جواب طلب دو سوالات
یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں:
اوّلاً یہ کہ
قرآن کریم کی آیات میں، مابعد الطّبیعاتی مسائل سے متعلقہ آیات اور احکام و قوانین سے متعلقہ آیات میں جو تفریق کی گئی ہے اور پھر اس تفریق کی بنیاد پر ایک حصہ میں اختلاف کا موجود ہونا اور دوسرے میں معدوم ہونا جو تسلیم کیا گیا ہے، آخر اس کی قرآنی دلیل کیا ہے؟… اگر ناسخ و منسوخ کی بحث میں، آپ کی طرف سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیت ِناسخہ کے ناسخہ ہونے کی اور آیت ِمنسوخہ کے منسوخہ ہونے کی ’قرآنی دلیل ‘کیا ہے تو یہاں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآنی متن میں دو حصے کرنا، اور پھر ایک حصے کا حکم، دوسرے سے الگ کرنے کی قرآنی دلیل کیا ہے؟ یا یہ تقسیم بھی ویسی ہی من گھڑت ہے، جیسی یہ تقسیم کہ ’قرآن کی بعض آیات ’عبوری دور‘ سے متعلق ہیں اور بعض انتہائی اورتکمیلی دور سے… حالانکہ قرآن میں یہ تقسیم بھی کہیں مذکور نہیں ہے۔
ثانیاً، یہ کہ
مابعد الطّبیعاتی حصہ قرآن کی حد تک تو آپ نے قرآن میں وجودِ اختلاف کو تسلیم کر لیا، اس طرح آپ کا یہ نظریہ(لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا کَثِيْرًا) والی آیت سے ٹکرا نہیں جاتا؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟
رہا ’منکرین ِقرآن‘کا یہ فرمان کہ احکام و قوانین سے متعلقہ آیات میں اختلاف نہیںہے۔ تو یہ بھی محض ایک دعویٰ بلا دلیل ہے، حقیقت یہ ہے کہ ہر قسم کی آیات میں تعبیر اختلاف کی گنجائش ہے۔ قرآن میں جس اختلاف کی نفی کی گئی ہے، وہ مطلق اختلاف نہیں ہے بلکہ ایسا اختلاف ہے جو ناقابل توجیہ ہے۔ قابل توجیہ اختلاف تو پرویز صاحب کے مزعومہ، دونوں حصوں میں موجود ہے۔ احکام و قوانین سے متعلقہ حصہ میں تعبیرکا اختلاف تو ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ ہے اور یہ اختلاف نیک نیتی کے باوجود بھی ہوسکتا ہے اور بدنیتی کے نتیجہ میں بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ البتہ پرویز صاحب جب بھی مسلمانوں میں اختلاف کا ذکرکرتے ہیں تو وہ اِن مختلف وجوہِ اختلاف کو فرقوں سے وابستہ افراد کی بدنیتی ہی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، ان کے نزدیک اس اختلاف کی بہت سی وجوہ ہیں، جو درج ذیل اقتباسات سے واضح ہیں :
’’آیاتِ قرآنی کی تعبیریں اس لئے مختلف ہوتی ہیں کہ ہر فرقہ، اس آیت کی تعبیر، اس روایت کی رُو سے کرتا ہے جسے وہ صحیح سمجھتا ہے اور چونکہ ہر فرقہ کی روایات مختلف ہیں، اس لئے ان کی رو سے قرآنی آیات کی تعبیر میں اختلاف ہوتا ہے۔‘‘ (فروری۶۲ئ: ص ۱۳)
’’تعبیرات کے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ہر فرقہ اپنے معتقدات اور مسلک کو اوپر رکھتا ہے اور ان کے تابع قرآن کا مفہوم متعین کرتا ہے۔‘‘ (اگست۶۲ئ: ص ۱۰)
