• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کی امانت آپ کی سیوا میں (یونیکوڈ)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
اعمال کا پھل ملے گا:
اگر انسان اپنے رب کی عبادت اور اس کی بات مانتے ہوئے اچھے کام کرے گا، بھلائی اور نیکی کے راستے پر چلے گا تو وہ اپنے رب کے فضل سے جنت میں جائے گا۔ جنت جہاں آرام کی ہر چیز ہے، بلکہ وہاں تو عیش و آرام کی ایسی چیزیں بھی ہیں، جن کو اس دنیا میں نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی دل میں ان کا خیال گزرا۔ اور سب سے بڑی جنت کی نعمت یہ ہو گی کہ جنتی لوگ وہاں اپنی آنکھوں سے اپنے رب کا دیدار کر سکیں گے، جس کے برابر آنند اور مسرت کی کوئی چیز نہیں ہو گی۔
اسی طرح جو لوگ برے کام کریں گے، اپنے رب کی خدائی میں دوسروں کو شریک کریں گے اور سرکشی کر کے اپنے مالک کی نافرمانی کریں گے، وہ جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ وہ وہاں آگ میں جلیں گے۔ وہاں انہیں ان کے گناہوں اور جرموں کی سزا ملے گی۔ اور سب سے بڑی سزا یہ ہو گی کہ وہ اپنے مالک کے دیدار سے محروم رہ جائیں گے اور ان پر اُن کے مالک کا دردناک عذاب ہو گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
رب کا شریک بنانا سب سے بڑا گناہ ہے :
اس سچے اصلی مالک نے اپنی کتاب قرآن میں ہمیں بتایا ہے کہ نیکیاں اور اچھے کام چھوٹے بھی ہوتے ہیں اور بڑے بھی، اسی طرح اس مالک کے یہاں جرم و گناہ اور برے کام بھی چھوٹے بڑے ہوتے ہیں۔ اس نے ہمیں بتایا ہے کہ جو جرم و گناہ انسان کو سب سے زیادہ اور سب سے بھیانک سزا کا حق دار بناتا ہے، جس کو وہ کبھی معاف نہیں کرے گا اور جس کا کرنے والا ہمیشہ ہمیش جہنم میں جلتا رہے گا۔ وہ جہنم سے باہر نہیں جاسکے گا، وہ موت کی تمنا کرے گا، لیکن اس کو موت کبھی نہیں آئے گی۔ وہ جرم اس اکیلے رب کی ذات یا اس کی صفات و اختیارات میں کسی کو شریک بنانا ہے۔ اس کے علاوہ کسی دوسرے کے آگے اپنے سر یا ماتھے کو ٹیکنا ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور کو پوجا کے قابل ماننا، مارنے والا، زندہ کرنے والا، روزی دینے والا اور نفع و نقصان کا مالک سمجھنا بہت بڑا گناہ اور انتہائی درجے کا ظلم ہے، چاہے ایسا کسی دیوی دیوتا کو مانا جائے یا سورج چاند، ستارے یا کسی پیر فقیر کو، کسی کو بھی اس مالک کی ذات یا صفات و اختیارات میں برابر یا شریک سمجھنا شرک ہے، جس کو وہ مالک کبھی معاف نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ کسی بھی گناہ کو اگر وہ چاہے تو معاف کر دے گا۔ اس گناہ کو خود ہماری عقل بھی اتنا ہی برا سمجھتی ہے اور ہم بھی اس عمل کو اتنا ہی ناپسند کرتے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
ایک مثال:
مثال کے طور پر اگر کسی کی بیوی بڑی نک چڑھی ہو، ذرا ذرا سی بات پر جھگڑے پر اتر آتی ہو، کچھ کہنا سننا نہیں مانتی ہو، لیکن وہ اگر اس سے گھر سے نکلنے کو کہہ دے تو وہ کہتی ہے کہ میں صرف تیری ہوں، تیری رہوں گی، تیرے دروازے پر مروں گی اور ایک پل کے لیے تیرے گھر سے باہر نہیں جاؤ ں گی تو شوہر لاکھ غصے کے بعد بھی اس سے نبھانے کے لیے مجبور ہو جائے گا۔
