاد رہے کہ عبدالرحمٰن مذکور کی تحت السرۃ والی روایت کو کسی محدث وامام نے صحیح یا حسن نہیں کہا، لہٰذا امام نووی کی بات صحیح ہے کہ یہ حدیث بالاتفاق ضعیف ہے۔
عبدالرحمٰن کے اساتذہ میں زیاد بن مجہول ہے۔ (تقریب التہذیب: ۲۰۷۸)
نعمان بن سعد کی توثیق سوائے ابن حبا کے کسی نے نہیں کی اور اس سے عبدالرحمٰن روایت میں تنہا ہے لہٰذا حافظ ابن حجر نے کہا: "فلا یحتج بخیرہ" (تہذیب التہذیب ۴۰۵/۱۰)
عبدالرحمٰن الواسطی نے "عن سیار ابی الحکم عب ابی وائل قال قال ابو ھریرۃ۔۔۔"
کی ایک سند فٹ کی ہے، اس کے بارے میں امام ابو داؤد نے کہا:
"وروی عن ابی ھریرۃ ولیس بالقوی"
اور ابوہریرہ ( رضی اللہ عنہ ) سے مروی ہے اور وہ قوی نہیں ہے۔
(سنن ابی داؤد ج ۱ ص۴۸۰ حدیث ۷۵۷)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
دلیل نمبر ۲:
وعن انس ۔۔۔ ووضع الیدی الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلوٰۃتحت السرۃ

جائزہ:
اس روایت کی سند میں ایک راوی وعید بن زربی ہے۔
(الخلافیات للبیہقی قلمی ص۳۷ ومختصر الخلافیات ۳۴۲/۱)

سعید بن زربی سخت ضعیف راوی ہے۔
حافظ ابن حجر نے فرمایا: "منکر الحدیث"
یہ (شخص) منکر حدیثیں بیان کرنے والا ہے۔ (تقریب التہذیب : ۲۳۰۴)
تنبیہ: محلی ابن حزم اور الجوہر النقی میں یہ روایت بغیر سند کے مذکور ہے۔
دوسرا گروہ کہتا ہے کہ نماز میں ناف سے اوپر سینے پر ہاتھ باندھنے چاہییں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
سینے پر ہاتھ باندھنا

دلیل نمبر ۱:
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ،
"ثم وضع یدہ الیمنیٰ علی ظھر کفہ الیسریٰ والرسغ والساعد "
پھر آپ نے دایاں ہاتھ بائیں ہتھیلی، کلائی اور (ساعد)بازوپر رکھا۔
صحیح ابن خزیمہ (۲۴۳/۱ ح ۴۸۰، ۷۱۴) صحیح ابن حبان (۱۶۷/۳ ح ۱۸۵۷ والموارد: ۴۸۵) مسند احمد (۳۱۸/۴ ح ۱۹۰۷۵) سنن نسائی(۱۲۶/۲ ح ۸۹۰) سنن ابی داؤد مع بذل المجہود (۴۳۷/۴، ۴۳۸ ح ۷۲۷ وسندہ صحیح)

جائزہ:
۱۔ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ: صحابی جلیل (تقریب التہذیب : ۷۳۹۳)
۲۔ کلیب : صدوق (تقریب التہذیب: ۵۶۶۰)
۳۔ عاصم بن کلیب: صدوق رمی بالارجاء (تقریب التہذیب : ۳۰۷۵)
یہ صحیح مسلم کے راوی ہیں۔
۴۔ زائدہ بن قدامہ: ثقۃ ثبت صاحب سنۃ (تقریب التہذیب: ۶۹۸۲)
۵۔ ابوالولید ہشام بن عبدالملک الطیالسی: ثقۃ ثبت (تقریب التہذیب: ۷۳۰۱)
۶۔ الحسن بن علی الحلوانی: ثقۃ حافظ لہ تصانیف (تقریب التہذیب: ۱۲۶۲)
معلوم ہوا کہ یہ سند صحیح ہے۔
نیموی نے بھی آثار السنن (ص۸۳) میں کہا: "واسنادہ صحیح"

