• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
وراثت کا مسئلہ
س: زید اور بکر ایک ماں سے جبکہ عمر اور اس کی ایک بہن دوسری ماں سے ہیں۔ باپ ان سب کا ایک ہے۔ باپ پاکستان بننے سے پہلے فوت ہو گیا تھا۔ انگریزی قانون کے مطابق رقبہ تینوں بیٹوں میں برابر تقسیم ہو گیا۔ بہن کو کچھ نہ ملا۔ ۱۹۴۷ء میں بکر، لاولد فوت ہو گیا۔ بکر کا رقبہ زید اور عمر میں تقسیم ہو گیا۔ اس وقت بھی بہن کو کچھ نہ ملا۔ اب بہن نے زید سے اپنے مرنے والے بھائی کی وراثت کا مطالبہ کیا مگر انگریزی قانون نے فیصلہ زید کے حق میں دے دیا کہ بہن حقدار نہیں۔ اب زید دریافت کرتا ہے آیا شرعاً مرنے والے بھائی کی وراثت سے بہن کا حصہ بنتا ہے یا نہیں اور کیا بھائیوں کا شرعی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے باپ کی وراثت ، جو کہ بچپن میں انگریزی قانون کے مطابق ان کو ملی تھی ، اس میں سے بہن کا حصہ ادا کریں یا نہیں؟ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دے کر مطلع فرما دیں۔

ج: زمانۂ جاہلیت میں لوگ مرنے والے کی وراثت سے اپنی عورتوں اور بچوں کو محروم کر دیتے تھے۔ اسلام نے ایسے ظالم قانون کو ختم کر کے عدل و انصاف پر مبنی قانون مسلمانوں کو دیا اور عورتوں بچوں سمیت ہر شرعی حقدار کا حصہ مقرر کیا گیا ہے۔ صورتِ مسئولہ میں بیٹی کو باپ کی وراثت سے (لڑکے کا حصہ لڑکی سے دوگنا ہے) کے مطابق ساتواں حصہ ملے گا۔ (مگر شرط یہ ہے کہ اس مرنے والے کی دونوں بیویاں اس کی موت سے پہلے فوت ہو چکی ہوں ۔ اور اگر وہ اس وقت زندہ تھیں تو پھر تقسیم یوں ہو گی: دونوں بیویوں کا پوری وراثت سے آٹھواں حصہ ۔۔۔۔ جبکہ کل آٹھ حصے ہی بنیں گے ۔۔۔۔ باقی سات حصوں میں بیٹی کا ایک حصہ اور ہر بیٹے کے دو دو حصے ۔ یہ تقسیم میت کا قرضہ ادا کرنے کے بعد اور اس وصیت کے پورا کرنے کے بعد ہو گی جو اس نے (اگر) اپنی زندگی میں کی تھی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (سورة نساء :۱۲) ''اگر تمہاری اولاد ہو تو تمہارے ترکہ سے تمہاری بیویوں کے لئے آٹھواں حصہ ہے اور وہ بھی اس قرض کے بعد جو تم نے دینا ہے اور اس وصیت کے بعد جو تم نے کی تھی)۔ اس طرح مرنے والے بھائی بکر کی وراثت سے بھی اس کا حصہ بنتا ہے کیونکہ یہ اس کی علاتی بہن ہے جبکہ بکر کا ایک عینی بھائی بھی موجود ہے اور یہ بہن اپنے بھائی عمر کے ساتھ مل کر عصبہ بنتی ہے۔ اب جبکہ عصبہ کا ازدحام ہو تو جو قوت درجہ اور جہت میں اولیٰ ہوتا ہے اس کو وراثت ملتی ہے اور باقی محروم ہو جاتے ہیں۔ مسئلہ مسئولہ میں میت کا عینی بھائی جو کہ زید ہے یہ جہت اور درجہ میں عمر اور اسکی بہن کے ساتھ یکساں ہے جبکہ قوت کے لحاظ سے میت کے زیادہ قریب ہے۔ کیونکہ زید کا رشتہ ماں باپ دونوں کی طرف سے ہے اور عمر اور اس کی بہن کا رشتہ صرف باپ کی طرف سے ہے۔ واللہ اعلم۔
اب شریعت کے مطابق بھائیوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی بہن کا حصہ ادا کریں اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہی اور دوسرے کا مال ناحق غصب کرنے کے الزام سے بچ جائیں ۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ مسلمان ملک میں انگریز کے رواج دیئے ہوئے جاہلی اور ظالم قوانین بنائے گئے ہیں۔ مسلمان حکمرانوں نے (اپنی حکومتیں بچانے کے لئے) دین حنیف کے سراپا عدل و انصاف پر مبنی نظام کو دائو پر لگا کر مسلمانوں پر مسلط کیا ہوا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
دَم کا شرعی حکم
س: کیا دَم کرنا جائز ہے اور جو آدمی سر کو پکڑ کر دَم کرتے ہیں یا جس جگہ درد ہو وہاں پر ہاتھ رکھ کر دَم کرنا درست ہے؟ قرآن و حدیث کی رو سے واضح کریں۔

ج: دَم کرنا درست ہے اور کئی احادیث سے ثابت ہے ۔ جیسا کہ بخاری و مسلم کی متفق حدیث ہے کہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ اصحاب سفر میں تھے کہ انہوں نے عرب کے قبائل میں سے کسی ایک قبیلے کے علاج کے لئے کافی تک و دو کی لیکن وہ شفا یاب نہ ہوا تو ان میں سے کسی نے کہا لوگ ان کے پاس آئے اور کہا کہ ہمارے سردار کو کسی موذی چیز نے ڈسا ہے اور ہم نے بڑی بھاگ دوڑ کی ہے لیکن اس کو افاقہ نہیں ہوا۔ کیا تم میں سے کوئی دَ م کرنے والا ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک آدمی گیا اور اُس نے کچھ بکریوں کے عوض سورة فاتحہ پڑھ کر دَم کیا وہ آدمی تندرست ہو گیا۔ وہ بکریاں لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آیا ۔ انہوں نے اس کو برا سمجھا اور کہا تو نے اللہ کی کتاب پر مزدوری لی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس پر مزدوری لینے کے تم سب سے زیادہ حق دار ہو وہ اللہ کی کتاب ہے۔ جس جگہ پر درد ہو وہاں پر ہاتھ رکھ کر دَم کرنا بھی درست ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں آتا ہے عثمان بن ابو العاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت کی کہ جب سے مسلمان ہوا ہوں اپنے جسم میں درد پاتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''اپنا ہاتھ درد والی جگہ پر رکھ ا اور تین مرتبہ بسم اللہ پڑھی اور ساتھ مرتبہ (اعوذبعزّة اللّٰہ و قدرتہ من شرّمااجدوااحاذر) کہہ میں پناہ پکڑتا ہوں اللہ کی عزت اور قدرت کے ساتھ ہر چیز کی برائی سے جسے میں پاتا ہوں اور ڈرتا ہوں۔''
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس جگہ درد ہو وہاں پر ہاتھ رکھ کر دم کرنا درست ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
تعویذ کی شرعی حیثیت
س: ۱۔ تعویذ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
۲۔قرآنی آیات کے تعویذ کا جواز شریعت میں کیونکر ہے؟
۳۔ اہلحدیث کہلوانے والے امام جو کہ قرآنی آیات کے تعویذ کرتے ہوں ، کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟
۴۔ کیا تعویذ کرنا شرک ہے اور اگر شرک ہے تو اس کا لکھنے والا اور لینے والا مشرک ہے یا نہیں؟ (سید رضا احمد شاہ گیلانی ، چیچہ وطنی ساہیوال) ١
١ اس کی سند میں اعمش مدلس راوی ہیں اور روایت معنعن ہے (ابو طاہر)


ج: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''یعنی دم اور تمائم اور محبت کے ٹونے ٹوٹکے شرک ہیں۔''(رواہ احمد و ابو دائود)

