- شمولیت
- اگست 28، 2013
- پیغامات
- 162
- ری ایکشن اسکور
- 119
- پوائنٹ
- 75
السلام عليكم شیخ اس روایت اور تحقیق کی وضاحت کر دیں ۔۔۔۔۔
آٹھ رکعت کے مرکزی راوی محمد بن یوسف کا رجوع
حدثنا يوسف بن سعيد، ثنا حجاج، عن ابن جريج، حدثني إسماعيل بن أمية أن محمد بن يوسف ابن أخت السائب بن يزيد، أخبره قال: جمع عمر بن الخطاب الناس على أبي بن كعب، وتميم الداري، فكانا يقومان بمائة في ركعة فما ينصرف حتى نرى أو نشك في فروع الفجر. قال: فكنا نقوم بأحد عشر.
قلت: أو واحد وعشرين.
قال: لقد سمع ذلك أن السائب بن يزيد - ابن خصيفة.
فسألت يزيد بن خصيفة.
فقال: حسبت أن السائب قال: إحدى وعشرين.
.قال محمد: أو قلت لإحدى وعشرين.
ترجمہ: سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں ابی بن کعب اورتمیم داری رضی اللہ عنہما کے ساتھ تراویح پڑھنے کے لئے جمع کردیا ، تو یہ دونوں ایک رکعت میں سوآیات پڑھاتے تھے پھرجب ہم نماز سے فارغ ہوتے تھے تو ہم کو لگتا کہ فجرہوچکی ہے ، سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔
اس روایت کے راوی اسماعیل بن امیہ نے جب محمدبن یوسف سے سناتو پوچھا: گیارہ رکعات یا اکیس رکعات ؟؟
محمدبن یوسف نے کہا: یقینن اس طرح کی بات یزیدبن خصیفہ نے سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ سے سنی ہے۔
اساعیل بن امیہ کہتے ہیں کہ: پھر میں یزیدبن خصیفہ سے اس بارے میں سوال کیا توانہوں نے کہا:مجھے لگتا ہے کہ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے اکیس کہا تھا ,محمد نے کہا بلکہ میں کہتا ہوں اکیس رکعت ہے۔
اشکال نمبر1۔
محمد بن یوسف کا یہ قول محتمل معلوم ہوتا ہے كے وہ 11 رکعت والی حدیث کی طرف اشارہ کر رہے ہیں یا 20 رکعت والی بات کی طرف كے کونسا سنا ہے . . .
قال: لقد سمع ذلك أن السائب بن يزيد - ابن خصيفة.
"محمدبن یوسف نے کہا: یقینن اس طرح کی بات یزیدبن خصیفہ نے سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ سے سنی ہے۔"
چونکہ یہاں پر دو اشارات موجود ہیں اور لفظ ( ذالک) بعید’ ( دور ) كے كے لیے استعمال ہوتا ہے اسلئے ہم نے ان كے قول سے بعید والا یعنی 11رکعت والی حدیث مراد لی ہے .
( 3 ) اگر ہم لفظ ( ذالک) سے قریب والا ( یعنی 21 رکعت ) مراد لیتے ہیں تواس قول کا مطلب یہ ہو گا
قال: لقد سمع ذلك أن السائب بن يزيد - ابن خصيفة.
محمدبن یوسف نے کہا: یقینن 21 رکعت والی بات یزیدبن خصیفہ نے سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ سے سنی ہے۔"
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے كے جب محمد بن یوسف کو یقین ہے كے یزید بن خصیفہ نے 21 رکعت ہی صحابی سنے ہیں تو پِھر خود 11 رکعت کیوں روایت کر رہے ہیں . . . ؟
اِس کا صاف مطلب یہ ہو گا كے صحابی سائب بن یزید اضطراب کا شکار ہوئے ہیں كے کبھی 11 رکعت بیان کرتے ہیں تو کبھی 21 رکعت۔. ( نعوذبااللہ )
لہذا یہ مان لینا کسی صورت درست نہ ہوگا
4 )حسبت أن السائب قال: إحدى وعشرين.
