• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسد الطحاوی حنفی کی چوں چاں کا جواب

شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
کیا امام عبد الله بن مبارک رحمه الله اخير تك امام ابوحنیفه رحمه الله کے مداحوں میں سے تھے؟؟
امام خطیب کہتے ہیں:
أخبرنا البرقاني قال: أخبرنا أبو يحيى زنجويه بن حامد بن حمدان النصري الإسفراييني إملاء قال: حدثنا أبو العباس السراج قال: سمعت أبا قدامة يقول: سمعت سلمة بن سليمان قال: قال رجل لابن المبارك: كان أبو حنيفة مجتهدا؟ قال: ما كان بخليق لذاك، كان يصبح نشيطا في الخوض إلى الظهر، ومن الظهر إلى العصر، ومن العصر إلى المغرب، ومن المغرب إلى العشاء، فمتى كان مجتهدا؟
قال: وسمعت أبا قدامة يقول: سمعت سلمة بن سليمان يقول: قال رجل لابن المبارك: أكان أبو حنيفة عالما؟ قال: لا ما كان بخليق لذاك ترك عطاء، وأقبل على أبي العطوف".
ترجمه:
سلمة بن سلیمان رحمه الله کہتے ہیں: ایک آدمی نے امام عبد الله بن مبارک سے پوچھا۔ کہ کیا ابوحنیفه مجتھد تھے؟ تو ابن مبارک نے کہا نہیں ابوحنیفه مجتھد نہیں تھے۔ وہ اس لائق تھے ہی نہیں کہ مجتھد ھوتے۔ کہونکہ وہ صبح سے لے کر عشاء تک خوض (رائے وقیاس) میں مصروف رہتے۔ بھلا وہ کیونکر مجتھد ھوتے؟
سلمة بن سليمان کہتے ہیں: ایک شخص نے ابن مبارک سے پوچھا کیا امام ابوحنیفه عالم تھے؟ تو ابن مبارک نے کہا:
نہیں وہ عالم نہیں تھے۔ اگر وہ عالم ہوتے تو عطاء بن ابي رباح کو چھوڑ کر ابي العطوف (کذاب) کی طرف متوجہ ہوتے؟؟
[تاریخ بغداد للخطیب :جزء15/صفحة570]-إسناده حسن
.
یہ روایت سنداً ضعیف ہے (والله اعلم) أبو يحيى زنجويه بن حامد بن حمدان النصري الإسفراييني کے حالات مجھے نہیں ملے کتب رجال میں، لیکن اس روایت کی اصل موجود ھے امام ابن حبان کے پاس بعینه اسی سند سے، جس سے ظاھر ھوتا ھے کہ یہ واقعہ صحیح ثابت شدہ ہے، یعنی ابن مبارک کے نزدیک ابوحنیفہ مجتھد تو دور عالم بھی نہیں تھے۔ اور مزے کی بات یہ کہ، یہ روایت تو سرے سے بلکل الگ سند سے ھے۔ جو بلکل صحیح ہے۔
۔
یہی روایت امام ابن حبان نے بھی امام السراج الثقفی سے نقل کی:
سمعت محمد بن إسحاق الثقفي، يقول: سمعت أبا قدامة، يقول: سمعت سلمة بن سليمان، يقول: قال رجل لابن المبارك: أكان أبو حنيفة عالما؟ قال: ما كان بخليق لذاك، ترك عطاء وأقبل على أبي العطوف.
ترجمه:
سلمة بن سليمان کہتے ہیں: ایک شخص نے ابن مبارک سے پوچھا کیا امام ابوحنیفه عالم تھے؟ تو ابن مبارک نے کہا:
نہیں وہ عالم نہیں تھے۔ اگر وہ عالم ہوتے تو عطاء بن ابي رباح کو چھوڑ کر ابي العطوف (کذاب) کی طرف متوجہ ہوتے؟؟
[المجروحین لابن حبان: جزء1/صفحة289] وسنده صحيح
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
پھر اسکے بعد امام الساجی نے صاف الفاظ میں زکر کیا کہ۔
امام ابن عبد البر کہتے ہیں:
ومن طريق الساجي، عن محمد بن نوح المدائني، عن معلى بن أسد، قلت لابن المبارك: كان الناس يقولون إنك تذهب إلى قول أبي حنيفة، قال: ليس كل ما يقول الناس يصيبون فيه، قد كنا نأتيه زمانا ونحن لا نعرفه، فلما عرفناه تركناه
ترجمه:
معلى بن اسد کہتے ہیں۔ کہ میں نے ابن مبارک سے کہا: کہ لوگ کہتے ہیں۔ آپ ابوحنیفہ کے قول پر مذھب اختیار کرتے ہیں؟ تو ابن مبارک نے کہا: لوگ جو کہتے ہیں وہ ھمیشہ سچ نہیں ھوتا۔ ھم ابوحنیفہ کے پاس آتے جاتے تھے تب ھم اُن کو جانتے نہ تھے۔ اور جب ھم جان گئے تو ھم نے اُن کو ترک کردیا".
