محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,786
- پوائنٹ
- 1,069
آج ہر انسان تبدیلی چاھتا ہے !!!
کل ایک خبر پڑھی کہ سعودیہ عرب میں ایسے لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا جو داعش میں بھرتی ہونا چاہتے تھے یا داعش میں بھرتی کرتے تھے۔
جہاں تک میرا خیال ہے تو اس کی یہی وجہ ہے کہ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں، اگرچہ ہر کسی کی تبدیلی کا معیار علیحدہ علیحدہ ہے، طاہر القادری کی تبدیلی، عمران خان کی تبدیلی اور داعش کی تبدیلی میں فرق ہے، لیکن دیکھا جائے تو خاص کر عسکری تنظیموں کی طرف لوگوں کا میلان بڑھنے کی ایک وجہ یہی ہے کہ لوگ اس نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
داعش کی بڑھتی ہوئی فتوحات، عملی طور پر مزارات کی تباہی، دشمن پر رعب و دبدبہ، یہاں تک کہ دشمن اپنی وردیاں تک چھوڑ کر بھاگ گئے، مسلمانوں کے خطرناک ترین دشمن رافضیوں پر اس قدر خوف، یہ تمام باتیں ایسی ہیں کہ ایک عام مسلمان کے دل و دماغ کو راحت پہنچاتی ہیں۔
لوگ مولوی حضرات سے مایوس ہو چکے ہیں، ان سے کوئی امید نہیں کہ وہ کسی جدوجہد کے لئے اٹھ کھڑیں ہوں گے، مولوی حضرات چاہے جہاں کے ہوں، سعودیہ عرب کے ہوں یا پاکستان کے، اس معاملے میں بہت کوتاہی کا شکار ہیں، اور یہ زبردستی عوام کو ان ظالم فاسق (اور کئی ایک صورتوں میں کافر) حکمرانوں کی حکومت میں مجبور رکھنا چاہتے ہیں، انہوں نے صرف ممبر و محراب پر تقریریں کرنی ہیں، لیکن جب کوئی عملی طور پر جدوجہد کے لئے اٹھے تو اس کو دہشت گرد کہہ دیا جاتا ہے۔ ایک جگہ لکھا تھا کہ یوں عسکری تنظیمیں بنا کر مسلم ممالک میں جدوجہد فساد کہلاتی ہے، بلکہ آئینی لحاظ سے پر امن تحریک چلائی جائے۔
کیا انقلاب بھی پر امن طریقے سے آتے ہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون اس دنیا میں اخلاق کا اعلیٰ نمونہ ہو سکتا ہے، لیکن انہوں نے بھی جہاد کے لئے تلواریں اٹھائیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہونے کا شوق رکھتا ہو گا، لیکن انہوں نے بھی کلمہ گو لوگ جو صرف زکوۃ کے انکاری ہوئے تھے ان کے خلاف تلواریں اٹھا لیں۔
اب یہاں اگر آج کی سوچ لاگو کی جائے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تو یہ چاہئے تھا کہ پیار سے سمجھاتے، آئینی تحریک چلاتے، کہ دیکھو میرے پیارے پیارے زکوۃ کا انکار کرنے والے بھائیو، یہ جو کچھ تم کر رہے ہو، یہ ٹھیک نہیں ہے، آپ کو چاہئے کہ آپ زکوۃ دیا کریں، آپ تو ہمارے کلمہ گو بھائی ہیں۔
لیکن نہیں، کیونکہ یہ چیز اس مسئلے کا حل نہیں، ایسے موقعوں پر سرکشوں کے خلاف تلواریں ہی اٹھائی جاتی ہیں، اگر اس دور امن میں صرف ایک رکن کا انکار کر دینے والوں کے خلاف تلواریں اٹھ سکتی ہیں تو آج کے دور میں جہاں اسلام پر عمل کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے، یہاں کیوں نہیں؟
علماء کو چاہئے کہ اللہ کا خوف کریں اور دینی معاملات میں صحیح رہنمائی کی طرف توجہ کریں۔