• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصول تفسیر-ابن تیمیہ رحمہ اللہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بدعتی فرقوں کا قرآن سے برتاؤ
اہلِ بدعت کاقرآن مجید سے یہ برتاؤ ہوتاہے کہ اپنی رائے سے اس کی تاویلیں کرتے ہیں اور کبھی اس کی آیتوں سے اپنے مذہب کی تائید میں ایسے دلائل لاتے ہیں، جن کی متحمل آیتیں نہیں ہوتیں اور کبھی اپنے مذہب کے خلاف پڑنے والی آیتوں کی تاویل میں تحریف سے بھی کام لیتے ہیں، خوارج[1]، روافض[2]، جہمیہ[3]، معتزلہ[4]، قدریہ[5]، مرجیہ[6] وغیرہ فرقوں کی یہی روش ہے ۔



[1] خارجی ،جن کو صحابہ ، حروریہ بھی کہتے تھے کیونکہ حروراء نام جگہ ان کامرکزی مقام تھا ۔ یہ فرقہ قصہ تحکیم کی پیداوار ہے۔ حضرت علی ؄ سے باغی(خارجی )ہوکر ان سے برسرپیکار ہوگئے تھے، اور حضرت علی ؄ کو (خاکم بدہن)کافر کہتے تھے۔
[2] رافضی، شیعوں کا غالی فرقہ ہے، جو (نعوذ باللہ) صدیق اکبر رضی اللہ عنہ و فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ جیسے اجلہ صحابہ کی تکفیر کرتے ہیں۔ رافضی یوں کہلائے کہ انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پوتے زید بن علی رضی اللہ عنہ کا بھی ساتھ چھوڑ دیا تھا۔
[3] جہمیہ، جہم بن صفوان اس کا بانی بتایا جاتا ہے جو انتہا درجے کا ملحد اور عیار تھا اور اپنی عیاریوں کی بدولت ۱۲۸ھ میں قتل کر دیا گیا۔
[4] معتزلہ، اس فرقہ کی ابتداء تو واصل بن عطاء سے ہوئی جو اپنی شوریدہ سری کی وجہ سے اپنے استاد حضرت امام حسن بصری  کے حلقہ درس سے علیحدہ ہو گیا اور اسی وجہ سے ان کو معتزلہ کہا جانے لگا (جس کا معنی الگ ہو جانے والا ٹولہ ہے) لیکن عباسیوں کے دور میں اس نے علمی طور پر کافی ترقی کر لی تھی، گویا ان کو اس دور کا ''گریجویٹ طبقہ'' کہنا چاہیئے۔
[5] قدریہ، تقدیر الٰہی کے انکاری تھے اور کہتے تھے: انسان اپنی دنیا خود بناتا ہے، اللہ تعالیٰ کو اس میں کوئی دخل نہیں (یعنی انسان اپنے افعال کا خود خالق ہے) معاذ اللہ۔
[6] مرجئہ کہتے تھے کہ نجات کے لئے عمل ضروری نہیں خالی خولی ایمان کافی ہے، اور بدکرداری سے ایمان کا کچھ نہیں بگڑتا، عمل ایمان سے موخر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
معتزلہ کاانداز تفسیر
معتزلہ بحث وجدال و کلام میں سب سے بڑھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے مذہب کی تائید میں تفسیریں لکھی ہیں، مثلاً امام شافعی  سے مناظرہ کرنے والے ابراہیم بن اسماعیل بن علیہ[1]، کے شیخ عبد[2]الرحمن ، بن کیسان اصم کی تفسیر یاابو علی الجبائی[3]، کی کتاب ، یاقاضی[4]عبدالجبار بن،احمد ہمدانی کی تفسیر کبیر، یاعلی[5] بن عیسیٰ رمانی کی کتاب ، یا ابو القاسم زمخشری کی کشاف ۔یہ سب لوگ مذہب ِمعتزلہ کے قائل ہیں ۔



[1] ابراہیم ابن اسماعیل بن علیہ جہمیہ فرقہ کامناظر تھا۔امام شافعی  اسے گمراہ کہتے تھے۔وفات ۲۱۸ھ(لسان المیزان ص۳۴جلد۱)
[2] ابوبکر عبدالرحمن بن کیسان الاصم ۔ یہ شخص معتزلہ کافقیہ تھا۔بڑافصیح اور پرہیزگار)لسان المیزان ص ۴۲۷جلد۳)
[3] ابو علی محمد بن عبدالوہاب جبائی ، معتزلہ کے اہل قلم اساطین میں ان کاشمار ہے۔ اہل سنت کی اشعری شاخ کے راہنما حضرت امام ابو الحسن اشعری  کااستاد ۔وفات ۳۰۳ھ(ابن خلکان ص ۴۸۱جلد۱)
[4] قاضی عبدالجبار بن احمد الہمدانی  معرزلہ کے جلیل القدر عالم '' تنزیہ القرآن عن المطاعن '' ان کی تصنیف ہےجو ۱۳۲۶ھ میں مصر سے شائع ہوچکی ہےوفات ۴۱۵ھ(لسان المیزان ص ۳۸۶جلد۳)
[5] ابو الحسن علی بن عیسیٰ رمانی، ادب ، نحو، اور علم کلام کےمشہور عالم ،قرآن حکیم کی ایک تفسیر بھی لکھی ۔وفات ۳۸۲ھ(ابن خلکان صفحہ ۳۳۲جلد،۱)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
