• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الإخاء

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
(۲۱)امام سعید بن مسیب نے کہا "مجھے صحابہ کرام سے میرے کسی(دینی ) بھائی نے لکھا کہ "جب تک ممکن ہو اپنے بھائی کے معاملہ کو احسن طریقے چلاؤ۔

(۲۲)امام اوزاعی سے روایت ہے کہ میں نے بلا ل بن تمیم کو سنا انہوں نے کہا تیرا وہ(مسلمان) بھائی جو جب بھی تمہیں ملے تو تمہیں تیرا اللہ یاد دلائے وہ تیرے اس (مسلمان)بھائی سے بہتر ہے جو جب بھی تم سے ملے تو تمہارےہاتھ میں ایک دینار رکھ د ے۔

(۲۳)ابن الحسن الوراق نے ابو عثمان سے محبت کے متعلق پوچھا تو کہا اللہ کے ساتھ تعلق ادب کے ساتھ ہونا چاہیئے اور رسول اللہ ﷺسے تعلق علم کو لازم کرنے( یعنی سیکھنے و سکھانے اور سنت کی اتباع) کے ساتھ ہونا چاہیئے اور اولیاء اللہ کے ساتھ احترام کے اور خدمت کے ساتھ اور (مسلمان) بھائیوں کے ساتھ محبت بشارت اور خوش مزاجی کے ساتھ اور ان پر رد و تنقید سے اجتناب کے ساتھ ہونا چاہیئے۔ یہاں تک کہ (ان کا کوئی کام )شریعت اور حدود و حرمت کی پامالی کا سبب نہ بنے ۔ فرمان الٰہی ہے: خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ‌ بِالْعُرْ‌فِ وَأَعْرِ‌ضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ ﴿١٩٩(الأعراف )یعنی معاف کرنے کو اختیار کر اور نیکی کا حکم دے) اور جاھلوں کے ساتھ صحبت انکی طرف نظر رحمت کے ساتھ ہونی چاہیئے اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت (یعنی ہدایت) کو دیکھنا چاہیئے کہ اللہ نے تمہیں ان کی طرح نہیں بنایا اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہیئے کہ تمہیں جہالت کی مصیبت سے عافیت میں رکھے۔

(۲۴)احنف بن قیس نے ایک شخص کے ساتھ اپنے دوست کو لکھا کہ "اما بعد! جب تمہارے پاس تمہارا یہ بھائی پہنچے جو کہ (تمہارے اعتقاد و دین میں )تمہارا موافق ہے تو تمہارے سر آنکھوں پر ہونا چاہیئے کیوں کہ موافق (مسلمان) بھائی مخالف والد سے بہتر ہے۔ کیا تو نے نوح  کے لئے اس کے بیٹے کے بارے میں فرمان الٰہی نہیں سنا: قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ ۔۔۔﴿٤٦ (هود)یعنی وہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے۔ یعنی تیرے اہل ملت (اور دین) سے نہیں ہے۔ لہٰذا تو (اپنے اس بھائی ) کو اور اس جیسوں کو دیکھ اور انہیں ہی اپنا سفر و حضر میں خزینہ و ذخیرہ اور ساتھی بنا۔ کیوں کہ اگر تو انہیں اپنے قریب کرے گا تو یہ بھی تمہیں قریب ہونگے اور اگر انہیں دور کریگا تو یہ اللہ (کی توفیق اور مہربانی )سے بے پرواہ ہو جائینگے ۔اور تم پر سلام ہو۔

(۲۵)جناب محمد بن کعب القرظی نے جناب عمر بن عبدالعزیز کو وصیت کرتے ہوئے کہا "اے عمر بن عبدالعزیز میں تمہیں امت محمدیہ (علی صاحبھا الصلاۃوالسلام) کے ساتھ خیر خواہی کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ جو ان میں سے تم سے چھوٹا ہے اسے اپنے بیٹے کی طرح سمجھ اور جو بڑا ہے اسے اپنے باپ کی جگہ سمجھ اور جو ان میں سے تیرا ہم عمر ہے اسے اپنے بھائی کی جگہ سمجھ ۔سو اپنے باپ کے ساتھ نیکی کرو اور بھائی کے ساتھ(تعلق کو اچھی طرح) ملاؤ اور اپنی اولاد کا خیال کرو۔ اس پر خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے کہا محمد بن کعب، اللہ تجھے جزاء خیر یعنی اچھا بدلہ دے۔