’’بات یہ ہے کہ مختلف فرقے، اپنے اپنے ہاں کے احکام کو محکم مانتے ہیں اور قرآن کو کھینچ تان کر ان کے مطابق بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور ا س کا نام رکھتے ہیں ’قرآن کی تعبیرات‘ …اگر قرآن کو محکم مان لیا جائے تو اس کے احکام کی مختلف تعبیریں ہو نہیں سکتیں۔‘‘ (دسمبر۶۲ئ: ص ۱۹)
جہاں کسی اللہ کے بندے نے قرآن کی تعبیرات میں اختلاف کا ذکر کیا۔ منکرین حدیث کی طرف سے فوراً اس پر یہ فتویٰ رسید کردیا گیا کہ
’’تم قرآن کا اتباع کرنا ہی نہیں چاہتے بلکہ اتباعِ قرآن سے گریز کے لئے، تعبیراتی اختلاف کو بطورِ بہانہ کے پیش کرتے ہو۔‘‘ :
’’عام طور پر کہا جاتا ہے کہ قرآن کی بھی مختلف تعبیریں ہوسکتی ہیں۔ اس لئے غلط اور صحیح کے پرکھنے میں، قرآنی معیار کے نتائج میں بھی فرق ہوسکتا ہے۔ اس قسم کے اعتراضات، درحقیقت قرآن کو سند و حجت تسلیم نہ کرنے کے لئے گریز کی راہیںہیں۔‘‘ (اگست۷۳ئ: ص ۳۵)
اور اگر کسی کی حق گوئی، اس پر غالب آگئی اور اس کی شامت نے اسے دھکا دے کر یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ … ’’حضور! قرآن، جس اختلاف کی نفی کرتا ہے، وہ ناقابل توجیہ اختلاف ہے، ورنہ قابل توجیہ اختلاف تو فی الواقع قرآن میں موجود ہے اور علمائِ امت کا غوروفکر ایسے اختلاف کو رفع کرتا رہا ہے۔‘‘… تو قائل کی بات کو اَن سنی کرتے ہوئے اور اسے ڈانٹ پلاتے ہوئے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ
’’قرآن کریم اپنے منجانب اللہ ہونے کی ایک دلیل یہ دیتا ہے کہ اس میں کوئی اختلافی بات نہیں۔ قرآن کے اس دعویٰ کے بعد یہ تسلیم کرنا کہ یہ مختلف فرقوں کو ایسے قوانین دیتا ہے جو ایک دوسرے کے خلاف اور باہم دِگر متضاد ہیں، قرآن کے منجانب اللہ ہونے سے انکار کے مترادف ہے اور کھلا ہوا کفر۔‘‘ (مارچ۷۸ئ: ص ۴۰)
ان بلند بانگ دعاویٰ کے بعد کہ وجہ ِاختلاف، قرآن نہیں بلکہ مختلف فرقوں کے اپنے مسالک وعقائد اور ان کی روایات؍ احادیث ہیں، رفع ِاختلاف کا انہوں نے یہ حل پیش کیا ہے :
’’اگر خالص قرآن کو اتھارٹی تسلیم کرلیا جائے تو کوئی اختلاف پیدا ہی نہیں ہوسکتا‘‘ (اگست۸۴ئ: ص ۱۴)
لیکن بارگاہِ قرآن میں آنے کے لئے ایک شرط یہ بھی ہے جس کے بغیر قرآن سے استہداء (ہدایت پانا) ممکن نہیں ہے :
’’قرآن سے صحیح راہنمائی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان خالی الذہن ہو کر اس کی طرف آئے اور اس کے ہاں سے جو کچھ ملے، اسے من و عن قبول کرے، خواہ یہ اس کے ذاتی خیالات، رجحانات، معتقدات اور معمولات کے کتنا ہی خلاف کیوں نہ ہو۔‘‘ (اگست۶۱ئ: ص ۷۴)
باقی مسلمانوں کو تو خیر چھوڑیئے، کم از کم ’اہل قرآن‘ کے جملہ طبقوں سے تویہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ سب احزاب اہل قرآن کے تعبیری اختلافات سے خالی الذہن ہو کر بارگاہِ قرآن میں آئیں گے اور وہ نتیجتاً وحدتِ فکر و عمل میں یکتا ہوں گے لیکن -- اے بسا آرزو کہ خاک شد!