معتزلہ کے اصول خمسہ اور ان کی حقیقت
معتزلہ کے پانچ اصول ہیں، جن کے نام انہوں نے یہ رکھ چھوڑے ہیں :(۱)توحید (۲)عدل(۳)منزلت اوسط (یعنی مرتکب کبائر ، نہ مومن نہ کافر)۔ (۴)انفاذ وعید زاور (۵)امر بالمعروف و نہی عن المنکر ، ان کی توحید اسی قسم کی ہے، جیسی جہمیہ کی توحید، اور ا سکا مضمون صفات الہیہ کی نفی ہے۔ معتزلہ بھی یہی کہتے ہیں کہ خدا دیکھتا نہیں، قرآن مخلوق ہے، خدا اس جہان کے اوپرنہیں، اس کے ساتھ نہ علم ہے، نہ قدرت ، نہ حیات ، نہ سننا، نہ دیکھنا ، نہ کلام ، نہ مشیئت ، نہ کوئی اور صفت۔
اوران کے '' عدل '' کاخلاصہ یہ ہے کہ خدا نے نہیں چاہا تھا کہ یہ سب کائنات ہو۔اس نے اس سب کو پیدا بھی نہیں کیا ہے، وہ اس سب پر قادر بھی نہیں ہے، اور کہتے ہیں کہ بندوں کے افعال خیر ہوں یاشر، خدا نے پیدا نہیں کیے۔ خدا نے بس وہی چاہا ہے جس کاشریعت میں حکم دیا ہے، اس کے علاوہ بندوں کے جتنے افعال ہیں، اس کی مشیت کے بغیر ہیں، اس بارے میں متاخرین شیعہ، مثلاً المفید[1] اور ابو جعفر طوسی[2] وغیرہ نے معتزلہ کاساتھ دیاہے، اور اسی طریقہ پر تفسیر لکھ دی ہے، لیکن اس میں امامیہ[3] اثنا عشریہ کے خاص عقائد بھی شامل کر گئے ہیں، حالانکہ کوئی معتزلی ان کاقائل نہیں۔ حضرت ابوبکر ؄ حضرت عمر ؄ حضرت عثمان ؄ حضرت علی ؄ کی خلافت سے معتزلہ انکار نہیں کرتے، آخرت میں انفاذ وعید کے اصول میں معتزلہ ، خوارج کے ہم نوا ہیں ، کہتے ہیں کبیرہ گناہوں کے مرتکبوں کے لئے نہ شفاعت ہے نہ ان میں سے کوئی جہنم سے نکل سکے گا۔
بلاشبہ مرجیہ، کرامیہ[4]، کلابیہ[5]وغیرہ فرقوں کی طرف سے ان کے رد میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ یہ سب گروہ اس بحثابحثی میں ٹھیک بھی راہ چلے ہیں ، لیکن کبھی ایسے بھٹکے ہیں کہ غلو کے مقابلے میں غلو کرتے ہوئے بالکل نقیض کی حد پر پہنچ گئے ہیں، جیسا کہ کسی اور جگہ یہ بحث تفصیل سے کی گئی ہے۔
یہاں مقصود یہ بتانا ہے کہ ان لوگوں نے پہلے سے ایک رائے پر عقیدہ جمالیا، اس کے بعد قرآنی الفاظ کو اس پر چسپاں کرنےلگے ، حالانکہ اس بارے میں انہیں سلف صالحین سے کوئی روشنی نہیں ملی، نہ صحابہ ؄ سے نہ تابعین سے نہ ائمہ مسلمین سے ، ان کی باطل تفسیروں میں کوئی تفسیر نہیں، جس کابطلان ظاہر نہ ہو۔ ان کے اقوال سے ان کے دلائل سے ، مخالف کو ان کے جواب سے ، غرض کہ کسی نہ کسی جہت سے بطلان ظاہر ہوجاتا ہے۔


[1] ابو عبداللہ محمد بن محمد بن نعمان شیخ الرفض ''مفید'' کے لقب سے شہرت یافتہ قریباً سو کتابوں کامصنف ، صحابہ؄ پر تبرائی ۔ وفات ۴۱۳ھ(لسان المیزان ۳۶۸جلد۵)
[2] ابوجعفر محمد بن حسن طوسی۔ مفید صاحب کاشاگرد شیعی طرز پر تفسیر قرآن کامصنف ، وفات ۴۶۰ھ(لسان المیزان ص ۱۳۵جلد۵)
[3] شیعوں کاوہ فرقہ جو بارہ اماموں کو مانتے ہیں۔
[4] ایک بدعتی فرقہ محمد بن کرام کی طرف منسوب ۔
[5] ایک فرقہ عبداللہ بن سعید ابن کلاب کی طرف منسوب۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
عبارت آرائی کافتنہ
ان میں ایسے بھی ہیں جو حسین عبارت لکھتے ہیں ، فصاحت کے مالک ہیں اور اپنی تحریروں میں بدعتیں اس طرح چھپادیتے ہیں کہ اکثر لوگوں کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ مصنف کشاف[1] ہی کو دیکھو کس طرح ایسے لوگوں میں بھی باطل کو رواج دے دیتاہے جوباطل کے معتقد نہیں ہوتے۔
چنانچہ میں نے دیکھا ہے کہ علماء مفسرین اپنی کتابوں میں ان لوگوں کی تفاسیر سے ایسی چیزیں بھی لے لیتے ہیں، جو ان کے باطل اصول کے مطابق ہوتی ہیں۔ حالانکہ ان اصولوں کو تو فاسد ہی یقین کرتے ہیں ، مگرنادانستہ ان کی گمراہیاں نقل کرجاتے ہیں۔
