• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الاصلاح

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وہ احادیث جو الاصلاح پر دلالت کرتی ہیں

1- عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ يَقُولُ: اسْتَقْبَلَ وَاللهِ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ مُعَاوِيَةَ بِكَتَائِبَ أَمْثَالِ الْجِبَالِ فَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِؓ: إِنِّي لَأَرَى كَتَائِبَ لَا تُوَلِّي حَتَّى تَقْتُلَ أَقْرَانَهَا فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ - وَكَانَ وَاللهِ خَيْرَ الرَّجُلَيْنِ- : أَيْ عَمْرُو إِنْ قَتَلَ هَؤُلَاءِ هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ هَؤُلَاءِ مَنْ لِي بِأُمُورِ النَّاسِ؟ مَنْ لِي بِنِسَائِهِمْ؟ مَنْ لِي بِضَيْعَتِهِمْ؟ فَبَعَثَ إِلَيْهِ رَجُلَيْنِ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَةَ وَعَبْدَ اللهِ بْنَ عَامِرِ بْنِ كُرَيْزٍ فَقَالَ: اذْهَبَا إِلَى هَذَاالرَّجُلِ فَاعْرِضَا عَلَيْهِ وَقُولَا لَهُ وَاطْلُبَا إِلَيْهِ فَأَتَيَاهُ فَدَخَلَا عَلَيْهِ فَتَكَلَّمَا وَقَالَا لَهُ فَطَلَبَا إِلَيْهِ فَقَالَ لَهُمَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ: إِنَّا بَنُو عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَدْ أَصَبْنَا مِنْ هَذَا الْمَالِ وَإِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ قَدْ عَاثَتْ فِي دِمَائِهَا. قَالَا: فَإِنَّهُ يَعْرِضُ عَلَيْكَ كَذَا وَكَذَا وَيَطْلُبُ إِلَيْكَ وَيَسْأَلُكَ قَالَ: فَمَنْ لِي بِهَذَا؟ قَالَا: نَحْنُ لَكَ بِهِ فَمَا سَأَلَهُمَا شَيْئًا إِلَّا قَالَا نَحْنُ لَكَ بِهِ فَصَالَحَهُ فَقَالَ الْحَسَنُ: وَلَقَدْ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرَةَ يَقُولُ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺعَلَى الْمِنْبَرِ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ إِلَى جَنْبِهِ وَهُوَ يُقْبِلُ عَلَى النَّاسِ مَرَّةً وَعَلَيْهِ أُخْرَى وَيَقُولُ: إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ. ([1])

(۱)ابو موسیٰ نے بیان کیا کہ میں نے امام حسن بصری سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ اللہ کی قسم! جب حسن بن علی رضی اللہ عنہما معاویہ کے مقابلے میں) پہاڑوں جیسا لشکر لے کر پہنچے تو عمرو بن عاص ؓنے کہا( جو امیر معاویہ ؓکے مشیر خاص تھے) کہ میں ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو اپنے مقابل کو نیست و نابود کئے بغیر واپس نہ جائے گا۔ معاویہ ؓنے اس پر کہا اور اللہ کی قسم وہ ان دونوں اصحاب میں زیادہ اچھے تھے کہ اے عمرو! اگر اس لشکر نے اس لشکر کو قتل کر دیا یا اس نے اس کوقتل کردیا تو لوگوں کے امور (کی جواب دہی کے لئے) میرے ساتھ کون ذمہ داری لے گا؟ لوگوں کی بیوہ عورتوں کی خبر گیری کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہوگا؟ لوگوں کی آل اولاد کے سلسلے میں میرے ساتھ کون ذمہ دار ہوگا؟ آخر معاویہ ؓنے حسن ؓکے یہاں قریش کی شاخ بنو عبد شمس کے دو آدمی بھیجے ۔عبدالرحمن بن سمرہ اور عبداللہ بن عامر بن کریز آپ ؓنے ان دونوں سے فرمایا کہ حسن بن علی ؓکے یہاں جاؤ اور ان کے سامنے صلح پیش کرو ان سے اس پر گفتگو کرو اور فیصلہ انہیں کی مرضی پر چھوڑ دو۔ چنانچہ یہ لوگ آئے اور آپ سے گفتگو کی اور فیصلہ آپ ہی کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ حسن بن علی ؓنے فرمایا ہم بنو عبدالمطلب کی اولاد ہیں اور ہم کو خلافت کی وجہ سے روپیہ پیسہ خرچ کرنے کی عادت ہو گئی ہے ۔اور ہمارے ساتھ یہ لوگ ہیں یہ خون خرابہ کرنے میں طاق ہیں بغیر روپیہ دیئے ماننے والے نہیں ۔وہ کہنے لگے امیر معاویہ ؓآپ کو اتنا اتنا روپیہ دینے پر راضی ہیں اور آپ سے صلح چاہتے ہیں۔ فیصلہ آپ کی مرضی پر چھوڑا ہے اور آپ سےپوچھا ہے ۔حسن ؓنے فرمایا کہ اس کی ذمہ داری کون لے گا ؟ان دونوں قاصدوں نے کہا کہ ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔آخر آپ نے صلح کر لی پھر فرمایا کہ میں نے ابو بکرہ ؓسے سنا تھا وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو منبر پر یہ فرماتے سنا ہے اور حسن بن علی ؓرسول اللہ ﷺکے پہلو میں تھے آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی حسن ؓکی طرف اور فرماتے کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا۔

2- عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِؓ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِﷺ: أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامِ وَالصَّلَاةِ وَالصَّدَقَةِ؟ قَالُوا: بَلَى قَالَ: صَلَاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ فَإِنَّ فَسَادَ ذَاتِ الْبَيْنِ هِيَ الْحَالِقَةُ. ([2])
(۲)ابو درداء ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کیا میں تمہیں نماز، روزہ اور صدقے سے اجر کے لحاظ سے بہتر عمل نہ بتاؤں؟ صحابہ نے کہا : اے اللہ کے رسول کیوں نہیں! آپ ﷺنے فرمایا :لوگوں کے احوال درست کرنا(صلح کرانا) اور آپس میں فساد اعمال کی جڑکاٹ دیتا ہے۔

