• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسد الطحاوی حنفی کی چوں چاں کا جواب

شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
اسد الطحاوی کی تحریر:
کیا امام ابن مبارک نے امام ابو حنیفہ کو ترک کر دیا تھا ؟
غیر مقلدین کی طرف سے پیش کی جانے والی تمام مروایات کا تحقیقی جائزہ
ازقلم: اسد الطحاوی الحنفی

ہم سب سے پہلے امام ابن مبارک کی طرف منسوب ان تمام مروایات کا تحقیقی جائزہ لینگے جو پیش کرکے دعویٰ کیا جاتا ہے غیر مقلدین کی طرف سے کہ امام ابن مبارک نے آخری دور میں ترک کر دیا تھا امام ابو حنیفہ کو۔

اس حوالے سے پیش کی جانے والی سب سے پہلی روایت :
أَخْبَرَنَا ابن رزق، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابن سلم، قَالَ: أَخْبَرَنَا الأبَّار، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن المهلب السَّرْخَسِيّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَليّ بن جرير، قَالَ: كُنْت في الكوفة، فقدمت البصرة ويها ابن المبارك، فَقَالَ لي: كيف تركت النَّاس؟ قُلْتُ: تركت بالكوفة قوما يزعمون أن أَبَا حنيفة أعلم من رَسُول الله، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: كفر، قُلْتُ: اتخذوك في الكفر إماما، قَالَ: فبكى حَتَّى ابتلت لحيته، يعني: أَنَّهُ حدث عَنْهُ أَخْبَرَنِي مُحَمَّد بن عَليّ المُقْرِئ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن عَبْد الله النَّيْسَابُوري، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَر مُحَمَّد بن صالح بن هانئ، يَقُولُ: حَدَّثَنَا مسدد بن قطن، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن أَبِي عتاب الأعين، قَالَ: حَدَّثَنَا عَليّ بن جرير الأبيوردي، قَالَ: قدمت عَلَى ابن المبارك، فَقَالَ لَهُ رجل: إن رجلين تماريا عندنا في مسألة، فَقَالَ أحدهما قَالَ أَبُو حنيفة، وَقَالَ الآخر: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: كَانَ أَبُو حنيفة أعلم بالقضاء، فَقَالَ ابن المبارك: أعد عَليّ، فأعاد عَلَيْهِ، فَقَالَ: كفر، كفر، قُلْتُ: بك كفروا، وبك اتخذوا الكفر إماما.
قَالَ: ولم؟ قُلْتُ: بروايتك عن أَبِي حنيفة، قَالَ: أستغفر الله من رواياتي عن أَبِي حنيفة
علی بن جریر رحمه الله کہتے ہیں میں کوفہ میں تھا ، جب میں بصرہ پہنچا تو وھاں ابن مبارک تھے، میں نے کے پاس آیا ، تو انہوں نے مجھ سے کہا: تم لوگوں کو کیسے چھوڑ آئے؟ میں نے کہا: میں نے کوفہ والوں کو اس حال میں چھوڑا کہ وھاں لوگ دعویٰ کر رھے تھے، کہ ابوحنیفہ علم میں نبی صلی الله عليه وسلم سے بڑھ کر ھے، تو ابن مبارک رحمه الله نے فرمایا: یہ تو کفر ھے۔
علی بن جریر کہتے ھیں: میں نے کہا وہ آپ کو بطور امام بنا کر کفر کر رھے ھیں۔
ابن مبارک رحمه الله اتنا روئے کے داڑھی مبارک تر ھوگئی، پھر پوچھا: کیوں؟
میں نے کہا: کیونکہ آپ ابوحنیفہ سے روایت بیان کرتے ھیں
تو ابن مبارک نے کہا: میں اللہ سے معافی مانگتا ھوں اس وجہ سے جو میں نے ابوحنیفہ سے بیان کیا".
[تاریخ بغداد للخطیب: ج15، ص566 وسندہ حسن]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب (اسد الطحاوی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

معلوم نہیں یہ کاپی پیسٹ محدث فورم سے کی جاتی ہے یا کسی کتاب سے کیونکہ آخر میں سند پر حسن کا اطلاق کس ہے یہ معلوم نہیں ہوتا خیر مذکورہ روایت کو کمنٹ میں ''Nasir Nawaz'' نامی شخص نے کیا ہے تو موصوف کی پیش کردہ جرح کی سند حسن ہے یا شاید اس نےتاریخ بغداد کے محقق کے حاشیہ کی تقلید کی ہے معلوم نہیں ۔

علت:
مذکورہ سند میں ایک راوی'' مُحَمَّد بن المهلب السَّرْخَسِيّ'' موجود ہے جو کہ مجہول ہے
امام ابن حبان نے اسکو الثقات میں درج کیا ہے اسکے علاوہ اس راوی کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے
اور امام ابن حبان مجاہیل کو اپنی ثقات میں درج کرنے کے حوالے سے متساہل معروف ہیں اپنے منہج کے سبب!
اسکے علاوہ اسکا ذکر کسی کتب رجال میں نہیں ملتا ہے ۔ تو یہ روایت غیر ثابت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
الجواب:
اسد المعروف المداری الکوفی الشیخ المقلد کے لئے عرض ہے۔ کہ جب ناچ نہ آئے تو آنگن کو تیڑھا نہیں کہہ دیتے:
مذکورہ روایت کو صحیح سند سے امام ابن حبان نے کتاب الثقات میں درج کیا ہے
ملاحظه ھو
امام ابن حبان رحمه الله نے کہا:
علي بن جرير من أهل أبيورد يروي عن حماد بن سلمة وابن المبارك وكان يخضب لحيته روى عنه أحمد بن سيار.
سمعت محمد بن محمود بن عدي يقول: سمعت (محمد بن عبد الله) بن قهزاد (١) يقول: سمعت علي بن جرير يقول: قلت لابن المبارك: رجل يزعم أن أبا حنيفة أعلم بالقضاء من رسول الله - صلى الله عليه وسلم -. فقال عبد الله: هذا كفر. قلت: يا أبا عبد الرحمن بك نفذ الكفر، قالوا: رويت فروى الناس (٢). قال: ابتليت به. ودمعت عيناه
ترجمة:
امام علی بن جریر رحمه الله کہتے ہیں: ابن مبارک سے کہا ایک شخص دعویٰ کرتا ہے کہ ابوحنیفه علم میں رسول الله صلی الله عليه وسلم سے بڑھ کر تھے۔ تو ابن مبارك نے کہا: یہ تو کفر ھے۔
تو علی بن جریر نے کہا اے ابو عبدالرحمن وہ آپ ہی کی وجه سے کفر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ابن مبارک (ابوحنیفه سے) روایت کرتے ہیں۔ اور لوگ اسی وجه سے اُن سے روایت کرتے ہیں۔ تو ابن مبارك نے کہا:
میں اس وجه سے آزمائش میں مبتلا ہوا اور آپ کی آنکھیں بھر آئیں۔
[کتاب الثقات لابن حبان: جزء8/صفحة464]-اسنادہ صحیح
۔
اس سند کی تحقیق کی ضرورت نہیں کیونکه اسد المداری نے اس سند پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ البته اسد المداری نے علی بن جریر کا ابن مبارک سے روایت کرنے پر لطیفه ضرور چھوڑا ھے۔
جبکه ابن حبان نے اس روایت کو علی بن جریر ہی کے ترجمے میں نقل کیا۔ اور وضاحت کی علی بن جریر، ابن مبارک سے روایت بھی کرتے ہیں۔
لہذا اسد المداری ، کا کوفی حیله ابن حبان نے کوفه میں پہلے سے دفن کر رکھا ھے۔
۔
یہی روایت علی بن جریر سے مختلف رواہ نے (ضعیف سند کے ساتھ) بعینه اسی متن سے کچھ زیادت کے ساتھ روایت کی ہے۔ لہذا ایک صحیح اور دو ضعیف مل کر اس واقعے کی اصل کو اور بھی زیادہ پخته کرتی ہیں۔
۔
تبصرہ:
اسد المداری کہتا ھے اس روایت میں ابوحنیفه پر کوئی جرح نہیں:
عرض ھے کہ جس طرح ابن مبارك شروع میں ابوحنیفه کے گُن ہی گاتے رہتے تھے۔ جیسا کہ متعدد روایات سے ثابت ھے۔ تو اس حساب سے ابن مبارک کو چاھیئے تھا۔ سائل کو ابوحنیفه کے خلاف بکواس کرنے پر لاجواب کردیتے۔ کیونکه
جب سائل نے کہا: کہ لوگ آپ ہی کی وجه سے کفر کرتے ہیں۔ کیونکه آپ اُن سے روایت کرتے ہیں۔
تو ابن مبارک کو چاھیئے تھا۔ ابوحنیفه کی عدالت ثابت کرتے۔ جیسے وہ پہلے کیا کرتے تھے۔ لیکن اسکے برعکس ابن مبارک نے کہا:
میں آزمائش میں مبتلا ہوا اور آنکھیں بھر آئیں۔
ایک نقطه:
ابن مبارک کی آنکھیں کیوں بھر آئیں؟
اب اسد المداری اور باقی حنفی یہ سمجھیں گے کہ ابن مبارك کو ابوحنیفه سے محبت تھی۔ اسی لئے وہ رو دیئے۔ (ھاھاھاھاھا)
جبکه گمان غالب یہ ھے کہ ابن مبارك اس غم میں رو دیئے، کہ میری وجه سے لوگ اتنا بڑا کفر کر رھے ہیں۔ ہائے کاش میں ابوحنیفه سے روایت نہ کرتا۔
جیساکہ روایت کا سیاق بھی بتلاتا ھے۔ کہ سائل نے اس کفر کی وجه ابن مبارک کی ذات کو سمجھا۔ تو ابن مبارک نے اس کا بلکل بھی انکار نہیں کیا۔ کہ بھلا میری کیا غلطی ہے؟ میں تو صرف روایت بیان کرتا ہوں؟ بلکه ابن مبارک نے سائل کی اس بات سے اتنا ڈرگئے۔ کہ اس ڈر اور غم میں رو دیئے۔ کہ یہ میں نے کیا کردیا۔
۔
ایک پیشگی لطیفه:۔ حنفی المداری سمجھیں گے کہ ابن مبارک ابوحنیفه کی محبت میں رو دیئے؟
تو زرا قارئین انصاف سے بتلائیں۔ کہ جب لوگ آپ کی وجه سے کفر کر رھے ھوں۔ تو تب آپ کسی شخص کی محبت میں روئیں گے؟
یا اپنے آپ کو اس کفر سے بچانے کے چکر میں روئیں گے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
لہذا ثابت ھوا کہ ابن مبارك کو اخیر عمر میں اپنی غلطی کا احساس ھوگیا تھا۔ جس کی صراحت مختلف روایات میں موجود ہے۔ جو ھم آگے چل کر بیان کرین گے ان شاء الله
۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
(اسد الطحاوی کی تحریر)
تیسری پیش کردہ روایت :
نا عبد الرحمن نا أحمد بن منصور المروزي [صدوق] قال سمعت سلمة بن سليمان [ثقة ثبت الحافظ كبير] قال قال عبد الله - يعني ابن المبارك: ان اصحابي ليلو موننى في الرواية عن ابى حنيفة، وذاك انه اخذ كتاب محمد بن جابر عن حماد بن أبي سليمان فروى عن حماد ولم يسمعه منه
امام عبد الله بن مبارک کہتے ھیں: میرے اصحاب مجھے ابوحنیفہ سے روایت کرنے پر ملامت کرتے ھیں، وہ اِس لئے ، کہ ابوحنیفہ نے محمد بن جابر جعفی کے یہاں رکھی ھوئی حماد بن ابی سلیمان کی کتابیں حاصل کرلیں، پھر ابوحنیفہ اِن کتابوں سے روایت بیان کرنے لگے، حالانکہ انہوں نے یہ کتابیں حماد سے نہیں سنی تھیں
[الجرح وتعديل لابن أبي حاتم: ج8، ص450 وسندہ صحیح]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب (اسد الطحاوی)
بلکہ اسی کتاب میں ہی امام عبداللہ بن مبارک کا موقف موجود ہے کہ وہ تو روایت کرتے تھے اور اسی سبب ابن مبارک کے ساتھی امام ابن مبارک پر طعن کرتے تھے جیسا کہ :
نا عبد الرحمن نا أحمد بن منصور المروزي قال سمعت سلمة بن سليمان قال قال عبد الله - يعني ابن المبارك: ان اصحابي ليلو موننى في الرواية عن ابى حنيفة،
امام عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ میرے ساتھی مجھ پر طعن کرتے ہیں کہ میں امام ابو حنیفہ سے احادیث روایت کرتا ہوں
[الجرح والتعدیل وسندہ صحیح]

اس میں تو واضح موجود ہے کہ امام ابن مبارک پر امام ابو حنیفہ سے بیان کرنے کے سبب انکے ساتھی ان پر طعن کرتے رہتے تھے لیکن انہوں نے تو کہیں نہیں کہا کہ میں اب چھوڑ دیا روایت کرنے سے ۔ اور آگے امام ابن مبارک نے طعن کرنے والوں کا موقف بیان کیا ہے ۔ جیسا کہ لفظ موجود ہے '' وذاك انه'' یعنی اس کی وجہ یہ ہے ۔۔۔۔
اور یہ وجہ امام ابن مبارک نے ان پر طعن کرنے والے لوگوں کی دلیل بیان کی ہے نہ کہ انکا خود کا یہ موقف تھا کیونکہ وہ تو کہہ رہے میں میں روایت کرتا ہوں اور میرے ساتھی مجھ پر طعن کرتے ہیں انکے اس سارے کلام میں کہیں موجود نہیں کہ امام ابن مبارک کے نزدیک امام ابو حنیفہ متروک قرار پائے ہوں ۔ یہ روایت الٹا ہماری دلیل ہے ۔
اور
امام ابن معین کا کلام بھی ہمارے موقف کو مزید تقویت دیتا ہے ۔
جیسا کہ امام صیمری اپنی سند صحیح سے روایت کرتے ہیں :
أخبرنا عمر بن إبراهيم قال ثنا مكرم قال ثنا علي بن الحسين بن حيان عن أبيه قال أنبأ يحيى بن معين قال روى عن أبي حنيفة سفيان الثوري وعبد الله بن المبارك وحماد بن زيد ووكيع وعباد بن العوام وجرير
قال يحيى بن معين ابن المبارك أوثق عندي من عبد الرزاق ومعمر كذا والله عندي هو من أثبت الناس فيما يتحدث به وهو من خيار المسلمين

