• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الاستعانہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
احادیث
1- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺقَالَ: إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ وَلَنْ يُشَادَّ الدِّينَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ فَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا وَأَبْشِرُوا وَاسْتَعِينُوا بِالْغَدْوَةِ وَالرَّوْحَةِ وَشَيْءٍ مِنْ الدُّلْجَةِ. ([1])
(1) ابو ہریرہ  کہتے ہیں کہ نبی ﷺنے فرمایا: بے شک دین آسان ہے اور جو شخص دین میں سختی اختیار کرے گا تو دین اس پر غالب آجائے گا ( اور اس کی سختی نہ چل سکے گی) پس( اس لئے) اپنےعمل میں پختگی اختیار کرو۔ اور جہاں تک ممکن ہو میانہ روی بر تو اور خوش ہو جاؤ۔اور صبح اور دو پہر اور شام اور کسی قدر رات میں (عبادت سے) مدد حاصل کرو۔

2- عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَنَّ ضِمَادًا (يَعْنِى ابْنِ ثَعْلَبَة) قَدِمَ مَكَّةَ. وَكَانَ مِنْ أَزْدِ شَنُوءَةَ وَكَانَ يَرْقِي مِنْ هَذِهِ الرِّيحِ فَسَمِعَ سُفَهَاءَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ يَقُولُونَ: إِنَّ مُحَمَّدًا مَجْنُونٌ فَقَالَ: لَوْ أَنِّي رَأَيْتُ هَذَا الرَّجُلَ لَعَلَّ اللهَ يَشْفِيهِ عَلَى يَدَيَّ قَالَ: فَلَقِيَهُ. فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنِّي أَرْقِي مِنْ هَذِهِ الرِّيحِ وَإِنَّ اللهَ يَشْفِي عَلَى يَدِي مَنْ شَاءَ فَهَلْ لَكَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِنَّ الْحَمْدَ لِلهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ قَالَ: فَقَالَ: أَعِدْ عَلَيَّ كَلِمَاتِكَ هَؤُلَاءِ فَأَعَادَهُنَّ عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ ﷺ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَالَ: فَقَالَ: لَقَدْ سَمِعْتُ قَوْلَ الْكَهَنَةِ وَقَوْلَ السَّحَرَةِ وَقَوْلَ الشُّعَرَاءِ فَمَا سَمِعْتُ مِثْلَ كَلِمَاتِكَ هَؤُلَاءِ وَلَقَدْ بَلَغْنَ نَاعُوسَ الْبَحْرِ قَالَ: فَقَالَ: هَاتِ يَدَكَ أُبَايِعْكَ عَلَى الْإِسْلَامِ قَالَ: فَبَايَعَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللهِﷺ: وَعَلَى قَوْمِكَ قَالَ: وَعَلَى قَوْمِي قَالَ: فَبَعَثَ رَسُولُ اللهِ ﷺ سَرِيَّةً فَمَرُّوا بِقَوْمِهِ فَقَالَ صَاحِبُ السَّرِيَّةِ لِلْجَيْشِ: هَلْ أَصَبْتُمْ مِنْ هَؤُلَاءِ شَيْئًا؟ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ: أَصَبْتُ مِنْهُمْ مِطْهَرَةً فَقَالَ: رُدُّوهَا فَإِنَّ هَؤُلَاءِ قَوْمُ ضِمَادٍ. ([2])
(۲)عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ضماد( ایک شخص) آیا مکہ میں اور وہ قبیلہ ازد شنوءة میں سے تھا اور جنون اور آسیب وغیرہ سے دم جھاڑ کرتا تھا تو اس نے مکہ کے نادانوں سے سنا کہ محمد ﷺ(معاذ اللہ!)مجنون ہیں۔تو اس نے کہا کہ میں اس شخص کو دیکھوں گا۔ شاید اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ سے انہیں اچھا کر دے غرض وہ آپﷺسے ملا اور کہا اے محمد ﷺمیں جنون وغیرہ کے اثر سے جھاڑ پھونک کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ سے جسے چاہتا ہے شفا دیتا ہے ۔تو کیا آپ کو خواہش ہے؟ تو آپﷺ نے (خطبہ حاجت پڑھنا شروع کیا)بے شک سب خوبیاں تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں میں اس کی خوبیاں بیان کرتاہوں اور اس سے مدد چاہتا ہوں جس کو اللہ راہ بتلائے اسے کون بہکا سکتا ہے اور جسے وہ بہکائے اسے کون راہ بتلا سکتا ہے؟ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں اور محمدﷺ اس کے بندے اور اس کے بھیجے ہوئے (رسول) ہیں۔اب حمد کے بعد جو(کہو) ۔ضماد نے کہا کہ ان کلمات کو دوبارہ دہراؤ۔غرض کہ نبیﷺ نے تین بار ان کلمات کو اسے پڑھ کر سنایا ۔پھر ضماد نے کہا کہ میں نے کاہنوں کی باتیں سنیں ہیں ۔جادوگروں کے اقوال سنے، شاعروں کے اشعار سنے مگر ان کلمات جیسے کلمات میں نے کہیں نہیں سنے۔یہ تو دریائے بلاغت کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں۔ پھر ضماد نے کہا اپنا ہاتھ لائیے ۔کہ میں اسلام کی بیعت کرلوں؟غرض انہوں نے بیعت کی اور رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم اپنی قوم کی طرف سے بھی میرے ہاتھ پر بیعت کر لو؟انہوں نے عرض کیا کہ ہاں میں اپنی قوم کی طرف سے بھی بیعت کرتا ہوں ۔ (راوی کہتا ہے) آخر رسول اللہﷺ نے ایک فوجی دستہ بھیجا اور وہ (ضماد)کی قوم پرسے گزرے تو اس لشکر کے سردار نے کہا کہ تم نے اس قوم سے تو کچھ نہیں لوٹا ؟ تب ایک شخص نے کہا ہاں میں نے ایک لوٹا ان سے لیا ہے۔ انہوں نے حکم دیا کہ جاؤ اسے واپس کردو۔ اس لئے کہ یہ ضماد کی قوم ہے۔(یہ لوگ ضماد کی وجہ سے امان میں آچکے ہیں)۔