اس کے برخلاف اگر کسی کی بیوی نہایت خدمت گزار اور حکم کی پابند ہو، وہ ہر وقت اس کا خیال رکھتی ہو، شوہر آدھی رات کو گھر پر آتا ہو تو اس کا انتظار کرتی رہتی ہو، اس کے لیے کھانا گرم کر کے اس کے سامنے پیش کرتی ہو، اس سے پیار و محبت کی باتیں بھی کرتی ہو، وہ ایک دن اس سے کہنے لگے کہ آپ میرے شریکِ حیات ہیں، لیکن میرا اکیلے آپ سے کام نہیں چلتا، اس لیے اپنے فلاں پڑوسی کو بھی میں نے آج سے اپنا شوہر بنا لیا ہے تو اگر اس کے شوہر میں کچھ بھی غیرت کا مادہ ہے تو وہ یہ برداشت نہیں کر پائے گا۔ وہ ایک پل کے لیے ایسی احسان فراموش بے حیا عورت کو اپنے پاس رکھنا پسند نہ کرے گا۔
آخر ایسا کیوں ہے ؟ صرف اس لیے کہ کوئی شوہر اپنے مخصوص شوہرانہ حقوق میں کسی کو شریک دیکھنا نہیں چاہتا۔ آپ نطفے کی ایک بوند سے بنی اولاد میں کسی اور کو اپنا شریک بنانا پسند نہیں کرتے، تو وہ مالک جو انتہائی حقیر بوند سے انسان کو پیدا کرتا ہے، وہ کیسے یہ برداشت کر لے گا کہ اس کا پیدا کردہ انسان اس کے ساتھ کسی اور کو اس کا شریک بنائے۔ اس کے ساتھ کسی اور کی بھی عبادت کی جائے اور بات مانی جائے، جب کہ اس پورے جہان میں جس کو جو کچھ دیا ہے، اسی نے عطا کیا ہے۔ جس طرح ایک طوائف اپنی عزت و آبرو بیچ کر ہر آنے والے آدمی کو اپنے اوپر قبضہ دے دیتی ہے تو اس کی وجہ سے وہ ہماری نظروں سے گری ہوئی رہتی ہے، وہ آدمی اپنے مالک کی نظروں میں اس سے زیادہ نیچ اور گرا ہوا ہے، جو اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی عبادت میں مست ہو، چاہے وہ کوئی دیوتا ہو یا فرشتہ، جن ہو یا انسان، بت ہو یا مورتی، قبر ہو یا استھان یا کوئی دوسری خیالی یا حقیقی شے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
قرآنِ پاک میں مورتی پوجا کی مخالفت:
مورتی پوجا کے لیے قرآنِ مجید میں ایک مثال پیش کی گئی ہے، جو غور کرنے کے قابل ہے :
''اللہ کو چھوڑ کر تم جن (مورتی، قبرواستھان والوں ) کو پکارتے ہو، وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے۔ ( پیدا کرنا تو دور کی بات ہے )، اگر مکھی ان کے سامنے سے کوئی چیز (پرساد وغیرہ) چھین لے جائے تو اسے واپس بھی نہیں لے سکتے۔ طلب کرنے والا اور جس سے طلب کیا جا رہا ہے، دونوں کتنے کم زور ہیں o اور انھوں نے اللہ کی اس طرح قدر نہیں کی، جیسی کرنی چاہیے تھی، بلا شبہ اللہ طاقت ور اور زبردست ہے o'' (ترجمہ القرآن، الحج ۲۲:۳۷-۴۷)
کتنی اچھی مثال ہے۔ بنانے والا تو خود اللہ ہے۔ اپنے ہاتھوں سے بنائی گئی مورتیوں اور بتوں کے بنانے والے غافل انسان ہیں۔ اگر ان مورتیوں میں تھوڑی بہت سمجھ ہوتی تو وہ انسانوں کی عبادت کرتیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
ایک بودا خیال:
کچھ لوگوں کا ماننا یہ ہے کہ ہم ان کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ انھوں نے ہی ہمیں مالک کا راستہ دکھایا اور ان کے وسیلے سے ہم مالک کی عنایت حاصل کرتے ہیں۔ یہ بالکل ایسی بات ہوئی کہ کوئی قلی سے ٹرین کے بارے میں معلوم کرے اور جب قلی اسے ٹرین کے بارے میں معلومات دے دے تو وہ ٹرین کی جگہ قلی پر ہی سوار ہو جائے، کہ اس نے ہی ہمیں ٹرین کے بارے میں بتایا ہے۔ اسی طرح اللہ کی صحیح سمت اور راستہ بتانے والے کی عبادت کرنا بالکل ایسا ہے، جیسے ٹرین کو چھوڑ کر قلی پر سوار ہو جانا۔