. یزید بن خصیفہ نے لفظ (حسبت ) کہا ہے جس کا معنی( میرا خیال ہے ) ہوتا ہے .
تو اِس لفظ سے اہلحدیثو نے یہ فیصلہ کیا كے یزید بن خصیفہ کو تعداد صحیح طور پر یاد نہیں تھی اسلئے ایسا کہا ہے .
لیکن اصل بات تو یہ ہے كے ، ابن خصیفہ خود کوئی حدیث بیان نہیں کر رہے تھے بلکہ جب ابن امیہ نے محمد بن یوسف سے 11 رکعت والی حدیث ان کو بتای اور سوال کیا توانہوں نے محمد بن یوسف كے بارے میں گمان لگایا اور کہا :
: . حسبت أن السائب قال: إحدى وعشرين.
" میرا خیال ہے كے سائب ( رضی اللہ ) نے ( اِبْن یوسف سے ) فرمایا 21 رکعت "
5 ) : . . یزید بن خصیفہ (رحمہ اللہ ) کو اپنی روایت میں کوئی شک نہیں تھا اِس کا ثبوت بھی ہمارے پاس موجود ہے كے وہ بطور جزمجازم كے 20 رکعت کو روایت کرتے ہیں. . . .
مثلاً :
یزید بن خصیفہ (رحمہ اللہ) سے روایت ہے كے ، سائب بن یزید ( رضی اللہ ) نے فرمایا حضرت عمر ( رضی اللہ عنہ ) كے دور میں لوگ كے رمضان کے مہینے میں 20 رکعت( تراویح) پڑھتے تھے . اور ( قاری) قران میں سے 100-100 آیات والی سورتیں پڑھتے تھے .
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋَﻠِﻲُّ، ﺃﻧﺎ ﺍﺑْﻦُ ﺃَﺑِﻲ ﺫِﺋْﺐٍ، ﻋَﻦْ ﻳَﺰِﻳﺪَ ﺑْﻦِ ﺧُﺼَﻴْﻔَﺔَ، ﻋَﻦِ ﺍﻟﺴَّﺎﺋِﺐِ ﺑْﻦِ ﻳَﺰِﻳﺪَ ﻗَﺎﻝَ : ﻛَﺎﻧُﻮﺍ ﻳَﻘُﻮﻣُﻮﻥَ ﻋَﻠَﻰ ﻋَﻬْﺪِ ﻋُﻤَﺮَ ﺑْﻦِ ﺍﻟْﺨَﻄَّﺎﺏِ ﺭَﺿِﻲَ ﺍﻟﻠﻪُ ﻋَﻨْﻪُ ﻓِﻲ ﺷَﻬْﺮِ ﺭَﻣَﻀَﺎﻥَ ﺑِﻌِﺸْﺮِﻳﻦَ ﺭَﻛْﻌَﺔً، ﻭَﺇِﻥْ ﻛَﺎﻧُﻮْﺍ ﻟَﻴَﻘْﺮَﺀُﻭْﻥَ ﺑِﺎﻟْﻤِﺌِﻴْﻦَ ﻣِﻦَ ﺍﻟْﻘُﺮْﺁﻥ .
مسند ابن الجاد صفح 1009 ،1010 ،سنن الکبری ،سند صحیح ۔
اسی طرح یزید بن خصیفہ سے معارفة السنن والآثار للبیہقی، کتاب الصیام للفریابی، میں بطور جزم کے حدیث بیان ہے۔
لہٰذا ابن خصیفہ کو شک تھا کہنا بلکل غلط ہے
6 ) 21 رکعت میں (وتر 20 + 1تراویح ) ہیں
جیسا كے یزید بن خصیفہ ( رحمہ اللہ ) کی روایت میں اِس کی تصریح موجود ہے .