اس حدیث میں دم سے مراد شرکیہ دم ہیں کیونکہ شرک سے پاک دم کرنے کی اجازت بلکہ ترغیب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''مجھے اپنے دم سنائو دَم میں کوئی حرج نہیں جب تک شرک نہ ہو۔''

اور صحیح مسلم میں ہی دَم کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
''جو شخص اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکتا ہو پہنچائے۔''
تمام تمیمہ کی جمع ہے اس کا ترجمہ عام طور پر تعویذ کیا جاتا ہے ۔ مگر یہ ترجمہ درست نہیں کیونکہ تمیمہ کے متعلق لغت کی تمام کتابوں میں لکھا ہے کہ اس سے مراد وہ منکے وغیرہ ہیں جنہیں اس مقصد کے لئے لٹکایا جاتا تھا کہ ان کے لٹکانے سے بیماری دور رہتی ہے۔
قاموس میں لکھا ہے: ''یعنی سیاہ و سفید نکتوں والا منکا ہے جو چمڑے میں پرو کر گلے میں ڈالا جاتا ہے۔''
کتاب التوحید کی شرح فتح المجید میں ہے:
یعنی تمیمہ وہ منکے یا ہڈیاں ہیں جو نظر بد سے دور رکھنے کے لئے بچوں کے گلے میں لٹکائی جاتی ہیں۔ بیماری سے بچائو کے لئے ڈالے جانے والے کڑے ، دھاگے ، درختوں کے پتے ، ہاتھوں یا گلے میں پہنے جاتے ہیں یا لوہے کے اوزار جو چارپائی پر رکھ دیئے جاتے ہیں ۔ سب اسی میں آتے ہیں اور شرک ہیں کیونکہ یہ چیزیں نہ نفع پہنچا سکتی ہیں ، نہ نقصان دور کر سکتی ہیں۔
رہاتعویذ یعنی کاغذ پر کچھ لکھ کر گلے میں ڈالنا تو اس کا وجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے معلوم نہیں۔ یہ چیز بعد میں شروع ہوئی ہے۔ اس لئے قرآن و سنت کی روشنی میں اس پر غور کر نا ہو گا۔ یہ بات تو ظاہر ہے کہ اگر تعویذ میں اللہ کے علاوہ کسی اور سے مدد مانگی گئی ہو یا غیر کا نام یا ہندسے لکھ کر گلے میں ڈالے جائیں تو یہ صریح شرک ہے اور ایسا کرنے والا مشرک ہے۔ اسے امام بنانا جائز نہیں اللہ تعالیی نے فرمایا ہے:
''اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہو گا جو اللہ کے علاوہ ایسے لوگوں کو پکارتا ہے جو قیامت کے دن تک اس بات کا جواب نہیں دے سکتے اور وہ ان کے پکارنے سے بے خبر ہیں۔''(احقاف : ۵)
البتہ اگر کوئی شخص اللہ کا نام یا قرآن مجید کی آیت لکھ کر گلے میں لٹکائے تو اسے شرک کہنا درست نہیں۔ کیونکہ اس میں اس نے کسی غیر سے مدد نہیں مانگی۔ اگر کوئی کہے کہ اُ سنے کاغذ گلے میں لٹکایا ہے تو یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ تعویذ لکھنے والا یا گلے میں ڈالنے والا کوئی موحد کاغذ میں نفع نقصان کی کوئی تاثیر نہیں سمجھتا۔ بلکہ اس کاغذ میں لکھے ہوئے اللہ کے نام یا اس کے کلام کی برکت سے شفا کا عقیدہ رکھتا ہے۔ اللہ کا کلام دَم کی صورت میں انسانی آواز میں ادا ہو تب بھی اللہ کا کلام اور اس کی صفت ہے اور غیر مخلوق ہے اور انسانی قلم و دوات سے کاغذ پر لکھا شرک قرار دیتے ہیں، ان کی بات بالکل بے دلیل ہے اور وہ غلو کاارتکاب کر رہے ہیں۔ البتہ یہ طریقہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ تھا اس لئے سلف صالحین میں اس کے جواز کے متعلق اختلاف ہے (دیکھئے المجید باب ماجاء فی الرقی والتمائم)

جواز کے قائلین اسے علاج کی ایک صورت قرار دیتے ہیں جس میں کوئی شرک نہیں اور شرک سے پاک دَم کی طرح اس کی کوئی ممانعت نہیں۔ منع کرنے والے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید لکھواتے تھے، بعض اوقات احادیث بھی لکھواتے تھے۔ لوگوں کے علاج اور شفا کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تعویذ لکھوا کر دور دراز بھیج سکتے تھے اور اس کی ضرورت بھی تھی۔ مگر ضرورت کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیںکیا۔ اس لئے جائز نہیں۔
ہمیں صرف دَم پر اکتفا کرنا چاہیے۔ اگر غور کیاجائے تو یہی بات درست معلوم ہوتی ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دَم پر اکتفا کیا ہے تو ہمیں بھی اسی پر اکتفا کرنا چاہیے۔ لیکن کوئی توحید والا شخص اگر قرآنی تعویذ اللہ کے اسماء و صفات پر مشتمل تعویذ لکھتا ہے۔ تو بے شک اس کا ہمارے ساتھ سوچ میں اختلاف ہے ، مگر اسے نہ مشرک کہہ سکتے ہیں ، نہ اس کے پیچھے نماز چھوڑی جا سکتی ہے۔ اختلاف سلف صالحین رحمة اللہ علیہم میں بھی ہوتا تھا مگر ان میں سے کسی نے ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں چھوڑی۔ ہم اپنے بھائیوں کو دلائل سے قائل کرنے کی پوری کوشش کریں گے ، مگر اجتہادی اختلافات کی بنا پر مسلمانوں کا اتفاق پارہ پارہ ہو، اس کی کسی صورت میں بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کیا خرگوش حلال ہے؟
س: خرگوش کے حلال ہونے کے متعلق قرآن و احادیث سے وضاحت کریں۔

ج: خرگوش کی حلت کے بارے میں امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے کتاب الزبائح بخاری میں باب الارنب ذکر کیا ہے اور یہ حدیث درج کی ہے:
''حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا ہم نے ایک خرگوش کو مرظہران میں دوڑایا لوگ اس کے پیچھے دوڑے مگر تھک کر رہ گئے (پکڑ نہ سکے) آخر میں اس کو پکڑ کر ابو طلحہ کے پاس لایا انہوںنے اس کو ذبح کیا اور اس کی سرین یا رانیں آپ کے پاس بھیجیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کیں۔''(صحیح البخاری باب الارنب ۳/۸۴)
امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ بخاری کی شرح میں لکھتے ہیں کہ :
''خرگوش کی حلت کے بارے میں ائمہ اربعہ کا بھی یہی مسلک ہے اور اس باب کی حدیث جمہور محدثین کے لئے خرگوش کی حلت میں حجت ہے۔'' (ارشاد الساری۲۹۲/۸)
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
برائلر مرغی کھانا حلال ہے یا حرام ؟
س: برائلر مرغی کھانا کیسا ہے ؟ بعض لوگ اسے حرام قرار دیتے ہیں کیونکہ اس کی خوراک خون اور مردار اور دوسری کئی اشیاء سے تیار ہوتی ہے۔ لاکھوں لوگوں کے لئے یہ مسئلہ پریشانی کا سبب بنا ہوا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔

ج: اصل جواب سمجھنے سے پہلے دو باتیں سمجھنا بہت ضروری ہیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حلت اور حرمت ایسی چیزیں نہیں ہیں کہ جن کا تعلق انسان کے ذوق اور مزاج کے ساتھ ہو۔ جسے انسانی ذوق چاہے اس کو حلال اور جسے چاہے حرام سمجھ لے بلکہ یہ آسمانی شریعت ہے جس کا خالق کائنات نے اپنے بندوں کو مُکلف بنایا ہے۔ اس لئے حلال وہی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر حلال کر دیا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
''اور اپنی زبانوں کے جھوٹ بنا لینے سے یہ مت کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تا کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھو یقینا وہ کامیاب نہیں ہوں گے جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔''(النحل : ۱۱۶)

