• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صدقہ کا حرام ہونا

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اس پر ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے
لا نورث ماترکنا صدقه
اس قول کی تشریح شاہ ولی اللہ محدث دہلوی صاحب نے اس طرح بیان کی ہے

وفي هذا الحکم سر آخر و هو أنه ﷺ إن أخذها لنفسه وجوز أخذها لخاصته والذین یکون نفعهم بمنزلة نفعه کان مظنة أن یظن الظانون ویقول القائلون في حقه ما لیس بحق
'' رسول اللہ ﷺ اور آپ کی آل پر صدقہ کے حرام ہونے میں دوسرا راز یہ ہے کہ اگر رسول اللہﷺ اپنے مال کو اپنی ذات کے لیے یا اپنے خاص افراد کے لیے جن کانفع آپ کا اپنا نفع ہے، کے لیےجائز قرار دیتے تو آپ کے خلاف بدگمانی کرنے والوں او رناحق اعتراض کرنے والوں کو موقع ہاتھ آجاتا کہ یہ نبی دنیا کا کتنا حریص کہ غربا و مساکین کا حق کھانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔'.حجۃ اللہ البالغہ: 2؍46
ترکہ نبویﷺ میں وراثت جاری نہ ہونے کی حکمتیں
اور اس پر کلیم حیدر صاحب فرماتے ہیں کہ
انبیاء ﷩ کا ترکہ اُن کے ورثا پر حرام ہے کیونکہ وہ صدقہ ہے۔
ان سب باتوں سے بھی یہی معلوم ہوا کہ رسول اللہٖﷺ کا چھوڑا ہوا ترکہ رسول اللہﷺ کی آل کے لئے حرام ہے کیونکہ یہ صدقہ ہے اور صدقہ آل محمدﷺ پر حرام ہے لیکن امام بخاری کے بقول حضرت ابو بکر نے آل محمدﷺ کو ایسی صدقہ کے مال سے کھلانے کی ترغیب دی ۔ یعنی اس کو آل محمدﷺ کے لئے حلال جانا !!!!!!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
حضرت ابو بکر کے قول کے مطابق انبیاء جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے یعنی انبیاء علیہم السلام کے پاس جو بھی دنیاوی مال ہوتا ہے وہ انبیاء علیہم السلام کے وصال کے بعد صدقہ میں تبدیل ہوجاتا ہے اور صدقہ آل محمدﷺ پر حرام ہے
رسول اللہﷺ کی حیات ظاہری میں اگر آل محمدﷺ اس مال سے کھاتی تھیں تو یہ صدقہ نہیں تھا لیکن آپ ﷺ کے وصال کے بعد یہ مال صدقہ ہوگیا حضرت ابو بکر کے قول کے مطابق اب اس مال سے آل محمدﷺ کو کھلانے کی ترغیب دینا کیا ایسا نہیں کہ جو چیز اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے آل محمدﷺ پر حرام کی اس کو جائز سمجھا جارہا ہے؟؟
حدیث کو مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا شرط نہ ہو تو بات سمجھ میں آنا کوئی مشکل امر نہیں ہے ۔ اس اعتراض کاجواب اسی کے اندر موجود ہے ، ملاحظہ فرمائیں :
عن عائشة رضی الله عنها أن فاطمة والعباس أتیا أبابکر یلتمسان میراثهما من رسول الله ﷺ وهما یومئذ یطلبان أرضیهما من فدك وسهمه من خیبر فقال لهما أبوبکر سمعت رسول الله ﷺ یقول: «لا نورث ما ترکنا صدقة، إنما یأکل آل محمد من هذا المال» قال أبوبکر: والله لا أدع أمرا رأیت رسول الله ﷺ یصنعه إلا صنعتُه. قال: فهجرته فاطمة فلم تكلمه في ذلك حتي ماتت ۔
''اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہؓ او رحضرت عباس دونوں(رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد) ابوبکر صدیق کے پاس آئے آپﷺ کا ترکہ مانگتے تھے۔ یعنی جو زمین آپؐ کی فدک میں تھی او رجو حصہ خیبر کی اَراضی میں تھا، وہ طلب کررہے تھے۔ حضرت ابوبکر نے جواب دیاکہ میں نےرسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ نے فرمایا: ہم (انبیاء) جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ البتہ بات یہ ہے کہ محمدﷺ کی آل اس مال سے کھاتی پیتی رہے گی۔ ابوبکر نے یہ بھی فرمایا: اللہ کی قسم میں نے رسول اللہﷺ کو جو کام کرتے دیکھا، میں اسے ضرور کروں گا، اُسے کبھی چھوڑنےکا نہیں۔ اس جواب کے بعد حضرت فاطمہؓ نے ملاقات میں انقباض سے کام لیااورچھ ماہ کے بعد وفات پاگئیں۔''
جب خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آل محمد کے نان و نفقہ کو اسی صدقہ سے بیان فرمادیا تو پھر کیا اشکال باقی رہ جاتا ہے ۔
ایک اور حدیث سے اس کی مزید وضاحت ہوجاتی ہے :
عن أبي هریرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله ﷺ:«لا تقتسم ورثتي دینارًا ما ترکت بعد نفقة نسائي ومؤنة عاملي فهو صدقة»
''حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میرے وارث اگر میں ایک اشرفی چھوڑ جاؤں تو اس کو تقسیم نہیں کرسکتے بلکہ جو جائیداد میں چھوڑ جاؤں اس میں سےمیری بیویوں اور عملہ کا خرچ نکال کر جو بچے، وہ سب اللہ کی راہ میں خیرات کیا جائے۔''
بلکہ خود شیعہ مصنفین نے ان روایات کو اپنی کتب میں جگہ دی ہے مثلا :
علامہ ابومنصور احمد بن علی طبرسی، حضرت ابوبکر صدیقؓ کی حسب ِذیل حدیث بلا کسی ردّ و قدح کے یوں روایت کرتے ہیں:
إني أشهد الله وکفٰى به شهیدًا أني سمعت رسول الله ﷺ یقول: «نحن معاشر الأنبیاء لا نورث ذهبًا ولا فضة ولا دارًا ولا عقارًا وإنما نورث الکتاب والحکمة والعلم والنبوة وما کان لنا من طعمة فلولي الأمر بعدنا أن یحکم فیه بحکمه»
''حضرت فاطمہ الزہراؓ کے مطالبۂ وراثتِ مالی کے جواب میں حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکرکہتا ہوں اور اللہ کی گواہی کافی ہے۔ہر گاہ میں نے رسول اللہ‎ﷺ سے سنا ، آپؐ فرماتے ہیں: ہم انبیاء کی جماعت اپنے بعد کسی کو سونے، چاندی، گھر اور اراضی کا وارث نہیں بناتے۔ ہم صرف کتاب و حکمت، علم اورنبوت سے متعلق اُمور کاوارث بناتے ہیں، رہے ہمارے ذرائع معاش تو وہ ہمارے بعد ہونے والے خلیفہ کی سپرداری میں چلے جاتے ہیں، وہ ان میں اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔
بلکہ زین العابدین رحمہ اللہ نے تو یہاں تک کہہ دیا :
وأیم الله لو رَجع الأمر إلىٰ لقضیتُ فیه بقضاء أبي بکر
''یعنی امام زیدشہید فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! اگر فدک کی تقسیم کا مقدمہ میری طرف لوٹ کر آتا تو میں بھی اس کا وہی فیصلہ کرتا جو ابوبکر صدیقؓ نےفیصلہ کیا تھا۔
یہ تینوں حوالہ جات اور مزید شیعہ و سنی مصنفین کے حوالہ جات دیکھنے کےلیے درج ذیل مضمون کی طرف رجوع کریں :
http://forum.mohaddis.com/threads/رسول-اللہ-ﷺ-کے-ترکہ-میں-وراثت-کا-مسئلہ.5540/