[1] - صحيح البخاري،كِتَاب الْإِيمَانِ، بَاب الدِّينُ يُسْرٌ، رقم (39)
[2] - صحيح مسلم،كِتَاب الْجُمُعَةِ، بَاب تَخْفِيفِ الصَّلَاةِ وَالْخُطْبَةِ، رقم (868)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
3- عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: سَأَلْتُ أُمَّ رُومَانَ وَهِيَ أُمُّ عَائِشَةَ لَمَّا قِيلَ مَا قِيلَ قَالَتْ: بَيْنَمَا أَنَا مَعَ عَائِشَةَ جَالِسَتَانِ إِذْ وَلَجَتْ عَلَيْنَا امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَهِيَ تَقُولُ: فَعَلَ اللهُ بِفُلَانٍ وَفَعَلَ قَالَتْ: فَقُلْتُ: لِمَ؟ قَالَتْ: إِنَّهُ نَمَى ذِكْرَ الْحَدِيثِ فَقَالَتْ عَائِشَةُ: أَيُّ حَدِيثٍ؟ فَأَخْبَرَتْهَا قَالَتْ: فَسَمِعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَرَسُولُ اللهِ ﷺ قَالَتْ: نَعَمْ فَخَرَّتْ مَغْشِيًّا عَلَيْهَا فَمَا أَفَاقَتْ إِلَّا وَعَلَيْهَا حُمَّى بِنَافِضٍ فَجَاءَ النَّبِيُّ ﷺفَقَالَ: مَا لِهَذِهِ؟ قُلْتُ: حُمَّى أَخَذَتْهَا مِنْ أَجْلِ حَدِيثٍ تُحُدِّثَ بِهِ فَقَعَدَتْ فَقَالَتْ: وَاللهِ لَئِنْ حَلَفْتُ لَا تُصَدِّقُونِي وَلَئِنْ اعْتَذَرْتُ لَا تَعْذِرُونِي فَمَثَلِي وَمَثَلُكُمْ كَمَثَلِ يَعْقُوبَ وَبَنِيهِ وَاللَّـهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ ﴿١٨﴾ (يوسف) فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ ﷺ فَأَنْزَلَ اللهُ مَا أَنْزَلَ فَأَخْبَرَهَا فَقَالَتْ بِحَمْدِ اللهِ لَا بِحَمْدِ أَحَدٍ. ([1])
(۳)مسروق نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا سے عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں جو بہتان تراشاگیا تھا اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں عائشہ کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی کہ ایک انصاریہ عورت ہمارے یہاں آئی اور کہا کہ اللہ فلاں(مسطح بن اثاثہ) کو تباہ کرے اور وہ اسے تباہ کر بھی چکا۔ وہی کہتی ہیں کہ میں نے کہا آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں؟انہوں نے بتایا کہ اسی نے تو یہ جھوٹ مشہور کیا ہے۔پھر انصاریہ عورت نے(عائشہ پر تمہت کا سارا) واقعہ بیان کیا۔ سیدہ عائشہ نے (اپنی والدہ سے) پوچھا کہ کونسا واقعہ ہے؟ تو ان کی والدہ نے انہیں واقعہ کی تفصیل بتائی۔عائشہ نے پوچھا کہ کیا یہ قصہ ابو بکر اور رسول اللہﷺ کو بھی معلوم ہو گیا ہے؟ان کی والدہ نے بتایا کہ ہاں۔ یہ سنتے ہی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بے ہوش ہو کر گر پڑیں اور جب ہوش آیا تو جاڑے کے ساتھ بخار چڑھا ہوا تھا۔ پھر نبی کریمﷺ تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ انہیں کیا ہوا؟ میں نے کہا ایک بات ان سے ایسی کہی گئی تھی اور اسی کے صدمے سے ان کو بخار آگیا ہے۔ پھر سیدہ عائشہ اٹھ کر بیٹھ گئیں اور کہا اللہ کی قسم! اگر میں قسم کھاؤں جب بھی آپ لوگ میری بات نہیں مان سکتے اور اگر کوئی عذر بیان کرو ں تو اسے بھی تسلیم نہیں کر سکتے۔ بس میری اور آپ لوگوں کی مثال یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں کی سی ہے( کہ انہوں نے اپنے بیٹوں کی من گھڑت کہانی سن کر فرمایا تھا کہ)"جو کچھ تم کہہ رہے ہو میں اس پر اللہ ہی کی مدد چاہتا ہوں"۔اس کے بعد رسول اللہﷺ واپس تشریف لے گئے اور اللہ تعالیٰ کو جو کچھ منظور تھا وہ نازل فرمایا ۔جب رسول اللہﷺ نے اس کی خبر عائشہ رضی اللہ عنہا کو دی تو انہوں نے کہا کہ اس کے لئے میں صرف اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کسی اور کا نہیں۔

4- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِﷺ: ثَلَاثَةٌ حَقٌّ عَلَى اللهِ عَوْنُهُمْ الْمُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللهِ وَالْمُكَاتَبُ الَّذِي يُرِيدُ الْأَدَاءَ وَالنَّاكِحُ الَّذِي يُرِيدُ الْعَفَافَ. ([2])
(۴)ابو ہریرہ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تین اشخاص کی اعانت اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم قرار دی ہے۔(۱)اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والےکے لئے ۔ (۲)غلام کے لئے جو اپنے آپ کو آزاد کرنے کے لئے معاہدہ کرتا ہے(۳)وہ شخص جو اپنے آپ کو حرام سے محفوظ کرنے کے لئے نکاح کرتا ہے۔

[1] - صحيح البخاري،كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ، بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ} رقم (3388)
[2] - (حسن) صحيح سنن الترمذي، رقم (1655)، سنن الترمذى،كِتَاب فَضَائِلِ الْجِهَادِ، بَاب مَا جَاءَ فِي الْمُجَاهِدِ وَالنَّاكِحِ...، رقم (1655)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
5- عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنْ الْقُرْآنِ يَقُولُ: إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالْأَمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَعِينُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ: فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاقْدِرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ: فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ أَرْضِنِي بِهِ قَالَ: وَيُسَمِّي حَاجَتَهُ. ([1])
(5)سیدنا جابر  سے روایت ہے رسول اللہﷺ ہم کو سکھاتے تھے استخارہ ہر کام کے لئے جیسے سکھایا کرتے تھے سورہ قرآن کی (یعنی جیسا اہتمام قرآن کے سکھانے میں کرتے تھے ویسا ہی استخارہ کے سکھانے میں بھی کرتے تھے اور یوں) فرماتے تھے جب کسی کو کوئی کام آپڑے تو اول دو رکعت نفل پڑھے پھر دعا کرے " اے اللہ! میں خیر اور بھلائی مانگتا ہوں تجھ سے تیرے علم کی برکت سے اور مدد چاہتا ہوں تیری قدرت سے اور چاہتا ہوں تیرا بہت بڑا فضل اور کرم کیوٕں کہ تو زبردست قدرت والا ہے اور جب کہ میں عاجز اور کمزورہوں اور تو جانتا ہے اورمیں تو بے علم ہوں اور تجھے ہی خوب معلوم ہیں غیب کے حال ۔اے اللہ میرے !اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام( جس کے لئے میں استخارہ کر رہا ہوں) میرے لئے میرے دین اور میری دنیا اور میرے کام کے انجام کے اعتبار سے بہتر ہے (راوی کہتا ہے کہ الفاظ یہی ہیں یا یوں ہیں: ”عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ“)تو اسے میرے لئے مقدر فرما دے اور اسے میرے لئے آسان کر دے، اور اگر (یا اللہ!) تو جانتا ہے کہ یہ کام میرےلئے میرے دین اور میری دنیا اور انجام کے اعتبار سے برا ہے( راوی کہتا ہے کہ الفاظ یا تو یہ ہیں : ”وَعَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ“) تو اسے مجھ سے پھیر دے اور مجھے اس سے پھیرے دے اور میرے لئے اچھائی کو مقدر فرما، وہ جہاں بھی ہو اور میرے دل کو اس سے خوش کر دے۔ آپ نے فرمایا کہ( استخارہ کرنے والا) اپنی حاجت کا نام لے ۔

6- عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِي اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: كُنْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللهِ ﷺ يَوْمًا فَقَالَ: يَا غُلَامُ إِنِّي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ: احْفَظِ اللهَ يَحْفَظْكَ احْفَظِ اللهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ، إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلْ اللهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللهِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللهُ لَكَ وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللهُ عَلَيْكَ رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ. ([2])
(6)ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں ایک روز رسول اللہﷺ کے پیچھے (سوار) تھا آپ نے فرمایا،اے بچے! اللہ تعالیٰ( کے احکامات) کی حفاظت کر اللہ تعالی تیری حفاظت فرمائے گا ۔اللہ تعالیٰ( کے حقوق) کی حفاظت کر تو اللہ تعالی کو اپنے سامنے پائے گا اور جب تو سوال ( کا ارادہ) کرے تو اللہ تعالیٰ سے سوال کر اور جب تو نے مدد طلب کرنی ہو تو اللہ تعالی سے مدد طلب کر اور یقین کر کہ تمام مخلوق اگر( بالفرض) اس بات پر جمع ہو جائے کہ تجھے کچھ فائدہ پہنچائے تو تجھے صرف اس قدر ہی فائدہ پہنچا سکتی ہے جس قدر اللہ نے تیرے لئے مقدر کر دیا ہے اور اگر تمام مخلوق اس بات پر جمع ہو جائے کہ تجھے کچھ تکلیف دینا چاہے تو تجھے صرف اس قدر تکلیف دے سکتی ہے کہ جس قدر اللہ تعالیٰ نے تیرے بارے میں لکھ دیا ہے۔ قلم اٹھا دیئے گئے ہیں(یعنی احکامات تحریر ہونے سے رک گئے ہیں) اور صحیفوں کی سیاہی خشک ہو چکی ہے۔

[1] - (صحيح) صحيح سنن النسائي، رقم (3253)، سنن النسائي،كِتَاب النِّكَاحِ، باب كَيْفَ الِاسْتِخَارَةُ، رقم (3253)
[2] - (صحيح) صحيح سنن الترمذي رقم (2516) سنن الترمذي،كِتَاب صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالرَّقَائِقِ وَالْوَرَعِ، بَاب مِنْهُ، رقم (2516)
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
7- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَؓ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِﷺ: الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ وَاسْتَعِنْ بِاللهِ وَلَا تَعْجَزْ وَإِنْ أَصَابَكَ شَيْءٌ فَلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ كَانَ كَذَا وَكَذَا وَلَكِنْ قُلْ: قَدَرُ اللهِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ، فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ. ([1])
(7)ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا زبردست مسلمان (زبردست سے مراد ہے جس کا ایمان قوی ہو اللہ پر بھروسہ رکھتا ہو،آخرت کے کاموں میں ہمت والا ہو) اللہ کے نزدیک بہتر اور اللہ کو زیادہ پسند ہے نا تواں مسلمان سے ۔حرص کر ان کاموں کی جو تیرے لئے مفید ہیں( یعنی آخرت میں کام دیں گے) اور مدد مانگ اللہ سے اور ہمت مت ہار اور جو تجھ پر کوئی مصیبت آئے تو یوں مت کہہ اگر میں ایسا کرتا ایسا کرتا تو یہ مصیبت نہ آتی ۔لیکن یوں کہہ اللہ کی تقدیر میں ایسا ہی تھا جو اس نے چاہاکیا۔ اگر مگر کرنا شیطان کے لئے راہ کھولنا ہے۔

8- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَؓ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِﷺ: مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ (ثَلَاثًا) غَيْرُ تَمَامٍ فَقِيلَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ: إِنَّا نَكُونُ وَرَاءَ الْإِمَامِ فَقَالَ: اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ قَالَ اللهُ تَعَالَى: قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ: الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ قَالَ اللهُ تَعَالَى: حَمِدَنِي عَبْدِي وَإِذَا قَالَ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ قَالَ اللهُ تَعَالَى: أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي وَإِذَا قَالَ: مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ قَالَ: مَجَّدَنِي عَبْدِي وَقَالَ: مَرَّةً فَوَّضَ إِلَيَّ عَبْدِي فَإِذَا قَالَ: إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ قَالَ: هَذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ فَإِذَا قَالَ: اهْدِنَا الصِّرَ‌اطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَ‌اطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ‌ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾ قَالَ: هَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ. ([2])
(8)ابو ہریرہ  کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جس نے نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھی تو اس کی نماز پوری نہیں ہوئی بلکہ اس کی نماز ناقص رہی۔ یہ جملہ آپﷺ نے تین بار ارشاد فرمایا ۔لوگوں نے پوچھا کہ جب ہم امام کے پیچھے ہوں تو کیا کریں؟ ابو ہریرہ  نے جواباً کہا اس وقت تم لوگ آہستہ سورہ فاتحہ پڑھ لیا کرو کیوں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو اللہ عزوجل کا یہ قول فرماتے سنا ہے کہ نماز میرے اور میرے بندہ کے درمیان آدھی آدھی تقسیم ہو چکی ہے۔ اور میرا بندہ جو سوال کرتا ہے وہ پورا کیا جاتا ہے۔ جب کوئی شخص الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری تعریف کی اور نمازی جب الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری توصیف کی اور نمازی جب مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی۔ اور یوں بھی کہتا ہے میرے بندے نے اپنے سب کام میرے سپرد کر دیئے ،اور نمازی جب: إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ پڑھتا ہے ۔تو اللہ عزوجل کہتا ہے یہ میرے اور میرے بندے کا درمیانی معاملہ ہے میرا بندہ جو سوال کرے گا وہ اس کو ملے گا پھر جب نمازی اپنی نماز میں: اهْدِنَا الصِّرَ‌اطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَ‌اطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ‌ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧الفاتحہ، پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے کہ یہ سب میرے اس بندہ کے لئے ہے ۔ اور جو کچھ طلب کرے گا وہ اسے دیا جائے گا۔ سفیان رحمہ اللہ نے کہا میری دریافت پر یہ حدیث مجھ سے علاء بن عبدالرحمن بن یعقوب نے اس وقت بیان کی جب کہ وہ بیمار تھے اور میں ان کی عیادت کے لئے ان کے گھر گیا تھا۔

9- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَؓ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِﷺ: مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ يَسَّرَ اللهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ. وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللهِ يَتْلُونَ كِتَابَ اللهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمْ السَّكِينَةُ وَغَشِيَتْهُمْ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمْ الْمَلَائِكَةُ وَذَكَرَهُمْ اللهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ وَمَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ. ([3])
(9)ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص کسی مومن پر سے کوئی دنیا کی سختی دورکرے تو اللہ اس پر سے آخرت کی سختیوں میں سے ایک سختی دور کرے گا اور جو شخص مفلس کو مہلت دے (یعنی اس پر تقاضا اور سختی نہ کرے اپنے قرض کے لئے) اللہ اس پر آسانی کرے گا دنیا اور آخرت میں اور جو شخص کسی مسلمان کا عیب ڈھانکے گا دنیا میں تو اللہ تعالیٰ اس کا عیب ڈھانکے گا دنیا اور آخرت میں ۔ اور اللہ بندہ کی مدد میں رہے گا جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہے گا اور جو شخص راہ چلے علم حاصل کرنے کے لئے( یعنی علم دین خالص اللہ کے لئے) اللہ اس کے لئے جنت کا راستہ سہل کر دے گا اور جو لوگ جمع ہوں کسی اللہ کے گھر میں اللہ کی کتاب پڑھیں اور ایک دوسرے کو پڑھائیں تو ان پر اللہ کی طرف سے سکینت اور رحمت اترے گی۔ اور رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور اللہ ان لوگوں کا ذکر کرے گا اپنے پا س رہنے والوں میں( یعنی فرشتوں میں ) ذکر کرتا ہے اور جس کا عمل کوتاہی کرے تو اس کا خاندان(نسب) کچھ کام نہ آئے گا۔

10- عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَؓ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللهِﷺ: يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَةَ: لَا تَسْأَلِ الْإِمَارَةَ، فَإِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إِلَيْهَا وَإِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا، وَإِذَا حَلَفْتَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَيْتَ غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا فَأْتِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ، وَكَفِّرْ عَنْ يَمِينِكَ. ([4])
(10)عبدالرحمن بن سمرہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے سمرہ! حکومت طلب مت کرنا اگر تمہیں مانگنے کے بعد امیری ملی تو تم اس کے حوالے کر دئیے جاؤ گے اور اگر تمہیں مانگے بغیر ملی تو اس میں تمہاری مدد کی جائے گی۔ اور اگر تم کسی بات پر قسم کھا لو اور پھر اس کے سوا دوسری چیز میں بھلائی دیکھو تو وہ کرو جس میں بھلائی ہو اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کردو۔

[1] - صحيح مسلم،كِتَاب الْقَدَرِ، بَاب فِي الْأَمْرِ بِالْقُوَّةِ وَتَرْكِ الْعَجْزِ ...، رقم (2664)
[2] - صحيح مسلم،كِتَاب الصَّلَاةِ، بَاب وُجُوبِ قِرَاءَةِ الْفَاتِحَةِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ...)، رقم (395)
[3] - صحيح مسلم،كِتَاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ، بَاب فَضْلِ الِاجْتِمَاعِ عَلَى تِلَاوَةِ الْقُرْآنِ وَعَلَى الذِّكْرِ، رقم (2699)
[4] - صحيح البخاري،كِتَاب كَفَّارَاتِ الْأَيْمَانِ، بَاب الْكَفَّارَةِ قَبْلَ الْحِنْثِ وَبَعْدَهُ، رقم (7147)، صحيح مسلم رقم (1652)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
المثل التطبيقي من حياة النبيﷺ في (الإستعانة)
13- عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍؓأَنَّهُ قَالَ:كَانَ النَّبِيُّﷺإِذَاغَزَا قَالَ:اللَّهُمَّ أَنْتَ عَضُدِي وَأَنْتَ نَصِيرِي وَبِكَ أُقَاتِلُ. ([1])
(۱۳)انس بن مالک  بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ جہاد کرتے تو یہ دعا فرماتے: ”اللَّهُمَّ أَنْتَ عَضُدِي وَأَنْتَ نَصِيرِي وَبِكَ أُقَاتِلُ“ (الٰہی ! تو ہی میرا ناصر و مددگار ہے ،تیری تو فیق سے میں دشمن کی منصوبندی کو ناکام بناتا ہوں، اور تیری ہی توفیق سے دشمن پر حملہ کرتا ہوں ،اور انہیں قتل کرتا ہوں)۔

14- عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهَا قَالَتْ: خَرَجَ رَسُولُ اللهِ ﷺ قِبَلَ بَدْرٍ فَلَمَّا كَانَ بِحَرَّةِ الْوَبَرَةِ أَدْرَكَهُ رَجُلٌ قَدْ كَانَ يُذْكَرُ مِنْهُ جُرْأَةٌ وَنَجْدَةٌ فَفَرِحَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ ﷺ حِينَ رَأَوْهُ فَلَمَّا أَدْرَكَهُ قَالَ لِرَسُولِ اللهِﷺ: جِئْتُ لِأَتَّبِعَكَ وَأُصِيبَ مَعَكَ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِﷺ: تُؤْمِنُ بِاللهِ وَرَسُولِهِ؟ قَالَ: لَا قَالَ: فَارْجِعْ فَلَنْ أَسْتَعِينَ بِمُشْرِكٍ قَالَتْ: ثُمَّ مَضَى حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالشَّجَرَةِ أَدْرَكَهُ الرَّجُلُ فَقَالَ لَهُ كَمَا قَالَ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ كَمَا قَالَ أَوَّلَ مَرَّةٍ قَالَ: فَارْجِعْ فَلَنْ أَسْتَعِينَ بِمُشْرِكٍ قَالَ: ثُمَّ رَجَعَ فَأَدْرَكَهُ بِالْبَيْدَاءِ فَقَالَ لَهُ كَمَا قَالَ أَوَّلَ مَرَّةٍ: تُؤْمِنُ بِاللهِ وَرَسُولِهِ؟ قَالَ: نَعَمْ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِﷺ: فَانْطَلِقْ. ([2])
(۱۴)ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سےروایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہﷺ بدر کی طرف نکلے جب حرةالوبرہ (جو مدینہ سے چار میل پر ہے) میں پہنچے تو ایک شخص ملا آپ سے جس کی بہادری اور اصالت کا شہرہ تھا ۔رسول اللہﷺ کے اصحاب اس کو دیکھ کو خوش ہوئے جب آپ سے ملا تو اس نے کہا میں اس لئے آیا کہ آپ کے ساتھ چلوں اور جو ملے اس میں حصہ پاؤں آپ ﷺنے فرمایا تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے؟وہ بولا نہیں آپ نے فرمایا تو لوٹ جا میں مشرک کی مدد نہیں چاہتا۔پھر آپ چلے جب شجرہ پہنچے تو وہ شخص پھر آپ سے ملا اور وہی کہا جو پہلے اس نے کہا تھا آپنے وہی فرمایا جو پہلے فرمایا تھا اور فرمایا لوٹ جا میں مشرک کی مدد نہیں چاہتا پھر وہ لوٹ گیا بعد اس کے پھر آپ سے ملا بیدا ءمیں آپ نے وہی فرمایا جو پہلے فرمایا تھا تو یقین رکھتا ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺپر اب وہ شخص بولا ہاں میں یقین رکھتا ہوں آپ نے فرمایا توخیر چل۔

15- عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَدْعُو: رَبِّ أَعِنِّي وَلَا تُعِنْ عَلَيَّ وَانْصُرْنِي وَلَا تَنْصُرْ عَلَيَّ وَامْكُرْ لِي وَلَا تَمْكُرْ عَلَيَّ وَاهْدِنِي وَيَسِّرْ هُدَايَ إِلَيَّ وَانْصُرْنِي عَلَى مَنْ بَغَى عَلَيَّ. اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي لَكَ شَاكِرًا لَكَ ذَاكِرًا لَكَ رَاهِبًا لَكَ مِطْوَاعًا إِلَيْكَ مُخْبِتًا أَوْ مُنِيبًا رَبِّ تَقَبَّلْ تَوْبَتِي وَاغْسِلْ حَوْبَتِي وَأَجِبْ دَعْوَتِي وَثَبِّتْ حُجَّتِي وَاهْدِ قَلْبِي وَسَدِّدْ لِسَانِي وَاسْلُلْ سَخِيمَةَ قَلْبِي. ([3])
(۱۵)ابن عباس  بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔(میرے پروردگار! میری مدد فرما، میرے خلاف کسی کی مدد نہ کر، میری نصرت فرما، میرے خلاف کسی کی نصرت نہ فرما، میرے لئے مفید منصوبہ بندی فرما، میرے خلاف منصوبہ بندی نہ فرما، مجھے ہدایت عطا فرما اور ہدایت کی اتباع میرے لئے آسان فرما دے۔ جو شخص میرے ساتھ زیادتی کرے اس کے خلاف میری مدد فرما، الٰہی ! مجھے اپنا شکر گزار ،ذاکر(ذکر کرنے والا) ،ڈرنے والا، بہت اطاعت کرنے والا، تواضع کرنے والا یا توبہ کرنے والا بنادے، پروردگار!میری توبہ قبول فرما ،میرے گناہ دھو دے، میری دعا قبول فرما ،میری حجت (دلیل) ثابت کر دے،میرے دل کی راہنمائی فرما، میری زبان کا بولنا درست کردے، میرے دل سے بغض حسد نکال دے۔

[1] - (صحيح) صحيح سنن الترمذي رقم (3584)، سنن الترمذي،كِتَاب الدَّعَوَاتِ، بَاب فِي الدُّعَاءِ إِذَا غَزَا، رقم (3584)
[2] - صحيح مسلم،كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَاب كَرَاهَةِ الِاسْتِعَانَةِ فِي الْغَزْوِ بِكَافِرٍ، رقم (1817)
[3] - (صحيح) صحيح سنن أبي داود رقم (1510)، سنن أبى داود،كِتَاب الصَّلَاةِ، بَاب مَا يَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا سَلَّمَ، رقم (1510)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
16- عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِؓ قَالَ: مَا مَنَعَنِي أَنْ أَشْهَدَ بَدْرًا إِلَّا أَنِّي خَرَجْتُ أَنَا وَأَبِي حُسَيْلٌ قَالَ: فَأَخَذَنَا كُفَّارُ قُرَيْشٍ قَالُوا: إِنَّكُمْ تُرِيدُونَ مُحَمَّدًا فَقُلْنَا: مَا نُرِيدُهُ مَا نُرِيدُ إِلَّا الْمَدِينَةَ فَأَخَذُوا مِنَّا عَهْدَ اللهِ وَمِيثَاقَهُ لَنَنْصَرِفَنَّ إِلَى الْمَدِينَةِ وَلَا نُقَاتِلُ مَعَهُ فَأَتَيْنَا رَسُولَ اللهِ ﷺ فَأَخْبَرْنَاهُ الْخَبَرَ فَقَالَ: انْصَرِفَا نَفِي لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ وَنَسْتَعِينُ اللهَ عَلَيْهِمْ. ([1])
(۱۶)حذیفہ بن الیمان  سے روایت ہے مجھے بدر میں آنے سے کسی چیز نے نہ روکا مگر یہ کہ میں نکلا اپنے باپ حسیل کے ساتھ (یہ کنیت ہے حذیفہ کے باپ کی اور بعضوں نے حسل کہا ہے) تو ہم کو قریش کے کافروں نے پکڑا اور کہا تم محمدﷺ کے پاس جانا چاہتے ہو سو ہم نے کہا ہم ان کے پاس نہیں جانا چاہتے بلکہ ہم مدینہ میں جانا چاہتے ہیں پھر انہوں نے ہم سے اللہ کا نام لے کر عہد اور اقرار لیا کہ ہم مدینہ کو پھر جائیں گے اور محمدﷺ کے ساتھ ہو کر نہیں لڑیں گے ،جب ہم رسول اللہﷺ کے پاس آئے تو ہم نے یہ ساراقصہ بیان کیا آپ نے فرمایا تم چلے جاؤ مدینہ کو ہم ان کا اقرار پورا کریں گے اور اللہ سے مدد چاہیں گے ان پر۔

17- عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: بَيْنَمَا رَجُلٌ يُحَدِّثُ فِي كِنْدَةَ فَقَالَ: يَجِيءُ دُخَانٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَأْخُذُ بِأَسْمَاعِ الْمُنَافِقِينَ وَأَبْصَارِهِمْ يَأْخُذُ الْمُؤْمِنَ كَهَيْئَةِ الزُّكَامِ فَفَزِعْنَا فَأَتَيْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ وَكَانَ مُتَّكِئًا فَغَضِبَ فَجَلَسَ فَقَالَ: مَنْ عَلِمَ فَلْيَقُلْ وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلْ اللهُ أَعْلَمُ فَإِنَّ مِنْ الْعِلْمِ أَنْ يَقُولَ لِمَا لَا يَعْلَمُ لَا أَعْلَمُ فَإِنَّ اللهَ قَالَ لِنَبِيِّهِ ﷺ قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ‌ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ ﴿٨٦﴾(ص) وَإِنَّ قُرَيْشًا أَبْطَئُوا عَنْ الْإِسْلَامِ فَدَعَا عَلَيْهِمْ النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ: اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَتَّى هَلَكُوا فِيهَا وَأَكَلُوا الْمَيْتَةَ وَالْعِظَامَ وَيَرَى الرَّجُلُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ فَجَاءَهُ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ جِئْتَ تَأْمُرُنَا بِصِلَةِ الرَّحِمِ وَإِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا فَادْعُ اللهَ فَقَرَأَ {فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ (10)} [الدخان: 10] إِلَى قَوْلِهِ: (عَائِدُونَ) [الدخان: 15](الدخان) ... الحديث. ([2])
(۱۷)مسروق نے بیان کیا کہ ایک شخص نے قبیلہ کندہ میں وعظ بیان کرتے ہوئے کہا کہ قیامت کے دن ایک دھواں اٹھے گا جس سے منافقوں کے آنکھ کان بالکل بیکار ہو جائیں گے۔ لیکن مومن پر اس کا اثر صرف زکام جیسا ہو گا۔ ہم اس کی بات سے بہت گھبرا گئے۔ پھر میں سیدنا ابن مسعود  کی خدمت میں حاضر ہوا(اور انہیں ان صاحب کی یہ بات سنائی) وہ اس وقت ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ اسے سن کر بہت غصہ ہوئے اور سیدھے بیٹھ گئے ۔پھر فرمایا کہ اگر کسی کو کسی بات کا واقعی علم ہے تو پھر اسے بیان کرنا چاہئے اگر علم نہیں ہے تو کہہ دینا چاہیئے کہ اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔ یہ بھی علم ہی ہے کہ آدمی اپنی لاعلمی کا اقرار کر لے اور صاف کہہ دے کہ میں نہیں جانتا ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺسے فرمایا تھا: قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ‌ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ ﴿٨٦ (ص) (آپ کہہ دیجئے کہ میں اپنی تبلیغ و دعوت پر تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا اور نہ میں بناوٹ کرتا ہوں)اصل میں واقعہ یہ ہے کہ قریش کسی طرح اسلام نہیں لاتے تھے اس لئے رسول اللہﷺ نے ان کے حق میں بددعا کی کہ اے اللہ! ان پر یوسف کے زمانہ جیسا قحط بھیج کر میری مدد کر پھر ایسا قحط پڑا کہ لوگ تباہ ہو گئے اور مردار اور ہڈیاں کھانے لگے کوئی اگر فضا میں دیکھتا (تو فاقہ کی وجہ سے) اسے دھواں جیسا نظر آتا ۔ پھر ابو سفیان آئے اور کہا کہ اے محمدﷺ!آپ ہمیں صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں لیکن آپ کی قوم تباہ ہو رہی ہے۔ اللہ سے دعا کیجئے ( کہ ان کی یہ مصیبت دور ہو) اس پر رسول اللہﷺ نے یہ آیت پڑھی:فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ سے (عَائِدُونَ) [الدخان: 15] تک۔

[1] -صحيح مسلم،كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَاب الْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ، رقم (1787)
[2] - صحيح البخاري،كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ، بَاب {فَلَا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِ}...، رقم (4774)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
استعانت کے متعلق آثار اور علماء و مفسرین کے اقوال

