• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اشرف علی تھانوی --- بہشتی زیور کا خود ساختہ اسلام / نجس چیز کو چاٹنا

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ مَا كَانَ لإِحْدَانَا إِلاَّ ثَوْبٌ وَاحِدٌ تَحِيضُ فِيهِ، فَإِذَا أَصَابَهُ شَىْءٌ مِنْ دَمٍ، قَالَتْ بِرِيقِهَا فَقَصَعَتْهُ بِظُفْرِهَا‏

ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا ، انھوں نے عبداللہ ابن ابی نجیح سے ، انھوں نے مجاہد سے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہمارے پاس صرف ایک کپڑا ہوتا تھا ، جسے ہم حیض کے وقت پہنتے تھے ۔ جب اس میں خون لگ جاتا تو اس پر تھوک ڈال لیتے اور پھر اسے ناخنوں سے مسل دیتے ۔
ذرا اس حدیث کے صحت اورروایت اور درایت کےمتعلق تو آگاہ کرنا پلیز
[/QUOTE]
یہ صحیح بخاری کی حدیث ہے اس کی صحت کے متعلق یہی کافی ہے
یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ بغیر الماء بھی طھارت ممکن ہے جو احناف کا موقف ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
ایک اعتراض بار بار کیا جاتا ہے کہ اگر انگلی پر نجاست لگي ہو اور کوئي اس کو چاٹ لے تو فقہ حنفی کہتی ہے انگلی پاک ہوجائے گي
اس پر بعض افراد یہ اعتراض کرتے ہیں کہ فقہ حنفی کتنی گندی ہے کہتی کہ اگر انگلی پر نجاست لگی ہو تو اس کو چاٹ کر پاک کیا جاسکتا ہے ، یہ صرف ان جھلاء کی فقہ حنفی سے ناسمجھی کا نتیجہ ہے
اگر کوئی اپنی بیوی سے دبر سے جماع کرے اور بعد میں مقتی صاحب سے پوچھے کہ کیا مجھ پر غسل فرض ہے تو یقیقنا مفتی صاحب کہیں گے کہ غسل فرض ہو گيا ہے اس یہ اگر کوئي جاہل یہ نتیجہ نکالے کہ مفتی صاحب کے نذدیک دبر سے جماع کرنا جائز ہے تو اس کی جہالت پر سر ہی پیٹا جائے گا
فقہ حنفی نجاست چاٹنے کو برا عمل سمجتھی ہے لیکن اگر کو پاگل یا غیر عاقل بچہ ایسا کرلے تو کیا انگلی پاک سمجھی جائے گي یا نہیں تو فقہ حنفی کہتی پاک سمجھی جائے گي
مثلا اگر کسی پاگل کے ہاتھ نجاست ہو اور وہ اس کو چاٹنے کے بعد کسی پانی میں انگلی ڈال دے تو کیا پانی پاک سمجھا جائے گا فقہ حنفی کہتی ہے کہ اگر چہ نجاست چاٹنا غلط کام ہے لیکن چاٹنے سے انگلی پاک ہوجاگی اور اس پانی کو پاک سمجھا جائے
یا جیسے اشرف علی تھانوي نے بہشتی زیور میں لکھا ہے کہ اگر بچہ دودھ پیتے ہوئے ماں کے پستان پر قے کردے اور پھر اس کو چوس بھی لے تو کیا ماں کو اپني چھاتی دھونے کی ضرورت ہے یا نہیں تو چوں کہ نجاست چاٹنے سے پاک ہوجاتی ہے تو ماں کو اپنی چھاتی دھونے کی ضرورت نہیں
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا تھوک سے پاکی ہوجاتی ہے
احناف کا موقف وہی ہے کہ پانی کے بجائے کسی اور چیز سے اگر نجاست کا ازالہ ہوجائے تو وہ چیز پاک ہوجائے گي ،
دلیل

إذا جاء أحدكم إلى المسجد فلينظر فإن رأى في نعليه قذراً أو أذى فليمسحه وليصل فيهما. رواه أبو داود وصححه الألباني.

