• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اس واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے. درست ہے یا نہیں؟

شمولیت
جولائی 18، 2017
پیغامات
130
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے روم سے لڑنے کے لیے ایک فوجی دستہ روانہ کیا، اس دستے میں ایک نوجوان صحابی عبد اللہ بن حذافہ بن قیس السھمی رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ مسلمانوں اور قیصر کی فوج کے درمیان لڑائی نے طول پکڑ لی، قیصر مسلمانوں کی بہادر اور ثابت قدمی پر حیران ہوا اور حکم دیا کہ مسلمانوں کا کوئی جنگی قیدی ہو تو حاضر کیا جائے۔عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو گھسیٹ کر حاضر کیا گیا جن کے ہاتھوں اور پاوں میں ہتھکڑیاں تھی، قیصر نے ان سے بات چیت شروع کی تو ان کی ذہانت سے حیران رہ گئے، دونوں کے درمیان یہ مکالمہ ہوا:-
قیصر: نصرانیت قبول کر لے تمہیں رہا کر دوگا
عبد اللہ: نہیں
قیصر: نصرانیت قبول کر لے آدھی سلطنت تمہیں دے دوں گا
عبد اللہ: نہیں
قیصر: نصرانیت قبول کر لے آدھی سلطنت دوں گا اور تمہیں حکمرانی میں شریک کروں گا
عبد اللہ: نہیں، اللہ کی قسم اگر تم مجھے اپنی پوری مملکت، اپنے آباواجداد کی مملکت، عرب وعجم کی حکومتیں بھی دے میں پلک جھپکنے کے لیے بھی اپنے دین سے منہ نہیں موڑوں گا۔
قیصر غضبناک ہوا اور کہا : تجھے قتل کر دوں گا، عبد اللہ: مجھے قتل کردے۔
قیصر نے حکم دیا کہ ان کو ایک ستون پر لٹکا کر ان کے آس پاس تیروں کی بارش کی جائے(ڈرانے کے لیے) پھر اس کو عیسائیت قبول کرنے یا موت کو گلے لگانے میں سے ایک بات کا اختیار دیا جائے۔
جب قیصر نے دیکھا کہ اس سے بھی بات نہیں بنی وہ کسی حال میں اسلام چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تو حکم دیا کہ قید میں ڈال دو اور کھانا پینا بند کر دو ۔۔۔عبد اللہ کو کھانا پینا نہیں دیا گیا یہاں تک کہ پیاس اور بھوک سے موت کے قریب ہو گئے تو قیصر کے حکم سے شراب اور خنزیر کا گوشت ان کے سامنے پیش کیا گیا۔۔۔جب عبد اللہ نے یہ دیکھا تو کہا : اللہ کی قسم مجھے معلوم ہے کہ میں وہ مضطر( پریشان حال) ہوں جس کے لیے یہ حلال ہے، مگر میں کفار کو خوش کر نا نہیں چاہتا، یہ کہہ کر کھانے کو ہاتھ بھی نہ لگا یا۔ یہ بات قیصر کو بتائی گئی تو اس نے عبد اللہ کے لیے بہترین کھانا لانے کا حکم دیا ، اس کے بعد ایک حسین وجمیل لڑکی کو ان کے پاس بھیجا گیا کہ ان کو چھیڑے اور فحاشی کا مظاہر ہ کرے۔۔۔اس لڑکی نے بہت کوشش کی مگر عبد اللہ نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی اوراللہ کےذکر میں مشغول رہے۔۔۔جب لڑکی نے یہ دیکھا تو غصے سے باہر چلی آئی اور کہا : تم نے مجھے کیسے آدمی کے پاس بھیجا میں سمجھ نہ سکی کہ وہ انسان ہے یا پتھر۔۔۔اللہ کی قسم اس کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ میں مذکر ہوں یا مونث!!