امام حسین بن حبان کہتے ہیں:
امام ابن معین کہتے ہیں ابو حنیفہ سے بیان کرنے والے ''سفیان الثوری ہیں''
''عبداللہ بن مبارک ہیں''
''حماد بن زید ہیں''
''وکیع بن الجرح ہیں''
''عباد بن عوام''
اور ''جریر'' ہے
پھر ابن معین کہتے ہیں انکے نزدیک ابن مبارک ابو معمر اور عبدالرزاق سے بھی زیادہ ثقہ ہیں اور پھر کہا واللہ ابن مبارک پوری جماعت سے اوثق ہیں جس سے میں نے بیان کیا ہے اور یہ اہل خیر مسلمین میں سے تھے
[اخبار ابی حنیفہ و صحابہ و سند صحیح ]

اگر امام ابن مبارک نے ترک کر دیا ہوتا امام ابو حنیفہ کو تو امام ابن معین علیہ رحمہ امام ابن مبارک کو امام ابو حنیفہ کے تلامذہ میں شمار نہ کرتے حدیث میں !! معلوم ہوا انکے دور تک بھی ایسی کوئی بات مشہور نہ ہوئی تھی کہ امام ابن مبارک نے ترک کر دیا ۔

__________________________
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
الجواب: (الامام جمیع المقلدین ناصر)
مداری کہاں کی کوڑی کہاں ملادیتا ھے۔ اسکے اپنے ہی اصول ہیں۔ اپنی فیس بُک وال پر ابن مبارک سے ابوحنیفه کی مدح میں ایک نظم لگا رکھی ھے جو سنداً منقطع ھے۔ اور خود بھی یہ اس بات کو تسلیم کرتا ھے۔ لیکن الشیخ المقلد مداری نے فیصلہ دیا ھے کہ اسکی اصل ثابت ھے۔ لو اکھاڑ لو اب اسد مداری کا۔۔۔۔
بحرحال اسد پدوڑے کی اس کہانی کا نہ سر نہ پیر ھے۔
جیساکہ روایت میں واضح موجود ھے کہ ابن مبارک خود کہہ رہے ہیں۔
میرے اصحاب مجھے اس لئے ملامت کرتے تھے ابوحنفه سے روایت کرنے پر۔ کیونکه ابوحنیفه رحمه الله نے محمد بن جابر کی کتابیں (جو محمد بن جابر نے حماد بن ابی سلیمان سے سنی تھیں) چوری کرکے براہ راست امام حماد سے بیان کرنے لگے تھے۔ حالانکه وہ روایات ابوحنیفه نے خود حماد سے نہیں سنی تھیں۔
اس میں تو واضح جرح موجود ھے۔ کہ ابوحنیفة چوری شدہ وہ روایات بیان کرتے تھے۔ جو انہوں نے اپنے شیخ سے سنی ہی نہ ہوتی تھیں؟
اور یہ خبر ہم تک صرف ابن مبارک ہی کے واسطے سے بسند صحیح پہنچی ہے۔ کہ ابوحنیفه نے محمد بن جابر کی کتابیں چوری کرکے ان کتابوں سے بیان کرنے لگے تھے۔
اگر ابن مبارک یہ بات ہم کو نہ بتلاتے۔ تو ابن مبارک کے کسی اصحاب سے یہ خبر کہیں بھی موجود نہیں۔ کہ ھم ابن مبارک کو اس وجه سے ابوحنیفه سے روایت کرنے پر ملامت کرتے تھے۔
ابن مبارک نے یہ بات (مذکورہ روایت) تبھی ظاھر کی جب ابن مبارک پر ابوحنیفه کی حقیقت واضح ھوئی۔ ورنہ اس سے پہلے ابن مبارک تو ابوحنیفه کی مدح میں گُن گاتے رہتے تھے۔
حالانکه کسی راوی کے بارے میں یہ کہنا، کہ اُس راوی نے فلاں کی کتابیں چوری کرکے خود بیان کرنا شروع کردیا تھا۔ تو یہ شدید جرح ھے۔
لیکن حنفی قانون میں یہ سرے سے جرح ہی نہیں
ملاحظه ھو؛
صاحب ھدایه کہتے ہیں:
ولا قطع علی الضیف إذا سرق ممن أضافه''۔
''مہمان جب اس شخص کی چوری کرے، جس کا وہ مہمان ہے، تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔''
۔
کیا معلوم ابوحنیفه رحمه الله بطور مہمان گئے ھوں محمد بن جابر کے پاس؟ اور وہیں سے اُس کی کتابیں اُچک لائے؟
۔
حنفیت کا دوسرا قانون:
کُھلے درواسے والے گھر سے چوری کرنا -
صاحب ھدایه نے کہا:
''ولو کان باب الدار مفتوحا فدخل نھارا سرا و سرق لا یقطع...... ولو دخل اللص مابین العشآء و العتمة والناس یذھبون و یجیئون فھو بمنزلة النھار''
ترجمه:
''اگر گھر کا دروازہ کھلا ہو، پس دن کے وقت داخل ہوکر چوری کرے تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا''........ ''اور اگر چور عشاء اور عتمه (زیادہ اندھیرے) کے درمیان داخل ہو، اس حال میں کہ لوگ آجارہے ہوں، تو وہ بمنزلہ دن کے ہے۔
۔
کیا معلوم محمد بن جابر کے گھر کا دروازہ کھلا ہوا ھو، اسی لئے ابوحنیفه رحمه الله نے اسے ثواب کا بہترین موقع سمجھ کر محمد بن جابر کی کتابیں اٹھا لائے؟
اس قسم کے کئی حیلے صاحب ھدایه نے بیان کر رکھے ہیں۔ جو لگتا ھے ابوحنیفه رحمه الله کے اسی عیب کو چھپانے کے لئے ہیں۔
۔پھر اخیر میں جو اسد المداری نے ابن معین سے اپنے مؤقف کی تقویت ثابت کی ہے۔ وہ کسی لطیفے سے کم نہیں۔
اول تو مکرم بن احمد القاضی پر فضائل ابی حنيفة بیان کرنے کی خاص جرح ھے۔
دوسرا اس روایت میں علی بن الحسین بن حبان کے والد ، حسین بن حبان مجھول ہیں۔
لہذا یہ کسی مداری کا مؤقف تو ہوسکتا ھے ابن معین کا موقف نہیں۔
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
(اسد المداری کی تحریر)
چوتھی روایت جو پیش کی جاتی ہے :
جو پیش کیا جاتا ہے امام ابن مبارک کے شاگرد سے :
2-امام احمد اور عبد اللہ بن احمد
حَدثنَا أَبُو بكر الْأَعْين(صدوق)
عَن الْحسن بن الرّبيع(ثقہ)
قَالَ ضرب بن الْمُبَارك على حَدِيث أبي حنيفَة قبل أَن يَمُوت بأيام يسيرَة۔
یعنی امام حسن بن ربیع کہتے ہیں کہ امام ابن مبارک نے اپنی کتب سے امام ابو حنیفہ کی احادیث کٹوا دی تھیں
[العلل ومعرفة الرجال لأحمد رواية ابنه عبد الل: أحمد بن حنبل جلد : 3 صفحه : 269]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب (اسد الطحاوی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مذکورہ روایت معلل و ضعیف ہے یہ سندا بھی اور متنا بھی شاذ ہے جیسا کہ امام عبداللہ بن احمد اس روایت کو پہلے ڈریکٹ امام ابو بکر عین سے روایت کرتے ہیں

لیکن امام خطیب نے جب اسکو امام عقیلی کی سند سے نقل کیا ہے تو اس میں سند میں تضاد واقع ہو گیا
جیسا کہ امام خطیب لکھتے ہیں :
أَخْبَرَنَا عُبَيْد الله بن عُمَر الواعظ، حدّثنا أبي، حدّثنا عبد الله بن سليمان ، حدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي أبي، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْر الأعين عن الحَسَن بن الربيع قَالَ: ضرب ابن المبارك عَلَى حديث أَبِي حنيفة قبل أن يموت بأيام يسيرة. كذا رواه لنا.

جیسا کہ سند میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کہ یہاں امام عبداللہ مذکورہ روایت اپنے والد کے طریق سے ابو بکر الاعین سے روایت کر رہے ہیں یعنی امام عبداللہ سے اس سند میں اضطراب واقع ہوگیا ہے کبھی وہ ڈریکٹ ابو بکر سے روایت کرتے ہیں کبھی اپنے والد کے طریق سے ابو بکر سے روایت کرتے ہیں جبکہ امام احمد کا ان سے روایت کرنا ثابت ہی نہیں معلوم نہیں اصل راوی ان دونوں میں سے کوئی ہے بھی یا کوئی تیسرا راوی ہے جس میں اضطراب واقع ہوا ہے

یہی وجہ ہے اسکو نقل کرنے کے بعد امام خطیب فرماتے ہیں:

وأظنه عن عَبْد الله بن أَحْمَد عن أَبِي بَكْر الأعين نفسه، وَاللَّه أعلم
میں یہ ظن یا شک ہے کہ عبداللہ بن احمد نے اسکو عن (کے صیغے) سے ابو بکر الاعین سے روایت کیا ہے اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے (کہ صحیح بات کیا ہے )
[تاریخ بغداد ]
نیز اس میں ابو بکر الاعین کا سماع کی تصریح کا بھی احتمال ہے کیونکہ ابو بکر سے اوثق راوی سے سماع کی تصریح کے ساتھ اسکے مخالف متن بیان کیا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس روایت میں دوسری علت !

اس مذکورہ روایت کو امام ابن مبارک کے مشہور ثقہ شاگرد امام حسن بن ربیع سے بین کرنے والے راوی ابو بکر الاعین ہیں جو ایک حسن الحدیث درجہ کا راوی ہے اور جب ایسا راوی اوثق راوی کی مخالفت کرے تو ایسے راوی کی روایت منکر ہوتی ہے !
اور ابو بکر الاعین کی امام حسن بن ربیع سے یہ روایت امام حسن بن ربیع کے ذاتی موقف کے بھی خلاف ہے جس سے اس روایت کی نکارت واضح ثابت ہےجسکے دلائل درج ذیل ہیں!

امام اعظم ابو حنیفہؓ کی مدح و مناقب میں جہاں درجن بھر سے زیادہ محدثین بشمول شوافع، حنفیہ و مالکیہ نے کتب لکھی ہیں متقدمین سے متاخرین تک ان میں سے ایک امام ابو عبداللہ ابن ابی حفص بخاری بھی ہیں جو امام المعروف ابو حفص الکبیر کے بیٹے تھے ۔ اور امام بخاری اور امام ابو عبداللہ بن ابی حٖفص نے امام ابو ففص الکبیر (اپنے والد)سے علم حدیث سیکھا بخارہ میں !
انکا تعارف آگے پیش کیا جائے گا ۔

امام زرنجری (المتوفیٰ ۵۱۲ھ) نے امام ابو حنیفہ کے مناقب میں ایک کتاب لکھی اور اس کتاب میں انہوں نے امام ابن ابی حفص کی کتاب سے بہت استفادہ کیا ہے کیونکہ انکے پاس امام ابو عبداللہ بن ابی حٖفص کی کتاب موجود تھی جسکی تصریح انہوں نے اپنی کتاب میں کی ہے متعدد جگہ

سب سے پہلے امام قاضی زرنجری کا تعارف پیش خدمت ہے :
انکا مکمل نام و نسب یوں ہے :
أبو الفضل بكر بن محمد بن علي بن الفضل الأنصاري الخزرجي، السلمي, الجابري، البخاري

یہ چونکہ امام سمعانی کے شیخ تھے وہ انکا تذکرہ یوں کرتےہیں :
وكان يضرب به المثل في حفظ مذهب أبي حنيفة رحمه الله، وكان مصيبا في الفتاوى، وجواب الوقائع، وكانت له معرفة بالأنساب والتواريخ، وكان أهل بلده يسمونه أبا حنيفة الأصغر على ما سمعت، وكان يحفظ الرواية بحيث إذا طلب منه المتفقه الدرس يلقي عليه، ويذكر له من أي موضع أراده من غير مطالعة ومراجعة إلى الكتاب، وكانت الفقهاء إذا وقع إشكال في الرواية كانوا يرجعون إليه ويحكمون بقوله ونقله.اشتغل بسماع الحديث في صغره، وسمع الحديث الكثير، وتفرد بالرواية في وقته عن جماعة لم يحدث عنهم سواه، وأملى الكثير، وكتبوا عنه.
یہ امام ابو حنیفہ کے مذہب کو حفظ کرنے کے حوالے سے بے مثل تھے ، وہ فتویٰ دینے میں اچھے تھے ، اور مسائل کے جواب دیتے ،انکو نسب اور تاریخ کی معرفت تھی ، اور انکے علاوہ کے لوگوں کو میں نے نوجوان ابو حنیفہ کہتے سنا (یعنی ثانی ابو حنیفہ) وہ اس لیے روایات کو حفص کرتے اور جب ان سے کوئی عالم سوال کرتا تو وہ سبق پیش کر دیتے تھے بغیر کتب کی طرف مراجع کیے جس جگہ سے چاہتے پڑھا دیتے ، اور فقھاء اگر وہاں ہوتے تو اسکو یاد کرلیتے ، روایت میں کوئی مسلہ ہوتا تووہ(فقہاء) اسکی طرف رجوع کرتے اور اکے قول اور نقل پر اعتماد کرکے فیصلہ کرتے ، یہ کمسنی سے حدیث کی سماعت میں راغب ہو گئے تھے ، اور انہوں نے بہت سی احادیث کا سماع کیا ۔ اور انکی روایات میں تفرد واقع ہو گیا ایک وقت میں بہت سے محدثین کی جماعت سے روایت کرنے میں انکے علاوہ کوئی نہ تھا
اور ان سے کثیر لوگوں نے لکھا ، اور میں (سمعانی) نے ان سے لکھا ہے

آگے فرماتے ہیں :
كتب إلي الإجازة بجميع مسموعاته في سنة ثمان وخمس مائة، حصلها لي أبو عبد الله محمد بن عبد الواحد الدقاق الأصبهاني الحافظ، وروى لي عنه جماعة كثيرة بخراسان وما وراء النهر.
وكانت عنده كتب عالية، وما وقعت إلينا إلا من روايته، فذكرت بعضها هاهنا، فمن جملتها: كتاب الجامع الصحيح للإمام محمد بن إسماعيل البخاري ومنها كتاب التاريخ الكبير لبخارى
وكتاب المغازي لمحمد بن إسحاق بن يسار ومنها كتاب المسند الكبير لأبي سعيد الهيثم بن كليب الشاشي، وغير ذلك من الكتب يطول ذكرها.

