• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام کے بنیادی عقائد

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
عقلی اعتبار سے اس کا رد

سونے والا کبھی سچے خواب بھی دیکھتا ہے اور کبھی اصلی شکل وصورت میں نبی ﷺ کی زیارت بھی کر لیتا ہے اور جس نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کے اوصاف کے مطابق دیکھا بلاشبہ اس نے آپ ہی کو دیکھا،حالانکہ سونے والا اس فرد سے جسے وہ خواب میں دیکھتا ہے،بہت دور اپنے کمرے کے بستر پر محو خواب ہوتا ہے۔اگر یہ تمام چیزیں دنیاوی حالات میں ممکن ہیں تو احوال آخرت میں کیونکر ناممکن ہو سکتی ہیں؟
جہاں تک منکروں کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ اگر قبر کو کھول کر مُردے کی ھالت دیکھی جائے تو وہ اسی حالت میں نظر آتا ہے جس میں دفن کیا گیا تھا ،اور قبر میں کسی قسم کی کشادگی یا تنگی بھی نظر نہیں آتی تو اس کا جواب کئی ایک طرح سے دیا جا سکتا ہے:
*شریعت میں جو کچھ وارد ہے اس کا اس طرح کے باطل اور گمراہ کن شبہات کے ساتھ تقابل ہر گز جائز نہیں۔ان شکوک و شبہات کے ساتھ شریعت پر اعتراض کرنے والا شخص شریعت میں موجود نصوص و دلائل پر کما حقہ غوروفکر کرے تو اس پر ان شبہات کا بطلان واضح ہو جائے گا۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

وکم من عائب قولا صحیحا
وافتہ من الفھم السقیم

"کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو اپنے بیمار فہم و ادراک کی وجہ سے صحیح باتوں میں طعن و تشنیع اور عیب جوئی کرتے ہیں۔"
*عالم برزخ کے احوال کا تعلق غیبی امور سے ہے ،ان کا حسی ادراک ممکن نہیں۔اگر حس کے ذریعے سے ان کی حقیقت کا جانا ممکن ہوتا تو "ایمان بالغیب"کا سرے سے کوئی فائدہ ہی باقی نہ رہتا بلکہ اس طرح تو غیب پر ایمان لانے والے اور جان بوجھ کر اس کی تصدیق کے منکر ،دونوں ہی برابر ہو جاتے۔
*قبر میں عذاب و راحت یا کشادگی و تنگی کی کیفیات صرف میت ہی محسوس کر سکتی ہے۔اس کے علاوہ کوئی دوسرا شخص ان کیفیات کا احساس و ادراک نہیں کر سکتا۔اس کی مثال ٹھیک اس شخص کے خواب جیسی ہے جو نیند کی حالت میں کوئی تنگ و تاریک اور وحشت ناک مقام،یا نہایت دلفریب اور کشادہ جگہ دیکھتا ہے اور اپنے خواب کے احوال کے مطابق غمگین یا خوش ہوتا ہے لیکن اس کے برعکس اس کے کمرے،بستر اور چادر میں سونے والا کوئی دوسرا فرد ان تمام کیفیات سے قطعی بے خبر رہتا ہے۔
اس کی ایک اور واضح مثال یہ بھی ہے کہ نبی ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوتی تھی اور آپ اپنے صحابہ کے درمیان موجود ہوا کرتے تھے لیکن وحی کو صرف آپ ﷺ ہی سن پاتے تھے جبکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو وہ وحی سنائی دیتی تھی۔اور کبھی کبھی فرشتہ انسانی شکل میں حاضر ہو کر آپ ﷺ سے گفتگو بھی کرتا تھا لیکن صحابہ کرام اس فرشتے کو (نہ)دیکھ پاتے تھے نہ اس کی باتیں سن سکتے تھے۔اور کبھی کبھی دیکھ بھی لیتے اور گفتگو سن بھی لیتے تھے۔
*مخلوق کی قوت ادراک محدود ہے۔انسان کسی چیز کی حقیقت اسی حد تک پا سکتا ہے جس حد حقیقت کوپانا نا ممکن ہے۔مثلا ساتوں آسمان،زمین اور جو جو چیزیں ان میں موجود ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتی ہیں ۔کبھی کبھار اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا ہے ان کی تسبیح و تحمید سنا دیتا ہے لیکن یہ حقیقت ہم سے پوشیدہ ہے۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں بیان فرمائی ہے:
تُسَبِّحُ لَهُ ٱلسَّمَٰوَٰتُ ٱلسَّبْعُ وَٱلْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ وَإِن مِّن شَىْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِۦ وَلَٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ۗ
ترجمہ: ساتوں آسمان اور زمین اور جو لوگ ان میں ہیں سب اسی کی تسبیح کرتے ہیں۔ اور (مخلوقات میں سے) کوئی چیز نہیں مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے۔ لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے (سورۃ الاسراء،آیت 44)
اسی طرح شیاطین اور جن زمین پر ادھر اُدھر دندناتے پھرتے ہیں۔اور جنوں کی ایک جماعت رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں حاضر ہوئی ،کاموشی سے آپ کی قراءت سنی اور مبلغ کی حیثیت سے اپنی قوم کی طرف لوٹ گئی اور وہ جماعت ان تمام چیزوں کے با وجود پوشیدہ رہی۔
اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَٰبَنِىٓ ءَادَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ ٱلشَّيْطَٰنُ كَمَآ أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ ٱلْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْءَٰتِهِمَآ ۗ إِنَّهُۥ يَرَىٰكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُۥ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ۗ إِنَّا جَعَلْنَا ٱلشَّيَٰطِينَ أَوْلِيَآءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿27﴾
ترجمہ : اے آدم کی اولاد تمہیں شیطان نہ بہکائے جیسا کہ اس نے تمہارے ماں باپ کو بہشت سے نکال دیا ان سے ان کے کپڑے اتروائے تاکہ تمہیں ان کی شرمگاہیں دکھائے وہ اور اس کی قوم تمہیں دیکھتی ہے جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھتے ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کا دوست بنادیا ہے جوایمان نہیں لاتے (سورۃ الاعراف،آیت 27)
پس جب مخلوق ہر موجود چیز کی اصل حقیقت کو نہیں پا سکتی تو اس کے لیے غیب کے ثابت شدہ ناقابل ادراک امور کا انکار قطعی جائز نہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
تقدیر پر ایمان