[الانتقاء لابن عبد البر]
نوٹ: امام ابن عبد البر کے پاس امام ساجی کتاب تھی جس سے وہ براہ راست امام ساجی سے روایات نقل کرتے تھے اپنی کتاب میں۔
اب یہاں اسد ایک اعتراض کرسکتا ھے۔ کہ امام ابن عبد البر نے امام زکریا ساجی کو ابوحنیفہ کے خلاف متعصب قرار دیا۔
تو عرض ھے کہ اول تو یہ جرح بنتی ہی نہیں۔ کیونکہ اگر کسی کے خلاف روایات بیان کرنا تعصب ھے۔ تو پھر کوئی ثقة نہیں رھے گا۔ اور اگر اسکو جرح مان بھی لیں تو بھی یہ ایسی جرح نہیں کہ جس سے جارح مجروح ھوجائے۔
اور حقیقی بات یہ ھے کہ امام الساجی نے یہ جرح کی ہی نہیں ھے۔ امام الساجی تو ناقل ہیں فقط ۔ جو امام الساجی تک پہنچا، انہوں نے اپنی سند سے بیان کردیا۔ اب جو باقی رواہ ہیں جنہوں نے یہ بات بیان کی ہے۔ یہ سب متعصبی کہلائیں گے ابن عبد البر کے حساب سے۔ حالانکہ کسی محدث نے ان راویوں کو متعصب نہیں کہا۔ یہ تمام راوی ثقة ثبت ہیں۔ الحمدلله ، اور یہ راوی اپنے بیان میں منفرد بھی نہیں ہیں۔ بلکہ دیگر کئی راویوں نے بعینہ یہی باتیں بیان کر رکھی ہیں۔ لہذا امام زکریا ساجی ثقة ثبت امام ہیں۔ اور انکی نقل مقبول ھے عند المحدثین۔
ھاں اگر یہ جرح خود امام زکریا ساجی کرتے تو بھی امام زکریا ساجی کو متعصب قرار نہیں دیا جاسکتا تھا۔ کیونکہ اس سے زیادہ اور گھمبیر قسم کی جروحات دیگر ائمہ نے بھی امام ابوحنیفہ پر کر رکھی ہیں۔ لیکن کسی نے اُن کو متعصب نہیں کہا۔
الغرض یہ کہ یہ روایات سنداً بھی بلکل صحیح ھے۔ اور متن کے حساب سے بھی یہ دیگر روایات کے عین موافق ھے۔ اور امام ساجی اس روایت کو صرف نقل کرنے والوں میں سے ہیں۔ اس روایت میں امام ساجی جارح ھرگز نہیں۔
۔
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
امام ابن مبارک اور ابوحنیفه؟
حدثنا أحمد بن الخليل. قال: حدثنا عبدة. قال: سمعت ابن المبارك، وذكر أبا حنيفة. فقال رجل: هل كان فيه من الهوى شيء؟ قال: نعم الإرجاء.
.
