• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام اور تہذیب مغرب کی کشمکش

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مغرب زدہ

تحریر :حافظ محمد زبیر (@ابوالحسن علوی )
مسلم معاشروں میں دو قسم کے طبقات مغرب زدہ ہیں؛ ایک وہ جو مغرب کو پڑھ کر اس سے متاثر ہو گئے اور دوسرے وہ جو مغرب کو پڑھ کر رد عمل کی نفسیات [psychology of reaction] کا شکار ہو گئے۔ یہ دوسرا طبقہ اگرچہ مغرب کا شدید ناقد ہے لیکن مغرب نے ان پر پہلے طبقے سے زیادہ گہرا اثر چھوڑا ہے۔ یہ اثر نیوٹن کے تیسرے قانون کے عین مطابق ہے کہ ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے جو قوت میں برابر لیکن سمت میں مخالف ہوتا ہے۔
مغرب کے فکری اثر سے اگر کوئی طبقہ کسی قدر محفوظ ہے تو وہ، وہ طبقہ ہے جسے مغرب کو پڑھنے کی نعمت میسر نہیں ہے یا آسان الفاظ میں جنہیں اتنی انگریزی نہیں آتی کہ وہ مغرب کو پڑھ سکے اور اس پڑھنے کے نتیجے میں اس سے متاثر ہونے کے اسباب اور رستے ہی پیدا کر سکے۔
پس سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں اگر کوئی معتدل رائے سامنے آ سکتی ہے تو اس کی امید روایتی علماء کے طبقے سے کی جا سکتی ہے۔ اور ان سب کا اس پر تقریبا اتفاق ہے کہ ٹیکنالوجی ویلیو نیوٹرل ہے، بھلے انہوں نے ان الفاظ کو استعمال نہ کیا ہو یا وہ ویلیو نیوٹرل کی اصطلاح کو نہ جانتے ہوں لیکن ان کے فتاوی کا خلاصہ یہی ہے، جمع کر کے دیکھ لو۔
ٹیکنالوجی کے بارے میں جو رائے "انصاری" مکتب فکر نے پھیلا اور عام کر دی ہے، وہ نہ تو سو فی صد درست ہے اور نہ ہی سو فی صد غلط ہے۔ لیکن انہوں نے اللہ کے فضل و کرم سے نوجوان اسکالرز کی ایک ایسی جماعت ضرور پیدا کر دی ہے جو اسمارٹ فون جیب میں رکھ کر اس کی شناعت ومضرت پر ایسی عمدہ گفتگو کر سکتے ہیں کہ کسی دار العلوم کے آخری درجہ کے طلباء تو کجا دار الافتاء کے مفتی بھی مسحور ہو جائیں۔
یہ اس ماڈرن سوسائٹی میں رہتے ہوئے ٹیکنالوجی کے استعمال نہ کرنے کے بارے ایک ایسے شاذ موقف پر ضد کر رہے ہیں کہ جس میں امت تو کجا ان کی اولاد کو بھی پناہ نہیں ملے گا۔ یہ دین ایسے موقف کا حامل کیسے ہو سکتا ہے کہ جس پر اربوں کی امت کی بجائے چار افراد کو لانا مشکل ہو جائے۔ فقہاء اور مفتی بھلے مغرب کو ککھ نہ جانتے ہوں، اور یہ ان کی خوبی ہے اور تمہاری خامی ہے، لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ کل کلاں کو تمہاری نسلیں بھی انہی کے بیانیے کی روشنی میں زندگی گزار رہی ہوں گی۔