"قدر" یعنی تقدیر سے مراد اللہ تعالیٰ کا اپنے علم اور حکمت کے مطابق ساری کائنات کا ان کے وجود سے پہلے اندازہ اور فیصلہ کرنا ہے۔تقدیر پر ایمان چار امور پر مشتمل ہے:
(1)اس بات پر ایمان کہ اللہ تعالیٰ ازل سے ابد تک ہر چیز سے اجمالا اور تفصیلا واقف ہے،چاہے اس کا تعلق خود اپنے اعمال سے ہو،یا اپنے بندوں کے افعال سے۔
(2)اس بات پر ایمان کہ اللہ تعالیٰ نے سب کچھ لوح محفوظ ،یعنی نوشتہ تقدیر میں لکھ رکھا ہے۔انہی دو امور کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ ٱللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِى ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ ۗ إِنَّ ذَٰلِكَ فِى كِتَٰبٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى ٱللَّهِ يَسِيرٌۭ ﴿70﴾
ترجمہ: کیا تجھے معلوم نہیں کہ الله جانتا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے یہ سب کتاب میں لکھا ہوا ہے یہ الله پر آسان ہے (سورۃ الحج،آیت 70)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كَتَبَ اللَّهُ مَقَادِيرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ قَالَ وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ.
"اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیریں آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے ہی لکھ دی تھیں اور اس کا عرش پانی پر ہے ۔"(صحیح مسلم،القدر،باب حجاج آدم و موسی علیھما السلام ،حدیث:2653)

(3) اس بات پر ایمان کہ تمام کائنات صرف اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی سے وقوع پزیر ہے،خواہ اس کا تعلق خود باری تعالیٰ کے اپنے عمل سے ہو یا مخلوقات کے افعال و اعمال سے۔اللہ تعالیٰ اپنے عمل کے بارے میں فرماتا ہے:
وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ وَيَخْتَارُ ۗ
ترجمہ: اور تیرا رب جو چاہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہے پسند کرے (سورۃ القصص،آیت 68)
ایک مقام پر یوں ارشاد ہوا:
وَيَفْعَلُ ٱللَّهُ مَا يَشَآءُ ﴿27﴾
ترجمہ: الله جوچاہتا ہے کرتا ہے (سورۃ ابراھیم،آیت 27)
ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ
ترجمہ: "وہی تو ہے جو تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں جس طرح چاہتا ہے ،تمہاری شکل و صورت بناتا ہے۔"(سورۃ آل عمران،آیت 6)
اور مخلوقات کے افعال و اعمال کے متعلق فرماتا ہے:
وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَيْكُمْ فَلَقَٰتَلُوكُمْ ۚ
ترجمہ: اگر اللہ چاہتا تو ان کو تم پر غالب کردیتا تو وہ تم سے ضرور لڑتے (سورۃ النساء،آیت 90)
ایک اور جگہ یوں ارشاد ہوا:
وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ﴿137﴾
ترجمہ: اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے تو ان کو چھوڑ دو ان کو اور جو یہ غلط باتیں بنا رہے ہیں(سورۃ الانعام،آیت 137)