ان لوگوں کی بے راہ روی اور ضلالت ہی نے رافضیہ ، امامیہ ، فلاسفہ اور قرامطہ وغیرہ کو موقعہ دیا کہ مسلمانوں میں گھس آئیں اور اپنی گمراہیاں پھیلایا کریں۔ فلاسفہ ، قرامطہ، رافضہ نے تو قرآن کی ایسی ایسی تفسیریں کی ہیں کہ آدمی بس تعجب کرتاہی رہ جاتا ہے۔



[1] تفسیر کشاف پر تفصیلی تبصرہ کے لئے دیکھو کشف الظنون (ص ۳۰۹۔۳۱۶جلد ۲)و اکسیر فی اصول التفسیر از مولانا سید محمد صدیق حسن خاں رحمہ اللہ ۔ ایک محدث فرماتے ہیں کہ میں نے کشاف کے ایک مقام سے اعتزال موچنے سے نکالا ہے(اتقان ص ۱۹۰۔جلد۲)راقم عرض کرتاہے: ہمارے زمانے کی بعض عربی تفسیروں اور بعض اردو تراجم و تفاسیر کابھی یہی حال ہے کہ ساحرانہ اندازبیان میں کج روی (الحاد)سمودی گئی ہے۔ بڑی احتیاط سے ایسی کتابوں کامطالعہ کرناچاہیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
روافض کی تفسیروں کے نمونے
رافضیوں کی تفسیر کانمونہ دیکھو، کہتے ہیں : ''تَبَّتْ یدَآ اَبِی لَہَبٍ وَّتَبَّ'' ابو لہب کے دونوں ہاتھوں سے مراد ، ابوبکر؄ و عمر ؄ ہیں۔ ''لئن اشرکت لیحبطن عملک'' یعنی خلافت میں اگر علی ؄ کے ساتھ ابوبکر ؄ و عمر ؄ کو شریک کر دیاتواے رسول ﷺ تیرے عمل رائیگاں جائیں گے ! '' ان اللہ یامرکم ان تذبحوا بقرۃ ''۔ جس گائے کے ذبح کرنے کاحکم دیاگیا ہے، وہ عائشہ ؄ہیں ! ''قاتلوا ائمۃ الکفر''۔ یعنی طلحہ ؄ و زبیر ؄! '' مرج البحرین'' سے مراد علی ؄ و فاطمہ؄ ہیں !''اللولو والمرجان'' حسن ؄ و حسین ؄ ہیں'' کل شئی احصیناہ فی امام مبین'' میں امام مبین، علی ؄ ہیں! '' عم یتساءلون عن النباالعظیم '' علی ؄ بن ابی طالب اِنَّمَا وَلِیكُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَالَّذِینَ اٰمَنُوا الَّذِینَ یقِیمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَہُمْ رٰكِعُوْنَ سے مراد علی ؄ ہے !
یہ لوگ ایک لمبی حدیث بھی روایت کیاکرتے ہیں۔ اس میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ حضرت علی ؄ نے نماز پڑھتے ہوئے اپنی ا نگوٹھی صدقہ کر دی تھی، حالانکہ باتفاق اہل علم یہ حدیث موضوع ہے[1]۔ اسی طرح یہ لوگ کہتے کہ آیت ''اُولٰۗىِٕكَ عَلَیہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ'' (البقرہ ۱۹:۱۵۷)حضرت علی ؄ کے بارے میں نازل ہوئی ، جب حضرت حمزہ ؄ شہید ہوگئے !
مندرجہ ذیل تفسیریں بھی بعض وجوہ سے اسی قبیل سے کہی جاسکتی ہیں۔ مثلاً بعض مفسرین کہتے ہیں کہ آیہ '' اَلصّٰبِرِینَ وَالصّٰدِقِینَ وَالْقٰنِتِینَ وَالْمُنْفِقِینَ وَالْمُسْتَغْفِرِینَ بِالْاَسْحَارِ '' (آل عمران ۲:۱۷)میں صابرین سے مراد، رسول اللہ ﷺ ہیں، صادقین سے مراد ، ابوبکر؄ ہیں ، قانتین سے مراد، عمر ؄ ہیں منفقین سے مراد عثمان ؄ ہیں اور مستغفرین سے مراد علی ؄ ہیں۔ اسی طرح کہتے ہیں کہ آیت : ''مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ وَالَّذِینَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَی الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَینَہُمْ تَرٰىہُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا '' (الفتح ۴:۲۵) میں والذین معہ سے مراد ، ابوبکر؄ ہیں، اشداء علی الکفار سے عمر ؄ رحماء بینھم سے عثمان ؄ اور تراھم رکعا سجدا سے مراد علی ؄ ہیں ! اس سے بھی زیادہ عجیب وہ تفسیر ہے جو بعضوں نے سورہ تین کی کی ہے ۔ لکھتےہیں ''والتین'' یعنی ابوبکر؄ ! '' والزیتون'' یعنی عمر؄ '' و طور سنین '' یعنی عثمان ؄ !و ھذا البلد الامین '' یعنی علی ؄۔


[1] اس کاذکر اوپر گذر چکا ہے۔ ص ۷۰۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
خرافاتی تفسیریں