جدید ٹیکنالوجی کے ضرر اور نقصانات سے انکار نہیں ہے لیکن اس کے بارے جو موقف آپ لوگ پیش کر رہے ہیں، وہ امت کو ایک فتنے سے نکال کر دوسرے فتنے میں ڈال دینے کے مترادف ہے۔ اور اس رہبانیت کے لیے صوفیانہ ڈسکورس سے کمک لینا مزید ایک حماقت ہے کہ وہ سب کا سب ضعیف اور موضوع روایات پر کھڑا ہے۔ امت اگر مجموعی حیثیت میں کسی ڈسکورس پر کھڑی ہو سکتی ہے تو وہ فقیہانہ اور قانونی ہے نہ کہ صوفیانہ اور اخلاقی۔ صوفیانہ اور اخلاقی ڈسکورس کوئی علمی پوزیشن لینے کے لیے بنیاد بن ہی نہیں سکتا، البتہ اس سے کسی علمی پوزیشن میں اعتدلال لانے کے لیے ضرور مدد لی جانی چاہیے۔
یہ صوفیانہ ڈسکورس ہی کے فضائل وبرکات ہیں کہ آج اکثر کو صحیح بخاری کی اس مستند ترین روایت کا علم نہیں ہے کہ بڑے گھر اور کھلے مکان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نعمت اور فضل قرار دیا لیکن یہ ضعیف روایت سب کو حفظ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کے "چوبارہ" بنانے کو اتنا ناپسند فرمایا کہ انہوں نے اسے گرا دیا تھا۔ ایک اور اعتبار سے بھی عرض کر دوں کہ یہ امت اپنی اجتماعی حیثیت میں گناہ گار ہے، لہذا اسے چلانے کے لیے گناہ گار مفتی زیادہ کارآمد ہیں، بنسبت متقی صوفیوں کے۔ مزید تفصیل اگر اللہ نے چاہا تو کسی مستقل تحریر میں عرض کر دوں گا۔
اس تحریر پر زاہد صدیق مغل صاحب کا تبصرہ :
چند گزارشات مختصرا عرض ہیں:
- انصاری سکول آف تھاٹ نامی کسی الگ چیز کا وجود نہیں
- کسی معاملے کے بارے میں رائے درست ہونے کا معیار یہ رکھنا کہ جس نے متعلقہ چیز کا مطالعہ نہیں کیا اس کی بات درست ہے، یہ کچھ دلچسپ و عجیب ہے۔ علماء کی تو ایک اکثریت کا یہ بھی حال ہے کہ ان کے نزدیک سائنس اور سوشل سائنس بھی ماشاء اللہ سے ویلیو نیوٹرل ہی ہے۔ اب اگر بالفرض کوئی شخص آپ کے "قرآن کے نظریہ تاریخ" کا لیکچر سن کر یہی کہے کہ یہ ایسی باتیں اس لئے کررہا کیونکہ اس نے مغربی نظریات کو پڑھ رکھا ہے" تو؟ چنانچہ متعلقہ علم سے ناواقفیت نہ تو کوئی "خوبی" ہے اور نہ ہی "غیر متاثر" ہونے کی دلیل، سائینس و ٹیکنالوجی کو لاعلمیت کی وجہ سے ویلیو نیوٹرل سمجھنا بھی متاثر شدہ رائے ہی ہے جو کچھ مغربی مفکرین ہی کے راستے ہمارے یہاں آئی ہے اور لوگ اس سنی سنائی سے متاثر شدہ ہیں
- اس رائے پر کئے جانے والا یہ اعتراض کہ "یہ راے قابل عمل نہیں" بنیادی طور پر نیا نہیں بلکہ خاصا پرانا ہے اور اس پر کافی کچھ پہلے بھی کہا جاچکا ہے۔ بجائے وہ سب دھرانے کے لئے میں اسی تناظر میں جواب دینا پسند کروں گا۔ مثلا کوئی شخص پردے کے مسائل پر آپ کی کتاب پڑھ کر یہ دلیل دے کہ دیکھئے ایسی بات لکھی ہے جس پر بایں معنی عمل ممکن نہیں کہ خود مصنف اور پاکستان کا تقریبا ہر دوسرا شخص ایسی ہی کسی جامعہ میں پڑھتا پڑھاتا ہے تو ایسی لاحاصل فکر کا کیا فائدہ؟ اس قبیل کی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ چنانچہ کسی رائے کے اصولا درست ہونے کے لئے یہ اصول محل نظر ہے کہ آیا وہ قابل عمل ہے یا نہیں، اگرچہ قابل عمل ہونے کو ہم غیر ضروری نہیں سمجھتے۔ کسی معاملے میں ایک رائے سو فیصد درست ہوسکتی ہے اگرچہ اس پر عمل ایک فیصد بھی ممکن نہ ہو۔ ہم نے انصاری صاحب یہ سیکھا ہے کہ تجزیہ کرتے ہوئے یہ نہ دیکھو کہ کیا ممکن ہے بلکہ یہ دیکھو کہ مقصود اصول کی رو سے کیا درست ہے۔ پھر یہ دیکھو کہ اس پر کس قدر عمل ممکن ہے، عین ممکن ہے کہ آخر میں نتیجہ یہ نکلے کہ "آج اس پر ایک فیصد بھی عمل ممکن نہیں" مگر اس طرز فکر کا فائدہ یہ ہوگا کہ تمہیں یہ معلوم ہوجائے گا کہ آج کو کس سمت بدلنا چاھئے۔
- رہی بات صوفیانہ طرز فکر پھیلانے کی تو یہ ایک نظریاتی و حکمت عملی کی چیز ہے، اس سے ضرور اختلاف کیا جاسکتا ہے۔
- آخری اور اہم بات۔ ہمیں اس بات پر بالکل اصرار نہیں کہ ہماری ہی رائے درست ہے اور نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ کسی کے جنت و جہنم میں جانے کا انحصار اس معاملے میں ہماری بات پر ایمان لانا ہے۔ عین ممکن ہے ھماری رائے بالکل غلط ہو۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
برادر حافظ زبیر کے اشکالات و سوالات پر چند مختصر گزارشات

زاہد صدیق مغل
برادر حافظ زبیر نے مغربی افکار کے مطالعے کے بارے میں ٹیکنالوجی کے مباحث پر انصاری صاحب کی طرف منسوب طرز فکر پر چند معروضات پیش کی ہیں۔ اس پر ان سے اختصار کے ساتھ درج ذیل ھلکی پھلکی گفتگو ہوئی:
دعوی: "مغرب کے فکری اثر سے اگر کوئی طبقہ کسی قدر محفوظ ہے تو وہ، وہ طبقہ ہے جسے مغرب کو پڑھنے کی نعمت میسر نہیں ہے یا آسان الفاظ میں جنہیں اتنی انگریزی نہیں آتی کہ وہ مغرب کو پڑھ سکے اور اس پڑھنے کے نتیجے میں اس سے متاثر ہونے کے اسباب اور رستے ہی پیدا کر سکے۔ پس سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں اگر کوئی معتدل رائے سامنے آ سکتی ہے تو اس کی امید روایتی علماء کے طبقے سے کی جا سکتی ہے۔ اور ان سب کا اس پر تقریبا اتفاق ہے کہ ٹیکنالوجی ویلیو نیوٹرل ہے (جنہوں نے مغرب کو پڑھ کر رائے قائم کی، انکی رائے مغرب ذدہ ہے)"
تبصرہ: کسی معاملے کے بارے میں رائے درست ہونے کا معیار یہ رکھنا کہ جس نے متعلقہ چیز کا مطالعہ نہیں کیا اس کی بات درست ہے، یہ کچھ دلچسپ و عجیب ہے۔ علماء کی تو ایک اکثریت کا یہ بھی حال ہے کہ ان کے نزدیک سائنس اور سوشل سائنس بھی ماشاء اللہ سے ویلیو نیوٹرل ہی ہے۔ اب اگر بالفرض کوئی شخص آپ کے "قرآن کے نظریہ تاریخ" کا لیکچر سن کر یہی کہے کہ یہ ایسی باتیں اس لئے کررہا کیونکہ اس نے مغربی نظریات کو پڑھ رکھا ہے" تو؟ چنانچہ متعلقہ علم سے ناواقفیت نہ تو کوئی "خوبی" ہے اور نہ ہی "غیر متاثر" ہونے کی دلیل، سائینس و ٹیکنالوجی کو لاعلمیت کی وجہ سے ویلیو نیوٹرل سمجھنا بھی متاثر شدہ رائے ہی ہے جو کچھ مغربی مفکرین ہی کے راستے ہمارے یہاں آئی ہے اور لوگ اس سنی سنائی سے متاثر شدہ ہیں۔