(4)اس بات پر ایمان کہ پوری کائنات اللہ تعالیٰ ہی کی پیدا کردہ ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ٱللَّهُ خَٰلِقُ كُلِّ شَىْءٍۢ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ وَكِيلٌۭ ﴿62﴾
ترجمہ: الله ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی ہر چیز کا نگہبان ہے (سورۃ الزمر،آیت 62)
ایک مقام پر الفاظ یوں ہیں:
وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍۢ فَقَدَّرَهُۥ تَقْدِيرًۭا ﴿2﴾
ترجمہ: اور اس نے ہر چیز کو پیدا کر کے اندازہ پر قائم کر دیا (سورۃ الفرقان،آیت 2)
اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ،حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بابت فرمایا کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا:
وَٱللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ ﴿96﴾
ترجمہ: حالانکہ الله ہی نے تمہیں پیدا کیا اور جو تم بناتے ہو (سورۃ الصافات،آیت 96)
قبل ازیں ہم نے "تقدیر پر ایمان" کا جو وصف بیان کیا ہے وہ بندوں کے اختیاری افعال پر ان کو حاصل شدہ قدرت اور مشیت کے منافی نہیں ہے،کیونکہ شریعت اور امر واقع دونوں ہی اس کے لیے اس کے ثبوت پر دلالت کرتی ہیں۔
شریعت سے ثبوت
مشیت،یعنی اپنی مرضی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
فَمَن شَآءَ ٱتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِۦ مَابًا ﴿39﴾
ترجمہ: پس جو شخص چاہے اپنے پروردگار کے پاس ٹھکانہ بنا ئے (سورۃ النباء،آیت 39)
ایک جگہ ارشاد الہی ہے:
فَأْتُوا۟ حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ
ترجمہ: پس تم اپنی کھیتیوں میں جیسے چاہو آؤ (سورۃ البقرہ،آیت 223)
اور مخلوق کی قدرت کے متعلق ارشاد ہوتا ہے:
فَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ مَا ٱسْتَطَعْتُمْ وَٱسْمَعُوا۟ وَأَطِيعُوا۟
ترجمہ: پس جہاں تک ہوسکے اللہ سے ڈرو اور (اس کے احکام کو) سنو اور (اس کے) فرمانبردار رہو (سورۃ التغابن،آیت 16)
ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا ٱكْتَسَبَتْ ۗ
ترجمہ: الله کسی کو اس کی طاقت کے سوا تکلیف نہیں دیتا نیکی کا فائدہ بھی اسی کو ہو گا اور برائی کی زد بھی اسی پر پڑے گی (سورۃ البقرہ،آیت 286)

