ابو عبدالله
مشہور رکن
- شمولیت
- نومبر 28، 2011
- پیغامات
- 723
- ری ایکشن اسکور
- 448
- پوائنٹ
- 135
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہُ!
محترم اہل علم صاحبان!
کینیڈا میں گھر کی خریداری کیلیے بینک سے قرض لیا جاتا ہے جس کے تحت بینک گھر کے مالک کو گھر کی قیمت ادا کردیتا ہے اور قرض لینے والا بنا کچھ گروی رکھے گھر میں رہنے لگتا ہے اور ماہانہ بنیادوں پر اصل قیمت اور کچھ اضافی رقم (بینک انٹرسٹ + حکومتی ٹیکس) کی اقساط جمع کروانے لگتا ہے، رقم کی واپسی کا شیڈول دونوں کی مرضی اور سہولت سے طے پاتا ہے۔
معینہ عرصے میں اصل قیمت اور اضافی رقم (بینک انٹرسٹ + حکومتی ٹیکس) کی مکمل ادائیگی کے بعد گھر قرضہ لینے والے کے نام ہوجاتا ہے اور اگر ادائیگی کسی وجہ سے مکمل نا ہوسکے اور سودا منسوخ ہوجائے تو بینک اس وقت کے مارکیٹ ریٹ پر اس گھر کو فروخت کردیتا ہے اور سب سے پہلے شروع میں مقرر کردہ ریٹ پر اس وقت تک کا اپنا انٹرسٹ اور ٹیکس کرایہ کی مد میں کاٹے گا اور قرض لینے والے کی باقی ادا شدہ رقم اسے واپس کردے گا (رقم کی یہ واپسی عام طور پر سودی لین دین کے معاملات میں نہیں ہوتی)۔
اسی طرح اگر پہلی قیمت خرید سے کم قیمت میں فروخت ہوا تو پھر بھی بینک سب سے پہلے شروع میں مقرر کردہ ریٹ پر اس وقت تک کا اپنا انٹرسٹ اور ٹیکس کرایہ کی مد میں کاٹے گا اور قرض لینے والے کی باقی ادا شدہ رقم اسے واپس کردے گا چاہے وہ اصل قیمت کی مد میں ادا شدہ رقم سے کم ہو یا زیادہ (رقم کی یہ واپسی عام طور پر سودی لین دین کے معاملات میں نہیں ہوتی)۔
اس کے علاوہ قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس طریقے کے علاوہ کسی دوسرے طریقے سے (یعنی یکمشت ادائیگی کرکے یا بینک کو انوالو کیے بغیر) گھر کی خریداری ممکن نہیں ہے چاہے ساری زندگی کرایہ پر رہنا پڑے اور گھروں کا کرایہ بھی عام طور پر بینک کی قسط میں موجود اضافی رقم سے زیادہ ہی ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں شریعت کی رہنمائی درکار ہے کہ وہاں رہنے والا مسلمان کیا کرے؟
اپنا گھر ہی نا خریدے اور ساری عمر کرایہ پر رہے یا مندرجہ بالاطریقے پر گھر خرید سکتا ہے؟
جزاکم اللہ خیرا
محترم اہل علم صاحبان!
کینیڈا میں گھر کی خریداری کیلیے بینک سے قرض لیا جاتا ہے جس کے تحت بینک گھر کے مالک کو گھر کی قیمت ادا کردیتا ہے اور قرض لینے والا بنا کچھ گروی رکھے گھر میں رہنے لگتا ہے اور ماہانہ بنیادوں پر اصل قیمت اور کچھ اضافی رقم (بینک انٹرسٹ + حکومتی ٹیکس) کی اقساط جمع کروانے لگتا ہے، رقم کی واپسی کا شیڈول دونوں کی مرضی اور سہولت سے طے پاتا ہے۔
معینہ عرصے میں اصل قیمت اور اضافی رقم (بینک انٹرسٹ + حکومتی ٹیکس) کی مکمل ادائیگی کے بعد گھر قرضہ لینے والے کے نام ہوجاتا ہے اور اگر ادائیگی کسی وجہ سے مکمل نا ہوسکے اور سودا منسوخ ہوجائے تو بینک اس وقت کے مارکیٹ ریٹ پر اس گھر کو فروخت کردیتا ہے اور سب سے پہلے شروع میں مقرر کردہ ریٹ پر اس وقت تک کا اپنا انٹرسٹ اور ٹیکس کرایہ کی مد میں کاٹے گا اور قرض لینے والے کی باقی ادا شدہ رقم اسے واپس کردے گا (رقم کی یہ واپسی عام طور پر سودی لین دین کے معاملات میں نہیں ہوتی)۔
اسی طرح اگر پہلی قیمت خرید سے کم قیمت میں فروخت ہوا تو پھر بھی بینک سب سے پہلے شروع میں مقرر کردہ ریٹ پر اس وقت تک کا اپنا انٹرسٹ اور ٹیکس کرایہ کی مد میں کاٹے گا اور قرض لینے والے کی باقی ادا شدہ رقم اسے واپس کردے گا چاہے وہ اصل قیمت کی مد میں ادا شدہ رقم سے کم ہو یا زیادہ (رقم کی یہ واپسی عام طور پر سودی لین دین کے معاملات میں نہیں ہوتی)۔
اس کے علاوہ قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس طریقے کے علاوہ کسی دوسرے طریقے سے (یعنی یکمشت ادائیگی کرکے یا بینک کو انوالو کیے بغیر) گھر کی خریداری ممکن نہیں ہے چاہے ساری زندگی کرایہ پر رہنا پڑے اور گھروں کا کرایہ بھی عام طور پر بینک کی قسط میں موجود اضافی رقم سے زیادہ ہی ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں شریعت کی رہنمائی درکار ہے کہ وہاں رہنے والا مسلمان کیا کرے؟
اپنا گھر ہی نا خریدے اور ساری عمر کرایہ پر رہے یا مندرجہ بالاطریقے پر گھر خرید سکتا ہے؟
جزاکم اللہ خیرا