یہاں نجاست کو پانی سے دھونے کا نہیں کہا جارہا بلکہ نجاست کے ازالہ کے لئيے اس کے ازالہ کو کافی کہا جا رہا ہے تو تھوک سے بھی اگر نجاست کا ازالہ ہوجائے تو وہ چیز پاک سمجھی جائے گي
تھوک سے پاکی ایک بہترین اور واضح دلیل بخاری سے

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ مَا كَانَ لإِحْدَانَا إِلاَّ ثَوْبٌ وَاحِدٌ تَحِيضُ فِيهِ، فَإِذَا أَصَابَهُ شَىْءٌ مِنْ دَمٍ، قَالَتْ بِرِيقِهَا فَقَصَعَتْهُ بِظُفْرِهَا‏

ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا ، انھوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا ، انھوں نے عبداللہ ابن ابی نجیح سے ، انھوں نے مجاہد سے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہمارے پاس صرف ایک کپڑا ہوتا تھا ، جسے ہم حیض کے وقت پہنتے تھے ۔ جب اس میں خون لگ جاتا تو اس پر تھوک ڈال لیتے اور پھر اسے ناخنوں سے مسل دیتے ۔
بھائی جان اللہ آپ کو ہدایت دے فقہ حنفی کی کتابوں میں تو آپ نے مطلق لکھا ہے کہ کسی بھی نجاست کو چاٹ لیا جائے تو وہ حصہ صاف ہو جائے گا لیکن آپ تو اس کو مقید کر رہے ہیں منیۃ المصلی میں لکھا ہے :
وکذا اذا شرب الخمر ثم صلی بعد زمان وکذا اذااصاب بعض اعضائہ نجاسۃ فطھرھا بلسانہ حتی ذھب اثرھا وکذا السکین اذا تنجس فلحسہ بلسانہ اومسحہ بریقہ وکذا الصبی اذا قاء علی ثدی الامام ثم مص الثدی مرارا یطھر انتھی وکذا فی غیرھا والذی تقتضیہ القواعد المذھبیۃ من تحریر الکلام فی ھذا المقام انہ اذا اصاب بعض اعضائہ نجاسۃ حقیقیۃ فان کانت مرئیۃ ولحسھا ھو اوغیرہ حتی ذھب عینھا واثرھا ان کان لایشق زوالہ یطھر وان کانت غیر مرئیۃ فتطھر باللحس ثلاث مرات
اس طرح جب شراب پی پھر کچھ دیر بعد نماز پڑھی یوں ہی جب اس کے بعض اعضا پر نجاست لگی اور اس نے اس کو اپنی زبان سے پاک کردیا یہاں تک کہ اس کا اثر چلاگیا اسی طرح جب چھُری ناپاک ہوگئی پھر اس نے اسے زبان سے چاٹا یا تھوک سے صاف کیا یوں ہی جب بچّے نے ماں کے پستان پر قے کی پھر کئی بار پستان کو چُوسا تو وہ پاک ہوجائے گا انتہی۔ دوسری کتب میں بھی اسی طرح ہے۔ قواعدِ مذہبیہ اس مقام پر جس کلام کے تحریر کے متقاضی ہیں وہ یہ ہیں کہ جب کسی عضو پر نجاستِ حقیقی لگ جائے تو اگر وہ دکھائی دینے والی ہے اور اس نے یا کسی دوسرے نے اس کو چاٹ لیا یہاں تک کہ اصل نجاست اور اس کا اثر زائل ہوگیا۔ اگر اس کو دُور کرنے میں مشقّت نہ ہو تو پاک ہوجائے گا، اور اگر وہ نجاست دکھائی نہیں دیتی تو تین بار چاٹنے سے پاک ہوجاتی ہے
آج تک آپ نے کبھی مانا ہے کہ آپ غلطی پر ہیں ؟ کیا آپ اس آیت سے نا واقف ہیں :
فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا
کیا تمہارا نجاست کو چاٹنا اس آیت کی خلاف ورزی نہیں ہے اور آپ باربار پاگل اور بچے کی بات کرتے ہیں تو یہ دونون شریعت کے مکلف نہیں کیا فقہ حنفی صرف غیر مکلفین کے لیے ہے کیا نجاست کو دور کرنےکے لیے صرف زبان ہی رہ گئی ہے
حلقہ شوق میں وہ جرات اندیشہ کہاں
آہ محکومی و تقلید و زوال تحقیق!
خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق!
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
بھائی جان اللہ آپ کو ہدایت دے فقہ حنفی کی کتابوں میں تو آپ نے مطلق لکھا ہے کہ کسی بھی نجاست کو چاٹ لیا جائے تو وہ حصہ صاف ہو جائے گا لیکن آپ تو اس کو مقید کر رہے ہیں منیۃ المصلی میں لکھا ہے :
وکذا اذا شرب الخمر ثم صلی بعد زمان وکذا اذااصاب بعض اعضائہ نجاسۃ فطھرھا بلسانہ حتی ذھب اثرھا وکذا السکین اذا تنجس فلحسہ بلسانہ اومسحہ بریقہ وکذا الصبی اذا قاء علی ثدی الامام ثم مص الثدی مرارا یطھر انتھی وکذا فی غیرھا والذی تقتضیہ القواعد المذھبیۃ من تحریر الکلام فی ھذا المقام انہ اذا اصاب بعض اعضائہ نجاسۃ حقیقیۃ فان کانت مرئیۃ ولحسھا ھو اوغیرہ حتی ذھب عینھا واثرھا ان کان لایشق زوالہ یطھر وان کانت غیر مرئیۃ فتطھر باللحس ثلاث مرات
میں نے کوئی نجاست کو مقید نہیں کیا ، صرف امثال بتائی ہیں