امر واقع سے ثبوت
ہر انسان جانتا ہے کہ اسے کچھ نہ کچھ قدرت اور اختیار ضرور حاصل ہے جس کی وجہ سے وہ کسی کام کے کرنے یا چھوڑنے کا مختار ہے اور وہ کسی فعل کے "ارادی" مثلا چلنے اور "غیر ارادی" مثلا کانپنے ،میں فرق کرتا ہے،لیکن کسی بندے کی مشیت اور قدرت ،اللہ تعالیٰ ہی کی مشیت اور قدرت کے تابع ہوتی ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لِمَن شَآءَ مِنكُمْ أَن يَسْتَقِيمَ ﴿28﴾وَمَا تَشَآءُونَ إِلَّآ أَن يَشَآءَ ٱللَّهُ رَبُّ ٱلْعَٰلَمِينَ ﴿29﴾
ترجمہ: (یعنی) اس کے لیے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر وہی جو اللہ رب العالمین چاہے (سورۃ التکویر،آیت 28-29)
چونکہ پوری کائنات اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے ۔اس لیے اس کے دائرہ ملکیت میں کوئی بھی چیز اس کے علم اور مشیت کے بغیر رونما نہیں ہو سکتی۔
"تقدیر پر ایمان" کی جو تعریف ہم نے بیان کی ہے وہ کسی فرد کے لیے فرائض سے غفلت برتنے یا نافرمانی کے ارتکاب کی اجازت کی دلیل نہیں بن سکتی،چنانچہ اس سے دلیل پکڑنا کئی اعتبار سے باطل ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
سَيَقُولُ ٱلَّذِينَ أَشْرَكُوا۟ لَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَآ أَشْرَكْنَا وَلَآ ءَابَآؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن شَىْءٍۢ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ حَتَّىٰ ذَاقُوا۟ بَأْسَنَا ۗ قُلْ هَلْ عِندَكُم مِّنْ عِلْمٍۢ فَتُخْرِجُوهُ لَنَآ ۖ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا ٱلظَّنَّ وَإِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ ﴿148﴾
ترجمہ: جو لوگ شرک کرتے ہیں وہ کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا (شرک کرتے) اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے اسی طرح ان لوگوں نے تکذیب کی تھی جو ان سے پہلے تھے یہاں تک کہ ہمارے عذاب کا مزہ چکھ کر رہے کہہ دو کیا تمہارے پاس کوئی سند ہے (اگر ہے) تو اسے ہمارے سامنے نکالو تم محض خیال کے پیچھے چلتے اور اٹکل کی تیر چلاتے ہو (سورۃ الانعام،آیت 148)
اگر "نوشتہ تقدیر" ان کے لیے حجت بن سکتا تو اللہ تعالیٰ خواہ مخواہ کفار اور مشرکین کو اپنے عذاب کا مزہ نہ چکھاتا۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
رُّسُلًۭا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى ٱللَّهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ ٱلرُّسُلِ ۚ وَكَانَ ٱللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًۭا﴿165﴾
ترجمہ: (سب) پیغمبروں کو (اللہ نے) خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے (بنا کر بھیجا تھا) تاکہ پیغمبروں کے آنے کے بعد لوگوں کو اللہ پر الزام کا موقع نہ رہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے (سورۃ النساء،آیت 165)
اسی طرح اگر مخالفین کے لیے "نوشتہ تقدیر" دلیل بن سکتا تو رسولوں کو بھیج کر ان کی "حجت" کو باطل نہ ٹھہرایا جاتا کیونکہ پیغمبروں کو بھیجنے کے بعد اگر کوئی مخالفت ہوتی ہے تو وہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردی تقدیر ہی سے واقع ہوتی ہے۔
امام بخاری اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیھم حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
(ما منكم من أحد إلا قد كتب مقعده من النار أو من الجنة). فقال رجل من القوم: ألا نتكل يا رسول الله؟ قال: (لا، اعملوا فكل ميسَّر. ثم قرأ: {فأما من أعطى واتقى}. الآية)
"تم میں سے ہر شخص کا ٹھکانہ اللہ نے جنت یا جہنم میں لکھ دیا ہے ۔یہ سن کر جماعت صحابہ میں سے ایک شخص نے سوال کیا: یا رسول اللہ ! کیا ہم اسی پر بھروسہ نہ کر لیں۔آپ (ﷺ) نے فرمایا : نہیں،عمل کرو کیونکہ ہر ایک کے لیے وہ کام آسان بنا دیا گیا ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے ،پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ()(ترجمہ: تو جس نے دیا اور اللہ سے ڈرتا رہا۔۔۔۔الایۃ"(صحیح بخاری ،القدر،باب وکان امر اللہ قدر ا مقدورا،حدیث :6605)
متذکرہ بالا الفاظ صحیح بخاری کے ہیں ،اور صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں:
(فکل میسر لما خلق لہ)
"ہر ایک کے لیے وہ کام آسان بنا دیا گیا ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔"(صحیح مسلم ،القدر ،باب کیفیۃ خلق الآدمی،فی بطن امہ۔۔۔۔۔،حدیث :2647)
پس معلوم ہوا کہ نبی ﷺ نے عمل کرنے کا حکم دیا ہے اور عمل کو چھوڑ کر صرف تقدیر ہی پر بھروسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔
بے شک اللہ تعالیٰ نے بندے کو اوامر پر عمل اور نواہی سے اجتناب کرنے کا حکم دیا ہے لیکن اس کو اس کی طاقت سے بڑھ کر کسی چیز کا "مکلف" نہیں ٹھہرایا ہے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ مَا ٱسْتَطَعْتُمْ
ترجمہ: پس جہاں تک ہوسکے اللہ سے ڈرو (سورۃ التغابن،آیت 16)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ
ترجمہ: الله کسی کو اس کی طاقت کے سوا تکلیف نہیں دیتا (سورۃ البقرہ،آیت 286)
اگر بندہ کسی فعل کی انجام دہی پر مجبور ہوتا تو وہ ہر اس فعل کو انجام دینے پر بھی مجبور ہو جاتا جس سے چھٹکارا پانے کی اس میں استطاعت ہے۔لیکن یہ چیز باطل ہے،لہذا اگر کسی سے جہالت،نسیان (بھول) اور اکراہ (زبردستی) کے سبب کوئی مصیبت کا کام سر زد ہوجائے تو اس پر کوئی گناہ نہ ہو گا،کیونکہ وہ معذور ہے۔
اللہ تعالیٰ نے "نوشتہ تقدیر" کو انتہائی پوشیدہ اور صیغہ راز میں رکھا ہے،چنانچہ جس چیز کا پہلے سےاندازہ ٹھہرایا جا چکا ہے،اس کے رونما ہونے والے بعد ہی اس کا علم ہوتا ہے۔لیکن جب بنہ کوئی کام کرتا ہے تو وہ پہلے سے جانتا ہے کہ وہ کس کام کا ارادہ رکھتا ہے،پس اس کے فعل کا ارادہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بارے میں اس کے علم پر مبنی نہیں ہوتا۔یہ چیز نافرمانی کے کاموں پر تقدیر سے استدلال کی نفی کرتی ہے،کیونکہ جس چیز کا علم ہی نہ ہو وہ کسی امر کے لیے دلیل کیسے بن سکتی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ انسان دنیاوی معاملات میں ہر پسند اور نفع بخش چیز کا حریص ہوتا ہے ،اور جب تک اسے پا نہ لے اس کا متمنی و متلاشی رہتا ہے ۔جبکہ نا پسندیدہ اور غیر نفع بخش چیزوں کی طرف ہر گز توجہ نہیں دیتا،اور اپنی اس توجہ پر "تقدیر" سے دلیل پکڑتا ہے تو امور دین میں اس کے لیے جو چیزیں نفع بخش ہو سکتی ہیں ان کو چھوڑ کر تکلیف دہ چیزوں کی طرف اس کا پلٹنا اور پھر اس پر "نوشتہ تقدیر" سے استدلال کرنا کیوں کر درست ہو سکتا ہے؟کیا ان دونوں (دینی اور دنیاوی ) امور کا معاملہ یکساں نہیں ہے؟
اس چیز کی مزید وضاحت کے لیے ہم یہاں دو مثالیں پیش کرتے ہیں:
(1)اگر ایک انسان کے سامنے دو راستے ہوں ۔ایک راستہ کسی ایسے شہر کی طرف بکلتا ہو جہاں بد نظمی ،قتل و غارت ،لوٹ مار،عصمت دری،خوف و ہراس اور بھوک کا راج ہو،اور دوسرا راستہ کسی ایسے شہر کی طرف جا کر ختم ہوتا ہو جہاں ہر طرف امن و امان،خوش انتظامی ،عیش و آرام ،آسودہ حالی،احترام آدمیت،عزت و آبرو اور جان و مال محفوظ ہو،تو وہ کون سا راستہ اختیار کرے گا؟
ظاہر ہے کہ وہ دوسرا راستہ ہی اختیار کرے گا جو ایک ایسے منظم فلاحی شہر پر جا کر ختم ہوتا ہے جہاں چاروں طرف امن و امان ہے۔جب کوئی عقل مند آدمی "نوشتہ تقدیر"کو حجت بنا کر بد نظمی،خوف و ہراس اور لوٹ مار والے شہر کی راہ نہیں لہتا تو جو شخص جنت کا راستہ چھوڑ کر جہنم کا راستہ اختیار کرے وہ "نوشتہ تقدیر" کا سہارا کس طرح لے سکتا ہے؟
(2)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ڈاکٹر کسی مریض کو دوا پینے کی تاکید کرتا ہے تو وہ اسے نہ چاہنے کے با وجود پی لیتا ہے،اسی طرح جب وہ کسی غذا کے کھانے سے منع کرتا ہے تو مریض رغبت کے باوجود وہ غذا چھوڑ دیتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ مریض اپنی سلامتی اور شفا ہی کےلیے کرتا ہے ،"نوتشہ تقدیر" کو دلیل بنا کر ایسا ہرگز نہیں کرتا کہ نا پسندیدہ دوا پینے سے انکار کرے اور وہ ممنوعہ غذائیں کھاتا رہے جو اس کے لیے مضر ہیں۔پس یہ کیسے درست ہو سکتا ہے کہ انسان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کو چھوڑ کر وہ چیزیں اپنائے جن سے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) نے منع فرمایا ہے ،اور پھر اس پر "نوشتہ تقدیر" سے دلیلیں لیتا پھرے۔
"نوشتہ تقدیر" کو دلیل بنا کر واجبات کو چھوڑنے ،یا معصیت کے کام کرنے والے شخص پر اگر کوئی شخص ظلم و زیادتی کرے ،اس کا مال و اسباب چھین لے،یا اس کی عزت پامال کرے،اور پھر "تقدیر" سے دلیل پکڑتے ہوئے یہ کہے کہ مجھے ملامت مت کرو کیونکہ میرا ظلم و زیادتی تو محض اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے ہے ،تو وہ یہ دلیل ہرگز قبل نہیں کرے گا۔پس جب وہ "تقدیر" کی دلیل کو اپنے اوپر کیے جانے والے کسی دوسرے شخص کے ظلم و ستم کے لیے قبول نہیں کرتا،تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق و فرائض میں اپنی کوتاہی پر اسے کس طرح دلیل بناتا ہے؟
اس سلسلے میں لگے ہاتھوں ایک واقعہ سن لیجیے۔امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک طور کا مقدمہ پیش ہوا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے ہاتھ قلم کرنے کا حکم جاری فرمایا۔اس نے عرض کی "اے امیر المومنین!نرمی کیجیےکیونکہ میں نے یہ چوری صرف اللہ تعالیٰ کی "قضا و قدر" سے کی تھی ۔یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "ہم بھی تو تیرا ہاتھ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی قضا و قدر سے کاٹ رہے ہیں۔"
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
تقدیر پر ایمان کے ثمرات