(۱)موسیٰ کہتے تھے:یا اللہ! تیرے لئے ہر تعریف ہے ،تیرے پاس ہی شکایت(کی جاتی)ہے۔ اور تجھ سے ہی مدد لی جاتی ہے۔ اور تجھے ہی (بے بسی کے عالم میں)مدد کے لئے پکارا جاتا ہے۔اور تجھ پر ہی توکل کیا جاتا ہے اور تیری مشیئت کے بغیر کوئی قدرت و قوت نہیں ہے۔([1])
(۲)عبداللہ بن زبیر  نے کہا جنگ جمل کے دن (میرے والد) زبیر نے مجھے بلایا تو میں ان کے پاس کھڑا ہو گیا انہوں نے کہا اے بیٹے آج ظالم اور مظلوم کے سوا کوئی قتل نہیں ہوگا۔ اور میں تو سمجھتا ہوں کہ آج میں مظلوم قتل کیا جاؤں گا۔ اور میری سب سے بڑی پریشانی میرا قرض ہے۔ تیرا کیا خیال ہے کہ قرض دینے سے ہمارے مال میں سے کچھ بچے گا؟ پھر انہوں نے کہا بیٹے! اپنا مال فروخت کر کے میرا قرض ادا کرنا اور انہوں نے ایک تہائی مال کی وصیت کی اور اس کی ایک تہائی عبداللہ بن زبیر کے بیٹوں کے لئے وصیت کی پھر کہا اگر ہمارے مال میں سے قرض چکانے کے بعد کچھ بچ جائےتو اس کا ایک تہائی تیرے بیٹوں کے لئے ہوگا۔ ہشام نے کہا عبداللہ بن زبیر کے کچھ بیٹے زبیر کے بیٹوں کے ہم عمر تھے جیسے خبیب اور عباد۔ اور اس کے اس دن ۹ بیٹے اور ۹ بیٹیاں تھیں۔ عبداللہ بن زبیر نے کہا کہ میرے والد مجھے اپنے قرض کے بارے میں وصیت کرنے لگے اور کہنے لگے ۔اے بیٹے اگر تو قرض میں کچھ ادا کرنے سے بے بس ہو جائے تو میرے مولیٰ سے اس کے لئے مدد مانگنا اللہ کی قسم میں ان کی مراد سمجھ نہیں سکا ۔اور کہا بابا آپ کے مولا کون ہیں۔ کہا "اللہ"( عبداللہ نےکہا) اللہ کی قسم جب بھی مجھے ان کا قرض ادا کرنے میں تکلیف ہوئی تو کہا "اے زبیر کے مولیٰ ! اس کا قرض ادا کر، تو وہ اس کا قرض ادا کر دیتا ۔پھر زبیر قتل ہو گئے ۔اور انہوں نے نہ دینار چھوڑے اور نہ درہم چھوڑے مگر کچھ زمینیں چھوڑی تھیں ۔جس میں ایک باغ بھی تھا اور مدینہ منورہ میں گیارہ مکان تھے، دو مکان بصرہ میں، ایک مکان کوفہ میں اور ایک گھر مصر میں چھوڑاتھا، اور ان پر قرض اس طرح چڑھا کہ آدمی ان کے پاس مال امانت رکھنے کے لئے آتا تو وہ اس کو کہتے نہیں امانت نہیں یہ قرض ہے کیوں کہ مجھے خوف ہے کہ کہیں ضائع (یعنی خرچ نہیں ہو جائے) اور زبیر نے نہ کبھی امارت لی اور نہ ہی جزیہ و ٹیکس وصولی کا عہدہ وغیرہ مگر وہ رسول اللہﷺ اور ابو بکر و عمر وعثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ جہاد میں شریک ہوتے تھے۔ عبداللہ بن زبیر نے کہا، میں نے ان کے اوپر قرضہ کا حساب لگایا تو وہ بائیس لاکھ تھا۔ کہا ،پھر مجھے حکیم بن حزام  ملے اور کہا اے بھتیجے :میرے بھائی (زبیر) پر کتنا قرضہ ہے؟ تو عبداللہ نے اس کو چھپایا اور کہا ایک لاکھ ہے۔ حکیم بن حزام نے کہا اللہ کی قسم میں نہیں سمجھتا کہ آپ کا مال اس کے لئے کافی ہو گا۔ تو عبداللہ بن زبیر نے کہا کیا خیال ہے آپ کا کہ اگر بائیس لاکھ ہوتو؟ کہا میں نہیں سمجھتا کہ آپ اس کو ادا کرنے کی طاقت رکھتے ہو۔ سو اگر آپ اس میں سے کچھ ادا نہ کر سکو تو مجھ سے مدد لینا۔ (عبداللہ نے کہا) زبیر نے وہ باغ ایک لاکھ ستر ہزار میں خریدا تھا۔ عبداللہ نے سولہ( ۱۶)لاکھ میں بیچا پھر کہا جس کا بھی زبیر پر قرض ہے وہ ہمارے پاس باغ میں آئے ۔پھر عبداللہ بن جعفر آئے اور اس کے زبیر پر چار لاکھ تھے۔ اس نے عبداللہ کو کہا اگر تم لوگ چاہو تو میں تمہیں چھوڑ دوں۔ عبداللہ نے کہا نہیں پھر اس نے کہا اگر تم مجھے آخر میں دینا چاہو تو بھی ٹھیک ہے ۔عبداللہ نے کہا نہیں، تو اس نے کہا پھر مجھے ٹکڑا ناپ کردو۔ عبداللہ نے کہا تیرا یہاں سے لے کر یہاں تک (حصہ) ہے۔ راوی نے کہا عبداللہ نے اس باغ کو بیچ کر پورا پورا قرض چکا دیا ۔اوراس سے ساڑھے چارسہم یعنی حصے رہ گئے۔ پھر عبداللہ بن زبیر معاویہ کے پاس آئے جہاں پر عمرو بن عثمان،منذر بن زبیر اور ابن زمعہ بھی تھے ۔ معاویہ  نے پوچھا کہ باغ کی کتنی قیمت لگائی گئی؟ اس نے کہا ہر سہم ایک لاکھ کا (معاویہ نے) کہا باقی کتنے حصے ہیں؟ کہا ساڑے چار حصے۔ منذر بن زبیر نے کہا ایک حصہ میں نے ایک لاکھ میں لیا۔ اور عمرو بن عثمان نے کہا میں بھی ایک حصہ ایک لاکھ میں لیتا ہوں۔ اور ابن زمعہ نے کہا میں بھی ایک حصہ ایک لاکھ میں لیتا ہوں ۔معاویہ نے کہا کتنا رہ گیا ہے؟ کہا ڈیڑھ حصہ معاویہ نے کہا ایک لاکھ پچاس ہزار میں میں لیتا ہوں اور عبداللہ بن جعفر نے اپنا حصہ معاویہ کو چھ لاکھ میں بیچ دیا۔ پھر جب عبداللہ بن زبیر اپنے والدکا قرض ادا کرنے سے فارغ ہو ئے تو زبیر کی اولاد نے کہا ہمارے درمیان میں ہماری میراث تقسیم کر عبداللہ نے کہا نہیں ،اللہ کی قسم تب تک میں تقسیم نہیں کروں گا جب تک چار سال تک دوران حج منادی کراؤں کہ جس کا بھی زبیر پر قرض ہے تو وہ آئے ہم اس کو ادا کریں گے۔ عبداللہ اس طرح چال سال تک حج کے موسم میں اعلان کرتا رہا۔پھر جب چار سال گذر گئے تو اس نے میراث کو ان میں تقسیم کیا او ر زبیر کی چار بیویاں تھیں۔ اور انہوں نے (وصیت کا)ثلث نکالا پھر بھی (فقط )ہر بیوی کو بارہ لاکھ ملے۔([2])
(۳)عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہا گیا کہ آپ قرضہ کیوں لیتی ہیں؟ تو کہا میں اللہ تعالیٰ کی بندے کے لئے مدد چاہتی ہوں۔ جو قرض ادا کرنے کی نیت سے لیتا ہے( تو اللہ تعالیٰ اس کی ضرور مدد فرماتا ہے)۔ ([3])
(۴)حسن بصری نے خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کو لکھا کہ :غیر اللہ سے مدد نہ مانگنا پھر وہ تجھے اس کے سپرد کر دےگا۔([4])
(۵)ابن القیم اور فیروز آبادی نے کہا: تو کل آدھا دین ہے اور دوسرا نصف انابہ یعنی اللہ کی طرف لوٹنا ہے۔ اور دین استعانت و عبادت ہے۔ اور توکل استعانت ہے اور انابت عبادت ہے۔([5])
(۶)ابن کثیر نے کہا ( اللہ تعالیٰ کی عبادت ہی مقصود ہے اور اس سے استعانت کرنا عبادت کی طرف پہنچنے کا وسیلہ ہے اور پوری مخلوق چاہے وہ دس لاکھ ہوں سارے اس ایک اللہ کے محتاج ہیں۔([6])
(۷)کسی دانا نے کہا ہے: اے رب! مجھے تعجب ہے اس کے بارے میں جو تجھے پہنچانتا بھی ہے اور پھر تیرے سوا دوسروں سے امید رکھتا ہے اور اس پر بھی حیرت ہے جو تجھے پہنچانتا بھی ہے اور دوسروں سے مدد طلب کرتا ہے۔([7])
(۸)کسی نے کہا ہے"ایفاء عہد اور نیکی پر محافظت کے لئے صبر کے ساتھ مدد مانگنے کا معنی تو سمجھ رہے ہیں لیکن اطاعت الٰہی اور ترک معصیت اور ریاست وجاہ کی چاہت اور دنیا کی محبت کو ختم کرنے کے لئے نماز کے ساتھ مدد مانگنے کا حکم سمجھ میں نہیں آرہا ۔تو کہا گیا کہ "نماز میں اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اور یہ آیات جو کہ دنیا اور اس کی لذت کو چھوڑنے کی دعوت دیتی ہیں ۔نفوس کو دنیا کی زینت اور دھوکے سے چھڑاتی ہیں ۔آخرت اور جنت کی اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں تیار کر کے رکھی ہیں، یاد دلاتی ہیں۔ ان آیات پر غور کرنے اور عبرت لینے سے اطاعت الٰہی کرنے والوں کے لئے اس کا مزید جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ جیسا کہ نبی کریمﷺ سے مروی ہے کہ
"جب بھی آپﷺ کو کوئی مسئلہ پریشان کرتا تو آپ نماز کی طرف جلدی کرتے تھے۔([8])
(۹)طبری نے آیت: وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ‌ وَالصَّلَاةِ ۚ البقرة: ٤٥ کی تفسیر میں کہا ہے " اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے احبار( علماء) جن کا معاملہ( پیچھے )بیان کیا ہے، کو حکم کیا کہ انہوں نے جو اللہ کے ساتھ عہد کیا ہے اس کو سر انجام دینے کے لئے صبرو نماز کے ساتھ مدد طلب کرنے میں جلدی کریں جس طرح اپنے نبی محمدﷺ کو بھی حکم فرمایا : وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَ‌بِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُ‌وبِهَا ۖ وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَ‌افَ النَّهَارِ‌ لَعَلَّكَ تَرْ‌ضَىٰ ﴿١٣٠طه یعنی"نماز فجر اور غروب آفتاب سے قبل (نماز عصر) اور رات کے وقت میں بھی تسبیح بیان کر(یعنی نماز پڑھ) اور دن کے اطراف میں بھی تاکہ تو راضی ہو جائے "۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو مصائب کے دوران صبر و صلاة کی طرف جلدی کرنے کا حکم دیا ہے۔([9])
(۱۰)عیینہ بن عبدالرحمن اپنے والد سے روایت کرتا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ان کے بھائی قثم کی موت کی خبردی گئی اور آپ سفر میں تھے ۔پھر انہوں نے استرجاع کیا (یعنی انا للہ وانا الیہ راجعون کہا) راستہ سے ایک طرف اپنی سواری کو بٹھایا اور دو رکعت نماز پڑھی اور بہت دیر بیٹھے رہے۔ پھر اٹھ کر سواری کی طرف آئے اور کہتے رہے وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ‌ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَ‌ةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ ﴿٤٥ البقرة: ٤٥ ([10])
(۱۱)ابو العالیہ نے آیت وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ‌ وَالصَّلَاةِ ۚ کی تفسیر میں کہا:صبر و نماز کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لئے مدد مانگو اور جان لو کہ یہ بھی اللہ کی اطاعت یعنی نیکی ہے۔([11])
(۱۲)ابن جریج نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے :بے شک یہ دونوں (یعنی صبر و صلاة)اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول میں معاون ہیں۔ ([12])
(13)اللہ تعالیٰ نے (مذکورہ آیت میں) اپنے بندوں کو حکم کیا ہے کہ وہ دنیا و آخرت کی خیر حاصل کرنے کے لئے صبر و نماز سے مدد لیں۔ جیسا کہ مقاتل بن حیان نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ"فرائض کی ادائیگی پر صبر کرتے ہوئے اور نماز سے آخرت طلب کرو۔([13])