( جاری ہے )
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
یہ ایک ہی فورم کی بات نہیں بلکہ سنن ترمذی کے ترجمے کی بات ہے ترجمہ کا جو مطبوعہ نسخہ ہے اس میں مذکورہ حدیث کو سرے سے بیان ہی نہیں کیا گیا چلیں اب میں سوال کئے لیتا ہوں کہ کیا سنن ترمذی کے مترجم بدیع زمان صاحب کو یہ الہام ہوا کہ سنن ترمذی کی مذکورہ حدیث اب بیان نہیں کی جائے ؟؟؟
پھر تحریف کرنا کس چیز کا نام ہے ؟؟؟
نسخ و روایات میں احادیث کی کمی بیشی ہونا کوئی نئی بات نہیں ۔ کیونکہ ضروری نہیں کہ ہر شاگرد نے اپنے استاذ سے مکمل کتاب ہی سنی ہو ۔ بعض دفعہ کچھ احادیث رہ جاتی ہیں ۔
احادیث کی کتابوں کے نسخ و طبعات میں اختلاف ایک عام سی بات ہے ۔ جوں جوں مخطوطات اور نسخ و روایات زیادہ ملتی جاتی ہیں اس کمی کا ازالہ ہوتا جاتا ہے ۔ اور اس چیز کو کبھی بھی کسی نے تحریف کا نام نہیں دیا ۔
اب عین ممکن ہے کہ مترجم علامہ بدیع الزمان صاحب نے جس نسخے کو سامنےرکھ کر ترجمہ کیا ہو اس کے اندر یہ روایت موجود ہی نہ ہو ۔
لیکن اس بات کا دعوی کرنا کہ یہ روایت ان کے نسخے کے اندر موجود تھی اور انہوں نے تحریف کرتے ہوئے اس کو حذف کردیا ہے ۔ یہ ایک دعوی ہے جو بلا دلیل ہے ۔
اگر یہی انداز ہے تو پھر ہم بھی آپ سے سوال کرتے ہیں کہ کیا آپ کو یہ الہام ہوا ہے کہ یہ روایت ان کے نسخے کے اندر موجود تھی اور انہوں نے جان بوجھ کر حذف کردی ؟
اگر نہیں تو کس بنیاد پر آپ تحریف کا الزام لگا رہے ہیں ؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محدث لائبریری کی انتظامیہ کے قول کے مطابق اس لائبریری میں کتاب کو مجلس التحقیق السلامی کے علماء کی تصدیق و اجازت سے اپ لوڈ کیا جاتا ہے اگر اس بات کو مدنظر رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہی بات درست ہے کہ ترجمہ بلکل صحیح ہے ہےکیونکہ یہ ترجمہ جس نے کیا وہ بھی عالم ہیں اور پھر اس کی تصدق کسی ایک عالم نے نہیں بلکہ بہت سے علماءمجلس التحقیق السلامی نے کی ہے نتیجہ یہ ہوا کہ یہ ترجمہ بلکل صحیح ہے !!!
آپ جس نتیجے پر پہنچے ہیں اس کی صحت کی دلیل صرف یہی ہے جو آپ نے بیان کردی کہ اس کے علاوہ بھی کچھ ہے ؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اس پر ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے
لا نورث ماترکنا صدقه
اس قول کی تشریح شاہ ولی اللہ محدث دہلوی صاحب نے اس طرح بیان کی ہے