دوسری بات یہ ہے کہ حلال و حرام عقل کے تابع نہیں اور نہ ہی قیاسات اور مادی وسائل سے ان کا اثبات کیا جا سکتاہے اور جو لوگ اسے مادی وسائل اور عقل کے تابع بناتے ہیں وہ گمراہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے کے گوشت کو حلال قرار دیا ہے۔ جیسا کہ بخاری شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی حدیث ہے اور خچر کو حرام قرار دیا ہے۔ یہ دونوں جانور شکل و صورت میں کھانے پینے اور پیدائش میں ایک دوسرے کی مشابہت رکھتے ہیں البتہ شکل میں تھوڑا فرق پایا جاتا ہے۔ اسی طرح گھریلو گدھا اور جنگلی گدھا دونوں کو شریعت میں حمار (گدھا) کہا گیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے مشابہت بھی رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود گھریلو گدھے کا گوشت حرام ہے اور جنگلی گدھے کا گوشت حلال ہے ۔ اگر اہل علم اور ان اشیاء کے سپیشلسٹ گھوڑے اور جنگلی گدھے کے حلال ہونے میں اور خچر اور گھریلو گدھے کے حرام ہونے میں فرق معلوم کرنے کی کوشش کریں تو ہر گز شرعی علت تک نہ پہنچ سکیں گے حالانکہ یہ اشیاء مادی اور حسی وسائل کے لحاظ سے ایک ہی چیز شمار ہوتی ہیں۔ کون ہے جو مادی لحاظ سے ان کی حلت اور حرمت کی علت بیان کر سکے؟ یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ حلال اور حرام آسمانی شریعت ہے مادی ، حسی اور عقلی وسائل کے تابع نہیں۔ یہ دونوں باتیں ذہن نشین کرنے کے بعد اب جواب کی طرف آئیے۔ قرآن مجید اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی ایسی چیز نہیں ملتی جس سے برائلر مرغی کا حرام ہونا ثابت ہو سکے بلکہ حدیث سے مرغی کا حلال ہونا ثابت ہے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
''میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مرغی کا گوشت کھاتے ہوئے دیکھا۔''(صحیح بخاری مع فتح الباری ج۹، ص۵۶۱)

یہ حدیث صحیح مسلم ، دارمی، بیہقی اور مسند احمد میں بھی ہے۔ امام بخاری نے اس پر باب باندھا ہے باب لحم الدجاج اور امام ترمذی بھی فرماتے ہیں باب ما جاء فی اکل الدجاج
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو پاکیزہ کھانا ہی کھاتے تھے اور ایسے کھانے کے قریب تک نہیں جاتے تھے کہ جس میں کراہت ہو ۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مرغی کا گوشت کھانا اس کے حلال ہونے کی واضح دلیل ہے۔ اس کے بعد کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ مرغی کے گوشت کو حرام قرار دے۔ صرف اس شبہ سے کہ اس کی خوراک میں حرام چیزیں استعمال ہوتی ہیں کیونکہ حلت اور حرمت میںجانور کی غذا کا اعتبار نہیں بلکہ شریعت کا اعتبار ہے کیونکہ بعض جانور ایسے ہیں کہ جن کی خوراک پھل، سبزیاں اور حلال اشیاء ہیں اس کے باوجود وہ حرام ہیں مثلاً گیدڑ، بندر وغیرہ ایسے جانوروں کو کھانا ہر گز حلال نہیں حالانکہ ان کی خوراک پاکیزہ ہوتی ہے مگر شریعت نے انہیں حرام قرار دیاہے۔
اگر حرام اور حلال ہونے ی علت جانور کے کھانے (خوراک ) کو تسلیم کر لیں کہ جس کی خوراک پاک ہوگی اس کا گوشت حلال اور جس کی خوراک نجس اور حرام ہو گی اس کا گوشت حرام ہو گا تو فرض کریں کہ کوئی شخص خنزیر کے بچے کو پیدائش ہی سے گھر میں پالتا ہے اسے حلال اور پاک غذا مہیا کرتا ہے تو کیا وہ حلال ہو جائے گا؟ اگر اس بارے میں کوئی شخص اپنی عقل کو فیصل مانے گا تو اس کے مطابق تو حلال ہو گا کیونکہ اُس نے کبھی حرام اور نجس چیز کھائی ہی نہیں اور اپنا فیصلہ اگر شریعت کی طرف لے جائے گا پھر یہ حرام ہو گا۔
ان تمام دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ حلت اور حرمت میں جانور کی خوراک کا کوئی اعتبار نہیں بلکہ شریعت کا اعتبار ہو گا۔

شبہ کا رَد
جو لوگ برائلر مرغی کو حرام قرار دیتے ہیں وہ اسے جلالہ پر قیاس کرتے ہیں جسے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے:
''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جلالہ کے کھانے سے اور ان کے دودھ سے منع کیا ہے۔''(ابوداؤد ' ترمذی ' ابن ماجہ)

اس حدیث سے جلالہ کی قطعی حرمت ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس کے استعمال سے اس وقت تک روکا گیا ہے جب تک کہ اس گندی خوراک کی بدبو زائل نہ ہو جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے صحیح چر سے ثابت ہے کہ:
''عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جلالہ مرغی کو تین دن بند رکھتے تھے (پھر استعمال کر لیتے تھے)۔''(رواہ ابنِ ابی شیبہ)
علامہ ناصرا لدین البانی نیاس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ، (ارواء الغلیل ج۸، ص۱۵۱)
یہ صرف اس لئے کرتے تھے تا کہ اس کا پیٹ صاف ہو جائے اور گندگی کی بو اس کے گوشت سے جاتی رہے۔
اگر جلالہ کی حرمت گوشت کی نجاست کی وجہ سے ہوتی تو وہ گوشت جس نے حرام پر نشو ونما پائی ہے کسی بھی حال میں پاک نہ ہوتا۔ جیسا کہ ابنِ قدامہ نے کہا ہے کہ اگر جلالہ نجس ہوتی تو دو تین دن بند کرنے سے بھی پاک نہ ہوتی۔ (المغنی ج۹، ص۴۱)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اس صحیح اثر سے معلوم ہوتا ہے کہ جلالہ کی حرمت اس کے گوشت کا نجس اور پلید ہونا نہیں بلکہ علت اس کے گوشت سے گندگی کی بدبو وغیرہ کا آنا ہے۔ جیسا کہ حافظ ابنِ حجر فرماتے ہیں:
''جلالہ کے کھانے کا لائق ہونے میں معتبر چیز نجاست وغیرہ کی بدبو کا زائل ہونا ہے۔ یعنی جب بدبو زائل ہو جائے تو اس کا کھانا درست ہے۔''

علامہ صنعانی بھی فرماتے ہیں: ''کہ جلالہ کے حلال ہونے میں بدبو کے زائل ہونے کا اعتبار کیا جاتا ہے۔'' (سبل السلام ، ج۳، ص۷۷)

جلالہ کے بارے میں اہل لغت کے اقوال جان لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ اکثر اہل لغت نے لکھا ہے کہ:
''کہ جلالہ وہ گائے ہے جو نجاسات کو تلاش کرتی ہے۔'' (لسان العرب ج۲، ص۳۳۶، الصحاح للجوہری ج۴، ص۱۲۵۸، القاموس المیط ج۱، ص۵۹۱)

ابنِ منظور الافریقی لکھتے ہیں: ''کہ جلالہ وہ حیوان جو انسان کا پاخانہ وغیرہ کھاتے ہیں۔''(لسان العرب، ج۲، ص۳۳۶)

