- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
بدعتی فرقوں کا قرآن سے برتاؤ
اہلِ بدعت کاقرآن مجید سے یہ برتاؤ ہوتاہے کہ اپنی رائے سے اس کی تاویلیں کرتے ہیں اور کبھی اس کی آیتوں سے اپنے مذہب کی تائید میں ایسے دلائل لاتے ہیں، جن کی متحمل آیتیں نہیں ہوتیں اور کبھی اپنے مذہب کے خلاف پڑنے والی آیتوں کی تاویل میں تحریف سے بھی کام لیتے ہیں، خوارج[1]، روافض[2]، جہمیہ[3]، معتزلہ[4]، قدریہ[5]، مرجیہ[6] وغیرہ فرقوں کی یہی روش ہے ۔
[1] خارجی ،جن کو صحابہ ، حروریہ بھی کہتے تھے کیونکہ حروراء نام جگہ ان کامرکزی مقام تھا ۔ یہ فرقہ قصہ تحکیم کی پیداوار ہے۔ حضرت علی سے باغی(خارجی )ہوکر ان سے برسرپیکار ہوگئے تھے، اور حضرت علی کو (خاکم بدہن)کافر کہتے تھے۔
[2] رافضی، شیعوں کا غالی فرقہ ہے، جو (نعوذ باللہ) صدیق اکبر رضی اللہ عنہ و فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ جیسے اجلہ صحابہ کی تکفیر کرتے ہیں۔ رافضی یوں کہلائے کہ انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پوتے زید بن علی رضی اللہ عنہ کا بھی ساتھ چھوڑ دیا تھا۔
[3] جہمیہ، جہم بن صفوان اس کا بانی بتایا جاتا ہے جو انتہا درجے کا ملحد اور عیار تھا اور اپنی عیاریوں کی بدولت ۱۲۸ھ میں قتل کر دیا گیا۔
[4] معتزلہ، اس فرقہ کی ابتداء تو واصل بن عطاء سے ہوئی جو اپنی شوریدہ سری کی وجہ سے اپنے استاد حضرت امام حسن بصری کے حلقہ درس سے علیحدہ ہو گیا اور اسی وجہ سے ان کو معتزلہ کہا جانے لگا (جس کا معنی الگ ہو جانے والا ٹولہ ہے) لیکن عباسیوں کے دور میں اس نے علمی طور پر کافی ترقی کر لی تھی، گویا ان کو اس دور کا ''گریجویٹ طبقہ'' کہنا چاہیئے۔
[5] قدریہ، تقدیر الٰہی کے انکاری تھے اور کہتے تھے: انسان اپنی دنیا خود بناتا ہے، اللہ تعالیٰ کو اس میں کوئی دخل نہیں (یعنی انسان اپنے افعال کا خود خالق ہے) معاذ اللہ۔
[6] مرجئہ کہتے تھے کہ نجات کے لئے عمل ضروری نہیں خالی خولی ایمان کافی ہے، اور بدکرداری سے ایمان کا کچھ نہیں بگڑتا، عمل ایمان سے موخر ہے۔
اہلِ بدعت کاقرآن مجید سے یہ برتاؤ ہوتاہے کہ اپنی رائے سے اس کی تاویلیں کرتے ہیں اور کبھی اس کی آیتوں سے اپنے مذہب کی تائید میں ایسے دلائل لاتے ہیں، جن کی متحمل آیتیں نہیں ہوتیں اور کبھی اپنے مذہب کے خلاف پڑنے والی آیتوں کی تاویل میں تحریف سے بھی کام لیتے ہیں، خوارج[1]، روافض[2]، جہمیہ[3]، معتزلہ[4]، قدریہ[5]، مرجیہ[6] وغیرہ فرقوں کی یہی روش ہے ۔
[1] خارجی ،جن کو صحابہ ، حروریہ بھی کہتے تھے کیونکہ حروراء نام جگہ ان کامرکزی مقام تھا ۔ یہ فرقہ قصہ تحکیم کی پیداوار ہے۔ حضرت علی سے باغی(خارجی )ہوکر ان سے برسرپیکار ہوگئے تھے، اور حضرت علی کو (خاکم بدہن)کافر کہتے تھے۔
[2] رافضی، شیعوں کا غالی فرقہ ہے، جو (نعوذ باللہ) صدیق اکبر رضی اللہ عنہ و فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ جیسے اجلہ صحابہ کی تکفیر کرتے ہیں۔ رافضی یوں کہلائے کہ انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پوتے زید بن علی رضی اللہ عنہ کا بھی ساتھ چھوڑ دیا تھا۔
[3] جہمیہ، جہم بن صفوان اس کا بانی بتایا جاتا ہے جو انتہا درجے کا ملحد اور عیار تھا اور اپنی عیاریوں کی بدولت ۱۲۸ھ میں قتل کر دیا گیا۔
[4] معتزلہ، اس فرقہ کی ابتداء تو واصل بن عطاء سے ہوئی جو اپنی شوریدہ سری کی وجہ سے اپنے استاد حضرت امام حسن بصری کے حلقہ درس سے علیحدہ ہو گیا اور اسی وجہ سے ان کو معتزلہ کہا جانے لگا (جس کا معنی الگ ہو جانے والا ٹولہ ہے) لیکن عباسیوں کے دور میں اس نے علمی طور پر کافی ترقی کر لی تھی، گویا ان کو اس دور کا ''گریجویٹ طبقہ'' کہنا چاہیئے۔
[5] قدریہ، تقدیر الٰہی کے انکاری تھے اور کہتے تھے: انسان اپنی دنیا خود بناتا ہے، اللہ تعالیٰ کو اس میں کوئی دخل نہیں (یعنی انسان اپنے افعال کا خود خالق ہے) معاذ اللہ۔
[6] مرجئہ کہتے تھے کہ نجات کے لئے عمل ضروری نہیں خالی خولی ایمان کافی ہے، اور بدکرداری سے ایمان کا کچھ نہیں بگڑتا، عمل ایمان سے موخر ہے۔