3- عَنْ زَيْدِ بْنِ مِلْحَةَؓ أَنَّ رَسُولَ اللهِﷺقَالَ: إِنَّ الدِّينَ لَيَأْرِزُ إِلَى الْحِجَازِ كَمَا تَأْرِزُ الْحَيَّةُ إِلَى جُحْرِهَا وَلَيَعْقِلَنَّ الدِّينُ مِنْ الْحِجَازِ مَعْقِلَ الْأُرْوِيَّةِ مِنْ رَأْسِ الْجَبَلِ إِنَّ الدِّينَ بَدَأَ غَرِيبًا وَيَرْجِعُ غَرِيبًا فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ الَّذِينَ يُصْلِحُونَ مَا أَفْسَدَ النَّاسُ مِنْ بَعْدِي مِنْ سُنَّتِي. ([3])
(۳)عمرو بن عوف ؓسے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا بلا شبہ دین (اسلام) حجاز میں سمٹ آئے گا جیسا کہ سانپ اپنے سوراخ میں سمٹ آتا ہے ۔ اور دین (اسلام) حجاز میں محفوظ ہوگا جیسا کہ بکری پہاڑ کی بلندی میں پناہ لیتی ہے۔ بلاشبہ دین( اسلام) کا آغاز اجنبیت میں ہوا اوریقیناً اس کا ٓخر بھی اس کے آغاز کی مانند ہوگا" پس خوشخبری ہے اجنبیوں کے لئے"یہ وہ لوگ ہیں جو میرے بعد میری سنت کی اصلاح کریں گے جس کو لوگ بگاڑ دیں گے۔


[1] - صحيح البخاري،كِتَاب الصُّلْحِ، بَاب قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا...، رقم (2704)، صحيح مسلم رقم (7109)
[2] - (صحيح) صحيح سنن الترمذي رقم (2509)، سنن الترمذى،كِتَاب صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالرَّقَائِقِ...، بَاب مَا جَاءَ فِي إِصْلَاحِ ذَاتِ الْبَيْنِ، رقم (2509)
[3] - (ضعيف جدا) وضعيف سنن الترمذي رقم(2630)، سنن الترمذي،كِتَاب الْإِيمَانِ، بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْإِسْلَامَ بَدَأَ غَرِيبًا وَسَيَعُودُ غَرِيبًا، رقم (2630)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
4 - عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِﷺ: كَتَبَ كِتَابًا بَيْنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ أَنْ يَعْقِلُوا مَعَاقِلَهُمْ وَأَنْ يَفْدُوا عَانِيَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَالْإِصْلَاحِ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ. ([1])
(۴)عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ فرماتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ ﷺنے ایک کتاب لکھی جو مہاجرین اور انصار کے درمیان تھی کہ ہر ایک اپنے اپنے قلعے بنائے اور ہر ایک اپنے قیدی کو معروف طریقے سے آزاد کروائے اور اپنے درمیان اصلاح کرتے رہیں۔

5 - عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ؓ، قَالَ : بَيْنَا رَسُولُ اللهِ ﷺجَالِسٌ إِذْ رَأَيْنَاهُ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ (1) ثَنَايَاُهُ (2)، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: مَا أَضْحَكَكَ يَا رَسُولَ اللهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي؟ قَالَ: « رَجُلَانِ مِنْ أُمَّتِي جَثَيَا (3) بَيْنَ يَدَيْ رَبَّ الْعِزَّةِ ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: يَا رَبِّ خُذْ لِي مَظْلِمَتِي مِنْ أَخِي ، فَقَالَ اللهُ - تَبَارَكَ وَتَعَالى - لِلطَّالِبِ: فَكَيْفَ تَصْنَعُ بِأَخِيْكَ وَلَمْ يَبْقَ مِنْ حَسَنَاتِهِ شَيْءٌ؟ قَالَ: يَا رَبِّ فَلْيَحْمِلْ مِنْ أَوْزَارِي». قَالَ: وَفَاضَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللهِ ﷺ بِالْبُكَاءِ، ثُمَّ قَالَ: «إِنَّ ذَاكَ الْيَوْمَ عَظِيْمٌ يَحْتَاجُ النَّاسُ أَنْ يُحْمَلَ عَنْهُمْ مِنْ أَوْزَارِهِمْ، فَقَالَ اللهُ تَعَالَى لِلطَّالِبِ: » ارْفَعْ بَصَرَكَ فَانْظُرْ فِي الْجِنَانِ فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: يَا رَبِّ أَرَى مَدَائِنَ مِنْ ذَهَبٍ وَقُصُورًا مِنْ ذَهَبٍ مُكَلَّلَةً بِاللُّؤْلُؤِ لأَيَّ نَبِيٍّ هَذَا؟ أَوْ لأَيِّ صِدِّيْقٍ هَذَا؟ أَوْ لأَيِّ شَهِيْدٍ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا لِمَنْ أَعْطَى الثَّمَنَ، قَالَ: يَا رَبِّ وَمَنْ يَمْلِكُ ذَلِكَ؟ قَالَ: أَنْتَ تَمْلِكُهُ، قَالَ: بِمَاذَا؟ قَالَ: بِعَفْوِكَ عَنْ أَخِيْكَ، قَالَ: يَا رَبِّ فَإِنِّي قَدْ عَفَوْتُ عَنْهُ، قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: فَخُذْ بِيَدِ أَخِيْكَ فَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ « فَقَالَ رَسُولُ اللهِﷺ عِنْدَ ذَلِكَ: »اتَّقُوا اللهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ فَإِنَّ اللهَ تَعَالَى يُصْلِحُ بَيْنَ الْمُسْلِمِيْنَ . ([2])
(۵)انس بن مالک ؓفرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺبیٹھے ہوئے تھے ہم نے دیکھا کہ آپ ﷺہنس رہے تھے یہاں تک کہ آپ کے دانت مبارک ظاہر ہوئے ۔عمر فاروق نے فرمایا کہ آپ پر میرے والدین قربان ہوں، کس چیز نے آپ کو ہنسایا؟ آپ ﷺنے فرمایا کہ میری امت کے دو آدمی اللہ کے سامنے گٹھنوں کے بل بیٹھے تو ایک نے کہا اس بھائی نے جو مجھ پر ظلم کیا تھا اس کا حساب لے کر دے، اللہ رب العالمین اس سے کہے گا اس کے پاس کوئی نیکی نہیں بچی تو اس سے کیسے حساب لے گا؟ تو وہ شخص کہے گا اے اللہ میرے گناہ اس کے اوپر ڈال دے۔تو آپ ﷺکی دونوں آنکھوں میں آنسو آگئے پھر آپ نے فرمایا کہ وہ کتنا عظیم دن ہے کہ اس وقت ہر شخص چاہے گا کہ میرے گناہ کسی اور کے اوپر رکھے جائیں ۔پھر اللہ تعالیٰ نے مطالبہ کرنے والے شخص کو کہا کہ اپنی نگاہ اوپر اٹھا پھر جنتوں میں دیکھ پھر اس نے سر اٹھایا پھر کہا کہ اے اللہ میں سونے اور چاندی کے محلات دیکھ رہا ہوں۔ جو لؤلؤ سے مزین ہیں، کس نبی کے ہیں یا کس صدیق کے ہیں یا کس شہید کے ہیں؟ اللہ رب العالمین نے فرمایا یہ اس کے ہیں جس نے اس کی قمیت دی۔تو وہ بندہ کہے گا اس کی قیمت کون ادا کرے گا؟ اللہ رب العالمین فرمائے گا تو اس قیمت کو ادا کر سکتا ہے ، تو وہ بندہ کہے گا کہ کس چیز کے ذریعہ؟ اللہ رب العالمین کہے گا کہ اس بندے کو معاف کرنے سے۔ پھر اللہ رب العالمین کہے گا کہ اپنے بھائی کو اپنے ہاتھ سے لو اور جنت میں داخل کرو۔ اس موقع پر اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا اللہ سے ڈر جاؤ اور اپنے درمیان جھگڑوں کی اصلاح کرو، بے شک اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے درمیان صلح کرواتاہے ۔