تشریح: "الکف والرسغ والساعد" اصل میں ذراع (حدیث بخاری: ۷۴۰) کی تشریح ہے۔
المعجم الوسیط (۴۳۰/۱) میں ہے: " الساعد: مابین المرفق الکف من اعلی"
ساعد کہنی اور ہتھیلی کے درمیان (اوپر کی طرف) کو کہتے ہیں۔
تنبیہ: " الساعد "کے مراد پوری "الساعد "ہے بعض الساعد نہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: "لان العبرۃ بعموم اللفظ حتی یقوم دلیل علی التخصیص"
جب تک تخصیص کی دلیل قائم نہ کی جائے عموم لفظ کا ہی اعتبار ہوتا ہے۔
(فتح الباری ۲۶۱/۱۲ تحت ح ۲۹۵۱)
"بعض الساعد" کی تخصیص کسی حدیث میں نہیں ہے، لہٰذا ساری "الساعد" پر ہاتھ رکھنا لازم ہے، تجربہ شاہد ہے کہ اس طرح ہاتھ رکھے جائیں تو خودبخود سینے پر ہی ہاتھ رکھے جاسکتے ہیں۔

دلیل نمبر ۲:
قال الامام احمد فی مسندہ: "ثنا یحیی بن سعید عن سفیان حدثنی سماک عن قبیصۃ بن ھلب عن ابیہ قال: رایت النبی ﷺ ینصرف عن یمینہ وعن شمالہ ورایتہ یضع ھذہ علی صدرہ/
وصف یحیی الیمنی علی الیسریٰ فوق المفصل"

ہلب الطائی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے بنی ﷺ کو (نماز سے فارغ ہوکر) دائیں اور بائیں (دونوں) طرف سلام پھیرتے ہوئے دیکھا ہے اور دیکھا ہے کہ آپ یہ (ہاتھ) اپنے سینے پر رکھتے تھے۔ یحیی (القطان راوی) نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر (عملاً) بتایا۔
(مسنداحمد ۲۲۶/۵ح۲۲۳۱۳ وسندہ حسن والتحقیق لابن الجوزی ۲۸۳/۱)