باقی ہمیں اس بات پر بالکل اصرار نہیں کہ ہماری ہی رائے درست ہے اور نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ کسی کے جنت و جہنم میں جانے کا انحصار اس معاملے میں ہماری بات پر ایمان لانا ہے۔ عین ممکن ہے ھماری رائے بالکل غلط ہو۔ یہ معاملات عقیدے سے نہیں نظریات کے باب سے ہیں، یعنی ایسے معاملات جن کے نتائج عقلی غور و فکر کے پیدا کردہ ہیں۔ پس اگر کوئی ان معاملات میں ان نظریات کو نہیں مانتا جو ہم کہتے ہیں تو بھی کوئی مسئلہ نہیں۔
سوال: "مگر انصاری صاحب کی فکر سے متاثر بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جو اسے ایک عقیدے کے طور ہی بیان کرتے ہیں۔"
تبصرہ: ممکن ہے ایسا ہو اور ایسا ہونے کے امکان کو میں بعید از قیاس نہیں سمجھتا کیونکہ اس کا شکار ہوجانا ایک عام سی انسانی نفسیات ہے۔ البتہ جس شخص نے خود انصاری صاحب کے ساتھ کچھ وقت گزارا ہے وہ جانتا ہے کہ انصاری صاحب نے اپنی باتوں کو ایک گروہی شکل اختیار نہ کرنے دینے کے لئے کتنی شعوری کوشش کی ہے۔ نیز ان کے افکار سے متاثر ہر مصنف (مثلا خالد جامعی صاحب) کی تحریروں میں جو سختی کا اظہار ملتا ہے اس سب کو انصاری صاحب کے کھاتے میں نہ ڈالا جائے۔ ان مصنفین کی بہت سی باتیں ان کی اپنی ہیں جو وہ انصاری صاحب کے تجزئیے کے ساتھ اپنے فہم و مطالعے سے ملا کر بیان کرتے ہیں۔
سوال: "یہ طعنہ دینا کس حد تک درست ہے کہ چونکہ علماء کو مغرب کا پتہ نہیں ہے لہذا یہ مغربی فکر سے جلد متاثر ہو جاتے ہیں؟ بھئی، جسے مغرب کا پتہ ہی نہیں، اس کے تو اس فکر سے متاثر ہونے کے چانسز کم ہی ہیں، زیادہ خطرے میں تو وہ ہے جسے کچھ پتہ ہے"
تبصرہ:
دراصل یہ طعنہ نہیں تجزیہ ہے۔ دیکھئے مغربی علوم وغیرہ ہم سے الگ تھلگ و غیر متعلق کسی میوزیم میں پڑی کوئی چیز تو ہے نہیں کہ اگر میں اس کے بارے میں مطالعہ نہ کروں تو متاثر ہونے کا امکان نہیں۔ معاملہ تو یہ ہے کہ یہ ھماری زندگی کا عام چلن ہے، ھماری ریاستی پالیسیوں کا ماخذ ہیں، ھمارے بچوں کی سکولنگ و جامعات کا سلیبس ہے۔ ایسے میں "غیر متاثر شدہ" ہونے کا کیا مطلب؟ "ڈیلی کاروبارزندگی میں شامل" اس عنصر کے بارے میں مختلف آراء تو فرد کے پیدا ہونے سے پہلے ہی موجود ہیں جن میں سے "بعض مارکیٹ میں زیادہ عام ہیں" اور وہ ان میں سے کسی کو اختیار کرتا ہے اور عام اتفاق اسی رائے کو اختیار کرنا ہوتا ہے جو "مارکیٹ میں ان ہے"، اور بس۔ اس معاملے میں چوائس کا کوئی معاملہ ہے ہی نہیں
