- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
ابتدائی مسلمانوں کا صبر وثبات اور اس کے اسباب وعوامل
یہاں پہنچ کر گہری سوجھ بوجھ اور مضبوط دل ودماغ کا آدمی بھی حیرت زدہ رہ جاتا ہے اور بڑے بڑے عقلاء دم بخود ہوکر پوچھتے ہیں کہ آخر وہ کیا اسباب وعوامل تھے جنہوں نے مسلمانوں کو اس قدر انتہائی اور معجزانہ حد تک ثابت قدم رکھا؟ آخر مسلمانوں نے کس طرح ان بے پایاں مظالم پر صبر کیا جنہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور دل لرز اٹھتا ہے۔ باربار کھٹکنے اور دل کی تہوں سے ابھرنے والے اس سوال کے پیش نظر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان اسباب وعوامل کی طرف ایک سرسری اشارہ کردیا جائے۔
ان میں سب سے پہلا اور اہم سبب اللہ کی ذاتِ واحد پر ایمان اور اس کی ٹھیک ٹھیک معرفت ہے۔ کیونکہ جب ایمان کی بشاشت دلوں میں جانشیں ہوجاتی ہے تو وہ پہاڑوں سے ٹکرا جاتا ہے اور اسی کا پلہ بھاری رہتا ہے اور جو شخص ایسے ایمانِ محکم اور یقین کامل سے بہرہ ور ہو وہ دنیا کی مشکلات کو ...خواہ وہ جتنی بھی زیادہ ہوں اور جیسی بھی بھاری بھرکم ، خطرناک اور سخت ہوں...اپنے ایمان کے بالمقابل اس کا ئی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا جو کسی بند توڑ اور قلعہ شکن سیلاب کی بالائی سطح پر جم جاتی ہے۔ اس لیے مومن اپنے ایمان کی حلاوت ، یقین کی تازگی اور اعتقاد کی بشاشت کے سامنے ان مشکلات کی کوئی پروا ہ نہیں کرتا کہ :
فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً ۖ وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ (۱۳: ۱۷)
''جو جھاگ ہے وہ تو بیکار ہوکر اڑ جاتا ہے اور جو لوگوں کو نفع دینے والی چیز ہے وہ زمین میں برقرار رہتی ہے۔''
پھر اسی ایک سبب سے ایسے اسباب وجود میں آتے ہیں جو اس صبر وثبات قدمی کو قوت بخشتے ہیں۔ مثلاً:
پر کشش قیادت:... معلوم ہے کہ نبیﷺ جو امت ِ اسلامیہ بلکہ ساری انسانیت کے سب سے بلند پایہ قائد ورہنماتھے۔ ایسے جسمانی جمال ، نفسانی کمال ، کریمانہ اخلاق ، باعظمت کردار اور شریفانہ عادات واطوار سے بہرہ ور تھے کہ دل خود بخود آپﷺ کی جانب کھنچے جاتے تھے اور طبیعتیں خودبخود آپﷺ پر نچھاور ہوتی تھیں کیونکہ جن کمالات پر لوگ جان چھڑکتے ہیں ان سے آپﷺ کو اتنا بھر پور حصہ ملا تھا کہ اتنا کسی اور انسان کو دیا ہی نہیں گیا۔ آپﷺ شرف دعظمت اور فضل وکمال کی سب سے بلند چوٹی پر جلوہ فگن تھے۔ عفت وامانت ، صدق وصفا اور جملہ امورِ خیر میں آپﷺ کا وہ امتیاز ی مقام تھا کہ رفقاء تو رفقاء آپﷺ کے دشمنوں کو بھی آپﷺ کی یکتائی وانفرادیت پر کبھی شک نہ گزرا۔ آپﷺ کی زبان سے جو بات نکل گئی ، دشمنوں کو بھی یقین ہوگیا کہ وہ سچی ہے اور ہوکر رہے گی۔ واقعات اس کی شہادت دیتے ہیں۔ ایک بار قریش کے ایسے تین آدمی اکٹھے ہوئے جن میں سے ہر ایک نے اپنے بقیہ دوساتھیوں سے چھپ چھپا کر تن تنہا قرآن مجید سنا تھا لیکن بعد میں ہر ایک کا راز دوسرے پر فاش ہوگیا تھا۔ انہی تینوں میں سے ایک ابو جہل بھی تھا۔ تینوں اکٹھے ہوئے تو ایک نے ابوجہل سے دریافت کیا کہ بتاؤ تم نے جو کچھ محمد (ﷺ ) سے سنا ہے اس کے بارے میں تمہاری رائے کیا ہے ؟ ابوجہل نے کہا : میں نے کیا سنا ہے ؟ بات دراصل یہ ہے کہ ہم نے اور بنو عبد مناف نے شرف وعظمت میں ایک دوسرے کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے (غرباء ومساکین کو ) کھلا یا تو ہم نے بھی کھلایا۔ انہوں نے داد ودہش میں سواریاں عطاکیں تو ہم نے بھی عطا کیں۔ انہوں نے لوگوں کو عطیات سے نوازا تو ہم نے بھی ایسا کیا یہاں تک کہ جب ہم اور وہ گھنٹوں گھنٹوں ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوگئے اور ہماری اور ان کی حیثیت ریس کے دومقابل گھوڑوں کی ہوگئی تو اب بنوعبد مناف کہتے ہیں کہ ہمارے اندر ایک نبی (ﷺ ) ہے جس کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے۔ بھلا بتایئے ہم اسے کب پاسکتے ہیں ؟ اللہ کی قسم ! ہم اس شخص پر کبھی ایمان نہ لائیں گے ، اور اس کی ہرگز تصدیق نہ کریں گے۔ 1چنانچہ ابوجہل کہا کرتا تھا : اے محمد (ﷺ ) ہم تمہیں جھوٹا نہیں کہتے لیکن تم جو کچھ لے کر آئے ہو اس کی تکذیب کرتے ہیں اور اسی بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَـٰكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّـهِ يَجْحَدُونَ ﴿٣٣﴾ (۶: ۳۳)
''یہ لوگ آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں۔'' 2
اس واقعے کی تفصیل گزر چکی ہے کہ ایک روز کفار نے نبیﷺ کو تین بار لعن طعن کی اور تیسری دفعہ میں آپﷺ نے فرمایا کہ اے قریش کی جماعت !میں تمہارے پاس ذبح لے کر آیا ہوں تو یہ بات ان پر اس طرح اثر کرگئی کہ جو شخص عداوت میں سب سے بڑھ کر تھا۔ وہ بھی بہتر سے بہتر جو جملہ پاسکتا تھا اس کے ذریعہ آپﷺ کو راضی کرنے کی کوشش میں لگ گیا۔ اسی طرح اس کی بھی تفصیل گزر چکی ہے کہ جب حالت سجدہ میں آپﷺ پر اوجھڑی ڈالی گئی ، اور آپﷺ نے سر اٹھا نے کے بعد اس حرکت کے کرنے والوں پر بددعا کی تو ان کی ہنسی ہوا ہوگئی اور ان کے اندر غم وقلق کی لہر دوڑ گئی، انہیں یقین ہوگیا کہ اب ہم بچ نہیں سکتے۔
یہ واقعہ بھی بیان کیا جاچکا ہے کہ آپﷺ نے ابو لہب کے بیٹے عتیبہ پر بددعا کی تو اسے یقین ہوگیا کہ وہ آپﷺ کی بددعا کی زد سے بچ نہیں سکتا۔ چنانچہ اس نے ملک شام کے سفر میں شیر کو دیکھتے ہی کہا : واللہ! محمد(ﷺ ) نے مکہ میں رہتے ہوئے مجھے قتل کر دیا۔
ابی بن خلف کا واقعہ ہے کہ وہ بار بار آپﷺ کو قتل کہ دھمکیا ں دیا کرتا تھا۔ ایک بار آپﷺ نے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۳۱۶ 2 ترمذی : تفسیر سورۃ الانعام ۲/۱۳۲