• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالی ہر چیز كا خالق ہے اس كے علاوہ ہر چیز مخلوق ہے

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
شيخ الإِسلام ابن تیمیہ رحمہ الله نے اپنی کتاب (موافقة صحيح المنقول لصريح المعقول) میں کہا : لفظ (تسلسل ) سے مراد اس کے مؤثرات میں تسلسل ہے ، اور وہ یہ کہ حادث کے لئے فاعل ہو اور فاعل کے لئے فاعل ہو، تو یہ عقلی اعتبار اور عقلاء کے اتفاق سے باطل ہے ، اور یہ وہ تسلسل ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کی پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے، اور اس سے دور رہنے کا بھی حکم دیا ہے ، اگر قائل یہ کہے : ( میں اللہ پر ایمان لایا ) جيسا كہ صحيحين میں ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی اكرم صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا :
شیطان تمہارے پاس آکر کہتا ہےكہ یہ کس نے پیدا کیا؟ یہ کس نے پیدا کیا؟ حتی کہ یہ کہتا ہےکہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا؟ تو جب کسی کے پاس شیطان نے آ کر وسوسہ کيا تو وہ اللہ کی پناہ طلب کرے اورخاموش رہے۔
اور ايک روايت ميں ہے :
ہميشہ لوگ پوچهتے رہیں گے حتی کہ یہ بھی پوچھا جائیگا کہ اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو پھر اللہ کو کس نے پیدا کیا؟
کہا : میں مسجد میں تھا میرے پاس کچھ دیہاتی لوگ آئے، تو انہوں نے پوچھا : اے ابو ہریرہ؛ اللہ نے مخلوق پیدا کی ، تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ؟ كہا : میں نے اپنی ہتھیلی میں کنکریاں لی اور ان پر پھینکیں ، پهر كہا : یہاں سے اٹھ جاؤ، اٹھ جا‎‎ؤ، سچ فرمایا میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے [کہ لوگ یہ بھی سوال کریں گے کہ اللہ کو کس نے پیدا کیا]۔ اور صحیح میں یہ بھی ہے کہ انس بن مالک نے رسول الله سے روایت کیا :
اللہ تعالی نے فرمايا ہے: بے شک تیری امت یہ سوال کرتی رہے گی كہ یہ کیا ہے؟ اور یہ کیا ہے؟ حتی کہ وہ یہ کہنے لگی کہ اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو پھر اللہ کو کس نے پیدا کیا؟
شيخ الإِسلام کے کلام کا مقصود ختم ہوا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
شاید کہ ہم نے جو آیات، احادیث اور اہل علم کا کلام ذکر کیا اس سے سائل اور اس کے ساتھی کا وہ شبہ ختم ہوگیا، جو اس کے دل میں پیدا ہوا تھا، کیونکہ یہ دلائل شبہات کو ختم کردیتے ہیں، اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ہیں، کیونکہ اللہ سبحانہ کے ساتھ کوئی تشبیہ نہیں دی جا سکتی، نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے ، اور نہ ہی اس کا کوئی مد مقابل ہے، وہ اپنی ذات ، اسماء ، صفات اور افعال میں کامل ہے ، اللہ تعالی ہر چیز كا خالق ہے اس كے علاوہ ہر چیز مخلوق ہے ۔
اور اس نے اپنی کتاب مبین میں اپنے رسول امین [عليه من ربه أفضل الصلاة والتسليم] کی زبانی ہمیں خبر دی ہے جس کے مطابق اللہ سبحانہ و تعالی پر یقین کرنا واجب ہے ، اور ہم اس کے بارے میں جو جانتے ہیں اور اس کے اسماء ، صفات اور آیات اس مشاہدہ پر دلالت کرتی ہیں کہ آسمان ، زمین ، پہاڑ ، سمندر اور دریا وغیرہ اللہ عز و جل کی مخلوقات ہیں، اور ان سب میں انسانی نفس بھی ہے جو اللہ تعالی کی آیات میں اس کی قدرت ، عظمت ، کمال علم و حکمت کی ایک نشانی ہے ، جیساکہ اللہ عز وجل نے فرمایا :
" إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لآيَاتٍ لأُولِي الأَلْبَابِ "
آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں یقینا عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