سائب بن یزید ( رضی اللہ عنہ ) نے فرمایا ہم عمر ( رضی اللہ عنہ ) كے زمانے میں 20 رکعت (تراویح ) اور وتر پڑھا کرتے . ”
ﺃَﺧْﺒَﺮَﻧَﺎ ﺃَﺑُﻮ ﻃَﺎﻫِﺮٍ ﺍﻟْﻔَﻘِﻴﻪُ ﻗَﺎﻝَ : ﺃَﺧْﺒَﺮَﻧَﺎ ﺃَﺑُﻮ ﻋُﺜْﻤَﺎﻥَ ﺍﻟْﺒَﺼْﺮِﻱُّ ﻗَﺎﻝَ : ﺣَﺪَّﺛَﻨَﺎ ﺃَﺑُﻮ ﺃَﺣْﻤَﺪَ ﻣُﺤَﻤَّﺪُ ﺑْﻦُ ﻋَﺒْﺪِ ﺍﻟْﻮَﻫَّﺎﺏِ ﻗَﺎﻝَ : ﺃَﺧْﺒَﺮَﻧَﺎ ﺧَﺎﻟِﺪُ ﺑْﻦُ ﻣَﺨْﻠَﺪٍ ﻗَﺎﻝَ : ﺣَﺪَّﺛَﻨَﺎ ﻣُﺤَﻤَّﺪُ ﺑْﻦُ ﺟَﻌْﻔَﺮٍ ﻗَﺎﻝَ : ﺣَﺪَّﺛَﻨِﻲ ﻳَﺰِﻳﺪُ ﺑْﻦُ ﺧُﺼَﻴْﻔَﺔَ، ﻋَﻦِ ﺍﻟﺴَّﺎﺋِﺐِ ﺑْﻦِ ﻳَﺰِﻳﺪَ ﻗَﺎﻝَ : ﻛُﻨَّﺎ ﻧَﻘُﻮﻡُ ﻓِﻲ ﺯَﻣَﺎﻥِ ﻋُﻤَﺮَ ﺑْﻦِﺍﻟْﺨَﻄَّﺎﺏِ ﺑِﻌِﺸْﺮِﻳﻦَ ﺭَﻛْﻌَﺔً ﻭَﺍﻟْﻮِﺗْﺮِ .
(معارف السنن والآثار للبیہقی جلد 4 صفحہ 42)
8) آخر میں محمد بن یوسف بھی اپنی بات سے رجوع کرتے ہوے کہتے ہیں کہ
.قال محمد: أو قلت لإحدى وعشرين.
بلکہ میں 21 رکعت کہتاہوں
آٹھ رکعت کے مرکزی راوی محمد بن یوسف کا رجوع
حدثنا يوسف بن سعيد، ثنا حجاج، عن ابن جريج، حدثني إسماعيل بن أمية أن محمد بن يوسف ابن أخت السائب بن يزيد، أخبره قال: جمع عمر بن الخطاب الناس على أبي بن كعب، وتميم الداري، فكانا يقومان بمائة في ركعة فما ينصرف حتى نرى أو نشك في فروع الفجر. قال: فكنا نقوم بأحد عشر.
قلت: أو واحد وعشرين.
قال: لقد سمع ذلك أن السائب بن يزيد - ابن خصيفة.
فسألت يزيد بن خصيفة.
فقال: حسبت أن السائب قال: إحدى وعشرين.
.قال محمد: أو قلت لإحدى وعشرين.
ترجمہ: سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں ابی بن کعب اورتمیم داری رضی اللہ عنہما کے ساتھ تراویح پڑھنے کے لئے جمع کردیا ، تو یہ دونوں ایک رکعت میں سوآیات پڑھاتے تھے پھرجب ہم نماز سے فارغ ہوتے تھے تو ہم کو لگتا کہ فجرہوچکی ہے ، سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔
اس روایت کے راوی اسماعیل بن امیہ نے جب محمدبن یوسف سے سناتو پوچھا: گیارہ رکعات یا اکیس رکعات ؟؟
محمدبن یوسف نے کہا: یقینن اس طرح کی بات یزیدبن خصیفہ نے سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ سے سنی ہے۔
اساعیل بن امیہ کہتے ہیں کہ: پھر میں یزیدبن خصیفہ سے اس بارے میں سوال کیا توانہوں نے کہا:مجھے لگتا ہے کہ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے اکیس کہا تھا ,محمد نے کہا بلکہ میں کہتا ہوں اکیس رکعت ہے۔
اشکال نمبر1۔
محمد بن یوسف کا یہ قول محتمل معلوم ہوتا ہے كے وہ 11 رکعت والی حدیث کی طرف اشارہ کر رہے ہیں یا 20 رکعت والی بات کی طرف كے کونسا سنا ہے . . .