• کسی "سبب" کو اختیار کرتے وقت اس سبب کی بجائے صرف اللہ تعالیٰ پر اعتماد کرنا،کیونکہ ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی "قضاو قدر" سے ہوتی ہے۔
• کوئی مراد بر آنے پر خودپسندی میں مبتلا نہ ہو،کیونکہ مراد کا بر آنا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نعمت ہے جسے باری تعالیٰ نے کامیابی کے اسباب کے نتیجے میں "مقدر" فرمایا ہے،چنانچہ انسان کا خود پسندی میں مبتلا ہونا،حصول نعمت پر اسے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے سے غافل کر دیتا ہے۔
• اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کے مطابق انسان پر جو کچھ بھی گزرے اس پر مطمئن رہنا،چنانچہ وہ کسی پسندیدہ چیز کے چھن جانے،یا کسی آزمائش سے دو چار ہونے،یا کسی نا پسندیدہ معاملے کے ظہور پر قلق و اضطراب کا شکار نہیں ہوتا۔اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ یہ سب کچھ اُس اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک اور کالق ہے اور جو کچھ "مقدر" ہو چکا ہے وہ بہر صورت ہو کر رہے گا۔اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
مَآ أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍۢ فِى ٱلْأَرْضِ وَلَا فِىٓ أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِى كِتَٰبٍۢ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَآ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى ٱللَّهِ يَسِيرٌۭ ﴿22﴾لِّكَيْلَا تَأْسَوْا۟ عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا۟ بِمَآ ءَاتَىٰكُمْ ۗ وَٱللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍۢ فَخُورٍ ﴿23﴾
ترجمہ: کوئی مصیبت ملک پر اور خود تم پر نہیں پڑتی مگر پیشتر اس کے کہ ہم اس کو پیدا کریں ایک کتاب میں (لکھی ہوئی) ہے۔ (اور) یہ (کام) اللہ کو آسان ہے تاکہ جو (مطلب) تم سے فوت ہوگیا ہو اس کا غم نہ کھایا کرو اور جو تم کو اس نے دیا ہو اس پر اترایا نہ کرو۔ اور اللہ کسی اترانے اور شیخی بگھارنے والے کو دوست نہیں رکھتا (سورۃ الحدید،آیت 22-23)