[1] - (إسناده ضعيف) دفاع عن الحديث النبوي رقم (5)، مسند أحمد رقم (271).
[2] - (ضعيف جدا) ضعيف الترغيب والترهيب رقم (1469)، المستدرك رقم (8869) هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
6- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَؓ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺقَالَ: تُفْتَحُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ فَيُغْفَرُ لِكُلِّ عَبْدٍ لَا يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا إِلَّا رَجُلًا كَانَتْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ شَحْنَاءُ فَيُقَالُ: أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا. ([1])
(۶)ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں پیر اور جمعرات کے دن پھر ہر اس بندے کی مغفرت ہوتی ہے جو اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتا ،مگر وہ شخص جو کینہ رکھتا ہے اپنے بھائی سے اس کی مغفرت نہیں ہوتی اور حکم ہوتا ہے ان دونوں کو دیکھتے رہو جب تک مل جائیں ۔ان دونوں کو دیکھتے رہو جب تک مل جائیں ۔

8- عن أَنَس ؓقَالَ قِيلَ لِلنَّبِيِّ ﷺلَوْ أَتَيْتَ عَبْدَ اللهِ بْنَ أُبَيٍّ فَانْطَلَقَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ ﷺوَرَكِبَ حِمَارًا فَانْطَلَقَ الْمُسْلِمُونَ يَمْشُونَ مَعَهُ وَهِيَ أَرْضٌ سَبِخَةٌ فَلَمَّا أَتَاهُ النَّبِيُّ ﷺفَقَالَ إِلَيْكَ عَنِّي وَاللهِ لَقَدْ آذَانِي نَتْنُ حِمَارِكَ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ مِنْهُمْ وَاللهِ لَحِمَارُ رَسُولِ اللهِ ﷺأَطْيَبُ رِيحًا مِنْكَ فَغَضِبَ لِعَبْدِ اللهِ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ فَشَتَمَهُ فَغَضِبَ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا أَصْحَابُهُ فَكَانَ بَيْنَهُمَا ضَرْبٌ بِالْجَرِيدِ وَالْأَيْدِي وَالنِّعَالِ فَبَلَغَنَا أَنَّهَا أُنْزِلَتْ{وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا }. ([2])
(۸)انس ؓنے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺسے عرض کیا گیا اگر آپ عبداللہ بن ابی(منافق)کے یہاں تشریف لے چلتے تو بہتر تھا۔ رسول اللہ ﷺاس کے یہاں ایک گدھے پر سوار ہو کر تشریف لے گئے۔ صحابہ yپیدل آپ کے ہمراہ تھے۔ جدھر سے آپ گزررہے تھے وہ شور زمین تھی ۔جب نبی کریم ﷺاس کے یہاں پہنچے تو وہ کہنے لگا ذرا آپ دورہی رہئے آپ کےگدھے کی بونے میرا دماغ پریشان کر دیا ہے۔ اس پر ایک انصاری صحابی بولے کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺکا گدھا تجھ سے زیادہ خوشبودار ہے۔ عبداللہ (منافق) کی طرف سے اس کی قوم کا ایک شخص ان صحابی کی اس بات پر غصہ ہو گیا اور دونوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا۔ پھر دونوں طرف سے دونوں کے حمایتی مشتعل ہو گئے اور ہاتھا پائی ،چھڑی اور جوتے تک نوبت پہنچ گئی۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہ آیت اسی موقع پر نازل ہوئی تھی۔ ”اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو ان میں صلح کرادو“۔