کچھ بھائی یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم صرف دھیان جمانے اور توجہ مرکوز کرنے کے لیے ان مورتیوں کو رکھتے ہیں۔ یہ بھی خوب رہی کہ خوب غور سے کسی کھمبے کو دیکھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہم تو صرف والد صاحب کا دھیان جمانے کے لیے کھمبے کو دیکھ رہے ہیں ! کہاں والد صاحب اور کہاں کھمبا؟ کہاں یہ کم زور مورتی اور کہاں وہ انتہائی زبردست، رحیم و کریم مالک! اس سے دھیان بندھے گا یا بٹے گا؟
خلاصہ یہ ہے کہ کسی بھی طرح سے کسی کو بھی اللہ کا شریک ماننا سب سے بڑا گناہ ہے، جس کو وہ کبھی بھی معاف نہیں کرے گا اور ایسا آدمی ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بنے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سب سے بڑی نیکی ایمان ہے :
اسی طرح سب سے بڑی بھلائی اور نیکی ''ایمان'' ہے، جس کے بارے میں دنیا کے تمام مذہب والے یہ کہتے ہیں کہ سب کچھ یہیں چھوڑ جانا ہے، مرنے کے بعد آدمی کے ساتھ صرف ایمان جائے گا۔ ایمان داری یا ایمان والا اس کو کہتے ہیں، جو حق والے کو حق دینے والا ہو، اس کے برخلاف حق مارنے والے کو ظالم کہتے ہیں۔ اس انسان پر سب سے بڑا حق اس کے پیدا کرنے والے کاہے۔ وہ یہ کہ سب کو پیدا کرنے والا، موت و زندگی دینے والا مالک، رب اور عبادت کے لائق صرف اکیلا اللہ ہے تو پھر اسی کی عبادت کی جائے، اسی کو مالک، نفع و نقصان، عزت و ذلت دینے والا سمجھا جائے اور اس کی دی ہوئی زندگی اسی کی مرضی اور اطاعت کے مطابق بسر کی جائے، اسی کو مانا جائے اور اسی کی مانی جائے۔ اسی کا نام ایمان ہے۔ صرف اسی ایک کو مالک مانے بغیر، اور اس کی تابع داری کیے بغیر انسان ایمان دار یعنی ایمان والا نہیں ہو سکتا، بلکہ وہ بے ایمان اور کافر کہلائے گا۔
مالک کا سب سے بڑا حق مار کر لوگوں کے سامنے اپنی ایمان داری جتانا ایسا ہی ہے کہ ایک ڈاکو بہت بڑی ڈکیتی سے مال دار بن جائے اور پھر دوکان پر لالہ جی سے کہے کہ آپ کا ایک روپیہ میرے پاس حساب میں زیادہ آ گیا ہے، آپ لے لیجیے۔ اتنا مال لوٹنے کے بعد ایک روپیے کا حساب دینا جیسی ایمان داری ہے، اپنے مالک کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کرنا اس سے بھی بدتر ایمان داری ہے۔
ایمان صرف یہ ہے کہ انسان اپنے مالک کو اکیلا مانے، اس اکیلے کی عبادت کرے اور زندگی کی ہر گھڑی کو مالک کی مرضی اور اس کے حکم کے مطابق بسر کرے۔ اس کی دی ہوئی زندگی کو اس کی مرضی کے مطابق گزارنا ہی دین کہلاتا ہے۔ اور اس کے احکامات کو ٹھکرا دینا بے دینی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سچا دین:
سچا دین شروع سے ہی ایک ہے اور اس کی تعلیم ہے کہ اس اکیلے ہی کو مانا جائے اور اسی کا حکم بھی مانا جائے، اللہ نے قرآنِ مجید میں کہا ہے :
''دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے۔ ''
(ترجمہ القرآن، آل عمران۳:۹۱)
''اسلام کے علاوہ جو بھی کسی اور دین کو اختیار کرے گا، وہ ناقابلِ قبول ہو گا اور ایسا شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہو گاo ''
(ترجمہ القرآن، آل عمران ۳: ۵۸)