(۲۶)مالک بن دینا ر نے اپنے سسر (یا سالے وغیرہ) کو کہا" اے مغیرہ دیکھو اپنا ہر وہ بھائی اور ساتھی اور دوست جس سے تمہیں اپنے دین کے اندر کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے تو اسے چھوڑ دو کیوں کہ وہ( در حقیقت )تیرا دشمن ہے۔ اے مغیرہ! لوگوں کی کئی شکلیں ہیں (یعنی عادات واخلاق اور اعتقاد کے اعتبارسے) کبوتر کبوتر کے ساتھ ہوگا اور کوا کوے کے ساتھ اور چڑیا چڑیا کے ساتھ اور ہر ایک اپنے ہم شکل کے ساتھ ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
(۲۷)امام حسن بصری نے کہا "ایک مومن دوسرے مومن کے لئے آئینہ ہے۔ اگر اس کے اندر کوئی ایسی چیز دیکھتا ہے جو اسے ناپسند آتی ہے تو اس کو سیدھا کر دیتا ہے۔ یعنی اس کی اصلاح کرتا ہے اور اسے چھوڑ دیتا ہے اور سرا و اعلانیۃ آئینہ کی حفاظت کرتا ہے اور تیرے دوستوں کا بھی ایک حلقہ ہوگا اور ان کی بھی ایک تعداد ہو گی جن کو یاد کرنا تو پسند کرتا ہے لہٰذا ساتھیوں اور دوستوں اور اہل مجلس پر بھروسہ کیا کرو۔

(۲۸)محمد بن واسع کے پاس مرو شہر میں عطاء بن ابی مسلم آئے اور اس کے ساتھ اس کا بیٹا عثمان تھا۔ انہوں نے محمد بن واسع سے پوچھا کہ دنیا میں کون سا عمل افضل ہے؟ کہا (نیک و صالح) دوستوں کے ساتھ گذارنا اور (مسلمان) بھائیوں سے جب صحبت ہو تو نیکی اور تقویٰ کے بارے میں بات چیت کرنا۔ کہا پھر اس وقت اللہ تعالیٰ ان کے کینہ کو حلاوت و چاشنی سے بدل دے گا۔پھر وہ ایک دوسرے کے ساتھ میل جول اور نیکی کرتے ہیں۔ اور وہ ساتھی اور بھائی جو اپنے پیٹ کے بندے ہوں تو ان کی صحبت اور بات چیت میں کوئی بھلائی اور خیر نہیں ہے کیوں کہ اس وقت وہ ایک دوسرے کو آخرت (کے لئے اعمال صالح کرنے) سے روکتے ہیں۔

(۲۹)کسی آدمی نے داؤد طائی کو کہا کہ "مجھے وصیت کریں" انہوں نے کہا "پرہیزگاروں کے ساتھ رہیں کیوں کہ وہ سارے لوگوں میں سے سب سے کم قوت والے اور سب سے زیادہ( نیکی کے معاملات میں) تعاون کرنے والے ہیں۔

(۳۰)ہم نے محبت اور بھائی چارہ کے لئے تجربہ کیا ہے بس ہم نے ذوحسب شخص سے بڑھ کر محبت و اخوت میں ثابت قدم نہیں دیکھا۔

(۳۱)کسی داناء سے سوال کیا گیا کہ "کون سا خزانہ بہتر ہے؟ کہا "اللہ کے ڈر(تقویٰ) کے بعد نیک و صالح (دینی) بھائی( بہتر) خزانہ ہے۔