اس طرح جب شراب پی پھر کچھ دیر بعد نماز پڑھی یوں ہی جب اس کے بعض اعضا پر نجاست لگی اور اس نے اس کو اپنی زبان سے پاک کردیا یہاں تک کہ اس کا اثر چلاگیا اسی طرح جب چھُری ناپاک ہوگئی پھر اس نے اسے زبان سے چاٹا یا تھوک سے صاف کیا یوں ہی جب بچّے نے ماں کے پستان پر قے کی پھر کئی بار پستان کو چُوسا تو وہ پاک ہوجائے گا انتہی۔ دوسری کتب میں بھی اسی طرح ہے۔ قواعدِ مذہبیہ اس مقام پر جس کلام کے تحریر کے متقاضی ہیں وہ یہ ہیں کہ جب کسی عضو پر نجاستِ حقیقی لگ جائے تو اگر وہ دکھائی دینے والی ہے اور اس نے یا کسی دوسرے نے اس کو چاٹ لیا یہاں تک کہ اصل نجاست اور اس کا اثر زائل ہوگیا۔ اگر اس کو دُور کرنے میں مشقّت نہ ہو تو پاک ہوجائے گا، اور اگر وہ نجاست دکھائی نہیں دیتی تو تین بار چاٹنے سے پاک ہوجاتی ہے
آج تک آپ نے کبھی مانا ہے کہ آپ غلطی پر ہیں ؟ کیا آپ اس آیت سے نا واقف ہیں :
فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا
قرآنی آیت میں وضو کا ذکر ہے نہ کہ ازالہ نجاست کا
ازالہ نجاست کی حدیث میں کچھ تصریح یوں ہے

إذا جاء أحدكم إلى المسجد فلينظر فإن رأى في نعليه قذراً أو أذى فليمسحه وليصل فيهما. رواه أبو داود وصححه الألباني.
اگر کوئی جوتی سے نجاست اتار دے تو ان میں نماز پڑھسکتا ہے ، پانی سے ازالہ نجاست کا ذکر نہیں
اور بخاری والی حدیث میں حیض کے خون کو تھوک سے پاک کرنے کا ذکر ہے ، گویا تھوک سے ازالہ نجاست کرنا شرعا صحیح ہے
اب بتائيں غلطی پر کون ہے ؟؟؟؟

کیا تمہارا نجاست کو چاٹنا اس آیت کی خلاف ورزی نہیں ہے اور آپ باربار پاگل اور بچے کی بات کرتے ہیں تو یہ دونون شریعت کے مکلف نہیں کیا فقہ حنفی صرف غیر مکلفین کے لیے ہے کیا نجاست کو دور کرنےکے لیے صرف زبان ہی رہ گئی ہے
بات یہ نہیں کہ اگر پاگل نجاست چاٹے گا تو انگلی پاک ہوگی اور صاحب عقل چاٹے گا تو پاک نہیں ہوگی ، انگلی چاٹنے سے نجاست پاک ہوجاتی ہے ، لیکن ایسا قبیح امر صاحب عقل سے ممکن نہیں ، اسی لئیے مثال میں پاگل اور بچہ کی بات کی گئي


حلقہ شوق میں وہ جرات اندیشہ کہاں
آہ محکومی و تقلید و زوال تحقیق!
خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق!
شعر و شاعری سے مجھے شغف نہیں ورنہ جوابا کوئ شعر کہ دیتا
 