اس قسم کی خرافاتی تفسیروں میں کبھی یہ ہوتاہے کہ لفظ کے ایسے معنی لگالیے جاتے ہیں جو اس کے ہرگز نہیں ہوتے، چنانچہ ان تفسیروں کے جو نمونے اوپر دیئے گئے ہیں، ان میں قرآنی الفاظ ان اشخاص پر دلالت نہیں کرتے جنہیں مراد لیاگیا ہے۔ آیت مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ وَالَّذِینَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَی الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَینَہُمْ تَرٰىہُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا (الفتح) میں جو صفتیں ذکر کی گئی ہیں، ان لوگوں کی ہیں، جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔یہ وہی چیز ہے جس کے لئے نحویوں نے ''خبر بعد خبر '' کی اصطلاح تجویز کی ہے۔ یعنی یہ سب صفتیں ایک ہی موصوف کی ہیں اور وہ موصوف ، اصحابِ رسول اللہ ﷺ ہیں ۔ لہذا ان میں سے محض ایک شخص کو مراد لیناجائز نہیں ۔
اور کبھی ان خرافاتی تفسیروں میں قرآن کے مطلق عام لفظ کو شخص واحد پر منحصر کردیاجاتا ہے، جیسے ارشاد خداوندی '' اِنَّمَا وَلِیكُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَالَّذِینَ اٰمَنُوا'' کی تفسیر میں کہنا کہ مراد ، صرف علی ؄ ہیں یابعضوں کاکہنا کہ آیت ''وَٱلَّذِى جَآءَ بِٱلصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ'' (زمر ۳:۳۴)سےمراد، صرف ابوبکر؄ ہیں۔اور ''لایستوی منکم من انفق من قبل الفتح و قاتل'' (الحدید ۱:۱۰)سے بھی مراد محض ابوبکر ؄ ہیں ۔
ابن عطیہ[1] اور ان جیسے لوگوں کی تفسیریں زمخشری کی تفسیر کے مقابلے میں مسلک سنت و جماعت کی زیادہ پابند اوربدعت سے بہت کچھ محفوظ ہیں۔ ابن عطیہ  اگر صرف ماثور تفاسیر سے سلف صالحین ہی کے اقوال نقل کرتے تو کہیں بہترو مستحسن ہوتا، مگر وہ کرتے یہ ہیں کہ محمد بن جریر کی تفسیر سے جو نہایت جلیل القدر اور عظیم الشان تفسیر ہے، نقل کرتے کرتے خود ابن جریر  کی منقولات سلف کو چھوڑ کر کچھ اور شروع کردیتے ہیں کہ محققین کایہی قول ہے حالانکہ وہ محققین کا نہیں بلکہ متکلمین کاقول ہوتاہے جنہوں نےاپنے اصول اسی راہ کے ٹھہرائے ہیں ، جو معتزلہ کی راہ ہے، اگرچہ وہ معتزلہ کی بہ نسبت سنت سے زیادہ قریب ہیں۔



[1] مفسرین میں ابن عطیہ ، دو شخص ہیں ،ایک کی وفات ۳۸۳ھ کی ہے۔ ان کانام ابو محمد عبداللہ بن عطیہ دمشقی ہے،(مفتاح السعادۃ ص ۱۹۷جلد۱۔طاش کبری زادہ)دوسرے بزرگ ابو محمد عبدالحق بنابی بکر غرناطی ہیں۔ جن کی وفات ۵۴۲ھ میں ہوئی ہے۔مصنف علام  کے کلام میں وہی مرادہیں ۔ ان کی تفسیر کانام '' المحر رالوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز '' ہے علامہ ابو حیان فرماتے ہیں: ' ' ھو اجل من صنف فی علم التفسیر '' (کشف الظنون ص ۳۹۳جلد۲)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
مخالفِ سلف تفسیر بدعت کی راہ ہے
ضروری ہے کہ ہر چیز کو اس کے اصلی رنگ میں دیکھا جائے اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملایا جائے، کسی آیت کی تفسیر میں صحابہ ؄ تابعین اور ائمہ کے اقوال موجود ہوتے ہوئے جب لوگ اپنے ٹھہرائے ہوئے مذہب کی پچ میں دوسری تفسیریں کرنے لگیں،اور ان کامذہب صحابہ ؄ و تابعین  کے مذاہب کے مطابق نہ ہو، تووہ لوگ اپنی اس حرکت سے معتزلہ وغیرہ بدعتی فرقوں کے شریک کار بن جاتے ہیں۔
