استعانت کے متعلق آثار اور علماء و مفسرین کے اقوال
(۱)موسیٰ کہتے تھے:یا اللہ! تیرے لئے ہر تعریف ہے ،تیرے پاس ہی شکایت(کی جاتی)ہے۔ اور تجھ سے ہی مدد لی جاتی ہے۔ اور تجھے ہی (بے بسی کے عالم میں)مدد کے لئے پکارا جاتا ہے۔اور تجھ پر ہی توکل کیا جاتا ہے اور تیری مشیئت کے بغیر کوئی قدرت و قوت نہیں ہے۔(
[1])
(۲)عبداللہ بن زبیر نے کہا جنگ جمل کے دن (میرے والد) زبیر نے مجھے بلایا تو میں ان کے پاس کھڑا ہو گیا انہوں نے کہا اے بیٹے آج ظالم اور مظلوم کے سوا کوئی قتل نہیں ہوگا۔ اور میں تو سمجھتا ہوں کہ آج میں مظلوم قتل کیا جاؤں گا۔ اور میری سب سے بڑی پریشانی میرا قرض ہے۔ تیرا کیا خیال ہے کہ قرض دینے سے ہمارے مال میں سے کچھ بچے گا؟ پھر انہوں نے کہا بیٹے! اپنا مال فروخت کر کے میرا قرض ادا کرنا اور انہوں نے ایک تہائی مال کی وصیت کی اور اس کی ایک تہائی عبداللہ بن زبیر کے بیٹوں کے لئے وصیت کی پھر کہا اگر ہمارے مال میں سے قرض چکانے کے بعد کچھ بچ جائےتو اس کا ایک تہائی تیرے بیٹوں کے لئے ہوگا۔ ہشام نے کہا عبداللہ بن زبیر کے کچھ بیٹے زبیر کے بیٹوں کے ہم عمر تھے جیسے خبیب اور عباد۔ اور اس کے اس دن ۹ بیٹے اور ۹ بیٹیاں تھیں۔ عبداللہ بن زبیر نے کہا کہ میرے والد مجھے اپنے قرض کے بارے میں وصیت کرنے لگے اور کہنے لگے ۔اے بیٹے اگر تو قرض میں کچھ ادا کرنے سے بے بس ہو جائے تو میرے مولیٰ سے اس کے لئے مدد مانگنا اللہ کی قسم میں ان کی مراد سمجھ نہیں سکا ۔اور کہا بابا آپ کے مولا کون ہیں۔ کہا "اللہ"( عبداللہ نےکہا) اللہ کی قسم جب بھی مجھے ان کا قرض ادا کرنے میں تکلیف ہوئی تو کہا "اے زبیر کے مولیٰ ! اس کا قرض ادا کر، تو وہ اس کا قرض ادا کر دیتا ۔پھر زبیر قتل ہو گئے ۔اور انہوں نے نہ دینار چھوڑے اور نہ درہم چھوڑے مگر کچھ زمینیں چھوڑی تھیں ۔جس میں ایک باغ بھی تھا اور مدینہ منورہ میں گیارہ مکان تھے، دو مکان بصرہ میں، ایک مکان کوفہ میں اور ایک گھر مصر میں چھوڑاتھا، اور ان پر قرض اس طرح چڑھا کہ آدمی ان کے پاس مال امانت رکھنے کے لئے آتا تو وہ اس کو کہتے نہیں امانت نہیں یہ قرض ہے کیوں کہ مجھے خوف ہے کہ کہیں ضائع (یعنی خرچ نہیں ہو جائے) اور زبیر نے نہ کبھی امارت لی اور نہ ہی جزیہ و ٹیکس وصولی کا عہدہ وغیرہ مگر وہ رسول اللہﷺ اور ابو بکر و عمر وعثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ جہاد میں شریک ہوتے تھے۔ عبداللہ بن زبیر نے کہا، میں نے ان کے اوپر قرضہ کا حساب لگایا تو وہ بائیس لاکھ تھا۔ کہا ،پھر مجھے حکیم بن حزام ملے اور کہا اے بھتیجے :میرے بھائی (زبیر) پر کتنا قرضہ ہے؟ تو عبداللہ نے اس کو چھپایا اور کہا ایک لاکھ ہے۔ حکیم بن حزام نے کہا اللہ کی قسم میں نہیں سمجھتا کہ آپ کا مال اس کے لئے کافی ہو گا۔ تو عبداللہ بن زبیر نے کہا کیا خیال ہے آپ کا کہ اگر بائیس لاکھ ہوتو؟ کہا میں نہیں سمجھتا کہ آپ اس کو ادا کرنے کی طاقت رکھتے ہو۔ سو اگر آپ اس میں سے کچھ ادا نہ کر سکو تو مجھ سے مدد لینا۔ (عبداللہ نے کہا) زبیر نے وہ باغ ایک لاکھ ستر ہزار میں خریدا تھا۔ عبداللہ نے سولہ( ۱۶)لاکھ میں بیچا پھر کہا جس کا بھی زبیر پر قرض ہے وہ ہمارے پاس باغ میں آئے ۔پھر عبداللہ بن جعفر آئے اور اس کے زبیر پر چار لاکھ تھے۔ اس نے عبداللہ کو کہا اگر تم لوگ چاہو تو میں تمہیں چھوڑ دوں۔ عبداللہ نے کہا نہیں پھر اس نے کہا اگر تم مجھے آخر میں دینا چاہو تو بھی ٹھیک ہے ۔عبداللہ نے کہا نہیں، تو اس نے کہا پھر مجھے ٹکڑا ناپ کردو۔ عبداللہ نے کہا تیرا یہاں سے لے کر یہاں تک (حصہ) ہے۔ راوی نے کہا عبداللہ نے اس باغ کو بیچ کر پورا پورا قرض چکا دیا ۔اوراس سے ساڑھے چارسہم یعنی حصے رہ گئے۔ پھر عبداللہ بن زبیر معاویہ کے پاس آئے جہاں پر عمرو بن عثمان،منذر بن زبیر اور ابن زمعہ بھی تھے ۔ معاویہ نے پوچھا کہ باغ کی کتنی قیمت لگائی گئی؟ اس نے کہا ہر سہم ایک لاکھ کا (معاویہ نے) کہا باقی کتنے حصے ہیں؟ کہا ساڑے چار حصے۔ منذر بن زبیر نے کہا ایک حصہ میں نے ایک لاکھ میں لیا۔ اور عمرو بن عثمان نے کہا میں بھی ایک حصہ ایک لاکھ میں لیتا ہوں۔ اور ابن زمعہ نے کہا میں بھی ایک حصہ ایک لاکھ میں لیتا ہوں ۔معاویہ نے کہا کتنا رہ گیا ہے؟ کہا ڈیڑھ حصہ معاویہ نے کہا ایک لاکھ پچاس ہزار میں میں لیتا ہوں اور عبداللہ بن جعفر نے اپنا حصہ معاویہ کو چھ لاکھ میں بیچ دیا۔ پھر جب عبداللہ بن زبیر اپنے والدکا قرض ادا کرنے سے فارغ ہو ئے تو زبیر کی اولاد نے کہا ہمارے درمیان میں ہماری میراث تقسیم کر عبداللہ نے کہا نہیں ،اللہ کی قسم تب تک میں تقسیم نہیں کروں گا جب تک چار سال تک دوران حج منادی کراؤں کہ جس کا بھی زبیر پر قرض ہے تو وہ آئے ہم اس کو ادا کریں گے۔ عبداللہ اس طرح چال سال تک حج کے موسم میں اعلان کرتا رہا۔پھر جب چار سال گذر گئے تو اس نے میراث کو ان میں تقسیم کیا او ر زبیر کی چار بیویاں تھیں۔ اور انہوں نے (وصیت کا)ثلث نکالا پھر بھی (فقط )ہر بیوی کو بارہ لاکھ ملے۔(
[2])
(۳)عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہا گیا کہ آپ قرضہ کیوں لیتی ہیں؟ تو کہا میں اللہ تعالیٰ کی بندے کے لئے مدد چاہتی ہوں۔ جو قرض ادا کرنے کی نیت سے لیتا ہے( تو اللہ تعالیٰ اس کی ضرور مدد فرماتا ہے)۔ (
[3])
(۴)حسن بصری نے خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کو لکھا کہ :غیر اللہ سے مدد نہ مانگنا پھر وہ تجھے اس کے سپرد کر دےگا۔(
[4])
(۵)ابن القیم اور فیروز آبادی نے کہا: تو کل آدھا دین ہے اور دوسرا نصف انابہ یعنی اللہ کی طرف لوٹنا ہے۔ اور دین استعانت و عبادت ہے۔ اور توکل استعانت ہے اور انابت عبادت ہے۔(
[5])
(۶)ابن کثیر نے کہا ( اللہ تعالیٰ کی عبادت ہی مقصود ہے اور اس سے استعانت کرنا عبادت کی طرف پہنچنے کا وسیلہ ہے اور پوری مخلوق چاہے وہ دس لاکھ ہوں سارے اس ایک اللہ کے محتاج ہیں۔(
[6])
(۷)کسی دانا نے کہا ہے: اے رب! مجھے تعجب ہے اس کے بارے میں جو تجھے پہنچانتا بھی ہے اور پھر تیرے سوا دوسروں سے امید رکھتا ہے اور اس پر بھی حیرت ہے جو تجھے پہنچانتا بھی ہے اور دوسروں سے مدد طلب کرتا ہے۔(
[7])
(۸)کسی نے کہا ہے"ایفاء عہد اور نیکی پر محافظت کے لئے صبر کے ساتھ مدد مانگنے کا معنی تو سمجھ رہے ہیں لیکن اطاعت الٰہی اور ترک معصیت اور ریاست وجاہ کی چاہت اور دنیا کی محبت کو ختم کرنے کے لئے نماز کے ساتھ مدد مانگنے کا حکم سمجھ میں نہیں آرہا ۔تو کہا گیا کہ "نماز میں اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اور یہ آیات جو کہ دنیا اور اس کی لذت کو چھوڑنے کی دعوت دیتی ہیں ۔نفوس کو دنیا کی زینت اور دھوکے سے چھڑاتی ہیں ۔آخرت اور جنت کی اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں تیار کر کے رکھی ہیں، یاد دلاتی ہیں۔ ان آیات پر غور کرنے اور عبرت لینے سے اطاعت الٰہی کرنے والوں کے لئے اس کا مزید جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ جیسا کہ نبی کریمﷺ سے مروی ہے کہ