شمولیت
نومبر 11، 2013
پیغامات
79
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
63
یہ صحیح بخاری کی حدیث ہے اس کی صحت کے متعلق یہی کافی ہے
یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ بغیر الماء بھی طھارت ممکن ہے جو احناف کا موقف ہے[/quote]
رفع الیدین کے متعلق حدیث کو تو آپ قابل حجت نہیں سمجھتے کیوں؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
رفع الیدین کے متعلق حدیث کو تو آپ قابل حجت نہیں سمجھتے کیوں؟
رفع الیدین ایک الگ موضوع ہے ، کبھی موقف ملا تو وہاں بھی آپ کو غلط ثابت کردیں گے اور جہاں تک صحیح بخاری کا تعلق ہے تو صحیح بخاری کی تمام روایات صحیح ہیں ، لیکن بعض احادیث صحیح بخاری کے معارض آئی ہیں تو تو وہاں راجح حدیث پر عمل ہو گا
اگر یہاں بھی صحیح بخاری کی معارض کوئي راجح حدیث ہے تو بتائيں ؟؟؟ خوامخوا دوسرے موضوعات چھیڑنے کا کیا فائدہ
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
میں نے کوئی نجاست کو مقید نہیں کیا ، صرف امثال بتائی ہیں


قرآنی آیت میں وضو کا ذکر ہے نہ کہ ازالہ نجاست کا
ازالہ نجاست کی حدیث میں کچھ تصریح یوں ہے

إذا جاء أحدكم إلى المسجد فلينظر فإن رأى في نعليه قذراً أو أذى فليمسحه وليصل فيهما. رواه أبو داود وصححه الألباني.
اگر کوئی جوتی سے نجاست اتار دے تو ان میں نماز پڑھسکتا ہے ، پانی سے ازالہ نجاست کا ذکر نہیں
اور بخاری والی حدیث میں حیض کے خون کو تھوک سے پاک کرنے کا ذکر ہے ، گویا تھوک سے ازالہ نجاست کرنا شرعا صحیح ہے
اب بتائيں غلطی پر کون ہے ؟؟؟؟


بات یہ نہیں کہ اگر پاگل نجاست چاٹے گا تو انگلی پاک ہوگی اور صاحب عقل چاٹے گا تو پاک نہیں ہوگی ، انگلی چاٹنے سے نجاست پاک ہوجاتی ہے ، لیکن ایسا قبیح امر صاحب عقل سے ممکن نہیں ، اسی لئیے مثال میں پاگل اور بچہ کی بات کی گئي



شعر و شاعری سے مجھے شغف نہیں ورنہ جوابا کوئ شعر کہ دیتا
اس کا مطلب ہے کہ اگر جسم کے کسی حصے پر نجاست لگی ہو تو اس کو چاٹ کر صاف کیا جا سکتا ہے ؟
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
اس کا مطلب ہے کہ اگر جسم کے کسی حصے پر نجاست لگی ہو تو اس کو چاٹ کر صاف کیا جا سکتا ہے ؟
نہیں آپ غلط سمجھے


اس کا مطلب ہے اگر کوئی جسم سے نجاست چاٹتا ہے تو ازالہ نجاست کی صورت میں جسم پاک ہوجائے گا

آپ کے کشید کردہ مطلب سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ نجاست چاٹنا فقہ حنفی میں کوئی قبیح امر نہیں
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
نہیں آپ غلط سمجھے


اس کا مطلب ہے اگر کوئی جسم سے نجاست چاٹتا ہے تو ازالہ نجاست کی صورت میں جسم پاک ہوجائے گا

آپ کے کشید کردہ مطلب سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ نجاست چاٹنا فقہ حنفی میں کوئی قبیح امر نہیں
آپ نے ہی کہا ہے کہ قرآن میں صرف وضو کا ذکر ہے پانی نہ ملے تو تیمم کر لو اور باقی نجاست کو صاف کرنے کے لیے کیا کرنا ہے تو اس کا آپ نے کوئی زکر ہی نہین کیا ہے اور یہ کہہ دیا کہ قرآن میں صرف وضو کا ذکر ہے تو اب اگر کوئی اس نجاست کو چاٹ لے تو اس کا فتوی فقہ حنفی میں لکھا ہے کیا آپ کو اس انکا ر ہے اگر ایسا ہے کہہ دیں کہ آپ اس بری ہیں کتابوں جو للھا ہے وہ سراسر غلط ہے
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top