اس قول کے مطابق برائلر مرغی جس کو لوگ حرام قرار دیتے ہیں جلالہ بنتی ہی نہیں ہے کیونکہ وہ انسان کا پاخانہ نہیں کھاتی۔ لہٰذا اسے جلالہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ اس میں جلالہ کی علت نہیں پائی جاتی اور جب علت نہ رہی تو جلالہ والا حکم بھی اس پر نہیں لگ سکتا۔ لہٰذا برائلر مرغی جس کی غذا حلال اور حرام چیزوں کے مرکبات سے تیار ہو تی وہ حلال ہے جس میںکوئی شبہ نہیں۔ اس کی غذا کا اعتبار نیہں بلکہ شریعت کا اعتبار ہے۔ آخر میں یہ بات بھی اچھی طرح یاد رہے کہ مرغی کی خوراک میں جو خون مردار اور دوسری حرام اشیاء ڈالی جاتی ہیں اگرچہ یہ انسانوں کے لئے حرام ہیں جانوروں کے لئے حرام نہیں کیونکہ وہ تو مُکلف ہی نہیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کے لئے جن اشیاء کا کھانا حرام قرار دیا ہے ان کی خریدو فروخت بھی (چند ایک جانور چھوڑ کر) حرام قرار دی ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
''اللہ تعالیٰ یہودیوں پر لعنت کرے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات تین مرتبہ دہرائے پھر کہا اللہ تعالیٰ نے ان پر چربی کا کھانا حرام کر دیا تو انہوں نے اسے فروخت کر کے اس کی قیمت استعمال کرنی شروع کر دی اور یقینا اللہ تعالیٰ جس کسی قوم پر کسی چیز کا کھانا حرام کر دیتا ہے اس کی قیمت بھی ان پر حرام کر دیتا ہے۔'' (صحیح سنن دائود للالبانی ج۲، ص ۶۶۷ واحمد)

اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
''بے شک اللہ نے شراب ، مردار، خنزیر کو حرام قرار دیا ہے اور ان کی قیمتیں بھی حرام کی ہیں۔'' (صحیح ابو دائود ، ج۲، ص۶۶۶)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان فرامین سے معلوم ہوتا ہے کہ جن چیزوں کا کھانا انسان کے لئے حرام ہے اُن کی خریدوفروخت کرنا بھی حرام ہے۔ (سوائے چند جانوروں کے جیسے کہ گھریلو گدھا ہے) ایسا کرنے والا اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی کا مرتکب ہے اور حرام کمائی کھانے اور جمع کرنے میں مصروف ہے۔
ہمارے ان بھائیوں کو چاہیے کہ وہ مرغی کی خوراک تیار کرنے میں حرام اشیاء کی خریدو فروخت سے اجتناب کریں۔ خوراک میں مردار اور خون ڈالنے کی بجائے مچھلی کا چور ا ڈال لیں ۔ جب حلال چیز کی خریدو فروخت میں کفایہ ہے تو پھر حرام کی کیا ضرورت ہے؟ اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو قرآن و سنت پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
گھوڑا اور جنگلی گدھا
س: برائلر مرغی والے جو اب کے ضمن میں گھوڑے اور جنگلی گدھے کی حلت کے بارے میں اشارہ تھا جس پر بہت زیادہ بھائیوں نے سوالات بھیجے ہیں اور کچھ لوگوں کے طعنوں کا تذکرہ بھی کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی مفصل وضاحت کریں؟

ج: تفصیل کے ساتھ وہی جواب حاضر ہے۔ گھوڑا حلال ہے اس کی دلیل حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ:
''کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن گدھوں کے گوشت کے بارے میں منع کیا اور گھوڑے کے گوشت کی اجازت دی۔'' (متفق علیہ)
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: ''کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم نے گھوڑے کا گوشت کھایا۔'' (متفق علیہ)

مصنف ابنِ ابی شیبہ میں صحیح سند سے مروی ہے کہ عطاء بن ابی رباح سے ابنِ جریج نے گھوڑے کے گوشت کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا:
''کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلف ہمیشہ اس کو کھاتے رہے ہیں؟ میں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم؟ تو انہوں نے کہا ہاں۔'' (مصنف ابنِ ابی شیبہ ج۸، ص۲۵۰)

امام صلاح الدین خلیل بن کیکلدی العلائی نے اپنی کتاب توفیة الکیل لمن حرم لھوم الخیلمیں لکھا ہے کہ جمہور سلف و خلف ائمہ محدثین سوید بن غفلہ ، علقمہ بن اسود اصحاب عبداللہ بن مسعود ، ابراہیم نخعی، شریح، سعید بن جبیر، حسن بصری ، ابنِ شہاب زہری ، حماد بن ابی سلیمان ، امام شافعی ، احمد بن حنبل ، قاضی ابو یوسف، محمد بن حسن الشیبانی ، اسحاق بن راہویہ ، دائود ظاہری، عبداللہ بن مبارک اور جمہور اہل حدیث کے نزدیک گھوڑا حلال ہے۔ اس کی حلت میں کوئی شک و شبہ نہیں صرف امام ابو حنیفہ اور بعض مالکیوں نے اسے حرام یا مکروہ کہا تھا۔
ہمارے ملک میں چونکہ ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو امام ابو حنیفہ کے مقلد ہیں اور ان کے ہاں گھوڑا حرام سمجھا جاتا ہے ۔ اس لئے جب اس کی حلت کی بات کی جاتی ہے تو اسے بڑا عجیب سمجھا جاتا ہے اور لوگ مختلف انداز سے اس کے متعلق سوال کرتے ہیں حالانکہ موجودہ دور میں کئی حرام اشیاء مثلاًسود، شراب ، جوا غیر اللہ کے نام پر دی ہوئی اشیاء وغیرہ لوگ سر عام استعمال کرتے ہیں اور ان پر کبھی اتنے سوال نہیں اٹھائے جاتے صرف اس لئے کہ یہ چیزیں لوگوں کی ہڈیوں میں رچ چکی ہیں اور جونہی کسی ایسی چیز کی حلت کے متعلق سوال ہو جو ان کے ہاں غیر معروف ہو تو بلا سوچے سمجھے اس پر حرمت کا فتویٰ جڑ کر تنقید شروع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ امام ابو حنیفہ کے شاگردوں میں سے ابو یوسف اور امام محمد ا س کی حلت کے قائل ہین۔ کتاب منیہ المصلی اردو میں جو ٹھے پانیوں کے بیان میں لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ کی گھوڑے کے جھوتے پانی میں چار روایات ہیں۔ ایک میں نجس ایک میں مشکوک اور ایک میں مکروہ اور ایک میں پاک ہے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک پاک ہے اس واسطے کہ اس کا گوشت حلال ہے۔ کنز الدقائق فارسی مترجم ملا نصیر الدین کرمانی میں ہے۔ اسی طرح ایک حدیث میں ہے:
''کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھے ، گھوڑے اور خچر کے گوشت سے منع کیا۔''

لیکن یہ حدیث ضعیف ہے اس میں عکرمہ بن عمار یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کرتا ہے جب یہ عکرمہ یحییٰ سے بیان کرے تو حدیث ضعیف ہوتی ہے۔ یحییٰ بن سعید القطان فرماتے ہیں: کہ اس کی حدیثیں یحییٰ بن ابی کثیر سے ضعیف ہیں۔ اما م بخاری کہتے ہیں کہ سوائے یحییٰ کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح گھوڑے کے گوشت کی حرمت میں خالد بن ولید کی بھی ایک حدیث پیش کی جاتی ہے وہ حدیث بھی شاذ اور منکر ہے۔ پھر اس حدیث میںیہ ہے کہ خالد خیبر میں شریک ہوئے حالانکہ وہ خیبر کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔
جنگلی گدھے کے بارے میں بھی صحیح بخاری شریف میں حدیث ہے۔ ابو قتادہ کہتے ہیں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے۔ کچھ ہم میں احرام پہنے ہوئے اور کچھ بغیر احرا م کے تھے۔ ۔۔میں نے ایک جنگلی گدھا شکار کیا اور اپنے ساتھیوں کے پاس لے آیا۔
''بعض نے کہا کھا لو بعض نے کہا نہ کھائو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جو ہمارے آگے تھے اور پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو کھالو۔ یہ حلال ہے۔'' (بخاری مع الفتح۴/۳۵ )
حافظ ابنِ حجر نے امام طحاوی حنفی کا قول نقل کیا ہے ، فرماتے ہیں:
''کہ علماء کا جنگلی گدھے کے حلال ہونے پر اجماع ہے۔'' (فتح الباری۶۵۶/۱)