قال: لقد سمع ذلك أن السائب بن يزيد - ابن خصيفة.
"محمدبن یوسف نے کہا: یقینن اس طرح کی بات یزیدبن خصیفہ نے سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ سے سنی ہے۔"
چونکہ یہاں پر دو اشارات موجود ہیں اور لفظ ( ذالک) بعید’ ( دور ) كے كے لیے استعمال ہوتا ہے اسلئے ہم نے ان كے قول سے بعید والا یعنی 11رکعت والی حدیث مراد لی ہے .
( 3 ) اگر ہم لفظ ( ذالک) سے قریب والا ( یعنی 21 رکعت ) مراد لیتے ہیں تواس قول کا مطلب یہ ہو گا
قال: لقد سمع ذلك أن السائب بن يزيد - ابن خصيفة.
محمدبن یوسف نے کہا: یقینن 21 رکعت والی بات یزیدبن خصیفہ نے سائب بن یزیدرضی اللہ عنہ سے سنی ہے۔"
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے كے جب محمد بن یوسف کو یقین ہے كے یزید بن خصیفہ نے 21 رکعت ہی صحابی سنے ہیں تو پِھر خود 11 رکعت کیوں روایت کر رہے ہیں . . . ؟
اِس کا صاف مطلب یہ ہو گا كے صحابی سائب بن یزید اضطراب کا شکار ہوئے ہیں كے کبھی 11 رکعت بیان کرتے ہیں تو کبھی 21 رکعت۔. ( نعوذبااللہ )
لہذا یہ مان لینا کسی صورت درست نہ ہوگا
4 )حسبت أن السائب قال: إحدى وعشرين.
. یزید بن خصیفہ نے لفظ (حسبت ) کہا ہے جس کا معنی( میرا خیال ہے ) ہوتا ہے .
تو اِس لفظ سے اہلحدیثو نے یہ فیصلہ کیا كے یزید بن خصیفہ کو تعداد صحیح طور پر یاد نہیں تھی اسلئے ایسا کہا ہے .
لیکن اصل بات تو یہ ہے كے ، ابن خصیفہ خود کوئی حدیث بیان نہیں کر رہے تھے بلکہ جب ابن امیہ نے محمد بن یوسف سے 11 رکعت والی حدیث ان کو بتای اور سوال کیا توانہوں نے محمد بن یوسف كے بارے میں گمان لگایا اور کہا :
: . حسبت أن السائب قال: إحدى وعشرين.
" میرا خیال ہے كے سائب ( رضی اللہ ) نے ( اِبْن یوسف سے ) فرمایا 21 رکعت "
5 ) : . . یزید بن خصیفہ (رحمہ اللہ ) کو اپنی روایت میں کوئی شک نہیں تھا اِس کا ثبوت بھی ہمارے پاس موجود ہے كے وہ بطور جزمجازم كے 20 رکعت کو روایت کرتے ہیں. . . .
مثلاً :
یزید بن خصیفہ (رحمہ اللہ) سے روایت ہے كے ، سائب بن یزید ( رضی اللہ ) نے فرمایا حضرت عمر ( رضی اللہ عنہ ) كے دور میں لوگ كے رمضان کے مہینے میں 20 رکعت( تراویح) پڑھتے تھے . اور ( قاری) قران میں سے 100-100 آیات والی سورتیں پڑھتے تھے .
