یہ ابن تیمیہ کی کتاب اقتضاءالصراط المستقیم کاترجمہ ہے۔(دوستوں کو جہاں عبارت کی تفہیم مشکل ہورہی ہو اس کا استفسارضرور کریں)
خطبہءمسونونہ کےبعد:
میں نےتہواروں میں کفارسے مشابہت اختیارکرنےسےروکاتھا۔اس حوالے سے میں نےکچھ قدیم اثار،شرعی دلائل اورشریعت کی بعض حکمتیں نقل کیں تھیں کہ اہل کتاب اور عجمیوں (اہل فارس وروم وغیرہ)سےکیوں روکاگیاہے۔اور شریعت نےان کی مخالفت کاہمیں کیوں حکم دیاہے؟
اگرچہ کفارسے یہ مشابہت کی ممانعت، شریعت اسلامیہ کےعظیم قواعدمیں سےایک قاعدہ ہے۔اس کی بہت زیادہ شاخیں ہیں ۔یہ ایک ایسی جامع اصطلاح ہےجس کےاندر کئی ایک اصول وفروع شامل ہیں۔لیکن اس وقت میرےپاس اس کاکوئی کافی وشافعی جواب نہیں تھا۔تاہم جتنابن سکا اتنامیں نےاللہ کی توفیق سے کردیا۔اللہ نےاس سےبھی بہت نفع دیا۔پھر مجھےپتاچلاکہ کچھ لوگوں نےکفارکی معاشرت میں نشونماپائی ہے۔ وہ کسی بھی تہوارمیں ان کی مخالفت کرنےکو ناممکن تصورکرتےہیں۔اوراس کیلے شریعت کےعمومی دلائل کا سہار ا لیتے ہیں۔اس پرمیرے بعض رفقانےاصل مسلےپرجامع اندازمیں لکھنےکو کہا۔کیونکہ اس مسلہ کاتعلق اصول معاشرت وتہذیب سےتھااس وجہ سے اسکےنکھارنے سے بہت زیادہ فوائداور ہر خاص وعام کیلے منافع تھے۔چناچہ جب لوگو ں نےاس مسلہ کےبارےمیں بہت زیادہ آرادیناشروع کردیں ۔تو ان جاہلانہ قسم کی آراکو سن کرمیرےلئےایک آزمائش بن گئی ۔پھر میں نےجو میسرتھا وہ رقم کردیا۔لیکن اس کےساتھ ہی جب میں نےاس مسلے کےبارےمیں دلائل ،علماکےاقوال اور آثارجمع کیےتو مجھےمحسوس ہواکہ وہ میرےلکھےہوئےسے کہیں زیادہ ہیں۔اب میں یہ خیال نہیں کرتاکہ ہر وہ شخص جو فقہ اسلامی میں مہارت رکھتاہو،شریعت کےمقاصداوراشارات کو سمجھتاہو، فقہاکےعلتیں اوران کےمسائل پرعبوررکھتاہووہ اس باب میں کوئی شک وشبہ کاشکارہو۔بلکہ اس بھی بڑھ کرمیں یہ بھی گمان کرتا ہوں کہ ہروہ شخص جس کےدل میں ایمان ہو ،وہ اسلام کیلے مخلص ہو،اسے اللہ کا دین کہتاہواوراس کےسواکوئی دوسراطرزحیات قبول نہ کرتاہووہ جب اس نکتےسے آگاہوگاتومیرانہی خیال وہ بہت جلد اس سے اجتناب نہ کرنےکی کوشش کرے۔بس ضروری یہ ہےکہ ا سکا دل زندہ،ایمان سالم ہو۔ لیکن ہم اللہ سے دلوں کےشکوک اور نفسانی خواہشات سے پناہ مانگتےہیں۔یہ دونوں ہی حق کی معرفت اور اس کی اتباع سے روک دیتے ہیں۔
ر