9- عَنْ أُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتَ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ وَكَانَتْ مِنْ الْمُهَاجِرَاتِ الْأُوَلِ اللَّاتِي بَايَعْنَ النَّبِيَّ ﷺأَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللهِ ﷺوَهُوَ يَقُولُ لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ وَيَقُولُ خَيْرًا وَيَنْمِي خَيْرًا. ([3])
(۹)حمید بن عبدالرحمن نے اپنی ماں ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط سے سنا جو مہاجرات اول میں سے تھیں جنہوں نے بیعت کی تھی رسول اللہ ﷺسے انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا آپ فرماتے تھے جھوٹا وہ نہیں ہے جو لوگوں میں صلح کرائے اور بہتر بات کہے یا لگائے۔

[1] - صحيح مسلم،كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ، بَاب النَّهْيِ عَنْ الشَّحْنَاءِ وَالتَّهَاجُرِ، رقم (2565)
[2] - صحيح البخاري،كِتَاب الصُّلْحِ، بَاب مَا جَاءَ فِي الْإِصْلَاحِ بَيْنَ النَّاسِ إِذَا تَفَاسَدُوا، رقم (2691)، صحيح مسلم رقم (1799)
[3] - صحيح مسلم،كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ، بَاب تَحْرِيمِ الْكَذِبِ وَبَيَانِ الْمُبَاحِ مِنْهُ، رقم (2605)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وہ احادیث جو ”الإصلاح“پرمعنوی طور پر دلالت کرتی ہیں

10- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ؓقَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺكُلُّ سُلَامَى مِنْ النَّاس عَلَيْهِ صَدَقَةٌ كُلَّ يَوْمٍ تَطْلُعُ فِيهِ الشَّمْسُ يَعْدِلُ بَيْنَ النَّاسِ صَدَقَةٌ. ([1])
(۱۰)ابو ہریرہ ؓنے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا انسان کے بدن کے (تین سو ساٹھ جوڑوںمیں سے) ہر جوڑ پر ہر اس دن کا صدقہ واجب ہے جس میں سورج طلوع ہوتا ہے اور لوگوں کے درمیان انصاف کرنا بھی ایک صدقہ ہے۔

[1] - صحيح البخاري،كِتَاب الصُّلْحِ، بَاب فَضْلِ الْإِصْلَاحِ بَيْنَ النَّاسِ وَالْعَدْلِ بَيْنَهُمْ، رقم (2707)، صحيح مسلم رقم (1009)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
نبی ﷺ كی زندگی میں اصلاح كے عملی نمونے
11- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَعَنْ رَسُولِ اللهِﷺفَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا وَقَالَ رَسُولُ اللهِﷺاشْتَرَى رَجُلٌ مِنْ رَجُلٍ عَقَارًا لَهُ فَوَجَدَ الرَّجُلُ الَّذِي اشْتَرَى الْعَقَارَ فِي عَقَارِهِ جَرَّةً فِيهَا ذَهَبٌ فَقَالَ لَهُ الَّذِي اشْتَرَى الْعَقَارَ خُذْ ذَهَبَكَ مِنِّي إِنَّمَا اشْتَرَيْتُ مِنْكَ الْأَرْضَ وَلَمْ أَبْتَعْ مِنْكَ الذَّهَبَ فَقَالَ الَّذِي شَرَى الْأَرْضَ إِنَّمَا بِعْتُكَ الْأَرْضَ وَمَا فِيهَا قَالَ فَتَحَاكَمَا إِلَى رَجُلٍ فَقَالَ الَّذِي تَحَاكَمَا إِلَيْهِ أَلَكُمَا وَلَدٌ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِي غُلَامٌ وَقَالَ الْآخَرُ لِي جَارِيَةٌ قَالَ أَنْكِحُوا الْغُلَامَ الْجَارِيَةَ وَأَنْفِقُوا عَلَى أَنْفُسِكُمَا مِنْهُ وَتَصَدَّقَا. ([1])
(۱۱)ابو ہریرہ ؓ بیان کر تے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا آپ نے فرمایاکہ ایک شخص نے دوسرے شخص سے زمین خریدی پھر جس نے زمین خریدی اس نے ایک ٹھلیا سونے کی اس میں پائی جس نے خریدی تھی وہ کہنے لگا (بیچنے والے سے) تو اپنا سونا لے لے۔ میں نے تجھ سے زمین خریدی تھی سونا نہیں خریدا تھا جس نے زمین بیچی تھی اس نے کہا میں نے تیرے ہاتھ زمین بیچی اور جو کچھ اس میں تھا۔پھر دونوں نے فیصلہ چاہا ایک شخص سے وہ بولا تمہاری اولاد ہے؟ ایک نے کہا میرا ایک لڑکا ہے دوسرے نے کہا میری ایک لڑکی ہے اس نے کہا اچھا اس کے لڑکے کا نکاح اس لڑکی سے کردو اور اس سونے کو دونوں پر خرچ کرو اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں بھی دو(غرض صلح کرادی اور یہ مستحب ہے تاکہ دونوں خوش رہیں)۔

12- عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍؓ قَالَ بَلَغَ رَسُولَ اللهِ ﷺأَنَّ نَاساً مِنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ كَانَ بَيْنَهُمْ شَيْءٌ فَخَرَجَ النَّبِيُّﷺ فِي أُنَاسٍ مِنْ يُصْلِحُ بَيْنَهُمْ، فَحَضَرَتِ الصَّلاَةُ، وَلَمْ يَأْتِ النَّبِيُّﷺ. فَأَذَّنَ بِلَالٌ بِالصَّلاَةِ وَلَمْ يَأْتِي النَّبِيُّﷺ. فَجَاءَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ ؓ فَقَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ حُبِسَ، وَقَدْ حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَهَلْ لَكَ أَنْ تَؤُمَّ النَّاسَ؟ قَالَ: نَعَمْ إِنْ شِئْتَ فَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَتَقَدَّمَ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ جَاءَ النَّبِيُّﷺيَمْشِي فِي الصُّفُوفِ حَتَّى قَامَ فِي الصَّفِّ الأَوَّلِ فَأَخَذَ النَّاسُ فِي التَّصْفِيحِ حَتَّى أَكْثَرُوا - وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لَايَكَادُ يَلْتَفِتُ فِي الصَّلاَةِ - فَإِذَا هُوَبِالنَّبِيِّﷺ وَرَاءَهُ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ بِيَدِهِ فَأَمَرَهُ أَنْ يُصَلِّيَ كَمَا هُوَ فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ يَدَهُ فَحَمِدَ اللهَ ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى وَرَاءَهُ حَتَّى قَامَ فِي الصَّفِّ فَتَقَدَّمَ النَّبِيُّﷺفَصَلَّى بِالنَّاسِ فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِذَا نَابَكُمْ شَيْءٌ فِي الصَّفِّ فِي صَلَاتِكُمْ أَخَذْتُمْ بِالتَّصْفِيحِ إِنَّمَا التَّصْفِيحُ لِلنِّسَاءِ مَنْ نَابَهُ شَيْءٌ فِي صَلَاتِهِ فَلْيَقُلْ سُبْحَانَ اللهِ فَإِنَّهُ لَا يَسْمَعُهُ أَحَدٌ إِلَّا الْتَفَتَ. يَا أَبَا بَكْرٍ مَا يَمْنَعُكَ حِيْنَ أَشَرْتُ إِلَيْكَ لَمْ تُصَلِّ بِالنَّاسِ؟ فَقَالَ: مَا كَانَ يَنْبَغِي لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّﷺ . ([2])
(۱۲)سہل بن سعد ؓنے بیان کیا کہ (قباء کے)بنو عمرو بن عوف میں آپس میں کچھ تکرار ہو گئی تھی تو رسول اللہ ﷺاپنے کئی اصحاب کو ساتھ لے کر ان کے یہاں ان میں صلح کرانے کےلئے گئے اور نماز کاوقت ہو گیا لیکن آپ تشریف نہ لا سکے۔ چنانچہ بلال ؓنے آگے بڑھ کر اذان دی ابھی تک چونکہ رسول اللہ ﷺتشریف نہیں لائے تھے اس لئے وہ (رسول اللہ ﷺہی کی ہدایت کے مطابق)ابو بکر کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ رسول اللہ ﷺوہیں رک گئے ہیں اور نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں گے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں اگر تم چاہو۔اس کے بعد بلال ؓنے نماز کی تکبیر کہی اور ابو بکر ؓآگے بڑھے (نماز کے درمیان ) نبی کریم ﷺصفوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے پہلی صف میں آپہنچے ۔لوگ بار بار ہاتھ پر ہاتھ مارنے لگے ۔مگر ابو بکر ؓ نماز میں کسی دوسری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے(مگر جب بار بار ایسا ہوا تو) آپ متوجہ ہوئے اور معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺآپ کے پیچھے ہیں۔ رسول اللہ ﷺنے اپنے ہاتھ کے اشارہ سے انہیں حکم دیا کہ جس طرح وہ نماز پڑھا رہے ہیں۔ اسے جاری رکھیں لیکن ابو بکر ؓنے اپنا ہاتھ اٹھا کر اللہ کی حمد بیان کی اور الٹے پاؤں پیچھے آگئے اور صف میں مل گئے۔ پھر نبی کریم ﷺآگے بڑھے اور نماز پڑھائی نماز سے فارغ ہو کر آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں ہدایت کی کہ لوگوں! جب نماز میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تم ہاتھ پر ہاتھ مارنے لگتے ہو۔ ہاتھ پر ہاتھ مارنا عورتوں کے لئے ہے۔ (مردوں کو) جس کی نماز میں کوئی بات پیش آئے تو اسے سبحان اللہ کہنا چاہیئے۔ کیوں کہ یہ لفظ جو بھی سنے گا وہ متوجہ ہو جائے گا۔ اے ابو بکر ! جب میں نے اشارہ بھی کر دیا تھا تو پھر آپ لوگوں کو نماز کیوں نہیں پڑھاتے رہے؟ انہوں نے عرض کیاکہ ابو قحافہ کے بیٹے کے لئے یہ بات مناسب نہ تھی کہ وہ رسول اللہ ﷺکے ہوتے ہوئے نماز پڑھائے۔

13-
عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ تَقَاضَى ابْنَ أَبِي حَدْرَدٍ دَيْنًا كَانَ لَهُ عَلَيْهِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺفِي الْمَسْجِدِ فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا حَتَّى سَمِعَهَا رَسُولُ اللهِ ﷺوَهُوَ فِي بَيْتِهِ فَخَرَجَ رَسُولُ اللهِﷺ إِلَيْهِمَا حَتَّى كَشَفَ سِجْفَ
حُجْرَتِهِ وَنَادَى كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ فَقَالَ: يَا كَعْبُ فَقَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ فَأَشَارَ بِيَدِهِ أَنْ ضَعِ الشَّطْرَ. فَقَالَ كَعْبٌ: قَدْ فَعَلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِﷺ: قُمْ فَاقْضِهِ.

