- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
(۲۱)امام سعید بن مسیب نے کہا "مجھے صحابہ کرام سے میرے کسی(دینی ) بھائی نے لکھا کہ "جب تک ممکن ہو اپنے بھائی کے معاملہ کو احسن طریقے چلاؤ۔
(۲۲)امام اوزاعی سے روایت ہے کہ میں نے بلا ل بن تمیم کو سنا انہوں نے کہا تیرا وہ(مسلمان) بھائی جو جب بھی تمہیں ملے تو تمہیں تیرا اللہ یاد دلائے وہ تیرے اس (مسلمان)بھائی سے بہتر ہے جو جب بھی تم سے ملے تو تمہارےہاتھ میں ایک دینار رکھ د ے۔
(۲۳)ابن الحسن الوراق نے ابو عثمان سے محبت کے متعلق پوچھا تو کہا اللہ کے ساتھ تعلق ادب کے ساتھ ہونا چاہیئے اور رسول اللہ ﷺسے تعلق علم کو لازم کرنے( یعنی سیکھنے و سکھانے اور سنت کی اتباع) کے ساتھ ہونا چاہیئے اور اولیاء اللہ کے ساتھ احترام کے اور خدمت کے ساتھ اور (مسلمان) بھائیوں کے ساتھ محبت بشارت اور خوش مزاجی کے ساتھ اور ان پر رد و تنقید سے اجتناب کے ساتھ ہونا چاہیئے۔ یہاں تک کہ (ان کا کوئی کام )شریعت اور حدود و حرمت کی پامالی کا سبب نہ بنے ۔ فرمان الٰہی ہے: خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ ﴿١٩٩﴾ (الأعراف )یعنی معاف کرنے کو اختیار کر اور نیکی کا حکم دے) اور جاھلوں کے ساتھ صحبت انکی طرف نظر رحمت کے ساتھ ہونی چاہیئے اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت (یعنی ہدایت) کو دیکھنا چاہیئے کہ اللہ نے تمہیں ان کی طرح نہیں بنایا اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہیئے کہ تمہیں جہالت کی مصیبت سے عافیت میں رکھے۔
(۲۴)احنف بن قیس نے ایک شخص کے ساتھ اپنے دوست کو لکھا کہ "اما بعد! جب تمہارے پاس تمہارا یہ بھائی پہنچے جو کہ (تمہارے اعتقاد و دین میں )تمہارا موافق ہے تو تمہارے سر آنکھوں پر ہونا چاہیئے کیوں کہ موافق (مسلمان) بھائی مخالف والد سے بہتر ہے۔ کیا تو نے نوح کے لئے اس کے بیٹے کے بارے میں فرمان الٰہی نہیں سنا: قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ ۔۔۔﴿٤٦﴾ (هود)یعنی وہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے۔ یعنی تیرے اہل ملت (اور دین) سے نہیں ہے۔ لہٰذا تو (اپنے اس بھائی ) کو اور اس جیسوں کو دیکھ اور انہیں ہی اپنا سفر و حضر میں خزینہ و ذخیرہ اور ساتھی بنا۔ کیوں کہ اگر تو انہیں اپنے قریب کرے گا تو یہ بھی تمہیں قریب ہونگے اور اگر انہیں دور کریگا تو یہ اللہ (کی توفیق اور مہربانی )سے بے پرواہ ہو جائینگے ۔اور تم پر سلام ہو۔
(۲۵)جناب محمد بن کعب القرظی نے جناب عمر بن عبدالعزیز کو وصیت کرتے ہوئے کہا "اے عمر بن عبدالعزیز میں تمہیں امت محمدیہ (علی صاحبھا الصلاۃوالسلام) کے ساتھ خیر خواہی کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ جو ان میں سے تم سے چھوٹا ہے اسے اپنے بیٹے کی طرح سمجھ اور جو بڑا ہے اسے اپنے باپ کی جگہ سمجھ اور جو ان میں سے تیرا ہم عمر ہے اسے اپنے بھائی کی جگہ سمجھ ۔سو اپنے باپ کے ساتھ نیکی کرو اور بھائی کے ساتھ(تعلق کو اچھی طرح) ملاؤ اور اپنی اولاد کا خیال کرو۔ اس پر خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے کہا محمد بن کعب، اللہ تجھے جزاء خیر یعنی اچھا بدلہ دے۔
(۲۶)مالک بن دینا ر نے اپنے سسر (یا سالے وغیرہ) کو کہا" اے مغیرہ دیکھو اپنا ہر وہ بھائی اور ساتھی اور دوست جس سے تمہیں اپنے دین کے اندر کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے تو اسے چھوڑ دو کیوں کہ وہ( در حقیقت )تیرا دشمن ہے۔ اے مغیرہ! لوگوں کی کئی شکلیں ہیں (یعنی عادات واخلاق اور اعتقاد کے اعتبارسے) کبوتر کبوتر کے ساتھ ہوگا اور کوا کوے کے ساتھ اور چڑیا چڑیا کے ساتھ اور ہر ایک اپنے ہم شکل کے ساتھ ہوتا ہے۔