انسان کی کم زوری ہے کہ اس کی نظر ایک مخصوص حد تک دیکھ سکتی ہے۔ اس کے کان ایک حد تک سن سکتے ہیں، اس کے سونگھنے، چکھنے اور چھونے کی قوت بھی محدود ہے۔ ان پانچ حواس سے اس کی عقل کو معلومات فراہم ہوتی ہے، اسی طرح عقل کی رسائی کی بھی ایک حد ہے۔
وہ مالک کس طرح کی زندگی پسند کرتا ہے ؟ اس کی عبادت کس طرح کی جائے ؟ مرنے کے بعد کیا ہو گا؟ جنت کن لوگوں کو ملے گی؟ وہ کون سے کام ہیں، جن کے نتیجے میں انسان جہنم میں جائے گا؟اس سب کا پتا انسانی عقل، فہم اور علم سے نہیں لگایا جاسکتا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
پیغمبر:
انسان کی اس کم زوری پر رحم کر کے اس کے رب نے اپنے بندوں میں سے ان عظیم انسانوں پر جن کو اس نے اس ذمے داری کے قابل سمجھا، اپنے فرشتوں کے ذریعے ان پر اپنا پیغام نازل کیا، جنھوں نے انسان کو زندگی بسر کرنے اور بندگی کے طور طریقے بتائے اور زندگی کی وہ حقیقتیں بتائیں، جو وہ اپنی عقل کی بنیاد پر نہیں سمجھ سکتا تھا۔ ایسے بزرگ اور عظیم انسان کو نبی، رسول یا پیغمبر کہا جاتا ہے۔ اسے اوتار بھی کہہ سکتے ہیں، بشرطے کہ اوتار کا مطلب ہو ''وہ انسان جس کو اللہ نے انسانوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے منتخب کیا ہو۔'' لیکن آج کل اوتار کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ خدا انسان کی صورت میں زمین پر اترا ہے۔ یہ فضول خیال اور اندھی عقیدت ہے۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ اس باطل تصور نے انسان کو ایک مالک کی عبادت سے ہٹا کر اسے مورتی پوجا کی دلدل میں پھنسا دیا۔
وہ عظیم انسان جن کو اللہ نے لوگوں کو سچا راستہ بتانے کے لیے چنا اور جن کو نبی اور رسول کہا گیا، ہر قوم میں آتے رہے ہیں۔ ان سب نے لوگوں کو ایک اللہ کو ماننے، صرف اسی اکیلے کی عبادت کرنے اور اس کی مرضی سے زندگی گزارنے کا جو طریقہ (شریعت یا مذہبی قانون) وہ لائے، اس کی پابندی کرنے کو کہا۔ ان میں سے کسی رسول نے بھی ایک اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کی دعوت نہیں دی، بلکہ انھوں نے اس کو سب سے بھیانک اور بڑا جرم قرار دیتے ہوئے سب سے زیادہ اسی گناہ سے روکا۔ ان کی باتوں پر لوگوں نے یقین کیا اور سچے راستوں پر چلنے لگے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
مورتی پوجا کی ابتدا:
ایسے تمام پیغمبر اور ان کے ماننے والے لوگ نیک انسان تھے، ان کو موت آنی تھی (جس کو موت نہیں، وہ صرف اللہ ہے )۔ نبی یا رسول یا نیک لوگوں (بزرگوں ) کی موت کے بعد ان کے ماننے والوں کو ان کی یاد آئی اور وہ ان کی یاد میں بہت روتے تھے۔ شیطان کو موقع مل گیا۔ وہ انسان کا دشمن ہے اور انسان کے امتحان کے لیے مالک اللہ نے اس کو بہکانے اور بری باتیں انسان کے دل میں ڈالنے کی ہمت دی ہے کہ دیکھیں کون اس پیدا کرنے والے مالک کو مانتا ہے اور کون شیطان کو مانتا ہے۔
