اقوام متحدہ کے فیصلے ماننا؟
اللہ کی شریعت کے بجائے دوسروں کے فیصلے ماننے کے عمل میں اقوام متحدہ کا سہارا بھی شامل ہے اس لئے کہ اس میں اقوام متحدہ کے فیصلوں اور قوانین کی پابندی کرنی پڑتی ہے اقوام متحدہ کے منشور ص 2پر درج ہیں ان مقاصد کی تکمیل کے لئے ہم یہ عزم کرتے ہیں کہ ہم خود پر درگذر لازم کر دیں اور سب مل کر باہمی امن و سلامتی کو یقینی بنائیں اچھے پڑوسیوں کی طرح رہیں اپنی تمام قوتیں اس مقصد کے لئے مجتمع کریں کہ تمام ممالک کی سلامتی اور تحفظ کی کوشش کریں اور ہم اس بات کی ضمانت دیں کہ مسلح قوت صرف مشترکہ مصلحت کے لئے ہی استعمال ہوگی اور تمام ممالک کے وسائل اقوام متحدہ میں شامل ممالک کی اقتصادی و معاشرتی ترقی کے لئے استعمال ہوں گے ۔
اس منشور سے جہاد فی سبیل اللہ باطل ہوجاتا ہے جس میں اس بات کی ضمانت ہوتی ہے بلکہ جہاد کا مقصد اول یہ ہوتا ہے کہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلائی جائے۔ اس طرح اس منشور کے ماننے سے جزیہ بھی باطل قرار پاتا ہے۔ اس طرح منشور کے ص 5پیراگراف نمبر1میں اقوام متحدہ کے مقاصد میں ہے ۔
1۔ حکومتوں میں باہمی امن و سلامتی اس مقصد کے لئے اقوام متحدہ میں شامل ممالک مل کر کوششیں کریں گے کہ ایسے اسباب کی روک تھام ہوسکے جن سے باہمی امن و سلامتی کو خطرہ ہو اور باہمی امن کو تباہ کرنے والے دشمنوں سے مشترکہ طور پر نمٹنا اور سلامتی کے ذرائع اختیار کرنا ہوگا عدل و انصاف اور حکومتوں کے قوانین میں نرمی لانا تاکہ حکومتوں اور ملکوں کے درمیان ان تنازعات کا فیصلہ کیاجاسکے جن سے امن و سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔
2۔ اقوام عالم کے تعلقات کی بنیاد باہمی احترام ، مساوات اور حقوق کی پاسداری پر مبنی ہوں گے تاکہ ہر قوم اپنے مقاصد کی طرف بڑھتی رہے اسی طرح امن عالم کو برقرار رکھنے کے لئے دیگر ذرائع بروئے کار لائے جائیں گے ۔
3۔ حکومتوں اور ملکوں کے باہمی تعاون میں اقتصادی ، معاشرتی ، ثقافتی اور انسانی رنگ غالب ہوگا حقوق انسانی کا احترام بنیادی آزادی تمام لوگوں کے لئے اور تمام افراد عالم کو ان باتوں پر آمادہ کرنا انہیں ترغیب دلانا بلا تفریق رنگ و نسل و جنس ، زبان اور دین ۔
اس منشور کے پیراگراف نمبر1میں غور کریں کہ باہمی سلامتی کو تباہ کرنے والے دشمنوں سے نمٹنے اور عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے تمام حکومتوں اور ملکوں کے وسائل کو مشترکہ طور پر اختیار کرنا دراصل صراحت کے ساتھ جہاد کو باطل قرار دینا ہے اور دنیا کے ہر معاملے کا فیصلہ ان کے قوانین کے پاس لیجانا ہوگا جو کہ تحاکم الی الطاغوت ہی ہے اس طرح دوسرا پیراگراف دیکھیں جس میں حقوق و آزادی انسان کو بلا تفریق کہاگیا ہے اس میں یہ فرق ہی نہیں کیاجاتا کہ کون رب العالمین کے ماننے والے اس کی عبادت کرنے والے ہیں اور کون بتوں ، صلیب، پتھر ، گائے کے پجاری ہیں ہر ایک کے حقوق یکساں ہیں اب جو شخص اقوام متحدہ کا ساتھ دے گا وہ ان تمام باطل قوانین کو تسلیم کرے گا۔
پیراگراف نمبر4دفعہ نمبر1میں ہے اقوام متحدہ کی حمایت و تعاون ان تمام ممالک کو حاصل رہیگا جو اس کے منشور پر عمل پیرا رہیں گے اور جو دنیا میں امن و سلامتی کے لئے کام کریں گے اقوام متحدہ کے پاس اتنی قوت ہے کہ وہ اپنا منشور لاگو کر سکے اور اس کی کوششیں بھی اس کے لئے جاری ہیں پیراگراف نمبر6میں ہے جب اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں سے اگر کسی نے اس منشور کی خلاف ورزی کی تو سلامتی کونسل اس کی رکنیت برقرار رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرے گی ۔