سند کی تحقیق
۱۔ یحیی بن سعید (القطان): ثقۃ متقن حافظ امام قدوۃ من کبار التاسعۃ (تقریب التہذیب: ۷۵۵۷)
۲۔ سفیان (الثوری): ثقۃ حافظ فقیہ عابدامام حجۃ من روؤس الطبقۃ السابعۃ وکان ربما دلس (تقریب التہذیب: ۲۴۴۵)
۳۔ سماک بن حرب:صدوق وروایتہ عن عکرمۃ خاصۃ مضطربۃ وقد تغیر باخرۃ فکان ربما تلقن۔ (تقریب التہذیب: ۲۶۲)
یاد رہے کہ سماک کی یہ روایت عکرمہ سے نہیں ہے، لہٰذا اضطراب کا خدشہ نہیں، سفیان الثوری نے سماک سے حدیث کا سماع قدیماً (اختلاط سے پہلے) کیا ہے لہٰذا ان کی سماک سے حدیث مستقیم ہے۔
(دیکھئے بذل المجہود ج ۴ ص۴۸۳، تصنیف خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی)
سماک کی روایت صحیح مسلم ، بخاری فی التعلیق اور سنن اربعہ میں ہے۔ (نیز دیکھئے ص۳۹) [یہ کتاب کا صفحہ ہے: محدث فورم پر سماک کی توثیق ملاحظہ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں۔۔شاکر]
۴۔ قبیصۃ بن ہلب (الطائی):
ابن مدینی نے کہا: مجہول ہے
نسائی نے کہا: مجہول ۔
العجلی نے کہا: ثقہ ہے
ابن حبان نے ثقہ لوگوں میں شمار کیا۔ (تہذیب التہذیب ۳۱۴/۷)
ترمذی نے اس کی ایک حدیث کو حسن کہا (سنن الترمذی: ۲۵۲)
اور ابوداؤد نے اس کی حدیث پر سکوت کیا۔(سنن ابی داؤد ج۴ص۱۴۷، کتاب الاطعمۃ ، باب کراہیۃ التقدز للطعام ح ۳۷۸۴)
ظفر احمد تھانوی دیوبندی کی تحقیق یہ ہے کہ ابوداؤد کا سکوت حدیث کے صالح الاحتجاج ہونے کی دلیل ہے اور اس کی سند راویوں کے صالح ہونے کی بھی دلیل ہے۔
(قواعد الدیوبندیہ فی علوم الحدیث ص:۲۲۴، ۸۳)
اگرچہ یہ قاعدہ مشکوک وباطل ہے لیکن دیوبندی حضرات پر تھانوی صاحب کی بات بہرحال حجت ہے ، امام بخاری نے اس کو التاریخ الکبیر (۱۷۷/۷) میں ذکر کیا ہے اور اس پر کوئی جرح نہیں کی۔
تھانوی صاحب کی تحقیق کے مطابق اگر امام بخاری کسی شخص پر اپنی تواریخ میں طعن (وجرح) نہ کریں تو وہ ثقہ ہوتا ہے۔
(قواعد فی علوم الحدیث ص ۲۲۳طبع بیروت)
ابن ابی حاتم نے کتاب الجرح والتعدیل (۱۲۵/۷) میں اس کا ذکر کرکے سکوت کیا ہے۔
تھانوی صاحب کے نزدیک ابن ابی حاتم کاسکوت راوی کی توثیق ہے۔
(قواعد فی علوم الحدیث ص ۳۵۸)
تھانوی صاحب کے یہ اصول علی الاطلاق صحیح نہیں ہیں، ان پر مشہور عرب محقق عداب محمود الحمش نے اپنی کتاب "رواۃ الحدیث الذین سکت علیھم ائمۃ الجرح والتعدیل بین التوثیق والتجھیل" میں زبردست تنقید کی ہے۔ تھانوی صاحب کے اصول الزامی طور پرپیش کئے گئے ہیں۔
امام العجلی معتدل امام ہیں لہٰذا العجلی ، ابن حبان اور الترمذی کی توثیق کو مدنظر رکھتے ہوئے صحیح بات یہ ہے کہ قبیصہ بن ہلب حسن الحدیث راوی ہیں۔
قبیصہ کے والد ہلب رضی اللہ عنہ صحابی ہیں۔ (تقریب التہذیب : ۷۳۱۵)

ایک بے دلیل اعتراض
نیموی صاحب فرماتے ہیں:
"رواہ احمد واسنادہ حسن لکن قولہ علی صدرہ غیر محفوظ"
اسےاحمد نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے لیکن "علی صدرہ" کے الفاظ محفوظ نہیں ہیں۔
(آثار السنن ص۸۷ ح۲۳۶)
جواب
نیموی صاحب کا یہ فرمان قرین صواب نہیں ہے، کیونکہ انھوں نے سفیان الثوری کے تفرد کو اپنے اس فیصلہ کی بنیاد بنایا ہے جب کہ حدیث کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ کسی راوی کا کسی لفظ میں منفرد ہونا اس لفظ کے غیر محفوظ ہونے کی کافی دلیل نہیں ہوتا تاوقتیکہ وہ الفاظ اس سے زیادہ ثقہ راوی کے الفاظ کے سراسر منافی نہ ہوں۔ حافظ ابن حجرؒ شرح نخبۃ الفکر میں فرماتے ہیں:
"وزیادۃ راویھا مقبولۃ مالم تقع منافیۃ لمن ہو اوثق"
صحیح اور حسن حدیث کے راوی کے وہ الفاظ مقبو ل ہوں گے جو دوسروں کے بالمقابل زیادہ کرے بشرطیکہ وہ اوثق کے خلاف نہ ہوں۔
(تحفۃ الدر ص ۱۹)
ظاہر ہے کہ علی صدرہ کے الفاظ اضاف ہیں ، منافی نہیں ہیں۔