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋَﻠِﻲُّ، ﺃﻧﺎ ﺍﺑْﻦُ ﺃَﺑِﻲ ﺫِﺋْﺐٍ، ﻋَﻦْ ﻳَﺰِﻳﺪَ ﺑْﻦِ ﺧُﺼَﻴْﻔَﺔَ، ﻋَﻦِ ﺍﻟﺴَّﺎﺋِﺐِ ﺑْﻦِ ﻳَﺰِﻳﺪَ ﻗَﺎﻝَ : ﻛَﺎﻧُﻮﺍ ﻳَﻘُﻮﻣُﻮﻥَ ﻋَﻠَﻰ ﻋَﻬْﺪِ ﻋُﻤَﺮَ ﺑْﻦِ ﺍﻟْﺨَﻄَّﺎﺏِ ﺭَﺿِﻲَ ﺍﻟﻠﻪُ ﻋَﻨْﻪُ ﻓِﻲ ﺷَﻬْﺮِ ﺭَﻣَﻀَﺎﻥَ ﺑِﻌِﺸْﺮِﻳﻦَ ﺭَﻛْﻌَﺔً، ﻭَﺇِﻥْ ﻛَﺎﻧُﻮْﺍ ﻟَﻴَﻘْﺮَﺀُﻭْﻥَ ﺑِﺎﻟْﻤِﺌِﻴْﻦَ ﻣِﻦَ ﺍﻟْﻘُﺮْﺁﻥ .
مسند ابن الجاد صفح 1009 ،1010 ،سنن الکبری ،سند صحیح ۔
اسی طرح یزید بن خصیفہ سے معارفة السنن والآثار للبیہقی، کتاب الصیام للفریابی، میں بطور جزم کے حدیث بیان ہے۔
لہٰذا ابن خصیفہ کو شک تھا کہنا بلکل غلط ہے
6 ) 21 رکعت میں (وتر 20 + 1تراویح ) ہیں
جیسا كے یزید بن خصیفہ ( رحمہ اللہ ) کی روایت میں اِس کی تصریح موجود ہے .
سائب بن یزید ( رضی اللہ عنہ ) نے فرمایا ہم عمر ( رضی اللہ عنہ ) كے زمانے میں 20 رکعت (تراویح ) اور وتر پڑھا کرتے . ”
ﺃَﺧْﺒَﺮَﻧَﺎ ﺃَﺑُﻮ ﻃَﺎﻫِﺮٍ ﺍﻟْﻔَﻘِﻴﻪُ ﻗَﺎﻝَ : ﺃَﺧْﺒَﺮَﻧَﺎ ﺃَﺑُﻮ ﻋُﺜْﻤَﺎﻥَ ﺍﻟْﺒَﺼْﺮِﻱُّ ﻗَﺎﻝَ : ﺣَﺪَّﺛَﻨَﺎ ﺃَﺑُﻮ ﺃَﺣْﻤَﺪَ ﻣُﺤَﻤَّﺪُ ﺑْﻦُ ﻋَﺒْﺪِ ﺍﻟْﻮَﻫَّﺎﺏِ ﻗَﺎﻝَ : ﺃَﺧْﺒَﺮَﻧَﺎ ﺧَﺎﻟِﺪُ ﺑْﻦُ ﻣَﺨْﻠَﺪٍ ﻗَﺎﻝَ : ﺣَﺪَّﺛَﻨَﺎ ﻣُﺤَﻤَّﺪُ ﺑْﻦُ ﺟَﻌْﻔَﺮٍ ﻗَﺎﻝَ : ﺣَﺪَّﺛَﻨِﻲ ﻳَﺰِﻳﺪُ ﺑْﻦُ ﺧُﺼَﻴْﻔَﺔَ، ﻋَﻦِ ﺍﻟﺴَّﺎﺋِﺐِ ﺑْﻦِ ﻳَﺰِﻳﺪَ ﻗَﺎﻝَ : ﻛُﻨَّﺎ ﻧَﻘُﻮﻡُ ﻓِﻲ ﺯَﻣَﺎﻥِ ﻋُﻤَﺮَ ﺑْﻦِﺍﻟْﺨَﻄَّﺎﺏِ ﺑِﻌِﺸْﺮِﻳﻦَ ﺭَﻛْﻌَﺔً ﻭَﺍﻟْﻮِﺗْﺮِ .
(معارف السنن والآثار للبیہقی جلد 4 صفحہ 42)
8) آخر میں محمد بن یوسف بھی اپنی بات سے رجوع کرتے ہوے کہتے ہیں کہ
.قال محمد: أو قلت لإحدى وعشرين.
بلکہ میں 21 رکعت کہتاہوں