(۳۲)حمدون قصار نے کہاکہ جب تیرے (دینی )بھائیوں میں سے کوئی بھائی پھسل جائے تو اس کے لئے نوے بار معذرت کر پھر اگر نہ قبول کرے تو ، تو ہی غلطی پر ہے۔

(۳۳)عبداللہ بن مبارک نے کہا "جو علماء کی توہین کرے گا اس کی آخرت تباہ ہو جائے گی اور جو حکمرانوں کی توہین کرے گا اس کی دنیا برباد ہو جائیگی۔ اور جو شخص اپنے (مسلمان) بھائیوں کی تخفیف کرے گا اس کی مروت ختم ہو جائیگی۔

(۳۴)کسی عالم نے اپنے جیسے ہی کسی عالم کو لکھا "کہ مجھے کوئی ایسی چیز لکھ کر بھیجیں جو مجھے اپنی زندگی میں نفع دے۔ تو اس نے اس کو لکھا (بسم اللہ الرحمن الرحیم ، وہ شخص سخت اکیلائی میں ہوگا جس کے (دینی )بھائی نہ ہوں۔ اور اپنے (دینی) بھائیوں کی طلب میں کوتاہی کرنے والا بڑی کوتاہی کرتا ہے اور سب سے بڑا کوتا ہی کرنے والا تو وہ ہے جسے کوئی ایک بھائی ملے بھی لیکن پھر اسے ضائع کردے۔ اور لوگ تین طرح کے ہیں جان پہچان والے ،دوست اور بھائی، تعارف والے بہت ملیں گے اور دوست کم اور بھائی کم ہی ملتا ہے۔

(۳۵)امام اسحاق بن راھویہ نے امام احمد بن حنبل سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا جس میں ہے کہ (جب تجھے تیرے بھائی کی طرف سے کوئی (ایسی ) بات پہنچے (جو کہ بظاھر غلط ہو) تو اس کی بہتر تاویل کر ،تا کہ اس کے لئے (اپنے دل کے اند ر )کوئی کینہ وغیرہ پیدا نہ ہو)۔ اس کا معنی کیا ہے۔ انہوں نے کہا یوں کہو کہ شاید اس کا مقصد یہ ہے شاید وہ ہے (یعنی صحیح مقصد نکالنے کی کوشش کرے)۔

(۳۶)حسن بن کثیر نے کہا ہم نے محمد بن علی کے پاس تنگ دستی اور اپنے بھائیوں کی بے وفائی کی شکایت کی تو انہوں نے کہا، برا بھائی وہ ہے جو شاہو کاری کے وقت میں تیرے ساتھ ہو اور محتاجی کے وقت تجھے چھوڑ دے۔ پھر انہوں نے اپنے غلام کو حکم دیا جو کہ ایک تھیلی لایا جس کے اند ر سات سو درھم تھے۔ انہوں نے کہایہ درھم خرچ کرو اور جب ختم ہو جائیں تو مجھے بتانا۔

(۳۷)ابو سلیمان دارانی نے کہا "اگر ساری دنیا میرے منہ میں ایک لقمہ کی طرح ہو اور پھر میرے پاس کوئی بھائی آئے (اور مانگے ) تو میں چاہوں گا کہ وہ لقمہ اس کے منہ میں ڈال دوں"۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
(۳۸)عمروبن عبدالرحمن نے کہا کہ یزید بن عبدالملک بن مروان کے پاس اپنے غلہ میں سے کچھ غلہ آیا تو اس کو تھیلیوں میں بھر کر اپنے (دینی) بھائیوں کے پاس بھیجنے لگا اور کہنے لگاکہ، مجھے اللہ تعالیٰ سے حیاء آتا ہے کہ میں اپنے کسی بھائی کے لئےجنت تو مانگوں لیکن دینار اور درھم میں اس سے کنجوسی کروں۔

(۳۹)خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے کہا"میں نے جب کسی کو مال پیسہ دیا تو اسے کم سمجھا اور میں اللہ تعالیٰ سے حیاء کرتا ہوں کہ اپنے بھائی کے لئے اللہ تعالیٰ سے سوال کروں لیکن دنیا( کے مال) میں اس سے بخل کروں ۔اور جب قیامت کا دن ہو گا تو مجھے کہا جائے گا کہ اگر ساری دنیا تیرے ہاتھ میں دی جاتی تو تو زیادہ بخیل بنتا۔