انہوں نے مجھے اپنی تمام کتب کی اجازت دی (مناولہ کے زریعہ) ۵۰۸ھ میں ۔ اور مجھ سے وہ امام ابو عبداللہ صفہانی نے حاصل کی اور مجھ سے کثیر جماعت نے روایت کیا خراساں اور اسکے دیار میں ۔
ان کے پاس بڑی تعداد میں کتب تھیں اور ہمارے پاس سوائے انکے طریق (سند) سے کتب مہیا ہوئی ، اس لیے میں نے بعض کتب کا تذکرہ کیا ہے ، اور ان میں ایک کتاب امام ابو عبداللہ بخاری کی جامع صحیح البخاری بھی ہے ان میں امام بخاری کی کتاب تاریخ الکبیر ہے ، ان میں امام محمد بن اسحاق کی کتاب المغازی بھی ہے اور ان میں مسند کبیر ابی سعید الھیثم شاشی کی بھی ہے انکے علاوہ کثیر کتب کی ایک تعداد ہے جسکو یہاں بیان کیا جا سکتا ہے
[المنتخب من معجم شيوخ السمعاني، ص۴۸۶]

امام ذھبی علیہ رحمہ انکے بارے فرماتے ہیں :
شمس الأئمة:
الإمام العلامة، شيخ الحنفية، مفتي بخارى، شمس الأئمة, أبو الفضل بكر بن محمد بن علي بن الفضل الأنصاري الخزرجي، السلمي, الجابري، البخاري, الزرنجري. وزرنجر: من قرى بخارى.
كان يضرب به المثل في حفظ المذهب، قال لي الحافظ أبو العلاء الفرضي: كان الإمام على الإطلاق،
شمس ائمہ امام علامہ حنیفہ کےشیخ بخارہ کے مفتی ابو فضل بکر بن محمد زرنجری یہ حنفی مذہب (اسکے دلائل ) حفظ کرنے میں بے مثل تھے، اور مجھے امام ابو علاء فرضی نے کہا یہ علی اطلاق امامت کے درجے پر فائض تھے
[سیر اعلام النبلاء ، برقم:۴۶۶۳]

انہوں نے امام اعظم ابو حنیفہ ؓ کے مناقب میں کتاب لکھی جسکی سند درج ذیل ہے :
أخبرنا والِدي الشيخ الإمام أبو الفضل يوسف بن محمد بن أحمد الحنَفي سنة سبع وخمسين
وخمسمائة، قال: حدثنا الشيخ الإمام الستاذ الزاهد بن برهان الد ّ ين أبو الحسن علي بن محمد بن
الحسن البلخي بالمدرسة الصادرية بدمشق سنة ست َ وأربعين وخمسمائة، قال:حد ثنا القاضي الإمام
أبو الفضل بكر بن محمد بن علي َّ الزنجري، قال: اعلم أن َمنَاقب أبي حنيفة ُ تشتمل على فصول۔۔۔الخ
[مناقب ابی حنیفہ للزنجری ، ص۱]

اس کتاب کے سارے رجال اعلی ثقہ اور اپنےوقت کے جید حنفی ائمہ میں سے ہیں ۔۔۔۔

اس کتاب میں امام زرنجری کا امام ابن ابی حفص کی کتاب سے مروایات کو نقل کرنے کی تصریح کا ثبوت :

امام زرنجری حضرت عطاء بن ابی ربا ع سے امام ابو حنیفہ کی روایت کے تحت نقل کرتے ہیں:
فقد ذكر أبو عبدالله بن أبي حْفص في كتابه المؤلف في َمنِاقب أبي حنيفةّٰ وقرئ هذا الكتاب على الشيخ الفقيه الحافظ أبي محمد عبدالله بن منصور البخاري ر حَم الله سنة إحدى وخمسين َ /وأ ْر َبعمائة فقال أخبرنا أبو إسحاق إبراهيم بن أحمد السرخسي قال حدثنا الشيخ الإمام أبو بكر أحمد بن سعد قال أخبرنا أبو سهل محمد بن عبدالله بن سهل بن حفص العجلي قال أخبرنا أبو عبدالله محمد بن أبي حْفص العجلي قال۔۔۔الخ

امام زرنجری فرماتے ہیں اور تحقیق سےذکر کیا ہے امام ابو عبداللہ ابن ابی حٖفص نے اپنی کتاب میں جو انہوں نے امام ابو حنیفہ کے مناقب میں تصنیف کی ، اور میں نے اس کتاب کو اپنے شیخ الفقیہ ابو محمد عبداللہ بن منصور بخاری پر قرات کیا ہے ، ۴۴۱ھ میں وہ کہتے ہیں مجھے خبر دی امام ابو اسحاق ابراہیم سرخسی شمس ائمہ نے وہ کہتے ہیں مجھے خبر تھی شیخ امام ابو بکر احمد بن سعد نے وہ کہتے ہیں مجھے خبر دی امام ابو سھل محمد بن عبداللہ عجلی نے وہ کہتے ہیں مجھے خبر دی امام ابو عبداللہ ابن ابی حفص البخاری نے ۔۔۔
[مناقب ابی حنیفہ للزنجری،ص ۱۰۷]

چونکہ یہ کتاب امام زرنجری کے پاس تھی تو وہ ڈریکٹ اسی کتاب سے امام ابو عبداللہ بخاری سے روایت کرتے تھے
اسی طرح جب وہ امام عبداللہ بن مبارک کے ترجمہ بیان کیا تو لکھتے ہیں :
قال الشيخ أبو عبدالله بن أبي حفص : وبعض الطاعنين ّ والحاسدين يقول: إن ّٰ عبدالله بن المبارك ترك أقاويل أبي حنيفة وترك مسائله وترك الرواية عنه، فقال أبو عبد الله: سمعت
رجلا بمكة يذكر هذا الكلام، فأخبرت الحسن بن الربيع وكان من أصحاب عبدالله بن المبارك- فقلت هذا الكلام فقال: هولاء كذبوا على عبدالله، فإني سمعته قبل موته بثلاثة أيام يروي عن أبي حنيفة ويذكر مسائل أبي حنيفة، فمن أخبرك غير هذا فلا تصدقه فإنه كذاب

امام شیخ ابو عبداللہ ابن ابی حفص کہتے ہیں بعض متعصبین و حاسدین نے کہا کہ امام عبداللہ بن مبارک نے امام ابو حنیفہؓ کے اقوال کو ترک کر دیا اور ان (ابو حنیفہ) کے مسائل اور ان سے روایت کرنا ترک کردیا ۔ تو امام ابو عبداللہ ابن ابی حفص فرماتے ہیں میں نے ایک شخص کو ایسا کہتے مکہ میں سنا ،تو میں نے اسکی خبر امام حسن بن ربیع کو دی جو کہ امام عبداللہ بن مبارک کے اصحاب میں سے ایک تھے ۔ تو میں نے انکو یہ سارا کلام بیان کیا تو انہوں نے کہا یہ امام عبداللہ بن مبارک پر صریح جھوٹ ہے ۔ میں نے خودامام عبداللہ بن مبارک کی وفات کے تین دن پہلے ان سے سماع کیا ۔ انہوں نے امام ابو حنیفہ سے روایت کیا اور ان(ابو حنیفہ) کے بیان کردہ مسائل کا تذکرہ کیا ، جو اس احوال کے برعکس بیان کرتا ہے اسکی تصدیق نہ کرو وہ جھوٹا ہے
[مناقب للزرنجری ، ص ۱۳۱]

سند کے رجال کا تعارف!
امام ابو عبداللہ ابن ابی حفص
امام محمد بن أحمد بن حفص بن الزبرقان أبو عبد الله البخاري
کا تعارف!!!

امام ذھبی انکا تذکرہ تاریخ الاسلام میں کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

عالم أهل بخاري وشيخهم.
قلت: توفي في رمضان سنة أربع وستين

یہ بخارہ کے عالم تھے
میں کہتا ہوں کہ انکی وفات رمضان میں 264ھ میں ہوئی

وزاد أنه سمع ورحل مع أبي عبد الله البخاري، وكتب معه.
یہ اضافہ کیا کہ وہ امام بخاری کے ساتھ سماع کیا اور انکے ساتھ رہے اور انکے ساتھ کتابت کی

وروى عن: الحميدي، وأبي الوليد الطيالسي.
وأبوه فقيه بخارى، تفقه على محمد بن الحسن.
قلت: وسمع محمد هذا أيضا من عارم، وطبقته.

اس (ابو عبداللہ ) نے حمیدی ، ابو ولید طیالسی سے سماع کیا ہے
اور انکا والد(ابو حفص کبیر) بخارہ کے فقیہ تھے اور انہوں نے فقہ امام محمد سے اخذ کی ہے
میں (ذھبی) کہتا ہوں بلکہ اس محمد بن احمد ابو عبداللہ نے امام عارام(شیخ بخاری) اور انکے طبقہ کے رویان سے سماع کیا ہے

روى عنه: أبو عصمة أحمد بن محمد اليشكري، وعبدان بن يوسف، وعلي بن الحسن بن عبدة، وآخرون.
وتفقه عليه جماعة.
وقد تفقه على أبيه أبي حفص، وانتهت إليه رياسة الحنفية، ببخارى.

اور ان سے روایت کرنے والوں میں ابو عصمہ الیشکری، عبدان ، علی بن حسن بن عبدہ اور بعد والے ہیں
اور ان سے لوگوں کی جماعت نے فقہ کا علم لیا ہے
اور انہوں نے اپنے والد ابو حفص سے فقہ سیکھی، اور بخارہ میں حنیفیہ کے علم کی انتہاء ان پر تھی

تفقه عليه جماعة، منهم: عبد الله بن يعقوب بن محمد البخاري الحارثي الملقب بالأستاذ فيما قيل. فإن كان لقيه فهو من صغار تلامذته.
اور ان سے لوگوں کی جماعت نے فقہ اخذ کی ہے ۔ امام عبداللہ بن یعقوب بخاری حارثی جنکا لقب استاذ سے یاد کیا جاتا تھا یہ انکے آخری تلامذہ میں سے ایک تھے

قال السليماني: هو أبو عبد الله العجلي. له كتاب الأهواء والاختلاف.
امام سلیمانی کہتے ہیں ابو عبدعاللہ عجلی انکی ایک کتاب تھی الاھواء و اختلاف

قال وكان ثقة تقيا ورعا زاهدا، يكفر من قال بخلق القرآن ويثبت أحاديث الرؤية، ويحرم المسكر. أدرك أبا نعيم، ونحوه.
اور کہا یہ ثقہ تھا متقی تھا ، نیگ اور عبادت گزار تھا اور یہ انکی تکفیر کرتے جو قرآن کو مخلوق کہتے ، اور یہ اللہ کو دیکھنے کی مروایات کی تصحیح و تحسین کے قائل تھے ، اور یہ نشہ آور مشروب کی تحریم کے قائل تھے ، انہوں نے امام ابو نعیم فضل بن دکین کو دیکھا ہو تھا او ر انکے زمانے کے دیگر ائمہ کو بھی
[تاریخ الاسلام ، برقم: 376]

مزید سیر اعلام میں فرماتے ہیں :

مولى بني عجل، عالم ما وراء النهر، شيخ الحنفية، أبو عبد الله البخاري

وكان قد ارتحل، وسمع من: أبي الوليد الطيالسي، والحميدي، وأبي نعيم عارم، ويحيى بن يحيى، والتبوذكي، وعبد الله بن رجاء، وطبقتهم.
ورافق البخاري في الطلب مدة، وله كتاب (الأهواء والاختلاف) .
انہوں نے سفر کیا اور سما ع کیا ابی ولید طیالیس ، حمیدی ، ابو نعیم عارم (شیخ بخاری)، یحییٰ بن یحییٰ ، تبوذکی ، عبداللہ بن رجاء اور ان طبقہ کے شیوخ سے
اور یہ امام بخاری کے ساتھ کافی عرصہ رہے اور انکی کتاب بھی ہے بنام (الاھواء والاختلاف)

وكان ثقة إماما ورعا زاهدا ربانيا، صاحب سنة واتباع، لقي أبا نعيم وهو أكبر شيوخه
یہ ثقہ امام تھے عبادت گزار نیک تھے ، سنت کی اتباع کرنے والے اور صاحب سنت(حدیث) تھے ، انہوں اپنے امام ابو نعیم عارم سے بھی لقاء کیا تھا جو انکے سب سے بڑے شیوخ میں سے ہیں
[سیر اعلام النبلاء]
دوسرا راوی: امام حسن بن ربیع
امام ابن سعد انکا تذکرہ اصحاب ابن مبارک میں سے کرتے ہوئے لکھتے ہیں ؛
الحسن بن الربيع.ويكنى أبا علي وهو أخو مطير صاحب البواري. وكان الحسن من أصحاب عبد الله بن المبارك
حسن بن ربیع اسکی کنیت ابو علی تھی یہ مطیر کابھائی تھا جو البواری کے اصحاب میں سےتھا ارو یہ حسن بن ربیع یہ امام عبداللہ بن مبارک کےاصحاب میں سےتھا
[طبقاتابن سعد ، برقم:۲۷۸۴]

امام خطیب بغدادی کہتے ہیں :
وقد كان الْحَسَن بن الربيع ثقة صالحا متعبدا.
اور یہ احسن بن ربیع ثقہ صالح اور عبادت گزار تھا
اور امام عجلی سے نقل کرتے ہیں : كوفي ثقة
[تاریخ بغداد ، برقم:۳۷۷۷]

اور امام ذھبی کہتے ہیں :
الإِمَامُ، الحَافِظُ، الحُجَّةُ، العَابِدُ
یہ امام حافظ اور حجت درجہ کے ہیں اور عبادگزار تھے
[سیر اعلام النبلاء ، برقم:۱۱۲]
اس میں اس مذکورہ روایت کا بھی رد آجاتا ہے جو ابراہیم بن شماس سے روایت ہوتی ہے :
أخبرنا العتيقي، أخبرنا يوسف بن أحمد الصيدلاني، حدّثنا محمّد بن عمرو العقيلي، حدّثنا محمّد بن إبراهيم بن جناد، حدّثنا أبو بكر الأعين ، حدّثنا إبراهيم بن شماس قال: سمعت ابن المبارك يَقُولُ: اضربوا عَلَى حديث أَبِي حنيفة.