غرض کہ جو کوئی صحابہ و تابعین کے مذہب اور ان کی تفسیر سے ہٹ جاتا اور مخالف مسلک اختیار کرتاہے، وہ غلطی کرتاہے بلکہ بدعتی بن جاتا ہے ، اب اگر اس نے اجتہاد کی راہ سے ایسا کیاہے، توخدا اس کی غلطی معاف کردے گا۔ یہاں مقصود یہ بتانا ہے کہ علم کے طریقے دلائل اور راہ صواب کیاہے۔ ہم جانتے ہیں کہ صحابہ ؄ نے تابعین  نے، تبع تابعین نے قرآن پڑھا تھا ، اور اس کی تفسیر و معانی کااسی طرح سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے ، جس طرح اس حق کو سب سے بڑھ کر جاننے والے تھے،جسے دے کر خدا نے اپنے رسول اللہ ﷺ کو مبعوث فرمایا تھا ۔ اب جو کوئی ان سلف صالحین سے کٹ کر الگ راہ چلتا اور ان کی تفسیر کے خلاف تفسیر کرتا ہے، توبے شک دلیل ومدلول دونوں میں غلطی کا مرتکب ہوتاہے، لیکن اگر اس کی مخالفت کسی عقلی و سماجی شبہے کی بناپر ہے، جس کی تصریح کرتاہے، تو ا س کامعاملہ جدا ہے، اور اپنی جگہ پر اس سے بحث کی گئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
نتیجہ بحث سابق
یہاں بتانا یہ ہے کہ تفسیر میں جو اختلاف نظر آرہا ہے کس سبب سے پیدا ہو گیا ہے؟ سو واضح رہے کہ اس اختلاف کاایک سب سے بڑا سبب باطل بدعتوں کاظہور ہے ۔ بدعتی لوگوں نے تحریف سے کام لیا، اور کلام اللہ اور کلام رسول اللہ ﷺ کے ایسے معنی لگائے جو اس کے نہیں تھے، اور ایسی تاویلیوں کے تیر چلائے جن کاوہ متحمل نہ تھا۔
لہذا یہ بنیادی چیز ہے کہ آدمی اس قول کو اچھی طرح جانے اور سمجھے جس کی بدعتیوں نے مخالفت کی ہے، اور یقین کرے کہ وہی قول حق ہے ۔ پھر تفصیلی طریقوں سے معلوم ہونا چاہیئے کہ بدعتیوں کی تفسیر میں کیاخرابیاں ہیں،اور یہ اسی طرح معلوم ہوسکتا ہے کہ حق پر خدا کی طرف سے منصوب و قائم دلائل و براہین کی پوری معرفت حاصل ہو۔
متاخرین سے جیسی غلطیاں قرآن کی تفسیر میں ہوئی ہیں ویسی ہی حدیث پر ان کی شرحوں[1]اور تفسیروں میں بھی پیش آئی ہیں ۔
تفسیر میں جن لوگوں سے مدلول میں نہیں ،بلکہ دلیل میں غلطیاں ہوئی ہیں، ان میں بہت سے صوفی ،واعظ،فقہاء وغیرہ بھی ہیں۔ یہ لوگ جو معنی کرتے ہیں گو وہ اپنی جگہ صحیح ہوں مگر قرآن ان پر دلالت نہیں کرتا، چنانچہ ابو عبدالرحمن[2] کی حقائق التفسیر ایسی غلطیوں سے بھری پڑی ہے، اور جب یہ لوگ اپنی تفسیر میں غلط معانی بھی بیان کرتے ہیں ، توپہلی قسم کے لوگوں میں داخل ہوجاتے ہیں، جو دلیل میں بھی باطل پر ہیں اور مدلول میں بھی باطل پرہیں۔



[1] شارحین حدیث میں جن لوگوں کاتعلق اشعری اور ماتریدی علم کلام سے ہے ان کا یہی حال ہے کہ وہ اسی نقطہ نگاہ کو شرح حدیث میں سامنے رکھتے ہیں، جو ان کے متعلق مکتب فکر کاہے۔چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ قاضی ابن العربی مالکی، قاضی عیاض مالکی، علامہ نووی ، شافعی، امام بیہقی شافعی ، حافظ ابن الجوزی حنبلی ، ملاعلی قاری حنفی ،وغیرہم نے آیات متعلقہ صفات الہیہ کی شرح و تفسیر میں وہی انداز اختیار کیاہے،جومعتزلہ سے ماخوذ ہے۔ لیکن واضح رہے کہ حق و صواب وہی مسلک ہے جس پر ظواہر نصوص دال ہیں اور جو ائمہ سلف اور اہل حدیث اصحابہ ستہ وغیرہم۔کامسلک ہے اور یہی عقیدہ صحیح بھی ہے۔فان الحق احق بالاتباع ،واللہ اعلم۔
[2] ابو عبدالرحمن محمد بن عبدالرحمن السلمی اپنے زمانے کے صوفیوں کاشیخ اور مورخ تھا، بلکہ ان کے لئے حدیثیں وضع کیاکرتا تھا۔ ''حقائق'' التفسیر ان ہی کے لئے تصنیف کی (لسان المیزان ص ۱۴۰جلد ۵)اس تفسیر میں بقول حافظ ابن الصلاح ایسی تفسیر بھی ہے جو کفر تک پہنچاسکتی ہے(اتقان ص ۱۸۴جلد۲، اکسیر ۷۴۰)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
تفسیر کاصحیح طریقہ

اب سوال پیداہوتا ہے کہ پھر تفسیر کاسب سے بہتر طریقہ کیاہے؟ توجواب اس کایہ ہے، کہ تفسیر کابہترین طریقہ یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر ، خود قرآن سے کی جائے۔ قرآن میں جو مضمون ایک جگہ مجمل ہے ،دوسری جگہ مفصل ملے گا، او رجہاں اختصار سے کام لیاگیا ہے، دوسری جگہ اس کی تفصیل مل جائے گی ، اور اگر اس میں کامیاب نہ ہوسکو ، توسنت کی طرف رجوع کرو، جوقرآن کی شرح و تفسیر کرتی ہے، بلکہ امام ابو عبداللہ محمد بن ادریس الشافعی نے تویہاں تک فرمادیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جو حکم بھی دیاہے ، وہ قرآن ہی سے ماخوذ[1]ہے۔
