ندوی صاحب !
آپ بھی انہیں لوگوں میں سے معلوم ہوتے ہیں جن کا یہ حربہ ہوتا ہے فریق مخالف کی باتوں کا جواب نہ بن پڑے توان پر یہ الزام لگا دو کہ وہ سمجھ ہی نہیں پائے ۔
تاکہ بھولے بھالے قارئیں بس اتناسن کر ہی مطمئن ہوجائیں کہ فلاں شخص اصل بات ہی نہیں سمجھ پایا اس لئے غلط فہمی کا شکار ہوگیا ، پھر اس کے نتیجے میں اس کے جو بھی اعتراضات تھے وہ سب بے معنی ہوگئے۔
آپ اورآپ جیسے لوگ اس حربہ سے صرف اپنے انہیں لوگوں کو مگن کرسکتے ہیں ، جنہوں نے اندھی تقلید کی قسم کھائی ہو ۔
حقیقت یہ ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ سے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی بلکہ ندوی صاحب یا تو مذکورہ حربہ استعمال کررہے ہیں یا الٹا چور کوتوال کو ڈانٹنے والا معاملہ ہے، یعنی غلط فہمی خود ندوی صاحب ہی سے ہوئی اور موصوف خود ہی علامہ البانی رحمہ اللہ کی عبارت سمجھ نہ سکے اوراپنی غلط سمجھ کو بنیاد بناکر ایک عظیم محدث پر غلط فہمی کا الزام جڑ دیا ۔ لاحول ۔۔۔۔۔
ندوی صاحب لکھتے ہیں:
احناف خبرواحد سے عمومات قرآنی کی تخصیص نہیں کرتے اس کا یہ معنی نہیں کہ احناف خبرواحد کو لاپرواہی کے ساتھ نظرانداز کردیتے ہیں بلکہ یہ مطلب ہے۔۔
محترم ندوی صاحب علامہ البانی نے کہاں کہا کہ احناف خبرواحد کو نظر انداز کردیتے ہیں ؟؟؟؟؟
جناب والا !
علامہ البانی رحمہ اللہ خبرواحد کو رد کرنے یا قبول کرنے پر بات نہیں کررہے ہیں بلکہ علم حدیث میں احناف کی اس یتیمی پر بات کررہے ہیں جو انہیں ابوحنیفہ سے ورثہ میں ملی ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ کے کلام کا مقصود یہ ہے کہ :
احناف نے یہ اصول تو بنادیا کہ خبرواحد سے قران کی تخصیص نہیں کریں گے لیکن یہ بے چارے یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ کون حدیث خبر واحد ہے اورکون متواتر ہے :
علامہ البانی فرماتے ہیں:
[ARB
]ولست أريد أن أناقش هذه المسألة من كل جوانبها أو أطرافها،
لكني أريد أن أدندن حول قولهم بأن حديث: «لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب»، حديث آحاد، فما قيمة قول هؤلاء الفقهاء مهما كان شأنهم في المعرفة بالفقه والفهم لنصوص الكتاب والسنة، حينما يتكلمون فيما ليس من اختصاصهم فيدَّعون أن حديث: «لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب»، هو حديث آحاد وأمير المؤمنين في الحديث ألا وهو الإمام محمد بن إسماعيل البخاري، يقول في مطلِع رسالته المعروفة بجزء القراءة في الصلاة تواتر الخبر عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم أنه قال: «لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب»،[/ARB][الهدى والنور 84/ 7]۔
اس عبارت کا خلاصہ یہ کہ علامہ البانی فرماتے ہیں میں اصل مسئلہ پر مناقشہ نہیں کرنا چاہتا بلکہ یہ بتانا چاہتاہوں کہ احناف اس حدیث
«لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب»، کو
خبرواحد کہتے ہیں ، حالانکہ أمير المؤمنين في الحديث امام بخاری رحمہ اللہ
اس حدیث کو متواتر کہتے ہیں ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ آگے فرماتے ہیں:
فماذا نقول في هؤلاء الفقهاء حينما يقولون ذاك الحديث: «لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب»، هو حديث آحاد وأمير المؤمنين في الحديث يقول إنه تواتر عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم [الهدى والنور 84/ 7]۔
اس عبارت کا بھی مفہوم وہی ہے جو اوپر پیش کیا گیا یعنی حدیث «لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب»، کو احناف خبرواحد سمجھتے ہیں جبکہ أمير المؤمنين في الحديث امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو متواتر قراردیتے ہیں۔
اس کو یوں سمجھیں کہ :
کوئی حنفی کہے کہ لمباسفر ٹرین کا ہو تو میں لازما سو جاتاہوں لیکن اگر بس کا سفر ہو بمشکل ہی سوپاتاہوں اس لئے جاگتارہتاہوں ۔
اب اس حنفی کو کسی نے ٹرین میں بٹھادیا لیکن ٹرین میں بیٹھنے کے باوجود بھی بندہ شب بیداری کررہا ہے پوچھا گیا حنفی بھائی سوتے کیوں نہیں ؟ کہنے لگا : بتایا نا کہ بس میں مجھے مشکل ہی سے نیندآتی ہے !!!
حالانکہ بے چارا بس میں نہیں ٹرین ہی میں بیٹھا ہے ۔
جی ہاں حنفیوں کی یہی وہ حالت ہے جسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے اوپر بتایا ہے۔
یعنی حنفیوں نے اصول بنایا کہ قران کی تخصیص خبرواحد سے نہیں ہوتی بلکہ متواترسے ہوتی ہے۔
اب اس کے سامنے متواتر حدیث پیش کی گئی تو کہتاہے کہ یہ خبرواحد ہے ۔
یعنی بندے کو اپنا اصول معلوم ہے ، لیکن کون حدیث متواتر ہے اورکون خبرواحد یہ پتہ ہی نہیں ۔
اب دیکھیں ندوی صاحب کیا فرماتے ہیں:
اس کی مثال زیربحث مسئلہ ہے کہ قرآن کی آیت فاقرئوا ماتیسراالخ عام ہے اورلاصلوۃ الخ والی حدیث خبرواحد ہے۔ لہذا خبرواحد کی بنیاد پر احناف کہتے ہیں کہ سورہ فاتحہ کاپڑھناواجب ہوگا فرض نہیں ہوگا۔ یاجیسے حدیث تعدیل ہے احناف اس کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ نماز میں تعدیل ارکان واجب ہے فرض اس لئے نہیں کہتے کہ وہ خبرواحد ہے۔