(۲۲)امام اوزاعی سے روایت ہے کہ میں نے بلا ل بن تمیم کو سنا انہوں نے کہا تیرا وہ(مسلمان) بھائی جو جب بھی تمہیں ملے تو تمہیں تیرا اللہ یاد دلائے وہ تیرے اس (مسلمان)بھائی سے بہتر ہے جو جب بھی تم سے ملے تو تمہارےہاتھ میں ایک دینار رکھ د ے۔
(۲۳)ابن الحسن الوراق نے ابو عثمان سے محبت کے متعلق پوچھا تو کہا اللہ کے ساتھ تعلق ادب کے ساتھ ہونا چاہیئے اور رسول اللہ ﷺسے تعلق علم کو لازم کرنے( یعنی سیکھنے و سکھانے اور سنت کی اتباع) کے ساتھ ہونا چاہیئے اور اولیاء اللہ کے ساتھ احترام کے اور خدمت کے ساتھ اور (مسلمان) بھائیوں کے ساتھ محبت بشارت اور خوش مزاجی کے ساتھ اور ان پر رد و تنقید سے اجتناب کے ساتھ ہونا چاہیئے۔ یہاں تک کہ (ان کا کوئی کام )شریعت اور حدود و حرمت کی پامالی کا سبب نہ بنے ۔ فرمان الٰہی ہے: خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ ﴿١٩٩﴾ (الأعراف )یعنی معاف کرنے کو اختیار کر اور نیکی کا حکم دے) اور جاھلوں کے ساتھ صحبت انکی طرف نظر رحمت کے ساتھ ہونی چاہیئے اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت (یعنی ہدایت) کو دیکھنا چاہیئے کہ اللہ نے تمہیں ان کی طرح نہیں بنایا اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہیئے کہ تمہیں جہالت کی مصیبت سے عافیت میں رکھے۔
(۲۴)احنف بن قیس نے ایک شخص کے ساتھ اپنے دوست کو لکھا کہ "اما بعد! جب تمہارے پاس تمہارا یہ بھائی پہنچے جو کہ (تمہارے اعتقاد و دین میں )تمہارا موافق ہے تو تمہارے سر آنکھوں پر ہونا چاہیئے کیوں کہ موافق (مسلمان) بھائی مخالف والد سے بہتر ہے۔ کیا تو نے نوح کے لئے اس کے بیٹے کے بارے میں فرمان الٰہی نہیں سنا: قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ ۔۔۔﴿٤٦﴾ (هود)یعنی وہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے۔ یعنی تیرے اہل ملت (اور دین) سے نہیں ہے۔ لہٰذا تو (اپنے اس بھائی ) کو اور اس جیسوں کو دیکھ اور انہیں ہی اپنا سفر و حضر میں خزینہ و ذخیرہ اور ساتھی بنا۔ کیوں کہ اگر تو انہیں اپنے قریب کرے گا تو یہ بھی تمہیں قریب ہونگے اور اگر انہیں دور کریگا تو یہ اللہ (کی توفیق اور مہربانی )سے بے پرواہ ہو جائینگے ۔اور تم پر سلام ہو۔
(۲۵)جناب محمد بن کعب القرظی نے جناب عمر بن عبدالعزیز کو وصیت کرتے ہوئے کہا "اے عمر بن عبدالعزیز میں تمہیں امت محمدیہ (علی صاحبھا الصلاۃوالسلام) کے ساتھ خیر خواہی کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ جو ان میں سے تم سے چھوٹا ہے اسے اپنے بیٹے کی طرح سمجھ اور جو بڑا ہے اسے اپنے باپ کی جگہ سمجھ اور جو ان میں سے تیرا ہم عمر ہے اسے اپنے بھائی کی جگہ سمجھ ۔سو اپنے باپ کے ساتھ نیکی کرو اور بھائی کے ساتھ(تعلق کو اچھی طرح) ملاؤ اور اپنی اولاد کا خیال کرو۔ اس پر خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے کہا محمد بن کعب، اللہ تجھے جزاء خیر یعنی اچھا بدلہ دے۔
(۲۶)مالک بن دینا ر نے اپنے سسر (یا سالے وغیرہ) کو کہا" اے مغیرہ دیکھو اپنا ہر وہ بھائی اور ساتھی اور دوست جس سے تمہیں اپنے دین کے اندر کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے تو اسے چھوڑ دو کیوں کہ وہ( در حقیقت )تیرا دشمن ہے۔ اے مغیرہ! لوگوں کی کئی شکلیں ہیں (یعنی عادات واخلاق اور اعتقاد کے اعتبارسے) کبوتر کبوتر کے ساتھ ہوگا اور کوا کوے کے ساتھ اور چڑیا چڑیا کے ساتھ اور ہر ایک اپنے ہم شکل کے ساتھ ہوتا ہے۔