اسکا راوی بھی ابو بکر الاعین ہی ہے جہاں تک تمام اسناد کو جمع کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ جرح پہلے ابراہیم بن شماس سے روایت کرتا تھا پھر بالکل یہی جرح امام حسن بن ربیع سے روایت کرنے لگ گیا ۔ جیسا کہ دیگر راویان نے بھی یہ روایت ابراہیم بن شماس کے طریق سے بیان کررکھی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی طرح امام حسن بن ربیع سے متصل صحیح الاسناد دوسری روایت زرنجری کی کتاب سے نقل کرتے ہیں جس میں امام ابن ابی حفض امام حسن بن ربیع سے روایت کرتےہیں؛
قال الحسن بن الربيع: دخلنا على أبي حنيفة مَع عبدالله بن المبارك وعنده مساور الشاعر فذكرأبياتا في مدح أبي حنيفة وكان ذلك زيادة على قوله:
لقد زان البلاد ومن عليها إمام المسلمين أبو حنيفة
ولم يقس المور على هواه ُ ولكن قاسها بتقى وخيفة
بآثار أتته عن سراة من الماضين مسندة شريفة
فأوضح للخلائق مشكلات ُ نوازله كَّن ُ قدتر كت َو ِقيفة

امام حسن بن ربیع (تلمیذ ابن مبارک) کہتے ہیں ہم امام ابو حنیفہؓ و امام عبداللہ بن مبارکؒ کے پاس گئے اور انکے ہاں امام مساعر شاعر موجود تھے انہوں نے امام ابو حنیفہ کی مدح و تعریف پر کچھ اشعار کہے جو درج ذیل ہیں

لقد زان البلاد ومن عليها
انہوں نے علاقے اور اس میں رہنے والوں کو خوبصورت بنا دیا
إمام المسلمين أبو حنيفة
مسلمانوں کے امام ابو حنیفہ نے

ولم يقس المور على هواه
انہوں نے امور کو اپنی خواہشات پر قیاس نہ کیا
ُ ولكن قاسها بتقى وخيفة
بلکہ ملکہ معملات (احکام) کو تقویٰ کے ساتھ قیاس کیا

بآثار أتته عن سراة
انہوں نے بلکہ اثار سے قیاس کیا ہے جو ان تک جید ائمہ سے پہنچے تھے
من الماضين مسندة شريفة
جو گزرے ہوئے لوگوں سے عزت والے مسند کی حیثیت رکھتے تھے

فأوضح للخلائق مشكلات
انہوں نے مخلوق کے لیے ان مشکلات کو واضح ّ(آسان)کیا
ُ نوازله كَّن ُ قدتر كت َو ِقيفة
ایسی (مشکلات) جن پر لوگ اٹک (پھنس) گئے

ِ ثم إن أبا حنيفة أعطى هذا الشاعر ألف دْرَهم. فقال عبدالله بن المبارك جوابا لهذا الشاعر:

ففهمت مقالكم فأجبت عنها جوابا في مديح أبي حنيفة
لَانًّ أبا حنيفة كان برا ًّ تقيا عابدا لا مثل جيفة
روى آثاره فأجاب فيها كطيران النسور من المنيفة
فلم يك بالعراق له نظير ولا بالمشرقين ولا بالكوفة

تو امام ابو حنیفہ نے انکو ایک ہزار درھم بطور تحفہ دیا ۔ تو امام عبداللہ بن مبارک نے (اسی وقت) شاعر امام مساور کو (شاعری میں ) ہی جواب دیا
ففهمت مقالكم فأجبت عنها
میں نے آپکا موقف سمجھا اور اسکے جواب میں یہ کہا
جوابا في مديح أبي حنيفة
امام ابو حنیفہ کی مدح میں یوں جواب دیتاہوں

لَانًّ أبا حنيفة كان برا ًّ
یہ امام ابو حنیفہ تقویٰ والے ہیں
تقيا عابدا لا مثل جيفة
عبادت گزار تھے مردار (رات میں پڑے رہنے والوں )کی طرح نہیں ہیں

روى آثاره فأجاب فيها
انہوں نے اثار و حدیث کو روایت کیا اور اپنے مخالفین کو جواب دیتے ہیں
كطيران النسور من المنيفة
جس طرح بلند پہاڑوں سے باز اڑتے ہوں

فلم يك بالعراق له نظير
انکی نظیر نہ ہی عراق میں کوئی ہے
ولا بالمشرقين ولا بالكوفة
اور نہ ہی مشرق میں اور نہ ہی کوفہ میں
[مناقب الامام للزرنجری ، ص ۱۳۱ ،وسندہ صحیح]
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
لیکن امام خطیب نے جب اسکو امام عقیلی کی سند سے نقل کیا ہے تو اس میں سند میں تضاد واقع ہو گیا
جیسا کہ امام خطیب لکھتے ہیں :
أَخْبَرَنَا عُبَيْد الله بن عُمَر الواعظ، حدّثنا أبي، حدّثنا عبد الله بن سليمان ، حدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي أبي، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْر الأعين عن الحَسَن بن الربيع قَالَ: ضرب ابن المبارك عَلَى حديث أَبِي حنيفة قبل أن يموت بأيام يسيرة. كذا رواه لنا.
امام خطیب نے جب اس کو امام العقعیلی کہ سند سے نقل کیا تو بعینه وہی سند نقل کی جو عبد الله بن احمد نے السنة اور العلل میں نقل کر رکھی ھے۔
ملاحظه ھو:
أخبرنا العتيقي، قال: أخبرنا يوسف بن أحمد الصيدلاني، قال: حدثنا محمد بن عمرو العقيلي، قال: حدثنا محمد بن إبراهيم بن جناد، قال: حدثنا أبو بكر الأعين، قال: حدثنا إبراهيم بن شماس، قال: سعت ابن المبارك، يقول: اضربوا على حديث أبي حنيفة___
[تاریخ بغداد للخطیب]
۔
لیکن جب عبید الله، بن عمر الواعظ سے مذکورہ روایت کو نقل کیا ۔ تو اسکی سند میں ابوبکر الاعین اور عبد الله، بن أحمد بن حنبل کے درمیان عن ابیه کا اضافه ھوگیا۔
اور یہ بعد کے کسی راوی کی کارستانی ھے ۔ اور ممکن ھے یہ عبید الله بن عمر الواعظ کی طرف سے ھو۔ جو صدوق درجے کا راوی ھے۔
۔
جبکہ خود عبد الله بن احمد بن حنبل نے اصل کتاب میں اس روایت کو اس طرح اپنی کتاب میں نقل کیا ھے۔ بغیر والد کے واسطے کے۔
ملاحظه ھو:
٥١٩٤ - حدثنا أبو بكر الأعين عن الحسن بن الربيع قال ضرب بن المبارك على حديث أبي حنيفة قبل أن يموت بأيام يسيرة".
[العلل المعرفة الرجال لأحمد بن حنبل رواية أبنه عبد الله: جزء3/صفحة269]
لہذا راوی ثقة ھے (قال الخطیب ابوبکر الاعین ثقة) اور مدلس بھی نہیں۔ تو سماع قابل قبول ھے۔ جبکه دونوں معاصر بھی ہیں۔
اسکی تائید یہاں سے بھی ھوتی ھے کہ امام الحسن بن الربیع کا اپنے الشیخ ابن مبارك سے اخیر ایام میں روایت کرنا بھی ثابت ھے۔
ملاحظه ھو:
وقال عبد الله: وجدت في كتاب أبي بخط يده قال حسن بن الربيع: وسألت ابن المبارك -قبل أن يموت- فقال: أنا ابن ثلاث وستين، ومات سنة إحدى وثمانين".
۔
اس روایت میں عبد الله بن احمد اپنے والد کے واسطے سے حسن بن الربیع سے ، ابن مبارك کے اخیر ایام میں روایت کر رھے ہیں۔ یہ بھی قرینه ھے کہ حسن بن ربیع بھی اخیر ایام میں ابن مبارك کے ساتھ ہی تھے۔
۔
اس سند میں اضطراب کی وجه عبد بن احمد بن حنبل ھرگز نہیں۔ کیونکه عبد الله بن احمد بن حنبل ، ابو بکر الاعین سے براہ راست ہی روایت کرتے ہیں۔ ان کی کتب اس پر شاھد ہیں۔
مثال:
٢٨٤ - حدثني محمد بن أبي عتاب الأعين، ثنا محمد بن عبيد الطنافسي، عن سفيان الثوري، قال: «كان أبو حنيفة نبطيا استنبط الأمور برأيه".
[السنة لعبد الله: صفحة197]
.
٢٨٥ - حدثني محمد بن أبي عتاب الأعين، حدثني الفريابي، قال: سمعت سفيان يقول «ما سألت أبا حنيفة عن شيء، قط، ولقد سألني وما سألته»
[السنة لعبد الله: صفحة197]
.
- حدثني محمد بن أبي عتاب الأعين، حدثني أبو نعيم، قال: سمعت شريكا ⦗٢١٠⦘، يقول: «ما شبهت أصحاب أبي حنيفة إلا بمنزلة الدفافين لو أن رجلا كشف استه في المسجد ما بالى من رآه منهم»
[السنة لعبد الله: صفحة209]
.
اور مذکورہ روایت بھی عبد الله بن احمد نے العلل میں براہ راست ابوبکر الاعین سے بواسطه حسن بن ربیع لکھ رکھی ھے۔
٥١٩٤ - حدثنا أبو بكر الأعين عن الحسن بن الربيع قال ضرب بن المبارك على حديث أبي حنيفة قبل أن يموت بأيام يسيرة
[العلل المعرفة الرجال لأحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله: جزء3/صفحة269]
.
جب اصل کتاب میں تحدیث ثابت ھے۔ تو ھم اصل کتاب کے مصنف کو مطعون نہیں کرسکتے۔
جبکه عبد الله بن احمد بن حنبل ثقة حجة ہیں۔ اور ان کے مخالف عبید الله بن عمر الواعظ صدوق درجے کے راوی ہیں۔ لہذا خطاء کا احتمال انہی کی طرف سے ہے۔
.
امام خطیب نے کہا:
وأظنه عن عَبْد الله بن أَحْمَد عن أَبِي بَكْر الأعين نفسه، والله اعلم
یعنی: میرے خیال میں یہ روایت عبد الله بن أحمد بن حنبل عن ابوبکر الاعین کے طریق سے ھے۔ (یعنی اس میں عن ابیه کا اضافه غلط ھے، جو کسی دوسرے راوی کی کارستانی ھے)
۔
جیسا کہ سند میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کہ یہاں امام عبداللہ مذکورہ روایت اپنے والد کے طریق سے ابو بکر الاعین سے روایت کر رہے ہیں یعنی امام عبداللہ سے اس سند میں اضطراب واقع ہوگیا ہے کبھی وہ ڈریکٹ ابو بکر سے روایت کرتے ہیں کبھی اپنے والد کے طریق سے ابو بکر سے روایت کرتے ہیں
لہذا اسد المداری کا عبد الله بن احمد بن حنبل کو اسکا ذمه دار قرار دینا نری جہالت ھے.
.
بحرحال یہ کوئی تنہا روایت نہیں۔ اس روایت کی متابعت بھی موجود ہے۔
ملاحظه ھو۔
(1) امام عبد الله بن احمد نے کہا:
٣٥١ - حدثني محمد بن أبي عتاب الأعين، نا إبراهيم بن شماس، قال: صحبت ابن المبارك في السفينة، فقال: «اضربوا على حديث أبي حنيفة قال قبل أن يموت ابن المبارك ببضعة عشر يوما»
[السنة لعبد الله بن أحمد: صفحة214]- إسناده صحيح
.
ابوبکر الاعین کی متابعت (أبو الفضل الخراسانی) حاتم بن اللیث (ثقة) نے کر رکھی ھے۔ اور حاتم بن اللیث نے اس مسئلے میں اکیلے ہی مفسر روایت بیان کرکے ابوبکر الاعین کی تمام مجمل روایات کا احاطه کر لیا ھے۔
ملاحظه ھو:
(2) امام عبد الله بن احمد بن حنبل نے کہا:
٣٤٨ - حدثني أبو الفضل الخراساني، ثنا إبراهيم بن شماس السمرقندي، ثنا عبد الله بن المبارك، بالثغر عن أبي حنيفة، قال: فقام إليه رجل يكنى أبا خداش، فقال: يا أبا عبد الرحمن لا ترو لنا عن أبي حنيفة، فإنه كان مرجئا فلم ينكر ذلك عليه ابن المبارك، وكان بعد إذا جاء الحديث عن أبي حنيفة ورأيه ضرب عليه ابن المبارك من كتبه وترك الرواية عنه، وذلك آخر ما قرأ على الناس بالثغر، ثم انصرف ومات، قال: وكنت في السفينة معه لما انصرف من الثغر، وكان يحدثنا فمر على شيء من حديث أبي حنيفة، فقال لنا: اضربوا على حديث أبي حنيفة فإني قد خرجت على حديثه ورأيه، قال: ومات ابن المبارك في منصرفه من ذلك الثغر، قال: وقال رجل لابن المبارك ونحن عنده: إن أبا حنيفة كان مرجئا يرى السيف فلم ينكر ذلك عليه ابن المبارك".
۔
ترجمه:
ابراھیم بن شماس رحمه الله کہتے ہیں۔ عبد الله بن مبارك نے ثغر کے مقام پر ابوحنیفه سے روایت بیان کی۔ تو ایک شخص کھڑے ہوئے جنہیں ابو خداش کہا جاتا تھا۔ انہوں نے کہا : اے ابو عبد الرحمن (یعنی ابن مبارک) آپ ھم سے ابو حنیفه کے واسطے سے روایت بیان نہ کریں۔ وہ تو مرجئ تھے۔ تو ابن مبارك نے اس کا انکار نہیں کیا۔ پھر اسکے بعد جب بھی ابن مبارك کے سامنے ابوحنیفه کی حدیث یا رائے آتی، تو ابن مبارك اپنی کتابوں میں اُس پر نشان لگا دیتے۔ اور ابوحنیفه سے روایت ترک کردی۔ اور یہ آخری بار ابن مبارك نے ثغر کے مقام پر لوگوں پر قراءت کیا۔ پھر آپ چلے گئے، اور آپ کا انتقال ہوگیا
[السنة لعبد الله بن أحمد بن حنبل: صفحة348] - إسناده صحيح
ابو خداش یہ مخلد بن یزید الحراني المتوفیٰ 193ھ (ثقة) ہیں۔
.
ابوبکر الاعین کی تیسری متابعت:
(3) امام ابن حبان نے کہا:
سمعت عمرو بن محمد البجيري يقول سمعت محمد بن سهل بن عسكر يقول سمعت إبراهيم بن شماس يقول رأيت بن المبارك يقرأ كتابا على الناس في الثغر وكلما مر على ذكر أبي حنيفة قال اضربوا عليه وهو آخر كتب قرأ على الناس ثم مات".
[الثقات لابن حبان: جزء8/صفحة69]- إسناده صحيح۔
۔
یہ تمام اسناد چوبیس کریٹ کے سونے کی طرح صاف وشفاف ہیں۔ المداری کا ایک روایت کو مضطرب کہہ کر ان سے جان چھڑانا ایسا ھی ھے جیسا دیوانہ شخص اپنا ھوش وحواس کھو بیٹھتا ھے۔۔۔
۔
پھر اسد المداری نے زرنجری کی کتاب کا حواله دیا۔
اول تو زرنجری کی توثیق کہیں بھی منقعل نہیں۔ عالم فاضل ہونا توثیق نہیں۔ اور بلفرض توثیق مان بھی لی جائے۔ تو یہ زرنجری نام کا بندہ حنفیه کا الشیخ تھا تمام مسلمانوں کا الشیخ نہیں۔
امام الذھبي نے کہا یہ اپنے مذھب میں متشدد تھا یہاں تک کے اسکو ابوحنیفه اصغر کہا جانے لگا۔
ملاحظه ھو:
قال الذهبي:
ولقبه الناس لشدة علمه بالمذهب الحنفي بـأبو حنيفة الأصغر نسبة إلى مؤسس المذهب الإمام أبو حنيفة النعمان_____
.
تو ظاھر ھے یہ حنفیوں کے گھر کا بندہ ہے۔ ابو العلاء الفرضی جس نے اس زرنجری کو امام کہا ھے۔ وہ بھی حنفی تھا۔ عبد القاد حنفی نے اِن دونوں کو طبقات الحنفیه میں درج کیا ھے۔