([3])
(۱۳)کعب بن مالک ؓنے خبر دی کہ انہوں نے ابن ابی حدرد ؓسے اپناقرض طلب کیا جو انکے ذمہ تھا یہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کا واقعہ ہے ۔ مسجد کے اندر ان دونوں کی آواز اتنی بلند ہوگئی کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی سنی۔آپ اس وقت اپنے حجرے میں تشریف رکھتے تھے ۔چنانچہ آپ باہرآئے اور اپنے حجرہ کا پردہ اٹھاکر کعب بن مالک ؓکو آواز دی ۔آپﷺ نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے فرمایا کہ آدھا معاف کردے کعب ؓنے کہا میں نے کر دیا یا رسول اللہ ﷺ! آپ نے (ابن ابی حدرد ؓسے )فرمایا اب اٹھو اور قرض ادا کردو۔

14- عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: سَمِعَ رَسُولُ اللهِ ﷺصَوْتَ خُصُومٍ بِالْبَابِ عَالِيَةٍ أَصْوَاتُهُمْ وَإِذَا أَحَدُهُمَا يَسْتَوْضِعُ الْآخَرَ وَيَسْتَرْفِقُهُ فِي شَيْءٍ وَهُوَ يَقُولُ: وَاللهِ لَا أَفْعَلُ فَخَرَجَ عَلَيْهِمَا رَسُولُ اللهِ ﷺفَقَالَ: أَيْنَ الْمُتَأَلِّي عَلَى اللهِ لَا يَفْعَلُ الْمَعْرُوفَ؟ فَقَالَ: أَنَا يَا رَسُولَ اللهِ وَلَهُ أَيُّ ذَلِكَ أَحَبَّ. ([4])
(۱۴)عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺنے دروازے پر دو جھگڑا کرنے والوں کی آواز سنی جو بلند ہو گئی تھی۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک آدمی دوسرے سے قرض میں کچھ کمی کرنے اور تقاضے میں کچھ نرمی برتنے کے لئے کہہ رہا تھا۔ اور دوسرا کہتا تھا کہ اللہ کی قسم! میں یہ نہیں کروں گا۔ آخر رسول اللہ ﷺ ان کے پاس گئے اور فرمایا کہ اس بات پر اللہ کی قسم کھانے والے صاحب کہاں ہیں؟ کہ وہ ایک اچھا کام نہیں کریں گے۔ان صحابی نے عرض کیا میں ہی ہوں یا رسول اللہ ﷺ ! اب میرا بھائی جو چاہتا ہے وہی مجھ کو بھی پسند ہے۔

15- عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: تُوُفِّيَ أَبِي وَعَلَيْهِ دَيْنٌ فَعَرَضْتُ عَلَى غُرَمَائِهِ أَنْ يَأْخُذُوا التَّمْرَ بِمَا عَلَيْهِ فَأَبَوْا وَلَمْ يَرَوْا أَنَّ فِيهِ وَفَاءً فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺفَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ: إِذَا جَدَدْتَهُ فَوَضَعْتَهُ فِي الْمِرْبَدِ آذَنْتَ رَسُولَ اللهِ ﷺفَجَاءَ وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فَجَلَسَ عَلَيْهِ وَدَعَا بِالْبَرَكَةِ ثُمَّ قَالَ: ادْعُ غُرَمَاءَكَ فَأَوْفِهِمْ فَمَا تَرَكْتُ أَحَدًا لَهُ عَلَى أَبِي دَيْنٌ إِلَّا قَضَيْتُهُ وَفَضَلَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ وَسْقًا: سَبْعَةٌ عَجْوَةٌ وَسِتَّةٌ لَوْنٌ أَوْ سِتَّةٌ عَجْوَةٌ وَسَبْعَةٌ لَوْنٌ فَوَافَيْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺالْمَغْرِبَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَضَحِكَ فَقَالَ: ائْتِ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ فَأَخْبِرْهُمَا فَقَالَا: لَقَدْ عَلِمْنَا إِذْ صَنَعَ رَسُولُ اللهِ ﷺمَا صَنَعَ أَنْ سَيَكُونُ ذَلِكَ. ([5])
(۱۵)جابر بن عبداللہ نے بیان کیا کہ میرے والد جب شہید ہوئے تو ان پرقرض تھا۔ میں نے ان کے قرض خواہوں کے سامنے یہ صورت رکھی کہ قرض کے بدلے میں وہ( اس سال کی کھجور کے) پھل لے لیں۔ انہوں نے اس سے انکار کیا کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ اس سے قرض پورا نہیں ہو سکے گا۔ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺسے اس کا ذکر کیا آپ نے فرمایا کہ جب پھل توڑ کر مربد( وہ جگہ جہاں کھجور خشک کرتے تھے) میں جمع کر دو( تو مجھے خبردو) چنانچہ میں نےآپ کو خبر دی آپ تشریف لائے اور اس میں برکت کی دعا فرمائی پھر فرمایا کہ اب اپنے قرض خواہوں کو بلالاؤ اور ان کا قرض ادا کردوچنانچہ کوئی شخص ایساباقی نہ رہا جس کا میرے باپ پر قرض رہا اور میں نے اسے ادا نہ کر دیا ہو۔ پھر بھی تیرہ وسق کھجور باقی بچ گئی ۔سات وسق عجوہ میں سے اور چھ وسق لون میں سے۔ یا چھ وسق عجوہ میں سے اور چھ سات وسق لون میں سے ۔بعدمیں رسول اللہ ﷺ سے مغرب کے وقت جا کر ملا اور آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپﷺ ہنسے اور فرمایا ابو بکر اور عمر کے یہاں جا کر انہیں بھی یہ واقعہ بتا دو۔ چنانچہ میں نے انہیں بتلایا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کو جو کرنا تھا آپ نے وہ کیا ۔ ہمیں جبھی معلوم ہو گیا تھا کہ ایسا ہی ہوگا۔

16- عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ؓ أَنَّ أَهْلَ قُبَاءٍ اقْتَتَلُوا حَتَّى تَرَامَوْا بِالْحِجَارَةِ فَأُخْبِرَ رَسُولُ اللهِ ﷺبِذَلِكَ فَقَالَ: اذْهَبُوا بِنَا نُصْلِحُ بَيْنَهُمْ. ([6])
(۱۶)سہل بن سعد ؓنے بیان کیا کہ قباء کے لوگوں نے آپس میں جھگڑا کیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک نے دوسرے پر پتھر پھینکے رسول اللہ ﷺکو جب اس کی اطلاع دی گئی تو آپ ﷺنے فرمایا چلو ہم ان میں صلح کرائیں گے۔