شیطان لوگوں کے پاس آیا اور کہا کہ تمہیں اپنے رسول یا نبی یا بزرگوں سے بڑی محبت ہے۔ مرنے کے بعد وہ تمہاری نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں، یہ سب اللہ کے چہیتے بندے ہیں، اللہ ان کی بات نہیں ٹالتا ہے، اس لیے میں ان کی ایک مورتی بنا دیتا ہوں، اس کو دیکھ کر تم سکون پاسکتے ہو۔ شیطان نے مورتی بنائی۔ جب ان کا دل چاہتا، وہ اسے دیکھا کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ جب اس مورتی کی محبت ان کے دل میں بس گئی تو شیطان نے کہا کہ یہ رسول، نبی و بزرگ اللہ سے بہت قریب ہیں، اگر تم ان کی مورتی کے آگے اپنا سر جھکاؤ گے تو اپنے کو خدا کے قریب پاؤ گے اور اللہ تمہاری بات مان لے گا، یا تم خدا سے قریب ہو جاؤ گے۔ انسان کے دل میں مورتی کی محبت پہلے ہی گھر کر چکی تھی، اس لیے اس نے مورتی کے آگے سر جھکانا اور اسے پوجنا شروع کر دیا اور وہ انسان جس کی عبادت کے لائق صرف ایک اللہ تھا، مورتیوں کو پوجنے لگا اور شرک میں پھنس گیا۔
انسان جسے اللہ نے زمین پر خلیفہ بنایا تھا، جب اللہ کے علاوہ دوسروں کے آگے جھکنے لگا تو اپنی اور دوسروں کی نظروں میں ذلیل و خوار ہوا اور مالک کی نظروں سے گر کر ہمیشہ کے لیے دوزخ اس کا ٹھکانا بن گیا۔ اس کے بعد اللہ نے پھر اپنے رسول بھیجے، جنھوں نے لوگوں کو مورتی پوجا ہی نہیں، ہر قسم کے شرک اور ظلم و ستم سے تعلق رکھنے والی برائیوں اور اخلاقی خرابیوں سے روکا، کچھ لوگوں نے ان کی بات مانی، اور کچھ لوگوں نے ان کی نافرمانی کی۔ جن لوگوں نے بات مانی، اللہ ان سے خوش ہوا، اور جن لوگوں نے ان کی ہدایت اور نصیحتوں کی خلاف ورزی کی، اللہ کی جانب سے دنیا ہی میں ان کو تباہ و برباد کر دینے والے فیصلے کیے گئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
رسولوں کی تعلیم:
ایک کے بعد ایک نبی اور رسول آتے رہے، ان کے دین کی بنیاد ایک ہوتی، وہ ایک دین کی طرف بلاتے کہ ایک اللہ کو مانو، کسی کو اس کی ذات اور صفات و اختیارات میں شریک نہ ٹھہراؤ، اس کی عبادت و اطاعت میں کسی کو شریک نہ کرو، اس کے سب رسولوں کو سچا جانو، اس کے فرشتے جو اس کے بندے اور پاک مخلوق ہیں، جو نہ کھاتے پیتے ہیں، نہ سوتے ہیں، ہر کام میں مالک کی فرماں برداری کرتے ہیں، اس کی نافرمانی نہیں کر سکتے، وہ اللہ کی خدائی یا اس کے معاملات میں ذرہ برابر بھی دخیل نہیں ہیں، ان کی اس حیثیت کو تسلیم کرو۔ اس نے اپنے فرشتوں کے ذریعے سے اپنے رسولوں و نبیوں پر جو وحی بھیجی یا کتابیں نازل کیں، ان سب کو سچا جانو، مرنے کے بعد دوبارہ زندگی پاقر اپنے اچھے برے کاموں کا بدلہ پانا ہے، اس پر یقین کے ساتھ اسے برحق جانو اور یہ بھی مانو کہ جو کچھ تقدیر میں اچھا یا برا ہے، وہ مالک کی طرف سے ہے اور رسول اس وقت اللہ کی جانب سے جو شریعت اور زندگی گزارنے کا طریقے لے کر آیا ہے، اس پر چلو اور جن برائیوں اور حرام کاموں اور چیزوں سے اس نے منع کیا، ان کو نہ کرو۔
جتنے اللہ کے نبی اور رسول آئے، سب سچے تھے اور ان پر جو مقدس کلام نازل ہوا، وہ سب سچا تھا۔ ان سب پر ہمارا ایمان ہے اور ہم ان میں فرق نہیں کرتے۔ حق بات تو یہ ہے کہ جنھوں نے ایک اللہ کو ماننے کی دعوت دی ہو، ان کی تعلیمات میں ایک مالک کو چھوڑ کر دوسروں کی پوجا ہی نہیں خود اپنی پوجا کی بھی بات نہ ہو، ان کے سچے ہونے میں کیا کلام ہو سکتا ہے ؟ البتہ جن مہا پرشوں کے یہاں مورتی پوجا یا بہت سے معبودوں کی عبادت کی تعلیم ملتی ہے، یا تو ان کی تعلیمات میں رد و بدل کر دی گئی یا وہ رسول ہی نہیں ہیں۔ محمد ﷺ سے پہلے کے تمام رسولوں کی زندگی کے حالات میں رد و بدل کر دیا گیا ہے اور ان کی تعلیمات کے بڑے حصے کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔
 
Top