وَاَنْزَلْنَآ اِلَیكَ الذِّكْرَ لِتُبَینَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یتَفَكَّرُوْنَ (النحل۶:۴۴)
'' اور اتاری ہم نے تیری طرف یہ کتاب تاکہ وضاحت کرے تولوگوں کے لئے ان مضامین کی جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں،اور تاکہ وہ غور کیاکریں''۔
وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَیكَ الْكِتٰبَ اِلَّا لِتُـبَینَ لَہُمُ الَّذِی اخْتَلَفُوْا فِیہِ۰ وَہُدًى وَّرَحْمَۃً لِّقَوْمٍ یؤْمِنُوْنَ(النحل ۸:۱۴)
'' اور ہم نے تم پر (اے نبی ﷺ )یہ کتاب اسی لئے نازل کی ہے کہ تم کھول کر بتادو (ان کو وہ باتیں جن میں یہ باہم مختلف ہیں اور نیز یہ ہدایت اور رحمت ہے، ایمان والوں کے لئے ''۔
اور اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :معلوم ہے کہ مجھے قرآن بھی بخشا گیا ہے اور قرآن کے ساتھ اس کامثل بھی[2]''۔اور یہ مثل قرآن و سنت ہے۔سنت بھی نازل ہوتی تھی،البتہ قرآن کی طرح اس کی تلاوت نہیں رکھی گئی ۔ امام شافعی  وغیرہ نے اسے بکثرت دلائل سے واضح کیاہے۔ جس کی تشریح یہ موقع نہیں۔
مقصد یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر، خود قرآن ہی سے طلب کرواور اگر نہ پاؤ، توسنت میں تلاش کرو، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ ؄ سے فرمایا تھا ، جب انہیں یمن روانہ کرنے لگے، '' کس چیز سے فیصلہ کروگے؟'' معاذ ؄ نے عرض کیا:کتاب اللہ سے ، فرمایا ''اور اگر اس میں نہ ملے ؟'' معاذ ؄ نے عرض کیاتوسنت رسول اللہ ﷺ سے ۔ فرمایا '' اگر سنت میں بھی نہ پایا ''؟عرض کیاتواس صورت میں اپنے اجتہاد رائے سے کام لوں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر معاذ ؄ کے سینے پرہاتھ مارا اور فرمایا '' خداکاشکر ،جس نے رسول اللہﷺ کے قاصد کو وہ توفیق بخشی جس سے اللہ کارسول راضی ہے!'' یہ حدیث اچھی اسناد کے ساتھ کتب مسانید و سنن میں موجود ہے[3]۔
لیکن جب ہمیں قرآن اور سنت میں تفسیرنہ ملے ، تو ہمیں اس کی جستجو اقوالِ صحابہ میں کرنا چاہیئے،کیونکہ مخصوص قرائن و حالات کے مشاہدے کی وجہ سے وہ مطالب قرآن، سب سے زیادہ جاننے والے تھے اور مکمل فہم و عمل صالح کے مالک تھے، خصوصاً ان کے علماء و اکابر جیسے خلفائے اربعہ؄ اور ہدایت یاب ائمہ، جیسے عبداللہ بن مسعود ؄ امام ابو جعفر محمد بن جریر الطبری ؄ نے اپنی اسناد سے روایت کیاہے کہ عبداللہ بن مسعود ؄ کہاکرتے تھے '' قسم ہے اس کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ کتاب اللہ کی کوئی آیت نازل نہیں ہوئی ، جس کے بارے میں مجھےمعلوم نہ ہو، کس کے حق میں نازل ہوئی ہے اورکہاں نازل ہوئی ہے۔ اگر میں کسی ایسے شخص کو جانتا، جو مجھ سے زیادہ کتاب اللہ کاعلم رکھتا ہے، اور اس کے پاس سواری سے پہنچا جاسکتا ، تومیں ضرور اس کے پاس جا پہنچتا[4] ''۔اور اعمش[5] نے اپنی اسناد سے انہی عبداللہ بن مسعود؄ کایہ قول روایت کیاہے''۔ ہم میں سے کوئی جب دس آیتیں پڑھتا تھا، جب تک ان آیتوں کے معانی کی معرفت حاصل نہ کر لے اور ان پر عمل میں بھی پختہ نہ ہوجائے[6]''۔
انہی ہدایت یاب ائمہ میں سے رسول اللہ ﷺ کے ابن عم، ترجمان القرآن حبر الائمہ عبداللہ بن عباس ؄ ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی برکت دعا سے بحر العلوم بن گئے تھے۔ فرمایا تھا '' خدایا! اسے دین میں نفقہ اور قرآن کافہم بخش دے[7]''۔