اور اس پر کلیم حیدر صاحب فرماتے ہیں کہ


ان سب باتوں سے بھی یہی معلوم ہوا کہ رسول اللہٖﷺ کا چھوڑا ہوا ترکہ رسول اللہﷺ کی آل کے لئے حرام ہے کیونکہ یہ صدقہ ہے اور صدقہ آل محمدﷺ پر حرام ہے لیکن امام بخاری کے بقول حضرت ابو بکر نے آل محمدﷺ کو ایسی صدقہ کے مال سے کھلانے کی ترغیب دی ۔ یعنی اس کو آل محمدﷺ کے لئے حلال جانا !!!!!!
اس کی اجازت خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرحمت فرمائی ہے اور اس کو اہل بیت کے لیے حلال قرار دیا ہے ۔ جس کے حوالے اوپر گزر چکے ہیں ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
حدیث کو مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا شرط نہ ہو تو بات سمجھ میں آنا کوئی مشکل امر نہیں ہے ۔ اس اعتراض کاجواب اسی کے اندر موجود ہے ، ملاحظہ فرمائیں :
عن عائشة رضی الله عنها أن فاطمة والعباس أتیا أبابکر یلتمسان میراثهما من رسول الله ﷺ وهما یومئذ یطلبان أرضیهما من فدك وسهمه من خیبر فقال لهما أبوبکر سمعت رسول الله ﷺ یقول: «لا نورث ما ترکنا صدقة، إنما یأکل آل محمد من هذا المال» قال أبوبکر: والله لا أدع أمرا رأیت رسول الله ﷺ یصنعه إلا صنعتُه. قال: فهجرته فاطمة فلم تكلمه في ذلك حتي ماتت ۔
''اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہؓ او رحضرت عباس دونوں(رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد) ابوبکر صدیق کے پاس آئے آپﷺ کا ترکہ مانگتے تھے۔ یعنی جو زمین آپؐ کی فدک میں تھی او رجو حصہ خیبر کی اَراضی میں تھا، وہ طلب کررہے تھے۔ حضرت ابوبکر نے جواب دیاکہ میں نےرسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ نے فرمایا: ہم (انبیاء) جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔ البتہ بات یہ ہے کہ محمدﷺ کی آل اس مال سے کھاتی پیتی رہے گی۔ ابوبکر نے یہ بھی فرمایا: اللہ کی قسم میں نے رسول اللہﷺ کو جو کام کرتے دیکھا، میں اسے ضرور کروں گا، اُسے کبھی چھوڑنےکا نہیں۔ اس جواب کے بعد حضرت فاطمہؓ نے ملاقات میں انقباض سے کام لیااورچھ ماہ کے بعد وفات پاگئیں۔''
جب خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آل محمد کے نان و نفقہ کو اسی صدقہ سے بیان فرمادیا تو پھر کیا اشکال باقی رہ جاتا ہے ۔
" البتہ بات یہ ہے کہ محمدﷺ کی آل اس مال سے کھاتی پیتی رہے گی۔"
کیا یہ قول رسول اللہﷺ کا ہے ؟؟؟
کیونکہ سیاق سباق سے تو یہ نہیں لگاتا کہ یہ قول رسول اللہﷺ کا ہے