ترجمة:
عبدة بن سليمان کہتے ہیں۔ میں سنا ابن مبارک کو کہتے ہوئے۔ جب ابوحنیفه کا ذکر ھوا۔ تو ایک شخص نے ابن مبارک سے پوچھا۔ کيا ابوحنیفه میں کوئي بدعت بھی تھی؟ تو ابن مبارك نے کہا: ھاں وہ مرجئی تھے". [المعرفة والتاريخ للفسوي] إسناده صحيح
 
شمولیت
ستمبر 07، 2020
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
54
امام عبد الله بن احمد (ثقة حجة) نے کہا:
حدثني أبو الفضل الخراساني نا أحمد بن الحجاج نا سفيان بن عبدالملك حدثني أبن المبارك قال ذكرت أبا حنيفة عند الأوزاعي وذكرت علمه وفقهه فكره ذلك الأوزاعي وظهر لي منه الغضب وقال تدري ما تكلمت به تطري رجلا يرى السيف على أهل الاسلام فقلت إني لست على رأيه ولا مذهبه فقال قد نصحتك فلا تكره فقلت قد قبلت
ترجمه:
امام عبدالله بن مبارك رحمه الله نے کہا میں نے امام اوزاعی رحمه الله کے پاس ابو حنیفہ رحمه الله کا ذکر کیا ، اور میں نے اُن کے علم اور فقہ کا تذکرہ کیا۔
تو امام اوزاعی نے اس بات کو ناپسند کیا اور وہ مجھ پر غصه ہوئے ۔ اور کہا تو جانتا ہے جو تو کہہ رہا ہے؟ ایسے آدمی کی تعریف کرتا ہے جو اھلِ اسلام پر تلوار کو (جائز) سمجھتا تھا؟ پس میں (ابن مبارك) نے کہا میں اس (ابو حنیفه) کی رائے اور مذھب پر نہیں ہوں۔
تو امام اوزاعی نے کہا:
میں نے تجھ سے خیر خواہی کی ہے تم میری بات کا برا محسوس نہ کرو
تو میں نے کہا (ابن مبارک نے) تحقیق میں نے آپ کی بات مان لی".
سند کی تحقیق:
(1) امام خطیب نے کہا:
٤٢٩٩ - حاتم بن الليث بن الحارث بن عبد الرحمن أبو الفضل الجوهري___الخ
وكان ثقة ثبتا، متقنا حافظا
[تاريخ بغداد للخطيب: جزء9/صفحة153]
۔
(2) امام ابن حجر نے کہا:
احمد بن الحجاج البکري الذهلي المروزي ثقة
[تقريب التهذيب لابن حجر]
.
(3) امام ابن حجر نے کہا:
سفیان بن عبدالملك المروزي: من کبار اصحاب ابن المبارك ثقة
[تقريب التهذيب لابن حجر]

یہ سند چوبیس کریٹ کے سونے کی طرح اصلی صاف و شفاف ھے۔ اور اس میں ابن مبارك نے واضح بتا دیا ھے کہ میں ابوحنیفه کے مذھب پر نہیں ہوں۔
اس میں امام ابوحنیفه پر ارجاء کے الزام کی بھی تردید نہیں کی ابن مبارك نے۔
اور اخیر میں ابن مبارك نے امام اوزاعی کی نصیحت کو بھی قبول کرلیا۔
اور اس روایت سے یہ بھی ثابت ھوگیا کہ ابن مبارک نے جو کہا تھا۔ کہ میرے اصحاب مجھے ابوحنیفه سے روایت کرنے سے ملامت کرتے تھے۔ تو وہ یہی اصحاب تھے۔ کوئی للو پنجو مداری نہیں تھے۔
تنبیہ:
اب بس المداری کی اس چیخ کا جواب رہتا ھے کہ کتاب السنة لعبد الله بن أحمد ثابت نہیں ھے۔ اسکی سند میں حلولی و فلانی راوی ھے۔
الجواب:
کتاب السنة تواتر سے عبد الله بن احمد ن حنبل رحمه الله سے ثابت ھے۔ اور جو کتاب تواتر سے ثابت اور مشہور ھو۔ اُس کے لئے سند کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی۔
اب اگر المداری کو کتاب السنة کا تواتر چاھیئے تو وہ بھی ھم دکھا دیتے ہیں۔
ملاحظه ھو:
(1) امام ابن حجر نے کہا:
وقال الامام أحمد في كتاب السنة___
[فتح الباري لابن حجر جزء13/صفحة381]
.
(2) امام البیھقي رحمه الله نے اپنی کتاب الأسماء والصفات میں" کتاب السنة" کی روایت جهمیہ کی رد میں نقل کی ہے
[وَفِيمَا أَجَازَنِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ رِوَايَتَهُ عَنْهُ , قَالَ: أنا الشَّيْخُ أَبُو بَكْرٍ بْنُ إِسْحَاقَ , أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ___
[الأسماء والصفات للبيهقي صفحة200]
.