(۴۰)عبید بن عمیر سے روایت ہے کہ جب وہ کسی کو اللہ کے لئے بھائی بناتے تو اس کا ہاتھ پکڑ کر قبلہ رخ کرتے ، پھر کہتے "یا اللہ !ہمیں اس چیز کی گواہی دینے والے بنا جو محمد ﷺلائے ہیں اور محمد ﷺکو (ہمارے) ایمان کی گواہی دینے والا بنانا۔ اور تیرے ہم پر بہت احسان ہیں ( یا اللہ ) نہ ہم پر غم ڈال اور نہ ہمارے دلوں کو سخت بنا اور نہ ہمیں وہ بات کہنے والے بنا جس کا ہمیں کوئی حق نہیں ہے اور نہ ہمیں اس چیز کا سوال کرنے والے بنا جس کا ہمیں علم نہیں ہے۔

(۴۱)ابو عبدالرحمن بصری نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ بنو عبدالقیس کے ایک شخص نے اپنے بیٹے کو کہا کسی کو بھی بھائی نہ بنانا یہاں تک کہ اس کے معاملات کو دیکھ لے۔ پھر جب اس کے احوال کو اچھا پائے اور اس کے ساتھ معاشرت کو پسند کرے تو اس کے ساتھ مصائب و شدائد کو دور کرنے اور تکلیف کے وقت ساتھ دینے کی بنیاد پر اخوت قائم کر لے۔

(۴۲)کسی داناء کا قول ہے کہ بے شک ایک مسلمان بھائی کے لئے اپنے بھائی کے اوپر جو حقوق ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے ساتھ دل سے محبت کرے، اچھے اور بہترین طریقے سے بات کرے اور اپنے مال میں سے اس پر خرچ کرے اور اپنی تادیب سے اس کی اصلاح کرے اور اس کے رازوں کی حفاظت کرے۔

(۴۳)اور مثال مشہور ہے کچھ بھائی ایسے ہیں کہ تیری ماں نے ویسے نہیں جنے ہونگے۔

(۴۴)امام ابو سفیان ثوری مثال دیتے تھے:"لوگوں کے ساتھ جب تو اخوت قائم کرنا چاہے تو ان کو آزماؤ اور ان کے معاملات کی چھان بین کرو پھر جب اس کو امانت دار اور صاحب تقویٰ پاؤ تو پھر اس کے ساتھ ہاتھوں کو مضبوط کرو اور آنکھوں کی ٹھنڈک کو بڑھاؤ۔اور ایسے شخص کے قرب حاصل کرنے کے لئے تواضع و تذلل چھوڑ دو کہ جب تو اس کے قریب ہونا چاہے تو وہ تجھے دور کر دے ۔

(۴۵)بشار بن برد نے کہا ہے:"جب تم اپنے دوست کو ہر معاملہ میں ٹوکتے ہو تو تمہیں ایسا شخص نہیں مل سکتا جسے تم نہ ٹوکو۔بس اکیلے گذارو یا اپنے بھائی کے ساتھ اچھائی کرو، کیوں کہ وہ کبھی گناہ کر بیٹھتا ہے تو کبھی باز رہتا ہے۔ اور جب تو تکلیف پر صبر نہیں کر سکتا (کڑوا گھونٹ پی کر بلاشکایت صبر نہیں کر سکتا ) تو پیاسا رہے گا اور کون سے انسان کا پانی بالکل صاف ہوتا ہے۔

(۴۶)اور کسی نے کہا ہے:"کسی بھی انسان نے امانت داروں کی محبت سے بڑھ کر لذیذ چیز نہیں چکھی ہوگی۔جسے نیک بھائی کی محبت نصیب نہیں یقینا وہ محروم شخص ہے۔