اور نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
(عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ.)
مومن کا بھی عجب حال ہے، اس کے ہر معاملے میں بھلائی ہی بھلائی ہے۔ اور یہ بات سوائے مومن کے کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اگر اس کو خوشی حاصل ہوئی اور اس نے شکر ادا کیا تو اس میں بھی ثواب ہے اور جو اس کو نقصان پہنچا اور اس پر صبر کیا، تو اس میں بھی ثواب ہے۔(صحیح مسلم،الزہد،باب المومن امرہ کلہ خیر،حدیث :2999)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
تقدیر کے بارے میں دو گروہ گمراہی کا شکا ہوئے
جبریہ
جو اس بات کے قائل ہیں کہ بندہ اپنے ہر عمل پر محض مجبور ہیں،اس میں اس کے اپنے ارادہ اور قدرت کا کوئی دخل نہیں۔
قدریہ
جو اس بات کے قائل ہیں کہ بندہ اپنے ارادے اور قدرت کے ساتھ عمل کرنے میں خودمختار ہے اور اس کے عمل میں اللہ تعالیٰ کی مرضی اور قدرت بے اثر ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
نظریہ جبریہ،شریعت اور امر واقع دونوں لحاظ سے باطل ہے

اللہ تعالیٰ نے بندے کے لیے ارادے اور مشیت کا اثبات کیا ہے اور عمل کی نسبت بھی اسی کی طرف کی ہے،چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الْآخِرَةَ
ترجمہ: "تم میں سے بعض لوگ دنیا چاہتے ہیں اور بعض آخرت چاہتے ہیں"(سورۃ آل عمران،آیت 152)
اور ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے:
وَقُلِ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَن شَآءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَآءَ فَلْيَكْفُرْ ۚ إِنَّآ أَعْتَدْنَا لِلظَّٰلِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَا ۚ
ترجمہ: اور کہہ دو سچی بات تمہارے رب کی طرف سے ہے پھر جو چاہے مان لے اور جو چاہے انکار کر دے بے شک ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے انہیں اس کی قناتیں گھیر لیں گی (سورۃ الکہف،آیت 29)
اور ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَّنْ عَمِلَ صَٰلِحًۭا فَلِنَفْسِهِۦ ۖ وَمَنْ أَسَآءَ فَعَلَيْهَا ۗ وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّٰمٍۢ لِّلْعَبِيدِ ﴿46﴾
ترجمہ: جو کوئی نیک کام کرتاہے تو اپنے لیے اور برائی کرتا ہے تو اپنے سر پر اور آپ کا رب تو بندوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا (سورۃ حم السجدۃ،آیت 46)
"جبریہ" کی تردید امر واقع کی روشنی میں
ہر انسان اختیاری اور غیر اختیاری اعمال کا فرق جانتا ہے۔اختیاری افعال وہ ہیں ج کو وہ اپنے ارادے سے کرتا ہے،مثلا: کھانا پینا اور خرید و فروخت وغیرہ ،اور غیر اختیاری افعال وہ ہیں جو اس پر بغیر ارادہ لاگو ہو جاتے ہیں،مثلا : بخار کی شت سے بدن کانپنا،اور بلندی سے پستی کی طرف گرنا وغیرہ۔اختیاری اور غیر اختیاری اعمال کے درمیان فرق سے ہر فرد اچھی طرح واقف ہے۔
پہلی قسم،یعنی اختیاری کی بجا آوری میں کام کرنے والا،اپنے ارادے میں خودمختار ہوتا ہے اور اس پر کسی قسم کا کوئی جبر نہیں ہوتا لیکن دوسری قسم،یعنی غیر اختیاری افعال میں کسی کام کے وقوع پذیر ہوتے وقت انسان مختار نہیں ہوتا اور نہ اس میں اس ارادے کا کوئی دخل ہوتا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
قدریہ کا نظریہ ،شریعت اور عقل دونوں اعتبار سے مردود ہے