ایک طرف، پرویز صاحب اور ان کے متبعین اور دوسری طرف دیگر ’اہل قرآن‘ حضرات کو ہم دیکھتے ہیں تو ان میں بھی ہمیں ویسا ہی اختلاف و افتراق اور انتشار و شقاق نظر آتا ہے۔ چلو مان لیا کہ ’ملا‘ تو بیچارہ روایات میں اُ لجھ کر ’رستہ کھو بیٹھا‘ مگر حیرت ہے کہ یہ مسٹر لوگ بھی قرآن، قرآن کے بلند بانگ دعووں کے باوجود باہم متحد اور متفق ہونے کی بجائے ایک دوسرے کی تضلیل و تفسیق میں ہی ’مصروفِ جہاد‘ ہیں۔ خود پرویز صاحب لکھتے ہیں:
’’بعض لوگوں کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ فرقہ اہل قرآن کا دعویٰ ہے کہ وہ خالص قرآن سے احکام متعین کرتے ہیں لیکن ان میں بھی باہمی اختلاف ہے۔ ایسا کہنے والوں کو دراصل اس کا علم نہیں کہ فرقہ اہل قرآن نے کون سی باتیں، قرآن سے متعین کر نے کی کوشش کی اور ان میں باہمی اختلاف ہوا؟ قرآن نے جن اُمور کو اصولی طور پر بیان کیا ہے، یہ فرقہ ان کی جزئیات کو بھی قرآن سے متعین کرنے لگ گیا۔ اب ظاہر ہے کہ جو باتیں قرآن میں ہوں ہی نہ، اگر کوئی انہیں بھی قرآن سے متعین کرنے بیٹھ جائے تو ان میں اختلاف نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا؟ جو لوگ یہ بھی قرآن سے متعین کرنا چاہیں کہ نماز میں ہاتھ کہاں باندھنے چاہئیں، ان میں ا ختلاف کے سوا اور کیا ہوگا؟ فرقہ اہل قرآن کی یہی بنیادی غلطی تھی جس کی وجہ سے وہ خود ناکام رہا اور اس کی وجہ سے قرآن بدنام ہوگیا۔‘‘ (اپریل۶۷ئ: ص ۳۴)
آخر یہ لوگ، قرآن سے جزئیات کیوں متعین کرنا چاہتے تھے، ان کا دعویٰ اور دلیل کیا تھی، خود پرویز صاحب ہی لکھتے ہیں:
’’دعویٰ یہ ہے کہ قرآنِ کریم کے تمام احکام کی جملہ تفصیلات و جزئیات خود قرآن میں موجود ہیں۔ اس کے لئے انہوں نے سب سے پہلے نماز کی جزئیات کو لیا۔ میں کسی لمبی چوڑی بحث میں پڑے بغیر صرف اتنا بتا دینا چاہتا ہوں کہ ان کی اس سعی ٔ نامشکور کا نتیجہ کیا نکلا۔ اس فرقہ کے بانی تھے مولانا عبداللہ چکڑالوی (مرحوم) اور ان کے متبعین کا ایک گروہ لاہور میں مقیم ہے۔ ان دونوں نے نماز کی جزئیات اپنے دعوے کے مطابق قرآن کریم سے متعین کی ہیں اوران کی دریافت کردہ جزئیات کی کیفیت یہ ہے :
مولانا چکڑالوی
۱۔ پانچ وقت کی نماز
۲۔ نماز میں دو تین چار رکعتیں
۳۔ ہر رکعت میں صرف دو سجدے
لاہوری فرقہ
۱۔ تین وقت کی نماز
۲۔نماز کی صرف دو رکعتیں
۳۔ ہر رکعت میں صرف ایک سجدہ
جہاں تک اذکارِ صلوۃ کا تعلق ہے، وہ بھی بالکل نرالے ہیں، اگرچہ وہ مشتمل ہیں قرآنی آیات ہی پر۔ اب اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ جس قرآن کی کیفیت یہ ہے کہ اس میں نماز کی جزئیات تک میں اس قدر اختلا ف ہے تو اسے منزل من اللہ کس طرح تسلیم کیا جاسکتا ہے تو سوچئے کہ اس کا کیا جواب دیا جاسکتا ہے؟ اور اگر یہ دونوں گروہ (مقتد ِی اور مقتدیٰ) آپس میں جھگڑنے لگ جائیں اور ایک دوسرے پر الزام دھریں کہ اس نے قرآن کو صحیح نہیں سمجھا تو اس سے ایک اور اعتراض وارد ہوگا جو پہلے اعتراض سے زیادہ نہیں تو کم سنگین بھی نہیں ہوگا۔