ابن جریر  نے اپنی اسناد سے روایت کیاہے کہ عبداللہ بن مسعود ؄ کہاکرتے تھے۔ '' ابن عباس ؄ قرآن کے کیاہی خوب ترجمان ہیں[8]!'' عبداللہ بن مسعود ؄ کایہ قول ، ابن عباس ؄ کے حق میں کئی طریقوں سے مروی ہے، لہذا یقین ہے کہ ابن مسعود ؄ نےیہی کہاتھا۔ عبداللہ بن مسعود ؄ کاانتقال ۳۳ھ میں ہوا۔صحیح روایت یہی ہے، لیکن عبداللہ بن عباس ؄ ان کے بعد بھی چھتیس سال زندہ ہے۔ اندازہ کرلو کہ ابن مسعود ؄ کے بعد اس طویل مدت میں عبداللہ بن عباس ؄ کے علوم میں کتنا بہت اضافہ ہوگیا ہوگا؟ اعمش سے ابو وائل[9] ؄ نے بیان کیا کہ '' امیر المومنین علی ؄ نے عبداللہ بن عباس ؄ کو امیر حج بناکر بھیجا، اور عبداللہ ؄ نے اپنے خطبہ میں سورہ بقرہ (یاسورہ نور)تلاوت کرکے ایسی تفسیر بیان کی کہ اگر روم ، ترک ،دیلم کے کفار بھی سن لیتے، توضرور اسلام لے آتے[10]''۔
اسماعیل بن[11] عبدالرحمن سدی (کبیر )اپنی تفسیر میں زیادہ تر ابن مسعود ؄ اور ابن عباس؄ ہی کے اقوال روایت کرتے ہیں، لیکن بعض اوقات ان کی زبانی اہل کتاب کے اقوال بھی نقل کر جاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اہلِ کتاب سے روایت کرنے کی اجازت دی ہے ، فرمایا '' میری طرف سے دوسروں کو پہنچاؤ اگرچہ وہ ایک آیت ہی ہو، اور بنی اسرائیل سے روایت کرنے میں حرج نہیں، لیکن جوکوئی جان بوجھ کر میری نسبت جھوٹ بولے ،دوزخ میں اپنا ٹھکانہ بھی بنالے''۔
یہ حدیث بخاری نے عبداللہ بن عمرو ؄ سے روایت کی ہے[12]۔
انہی عبداللہ بن عمرو ؄ کوجنگ یرموک میں دوبوجھ اہل کتاب کی کتابوں کے دستیاب ہوگئے تھے،اور وہ اسی حدیث سے اجازت سمجھنے کی بناپر ان کتابوں سے روایت کرنے لگے تھے۔



[1] الرسالہ از حضرت امام شافعی  ص ۹۲طبع احمد شاکر۔
[2] یہ روایت مشکوۃ کتاب الاعتصام میں بحوالہ سنن،ابو داؤد ،دارمی مسند احمد وغیرہ ہے، تنقیح الرواۃ میں علمائے حدیث سے نقل فرمایا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے۔
[3] حضرت معاذ ؄ کی یہ حدیث سنن ابی داؤد ۔ جامع ترمذی وغیرہ کے کتاب القضاء میں ہے۔ تفصیلی بحث کے لئے دیکھیے (تلخیص الحبیر ص ۴۰۱، عون المعبود ص ۳۳۱جلد ۳ تحفۃ الاحوذی ص ۲۷۶جلد۳)
[4] تفسیر ابن جریر ص ۳۵جلد۱۔
[5] سلیمان بن مہران الاعمش الکوفی۔
[6] ایضاً تفسیر ابن جریر۔
[7] مسند امام احمد طبع احمد شاکر ص ۱۵جلد۵
[8] تفسیر ابن جریر ص ۴۰جلد۱۔
[9] ابو وائل عبداللہ بن بحیر واعظ ۔(تہذیب ۱۵۳جلد۵)
[10] تفسیر ابن جریر ص ۳۶جلد۱۔
[11] سدی کبیر لقب ہے، اسماعیل بن عبدالرحمن کوفی محدثین کے ہاں ان کاپایہ بلند نہیں ہے، اگرچہ بالکل ساقط بھی نہیں،وفات ۱۲۷ھ (تہذیب )لیکن سدی صغیر (محمد بن مروان )ساقط الاعتبار ہے۔(تہذیب)
[12] مشکوۃ بحوالہ صحیح بخاری ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
اسرائیلی روایات کی حیثیت

لیکن یہ یادرہے کہ اسرائیلیات ، استشہاد کے لئے تو روایت کی جاسکتی ہیں، مگر اعتقاد کے لئے نہیں، کیونکہ اسرائیلیات تین قسم کی ہیں، وہ جن کی صحت ہماری پاس کی ہدایت سے معلوم ہوچکی ہے ، توان کی ہم تصدیق کرتے ہیں، اور وہ جن کاجھوٹ ہمارے پاس کی ہدایت سے ثابت ہے ، ظاہر ہے ہم ان کے بطلان کے قائل ہیں ، اور تیسری قسم ایسی ہے جس کے بارے میں ہماری ہدایت خاموش ہے ، نہ تصدیق کرتی ہے نہ تکذیب ، تو ایسی اسرائیلیات پر ہم نہ ایمان رکھتے ہیں نہ انہیں جھٹلاتے ہیں۔ ان کی روایت زیادہ سے زیادہ استشہاد کے لئے جائز ہوسکتی ہے۔