بے شک اللہ تعالیٰ ہر شے کا پیدا کرنے والا ہے ار ہر شے اسی کی مشیت سے وقوع پذیر اور قائم ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے کہ بندوں کے افعال صرف اسی کی مشیت سے صادر ہوتے ہیں،چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَا ٱقْتَتَلَ ٱلَّذِينَ مِنۢ بَعْدِهِم مِّنۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ ٱلْبَيِّنَٰتُ وَلَٰكِنِ ٱخْتَلَفُوا۟ فَمِنْهُم مَّنْ ءَامَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ ۚ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَا ٱقْتَتَلُوا۟ وَلَٰكِنَّ ٱللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ ﴿253﴾
ترجمہ: اور اگر الله چاہتا تو وہ لوگ جو ان پیغمبروں کے بعد آئے وہ آپس میں نہ لڑتے بعد اس کے کہ ان کے پاس صاف حکم پہنچ چکے تھے لیکن ان میں اختلاف پیدا ہو گیا پھر کوئی ان میں سے ایمان لایا اور کوئی کافر ہوا اور اگر الله چاہتا تو وہ آپس میں نہ لڑتے لیکن الله جو چاہتا ہے کرتا ہے (سورۃ البقرۃ،آیت 253)
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلَوْ شِئْنَا لَءَاتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَىٰهَا وَلَٰكِنْ حَقَّ ٱلْقَوْلُ مِنِّى لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ ٱلْجِنَّةِ وَٱلنَّاسِ أَجْمَعِينَ ﴿13﴾
ترجمہ: اور اگر ہم چاہتے ہیں تو ہر شخص کو ہدایت پر لے آتے لیکن ہماری بات پوری ہو کر رہی کہ ہم جنوں اور آدمیوں سے جہنم بھر کر رہیں گے (سورۃ السجدۃ،آیت 13)
بے شک ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے ،چونکہ انسان بھی اسی کائنات کا ایک حصہ ہے ،لہذا وہ بھی اللہ تعالیٰ کا غلام اور اُسی کی ملکیت ٹھہرا۔پس اس حقیقت کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ کسی "مملوک" کے لیے مالک کے دائرہ ملکیت میں اس کی مرضی اور اجازت کے بغیر کسی قسم کا تصرف نا ممکن ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
اسلامی عقیدے کے اہداف و مقاصد

ہدف: لغت کے اعتبار سے "ہدف" کا اطلاق مختلف معانی پر ہوتا ہے جن میں ے دو یہ ہیں:
1. وہ چیز جو سطح زمین سے بلند ہو اور نشانہ بازی کے لیے نصب کی جائے۔
2. وہ چیز جو مطلوب و مقصود ہو۔

اسلامی عقیدے کے اہداف
اسلامی عقیدے سے مضبوط وابستگی کے مقاصد،اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی غایات عظیمہ بے شمار ہیں جن میں سے چند حسب ذیل ہیں:
• نیت و عبادت کو اللہ تعالیٰ کے لیے خاص کرنا ،کیونکہ وہی کالق ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔پس ضروری ہے کہ صرف اسی سے لو لگائی جائے،اور صرف اسی کی عبادت کی جائے۔

• اسلامی عقیدے سے خالی دل میں پیدا ہونے والی ہر قسم کی بے راہ روی سے فکر و نظر کی آزادی کیونکہ جس کا دل اسلامی عقیدے سے خالی ہو وہ یا تو ہر عقیدے سے محروم اور صرف حسی چیزوں کی پرستش کرنے والا ہوتا ہے یا پھر عقائد کی گمراہیوں اور خرافات کے آسیب کا شکار ہو جاتا ہے۔

• نفسی اور فکری سکون،اسلامی عقیدے کا حامل کسی نفسی اور فکری بے چینی کا شکار نہیں ہوتا،کیونکہ یہ عقیدہ اُس کے اور اس کے خالق ھقیقی کے درمیان ایک مضبوط تعلق اور رابطہ ہے،چنانچہ وہ اپنے خالق کے رب ،مدبر،ھاکم اور مشرع ہونے پر راضی ہو جاتا ہے،لہذا اس کا دل اپنے رب کی قضا و قدر ،یعنی اس کے فیصلے اوت تقدیر سے مطمئن ہو جاتا ہے اور اسے اسلام کی حقانیت کے بارے میں شرح صدر ہو جاتا ہے،پھر وہ اسلام کے علاوہ کوئی دین تلاش نہیں کرتا۔