ایک اور حدیث سے اس کی مزید وضاحت ہوجاتی ہے :
عن أبي هریرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله ﷺ:«لا تقتسم ورثتي دینارًا ما ترکت بعد نفقة نسائي ومؤنة عاملي فهو صدقة»
''حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میرے وارث اگر میں ایک اشرفی چھوڑ جاؤں تو اس کو تقسیم نہیں کرسکتے بلکہ جو جائیداد میں چھوڑ جاؤں اس میں سےمیری بیویوں اور عملہ کا خرچ نکال کر جو بچے، وہ سب اللہ کی راہ میں خیرات کیا جائے۔''
( جاری ہے )
لیکن اس حدیث میں آل محمد کا ذکر نہیں صرف ازواج النبیﷺ اور آپ ﷺ کے عملے کے ارکان کا ذکر ہے کہ اس مال سے ان کا نان و نفقہ اور تنخواہیں ادا کی جائیں گی
اس لئے اس سے دلیل لینا آپ کے لئے سود مند نہیں کیونکہ اس سے آپ کے بہت سارے عقائد باطل ہوجائیں گے
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
نسخ و روایات میں احادیث کی کمی بیشی ہونا کوئی نئی بات نہیں ۔ کیونکہ ضروری نہیں کہ ہر شاگرد نے اپنے استاذ سے مکمل کتاب ہی سنی ہو ۔ بعض دفعہ کچھ احادیث رہ جاتی ہیں ۔
یہاں ہم بات کررہے ہیں لکھی ہوئی کتاب کی جو امام ترمذی نے سنن ترمذی کے نام سے لکھی
احادیث کی کتابوں کے نسخ و طبعات میں اختلاف ایک عام سی بات ہے ۔ جوں جوں مخطوطات اور نسخ و روایات زیادہ ملتی جاتی ہیں اس کمی کا ازالہ ہوتا جاتا ہے ۔ اور اس چیز کو کبھی بھی کسی نے تحریف کا نام نہیں دیا ۔
اب عین ممکن ہے کہ مترجم علامہ بدیع الزمان صاحب نے جس نسخے کو سامنےرکھ کر ترجمہ کیا ہو اس کے اندر یہ روایت موجود ہی نہ ہو ۔
لیکن اس بات کا دعوی کرنا کہ یہ روایت ان کے نسخے کے اندر موجود تھی اور انہوں نے تحریف کرتے ہوئے اس کو حذف کردیا ہے ۔ یہ ایک دعوی ہے جو بلا دلیل ہے ۔
اگر یہی انداز ہے تو پھر ہم بھی آپ سے سوال کرتے ہیں کہ کیا آپ کو یہ الہام ہوا ہے کہ یہ روایت ان کے نسخے کے اندر موجود تھی اور انہوں نے جان بوجھ کر حذف کردی ؟
اگر نہیں تو کس بنیاد پر آپ تحریف کا الزام لگا رہے ہیں ؟
جب منکر حدیث یہ سب باتیں کہتے ہیں تو آپ کیوں نہیں مان لیتے کہ کسی حدیث کی کتاب کا اوریجنل نسخہ کسی کے پاس نہیں جس کی جو سمجھ میں آیا وہ محدثین کا نام استعمال کرکے لکھتا گیا !!!
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
آپ جس نتیجے پر پہنچے ہیں اس کی صحت کی دلیل صرف یہی ہے جو آپ نے بیان کردی کہ اس کے علاوہ بھی کچھ ہے ؟
یعنی یہ مطلب ہوا کہ مجلس التحقیق السلامی کے علماء کی تصدیق آپ کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی ؟؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
" البتہ بات یہ ہے کہ محمدﷺ کی آل اس مال سے کھاتی پیتی رہے گی۔"
کیا یہ قول رسول اللہﷺ کا ہے ؟؟؟
کیونکہ سیاق سباق سے تو یہ نہیں لگاتا کہ یہ قول رسول اللہﷺ کا ہے
جی ہاں یہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ، جس کا انکار درست نہیں بلا کسی برہان ۔ بیان کرتا ہے حضور سے ابو بکر عالی شان ۔

لیکن اس حدیث میں آل محمد کا ذکر نہیں صرف ازواج النبیﷺ اور آپ ﷺ کے عملے کے ارکان کا ذکر ہے کہ اس مال سے ان کا نان و نفقہ اور تنخواہیں ادا کی جائیں گی
اس لئے اس سے دلیل لینا آپ کے لئے سود مند نہیں کیونکہ اس سے آپ کے بہت سارے عقائد باطل ہوجائیں گے