شمس ائمہ امام علامہ حنیفہ کےشیخ بخارہ کے مفتی ابو فضل بکر بن محمد زرنجری یہ حنفی مذہب (اسکے دلائل ) حفظ کرنے میں بے مثل تھے، اور مجھے امام ابو علاء فرضی نے کہا یہ علی اطلاق امامت کے درجے پر فائض تھے
[سیر اعلام النبلاء ، برقم:۴۶۶۳]

انہوں نے امام اعظم ابو حنیفہ ؓ کے مناقب میں کتاب لکھی جسکی سند درج ذیل ہے :
کس محدث نے کہا کہ زرنجری نے ابوحنیفه کے مناقب میں کتاب لکھی؟؟؟؟؟؟؟ جبکه امام السمعاني اور الذھبی نے نہایت تفصیل سے اسکا ترجمه لکھا ھے، پھر بھی اس کتاب کا نام کہیں موجود نہیں؟؟؟؟؟
۔
انہوں نے امام اعظم ابو حنیفہ ؓ کے مناقب میں کتاب لکھی جسکی سند درج ذیل ہے :
أخبرنا والِدي الشيخ الإمام أبو الفضل يوسف بن محمد بن أحمد الحنَفي سنة سبع وخمسين
وخمسمائة، قال: حدثنا الشيخ الإمام الستاذ الزاهد بن برهان الد ّ ين أبو الحسن علي بن محمد بن
الحسن البلخي بالمدرسة الصادرية بدمشق سنة ست َ وأربعين وخمسمائة، قال:حد ثنا القاضي الإمام
أبو الفضل بكر بن محمد بن علي َّ الزنجري، قال: اعلم أن َمنَاقب أبي حنيفة ُ تشتمل على فصول۔۔۔الخ
[مناقب ابی حنیفہ للزنجری ، ص۱]

اس کتاب کے سارے رجال اعلی ثقہ اور اپنےوقت کے جید حنفی ائمہ میں سے ہیں
یہ رجال اعلیٰ ثقة ہیں۔ کس کتاب میں کس محدث نے بیان کیا؟؟؟؟؟
زرنجری کے والد کی توثیق کس نے کی؟؟؟؟؟؟؟
زرنجری کی کتاب کے ان سب رواہ کی محدثین سے توثیق مطلوب ھے۔
اور یہ سب کے سب حنفی ہیں۔یہ بلکل اپنے منه سے اپنی تعریف بیان کرنے والی بات ہے۔
اس کتاب کے سارے رجال اعلی ثقہ اور اپنےوقت کے جید حنفی ائمہ میں سے ہیں ۔۔۔۔

اس کتاب میں امام زرنجری کا امام ابن ابی حفص کی کتاب سے مروایات کو نقل کرنے کی تصریح کا ثبوت :
امام ابن ابي حفص نے ابوحنیفه کے مناقب پر کوئی کتاب لکھی تھی؟ اس کی دلیل درکار ھے متقدمین محدثین سے
امام زرنجری حضرت عطاء بن ابی ربا ع سے امام ابو حنیفہ کی روایت کے تحت نقل کرتے ہیں:
فقد ذكر أبو عبدالله بن أبي حْفص في كتابه المؤلف في َمنِاقب أبي حنيفةّٰ وقرئ هذا الكتاب على الشيخ الفقيه الحافظ أبي محمد عبدالله بن منصور البخاري ر حَم الله سنة إحدى وخمسين َ /وأ ْر َبعمائة فقال أخبرنا أبو إسحاق إبراهيم بن أحمد السرخسي قال حدثنا الشيخ الإمام أبو بكر أحمد بن سعد قال أخبرنا أبو سهل محمد بن عبدالله بن سهل بن حفص العجلي قال أخبرنا أبو عبدالله محمد بن أبي حْفص العجلي قال۔۔۔الخ

امام زرنجری فرماتے ہیں اور تحقیق سےذکر کیا ہے امام ابو عبداللہ ابن ابی حٖفص نے اپنی کتاب میں جو انہوں نے امام ابو حنیفہ کے مناقب میں تصنیف کی ، اور میں نے اس کتاب کو اپنے شیخ الفقیہ ابو محمد عبداللہ بن منصور بخاری پر قرات کیا ہے ، ۴۴۱ھ میں وہ کہتے ہیں مجھے خبر دی امام ابو اسحاق ابراہیم سرخسی شمس ائمہ نے وہ کہتے ہیں مجھے خبر تھی شیخ امام ابو بکر احمد بن سعد نے وہ کہتے ہیں مجھے خبر دی امام ابو سھل محمد بن عبداللہ عجلی نے وہ کہتے ہیں مجھے خبر دی امام ابو عبداللہ ابن ابی حفص البخاری نے ۔۔۔
[مناقب ابی حنیفہ للزنجری،ص ۱۰۷]
۔
(1) الحافظ أبي محمد عبدالله بن منصور البخاري۔ نامعلوم توثیق۔
(2) أبو إسحاق إبراهيم بن أحمد السرخسي- نامعلوم توثیق۔
(3) الشيخ الإمام أبو بكر أحمد بن سعد (مجھول)
(4) أبو سهل محمد بن عبدالله بن سهل بن حفص العجلي (مجھول)
۔
یعنی ابن ابی حفص کی یہ کتاب بھی ابن ابی حفص تک باسند صحیح ثابت نہیں۔ لہذا اسد المداری کا ثقة حجة الحافظ متقن ، متقدمین محدثین کے خلاف اپنے گھر کے مجھولین رواہ سے مجھول کتاب کے زریعے اُن کا رد کرنا ، لعنت کو اپنے لئے واجب کرنا ھے۔
اور مزے کی بات نہ تو زرنجری کی کتاب عند المحدثین مقبول ھے۔ نہ ہی ابن ابی حفص کی کتاب مقبول ھے۔ بلکه محدثین نے تو ان کتابوں کا زکر تک نہیں کیا
حالانکه ابوحنیفه کے مناقب میں کئی ائمه نے کتابیں لکھی ہیں۔ لیکن کسی نے بھی ابن ابی حفص کی کتاب کا زکر نہیں کیا۔ یہ بھی واضح قرینه ہے کہ یہ بعد کے کسی حنفی کی کارستانی ھے۔
چونکہ یہ کتاب امام زرنجری کے پاس تھی تو وہ ڈریکٹ اسی کتاب سے امام ابو عبداللہ بخاری سے روایت کرتے تھے
اسی طرح جب وہ امام عبداللہ بن مبارک کے ترجمہ بیان کیا تو لکھتے ہیں :
قال الشيخ أبو عبدالله بن أبي حفص : وبعض الطاعنين ّ والحاسدين يقول: إن ّٰ عبدالله بن المبارك ترك أقاويل أبي حنيفة وترك مسائله وترك الرواية عنه، فقال أبو عبد الله: سمعت
رجلا بمكة يذكر هذا الكلام، فأخبرت الحسن بن الربيع وكان من أصحاب عبدالله بن المبارك- فقلت هذا الكلام فقال: هولاء كذبوا على عبدالله، فإني سمعته قبل موته بثلاثة أيام يروي عن أبي حنيفة ويذكر مسائل أبي حنيفة، فمن أخبرك غير هذا فلا تصدقه فإنه كذاب

امام شیخ ابو عبداللہ ابن ابی حفص کہتے ہیں بعض متعصبین و حاسدین نے کہا کہ امام عبداللہ بن مبارک نے امام ابو حنیفہؓ کے اقوال کو ترک کر دیا اور ان (ابو حنیفہ) کے مسائل اور ان سے روایت کرنا ترک کردیا ۔ تو امام ابو عبداللہ ابن ابی حفص فرماتے ہیں میں نے ایک شخص کو ایسا کہتے مکہ میں سنا ،تو میں نے اسکی خبر امام حسن بن ربیع کو دی جو کہ امام عبداللہ بن مبارک کے اصحاب میں سے ایک تھے ۔ تو میں نے انکو یہ سارا کلام بیان کیا تو انہوں نے کہا یہ امام عبداللہ بن مبارک پر صریح جھوٹ ہے ۔ میں نے خودامام عبداللہ بن مبارک کی وفات کے تین دن پہلے ان سے سماع کیا ۔ انہوں نے امام ابو حنیفہ سے روایت کیا اور ان(ابو حنیفہ) کے بیان کردہ مسائل کا تذکرہ کیا ، جو اس احوال کے برعکس بیان کرتا ہے اسکی تصدیق نہ کرو وہ جھوٹا ہے
[مناقب للزرنجری ، ص ۱۳۱]
عرض ھے کہ سب سے پہلے تو ابن ابی حفص سے یہ کتاب ثابت کرے کوئی حنفی۔ یعنی یہ کتاب جس کا دعویٰ خود زرنجری سے بھی ثابت نہیں کہ زرنجری نے کہا ہو میرے پاس ابن ابی حفص کی کتاب تھی۔ کیونکه زرنجری کی اپنی کتاب ھی زرنجری سے ثابت نہیں۔
یعنی لطیفه در لطیفه______
پھر بھی اگر کوئی متعصب مبغض ھٹ دھرم ضدی حنفی اپنی اس بات قائم رہے۔ تو اُس کے لئے عرض ھے کہ
زرنجری کی پیش کردہ روایت مجھولین سے بھری پڑی ہے۔ اور اس کا متن ثقة ثبت ائمه کے بیان کے سراسر خلاف ہے۔ لہذا زرنجری والی روایت اصول محدثین کے تحت منکر ہے۔
جبکه زرنجری سے اوثق ثبت، کم از کم تین سے چار ائمه نے زرنجری کے مخالف بیان کیا ہے۔ جیساکہ میں اوپر ثابت کرچکا ہوں۔
بلفرض محال۔ جیساکہ کہ ممکن بھی نہیں۔ لیکن پھر بھی ھم زرنجری والی روایت کو ھم سنداً صحیح مان بھی لیں۔ تب بھی زرنجری کی روایت کا متن منکر کہلائے گا۔
کیونکه زرنجری سے اوثق ثبت حجة، امام عبد الله بن احمد نے حسن بن ربیع ہی کے طریق سے اس کے بلکل مخالف بیان کیا ہے۔
تو اسد المداری پر لازم ہے کہ۔ امام عبد الله بن احمد کے متن کو منکر قرار دینے کے لئے کم از کم اسُی درجے کے اوثق رواہ سے روایت پیش کرے۔
۔
سب سے اہم بات۔ حسن بن ربیع اس کو بیان کرنے میں تنہاء بھی نہیں ہیں۔ حسن بن ربیع کی متابعت ابراھیم بن شماس، اور محمد بن سھل بن عسکر نے کر رکھی ھے۔
اور ابو بکر الاعین کی متابعت ابو الفضل الخراسانی حاتم بن اللیث نے کر رکھی ھے۔
لہذا جب تین اوثق راوی ایک واقعے کے وقوع پذیر ہونے کی خبر دینے پر متفق ہوں۔ اور ایک مجھول سند سے اُس کے خلافِ واقعہ بیان کیا جائے۔ تو ثقة جماعت کو رد نہیں کرتے۔ بلکه اُس مجھول رواہ کی جماعت کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں۔
۔
اس میں اس مذکورہ روایت کا بھی رد آجاتا ہے جو ابراہیم بن شماس سے روایت ہوتی
اس میں کسی ایک روایت کا بھی رد موجود نہیں۔ ھاں البته محض حنفی طفل تڑنگیاں ضرور ہیں اس میں۔
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
(اسد الطحاوی کی تحریر)
ہم کو معلوم تھا کہ موصوف کے رد میں جب تحریر لکھیں گے تو یہ محدث فورم کی ساری کاپی پیسٹ جمع کرکے آئے گا اس لیے ہم نے بھی سابقہ تحریر میں تمام انکے پیش کردہ دلائل کا رد نہیں کیا تھا کہ تحریر زیادہ طویل نہ ہو۔

ابن مبارک سے منسوب ہم نے ایک روایت میں ایک مجہول العین راوی کی علت بیان کی تھی
جسکے جواب میں موصوف لکھتا ہے :

اس جاھل کو اتنا نہیں معلوم کہ امام خطیب نے اسکو دو سندوں سے لکھا ھے۔
أخبرني محمد بن علي المقرئ، قال: أخبرنا محمد بن عبد الله النيسابوري، قال: سمعت أبا جعفر محمد بن صالح بن هانئ، يقول: حدثنا مسدد بن قطن، قال: حدثنا محمد بن أبي عتاب الأعين، قال: حدثنا علي بن جرير الأبيوردي قال: قدمت على ابن المبارك_____

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب (اسد الطحاوی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس روایت کو امام خطیب نے اپنے شیخ محمد بن علی الواسطی المقری سے بیان کیا ہے

اور امام خطیب بغدادی کے شیخ پر خود امام خطیب کی ہی جرح ہے اور دیگر کی بھی

جیسا کہ امام ذھبی سیر اعلام میں امام خطیب سمیت دیگر ناقدین کی طرف سے جرح نقل کرنے سے پہلے خود بھی اسکو ضعیف قرار دیتے ہوئے نقل کرتے ہیں :

محمد بن علي القاضي أبو العلاء الواسطي المقرىء.
ضعيف.
قرأ بالروايات على عدة أئمة منهم: ابن حبش بالدينور.
وولي قضاء الحريم وصنف وجمع وحدث عن القطيعي وطبقته.
روى عنه أبو الفضل بن خيرون وأبو القاسم بن بيان وخلق.

