- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
اتحاد، اتفاق، وحدت اور یکجہتی بڑے مؤثراورمعنیٰ خیز الفاظ ہیں۔ ان کا ایک مفہوم تو قرآن وسنت میں بیان ہوا ہے، تودوسری طرف ان کا ایک مفہوم عوام میں بھی رائج ہے۔ زیر نظر مضمون میں دونوں میں فرق پیش کرنے کے بعد،اتحاد کا اصل مفہوم اور اسکے ثمرات کا ذکر کیا جائے گا۔ ان شاء اللّٰہ
'اتحاد' کا عوامی مفہوم
اتحاد کا عوامی یا رائج مفہوم جسے میڈیا اور امن کمیٹیوں کے ذریعےپھیلایا جاتا ہے، یہ ہے کہ کسی کا نظریہ یا عقیدہ قرآن وسنت کی تعلیمات سے سو فیصد بھی مخالف ہو، وہ اس کا کھل کر پرچار کرے جبکہ کسی دوسرے کے نظریے یا عقیدے کے بارے میں کچھ نہ کہے، خواہ وہ غلط ہو یا صحیح۔ لوگ اگر کسی جگہ جمع ہوں تو صحیح اور غلط کا ایسا آمیزہ تیار کر لیں جو جانبین کو قبول ہو۔پنجاب پولیس اور امن کمیٹیوں کی طرف سے مشترکہ طور پر جو بڑے بڑے بورڈ آویزاں کیے گئے، ان پر بڑے واضح الفاظ میں ہر سال تقریباًیہی لکھا جاتا ہے کہ ''اپنا مسلک چھوڑو نہیں اور کسی کا مسلک چھیڑو نہیں۔'' اور اس کے اوپر آیت: ﴿وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللَّـهِ جَميعًا وَلا تَفَرَّقوا...١٠٣﴾... سورة آل عمران''اور اللّٰہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ بازی مت کرو۔'' بڑے جلی الفاظ میں لکھی جاتی ہے۔ در اصل یہی وہ عوامی مفہوم ہے جو ملکی سطح تک پھیل چکا ہے۔ اس مفہوم کی روشنی میں حسبِ ذیل اُصول ونتائج سامنے آتے ہیں:
1. انسان اپنا عقیدہ جو مرضی رکھے اور جو مرضی عمل اختیار کرے، کوئی اُسے روک ٹوک نہیں سکتا۔
2. اتحاد واتفاق کا مفہوم یہ ہے کہ مختلف افکار وخیالات اور نظریات کے لوگ ایک جھنڈے، عنوان یا جماعت کے تحت جمع ہو جائیں اور باہمی اختلاف کی باتیں اپنے تک محدود رکھیں، ایک دوسرے سے ان کا اظہار نہ کریں۔
3. جس فورم پر متحد ہیں، علیٰ الاعلان باہمی اختلاف اور متنازعہ اُمور کو ہوا نہ دیں۔ جبکہ فورم سے دور ہوں تو کوئی پابندی نہیں، لہٰذا یہی شخص جب اپنے ہم نواؤں میں جاتا ہے تو دوسرے کمرے میں جن سے اتحاد کی باتیں کر رہا تھا، اب ان 'مخالفین' کی کھل کر مخالفت کرتا ہے۔ غرضیکہ یہ اتحاد ان لمحات تک محدود ہوتا ہے جب مختلف نظریات کے لوگ جمع ہوں۔
4. آج کل اسی اتحاد کی دعوت دی جاتی ہے، گویا یہ مفہوم رائج ہو چکا ہے کہ اجسام ایک جگہ نظر آئیں، چاہے اذہان وقلوب بکھرے ہوئے ہوں۔
5. اتحاد کے اس خودساختہ مفہوم کو اس قدر پھیلایا گیا ہے کہ عام ذہن اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ قرآن نے جس اتحاد واتفاق کا درس دیا ہے وہ یہی اتحاد ہے۔ اسے کم ازکم قرآن مجید کی معنوی تحریف قرار دیا جا سکتا ہے۔
6. جو شخص اس خود ساختہ اتحاد کے مفہوم سے سرموانحراف کرتا ہے، لوگ اسے امن کا دشمن،اتحاد کا مخالف سمجھتے ہیں اور اسے معاشرتی ناسور قرار دیتے ہیں۔
7. اس اتحاد کی دعوت دینےوالے اور اسے اختیار کرنیوالے عموماً دوغلی پالیسی یا منافقانہ کردار کے حامل ہوتے ہیں اور ایسے اتحاد کی دعوت دینے والے عموماً منافق قسم کے گروہ ہی ہوتے ہیں۔
8. اتحاد کی اس پالیسی کے تحت بہت سے لوگ اپنے غلط عقائد ونظریات کو درست سمجھ کر اسی پر جمے رہتے ہیں۔کیونکہ اُنہوں نے سمجھ لیا ہے کہ اپنا مسلک چھوڑنا نہیں ہے۔
9. ایک دوسرے کی اصلاح کا دروازہ اس غلط اُصول کی وجہ سے تقریباً بند ہو چکا ہے۔
10. اس اتحاد کی دعوت دینے والے دراصل خود اتحاد کے بہت بڑے مخالف ہوتے ہیں کیونکہ اُنہوں نے اپنے غلط نظریات کو اتحاد واتفاق کی چھتری تلے تحفظ دینا ہوتا ہے۔