• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا بیوی اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لکھ سکتی ہے ؟

عمران اسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
333
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
204
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کلیم بھائی بیوی کا اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگانا مشکوک ہے۔۔ (از عمران اسلم: لنک)


نوٹ:
کیا بیوی اپنے نام کے ساتھ شوہر کانام لکھ سکتی ہے؟ بحث کو نیو دھاگہ میں منتقل کردیا گیا ہے۔ اہل علم اپنی آراء وخیالات اس دھاگہ میں پیش فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ویسے کلیم بھائی بیوی کا اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگانا مشکوک ہے۔
عام معمول تو یہ ہے کہ نام کے ساتھ اپنے باپ کا نام لکھا ہوتا ہے۔ لیکن بیوی اگر اپنے نام کے ساتھ میاں کا نام کسی بھی وجہ سے لکھ دیتی ہے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ والی بات نہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
عام معمول تو یہ ہے کہ نام کے ساتھ اپنے باپ کا نام لکھا ہوتا ہے۔ لیکن بیوی اگر اپنے نام کے ساتھ میاں کا نام کسی بھی وجہ سے لکھ دیتی ہے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ والی بات نہیں۔
ویسے میرے خیال سے شادی کے بعد شوہر کا نام ہی آگے لگتا ہے. ہمارے یہاں کا تو یہی معمول ہے، اب پاکستان کا پتا نہیں. ابتسامہ
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
ویسے میرے خیال سے شادی کے بعد شوہر کا نام ہی آگے لگتا ہے. ہمارے یہاں کا تو یہی معمول ہے، اب پاکستان کا پتا نہیں. ابتسامہ
پاکستان میں تقریباً تمام رسومات ہی ہندوستان سے ہی آئی ہیں، لہٰذا ہمارے ہاں بھی یہی رواج ہے۔

ویسے میرے نزدیک بہتر یہی ہے کہ ہر ایک کی نسبت باپ کی طرف ہی ہو، کیوں کہ شوہر (وفات یا طلاق کی صورت میں) بدل بھی سکتا ہے (اللہ تعالیٰ ہر قسم کی آزمائش سے بچائیں!)، تو اس صورت میں تیسری مرتبہ نام چینج کرنا پڑے گا۔ فرمانِ باری ہے:
ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله ۔۔۔ سورة الأحزاب
انہیں ان کے باپوں کے نام سے بلاؤ، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف کی بات ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
پاکستان میں تقریباً تمام رسومات ہی ہندوستان سے ہی آئی ہیں، لہٰذا ہمارے ہاں بھی یہی رواج ہے۔

ویسے میرے نزدیک بہتر یہی ہے کہ ہر ایک کی نسبت باپ کی طرف ہی ہو، کیوں کہ شوہر (وفات یا طلاق کی صورت میں) بدل بھی سکتا ہے (اللہ تعالیٰ ہر قسم کی آزمائش سے بچائیں!)، تو اس صورت میں تیسری مرتبہ نام چینج کرنا پڑے گا۔ فرمانِ باری ہے:
ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله ۔۔۔ سورة الأحزاب
انہیں ان کے باپوں کے نام سے بلاؤ، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف کی بات ہے۔
یہ آیت مبارکہ "لے پالک" بیٹے کے متعلق ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
پاکستان میں تقریباً تمام رسومات ہی ہندوستان سے ہی آئی ہیں، لہٰذا ہمارے ہاں بھی یہی رواج ہے۔
ویسے میرے نزدیک بہتر یہی ہے کہ ہر ایک کی نسبت باپ کی طرف ہی ہو، کیوں کہ شوہر (وفات یا طلاق کی صورت میں) بدل بھی سکتا ہے (اللہ تعالیٰ ہر قسم کی آزمائش سے بچائیں!)، تو اس صورت میں تیسری مرتبہ نام چینج کرنا پڑے گا۔ فرمانِ باری ہے:
ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله ۔۔۔ سورة الأحزاب
انہیں ان کے باپوں کے نام سے بلاؤ، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف کی بات ہے۔
یہ آیت مبارکہ "لے پالک" بیٹے کے متعلق ہے۔
العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب

مطلب یہ ہے کہ یہ حکم واقعی ہی منہ بولی اولاد کے سیاق میں ہے، لیکن نص کے الفاظ عام ہیں تو ایسی صورت میں نص کے عموم کا اعتبار ہوتا ہے، نہ کہ اس مخصوص واقعے کا جس کے سیاق میں نص وارد ہوا ہے۔

گویا اسی آیت کریمہ کی رو سے جو لے پالک نہ بھی ہو اسے بھی اس کے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب نہیں کرنا چاہئے۔ نص کے عموم کا یہی تقاضا ہے، واللہ تعالیٰ اعلم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
مَّا جَعَلَ اللَّـهُ لِرَ‌جُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ ۚ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُ‌ونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ ۚ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللَّـهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ﴿٤﴾ سورة الأحزاب
خدا نے کسی آدمی کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے۔ اور نہ تمہاری عورتوں کو جن کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو تمہاری ماں بنایا اور نہ تمہارے لے پالکوں کو تمہارے بیٹے بنایا۔ یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں۔ اور خدا تو سچی بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا رستہ دکھاتا ہے

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک منافق یہ دعوی کرتا تھا کہ اس کے دو دل ہیں۔ ایک دل مسلمانوں کے ساتھ ہے اور دوسرا دل کفر اور کافروں کے ساتھ ہے۔ یہ آیت اس کی تردید میں نازل ہوئی۔ مطلب یہ ہے کہ مشرکین مکہ میں سے ایک شخص جمیل بن معمر فہر تھا، جو بڑا ہوشیار مکار اور نہایت تیز طرار تھا، اس کا دعوی تھا کہ میرے تو دو دل ہیں جن سے میں سوچتا سمجھتا ہوں۔ جب کہ محمد کا ایک ہی دل ہے۔ یہ آیت اس کے رد میں نازل ہوئی۔ (ایسر التفاسیر) بعض مفسرین کہتے ہیں کہ آگے جو دو مسئلے بیان کیے جا رہے ہیں، یہ ان کی تمہید ہے یعنی جس طرح ایک شخص کے دو دل نہیں ہو سکتے اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ظہار کر لے یعنی یہ کہہ دے کہ تیری پشت میرے لیے ایسے ہی ہے جیسے میری ماں کی پشت تو اس طرح کہنے سے اس کی بیوی، اس کی ماں نہیں بن جائے گی۔ یوں اس کی دو مائیں نہیں ہو سکتیں۔ اسی طرح کوئی شخص کسی کو اپنا بیٹا لے پالک بیٹا بنا لے تو وہ اس کا حقیقی بیٹا نہیں بن جائے گا بلکہ وہ بیٹا اپنے باپ کا ہی رہے گا اس کے دو باپ نہیں ہو سکتے۔

یعنی کسی کو ماں کہہ دینے سے وہ ماں نہیں بن جائے گی، نہ بیٹا کہنے سے بیٹا بن جائے گا، یعنی ان پر بنوت کے شرعی احکام جاری نہیں ہوں گے۔
اس لئے اس کا اتباع کرو اور ظہار والی عورت کو ماں اور لے پالک کو بیٹا مت کہو، خیال رہے کہ کسی کو پیار اور محبت میں بیٹا کہنا اور بات ہے اور لے پالک کو حقیقی بیٹا تصور کر کے بیٹا کہنا اور بات ہے۔ پہلی بات جائز ہے، یہاں مقصود دوسری بات کی ممانعت ہے۔

ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَـٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورً‌ا رَّ‌حِيمًا ﴿٥
سورة الأحزاب
مومنو! لےپالکوں کو اُن کے (اصلی) باپوں کے نام سے پکارا کرو۔ کہ خدا کے نزدیک یہی بات درست ہے۔ اگر تم کو اُن کے باپوں کے نام معلوم نہ ہوں تو دین میں وہ تمہارے بھائی اور دوست ہیں اور جو بات تم سے غلطی سے ہوگئی ہو اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں۔ لیکن جو قصد دلی سے کرو (اس پر مواخذہ ہے) اور خدا بخشنے والا مہربان ہے