یہ بھی یاد رہے کہ جنگلی گدھا ایک اور جانور ہے نام میں اشتراک کی وجہ سے اسے گھریلو گدھا نہ سمجھا جائے۔ بقول ابی یوسف اور محمد و شافعی ''بخوردن گوشت اسپ با کے نیست''۔ ابو یوسف اور امام شافعی کے نزدیک گھوڑے کے گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں۔
مولوی ثنا ء اللہ امرتسری پانی پتی حنفی نے اپنی کتاب مالا بدّمنہ کے صفحہ ۱۱۰پر لکھا ہے ''اسپ حلال است'' گھوڑا حلال ہے۔ مولوی اشرف علی تھانوی بھی دبی زبان میں گھوڑے کی حلت کا اقرار کرتے ہوئے رقم طراز ہیں ''گھوڑی کا کھانا جائز ہے لیکن بہترین ''(بہشتی زیور حصہ سوم ، ص۵۶) بلکہ خود امام ابو حنیفہ نے اپنے پہلے فتویٰ سے رجوع کر لیا تھا اور گھوڑے کی حلت کے قائل ہو گئے تھے۔ علامہ آلوسی حنفی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں نقل کیا ہے کہ:
''کہ امام ابو حنیفہ نے اپنی وفات سے تین دن قبل گھوڑے کی حرمت سے رجوع کر لیا تھا اور اسی قول پر فتویٰ ہے۔''
جامع الرموز، کتاب الذبائع ، ج۳، ص۳۵۰ میں ہے:
بات ختم کرنے سے پہلے چند شبہات کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ بعض لوگ قرآن مجیدکی آیت کہ گھوڑے خچر اور گدھوں کو سواری کے لئے زینت بنایا ہے، سے گھوڑے کی حرمت پر استدلال کرتے ہیں لیکن یہ درست نہیں کیونکہ یہ بالا تفاق مکی ہے اور گھوڑے کی حلت کا حکم مدنی ہے۔ ہجرت سے تقریباً۶ سال بعد کا اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت سے گھوڑے کی حرمت سمجھتے تو اس کی اجازت کبھی نہ دیتے۔ پھر یہ آیت گھوڑے کی حرمت میں نص بھی نہیں اور حدیث میں اس کی حلت کی صراحت موجود ہے۔
نوٹ: امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کا اپنے سابقہ مؤقف سے رجوع رَد المختار۹/۴۴۲، طبع بیروت، کتاب الذبائح میں بھی موجود ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
قربانی کے متعلق احادیث کی تحقیق
س: ماہِ جون کے شمارے میں قربانی کے احکامات اور فضائل دیئے گئے ہیں ان میں سے ایک حدیث میت کی قربانی کے حکم کے سلسلے میں لکھی ہوئی ہے۔

ترمذی شریف میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کیا کرتے تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد مجھے قربانی کرنے کی وصیت فرمائی تھی معلوم ہوا کہ میت کی طرف سے قربانی کرنا مشروع اور جائز ہے۔ اس حدیث کے بارے میں وضاحت درکار ہے کہ آیا یہ حدیث ضعیف تو نہیں؟ اگر ضعیف ہے تو آئندہ شمارے میں اس کی وضاحت فر ما دیں۔
ج: مذکورہ بالا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی روایت جو سنن ابو دائود۴۹/۳ اور ترمذی۴/۸۴ ٤٤ پر مروی ہے انتہائی ضعیف ہے۔ اس روایت کے ضعیف ہونے کے اسباب درج ذیل ہیں:
۱) امام ترمذی نے اس روایت کے نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ ھٰذا الحدیث غریب لا نعرفہ الاّ من حدیث شریکٍ یہ حدیث غریب ہے ہم اسے شریک کے واسطے کے علاوہ کسی اور واسطے سے نہیں پہنچانتے اور شریک بن عبداللہ القاضی کا حافظہ متغیر ہو گیا تھا۔ حافظ ابنِ حجر عسقلانی تقریب التہذیب ۱۴۵ پر فرماتے ہیں : ''سچا ہے لیکن کثرت سے غلطیاں کرتا ہے اور جب سے اسے کوفہ کا قاضی بنایا گیا اس کا حافظہ متغیر ہو گیا تھا۔''
امام مسلم نے صرف متابعت میں اس کی روایات نقل کی ہیں ان سے احتجاج نہیں کیا۔
۱) اس روایت کی سند میں دوسری خرابی یہ ہے کہ شریک ابوالحسناء سے روایت کرتا ہے اور یہ مجہول راوی ہے اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ یہ کون ہے۔ حافظ ابنِ حجر عسقلانی تقریب ٤٠١ پر رقم طراز ہیں کہ:
۲) تیسری خرابی یہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرنا والا حنش ہے جو ابو المعمر الکنانی ہے۔ یہ راوی بھی متکل فیہ ہے۔ حافظ ابنِ حجر عسقلانی نے تقریب ۴۰۱ پر لکھا ہے کہ: ''سچا ہے لیکن اس کی روایات میں وہم ہوتا ہے اور مرسل روایات بیان کرتا ہے۔''
۳) تیسری خرابی یہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرنا والا حنش ہے جو ابوالمعمر الکنانی ہے۔ یہ راوی بھی متکلم فیہ ہے ۔ حافظ ابنِ حجر عسقلانی نے تقریب ۸۵ پر لکھا ہے کہ : ''سچا ہے لیکن اس کی روایات میں وہم ہوتا ہے اور مرسل روایات بیان کرتا ہے۔''
امام ابنِ حبان فرماتے ہیں کہ یہ کثیر الوہم ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بعض روایات نقل کرنے میں منفرد ہے اور قابل حجت نہیں ہے۔ ''
امام ابنِ حبان فرماتے ہیں کہ یہ کثیر الوہم ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بعض روایات نقل کرنے میں منفرد ہے اور قابل حجت نہیں ہے۔(عون المعبود مع ابو دائود۸۱/۳)
اس بحث سے معلوم ہوا کہ یہ روایت سخت ضعیف ہے اور قابل حجت نہیں۔
نوٹ: اس کے علاوہ اسی مضمون کی ایک روایت (ابن ماجہ (۳۱۲۸)۱۰۴۵/۲ بھی انتہائی ضعیف ہے بلکہ موضوع ہے۔ اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
۱) اس کی سند میں عائذ اللہ المجاشعی ہے جس کے بارے میں امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ '' اس کی حدیث صحیح نہیں ہے۔'' امام ابو حاتم نے کہا: (ھو متروک الحدیث) (تنقیح الرواة ۲۸۰/۱)حافظ ان حجر عسقلانی نے فرمایا: ضعیف (تقریب:۱۶۲)
۲) دوسرا راوی نفیع بن الحارث ابو دائود میں ہے۔ اس کے بارے میں امام دارقطنی نے فرمایا: ھو متروک (تنقیح الرواة۲۸۰/۱) امام ہیثمی نے مجمع الزوائد میں فرمایا: ھو متروک واتّھم بوضع الحدیث حافظ ابنِ حجر عسقلانی نے فرمایا: متروک وقد کذّبہ ابن معینٍ (تقریب۳۵۹) معلوم ہوا کہ نفیع بن الحارث متروک الحدیث اور جھوٹا راوی ہے۔
۳) اس کے علاوہ سلام بن مسکین عائذ اللہ سے روایت کرنے میں بھی منفرد بھی ہے۔ (تنقیح الرواة۲۸۰/۱)
یہ مضمون نگار کی غفلت و تساہل کا نتیجہ ہے کہ اس نے تحقیق نہیں کی۔ اور مجلّہ الدعوة میں روایت طبع ہونے پر ہم قارئین سے معذرت خواہ ہیں، اُمید ہے کہ قارئین ہماری اس لغزش کو معاف کر دیں گے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
قربانی کے احکام
س: قربانی کی اسلام میں کیا اہمیت ہے۔ اس سے متعلق مسائل واضح کیجئے۔