[1] - صحيح مسلم،كِتَاب الْأَقْضِيَةِ، بَاب اسْتِحْبَابِ إِصْلَاحِ الْحَاكِمِ بَيْنَ الْخَصْمَيْنِ، رقم (1721)
[2] - صحيح البخاري،كِتَاب الْجُمُعَةِ، بَاب رَفْعِ الْأَيْدِي فِي الصَّلَاةِ لِأَمْرٍ يَنْزِلُ بِهِ، رقم (2690)، صحيح مسلم رقم (421)
[3] - صحيح البخاري،كِتَاب الصَّلَاةِ، بَاب رَفْعِ الصَّوْتِ فِي الْمَسَاجِدِ، رقم (2710)
[4] - صحيح البخاري،كِتَاب الصُّلْحِ، بَاب هَلْ يُشِيرُ الْإِمَامُ بِالصُّلْحِ، رقم (2705)
[5] - صحيح البخاري،كِتَاب الصُّلْحِ، بَاب الصُّلْحِ بَيْنَ الْغُرَمَاءِ وَأَصْحَابِ الْمِيرَاثِ وَالْمُجَازَفَةِ فِي ذَلِكَ، رقم (2709)
[6] - صحيح البخاري،كِتَاب الصُّلْحِ، بَاب قَوْلِ الْإِمَامِ لِأَصْحَابِهِ اذْهَبُوا بِنَا نُصْلِحُ، رقم (2693)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اصلاح کے متعلق آثار اور علماء و مفسرین کے اقوال

(۱)ابن ابی عذرۃ (جو کہ عمر ؓکی خلافت میں تھا) ان عورتوں کوخلع (طلاق) دے دیتا تھا جن سے وہ نکاح کرتا تھا۔پھر اس کے متعلق لوگوں کے اندر بات عام ہو گئی جس کو وہ ناپسند بھی کرتا تھا ۔اس کا جب اسے پتہ چلا تو اس نے عبداللہ بن ارقم ؓ کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے گھر لے آیا۔ پھر اپنی گھر والی کو کہا :میں تجھے اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کیا تو مجھے نا پسند کرتی ہے ۔اس نے کہا ہاں۔ پھر ابن ارقم ؓ کو کہا ،کیا تو سن رہا ہے؟ پھر دونوں جناب عمر بن خطاب ؓکے پاس آئے اور کہا :تم لوگ کہتے ہو کہ میں عورتوں پر ظلم کرتا ہوں اور انہیں خلع دے دیتا ہوں آپ ابن ارقم ؓسے پوچھ لیں ۔جناب عمرؓ نے ابن ارقمؓ سے پوچھا تو اس نے بتا دیا۔ پھر ابن ابی عذرۃ کی بیوی کو بلایا تو وہ اور اس کی پھوپھی دونوں آئیں ۔کہا کیا تو نے اپنے خاوند کو کہا ہے کہ تو اس کو ناپسند کرتی ہے؟ اس نے کہا میں سب سے پہلے توبہ کرتی ہوں اور اللہ تعالیٰ کے امر کی طرف رجوع کرتی ہوں۔اس نے مجھے(اللہ کی )قسم دی پھر میں نے غلط بیانی کرنے میں حرج محسوس کیا، کیا پھر جھوٹ بولوں اے امیر المومنین۔ کہا ہاں ۔غلط بیانی کر ۔اگر تم عورتوں میں سے کوئی اپنے شوہرکو ناپسند کرتی ہے تو اس کو نہ بتائیے ۔کیوں کہ وہ گھر بہت کم ہوں گے جن کی بنیاد محبت پر ہوگی لیکن لوگ اسلام اور خاندان کی بنیاد پر گذارہ کرتے ہیں۔([1])

(۲) ابن شہاب نے کہا: میں نے نہیں سنا کہ لوگوں کو تین چیزوں کے علاوہ کسی چیز میں جھوٹ اور غلط بیانی کی اجازت دی گئی ہو۔ جنگ میں(یعنی کفار سے) اور لوگوں کے درمیان اصلاح (صلح) کرانے میں ،اور میاں بیوی کی آپس کی گفتگو میں۔([2])

(۳)ابن بابویہ نے کہا :اللہ تعالیٰ صلح کرانے میں جھوٹ کو پسند کرتا ہے اور فساد پیدا کرنے میں سچ کو بھی پسند نہیں کرتا ہے۔([3])

(۴) ابن القیم نے کہا ہے :مسلمانوں کے درمیان جائز صلح وہ ہے جس کی بنیاد اللہ کی رضا اور خصمان (یعنی دونوں جھگڑا کرنے والوں) کی رضامندی پر ہو ۔یہی زیادہ عدل اور حق والا صلح ہے۔ جس کا اعتماد علم و عدل پر ہے۔ لہٰذا صلح کرانے والا حقائق سے باخبر اور واجبات کو جاننے والا اور عدل کا ارادہ کرنے والا ہو۔ اس کا درجہ (ہمیشہ کے )روزہ دار اور تہجد گذار سے افضل ہے۔([4])

(۵) عبداللہ بن حبیب بن ابی ثابت نے کہا کہ میں محمد بن کعب القرظی کے پاس بیٹھا تھا تو اس کے پاس ایک شخص آیا۔ لوگوں نے اس کو کہا تو کہاں تھا۔ اس نے کہا میں لوگوں کے درمیاں صلح کروانے گیا تھا۔ محمد بن کعب قرظی نے کہا تو نے صحیح کیا، تجھے مجاھدین کے برابر اجر ملے گا اور انہوں نے یہ آیت پڑھی لَّا خَيْرَ‌ فِي كَثِيرٍ‌ مِّن نَّجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ‌ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُ‌وفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْ‌ضَاتِ اللَّـهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرً‌ا عَظِيمًا ﴿١١٤ النساء ۔([5])