(3) امام الذهبي نے (مختصر العلو للعلي العظيم) میں" کتاب السنة" سے روایت نقل کی ہے۔
روى عبد الله بن أحمد بن حنبل في كتاب "السنة" له
[مختصر العلو للعلي العظيم للذهبي: صفحة138]
.
(4) امام ابن العز الحنفیؒ نے (شرح العقيدة الطحاوية) کے صفحہ ۴۱۷ میں" کتاب السنہ" سے روایت نقل کی ہے۔
شرح العقيدة الطحاوية لابن أبي العز الحنفي
.
(5) امام ابو یعلیؒ نے (طبقات الحنابلة) میں" کتاب السنہ" سے روایت نقل کی ہے۔
[السنة لعبد الله بن أحمد رقم ۵۳۳
وطبقات الحنابلة]
.
(6) ابن رجب حنبلیؒ نے (التخويف من النار والتعريف بحال دار البوار) میں" کتاب السنہ" کا حوالہ بطور تائید پیش کیا ہے۔
وكتاب السنة لابنه عبد الله كذلك. وخرجه الطبراني في كتاب السنة
التخويف من النار والتعريف بحال دار البوار ۲۴۹
.
(7) امام هبة الله بن الحسن بن منصور الطبري اللالكائي نے (شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة) میں" کتاب السنہ" سے روایات نقل کی ہیں۔
السنة لعبد الله بن أحمد رقم ۱۳۵
شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة ج ۲ ص ۲۱۴ رقم ۳۸۸
.
(8) امام عبدالرحمن ابن جوزیؒ اپنی کتاب (العلل المتناهية في الأحاديث الواهية) میں" کتاب السنہ" سے روایت نقل کی ہیں۔
السنة لعبد الله بن أحمد رقم ۱۰۲۸
العلل المتناهية في الأحاديث الواهية ص ۴۱
.
(9) امام ابو یعلیؒ نے اپنی کتاب (إبطال التأويلات لأخبار الصفات) میں" کتاب السنہ" سے ایک روایت بطور دلیل پیش کی ہے۔
وَرَوَى عبد اللَّه فِي كتاب السنة بِإِسْنَادِهِ
إبطال التأويلات لأخبار الصفات رقم ۳۲۷
.
لہذا اسد المداری کا رونا پیٹنا، حیله کرنا بلکل صحیح ھے۔ کیونکه اس کے بغیر حنفیت کو بچانا ممکن بھی نہیں۔
۔
امام اوزاعی رحمه الله ، ابوحنیفه رحمه الله سے اس قدر نالاں کیوں تھے؟؟
اسکی مزید بھی صراحت امام اوزاعی نے کر رکھی ھے
ملاحظه ھو:
امام عبد الله بن أحمد نے کہا:
حدثني إبراهيم، ثنا أبو توبة، عن أبي إسحاق الفزاري، قال: قال الأوزاعي: «إنا لا ننقم على أبي حنيفة الرأي كلنا نرى، إنما ننقم عليه أنه يذكر له الحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فيفتي بخلافه»
ترجمه:
امام اوزاعی رحمه الله نے کہا بیشک ہم قیاس کی وجہ سے ابو حنیفہ رحمه الله کو برا نہیں سمجھتے ہم سارے قیاس کرتے ہیں ہم اس لیے اسے برا سمجھتے ہیں کہ ابوحنیفه سے حدیث بیان کی جاتی ہے تو اس کے الٹ فتویٰ دیتے ہیں۔
[السنة لعبد الله بن أحمد بن حنبل: صفحة207]
۔
مزے کی بات یہ ھے کہ :
امام اوزاعی رحمه الله کے اِس قول کو کئی ائمه نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ جیسے امام صفدی، امام الذھبی، امام ابن قتیبة، امام ابن حزم وغیرہ
اور سنداً یہ قول صرف کتاب السنة ہی میں موجود ھے والله اعلم۔
۔
سند کی تحقیق:
(1) ابراھیم بن سعید الجوھری ابو اسحاق الطبری نزیل بغداد ثقة حافظ [تقريب التهذيب ص 20]
.
(2) ربیع بن نافع ابو توبة الحلبي نزیل طرسوس ثقة حجة عابد.
[تقريب التهذيب ص 101]
.
(3) ابراھیم بن محمد بن حارث بن اسماء بن خارجه بن حفص بن حذیفة الفزاري الامام ابو اسحاق ثقة حافظ له تصانیف.
[تقريب التهذيب ص 22]
.
 
Top