شاہد نمبر۱:
قال ابن خزیمۃ فی صحیحہ: "نا ابوموسیٰ : نا مؤمل : نا سفیان عن عاصم بن کلیب عن ابیہ عن وائل بن حجر قال: صلیت مع رسول اللہ ﷺ ووضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسریٰ علی ٰ صدرہ"
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ ﷺ نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر سینہ پر رکھا۔
(ابن خزیمہ۲۴۳۱/۱ح ۴۷۹ واحکام القرآن للطحاوی ۱۸۶/۱ ح ۳۲۹)

سند کا جائزہ:
بعض آل تقلید نے اس کے راوی مؤمل بن اسماعیل پر جرح نقل کی ہے۔
(بذل المجہود فی حل ابی داؤد ۴۸۶/۴ ، آثار السنن : ۳۲۵)
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
مؤمل بن اسماعیل

تعدیل کرنے والے: تعدیل
۱: یحیٰ بن معین: ثقۃ (تاریخ ابن معین: ۲۳۵)
۲: الضیاء المقدسی: اورد حدیثہ فی المختارۃ (۳۴۵/۱ ح ۲۳۷)
۳: ابن حبان: ذکرہ فی الثقات وقال : ربما اخطا (۱۸۷/۹)
۴: احمد: روی عنہ (دیکھئے مجمع الزوائد ۸۰/۱)
۵: ابن شاہین: ذکرہ فی کتاب الثقات (۱۴۱۶)
۶: الدارقطنی: صحح لہ فی سننہ (۱۸۶/۲ح ۲۲۶۱)
۷: سلیمان بن حرب: یحسن الثناء علیہ (کتاب المعرفۃ والتاریخ ۵۲/۳)
۸: الحاکم: صحح لہ فی المستدرک (۳۸۴/۱)
۹: الذہبی: کان من ثقات البصریین (العبر ۳۵۰/۱)
۱۰: الترمذی: صحح لہ فی سننہ (۶۷۲)
۱۱: ابن کثیر : قواہ فی تفسیرہ (۴۳۲/۴)
۱۲: الہیثمی: ثقۃ وفیہ ضعف ، المجمع (۱۸۳/۸)
۱۳: ابن خزیمہ: اخرج عنہ ، فی صحیحہ (۲۴۳/۱ ح ۴۷۹)
۱۴: البخاری: اخرج عنہ تعلیقاً فی صحیحہ (دیکھئے ح ۲۷۰۰)
وغیرہم ، نیز دیکھئے ص ۲۸تا ۳۸