[1] - مجموع الفتاوى رقم (1/112)
[2] - البخاری،الفتح رقم (6/3129)
[3] - احمد رقم (6/72) بتصرف
[4] - جامع العلوم والحکم رقم (182)
[5] - مدارج السالکين رقم (۱۱۸/۲)، بصائر ذوی التمييز رقم (۳۱۵/۲)
[6] - تفسير ابن کثير رقم (1/26)
[7] - جامع العلوم والحکم رقم (۱۸۲)
[8] - الطبری رقم (۲۹۸/۱)، المقدمة اللغويه رقم (۲۱۵)
[9] - المرجع السابق رقم (1/299،298)
[10] - المرجع السابق رقم (1/299)
[11] - تفسيرالطبري رقم (1/299)
[12] - المرجع السابق رقم (1/299)
[13] - المرجع السابق رقم (1/299،298)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
استعانت کے فوائد
(۱)استعانت اللہ تعالیٰ کی توحید اور عبادت کے مظاہر میں سے ہے۔
(۲)استعانت باللہ یعنی اللہ سے مدد مانگنے سے انسان پیش آنے والے بڑے خطرات کا مقابلہ کر سکتا ہے۔
(۳)استعانت سے مسلمان قوت محسوس کرتا ہے کیوں کہ وہ اکیلا مشکلات کا سامنا نہیں کر رہا ہوتا بلکہ اس کے ساتھ اس کا رب بھی ہے۔​
(۴)بے بسی کا احساس ختم ہو جاتا ہے۔
(۵)قلب کی اصلاح ہوتی ہے اور روحانی کمزوری کا سد باب ہوتا ہے ۔
(۶)استعانت سے صعوبتیں آسان ہو تی ہیں اور بندہ کو اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ سے تقویت پہنچتی ہے اور وہ کام کر سکتا ہے جو اکیلے نہیں کر سکتا تھا۔
(۷)استعانت کی وجہ سے مسلم فرد کا اپنے رب کے ساتھ تعلق مضبوط ہو جاتا ہے اور وہ جب اس سے دعا مانگے گا تو قبول ہوگی اور اس کی تکالیف اور درد ختم ہو جائیں گے۔ اور اس کے گناہ بھی بخش دیئے جائینگے۔

نضرۃ النعیم
 
Top