آل میں ’’ ازواج ‘‘ شامل ہیں اہل سنت والجماعت کے نزدیک ۔ آپ کے نزدیک نہیں ہیں تو یہ موضوع اس سے پہلے کسی جگہ شروع ہے ۔ اگر کوئی نئی دلیل ذہن میں ہے تو وہاں جاکر بیان کریں ۔
ہم الحمدللہ بخوبی واقف ہیں کہ ہمارے عقائد کیا ہیں اور ان کے دلائل کیا ہیں ۔ آپ کو یہ زحمت کرنے کی قطعا ضرورت نہیں کہ ہمارے عقائد کس طرح باطل ہوتے ہیں اور کس طرح حق رہتے ہیں ۔
آپ اپنے عقائد کی فکر کیجیے اور اسی پر دلائل دیجیے ۔
یہاں ہم بات کررہے ہیں لکھی ہوئی کتاب کی جو امام ترمذی نے سنن ترمذی کے نام سے لکھی
اب آپ کو یہ بھی بتانا پڑے گا کہ حدیث کی کتب کس طرح ہم تک نقل ہوئی ہیں ؟ لکھی ہوئی سنن ترمذی آپ کو امام ترمذی کی طرف سے تحفے میں آئی تھی ؟
جو باتیں آپ کی پہنج سے دور ہیں گزارش ہے کہ ان پر بحث کرنےکی بجائے کسی استاد کے پاس بیٹھ کر درس لیں ۔ اگر آپ کو اس طرح کی بحثوں کا شوق ہے تو ورنہ لا بد للإنسان أن یعرف قدر نفسہ ۔
جب منکر حدیث یہ سب باتیں کہتے ہیں تو آپ کیوں نہیں مان لیتے کہ کسی حدیث کی کتاب کا اوریجنل نسخہ کسی کے پاس نہیں جس کی جو سمجھ میں آیا وہ محدثین کا نام استعمال کرکے لکھتا گیا !!!
آپ منکرین حدیث سے مدد لے لیں یا منکرین حدیث آپ کی خوشہ چینی کرلیں ۔ جو بھی کرنا چاہتے ہیں ایک الگ ’’ لڑی ‘‘ شروع کرکے اعتراضات کریں اور جوابات موصول فرمائیں ۔
آپ کے نزدیک یہ محدثین کی جی میں آئی باتیں ہیں تو آپ کو کس نے کہا ان میں الجھیں آپ شیعی مصادر سے استفادہ کریں جو کہ ثقاہت و استناد کے آسمان کو چھو رہے ہیں ۔ جہاں انسانوں کی بجائے حیوانوں کی روایات درج ہیں ۔
یعنی یہ مطلب ہوا کہ مجلس التحقیق السلامی کے علماء کی تصدیق آپ کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی ؟؟؟
میرے نزدیک اس کی کیا اہمیت ہے میں اس کو پہلے بیان کرچکا ہوں اگر آپ نہیں سمجھنا چاہتے تو بار بار گردان کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ۔
ہاں آپ کا بار بار اس پر تکیہ کرنا یہ اس بات کا پتہ دیتا ہےکہ آپ کے خود کے پاس کچھ نہیں ہے کبھی سنیوں کے مصنفین اور کبھی سنیوں کے اداروں سے ہی آپ کسب فیض کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔
کیا آپ کے اندر ترجمہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے ؟ کیا آپ اپنی نقل کردہ بات کے درست صحیح ہونے کا فیصلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔ ؟
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
لا نورث ماترکنا صدقه
اس قول کا جائزہ قرآن کریم سے لیتے ہیں اس قول میں ہے کہ انبیاء کی میراث نہیں ہوتی وہ جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے لیکن قرآن کریم کی سورہ نمل میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ
وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ
سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام کے وارث ہوئے
حضرت داؤد علیہ السلام اللہ کے نبی ہونے کے ساتھ ایک بہت بڑی سلطنت کے بھی حاکم تھے اور یہ سلطنت وراثت میں حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملی اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء کا دنیاوی مال میں بھی وراثت جاری ہوتی ہے
اس کے علاوہ سورہ مریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ
وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا
اور میں اپنے بعد اپنے بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے تو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا فرما
يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا
جو میری اور اولاد یعقوب کی میراث کا مالک ہو۔ اور (اے) میرے پروردگار اس کو خوش اطوار بنائیو

حضرت زکریا علیہ السلام کی اس دعا پر اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نہیں فرمایا کہ اے زکریا تو اپنے وارث کی دعا کیوں مانگ رہا ہے تو ایک بنی ہے اور انبیاء کی میراث نہیں ہوتی بلکہ اس کے برعکس ارشاد فرمایا کہ
يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ يَحْيَىٰ لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِن قَبْلُ سَمِيًّا
اے زکریا ہم تم کو ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہے۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا

یہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کو ان کے وارث حضرت یحییٰ علیہ السلام کے پیدا ہونے کی بشارت دی اور ان کا ایسا انوکھا نام بھی اللہ تعالیٰ نے خود ہی تجویز فرمادیا
ان آیت قرآنی کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ قول ان آیت قرآنی سے متصادم نظر آتا ہے
اس پر بھی تھوڑی روشنی ڈال دیں شکریہ
 
Top