یہ ضعیف ہے
اس نے متعدد ائمہ کے سامنے روایات پڑھی ہیں جن میں دینوری ، ابن حبش وغیرہ ہیں
اس نے تصنیف بھی کی ہیں روایات کو جمع بھی کیا ہے
اس سے بیان کرنے والے ابو فضل و ابو قاسم وغیرہم ہیں

اسکے بعد امام ذھبی خطیب نے نقل کرتے ہیں :

قال الخطيب: رأيت له أصولا مضطربة وأشياء سماعه فيها مفسود إما مصلح بالقلم وإما مكشوط.
روى حديثا مسلسلا بأخذ اليد رواته أئمة. قال الخطيب: حدثنا أبو العلاء حَدَّثَنا الحافظ ابن السقاء وهو آخذ بيدي حدثنا أبو يَعلَى الموصلي وهو آخذ بيدي حَدَّثَنا أبو الربيع الزهراني وهو آخذ بيدي حَدَّثَنا مالك وهو آخذ بيدي حدثني نافع وهو آخذ بيدي حدثني ابن عمر - وفي النسخة ابن عباس مضبب - وهو آخذ بيدي قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو آخذ بيدي: من أخذ بيد مكروب أخذ الله بيده.
قال الخطيب: فاستنكرته وقلت له: أراه باطلا.
قال المصنف: وساق له الخطيب حديثا آخر اتهم في إسناده.
وقال الخطيب: أما حديث أخذ اليد فاتهم بوضعه قال: فأنكرت عليه فامتنع بعد من روايته ورجع عنه. وذكر الخطيب أشياء توجب وهنه.
مات سنة إحدى وثلاثين وأربع مِئَة عن اثنتين وثمانين سنة.

امام خطیب کہتے ہیں :
میں نے اس کے حوالے سے مضطرب اصول دیکھے ہیں اور کچھ ایسی چیزیں دیکھی ہیں جن کے سماع میں فساد پایا جاتا ہے یا تو قلم سے اصلاح کی صورت میں ہے یا پھر کوئی اور ڈھکی چپی چیز کو عیاں کرنا ہے
اس نے حدیث مسلسل جو ہاتھ پکڑ کر لکھوائی جاتی ہے اسکو روایت کیا ہے جس کے رواتہ ائمہ (ثقات) ہیں
خطیب کہتے ہیں اس راوی (المقری) نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی سند کے ساتھ یہ روایت بیان کی ہے عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ جو شخص پریشان حال شخص کی دستگیری کرتا ہے اللہ اسکی تدستگیری کرتا ہے

خطیب کہتے ہیں میں اس کو منکر قرار دیتا ہوں ور میرے خیال میں یہ روایت جھوٹی ہے
اور خود مصنف خطیب نے اسکی سند بھی نقل کی ہےاور سند پر تہمت عائد کی گئی ہے

جہاں تک ہاتھ پکڑنے والی روایت کا تعلق ہے تو اس اسکو گھڑنے کا الزام ہے اور میں انے اسے منکر قرار دیا ہے
میں بعد میں اس شیخ (محمد بن علی مقری ) سے روایت کرنے سے رک گیا اور رجوع کر لیا (اس سے نقل کرنے سے )

اسکے بعد امام ذھبی کہتے ہیں
خطیب نے اسکے حوالے سے ایسی باتیں نقل کی ہے جس سے یہ بات لازم ہے کہ یہ راوی ضعیف ہے
[میزان الاعتدال برقم : 7199]

اس روایت کو بیان کرنے والا جو خطیب کا شیخ المقری ہے امام خطیب خود اس اپنے شیخ سے روایت کرنے سے توبہ اور رجوع کرگئے تھے
اور یہ وابی میں مقری سے امام ابن مبارک کا امام ابو حنیفہ سے روایت کرنے پر رجوع ثابت کرنے پر تلا ہوا تھا !!
معلو ہوا سکی دونوں اسناد ہی ضعیف ہیں اور یہ ثقات سے مروی صحیح اخبار کے خلاف ہیں اور ضعیف و منکر ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موصوف کی پیش کردہ اگلی دلیل:
یہ حنفی گھر کی کہانی حنفیوں کو سناؤ !!
عند المحدثین نہ تو یہ کتاب ثابت ھے۔ اور اس کتاب کو روایت کرنے والے حنفی پھٹیچروں کی بھی کوئی توثیق موجود نہیں
۔
اور جس زرنجری سے تم نے ابن مبارک والی کہانی نقل کی ھے۔ اول تو کتاب ثابت نہیں۔ پھر اس روایت کی سند بھی ثابت نہیں۔
اوپر سے یہ ابن مبارک سے ثابت شدہ صحیح روایت کے بھی خلاف ھے۔
ملاحظه ھو
حدثني محمد بن أبي عتاب الاعين نا إبراهيم بن شماس قال صحبت ابن المبارك في السفينة فقال اضربوا على حديث أبي حنيفة قال قبل أن يموت ابن المبارك ببضعة عشر يوما۔
ابراہیم بن شماس کہتا ہے کہ امام ابن مبارک نے امام ابو حنیفہ کی احادیث کٹوا دی تھیں اپنی موت سے قبل

حدثني أبو الحسن بن العطار محمد بن محمد سمعت أحمد بن شبويه يقول أنبأنا أبو صالح سليمان بن صالح قال قيل لابن المبارك تروي عن أبي حنيفة قال ابتليت به

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب (اسد الطحاوی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ تو بچے نے ابھی سے رونا شروع کر دیا اور ہماری بیان کردہ تصریحات کو حنفیوں کی کہانی کہنا شروع کر دیا بغیر کسی دلیل کے!
ہم نے سابقہ تحریر میں امام زرنجری کی توثیق پیش کی تھی ۔
اور پھر انکا امام ابو عبداللہ بن ابی حفص الصغیر البخاری کی کتاب سے امام ابن مبارک کے شاگرد سے با سندصحیح روایت پیش کی تھی ۔
اب یا تو مصنف امام زرنجری کو یہ کذاب ثابت کرے یا انہوں نے امام ابن ابی حفص بخاری کی سند صحیح کو جو نقل کیا یا تو انکو کذاب ثابت کرے تو پھر اسکی بات میں وزن ہوگا
وگرنہ ہم نے ان حنفی محدثین کی توثیق متفقہ محدثین سے پیش کی تھی نہ کہ اپنے حنفی کتب سے!!

اچھا یہ رام کہانی سناتے ہوئے کہ جی کتاب کی سند ثابت نہیں فلاں ڈھینگ اور خود ہماری دلیل کے رد میں کیا لایا؟
کتاب سنہ کی روایت
یہ کتاب اس کے منہج کے مطابق بھی ثابت نہیں ہے کیونکہ اس کتاب کی سند میں دو مجہولین رواتہ بیٹھے ہیں اور پھر اس کتاب کا بنیادی راوی حلولی ہے اور حلولیوں سے یہ عقیدے کی کتاب لی بیٹھے ہیں

اور پھر اس کتاب السنہ کے محقق نے مقدمہ میں واضح کیا ہے کہ اس کے ۶ نسخاجات ہیں جن میں کسی بھی ایک نسخہ میں امام ابو حنیفہ پر جروحات کا باب نہیں ہے سوائے ایک ہندی نسخہ کے۔ یعنی کتاب ا لسنہ میں ''ذم ابو حنیفہ'' کا باب ہندوستان میں کسی خارجی غیر مقلد شیطان کے چیلےنے گھڑا اور پھر اسکو کتاب السنہ میں ڈال دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلی دلیل لکھتے ہوئے کہتا ہے :

ابن مبارک تو ابوحنیفه کے پیچھے پڑھی نمازوں کے بارے میں بھی متردد تھے۔ اور اخیر میں ابوحنیفه سے روایت کرنا چھوڑ دیا تھا!! جیساکہ میری پیش کردہ تمام روایات میں یہی باتیں ہیں۔
جو صحیح سند سے ثابت ہیں۔
ملاحظه ھو۔
أخبرني الحسن بن أبي طالب أخبرني أحمد بن محمد بن يوسف حدثنا محمد بن جعفر المطيري حدثنا عيسى بن عبد الله الطيالسي حدثنا الحميدي قال: سمعت ابن المبارك يقول:
صليت وراء أبي حنيفة صلاة وفي نفسي منها شيء، قال: وسمعت ابن المبارك يقول: كتبت عن أبي حنيفة أربعمائة حديث إذا رجعت إلى العراق إن شاء الله محوتها____

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب (اسد الطحاوی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام ابن مبارک سے منسوب اس قول کی سند معلل اور ضعیف ہے !

جیسا کہ اس روایت کا راوی :
أحمد بن محمد بن يوسف بن محمد بن دوست اس پر حفظ کے اعتبار سے عمومی جرح بھی ہے اور امام مطیری سے روایت کرنے پر بھی جرح خاص ہے اور مذکورہ روایت بھی اسکی امام مطیری سے مروی ہے جو کہ اصول حدیث کے مطابق علت قادعہ پر محمول ہے جسکے دلائل درج ذیل ہیں :
امام ذھبی امام خطیب سے ان پر کلام نقل کرتے ہیں :
قال الخطيب: سمعت منه جزءا وكان مكثرا عارفا حافظا، مكث مدة يملى في جامع المنصور بعد وفاة المخلص، ثم انقطع، ولزم بيته، ولد في صفر سنة 333.
قال الخطيب: سمعت الحسين بن محمد بن طاهر الدقاق يقول: لما مات ابن حبابة أملى ابن دوست في مكانه في جامع المنصور، فمكث سنة يملى من حفظه، ثم تكلم فيه ابن أبي الفوارس في روايته عن المطيري ، وطعن عليه.

امام خطیب کہتے ہیں میں نے اس سے ایک جز سماع کیا ہے یہ کثرت سے روایت حدیث مشغول رہتا تھا ۔ اور حافظ تھا ایک طویل عرصے تک اس سے جامع منصور میں مخلص کی وفات کے بعد احادیث املاء کروائی ہیں ۔ پھر اسکے بعد اس نے یہ سلسلہ ترک کر دیا ۔
اسکی پیدائیش ۳۳۳ھ میں ہوئی
اور امام خطیب یہ بھی روایت کرتے ہیں کہ میں نے حسین بن محمد کو یہ کہتے سنا جب ابن حبانہ کا انتقال ہوا تو جماع منصور میں ابن دوست (یہی مذکورہ راوی) ایک سال تک اپنے حافظے کی بنیاد پر املاء کرواتا رہا یہاں تک کہ امام ابن ابو الفوارس نے اس پر اسکی مطیری کے حوالے سے مروی روایات پر کلام کیا ہے (یہ جرح خاص ہے)

وسمعت الأزهري يقول: ابن دوست ضعيف، رأيت كتبه كلها طرية، وكان يذكر أن أصوله غرقت فاستدرك نسخها. وسألت البرقاني عن ابن دوست فقال: كان يسرد الحديث من حفظه، وتكلموا فيه.
اور امام ازھری کہتے ہیں یہ راوی ابن دوست ضعیف ہے ۔ میں نے اسکی کتب کو دیکھا ہے وہ سب نا قابل اعتبار ہیں ۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اسکی تمام تحریرات ڈوب گئی تھیں تو اس نے نسخوں کا استدراک کیا تھا۔

امام برقانی کہتے ہیں کہ ابن دوست کے بارے میں جب دریافت کیا گیا تو وہ اپنے حافظے کی بنیاد پر احادیث بیان کر دیتے اور علماء نے ان پر کلام (حافظے کے اعتبار) سے کیا ہے ۔

وقيل: إنه كان يكتب الأجزاء / ويتربها ليظن أنها عتق
نیز اسکے بارے یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ احادیث کے نسخاجات اجزاء کو مٹی میں لوٹ پوٹ کر دیتا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ پرانے اجزاء ہیں ۔

نیز کہتے ہیں :
وكان يذاكر بحضرة الدارقطني، ويتكلم في علم الحديث، فتلكم فيه الدارقطني بذلك السبب.
یہ امام دارقطنی کی موجودگی میں علوم حدیث (یعنی رجال کے تعلق) سے کلام کرتا تھا اور اس سبب امام دارقطنی نے بھی اس پر کلام کیا ہے (اسکے حافظہ کے حوالے سے )
[میزان الاعتدال برقم:۶۰۸]

تو معلوم ہوا کہ ایک تو امام مطیری سے غلط روایات بیان کرتا تھا پھر اسکے حافظہ بھی ضعیف تھا ۔ اور اسکی کتب ضائع ہو گئی تو حافظے سے بیان کرنے میں غلطی کرتا اور یہ اجہل منہ اٹھا کر ''سند صحیح'' ایسے لکھ رہا ہے جیسے پلاسٹ کا شاگرد خاص ہو امام احمد بن حنبل کا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر اگلی روایت لاتا ہے :

پھر ابن مبارک سے ابوحنیفه سے روایت کرنے کے بارے میں جب پوچھا گیا تو ابن مبارک نے کہا
دفعہ کرو اسے!!
حدثني أبو الحسن بن العطار محمد بن محمد سمعت أحمد بن شبويه يقول أنبأنا أبو صالح سليمان بن صالح قال قيل لابن المبارك تروي عن أبي حنيفة قال ابتليت به

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب (اسد الطحاوی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر کتاب السنہ لے آیا ہاہاہاہا!!