ان کفریہ دفعات میں اس بات کی مکمل کوشش کی گئی ہے کہ جہاد جزیہ کافروں سے دوستی یا دشمنی کا اسلامی معیار ختم کر دیا جائے اور دین اسلام کو صرف ایک علاقے یا چند ممالک کا دین بنادیا جائے اس کی عالمگیریت کو ختم کر دیا جائے کفار سے جنگ کرنی ہوتو وہ بت پرستوں کے جھنڈے تلے ہو اور ان کی اندھی آراء کے ماتحت ہو۔ دراصل موحدین کے خلاف یہ جنگ ہے تنازعات کے وقت ملکی قوانین کی طرف رجوع کرنا یاموحدین کے خلاف اس طرح کی جنگ کرنا اسلام سے ارتداد )کفر( ہے جو بھی ملک اقوام متحدہ کی رکنیت رکھتا ہے وہ اعلانیہ کفر کا علم بردار ہے اس لئے کہ اقوام متحدہ کے منشور میں کلمہ لا الہ الا اللہ کی واضح مخالفت موجود ہے اور اس کو ہم مندرجہ ذیل طریقوں سے ثابت کر سکتے ہیں ۔
1۔ پیراگراف نمبر4اور 6میں اس کا ثبوت موجود ہے اگر اقوام متحدہ کا سہارا لیاجائے تو؟
2۔ مسلمان موحد اور کافر بت پرست کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھاگیا ہے نہ حقوق میں نہ فرائض میں اس طرح جزیہ ساقط کیاگیا ہے پیراگراف نمبر1دفعہ نمبر3میں گذر چکا ہے ۔
3۔ جہاد فی سبیل اللہ ساقط کیاگیا ہے جیسا کہ پیراگراف نمبر1دفعہ نمبر1میں بیان ہوچکا ہے ۔
4۔ فیصلے اکثریت کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور قرار دادیں بھی اکثریت کی رائے کے مطابق پاس ہوتی ہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کو اہمیت نہیں دی جاتی جیسا کہ پیراگراف نمبر18دفعہ نمبر2میں ہے اقوام متحدہ کے اجلاس میں اہم مسائل پر قرار دادیں دو تہائی اکثریت سے منظور ہوں گی یہ دو تہائی اکثریت اجلاس میں شریک ممالک کی رائے شماری میں حصہ لینے سے ثابت ہوگی اہم مسائل سے مراد ہے کہ حکومتوں اور ملکوں کے مابین سلامتی کے امور، سلامتی کونسل کے غیر مستقل ارکان کا انتخاب اقتصادی انسانی حقوق غربت کے خاتمے وغیرہ کیلئے کمیٹیوں کے ارکان کا انتخاب وغیرہ ہے۔
5۔ اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل درآمد کرانے والی امن فوج کی تمام تر ہمدردیاں کافر ممالک کے ساتھ ہوتی ہیں جنکا وہ عملی مظاہرہ بھی کرتی رہتی ہے اور سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کے ساتھ زیادہ ہمدردی رکھتی ہے جن میں چین، فرانس، روس، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں سلامتی کونسل کے ان ارکان میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوتی اقوام متحدہ کی امن فوج انہی کی قیادت میں جنگ کرتی ہے ۔(پیراگراف نمبر23دفعہ نمبر)
سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں 15ممالک شامل ہیں وہ بھی اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں سے ان میں جمہوریہ چین ، فرانس، روس(اشتراکی جمہوریتیں )متحدہ برطانیہ ، شمالی آئر لینڈ ، امریکی متحدہ ریاست، یہ مستقل ارکان ہیں جبکہ دیگر دس غیر مستقل ارکان کا انتخاب اقوام متحدہ میں شامل دیگر ممالک میں سے کیاجاتا ہے مگر اس انتخاب میں بھی ایک خاص جغرافیائی یا دیگر پہلوؤں کو مد نظر رکھا جاتا ہے جس طرح کہ پہلے مختلف دفعات سے ثابت ہوچکا ہے کہ امن فوج ان ارکان کے تحت ہی جنگ کرتی ہے یعنی ان مشرک ممالک کے تحت (کوئی بھی اسلامی ملک سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں شامل نہیں ہے)