• اللہ تعالیٰ کی عبادت یا مخلوق کے حقوق کے معاملے میں قصد وعمل کے انحراف سے محفوظ ہونا کیونکہ رسولوں پر ایمان لانا اسلامی عقیدے کی ایک ایسی اساس ہے جو قصد و عمل میں انحراف سے محفوظ کر دیتی ہے۔کیونکہ انبیاء و رسل کے طریقے اللہ تعالیٰ کی بندگی اور خدمت خلق کے بہترین طریقے ہیں۔

• تمام معاملات مین پختگی،سنجیدگی اور خوش بختی کیونکہ مومن حصول ثواب کے لیے عمل صالح کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا۔اسی طرح عذاب کے خوف سے وہ گناہ کے مواقع سے بھی دور رہتا ہے ،کیونکہ اس عقیدے کی اساس میں سے ایک بنیاد انسان کے دوبارہ زندہ کیے جانے ،اور ہر اچھے یا برے عمل کی جزا پانے پر ایمان لانا بھی ہے۔قرآن کریم میں ارشاد ہے:
وَلِكُلٍّۢ دَرَجَٰتٌۭ مِّمَّا عَمِلُوا۟ ۚ وَمَا رَبُّكَ بِغَٰفِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ ﴿132﴾
ترجمہ: اور سب لوگوں کے بلحاظ اعمال درجے (مقرر) ہیں اور جو کام یہ لوگ کرتے ہیں خدا ان سے بے خبر نہیں (سورۃ الانعام،آیت 132)
اس مقصد کے حصول کے لیے رسالت مآب ﷺ نے ک قدر زبردست ترغیب دی ہے:
(الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ وَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَلَا تَعْجَزْ وَإِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ فَلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ كَانَ كَذَا وَكَذَا وَلَكِنْ قُلْ قَدَرُ اللَّهِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ.)
"اللہ تعالیٰ کے نزدیک طاقتور مومن ضعیف مومن سے زیادہ اچھا اور محبوب ہے اور ہر ایک میں خیر اور بھلائی ہے۔ تم ان کاموں کی حرص کرو جو تمہارے لئے مفید ہیں۔ (یعنی آخرت میں کام دیں) اور اللہ سے مدد مانگو اور ہمت نہ ہارو اور جو تجھ پر کوئی مصیبت آئے تو یوں مت کہہ کہ اگر میں ایسا کرتا یا ایسا کرتا تو یہ مصیبت نہ آتی، لیکن یوں کہو کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں ایسا ہی تھا جو اس نے چاہا کیا اور اگر مگر کرنا شیطان کے لئے راہ کھولنا ہے۔"(صحیح مسلم ،القدر،باب الایمان بالقدر والاذغان لہ،حدیث :2664)

• دین اسلام اور اس کے ستونوں کو مستحکم کرنے کے لیے ایسی مضبوط امت کی تشکیل کرنا جو اس کی کاطر ہر قسم کے ادنی و اعلیٰ ورثے قربان کر دے اور اس کی راہ میں جو مصیبتیں بھی پیش آئیں ان کی ہرگز پرواہ نہ کرے ۔اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا۟ وَجَٰهَدُوا۟ بِأَمْوَٰلِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلصَّٰدِقُونَ﴿15﴾
ترجمہ: بے شک سچے مسلمان تو وہی ہیں جو الله اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے شک نہ کیا اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے الله کی راہ میں جہاد کیا وہی سچے (مسلمان) ہیں (سورۃ الحجرات،آیت 15)

• انفرادی اور اجتماعی اصلاح کے ذریعے دنیا و آخرت کی سعادت ،اجر و ثواب اور (اللہ تعالیٰ)سے انعام و اکرام حاصل کرنا،چنانچہ ارشاد الہی ہے:
مَنْ عَمِلَ صَٰلِحًۭا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌۭ فَلَنُحْيِيَنَّهُۥ حَيَوٰةًۭ طَيِّبَةًۭ ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ ﴿97﴾
ترجمہ: جو شخص نیک اعمال کرے گا مرد ہو یا عورت وہ مومن بھی ہوگا تو ہم اس کو (دنیا میں) پاک (اور آرام کی) زندگی سے زندہ رکھیں گے اور (آخرت میں) اُن کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ دیں گے (سورۃ النحل،آیت 97)
یہ عقیدہ اسلامیہ کے چند اہداف و مقاصد ہیں،اللہ تعالیٰ کے حضور التجا ہے کہ وہ ان مقاصد جلیلہ کو ہمارے اور تمام مسلمانوں کے لیے آسان بنائے،اور انہیں پایہ تکمیل تک پہنچا دے۔آمین!
وصلی اللہ وسلم علی نبینا محمد وآلہ و صحابہ اجمعین​
ختم شد​
 
Top