- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
الإخبات
(عاجزی کرنا/ فروتنی کرنا / انکساری کرنا)
لغوی بحث:
”الإِخْبَاتٌ“ مصدر ہے اس کا فعل ماضی”أَخْبَتَ“ ہے۔ اس کا مادہ(خ ب ت )ہے اصل میں یہ لفظ اس صحراء کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جس میں پودے نہ ہوں ۔یا ہموار زمین ہو۔ کہاجاتا ہے: ”أَخْبَتَ الرَّجُلُ“جس کا معنی ہے آدمی نے ہمواریا بے آب وگیاہ زمین کا ارادہ کر لیا۔ اور ہموار زمین یا بےآب و گیاہ صحراہ میں اتر گیا۔ جیسے”أَسْهَلٌ“ کا معنی ہے ”نَزَلَ السَّهلَ“ یعنی آدمی ہموار جگہ پر اتر ا۔ اور”أَنْجَدَ“کا معنی ہے:”دَخَلَ فِي نَجْدٍ“یعنی آدمی نجد کی سر زمین میں داخل ہوا۔ پھر”إِخْبَاتٌ“ کا لفظ نرمی اور انکساری کے معنیٰ میں استعمال ہوا ۔اور اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرنے اور اس کے لئے دل سے راضی ہونے کے معنی میں استعمال ہوا۔ جسے کہا جاتا ہے کہ:”أَخْبَتَ إِلَی رَبِّهِ“ جس کا معنی ہے :”اطْمَأَنَّ إِلَیْهِ“ یعنی بندہ اپنے رب کے فیصلوں اور اس کی تقسیم پر مطمئن اور راضی ہو کر اس کی طرف جھک گیا۔ ( [1])امام فراء اللہ تعالیٰ کے فرمان: وَأَخْبَتُوا إِلَىٰ رَبِّهِمْ ۔۔۔۔ ﴿٢٣﴾ (هود) کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کا معنی ہے: ”تَخَشَّعُوا لِرَبِّهمِ“ یعنی وہ اپنےر ب کے لئے عاجزی اختیار کرے۔
عرب لوگ”إِلَی“کبھی لام (ل) کی جگہ استعمال کرتے ہیں ۔اور ”خَبتَة“ کا معنی توضع وانکساری ہے۔ ( [2])
امام سفیان الثوری کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے فرمان وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ ﴿٣٤﴾ (الحج)کا معنی ہے: اللہ تعالیٰ کے فیصلے اور تقدیر پر راضی اور مطمئن ہونے والوں اوراس کے لئےسر تسلیم خم کرنے والوں کو خوشخبری سنایئے ۔جن کی اللہ نے مزید تعریف بیان کی ہے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جب اللہ کا تذکرہ ہو جائے تو ان کے دل گھبرا جاتے ہیں اور جو مصائب ان کو پہنچتی ہیں ان پر صبر کتے ہیں اور نماز کی پابندی کرنے والے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دی ہیں ان میں سے خرچ کرتے ہیں“ ۔(سورہ الحج ،۳۵) ( [3])
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور قتادہ نے بھی” مُخْبِتِينَ “کی یہی تفسیر بیان کی ہے۔ دونوں کہتےہیں کہ ” مُخْبِتِينَ “سے مراد عاجزی و انکساری اختیار کرنے والے ہیں۔
مجاہد کہتے ہیں: ”مُخْبِتٌ“ وہ ہے جو اللہ کی طرف آنے سے سکون و اطمنان حاصل کرتا ہے ۔ اور ”خَبْتٌ“برابر اور ہموار زمین کو کہا جاتا ہے ۔
امام اخفش کہتے ہیں : ” مُخْبِتِينَ “ کا معنی ہے اللہ سے ڈرنے والے ۔کلبی کہتے ہیں” مُخْبِتِينَ “وہ ہیں جن کے دل نرم ہیں۔
مذکورہ بالا تمام اقوال کا دارو مدار دو معنوں پر ہے۔ ایک تواضع و انکساری دوسرا اللہ کے لئے انسان کے دل اور اعضاءِ جسم کا ساکن اور مطمئن ہونا ۔اسی لئے”إِخْبَات“ کو اللہ کی طرف متعدی کرنے کے لئے لفظ”إِلَی“استعمال ہوا ہے۔ جس میں لوٹنے سکون اور اطمینان حاصل کرنے کا معنی شامل ہے۔ ( [4])
[1]- المقاييس (۲/۳۸) مفردات القران للراغب (۱۰4)
[2]- النهاية (۲/4) الصحاح (۱/۲4۷) لسان العرب (۲/۲۷)
[3]- تفسير ابن کثير (۳/۲۲۲)
[4]- مدارج السالکين لا بن القيم (۲/۶)