لیکن اکثر وبیشتر اسرائیلیات ایسی ہیں کہ ان سے دین میں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا، اسی لئے خود علماء اہل کتاب کابھی ان میں بڑا اختلاف ہے ، لیکن ان اسرائیلیات کی وجہ سے بھی مفسرین میں اختلاف پڑگیا ہے، جیسا کہ یہ اختلاف کہ اصحاب کہف کے نام کیا تھے؟ ان کے کتے کارنگ کیساتھا ؟ان کی تعداد کتنی تھی؟ یایہ کہ عصائے موسیٰ علیہ السلام کس درخت کی لکڑی کاتھا؟وہ کون پرندے تھے جنہیں خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے زندہ کر دیا تھا؟گائے کاوہ کون ساحصہ تھا، جس سے مقتول کومارا گیا تھا؟اور وہ کون سادرخت تھا، جس میں سے خدائے موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایاتھا ؟وغیرہ امور جنہیں خدا نے قرآن میں مبہم رکھاہے، اور ان کے علم سے کسی کودنیا میں یادین میں کوئی فائدہ بھی نہیں ہوتا، مگر اس بارے میں اہل کتاب کااختلاف نقل کرناجائز ہے ، جیسا کہ خود خدا نے قرآن میں ذکر فرمایا ہے :
سَیقُوْلُوْنَ ثَلٰثَۃٌ رَّابِعُہُمْ كَلْبُہُمْ وَیقُوْلُوْنَ خَمْسَۃٌ سَادِسُہُمْ كَلْبُہُمْ رَجْمًۢـــا بِالْغَیبِ وَیقُوْلُوْنَ سَبْعَۃٌ وَّثَامِنُہُمْ كَلْبُہُمْ قُلْ رَّبِّیٓ اَعْلَمُ بِعِدَّتِہِمْ مَّا یعْلَمُہُمْ اِلَّا قَلِیلٌ فَلَا تُمَارِ فِیہِمْ اِلَّا مِرَاۗءً ظَاہِرًا وَّلَا تَسْتَفْتِ فِیہِمْ مِّنْہُمْ اَحَدًا (کہف ۳:۲۲)
'' بعض کہیں گے کہ وہ تین ہیں اور چوتھا ان کاکتاب، اور بعضے کہیں گے کہ پانچ ہیں، چھٹا ان کاکتا، یہ لوگ بے تحقیق بات ہانک رہے ہیں اور بعض کہیں گے کہ وہ سات ہیں آٹھواں ان کاکتاہے تم (اے نبی ﷺ)کہہ دو، میرارب ان کاشمار خوب جانتا ہے، تھوڑے ہی لوگ جانتے ہیں، تم سرسری گفتگو ہی اس سلسلے میں کرواور کسی سے بھی اس کے متعلق دریافت نہ کرو''۔
اس آیت کریمہ نے ہمیں سکھایا ہے کہ ایسے مقام میں کس ادب سے کام لینا اور کون سی روش اختیار کرناچاہیے۔اللہ تعالی نے تین اقوال کاتذکرہ کیاہے۔ پہلے دو قولوں کی تصنیف فرمائی ہے اور تیسرے قول پر سکوت برتاہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہی قول صحیح ہے ، اس لئے کہ اگر یہ باطل ہوتا توپہلے دونوں اقوال کی طرح اس کی بھی تردید فرمادی جاتی۔ پھرہماری اس طرف رہنمائی کی گئی ہے کہ اصحاب کہف کی تعداد کاجاننا بے فائدہ ہے، اور ایسے موقعہ پر ہمیں بس یہ کہہ دینامناسب ہے۔ ''قل ربی اعلم بعدتھم'' اور یہ اس لئے کہ ان کی صحیح تعداد کم ہی لوگوں کو معلوم ہے، اور یہ لوگ وہی ہیں ،جن پر خدا نے یہ چیز ظاہر فرمائی ہے، اسی لئے فرمایا : ''فلا تمار فیھم الامرآء ظاھرا'' یعنی اس بے فائدہ بحث میں اپنے آپ کو نہ ڈالو اور لوگوں سے پوچھ گچھ بھی نہ کرو۔ کیونکہ انہیں اصلیت کی خبر نہیں، محض اٹکل پچو باتیں کیاکرتے ہیں۔
اس آیت نے ہمیں یہ بھی تعلیم دی کہ جب کسی مختلف فیہ واقعہ کاتذکرہ کروتواسی جگہ تمام اقوال کابھی تذکرہ کر کے صحیح قول کی طرف اشارہ کردیاکرو ، تاکہ بحث طول نہ پکڑے ، اور لوگ بے فائدہ قیل وقال میں پڑکر اہم مسائل سے غافل نہ ہوجائیں۔
جب کسی مسئلے میں آدمی اختلاف کاتذکرہ کرتا ہے اور لوگوں کے تمام اقوال جمع نہیں کرتا تو کوتاہی کا مرتکب ہوتاہے، اسلئے کہ ممکن ہے وہی قول حق ہو جسے چھوڑ دیاگیا ہے اسی طرح اگراختلاف کاذکر کر کے صحیح قول کو بیان نہیں کرتا تو بھی نقص کاشکار ہوتاہے، اور اگر عمداً غیر صحیح کو صحیح بتاتا ہے توکذب کاگناہ کرتاہے، اور اگر جہل کی راہ سے ایسا کرتا ہے ، توغلطی کاشکار ہوتاہے۔اسی طرح جو شخص لاطائل اختلاف کاذکرکرتا ہے یاایسے بہت سے اقوال نقل کرنے بیٹھ جاتا ہے، جو معنی کے لحاظ سے ایک دو قول ہی ہوتے ہیں، تو وقت عزیز برباد کرتا ہے، اورجو کوئی غیر صحیح اقوال جمع کرتاہے،د غابازی کا مرتکب ہوتاہے۔واللہ الموفق للصواب (خداہی درست راہ کی توفیق بخشنے والاہے۔)
 
Top