ٹھیک ہے پھر اس لڑی کو بنیاد بنا کر بات کرلیتے ہیں
اس دھاگے میں صحیح بخاری کی حدیث کا ترجمہ کچھ اس طرح کیا گیا ہے
''اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہؓ او رحضرت عباس دونوں(رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد) ابوبکر صدیق کے پاس آئے آپﷺ کا ترکہ مانگتے تھے۔ یعنی جو زمین آپؐ کی فدک میں تھی او رجو حصہ خیبر کی اَراضی میں تھا، وہ طلب کررہے تھے۔ حضرت ابوبکر نے جواب دیاکہ میں نےرسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ نے فرمایا: ہم (انبیاء) جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے
۔ البتہ بات یہ ہے کہ محمدﷺ کی آل اس مال سے کھاتی پیتی رہے گی۔ ابوبکر نے
یہ بھی فرمایا: اللہ کی قسم میں نے رسول اللہﷺ کو جو کام کرتے دیکھا، میں اسے ضرور کروں گا، اُسے کبھی چھوڑنےکا نہیں۔ اس جواب کے بعد حضرت فاطمہؓ نے ملاقات میں انقباض سے کام لیااورچھ ماہ کے بعد وفات پاگئیں۔''([1])
([1]) ..صحیح البخاري، باب قول النبي ﷺ لا نورث ما ترکنا صدقة:2؍995، صحیح مسلم، کتاب الجهاد، باب حکم الفيء :2 ؍92،93، نیل الأوطار: 2؍76
رسول اللہ ﷺ کے ترکہ میں وراثت کا مسئلہ
اس ترجمہ کو پڑھ کر آپ کو کیا لگتا ہے کہ
ڈیش - کے بعد والا جملہ ابوبکر کی طرف نسبت نہیں کیا جائے گا
جبکہ ڈیش کے بعد والے جملے کے بعد یہ ترجمہ کیا جارہا ہے کہ حضرت ابوبکر نے
یہ بھی فرمایا اردو گرامر کی رو سے یہ بات یقینی ہوگئی کہ اس قول سے پہلے والا قول بھی حضرت ابو بکر ہی کا ہے
۔۔۔۔
اب جب اس طرح کے ترجمے کوئی عالم کرے تو بچارہ عامی پھر کیا کرے ؟؟؟