جب قیصر کا ہر حربہ ناکام ہوا اور وہ عبد اللہ کے بارے میں مایوس ہوا تو ایک پیتل کی دیگ منگوائی اور اس میں تیل ڈال کر خوب گرم کیا اور عبد اللہ کو اس دیگ کے سامنے لایا اور ایک اور مسلمان قیدی کو زنجیروں سے باندھ کر لایا گیا اور ان کو اٹھا کر اس ابلتے تیل میں ڈالا گیا جن کی ایک چیخ نکلی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی ہڈیاں الگ ہو گئیں اور تیل کے اوپر تیرنے لگی، عبد اللہ یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے،اب ایک بار پھر قیصر عبد اللہ کی طرف متوجہ ہوا اور نصرانیت قبول کرنے اور اسلام چھوڑنے کی پیش کش کر دی مگر عبد للہ نے انکار کر دیا۔
قیصر غصے سے پاگل ہو نے لگا اور حکم دیا کہ یہ دیگ میں موجود تیل اٹھا کر عبد اللہ کے سر پر ڈال دی جائے، جب قیصر کے کارندوں نے دیگ کھینچ کر عبد اللہ کے قریب کیا اور اس کی تپش کو محسوس کیا تو عبد اللہ رونے لگے!!آپ کی ان خوش نصیب آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے جن آنکھوں نے رسول اللہ ﷺ کا چہرہ انور دیکھا تھا!!یہ دیکھ کر قیصر خوشی سے جھومنے لگا اور کہا : عیسائی بن جاو معاف کر دوں گا۔
عبد اللہ نے کہا : نہیں
قیصر: پھر رویا کیوں ؟
عبد اللہ : اللہ کی قسم میں اس لیے رو رہا ہوں کہ میری ایک ہی جان ہے جو اس دیگ میں ڈالی جائے گی ۔۔۔میری یہ تمنا ہے کہ میری میرے سر کے بالوں کے برابر جان ہوں اور وہ ایک ایک کر کے اللہ کی راہ میں نکلیں۔۔۔یہ سن کر قیصر نے مایوسی کے عالم میں عبد اللہ سے کہا: کیا یہ ممکن ہے کہ تم میرے سر کو بوسہ دو اور میں تمہیں رہا کرو؟
عبد اللہ: اگر میرے ساتھ تمام مسلمان قیدیوں کو رہا کر تے ہو تو میں تیرے سر کو بوسہ دینے کے لیے تیار ہوں۔
قیصر : ٹھیک ہے عبد اللہ نے اپنے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو رہا کرنے کے لیے اس کافر کے سرکوبوسہ دیا اور سارے مسلمان رہا کیے گئے۔
جب واپس عمر بن الخطاب کے پاس پہنچ گئے اور آپ کو واقعہ بتا دیا گیا تو عمر نے کہا : عبد اللہ بن حذافہ کے سر کو بوسہ دینا ہر مسلمان پر ان کا حق ہے اور خود اٹھے اور عبد اللہ کے سر کو بوسہ دیا ۔ رضی اللہ عنھم کیسی سیرت تھی صحابہ کی !
کیسی قربانیاں تھیں ان کی ! کیا یہ اپنے بچوں کو پڑھانا چاہیے!!
بلکہ یہی اصل ہیرو ہیں زندگیوں کے, اور آج کل ہمارے پاس اپنی اولادوں کو اسلام کے ہیروؤں کے بارے میں بتانے کا وقت نہیں ھے, ہماری اولادیں ی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے روم سے لڑنے کے لیے ایک فوجی دستہ روانہ کیا، اس دستے میں ایک نوجوان صحابی عبد اللہ بن حذافہ بن قیس السھمی رضی اللہ عنہ بھی تھے۔
اس واقعہ یا قصہ کے متعلق اپنی تحقیق پیش کرچکا ہوں
اس تھریڈ کا مطالعہ کیجئے :
عبد اللہ بن حذافہ بن قیس رضی اللہ عنہ
 
Top