اس حکم سے اس رواج کی ممانعت کر دی گئی جو زمانہ جاہلیت سے چلا آ رہا تھا اور ابتدائے اسلام میں بھی رائج تھا کہ لے پالک بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھا جاتا تھا۔ صحابہ کرام بیان فرماتے ہیں کہ ہم زید بن حارثہ کو جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آزاد کر کے بیٹا بنا لیا تھا زید بن محمد کہہ کر پکارا کرتے تھے، حتی کہ قرآن کریم کی آیت ادعوھم لآبائھم نازل ہو گئی اس آیت کے نزول کے بعد حضرت ابوحذیفہ کے گھر میں بھی ایک مسئلہ پیدا ہو گیا، جنہوں نے سالم کو بیٹا بنایا ہوا تھا جب منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھنے سے روک دیا گیا تو اس سے پردہ کرنا ضروری ہو گیا نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوحذیفہ کی بیوی کو کہا کہ اسے دودھ پلا کر اپنا رضاعی بیٹا بنا لو کیوں کہ اس طرح تم اس پر حرام ہو جاؤ گی چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ یعنی جن کے حقیقی باپوں کا علم ہے۔ اب دوسری نسبتیں ختم کر کے انہیں کی طرف انہیں منسوب کرو۔ البتہ جن کے باپوں کا علم نہ ہو سکے تو تم انہیں اپنا دینی بھائی اور دوست سمجھو، بیٹا مت سمجھو۔
اس لئے کہ خطا معاف ہے، جیسا کہ حدیث میں بھی صراحت ہے۔
یعنی جو جان بوجھ کر انتساب کرے گا وہ سخت گناہگار ہو گا، حدیث میں آتا ہے، ' جس نے جانتے بوجھتے اپنے غیر باپ کی طرف منسوب کیا۔ اس نے کفر کا ارتکاب کیا (صحیح بخاری)

تفسیر بیان القرآن
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
موضوع پر گزارشات پیش کرنے سے پہلے کچھ باتوں کا دھیان ضروری ہے۔

٭ بیوی اپنے نام کے ساتھ میاں کا نام محبت ومودت کی وجہ سے لگانا چاہے تو شرعاً کیا حرج ہے؟

٭ جس طرح لڑکے کےنام کے ساتھ باپ کا نام رواجی ہے اسی طرح بیوی اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لکھے تو یہ بھی رواجی ہے۔( اور دونوں معمول بہا بھی ہیں) دونوں رواجوں کے متعلق شرعی رہنمائی کیا ہے؟

٭ ظہار میاں سے متعلق حکم ہے۔کہ اگر میاں بیوی کو کہہ دے کہ آپ مجھ پر میری ماں کی طرح ہیں۔ حکم صادر ہوگا لیکن اگر عورت اپنے میاں کو کہہ دیتی ہے کہ آپ تو میرے بھائی یا میرے باپ کی طرح ہیں تو کیا پھر بھی یہی حکم مانا جائے گا۔؟

٭ مساجد میں نماز پڑھنے کےلیے معمول جوتے اتارنے کا ہے۔ کیا جوتے اتار کر نماز پڑھنے کے بارے کوئی شرعی دلیل ہے؟ ۔ اگر ہم جوتے اتار کر نماز پڑھتے ہیں تو کیا کفار اپنے مندروں میں جوتوں سمیت جاتے ہیں یا جوتے اتار کر ؟ جہاں تک مجھے معلوم ہے جوتے اتارےجاتے ہیں تو کیا اس عمل میں کفار سے مشابہت کس درجہ کی ہے ؟ کیونکہ ہم بھی جوتے اتارتے ہیں اور وہ بھی جوتے اتارتے ہیں۔ یاد رہے یہ مثال اس لیے پیش کی کیونکہ عبادت شعائر میں سے ہے۔ اور مسلم وغیر مسلم اپنی قائم کردہ جگہوں میں ایک ہی نیت سے جاتے ہیں۔
 
Top