پیراگراف نمبر46میں درج ہے لازمی قانون یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی امن فوج کو مسلح کاروائی کا اختیار صرف سلامتی کونسل کی قائم کردہ کمیٹی کے پاس ہی ہے۔
پیراگراف نمبر47دفعہ نمبر1میں ہے کہ امن فوج کو جنگی کاروائی کیلئے استعمال کرنے والی کمیٹی سلامتی کونسل کو مشورہ دیگی اور اسکا تعاون حاصل کریگی کہ امن قائم کرنے کیلئے اور سلامتی کونسل کے ماتحت اوراسکی قیادت میںمسلح کاروائی یا اسلحہ کی تلاش یا کسی کو غیر مسلح کرنا وغیرہ کیلئے ضروری ہے کہ سلامتی کونسل سے منظوری لے ۔
پیراگراف نمبر48دفعہ نمبر1میں ہے سلامتی کونسل کی قرار داد جو امن عالم کے سلسلے میں ہو اس پرارکان اقوام متحدہ تمام یا کچھ عمل کرائیں گے ۔
6۔ دوستی اور دشمنی کااسلامی معیار ختم کر دیاگیا ہے ۔جیسا کہ پیراگراف نمبر 76دفعہ ج میں ہے ۔ حقوق انسانی کے لئے اقدام کرنا انسانی آزادی کے لئے جدوجہد جو کہ بلا تفریق جنس، زبان، دین ، مرد عورت ، ہو اور اقوام عالم میں سے جن جن کے آپس میں معاہدات ہیں ان کی پاسداری ۔
6۔ یہ عہد کہ طاغوت کے پاس فیصلے لے جائے جائیں ۔جیسا کہ پیراگراف نمبر92میں ہے ۔
عالمی عدالت اقوام متحدہ کی اعلی اختیاراتی فیصلہ کرنے والی عدالت ہے یہ عدالت اقوام متحدہ کے بنیادی منشور کے مطابق عمل کرتی ہے اور یہ عدالت اس بنیادی نظام پر قائم ہے جو تمام ممالک میں عدل قائم کرنے کے لئے بنایا گیا ہے اور یہ اقوام متحدہ کے منشور سے انحراف کی مجاز نہیں ہے ۔
پیراگراف نمبر94دفعہ نمبر1میں ہے اقوام متحدہ کا ہر رکن اس عہد کا پابند ہے کہ وہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو تسلیم کرے چاہے کسی بھی مسئلے سے متعلق فیصلہ ہو۔
ان تمام دفعات میں دین اسلام اور توحید جو انبیاء کرام لائے تھے ان سے مکمل متضاد و متصادم ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اﷲَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ (النحل:36)
ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا )وہ ان سے کہتا تھا (اللہ کی عبادت کرو طاغوت سے اجتناب کرو۔
اقوام متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے والا ہر ملک کفر اکبر میں مبتلا ہوچکاہے اس لئے کہ اس شمولیت کی وجہ سے تحاکم الی الطاغوت کی طرف چلا گیا جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے اور اسی طرح جہاد، جزیہ کو باطل کر دیا مشرکین سے دوستی اور موحدین کے خلاف ان کی مدد کی ان اقوام کے ان جھنڈوں تلے جمع ہوگئے ہیں جن پر صلیب اور بت بنے ہوئے ہیں ان کے ملکی قوانین ورواج ان کے سرکاری رسوم کے تابع ہوگئے ہیں اور اس آئین کی پاسداری کا عہد کیا ہے جس میں منشور سے مکمل اتفاق اوراس پر عمل لازم ہے اور اقوام متحدہ کے قرار دادوں کی منظوری غالب اکثریت سے ہوگی رب کے حکم پر نہیں اگرچہ یہ قرار داد یہود سے قتال کی ممانعت ان کے ظالمانہ قبضوں کے جواز کی ہی کیوں نہ ہو اب کوئی بھی مؤحد حکومت اگر فی سبیل اللہ جہاد کرنا چاہے گی تو وہ اس ملحد اقوام متحدہ کے تحت ہی کرے گی کہ اس کے منشور میں ان حدود کی نشاندہی کی گئی ہے جس کے رو سے تمام انسان برابر ہیں چاہے مسلمان ہوں یا کافر سب کے حقوق و فرائض برابر ہیں ایسی صورت میں اب نہ جہاد رہا نہ جزیہ نہ غنیمت نہ قیدی اور یہ تمام قوانین ایسے ہیں کہ جن پر رکن ممالک کے لئے عمل کرنا لازم ہے وہ اسکا عہد کر چکے ہیں جو بھی ملک ان قوانین کی مخالفت کرے گا وہ خود ہی اقوام متحدہ کی طرف سے جنگ کاسامنا کرے گا اقوام متحدہ کے اس منشور کی اعلانیہ یا باطنی موافقت اسلام سے صریح ارتداد ہے۔