ج: آج سے کئی ہزار سال قبل عرب کے لق و دق صحرائی میدان میں سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے فرزند ارجمند (علیہ السلام ) کو اللہ کی رضا کی خاطر پیشانی کے بل ذبح کرنے کے لئے لٹایا۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے پیغمبر کا امتحان مقصود تھا۔ ابراہیم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے۔ اللہ کی طرف سے پیغام آیا:
''اے ابراہیم تو نے خواب کو سچ کر دکھایا۔ بے شک ہم اسی طرح احسان کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں۔''(الصفت : ۱۰۵)
اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنے والوں کا یہ ترانہ ہوتاہے:
''بلاشبہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے۔'' (الانعام)

باپ بیٹے کی یہ یادگار قربانی کی صورت کئی ہزار سال سے جاری و ساری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔ قربانی کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے اللہ کی رضا کی خاطر اپنی عزیز ترین متاع کو بھی اس کے راستے میں قربان کر دے۔ کیونکہ جانوروں کا گوشت پوست اور کھالیں اللہ تعالیٰ کو نہیں پہنچتیں بلکہ اس سے تو انسان کے دل کا خوف اور ڈر مقصود ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
''اللہ تعالیٰ کو قربانی کا گوشت اور اس کا خون ہر گز نہیں پہنچتا لیکن اس کے ہاں تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔''

قربانی کی اہمیت
''سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جو شخص قربانی کی طاقت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔ '' (مسند احمد ۳۲۱/۲، ترغیب و ترہیب ۱۰۰/۲، ابنِ ماجہ (۳۱۳۳)۱۰۴۴/۲، نیل الاوطار۱۹۵/۵)
یہ روایت مرفوعاً بھی مروی ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ قول صحابی رضی اللہ عنہ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا مینڈھا ذبح کرتے جو موٹا تازہ سینگوں والا ہوتا تھا جس کی آنکھیں منہ اور ٹانگیں سیاہ ہوتیں۔'' (ترمذی۲۸۳/۱، ابنِ ماجہ (۳۲۸)۱۰۴۵۲/۲، ابو دائود۲۷۹۳)
''سیدنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ میں قیام فرمایا اور ہر سال قربانی کی۔'' ترمذی (۱۵۱۲)۳/۱۲۹، مسند احمد۳۸/۲)
''سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صرف دو دانتا جانور کی قربانی کرو۔ اگر ایسا جانور نہ مل سکے تو پھر جذعہ ذبح کر لو۔'' (ابو دائود۲۷۹۴، مسلم کتاب الاضاحی ، نسائی ۲۱۸/۷، ابنِ ماجہ (۳۱۴۱)۱۰۴۹، مسند احمد ۳۱۲/۳۔۳۲۷)
لغت عرب میں مسنہ اس جانور کو کہتے ہیں جس کے دودھ کے دانت ٹوٹ کر اگلے دانت نکل آویں۔ (مجمع البحار ۱۴۸) لفظ مسنہ سن سے مشتق ہے جس کے معنی دانت ہیں مسنہ بمعنی سال سے مشتق نہیں۔

وہ جانور جن کی قربانی جائز نہیں
''سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا: ہم جانور کی آنکھیں اور کان اچھی طرح دیکھیں اور ہم ایسا جانور ذبح نہ کریں جس کا کان اوپر سے کٹا یا نیچے سے کٹا ہو۔ جس کے کان کی لمبائی میں چرے ہوئے ہوں یا جس کے کان میں گول سوراخ ہو۔'' (ترمذی۲۸۳/۱، ابو دائود(۲۸۰۴)، نسائی۲۱۶/۷، دارمی۷۷/۲، ابنِ ماجہ (۳۱۴۲۔۳۱۴۳)، مسند احمد۸۰/۱،۹۰،۱۰۱،۱۰۵،۱۰۸)
١ اس کی سند میں حجاج بن ارطاة مدلس ہے اور اس کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ (ابو طاہر)
یہ روایت والاذن تک مرفوع ہے آگے کانوں کی وضاحت راوی کا قول ہے۔
''براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: کس جانور کی قربانی کرنے سے بچا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اشارہ کر کے کہا چار قسم کے جانوروں کی قربانی منع ہے۔ ١) لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو۔ ٢) کانا (بھینگا) جانور جس کا کانا پن ظاہر ہو۔ ٣) بیمار جس کی بیماری واضح ہو۔ ٤) لاغر جانورجس کی ہڈیوں میں بالکل گودا نہ ہو۔'' (موطا۵۸۲/۲، دارمی۷۲/۲، ترمذی۲۸۳/۱، نسائی۲۱۴/۷، ابنِ ماجہ (۳۱۴۴)، مسند احمد ۲۸۴/۴۔۲۸۹)

قربانی کا وقت اور جگہ
''ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ میں قربانی کا جانور ذبح کرتے تھے۔'' (بخاری)
''سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز عید سے قبل قربانی کا جانور ذبح کیا وہ دوبارہ قربانی کرے۔ صحیح بخاری کے الفاظ یہ ہیں:
جس نے نمازِ عید سے قبل قربانی کا جانور ذبح کیا وہ اسے اپنے لئے ذبح کرتا ہے اور جس نے نماز کے بعد ذبح کیا اس کی قربانی پوری ہو گئی اور اس نے مسلمانوں کے طریقے کو اپنایا۔''

جانور خود ذبح کریں
قربانی کا جانور خود ذبح کرنا چاہیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے ہاتھ سے قربانی ذبح کیا کرتے تھے۔ قربانی پورے گھر کی طرف سے ایک ہی کفایت کر جاتی ہے۔
''عطا ء بن یسار کہتے ہیں میں نے ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانی کیسے ہوتی تھی تو انہوں نے فرمایا: ''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آدمی اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک ایک قربانی کرتا تھا۔'' (ابن ماجہ (۳۱۴۷)۱۰۵۱/۲)

قربانی کی کھالوں کا مصرف
''سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ک قربانیوں کی نگرانی کروں اور ان کا گوشت کھا لیں اور جلیں صدقہ کر دوں اور ان میں سے قصاب کو کچھ نہ دوں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا ہم قصاب کو اپنے گرہ سے اس کی اجرت دیتے تھے۔''
''قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے قربانیوں کا گوشت تین دنوں سے اوپر کھانے سے روکا تھا۔ اب تم ان کا گوشت کھائو اور صدقہ کرو۔ ان کی کھالوں سے فائدہ حاصل کرو اور ان کو نہ بیچو۔''
چنانچہ قربانی کی کھالیں صدقہ و خیرات طلبہ اور مجاہدین وغیرہ کی مد میں صرف کی جا سکتی ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
نمازِ عید سے قبل قربانی اور گائوں میں عید پڑھنا
س: نمازِ عید سے قبل قربانی کی جا سکتی ہے یا نہیں میںنے ایک دیو بندی مولوی صاحب سے پوچھا تو اُس نے کہا کہ گائوں میں چونکہ عید جائز نہیں، اس لئے قربانی درست ہے۔ میں نے کہا پھر بعد میں نماز پڑھ لے تو اُس نے کوئی جواب نہ دیا اور بریلوی صاحب نے بھی ایسا ہی فتویٰ دیا۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔

ج: نمازِ عید سے قبل قربانی کا جانور ذبح کرنے سے قربانی نہیں ہوتی جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''جس نے نماز سے پہلے ذبح کر لیا، وہ اپنے لئے ذبح کرتا ہے اور جس نے نماز کے بعد کیا، اس کی قربانی مکمل ہو گئی۔ اور وہ مسلمانوں کے طریقے کو پہنچا ہے۔''

اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ عام ہیں۔ شہر، بستی اور گائوں والے سب اس میں داخل ہیں۔ اب تو شہر والوں کے ساتھ خاص کرنے کے لئے دلیل چاہئے جو صحیح اور صریح نص ہو ، لیکن ایسی کوئی صحیح دلیل ہے ہی نہیں۔ احناف چونکہ گائوں والوں پر نمازِ عید کو واجب نہیں سمجھتے جیسا کہ احناف کی معتبر کتاب ہدایہ میں ہے:
''کہ نمازِ عید اس شخص پر واجب ہے جس پر جمعہ کی نماز واجب ہے۔'' (ہدایہ اوّلین ص۱۷۱)

اور جمعہ کے بارے میں یہ لکھا گیا:
''کہ جمعہ صرف بڑے شہر یا شہر کی عید گاہ میں صحیح ہے اور بستیوں ، دیہاتوں میں جمعہ جائز نہیں ہے۔'' (ہدایہ اوّلین، ص۱۲۸)

ان دونوں عبارتوں سے یہ بات واضح ہو گئی کہ احناف کے نزدیک نہ جمعہ گائوں میں اور نہ عید پڑھی جا سکتی ہے یہ مذہب بالکل باطل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:
''اے ایمان والوں ، جب جمعہ کے دن نماز کے لئے آواز دی جائے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف دوڑکر آئو اور خریدو فروخت چھوڑ دو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔''(الجمعۃ)

یہ آیت کریمہ سب لوگوں کے لئے ہے۔ بڑے چھوٹے شہر، گائوں اور بستی والوں سب کو یہ حکم ہے، کوئی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے اور قرآن و سنت میں کوئی ایسی دلیل بھی نہیں ہے جو اس کی تخصیص کرے کہ یہ صرف بڑے شہر والوں کے لئے ہے اور چھوٹے شہر، گائوں اور بستی والوںکو یہ حکم نہیں۔ اس کے علاوہ بخاری شریف میں حدیث ہے:
''کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں جمعہ کے بعد کا سب سے پہلا جمعہ عبدالقیس کی مسجد بحرین کی جواثی نامی بستی میں پڑھایا گیا۔''

حافظ ابنِ حجر من البحرین کی وضاحت میں لکھتے ہیں: ''ایک روایت میں ہے کہ یہ بحرین کی بستیوں میں سے ایک بستی تھی اور دوسری روایت میں ہے عبدالقیس کی بستیوں میں سے تھی۔''

یہ بات مسلم ہے کہ عبدالقیس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بغیر جمعہ نہیں پڑھا۔ کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ عادت نہ تھی کہ وہ نزول وحی کے زمانہ میں اپنی طرف سے شرعی امور کے موجد بن جاتے ۔ اگر ایسی بات ہوتی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنی طرف سے یہ کام کر لیا تو قرآن ہی میں نازل ہو جاتا جیسا کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے عزل کے جواز پر استدلال کیا ہے کہ اگر عزل درست نہ ہوتا تو قرآن نازل ہو جاتا ۔ جب اس بارے میں قرآن نازل نہیں ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نہیں روکا تو ثابت ہو گیا کہ یہ امر جائز ہے۔ اللہ کے رسول کی ایک صحیح حدیث یہ بھی ہے کہ :
''جماعت کے ساتھ جمعہ ہر مسلمان پر واجب ہے سوائے چار آدمیوں کے۔'' (ابو دائود)

اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ گائوں اور بستیاں والے بھی مسلمان ہیں جیسا کہ شہر والے مسلمان ہیں اور جمعہ مسلمان پر واجب ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ پہنچ کر جمعہ اور عیدین کی نماز شروع کی، اس وقت مدینہ بھی ایک بستی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اسے اپنی پاک زبان سے بستی قرار دیا ہے کہ: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جمعہ بستی میں پڑھا گیا، (بخاری مسلم )

خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جمعہ اور عیدین بستی میں پڑھی ہے تو ہم کون ہوتے ہیں بغیر دلیل شرعی کے ان نصوص کی تخصیص کرنے والے۔ باقی احناف جس اثر سے استدلال کرتے ہیں کہ: (الا جمعۃ ولاتشریق ولافطرولااضحی الافی مصرجامع) (ابن ابی شیبہ ہدایہ اولین ص ۱۶۸)
یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا اثر صحیح نہیں ہے، امام نووی کہتے ہیں ''متّفق علیٰ ضعفہ''کہ اس کے ضعیف قرار دیا ہے۔ اس روایت کی سند میں سید نا علی رضی اللہ عنہ سے بیان کرنے والا حارث اعور کذاب ہے۔ امام شعبی اور علی بن المدینی نے بھی اسے کذاب کہا ہے۔ ابنِ حبان کہتے ہیں:
''کہ غالی شیعہ اور حدیث بھی بالکل کمزور تھا۔''
اس کی سند میں جابر جعفی بھی ہے جس کے بارے میں امام ابو حنیفہ کا فیصلہ ہے کہ (ما رایت اکذب منہ) کہ ''میں نے اس سے زیادہ جھوٹا آدمی نہیں دیکھا ۔'' اگر اس کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو پھر بھی یہ قرآن کی آیت اور احادیث کی تخصیص کے لئے کافی نہیں۔ اس لئے کہ بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم اس کی مخالفت کرنے والے بھی ہیں۔ خود احناف کے اپنے اصول کے مطابق بھی کتاب اللہ کی تخصیص خبر واحد سے نہیں ہو سکتی اور یہ تو خبر واحد بھی نہیں ہے۔ تو ثابت ہو گیا کہ جمعہ گائوں والوں پر بھی واجب ہے اس طرح عید بھی پڑھنی چاہیے اور قربانی عید سے پہلے ہو ہی نہیں سکتی۔
لطف کی بات یہ ہے کہ احناف نے شہر والوں کے لئے پھر بھی نمازِ عید سے پہلے قربانی ذبح کرنے کا ایک حیلہ ایجاد کر رکھا ہے۔ چنانچہ ہدایہ میں ہے:
''کہ شہر میں رہنے والا اگر جلدی کرنا چاہتا ہے تو اس کا حیلہ یہ ہے کہ اپنی قربانی کو کسی گائوں میں بھیج دے اور وہاں طلوع فجر کے بعد ذبح کر دی جائے اور پھر گوشت شہر میں لا کر استعمال کرے۔ '' (ہدایہ اخیرین ، ص۴۴۶)
حیلہ کے استعمال سے صحیح حدیث کے حکم کو ٹالنے کی یہ صورت مچھلی والوں کے ساتھ کس قدر مشابہت رکھتی ہے ہمارے ثقہ بھائیوں نے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے بیان کرتے ہیں کہ رائے ونڈ میں تبلیغی جماعت والے اس پر آج بھی عمل کرتے ہیں اور جب عید کی نماز سے فارغ ہو کر واپس آتے ہیں گوشت کھانے کے لئے تیار ہو تا ہے جو کہ پہلے سے ذبح کر کے لایا ہوا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے ڈرنا چاہیے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو اس طرح حیلے بنا کر رَد کر دیتے ہیں اور یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ ایسی قربانی ہر گز جائز نہیں ہوتی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ واللہ اعلم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
مجاہدین کو قربانی کی کھالیں دینا کیسا ہے؟
س: قربانی کی کھالوں کا صحیح مصرف کیا ہے؟ بعض علماء کرام اس دور میں اس بار پر بہت زور دے رہے ہیں کہ کھالیں صرف اور صرف مساکین اور محتاجوں کا حق ہے۔ مجاہدین کو قربانی کی کھالیں دینا درست نہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کر کے عند اللہ ماجور ہوں۔