جرح کرنے والے: جرح
۱: ابوحاتم: صدوق شدید فی السنۃ کثیر الخطا یکتب حدیثہ (کتاب الجرح والتعدیل ۳۷۴/۸)
* ابوزرعہ الرازی: فی حدیثہ خطا کثیر ( یہ قول ابوزرعہ سے ثابت نہیں ہے)
۲: یعقوب بن سفیان: یروی المناکیر عن ثقات شیوخنا۔۔۔۔(المعرفۃ والتاریخ ۵۲/۳)
* الساجی: صدوق کثیر الخطا ولہ اوھام (یہ قول ثابت نہیں ہے)
۳: ابن سعد: ثقۃ کثیر الغلط (طبقات ابن سعد ۵۰۱/۵)
* ابن قانع: صالح یخطئ (یہ قول ثابت نہیں ہے)
۴: الدارقطنی: صدوق کثیر الخطا (سوالات الحاکم للدارقطنی : ۴۹۲)
*محمدبن نصر المروزی: سیئ الحفظ کثیر الغلط (یہ قول ثابث نہیں ہے)
۵: ابن حجر : صدوق سیئ الحفظ (تقریب التہذیب : ۷۰۲۹)
اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ ائمہ محدثین کی اکثریت کے نزدیک مؤمل بن اسماعیل ثقہ یا حسن الحدیث اور ثقہ دعدد کثیر کی بات عدد قلیل پر حجت ہے۔
[مؤمل بن اسماعیل پر تفصیل بحث کے لیے دیکھئے ص ۲۸ تا ۳۸]
تنبیہ: حافظ مزی، حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر نے بغیر کسی سند کے امام بخاری سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے مؤمل مذکور کے بارے میں کہا: "منکر الحدیث" امام بخاری کی یہ جرح ہمیں ان کی کسی کتاب میں نہیں ملی، التاریخ الکبیر (۴۹/۸) میں بخاری مؤمل بن اسماعیل کا ترجمہ لائے ہیں مگر اس پر کوئی جرح نہیں کی۔
ظفر احمد تھانوی صاحب ایک قاعدہ بتاتے ہیں کہ
" کل من ذکرہ البخاری فی "تواریخہ" ولم یطعن فیہ فھو ثقۃ"
ہر وہ شخص جس کو (امام) بخاری اپنی توراریخ میں بغیر طعن کے ذکر کریں تو وہ (دیوبندیوں کے نزدیک) ثقہ ہے۔
(قواعد فی علوم الحدیث ص ۲۲۳)
اس بات سے قطع نظر کہ یہ اصول اصلاً باطل ہے، تھانوی صاحب کے نزدیک امام بخاری کی رائے میں مؤمل بن اسماعلیل ثقہ ہے، واللہ اعلم۔ امام بخاری نے مؤمل بن سعید الرحبی کو ذکر کرکے "منکر الحدیث" کہا ہے۔ (التاریخ الکبیر ج ۸ ص ۴۹)
مؤمل بن سعید پر بخاری کی جرح حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر نے ذکر تک نہیں کی۔
(مثلاً ملاحظہ لسان المیزان ج۶ ص۱۶۱)
بخاری نے مؤمل بن اسماعیل کا ذکر "الضعفاء" میں نہیں کیا۔
متقدمین ومتاخرین جنھوں نے ضعفاء کے بارے میں کتابیں لکھی ہیں مثلاً ابن عدی ، ابن ھبان، عقیلی اور ابن لاجوزی وغیرہم ، انھوں نے مؤمل بن اسماعیل پر بخاری کی یہ نقل نہیں کی لہٰذا معلوم ہوا کہ حافظ مزی کو اس کے انتساب میں وہم ہوا ہے۔ ذہبی اور ابن حجر نے اس وہم میں ان کی اتباع کی ہے۔
اس کی دیگر مثالیں بھی ہیں مثلاً ملاحظہ کریں العلاء بن الحارث۔
(میزان الاعتدال ج۳ ص ۹۸ مع حاشیہ)

تطبیق وتوفیق
جارحین کی جرح عام ہے اور معدلین کی تعدیل میں تخصیص موجود ہے۔
یحیٰ بن معین نے مؤمل بن اسماعیل کو سفیان ثوری کی روایت میں ثقہ قراردیا ہے۔
(الجرح والتعدیل الابن ابی حاتم ۳۷۴/۸شرح علل الترمذی لابن رجب ص ۳۸۴، ۳۸۵)
مؤمل کی سفیان ثوری سے روایت کو ابن خزیمہ ، دارقطنی، حاکم، ذہبی ، ترمذی اور ابن کثیر نے صحیح و قوی قرار دیا ہے۔
(دیکھئے ص ۳۲،۳۳)
متقدمین میں سے کسی امام نے بھی مؤمل کو سفیان الثوری کی روایت میں ضعیف نہیں کہا لہٰذا معلوم ہوا کہ وہ ثوری سے روایت میں ثقہ ہیں۔
اسی لیے ظفر احمد تھانوی دیوبندی نے بھی اس کو ثقہ قرار دیا ہے۔ (دیکھئے اعلاء السنن ج۳ ص ۱۰۸)
اس طرح جارحین و معدلین کے اقوال میں تطبیق وتوفیق ہوجاتی ہے اور تعارض باقی نہیں رہتا۔
 
Top