(۶)علماء کرام نے کہا ہے (مسلمانوں میں سے لڑنے والے دو گروہ در ج ذیل صورتوں سے خالی نہیں ہونگے ۔یا تو دونوں بغاوت و سرکشی کے راستے پر قتال کرنے والے ہونگے یا نہیں۔ اگر پہلی صورت ہے( یعنی دونوں باغی ہیں اور ظلم پر ہیں) تو دونوں کے درمیان وہ راستہ اختیار کیا جائے جس سے صلح ہو اور جنگ بندی اور لڑائی کا خاتمہ ہو پھر اگر دونوں لڑائی بند نہیں کرتے اور صلح نہیں کرتے اور سر کشی پر قائم ہیں تو دونوں سے لڑا جائےگا ۔اور اگر دوسری صورت ہو یعنی ایک گروہ دوسرے پر زیادتی اور سر کشی کر رہا ہو تو، تو زیادتی کرنے والے گروہ سے لڑا جائے یہاں تک کہ توبہ کرے اور لڑائی روک دے۔ اور اگر ایسا کرتا ہے تو دونوں کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کروائی جائے ۔اور اگر دونوں کے درمیان کسی شبہ کی وجہ سے لڑائی ہوئی ہے اور ہر گروہ خود کو حق پر سمجھتا ہے تو اس شبہ کو واضح دلائل اور براہین قاطعہ سے حق کے مطابق شبہ کا ازالہ کیا جائے لیکن پھر بھی وہ لڑائی پر سوار ہیں اور اتباع حق کی جس صورت کو واضح کر کے انہیں ہدایت و نصیحت کی گئی ہے اس پر عمل نہیں کرتے تو یہ گروہ بھی پچھلے دونوں گروہوں کے حکم میں ہیں۔([6])

(۷)امام طبری نے اس آیت: لَّا خَيْرَ‌ فِي كَثِيرٍ‌ مِّن نَّجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ‌ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُ‌وفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْ‌ضَاتِ اللَّـهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرً‌ا عَظِيمًا ﴿١١٤(النساء) کے تحت لکھاہے :یہاں اصلاح سے مراد وہ صلح ہے جو دو مقاطعین اور ناراض افراد یا اختلاف کرنے والوں کے درمیان اس طرح سے کرائی جائے۔ جس کو اللہ نے جائز کیا ہے۔ تاکہ وہ اس چیز کی طرف لوٹ آئیں جس میں الفت ہو اور اتحاد قائم ہو۔([7])

(۸)فضیل نے کہا،:جب تیرے پاس کوئی شخص کسی کی شکایت لے کر آئے تو اسے کہو کہ میرے بھائی اس کو معاف کر دے ،کیوں کہ معاف کرنا تقویٰ کے زیادہ قریب ہے ۔پھر اگر وہ کہتا ہے کہ معافی کو میرا دل نہیں برداشت کر رہا اور میں تو جس طرح اللہ نے مجھے حق دیا ہے، بدلہ لوں گا تو اسے کہو کہ اگر تو برابر برابر بدلہ لینا صحیح طورپر جانتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ معافی کے دروازے کی طرف لوٹ آ، معافی کا دروازہ بہت کشادہ ہے ۔ کیوں کہ جو بھی شخص معاف کرتا ہے اور صلح کرتا ہے تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے اور معاف کرنے والا اپنے بستر پر( میٹھی نیند) سوتاہے اور بدلہ لینے والا سوچوں میں پریشان رہتا ہے۔([8])


[1] - إحياء العلوم الدين رقم (3/138)
[2] - صحيح البخاري رقم (5/353)
[3] - منهاج الصالحين للبليق رقم (420)
[4] - أعلام الموقعين رقم (1/109-110)
[5] - المرجع السابق رقم (2/685)
[6] - الجامع لأحكام القرآن الكريم رقم (16/208)
[7] - تفسير الطبري رقم (4/276)
[8] - حلية الأولياء رقم (5/112)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اصلاح وصلح کے فوائد

(۱)مومنین کے درمیان جب تنازع ہو تو صلح کروانا واجب اور ضروری ہے، تاکہ معاشرتی زندگی صحیح سمت میں قائم رہے اور مفید عمل کی طرف رواں دواں ہو۔

(۲)صلح کرنے سے قطع تعلقی کی جگہ محبت لے لیتی ہے اور نا پسندیدگی کی جگہ محبت آجاتی ہے، اسی وجہ سے صلح کرانے کے لئے جھوٹ بولنا جائز ہے۔

(۳)لوگوں کے درمیان صلح کروانا ان کے دلوں کے اندر معافی کی فضیلت و مقام کو پختہ کرتاہے۔

(۴)کار اصلاح (صلح) کا سر چشمہ نفوس عالیہ ہیں، اسی لئے رسول اللہ ﷺبذات خود اصلاح کے لئے نکلتے تھے اور لوگوں کے درمیان صلح کروانے کی کوشش کرتے تھے۔

(۵) اصلاح بین الناس سے نیکیاں اور اجر عظیم حاصل ہوتا ہے ۔

(۶) لوگوں کے درمیان صلح کروانا نفلی روزہ ،نماز اور خیرات سےبہتر ہے۔

(۷)صلح جھگڑا کرنے والوں کو بخشش او ر مغفرت کا فائدہ دیتی ہے جب وہ آپس میں ہاتھ ملاتے ہیں۔

(۸)صلح نہ کرنے سے فساد پھیلتا ہے، دل سخت ہوتے ہیں اور قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔

(۹) لوگوں کے درمیان صلح کروانا ایک عہدو پیمان ہے جو مسلمانوں سے لیا گیا ہے۔

نضرۃ النعیم
 
Top