(۴۷)کسی شاعر نے کہا ہے:"اپنے بھائی کا خیال کرو کیوں کہ جس کا کوئی بھائی نہیں ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو جنگ کی طرف بغیر اسلحہ کے دوڑے چلا جا رہا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اخوت کے فوائد

گذشتہ بحث سے ہمارے لئے کئی مسائل واضح ہوئے ان میں سے اہم درج ذیل ہیں۔
اول: اخوت اور مواخات کے کئی مراتب ہیں۔

(۱)اخوت النسب و قرابت :

اسلام نےاس کا خاص لحاظ رکھا ہے اور اس کو صلہ رحمی کے لئے اساسی رکن بنایا ہے جو عقیدہ اسلامیہ کی وحدت کی اساس پر قائم ہے جو کہ اجتماعی تعاون کے داعی میں سے ہے ۔

(۲)اللہ کے لئے اخوت و مواخات:

اس نوع کو اسلام نے اخوت کے تمام مراتب سے اوپر بنا رکھا ہے فرمان الٰہی ہے إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ (الحجرات: ١٠) یعنی ”مومن آپس میں بھائی ہیں “۔اسلام نے اس اخوت ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری قرار دیا ہے، کیوں کہ اس کو ایک مسلمان کے اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ مضبوط رابطہ کا سبب بنایا ہے ۔اور ایمان کے کمال سے یہ بھی ہے کہ تو اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہ چیز پسند کرے جو خود کے لئے پسند کرتا ہے۔

اور اسلام نے اخوت فی اللہ کو ایسی ذمیداری بنایا ہے جس کو ہر مسلمان کو خود پر لازم کرنا چاہیئے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی حفاظت کرنی چاہئے اور اس اخوت کی حفاظت کے حساب سے قوۃ ایمان بڑھتی ہے۔

(۳)انسانی بھائی چارہ:
یعنی انسان اگر چہ اس کا عقیدہ دوسرے سے مختلف ہی ہو لیکن وہ دوسرے انسان کا بھائی ہے۔ اس پر ضروری ہے کہ اپنے انسان بھائی کو ہدایت و اصلاح کی دعوت دے اور یہ منہج قرآن کے اہم خصائص میں سے ہے۔
ثانی: اخوت کا اسلام کے اندر اعلیٰ مقام ہے۔ اس لئے اسلام چاہتا ہے کہ مسلمان اخوت کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرے۔

(۱)اسلام نے مسلمان بھائیوں کے درمیان تنازع اور افتراق کے اسباب پیدا کرنے سے روکا ہے مثلاً تمسخر اڑانا ،عیب جوئی ،عیب نکالنا، برے القاب دینا، اور وہ چیز جو ایذا رسانی کا سبب بنے مثلاً جاسوسی ،غیبت ،اور چغل خوری۔

(۲)اور ایک مسلمان کا اپنے بھائی پر حق ہے کہ جب اسے چھینک آئے ( اور وہ الحمد للہ کہے تو) یرحمک اللہ کہے اور بیمار ہو تو عیادت کرے اور اس کو نصیحت کرے اور جب ملے تو سلام کہے ،اور جب اس کو دعوت دے تو قبول کرے اور جب وہ بھوکا ہو تو کھانا کھلائے۔ اور جب پیاسا ہوتو پانی پلائے اور جب اس کے سامنے اس کی ہتک ریزی کی جائے تو اس کی عزت کی حفاظت کرے ،اور جب اس کی گم شدہ چیز اسے ملے تو واپس کر دے اور اس کی غائبانہ حفاظت کرے اور جب فوت ہوجائے ،تو اس کے جنازہ میں شامل ہو۔

(۳)اور اس کو چاہیئے کہ سلام کرنے میں پہل کرے۔ اس کے اچھے نام کے ساتھ اس کو پکارے اور اس کے لئے مجلس میں جگہ بنائے، محبت اور عزت کے ساتھ اور اس کے سارےکاموں کو حسن نیت پر محمول کرے۔