"جب بھی آپﷺ کو کوئی مسئلہ پریشان کرتا تو آپ نماز کی طرف جلدی کرتے تھے۔(
[8])
(۹)طبری نے آیت:
وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ البقرة: ٤٥ کی تفسیر میں کہا ہے " اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے احبار( علماء) جن کا معاملہ( پیچھے )بیان کیا ہے، کو حکم کیا کہ انہوں نے جو اللہ کے ساتھ عہد کیا ہے اس کو سر انجام دینے کے لئے صبرو نماز کے ساتھ مدد طلب کرنے میں جلدی کریں جس طرح اپنے نبی محمدﷺ کو بھی حکم فرمایا :
وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا ۖ وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَىٰ ﴿١٣٠﴾طه یعنی"نماز فجر اور غروب آفتاب سے قبل (نماز عصر) اور رات کے وقت میں بھی تسبیح بیان کر(یعنی نماز پڑھ) اور دن کے اطراف میں بھی تاکہ تو راضی ہو جائے "۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو مصائب کے دوران صبر و صلاة کی طرف جلدی کرنے کا حکم دیا ہے۔(
[9])
(۱۰)عیینہ بن عبدالرحمن اپنے والد سے روایت کرتا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ان کے بھائی قثم کی موت کی خبردی گئی اور آپ سفر میں تھے ۔پھر انہوں نے استرجاع کیا (یعنی انا للہ وانا الیہ راجعون کہا) راستہ سے ایک طرف اپنی سواری کو بٹھایا اور دو رکعت نماز پڑھی اور بہت دیر بیٹھے رہے۔ پھر اٹھ کر سواری کی طرف آئے اور کہتے رہے
وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ ﴿٤٥﴾ البقرة: ٤٥ (
[10])
(۱۱)ابو العالیہ نے آیت
وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ کی تفسیر میں کہا:صبر و نماز کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لئے مدد مانگو اور جان لو کہ یہ بھی اللہ کی اطاعت یعنی نیکی ہے۔(
[11])
(۱۲)ابن جریج نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے :بے شک یہ دونوں (یعنی صبر و صلاة)اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول میں معاون ہیں۔ (
[12])
(13)اللہ تعالیٰ نے (مذکورہ آیت میں) اپنے بندوں کو حکم کیا ہے کہ وہ دنیا و آخرت کی خیر حاصل کرنے کے لئے صبر و نماز سے مدد لیں۔ جیسا کہ مقاتل بن حیان نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ"فرائض کی ادائیگی پر صبر کرتے ہوئے اور نماز سے آخرت طلب کرو۔(
[13])
[1] - مجموع الفتاوى رقم (1/112)
[2] - البخاری،الفتح رقم (6/3129)
[3] - احمد رقم (6/72) بتصرف
[4] - جامع العلوم والحکم رقم (182)
[5] - مدارج السالکين رقم (۱۱۸/۲)، بصائر ذوی التمييز رقم (۳۱۵/۲)
[6] - تفسير ابن کثير رقم (1/26)
[7] - جامع العلوم والحکم رقم (۱۸۲)
[8] - الطبری رقم (۲۹۸/۱)، المقدمة اللغويه رقم (۲۱۵)
[9] - المرجع السابق رقم (1/299،298)
[10] - المرجع السابق رقم (1/299)
[11] - تفسيرالطبري رقم (1/299)
[12] - المرجع السابق رقم (1/299)
[13] - المرجع السابق رقم (1/299،298)