اعتراض: "ٹیکنالوجی کے بارے میں جو رائے "انصاری" مکتب فکر نے پھیلا اور عام کر دی ہے، وہ نہ تو سو فی صد درست ہے اور نہ ہی سو فی صد غلط ہے۔ لیکن انہوں نے اللہ کے فضل و کرم سے نوجوان اسکالرز کی ایک ایسی جماعت ضرور پیدا کر دی ہے جو اسمارٹ فون جیب میں رکھ کر اس کی شناعت ومضرت پر ایسی عمدہ گفتگو کر سکتے ہیں کہ کسی دار العلوم کے آخری درجہ کے طلباء تو کجا دار الافتاء کے مفتی بھی مسحور ہو جائیں۔ یہ اس ماڈرن سوسائٹی میں رہتے ہوئے ٹیکنالوجی کے استعمال نہ کرنے کے بارے ایک ایسے شاذ موقف پر ضد کر رہے ہیں کہ جس میں امت تو کجا ان کی اولاد کو بھی پناہ نہیں ملے گا"۔
تبصرہ: اس رائے پر کئے جانے والا یہ اعتراض کہ "یہ رائے قابل عمل نہیں" بنیادی طور پر نیا نہیں بلکہ خاصا پرانا ہے اور اس پر کافی کچھ پہلے بھی کہا جاچکا ہے۔ بجائے وہ سب دھرانے کے میں اسی تناظر میں جواب دینا پسند کروں گا۔ مثلا کوئی شخص پردے کے مسائل پر آپ کی کتاب پڑھ کر یہ دلیل دے کہ دیکھئے ایسی بات لکھی ہے جس پر بایں معنی عمل ممکن نہیں کہ خود مصنف اور پاکستان کا تقریبا ہر دوسرا شخص ایسی ہی کسی جامعہ میں پڑھتا پڑھاتا اور اپنی اولاد کو بھی بھیجتا ہے جہاں ان احکامات پر عمل ممکن نہیں، تو ایسی لاحاصل فکر کا کیا فائدہ؟ اس قبیل کی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ چنانچہ کسی رائے کے اصولا درست ہونے کے لئے یہ اصول محل نظر ہے کہ آیا وہ قابل عمل ہے یا نہیں، اگرچہ قابل عمل ہونے کو ہم غیر ضروری نہیں سمجھتے۔ کسی معاملے میں ایک رائے سو فیصد درست ہوسکتی ہے اگرچہ اس پر عمل ایک فیصد بھی ممکن نہ ہو کیونکہ "قابل عمل" ہونے کا تعلق "امکانات" سے ہے جو بدلتے بھی رہتے ہیں اور بدلے جا بھی سکتے ہیں۔ ہم نے انصاری صاحب یہ سیکھا ہے کہ تجزیہ کرتے ہوئے یہ نہ دیکھو کہ کیا ممکن ہے بلکہ یہ دیکھو کہ مقصود اصول کی رو سے کیا درست ہے۔ پھر یہ دیکھو کہ اس پر کس قدر عمل ممکن ہے، عین ممکن ہے کہ آخر میں نتیجہ یہ نکلے کہ "آج اس پر ایک فیصد بھی عمل ممکن نہیں" مگر اس طرز فکر کا فائدہ یہ ہوگا کہ تمہیں یہ معلوم ہوجائے گا کہ آج کو کس سمت بدلنا چاہئے۔
دوسری بات یہ کہ ہماری اکثر گفتگو کا مخاطب فرد نہیں بلکہ اجتماعی اکائیاں (مثلا اسلامی جماعتیں و ریاست) ہے کہ وہ کن خطوط پر پالیسی سازی کرے۔ پس جو بہت کچھ فرد کے لئے ممکن نہیں ہوتا اس میں سے بہت کچھ ایک اجتماع کے لئے ممکن ہوتا ہے۔
اعتراض آپ لوگ صوفیانہ طرز کی رھبانیت کو پھیلانا چاہتے ہیں۔
تبصرہ: یہ ایک نظریاتی و حکمت عملی کے باب کی چیز ہے، اس سے ضرور اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب مسائل کی فکری تحلیل اور ان سے نبٹنے کے لئے حکمت عملی میں واضح طور پر فرق کرتے ہیں۔ انکے شاگردوں کی بڑی اکثریت ان کے فکری تجزئیے سے مکمل اتفاق کرنے کے باوجود انکی حکمت عملی سے ان اسے اختلاف کرتی ہے اور انصاری صاحب اسے اپریشئیٹ کرتے ہیں
 
Top