ثالث: اس معنیٰ کے ساتھ اخوت ،فرد اور اسلامی اورعالمی معاشرہ کو کئی اہم فائدہ دیتی ہے ۔ مثلاً

(۱)اسلامی معاشرہ کے اندر تعلق وربط کو بڑھاناکیوں کہ اخوت افراد کے درمیان رابطہ بڑھاتی اور قرابت و رحم اور محبت اور نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کے عہد کو مضبوط کرتی ہے۔

(۲)اسلامی معاشرہ کو (شریعت سے) روگردانی کی صورتو ں سے اور ثقافی کمزوریوں کے امراض سے بچانا اس طور پر کہ یہ معاشرہ اپنی قوت و افادہ میں بر سبیل رہے۔

(۳)فرد کو ان طبعی کمزوریوں سے بھی بچانا جن پر ان کی جبلت بنائی گئی ہے۔

(۴)اجتماعی توازن کو ثابت کرنا یعنی عظمت اخوت کے حقیقی معنی کو اجاگر کرنا کہ کوئی بھی مسلم فرد آپس کے فرق کو ذہن پر سوار نہ کرے، چاہے وہ فرق مال و رتبہ میں ہو یا کسی دوسری چیز میں ۔

(۵)اجتماعی اسلامی تعلقات کے لئے اجتماعی پلیٹ فارم کو بڑھانا اس اعتبار سے کہ اجتماعی تعلقات کا نیٹ ورک ہی پہلا اور تاریخی عمل ہے جس پر معاشرہ قائم ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اخوت ہی وہ میثاق ہے جو افراد کو اس طرح مربوط کرتا ہے جس طرح مہاجرو انصار کو آپس میں مربوط کیا گیا تھا۔

(۶)معاشرہ کے تمام افراد کے ایک ہی سمت میں اشتراک کو بڑھانا اس معین ذمیداری کی ادائیگی کے لئے جس کے معین و محدود اغراض و غایات ہیں اور یہ اغراض اسلامی ہیں ۔اس کا مطلب ہے کہ سب سے عظیم اورسالم اخوت وہی ہے جو عقیدہ سلیمہ سے مربوط ہے۔

(۷)معاشرہ کے دل کے اندر جدت اور بہترین اداء کے لئے کامل فرصت کو بڑھانا افراد کے نظم کے ساتھ کیوں کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ معاشرہ کے اندر معاشرہ کے لئے ایک بہترین اداء کو نظم کے بغیر سرانجام دیا جائے ۔کیوں کہ ایسی صورت حال میں افراد مختلف ذرات کی شکل میں الگ الگ پڑے ہونگے اور معاشرہ کسی مشترکہ کارکردگی دکھانے سے مکمل طور پر عاجز آجائیگا ۔یعنی وہ اجتماعیت کے اس خاسہ سے محروم ہو جائیگا جس کی اساس اخوت ہے۔ اور اسلام نے معاشرتی نظم کی مثال پیش کی ہے کہ جہاں ہر فرد واقعۃ معاشرہ کے دیگر افراد سے اخوت کی وساطت سے مربوط ہوتا ہے۔

(۸)اخوت اسلامی کا پلیٹ فارم ایک صحت مندانہ فرصت میسر کرتا ہے معاشرہ کے معاملات اور مشکلات کو سمجھنے اور علاج کے لئے اور اس طرح ممکن ہوتا ہے ان مشکلات کا سامنا کرنا اور بہتر و مناسب حل نکالنا۔

(۹)اخوت ایک بہترین موقع میسر کرتی ہے اجتماعی کفالت اور اسلامی معاشرہ کے اندر عدل کے لئے کیوں کہ یہ قائم کرتی ہے، معاشرہ کو اجتماعی صحیح تعلقات پر ۔

(۱۰)اخوت صالح معاشرہ کے قیام کے لئے بہترین موقع فراہم کرتی ہے، کیوں کہ انسانی اکابر اسی صالح معاشرہ کے حساب سے جرم نہیں کر سکتے اور اسلامی تاریخ کے واقعات اس پر واضح برھان ہیں۔

نضرۃ النعیم
 
Top