معترض کہے گا کہ قرآن کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ کتابِ مبین (روشن کتاب) ہے اور اپنی ہر بات کونہایت وضاحت سے بیان کرتی ہے لیکن عملاً اس کی کیفیت یہ ہے کہ وہ اپنے حکم میں تعداد تک کو بھی غیر مبہم انداز میں بیان نہیں کرسکا، وہ جس انداز سے تعداد بتاتا ہے اس سے ایک شخص پانچ وقت سمجھتا ہے اور دوسرا تین وقت، کوئی دو تین چار رکعتیں سمجھتا ہے تو کوئی صرف دو رکعت، کوئی دو سجدے سمجھتا ہے تو کوئی ایک۔ بسیط حقائق (Abstract Realities) کے متعلق تو انسانوں کا فکری اختلاف، قابل فہم ہوتا ہے کیونکہ انہیں تشبیہی اندا زمیں بیان کیا جاتاہے، لیکن جس کتاب کا متعین احکام و قوانین کے متعلق یہ انداز ہو، اسے خداکی کتاب سمجھنا تو درکنار (معاذ اللہ) انسانی تصانیف میں بھی کوئی قابل قدر مقام حاصل نہیں ہوسکتا۔
آپ دیکھتے ہیں کہ اس سے قرآن کریم پر کتنی بڑی زَد پڑتی ہے۔ انتہائی صدمہ اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان لوگوں نے قرآن کا نام لے کر قرآن کے ساتھ کس قدر دشمنی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے خصوصیت سے ان کے نظریہ اور مسلک کی تردید کرنی پڑی ہے۔‘‘(تفسیر مطالب الفرقان: جلد اوّل، ص۱۳۵ تا ۱۳۶)
یہ حال ہے ان لوگوں کی اختلاف جزئیات کا، جو سنت سے ہاتھ دھو کر محض قرآن پراکتفا کرنے کے دعویدار ہیں۔ جمعہ، جمعہ آٹھ دن، دورِ حاضر میں یہ سب گروہ کل کی پیداوار ہیں اور پرویزی فرقہ بھی ان ہی میں سے ایک ہے جو قرآن کو نیزوں پر لٹکا کر منصہ شہود پر آیا ہے۔ نماز اور دیگر اُمور کی جزئیات کے اختلاف میں اس فرقہ نے نہ تو کوئی کمی کی ہے اور نہ ہی ان میں توفیق و تطبیق کے لئے کوئی حل پیش کیا ہے۔ بلکہ اپنے وجود سے اہل قرآن کے گروہوں میں ایک کا اور اضافہ کرد یا ہے۔ قرآن کی اساس پر طلوعِ اسلام کی لابی نے ازالہ اختلاف نہیں بلکہ امالہ اختلاف کیا ہے۔ یعنی ان جزئیات اور ان کے اختلاف کو کسی ’آنے والے‘ (مرکز ِملت) پر چھوڑ دیا ہے۔
غور فرمائیے کہ یہ سب لوگ، ابھی حریم قرآن میں داخل نہیںہوئے، وہ ابھی اس کی دہلیز پر ہی ہیں کہ اس سوال نے ان میں اختلاف و انتشار پیدا کردیا کہ … ’’قرآن نے صرف کلیات و اُصول ہی بیان کئے ہیں؟ یا ا س میں کلیات و جزئیات اور اصول و فروع سب کچھ مذکور ہیں‘‘ … حالانکہ
تَفْصِيْلَ الْکِتَابِ اور
تِبْيَانًا لِکُلِّ شَيْیٍٔ جیسے قرآنی الفاظ کی یہ سب خیر سے تلاوت کرنے والے ہیں۔