اب اس کتاب کے مرکزی راوی کا حال دیکھیں:

ایک تو غیر مقلدین کے نزدیک کتاب کے ثابت ہونے کے لیے صحیح سند ہونا شرط ہے جبکہ اس کتاب کے دو رجال مجہول ہیں
دوسری علت:
اس کتاب کا ایک راوی اسماعیل ھروی حلولی بدعتی صوفی تھا اور امام ابن حبان پر اس نے زندیق کا فتویٰ دیا ہوا ہے یہ اللہ کی حد کا قائل تھا یعنی مجسمی بھی تھا ۔ ؂

تیسری علت:
اس کتاب کے ۶ نسخاجات ہیں جس میں صرف ایک نسخہ جو ہند کا ہے اس میں امام ابو حنیفہ کے ذم پر باب قائم ہوا ہے یعنی یہ گھڑا ہوا ہے ۔ باقی نسخاجات میں یہ باب ہی نہیں یعنی یہ گھڑا گیا ہے

اسکی سب سے بڑی اور دلیل یہ ہے کہ ائمہ متقدمین و متاخرین میں کسی نے بھی کتاب سنہ سے امام ابو حنیفہ پر جروحات نقل نہین کی آج تک

کیونکہ یہ اکثر غالی وہابی ابن الھادی اور دیگر ایک دو غالی عرب سلفیوں کی کتابوں کی کاپی پیسٹ مارتے ہیں باقی کچھ کام زبیر زئی نے ان اجھل کو بنا کر دے گیا تو یہ ساری کاپی پیسٹ ان کتب سے مارتے رہتے ہیں اور امام اعظم پر جہالت بکتے رہتے ہیں لیکن ان کاموں سے ان اجھل غالی قوم کو کچھ فائدہ ہونا نہیں ہے

ہم نے اس تحریف شدہ کتاب پر متعدد اعتراضات وارد کیے تھے جنکی تفصیل اور تحریر میں مدلل بیان کرینگے

ہم علامہ ابن تیمیہ انکے شیخ الاسلام مجتہد کا کلام یہاں نقل کر رہے ہیں اور اسکے بعد امام ذھبی کی طرف سے بھی گواہی پیش کرینگے کہ ابن تیمیہ کیسے اسکی کتاب کی وجہ سے اسکی تذلیل کرتا تھا
علامہ ابن تیمیہ اپنے فتاوے میں الاتحادیہ و حلولیہ کا ذکر کرتے ہیں کہ یہ ایک فرقہ ہے جو اللہ کی صفات کو غیر اللہ میں منتقل ہونے اور اللہ کی صفات کا مخلوق میں حلول یعنی گھل مل جانے کا عقیدہ رکھتا ہے
اس پر کلام کرتے ہوئے آگے ابن تیمیہ لکھتے ہیں :
وَطَائِفَةٌ أَطْلَقَتْ الْقَوْلَ بِأَنَّ كَلَامَ اللَّهِ حَالٌّ فِي الْمُصْحَفِ كَأَبِي إسْمَاعِيلَ الْأَنْصَارِيِّ الهروي - الْمُلَقَّبِ بِشَيْخِ الْإِسْلَامِ – وَغَيْرِهِ
اور ایک فرقہ اس بات کا قائل ہے کہ اللہ کا کلام مصحف (کاغذ) میں حل (حلول یا مکس) ہو چکا ہے جیسا کہ ابو اسماعیل الھروی ہے جنکا لقب شیخ الاسلام ہے
[مجموع الفتاوى، جلد12 ، ص 294، الناشر: مجمع الملك فهد]

ابن تیمیہ ایک بدعتی فرقے کے عقیدے کی تفصیل بتاتے ہیں اور بطور مثال اس عقیدے کے قائل جس شخص کا نام لیتے ہیں وہ ابو اسماعیل ہے ان جیسوں کا یہ عقیدہ تھا کہ کلام اللہ کی صفت ہے جب یہ مصحف پر لکھی جاتی ہے تو اللہ کی یہ صفت کلام اس مصحت یعنی کاغذ میں حلول ہو جاتی ہے یعنی صفت باری تعالیٰ مخلوق میں مکس ہو جاتی ہے (معاذاللہ )

اسی طرح الھروی حلولی صوفی کے ترجمہ میں امام ذھبی اپنے شیخ ابن تیمیہ کا انکے بارے موقف کی تصریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
قلت: خرج أبو إسماعيل خلقا كثيرا بهراة، وفسر القرآن زمانا، وفضائله كثيرة. وله في التصوف كتاب " منازل السائرين " وهو كتاب نفيس في التصوف، ورأيت الاتحادية تعظم هذا الكتاب وتنتحله، وتزعم أنه على تصوفهم الفلسفي.
وقد كان شيخنا ابن تميمة بعد تعظيمه لشيخ الإسلام يحط عليه ويرميه بالعظائم بسبب ما في هذا الكتاب
. نسأل الله العفو والسلامة.
میں (الذھبی) کہتا ہوں :
ابو اسماعیل یہ قرآن کا مفسر تھا اپنے وقت کا اسکے کثیر فضائل ہیں اسکی تصنیف تھی ایک بنام منازل ا لسائرین یہ تصوف پر ایک نفیس کتاب تھی
لیکن میں نے دیکھا ہے الاتحادیہ اسکی بڑی تعظیم کرتے ، اور اس (کتاب) کو نقل کر تے
نوٹ : (محدثین الاتحادیہ و حلولیہ ایک اس فرقے کو کہتے تھے جو صفات باری تعالیٰ کے مخلوق سے اتحاد یعنی مل جانے کے قائل تھے یعنی غیر مخلوق میں خدا کی صفت کا اتحاد ہو نا اور ایسے فرقے کو وہ الاتحادیہ کہتے تھے )
اور فلسفی تصوف کا دعویٰ کیا گیا ہے
اور ہمارے شیخ ابن تیمیہ اس شیخ الاسلام (الھروی کا لقب تھا ) اسکی تعظیم کے بعد اسکی تزلیل کی ، اور اسکے عظائم کو پس پردہ ڈال دیا اس سبب کے جو اس کتاب میں ہے
ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اور اس سے سلامتی کا سوال کرتے ہیں
[تاریخ الاسلام ، جلد10 ، ص489]

امام ذھبی نے جو گواہی دی ہے اسکی کتاب کے حوالے سے یعنی ابن تیمیہ کے پاس کتاب تھی اسکی بنیاد پر ہی ابن تیمیہ نے اسکو حلولی فرقہ سے منسوب کیا تھا
اور وہابی اس بدعتی حلولی اور مجسمی بندے سے امام احمد بن حنبل کی کتاب السنہ قبول کرتے ہیں اور یہ اللہ کی حد کا قائل تھا اور اسی وجہ سے امام ابن حبان پر زندیقیت کا فتویٰ ٹھوک کر انکو واجب القتل قرار دلاوایا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلی جرح پھر سے یہ وہی ابراھیم بن شماس سے لے آیا:
جس میں امام عبداللہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں جبکہ ابو بکر الاعین تو امام احمد بن حنبل کے بعد نچلے طبقہ کا ہے جس کی وجہ سے سند میں اضطراب کی طرف اشارہ کیا تھا امام خطیب نے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی دلیل لکھتا ہے :
أخبرنا محمد بن عبد لله الحنائي أخبرنا محمد بن عبد الله الشافعي حدثنا محمد بن إسماعيل السلمي حدثنا أبو توبة الربيع بن نافع حدثنا عبد الله بن المبارك قال: من نظر في كتاب «الحيل» لأبي حنيفة أحل ما حرم الله وحرم ما
أحل الله
یعنی امام ابن مبارک کہتے ہیں جس نے امام ابو حنیفہ کی کتاب الحیل کی طرف نظر کی اس میں اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام قرا ردیا گیا اور حرام چیزوں کو حلال۔
[تاریخ بغداد وسند صحیح]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب (اسد الطحاوی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ روایت اصولا غلط ہے کیونکہ امام ابو حنیفہ کی تو کوئی کتاب تھی ہی نہیں نہ ہی انکی زندگی میں اہل علم نے اس کتاب کی نسبت بقول کی اور نہ ہی وفات کے بعد
جیسا کہ اسکے دلائل درج ذیل ہیں:
امام ذھبی ؒ مناقب الامام ابی حنیفہ ؓ میں باسند صحیح روایت نقل کرتے ہیں :
الطحاوي، سمعت أحمد بن أبي عمران، يقول: قال محمد بن سماعة سمعت محمد بن الحسن، يقول: «هذا الكتاب يعني كتاب الحيل ليس من كتبنا، إنما ألقي فيها» ،
امام طحاوی امام احمد بن ابی عمران سے وہ محمد بن سماعہ وہ کہتے ہیں میں نے امام محمد بن حسن الشیبانی کو یہ کہتے سنا : یہ کتاب یعنی کتاب الحیل ہماری تصنیف کردہ کتب میں سے نہیں بلکہ (کسی باہر)والے نے اسکو شامل کیا (ہماری کتب میں )

قال ابن أبي عمران: إنما وضعه إسماعيل بن حماد بن أبي حنيفة
اور امام ابن ابی عمران کہتے ہیں اسکو اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہ نے لکھا ہے
[مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه، ص ۸۵ وسندہ صحیح]

غیر مقلدین اگر یہ بہانہ بنائیں کہ امام ذھبی سے امام طحاوی تک متصل سند نہیں ہے تو یہ بہانہ بھی انکا بیکار ہے کیونکہ امام ذھبی نے یہ روایت امام ابن ابی العوام کی کتاب سے نقل کی ہے جیسا کہ امام ابن ابی العوام نے اپنی تصنیف میں اسکو روایت کیا ہے :
سمعت أحمد بن محمد بن سلامة يقول: سمعت أحمد بن أبي عمران يقول: قال محمد بن سماعة: سمعت محمد ابن الحسن يقول: هذا الكتاب -يعني كتاب الحيل- ليس من كتبنا، إنما ألقي فيها،۔۔۔الخ
[فضائل أبي حنيفة وأخباره ومناقبه، برقم:۸۷۲ ، وسندہ صحیح]

تو امام ذھبی جیسے ناقد نے اس کتاب سے استفادہ کیا ہے تو آج کےغیر مقلدین کا اس کتاب پر ایک ٹانگ پر ناچنا انکو کوئی فائدہ نہیں دیگا ۔ نیز امام ذھبی سمیت جمہور ائمہ نے اس کتاب سے اخذ کیا ہے ۔
نیز امام ابن ابی عمران کا یہ دعویٰ کہ یہ کتاب اسماعیل بن حماد نے لکھی یہ بات بھی محل نظر ہے کیونکہ امام یہ کتاب تو امام محمد کےدور میں مشہور ہوگئی احناف کی طرف جسکا رد امام محمد کو کرنا پڑا تو یہ اسماعیل نہیں لکھ سکتا اس دور میں وہ یہ لکھنے کے قابل نہ ہونگے ۔

اور امام عبد القادر نے امام محمد بن حسن شیبانی کے مقدم شاگرد امام ابو سلیمان جوزجانی کا ایک قول نقل کرتے ہیں جو کہ درج ذیل ہے :
وراق له كتاب الحيل قال أبو سليمان الجرجاني كذبوا على محمد ليس له كتاب الحيل إنما كتاب الحيل للوراق
وراق اسکی کتاب الحیل ہے ۔امام ابو سلیمان جوزجانی کہتے یں کہ امام محمد بن الحسن پر جھوٹ گھڑا گیا ہے یہ کتاب الحیل انکی تصانیف میں سے نہیں ۔ بلکہ یہ کتاب الحیل وراق کی ہے ۔

اسکو نقل کرنے کے بعد امام عبدالقادر کہتے ہیں :
قلت ووراق هذا
میں کہتا ہوں یہ(راوی) یہی وراق ہے (جسکا تذکرہ امام جوزجانی نے کیا ہے کتاب الحیل کے حوالے سے)
[الجواهر المضية في طبقات الحنفية ، برقم:۶۵۳]

نیز امام شمس الائمہ سرخسی نے بھی ایسا ہی نقل کیا ہے امام محمد بن حسن کے حوالے سے اور اس کتاب کا لا تعلق قرار دیا ہے احناف سے تو صاف عیاں ہے کہ جیسا امام محمد بن الحسن نےتصریح کی ہے کہ یہ کتاب باہر والوں کا کام ہے ۔۔ ہو سکا ہے یہ اس دور کے مشہور قدریہ ، معتزلہ کا کام ہو ۔ کہ جس پر امام ابو حنیفہؓ جنہوں نے کوفہ میں پہلی بار ان پر کفر کا فتویٰ دیا تھا ۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ اصحاب الحدیث کے کسی کرندے کا کام ہو کیونکہ ایسے گھٹیہ کاموں میں اصحاب الحدیث جیسے نیچ لوگ پیش پیش تھے ۔

خیر جسکا بھی کام ہو یہ سازش بھی کامیاب نہ ہو سکتی ۔ احناف متقدمین سے متاخرین تک اس سے لاتعلقی کا اعلان کرتے آئیں ہیں ۔ ابن مبارک نے اگر اسکو امام ابو حنیفہ کی کتاب کہا ہے تو یہ مسلہ ابن مبارک کو تھا اور نہ ہی ابن مبارک نے اسکا کوئی ثبوت دیا ۔ دوسری طرف ابن مبارک سے فقہ میں اوثق ومقدم اور امام محمد کے مستقل شاگرد امام محمد جنہوں نے احناف کی کتب اصول و فروع میں تصنیف کی ہیں انکی گواہی بالکل واضح ہے

نیز اگر یہ کتاب واقعی احناف کی ہوتی لکھی ہوئی اور اصول پر ہوتی تو ہم احناف کبھی اس کتاب سے لاتعلقی کا اعلان نہ کرتے کیونکہ ٖققہ سے پیدل کئی لوگوں نے امام ابو حنیفہ کے فہم اور کئی فقھاء نے امام محمد کی کتب پر اعتراض کیے لیکن احناف نے ہمیشہ انکا منہ توڑ جواب دیا تو احناف کی کتب پر جرح ہو جانے سے وہ کبھی کتاب سے لا تعلقی کا اعلان نہیں کرتے ۔ لیکن ایسی کفر پر مبنی کتب جو امام ابو حنیفہ اور انکے اصحاب کی طرف منسوب کی گئی ہیں یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امام ابو حنیفہ اور انکے اصحاب کی کتب میں متعرض کو کچھ نہ مل سکا تو خود سے گھڑ کے انکی طرف منسوب کر دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسکے بعد اسنے ہماری پیش کردہ روایات پر کلام کرنے کی ناکام کوشش کی ہے جسکے جوبات ہم اگلی پوسٹ میں دینگے ۔۔

تحقیق: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
(اسد الطحاوی کی تحریر)
ہم کو معلوم تھا کہ موصوف کے رد میں جب تحریر لکھیں گے تو یہ محدث فورم کی ساری کاپی پیسٹ جمع کرکے آئے گا
اسد المداری کو ھر بات پہلے سے معلوم ہوتی ہے۔ یا پھر یہ اسکی بدظنی ھے۔
کیونکه فورم سے جو چیزیں میں نے فیس بُک پر لگا رکھی ہیں۔ وہ میں نے خود ہی فورم پر لکھی ہیں. آپ یہ عنوان اس فورم پر تلاش کرکے دیکھ لیں۔
"ابوحنیفه کی مدح میں وارد شدہ اقوال".
"امام عبد الله بن مبارک اور ابوحنیفه"
۔
اس لیے ہم نے بھی سابقہ تحریر میں تمام انکے پیش کردہ دلائل کا رد نہیں کیا تھا کہ تحریر زیادہ طویل نہ ہو
اسد کا یہ اقرار قارئیں زہن نشین کرلیں کہ اسد نے اپنی سابقه تحریر میں میرے دلائل کا مکمل رد نہیں کیا تھا۔
اور موجودہ تحریر میں اسد نے کیا گُل کھلا رکھے ہیں یہ آپ اوپر پڑھ چکے ہیں اور آگے بھی پڑھیں گے ان شاء الله___
ابن مبارک سے منسوب ہم نے ایک روایت میں ایک مجہول العین راوی کی علت بیان کی تھی
جسکے جواب میں موصوف لکھتا ہے :

