ساتواں انسان
مبتدی
- شمولیت
- جولائی 05، 2020
- پیغامات
- 88
- ری ایکشن اسکور
- 1
- پوائنٹ
- 17
" اس شخص سے بہتر دین میں کون ہے جس نے اللہ کے حکم پر پیشانی رکھی اور وہ نیکی کرنے والا ہوگیا اور ابراہیم کے دین کی پیروی کی جو یکسو تھا ، اور اللہ نے ابراہیم کو خاص دوست بنا لیا ہے ( سورۃ النساء 125 ) "
" بے شک ابراہیم ایک پوری امت تھا اللہ کا فرمانبردار تمام راہوں سے ہٹا ہوا ، اور مشرکوں میں سے نہ تھا ( سورۃ النحل 120 ) "
قرآن میں اللہ تعالی نے ابراہیم {ع} کو دوست کہا اور خلیل کا لفظ استعمال کیا جس کے معنی ہے انتہائی گہری محبت ۔
اللہ تعالی نے ابراہیم {ع} کے متعلق " امت " کا لفظ بھی فرمایا جس سے مراد پیشوا و امام ، ہدایت یافتہ بھلائی و خیر کا داعی ، یعنی جس کے نقش قدم پر چلا جائے ۔ اللہ نے ان کو اپنا دوست بنایا اور ان کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی رکھ دی کیونکہ ابراہیم {ع} صراط مستقیم پر گامزن تھے اور اپنے پروردگار کے تمام احکام پر کاربند تھے
اسحاق بن یسار نے کہا جب اللہ نے ابراہیم {ع} کو اپنا دوست بنالیا تو ان کے دل میں خوف پیدا ہوگیا ، حتی کہ ان کے دل کی دھڑکنیں دور سے ایسے سنائی دیتی تھیں جیسے فضا میں پرندوں کے پھڑکنے کی آواز سنائی دیتی ہے ۔ ۔ ۔ واللہ اعلم
عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ ابراہیم {ع} لوگوں کی مہمان نوازی بہت فرماتے تھے ۔ ایک دن اسی غرض سے کسی کی تلاش میں نکلے لیکن کوئی ایسا نہ ملا جس کی مہمان نوازی کریں تو واپس گھر لوٹے وہاں ایک اجنبی شخص کو کھڑا پایا
آپ نے پوچھا اے اللہ کے بندے میری اجازت کے بغیر کیسے میرے گھر میں داخل ہوئے ؟
اس شخص نے جواب دیا میں اس گھر کے مالک یعنی تیرے رب کی اجازت سے داخل ہوا ہوں ۔
آپ نے پھر پوچھا تو کون ہے ؟
جواب دیا میں ملک الموت ہوں اللہ نے مجھے اپنے بندوں میں سے ایک بندے کے پاس بھیجا ہے تاکہ میں اس کو خوشخبری دوں کہ اللہ نے اس کو اپنا دوست منتخب کرلیا ۔
ابراہیم {ع} نے بڑی بےچینی اور محبت و شوق کے عالم میں پوچھا وہ کون ہے ؟ اللہ کی قسم اگر تو مجھے اس کا پتہ بتا دے تو خواہ وہ دنیا کے آخری کنارے میں ہو ، میں اس کے پاس پہنچوں گا پھر ہمیشہ کے لیے اس کا پڑوسی بن کر رہوں گا حتی کہ موت آکر ہمارے درمیان فراق و جدائی کردے
اس نے کہا وہ آپ ہی ہیں
ابراہیم {ع} نے انتہائی تعجب سے پوچھا میں ؟
اس نے کہا ہاں
ابراہیم {ع} نے پوچھا وہ کس وجہ سے میرے رب نے مجھ کو اپنا دوست بنایا
اس نے عرض کیا اس لئے کہ آپ لوگوں کو عطائیں کرتے ہیں اور ان سے کچھ پوچھتے نہیں ہیں
ابن ابی حاتم نے اس کو روایت کیا ہے ۔ ۔ ۔ واللہ اعلم
" بے شک ابراہیم ایک پوری امت تھا اللہ کا فرمانبردار تمام راہوں سے ہٹا ہوا ، اور مشرکوں میں سے نہ تھا ( سورۃ النحل 120 ) "
قرآن میں اللہ تعالی نے ابراہیم {ع} کو دوست کہا اور خلیل کا لفظ استعمال کیا جس کے معنی ہے انتہائی گہری محبت ۔
اللہ تعالی نے ابراہیم {ع} کے متعلق " امت " کا لفظ بھی فرمایا جس سے مراد پیشوا و امام ، ہدایت یافتہ بھلائی و خیر کا داعی ، یعنی جس کے نقش قدم پر چلا جائے ۔ اللہ نے ان کو اپنا دوست بنایا اور ان کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی رکھ دی کیونکہ ابراہیم {ع} صراط مستقیم پر گامزن تھے اور اپنے پروردگار کے تمام احکام پر کاربند تھے
اسحاق بن یسار نے کہا جب اللہ نے ابراہیم {ع} کو اپنا دوست بنالیا تو ان کے دل میں خوف پیدا ہوگیا ، حتی کہ ان کے دل کی دھڑکنیں دور سے ایسے سنائی دیتی تھیں جیسے فضا میں پرندوں کے پھڑکنے کی آواز سنائی دیتی ہے ۔ ۔ ۔ واللہ اعلم
عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ ابراہیم {ع} لوگوں کی مہمان نوازی بہت فرماتے تھے ۔ ایک دن اسی غرض سے کسی کی تلاش میں نکلے لیکن کوئی ایسا نہ ملا جس کی مہمان نوازی کریں تو واپس گھر لوٹے وہاں ایک اجنبی شخص کو کھڑا پایا
آپ نے پوچھا اے اللہ کے بندے میری اجازت کے بغیر کیسے میرے گھر میں داخل ہوئے ؟
اس شخص نے جواب دیا میں اس گھر کے مالک یعنی تیرے رب کی اجازت سے داخل ہوا ہوں ۔
آپ نے پھر پوچھا تو کون ہے ؟
جواب دیا میں ملک الموت ہوں اللہ نے مجھے اپنے بندوں میں سے ایک بندے کے پاس بھیجا ہے تاکہ میں اس کو خوشخبری دوں کہ اللہ نے اس کو اپنا دوست منتخب کرلیا ۔
ابراہیم {ع} نے بڑی بےچینی اور محبت و شوق کے عالم میں پوچھا وہ کون ہے ؟ اللہ کی قسم اگر تو مجھے اس کا پتہ بتا دے تو خواہ وہ دنیا کے آخری کنارے میں ہو ، میں اس کے پاس پہنچوں گا پھر ہمیشہ کے لیے اس کا پڑوسی بن کر رہوں گا حتی کہ موت آکر ہمارے درمیان فراق و جدائی کردے
اس نے کہا وہ آپ ہی ہیں
ابراہیم {ع} نے انتہائی تعجب سے پوچھا میں ؟
اس نے کہا ہاں
ابراہیم {ع} نے پوچھا وہ کس وجہ سے میرے رب نے مجھ کو اپنا دوست بنایا
اس نے عرض کیا اس لئے کہ آپ لوگوں کو عطائیں کرتے ہیں اور ان سے کچھ پوچھتے نہیں ہیں
ابن ابی حاتم نے اس کو روایت کیا ہے ۔ ۔ ۔ واللہ اعلم