ج: زندگی کے تمام مسائل کی طرح قربانی کی کھالوں کے مصرف کے لئے بھی ہمیں قرآن و سنت کو دیکھنا ہو گا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصہ معلوم ہو جانے کے بعد ہمیں اس پر کاربند رہنا ہو گا اور یہی مومن کی شان ہے۔ قربانی کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو حج یا عمرہ کے موقع پر حرم میں کی جاتی ہے، دوسری وہ جو عیدالاضحی کے موقع پر تمام دنیا کے مسلمان اپنے اپنے گھر میں کرتے ہیں۔
قرآن مجید میں پہلی قسم کی قربانی کے متعلق فرمایا گیا: ''تم اس میں سے کھائو اور ان کو دو جو مانگتے نہیں اور جو مانگتے ہیں۔''(الحج : ۳۶)

دوسری قسم کی قربانی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''کھائو اور کھلائو اور ذخیرہ کر لو۔''(بخاری و مسلم بحوالہ نیل الاوطار ، ص۱۲۷، ج۵)

اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کا گوشت خود بھی کھائے اور احباب و اقرباء اور فقراء و مساکین کو بھی دے۔ قربانی کی کھالوں کا مصرف بھی وہی ہے جو قربانی کے گوشت کا ہے یعنی خود بھی استعمال کر سکتاہے احباب و اقرباء کو بھی دے سکتا ہے اور صدقہ بھی کر سکتاہے ۔ اس کی دلیل صحیح مسلم کی حدیث ہے : اُم المومنین رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانی کے دنوں میں بادیہ والوں کے کچھ گھر مدینہ میں آگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین دن کے لئے گوشت رکھ کر باقی صدقہ کر دو۔ جب بعد والا سال گیا تو لوگوں نے کہا: ''لوگ اپنی قربانیوں سے مشکیزے بناتے اور چربی پگھلاتے ہیں ۔'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو بات کیاہے؟ انہوں نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن کے بعد قربانی کے گوشت کھانے سے منع فرما دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے تو تمہیں صرف ان لوگوں کی وجہ سے منع کیا تھا جو باہر سے آ گئے تھے۔ اب کھائو اور ذخیرہ کرو اور صدقہ کرو۔''(صحیح مسلم، کتاب الاضاحی حدیث۱۹۷۱)
اس سے صاف ظاہر ہے کہ گوشت کی طرح کھال خود بھی استعمال کر سکتا ہے۔ دوستوں ، رشتہ داروں کو بھی دے سکتا ہے اور صدقہ بھی کر سکتاہے ۔ البتہ دوسری احادیث کو مد نظر رکھتے ہوئے گوشت یا کھال فروخت کر کے اس کی رقم استعمال نہیں کر سکتا۔ ہاں اگر کھال صدقہ کر دے اور گوشت کا زیادہ سے زیادہ حصہ بھی صدقہ کر دے تو بہتر ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر ایسا ہی کیا تھا۔ صحیح بخاری میں علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کی نگرانی کریں اور تمام قربانیوں ک گوشت اور چمڑے اور ان کے جل تقسیم کر دیں۔''(صحیح بخاری۲۳۲، اصح المطابع)
صحیح مسلم میں یہ لفظ ہیں ''مجھے حکم دیا کہ میں ان کا گوشت اور چمڑے اور جل صدقہ کر دوں۔''

جو لوگ کہتے ہیں کہ کھالیں صرف فقراء و مساکین کا حق ہے ان پر لازم ہے کہ مذکورہ بالا احادیث کے مقابلے میں ایسی حدیث پیش کریں کہ جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ کھالیں صرف فقراء و مساکین کا حق ہے اور ایسی حدیث وہ کبھی بھی پیش نہیں کر سکتے۔ ہمارے جن مہربانوں نے فتویٰ دیا ہے کہ مجاہدین کے لئے کھالیں جائز نہیں اور جن لوگوں نے انہیں کھالیں دی ہیں، ان کی قربانیاں ضائع ہو گئیں انہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ کیونکہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ قربانی کی کھالیں صرف فقراء و مساکین کا حق ہے تب بھی ان کے سب سے زیادہ مستحق مجاہدین فی سبیل اللہ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی اللہ کی راہ میں وقف کر دی ہے اور جہاد میں مصروفیت کی وجہ سے کاروبار نہیں کر سکتے۔ خود اللہ نے صدقات کا مصرف یہ لوگ قرار دیئے ہیں:
''صدقات ان فقراء کے لئے ہیں جو اللہ کی راہ(جہاد) میں روکے ہوئے ہیں، زمین میں (کاروبار وغیرہ) کے لئے سفر نہیں کر سکتے، سوال سے بچنے کی وجہ سے ناواقف انہیں غنی گمان کرتا ہے تو انہیں ان کی علامت سے پہنچانے گا۔ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے۔''(البقرہ : ۲۷۳)

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ان مہربانوں کو بھی جہاد میں مصروف نوجوانوں کی حالت سے واقفیت نہیں ہے کہ وہ معاشی طور پر کتنے مشکل حالات میں ہیں میں نے خود مرکز الدعوة والارشاد کے معسکرات میں دیکھا ہے کہ دورۂ خاصہ کی تین ماہ کی شدید ترین ٹریننگ کے دوران بعض اوقات مرکز کے لئے ایسے مشکل حالات پیش آ جاتے ہیں کہ وہ جہاد کی تربیت میں مصروف نوجوانوں کے لئے اسلحہ اور لباس کا مکمل انتظام بھی نہیں کر سکتے۔ مگر آفرین ہے ان نوجوانوں پر جو بعض اوقات پھٹے پرانے کپڑوں اور سادہ چپل کے ساتھ سخت پہاڑوں پر یہ دورہ مکمل کرتے ہیں مگر نہ اُف کرتے ہیں ، نہ حرفِ شکایت زبان پر لاتے ہیں اور نہ ہی کسی سے سوال کرتے ہیں۔ ہاں ناواقف لوگ ان کی خود داری اور چہرے کی چمک دیکھ کر یہی کہتے ہیں کہ ان کے پاس بے شمار دولت ہے۔
تو غور کرنا چاہیے کہ اگر مجاہدین فی سبیل اللہ پر خرچ کرنے سے قربانی ضائع ہوتی ہے تو مدارس کے طلباء پر قربانی کی کھال صرف کرنی کس طرح جائز ہے اور دونوں کا فرق کیا ہے۔ بعض علماء مجاہدین کی مخالفت کرتے ہیں اور مدارس کے لئے کھالیں مانگتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک دونوں پر خرچ کرنا چاہیے۔ کھالیں حسبِ ضرورت مجاہدین اور مدارس سب کو دینی چاہئیں۔ ہم نے کتاب و سنت کی تعلیم دینے والے مدارس کو ہمیشہ اپنے ادارے سمجھا ہے۔ تعلیم بھی ضروری ہے اور جہاد بھی ۔ اسلام کے ایک فریضے کو ماننا اور دوسرے کی مخالفت کرنا کسی طرح درست نہیں ہے۔ اگر حقیقت دیکھی جائے تو ان مدارس و مساجد کی حفاظت کے لئے بھی جہاد فی سبیل اللہ میں مصروف نوجوانوں پر خرچ کرنا لازم ہے۔ اگر یقین نہ ہو تو سمر قند و بخارا اور ہندوستان و ہسپانیہ کی مساجد و مدارس کا حال ملاحظہ فرما لیں۔ اللہ تعالیٰ حق بات سمجھنے کی اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
 
Top