اس جاھل کو اتنا نہیں معلوم کہ امام خطیب نے اسکو دو سندوں سے لکھا ھے۔
أخبرني محمد بن علي المقرئ، قال: أخبرنا محمد بن عبد الله النيسابوري، قال: سمعت أبا جعفر محمد بن صالح بن هانئ، يقول: حدثنا مسدد بن قطن، قال: حدثنا محمد بن أبي عتاب الأعين، قال: حدثنا علي بن جرير الأبيوردي قال: قدمت على ابن المبارك_____
اسد المداری جس روایت کو صحیح بنانا چاہتا ھو تب تو روایت کے ہر طرق کو دیکھتا ھے۔ لیکن جس روایت سے جان چھڑانی ہو تب صرف ایک طرق پر ضعیف کی کرح کرکے جان چھڑا لیتا ھے۔
جبکه میری پیش کردہ دونوں روایتیں جو تاریخ بغداد میں ہیں۔ اور سنداً ضرور ضعیف ہیں۔ لیکن اُن کا متن میں نے (امام ابن حبان اور کتاب السنة سے) ثابت کر رکھا ھے۔ جس پر اسد المداری نے کوئی اعتراض بھی نہیں کیا۔
لہذا خطیب کہ روایتوں پر جرح کرنا بیکار ھے۔ جو اصل روایتیں ہیں وہ اوپر پہش کی جاچکی ہیں۔ اُن پر کوئی اعتراض ھے تو وہ نقل کیا جائے !!
اور جب اصل ثابت ھے تو اس کا متابع بالاولی ثابت ھونا چاھیئے۔
۔
معلو ہوا سکی دونوں اسناد ہی ضعیف ہیں اور یہ ثقات سے مروی صحیح اخبار کے خلاف ہیں اور ضعیف و منکر ہیں
جی بلکل یہ خطیب کی بیان کردہ دونوں روایتیں سندا ضعیف ہیں۔ لیکن یہی روایت امام ابن حبان نے بیان کر رکھی ھے صحیح سند کے ساتھ۔ تو جب اس روایت کا متن ثابت ھوگیا۔ تو خطیب کی سند کی طرف دیکھنے کی چنداں ضرورت نہیں۔
رہی بات ثقات کے خلاف؟
میں کہتا ہوں۔ کو کچھ ابن حبان والی روایت کے متن میں موجود ھے۔ اسکا مخالف دنیا کے کسی محدث کی کتاب سے پیش کردو۔ صحیح اور اوثق سند کے ساتھ۔
تم جس محدث کی کتاب سے مخالفت پیش کروگے۔ میں اسی کتاب کے وزن کے برابر ھزار ھزار کے نوٹ تول کر دوں گا۔ (تا قیامت منتظر رہوں گا میں اس مخالف روایت کو پڑھنے لئے)
۔
یہ تو بچے نے ابھی سے رونا شروع کر دیا اور ہماری بیان کردہ تصریحات کو حنفیوں کی کہانی کہنا شروع کر دیا بغیر کسی دلیل کے!
ہم نے سابقہ تحریر میں امام زرنجری کی توثیق پیش کی تھی ۔
اور پھر انکا امام ابو عبداللہ بن ابی حفص الصغیر البخاری کی کتاب سے امام ابن مبارک کے شاگرد سے با سندصحیح روایت پیش کی تھی ۔
اب یا تو مصنف امام زرنجری کو یہ کذاب ثابت کرے یا انہوں نے امام ابن ابی حفص بخاری کی سند صحیح کو جو نقل کیا یا تو انکو کذاب ثابت کرے تو پھر اسکی بات میں وزن ہوگا
تمہاری بیان کردی زرنجری والی روایت حنفیوں کی کہانی تو اور کیا ہے؟؟
زرنجری کی کتاب کی جو تم نے سند دی۔ اس میں سب کے سب حنفی ہیں۔ جن کی تعدیل وتوثیق کہیں بھی منقول نہیں۔
عالم یا فاضل ہونا کوئی توثیق نہیں۔
ابن دوست کے بارے الذھبی نے سیر میں کہا:
١٩٥ - ابن دوست أحمد بن محمد بن يوسف البغدادي *
الإمام، الحافظ، الأوحد، المسند، أبو عبد الله أحمد ابن المحدث محمد بن يوسف بن دوست البغدادي، البزاز، أخو عثمان (٢) بن دوست العلاف
[سير اعلام النبلاء: جزء17/صفحة322]
۔
میزان میں اسی کے بارے میں الذھبی نے کہا:
٦٠٨ - أحمد بن محمد بن يوسف بن محمد بن دوست [العلاف] الحافظ العلامة، أبو عبد الله البغدادي، والد أبي بكر العلاف البزاز
[ميزان الإعتدال: صفحة153]
۔
لہذا عالم فاضل ہونا۔ یا کسی عہدے پر ہونا۔ یا مفتی ہونا توثیق نہیں۔ اور پھر ایک معین مذھب کے مقلد کا اپنے مذھب میں عالم فاضل کہلانا ، دوسرے مسالک والوں کے لئے کوئی حجت نہیں۔
زرنجری کو امام الذھبی نے ابو العلاء کے واسطے سے امام علی الاطلاق کہا۔
عرض ھے کہ ابو العلاء الفرض خود حنفی ھے، لہذا ایک حنفی کا دوسرے حنفی کو امام کہنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ اور الذھبی نے آگے چل کر یہ بھی کہا۔ کہ یہ زرنجری حنفی اپنے مذھب میں اتنا متشدد تھا کہ اسے چھوٹا ابوحنیفه کہا جانے لگا۔
اب جو اسقدر متشدد ھو۔ اور معین مذھب کا مقلد ھو۔ اور اپنے مذھب کا ماھر بھی ھو۔ وہ بھلا اپنے مذھب کے دفاع کے علاوہ اور کیا خدمت انجام دے گا؟؟؟؟؟؟
اور ھر معین مذھب کا عالم صرف اپنے ہی مذھب کا امام ھوتا ھے۔ جو کسی دوسرے کے لئے قطعی حجت نہیں ھوتا۔ خصوصا وہ جو اپنے مذھب میں اپنے امام کے بعد اسقدر مشھور ھو کہ ابوحنیفه اصغر کہلایا جانے لگے۔
۔
اور پھر انکا امام ابو عبداللہ بن ابی حفص الصغیر البخاری کی کتاب سے امام ابن مبارک کے شاگرد سے با سندصحیح روایت پیش کی تھی ۔
اسد المداری لمبی لمبی چھوڑنے میں تمام حدیں پار کرچکا ہے۔
(1) کس ثقة محدث نے بیان کیا کہ، ابن ابی حفص نے مناقب ابی حنیفه پر کوئی کتاب لکھی تھی؟؟؟؟ کوئی ایک باسند حواله؟؟
(2) زرنجری کے پاس کسی کتاب کا ہونا ۔ یہ ثابت نہیں کرتا کہ وہ اپنے مصنف تک بھی ثابت ھو۔ لہذا زرنجری سے لے کر ابن ابي حفص تک اس کتاب کی مکم سند پیش کی جائے۔
(3) خود زرنجری کی جو اپنی کتاب ھے۔ وہ بھی زرنجری سے ثابت نہیں۔ کسی محدث نے نہیں بتایا کہ زرنجری نے ابوحنیفة کے مناقب میں کوئی کتاب لکھی تھی".
۔
(4) زرنجری کی کتاب کی جو تم نے سند نقل کی
یعنی
انہوں نے امام اعظم ابو حنیفہ ؓ کے مناقب میں کتاب لکھی جسکی سند درج ذیل ہے :
أخبرنا والِدي الشيخ الإمام أبو الفضل يوسف بن محمد بن أحمد الحنَفي سنة سبع وخمسين
وخمسمائة، قال: حدثنا الشيخ الإمام الستاذ الزاهد بن برهان الد ّ ين أبو الحسن علي بن محمد بن
الحسن البلخي بالمدرسة الصادرية بدمشق سنة ست َ وأربعين وخمسمائة، قال:حد ثنا القاضي الإمام
أبو الفضل بكر بن محمد بن علي َّ الزنجري، قال: اعلم أن َمنَاقب أبي حنيفة ُ تشتمل على فصول۔۔۔الخ
[مناقب ابی حنیفہ للزنجری ، ص۱]

اس کتاب کے سارے رجال اعلی ثقہ اور اپنےوقت کے جید حنفی ائمہ میں سے ہیں ۔۔
اس کتاب کی سند کا آغاز کرنے والا، جو کہتا ھے۔ اخبرنا والدي
یہ خود کون ہے؟ نامعلوم توثیق، مجھول شخص ھے۔
پھر اس کا باپ بھی نامعلوم ھے۔ جس کی کوئی توثیق موجود نہیں۔
پھر الزاھد بن برھان الدین۔ یہ حنفیوں کے گھر کا بندہ ہے۔ اور اس کی بھی کسی محدث نے توثیق نہیں کی۔
اور سب سے اہم بات۔ المداری نے اس سند کے اختتام میں خود ہی اقرار کر رکھا ھے کہ یہ سب جید حنفی علماء تھے۔ ان حنفیوں کی مورتی بنا کر پوجا پاٹ شروع کردو۔ ان کی کسی محدث نے کوئی توثیق نہیں کی۔
پھر ابن ابی حفص کی کتاب سے عطاء تک جو تم نے سند نقل کی۔ وہ یہ ھے
اس کتاب میں امام زرنجری کا امام ابن ابی حفص کی کتاب سے مروایات کو نقل کرنے کی تصریح کا ثبوت :

امام زرنجری حضرت عطاء بن ابی ربا ع سے امام ابو حنیفہ کی روایت کے تحت نقل کرتے ہیں:
فقد ذكر أبو عبدالله بن أبي حْفص في كتابه المؤلف في َمنِاقب أبي حنيفةّٰ وقرئ هذا الكتاب على الشيخ الفقيه الحافظ أبي محمد عبدالله بن منصور البخاري ر حَم الله سنة إحدى وخمسين َ /وأ ْر َبعمائة فقال أخبرنا أبو إسحاق إبراهيم بن أحمد السرخسي قال حدثنا الشيخ الإمام أبو بكر أحمد بن سعد قال أخبرنا أبو سهل محمد بن عبدالله بن سهل بن حفص العجلي قال أخبرنا أبو عبدالله محمد بن أبي حْفص العجلي قال۔۔۔الخ
زرنجری نے جو اس کتاب کی سند نقل کی۔ وہ بھی ثابت نہیں۔
ابو محمد عبد الله منصور البخاری مجھول ھے
ابو اسحاق ابراہیم بن احمد السرخسی کی توثیق موجود نہیں۔
ابوبکر احمد بن سعد مجھول ھے۔
ابو سھل محمد بن عبد الله بن سھل بن حفص بھی مجھول ھے۔
۔
لہذا مجھول در مجھول لوگوں سے تم ثقة حجة ائمه کے بیان کردہ متن کی مخالفت نقل کرکے کہتے ہو۔ کہ تمہاری پیش کردہ روایت صحیح ہے؟؟؟
کون سے سستے نشے کرتے ہو؟؟؟
ٹھیک ہے اپنے مذھب کا دفاع تم نے کرنا ھے۔ کم از کم ضمیر کو تو جگاؤ اپنے؟؟؟ اندھیر نگری چل رہی ہے کوئی؟؟؟؟
ثقات کی مخالفت کب ھوتی ھے؟ جب ثقة سے اوثق راوی الگ خبر دے۔ یا اپنی خبر میں زیادتی کرے۔
اور تم مجھول نامعلوم اور اپنے گھر کے بندوں سے ثقة حجة ائمه کی نقل کو رد کرنے نکلے ہو؟؟؟؟؟؟؟؟؟، یقینا سستے نشے کا اثر ہی ہے
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
جی بلکل یہ خطیب کی بیان کردہ دونوں روایتیں سندا ضعیف ہیں
۔

اور سنداً ضرور ضعیف
پہلے میں اس روایت کو ضعیف سمجھ بیٹھا تھا۔ بوجہ ابن ابی الفوارس کی جرح کے۔
لیکن ابن ابی الفوارس نے اپنی جرح سے رجوع کرلیا تھا۔
روایتم ملاحظه ھو:
۔
امام خطیب نے کہا:
أخبرني الحسن بن أبي طالب قال: أخبرنا أحمد بن محمد بن يوسف قال: حدثنا محمد بن جعفر المطيري قال: حدثنا عيسى بن عبد الله الطيالسي قال: حدثنا الحميدي قال: سمعت ابن المبارك يقول: صليت خلف أبي حنيفة صلاة، وفي نفسي منها شيء قال: وسمعت ابن المبارك يقول: كتبت عن أبي حنيفة أربعمائة حديث إذا رجعت إلى العراق إن شاء الله محوتها.
امام حمیدی کہتے ہیں کہ میں نے ابن مبارک کو کہتے سنا۔ کہ میں نے ابوحنیفه کے پیچھے نمازیں پڑھی ہیں۔ لیکن میرا ضمیر اُن نمازوں پر مطمئن نہیں۔ اور میں نے ابوحنیفہ سے 400 حدیثیں لکھی ہیں۔ لیکن جب میں عراق جاؤں گا تو انہیں مٹا دوں گا۔
[تاریخ بغداد للخطیب]
اس روایت کے سارے راوی ثقة ہیں۔ البتہ ابن دوست کی محمد بن جعفر المطیری سے روایت میں ابن ابی الفوارس نے کلام کیا تھا لیکن بعد میں جب اُن پر حقیقت واضح ھوئی تو رجوع کرگئے
ملاحظه هو:
وكان محمد بن أبي الفوارس ينكر علينا مضينا إليه، وسماعنا منه، ثم جاء بعد ذلك وسمع منه
[تاریخ بغداد للخطیب] وسندہ صحیح۔
۔
یعنی روایت مذکورہ سنداً صحیح ھے۔ اور اسکا ایک قوی شاہد بھی ہے ، جسکی وجہ سے یہ روایت مزید تقویت پاتی ہے۔
ملاحظه ھو:
امام یعقوب الفسوی کہتے ہیں:
حدثني أحمد قال: سمعت عبد الرزاق بن عمر البزيعي قال:
كنت عند عبد الله بن المبارك فجاءه رجل فسأله عن مسألة. قال: فأفتاه فيها، فقال: قد سألت أبا يوسف فخالفك. فقال: إن كنت قد صليت خلف أبي يوسف صلوات تحفظها فأعدها»
ترجمه:
عبد الرزاق بن عمر کہتے ہیں ھم ابن مبارک کے پاس تھے۔ تو ایک شخص آیا اور مسئلہ پوچھا۔ تو ابن مبارک نے اُسے مسئلہ بتایا۔ اُس شخص نے کہا کہ یہی مسئلہ میں نے قاضی ابویوسف (شاگرد ابوحنیفہ) سے پوچھا تو انہوں نے اس کے خلاف بتایا ہے۔ تو ابن مبارک نے کہا:
اگر تم قاضی ابویوسف کے پیچھے نمازیں پڑھتے ھو تو اپنی نمازوں کی حفاظت کرلو اور دوبارہ دھرا لو".
[المعرفة والتاریخ للفسوی] وسندہ حسن
یہ صحیح روایت اس بات کی قوی شائد ہے کہ ابن مبارک حنفیوں کے پیچھے پڑی گئی نمازوں سے مطمئن نہیں رہے تھے۔ اور پچھتاتے تھے۔ اور دوسروں کو بھی نمازیں دھرانے کا کہتے تھے۔
 
Top