الله تعالى نے فرمايا ہے،:
" وَفِي الأَرْضِ آيَاتٌ لِلْمُوقِنِينَ (20) وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلا تُبْصِرُونَ "
اور یقین والوں کےلیے تو زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں (20) اور خود تمہاری ذات میں بھی، تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
جہاں تک اس کی ذات، اس کی کیفیت اور صفات کی کیفیت کا تعلق ہے تو یہ علم غیب کی باتیں ہے، اور اللہ نے ان چیزوں پر ہمیں مطلع نہیں کیا ہے، لہذا اس سلسلے میں ہم پر واجب یہ ہے، کہ ایمان، خود سپردگی اور اس میں غوروفکر سے اجتناب کریں، جیساکہ صحابہ رضی الله عنهم اور ان کے پیرو کاروں میں سے ہمارے اسلاف کا اس سلسلے میں عمل رہا، چنانچہ انہوں نے اس مسئلے میں غور وخوض نہیں کیا، اور اس بارے میں سوال نہیں پوچھے، بلکہ اللہ سبحانہ و تعالی پر ایمان لے آئے، اور جیسا اس نے اپنی کتاب میں اپنے بارے میں خبر دی ہے، یا اپنے رسول محمد صلى الله علیہ وسلم کی زبانی خبر دی ہے، ان پر ایمان لے آئے، اور اس میں کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا، ، اپنے اس ایمان کے ساتھ کہ اللہ سبحانہ کا کوئی مثل نہیں اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے، بہر حال جو ان وسوسوں میں سے کوئی چیز اپنی اندر محسوس کرے، یا اس کے سامنے اس مسئلے سے متعلق کوئی چیز پیش کی گئی، تو اس کو بڑا سمجھے اور اسے ناپسند کرتے ہوئے اپنے دل کی گہرائی سے اس کو سختی سے جھٹک دے، اور یوں کہے : میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا، اور شیطان کے ورغلانے سے اللہ تعالی کی پناہ مانگے ، اور اس سے دور رہے اور اسے اس طرح جھٹک دے جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گذشتہ احادیث میں حکم دیا ہے، اور خبر دی کہ اسے بڑا سمجھنا اور اسے ناپسند کرنا ہی ایمان صریح ہے ، اور اس پر واجب ہے کہ اس باب میں کسی کے ساتھ بات کو نہ بڑھائے، کیونکہ اس سے بہت زیادہ شر اور نہ ختم ہونے والے شکوک پيدا ہوتے ہیں، اس کو ختم کرنے کا بہترین علاج اور اس سے سلامتی نبی صلى الله علیہ وسلم کے حکم کی پیروی، اس حکم کو مضبوطی سے تھامے رہنے اور اسی پر بھروسہ کرنے میں ہے، اور ان شبہات میں نہ پڑنے میں ہی سلامتی ہے، اور یہ اللہ عز و جل کے اس فرمان کے مطابق ہے :
" وَإِمَّا يَنْـزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَـزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ "
اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ طلب کرو یقینا وہ بہت ہی سننے والا اور جاننے والاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اللہ سبحانہ و تعالی کے ذريعہ پناہ چاہنا، اس کی طرف رجوع اور وسوسہ پیدا کرنے والوں، فلسفیوں کے کلام باطل اور ان کے ہمنواؤں کے پيدا کردہ وساوس و شبہات ميں نہ پڑنا، اور اللہ تعالی کے اسماء، اس کی صفات اور اللہ نے اپنے علم سے جسے پوشیدہ رکھا بغیر کسی حجت اور دلیل کے اس کے باب میں گھسنے سے گریز کرنا ، یہی اہل حق اور ایمان کا طریقہ ہے، اور یہ شیاطین انس و جن کی مکاریوں سے سلامتی، نجات اور عافیت کا طریقہ ہے، اللہ مجھے ، تمہیں اور تمام مسلمانوں کو ان کی مکاریوں سے سلامتی کی توفیق عطا فرمائے، اور جب بعض لوگوں نے ابو ہریرہ رضي الله عنه سے وسوسہ کے بارے میں پوچھا ، تو ان کو کنکریاں مار کر دور کردیا اور ان کے سوال کا جواب نہیں دیا ، اور کہا : میرے خلیل نے سچ فرمایا ۔
اور اس باب میں مؤمن کے لیے اہم چیز يہ ہے کہ وہ قرآن کریم کی بکثرت تلاوت اور اس میں تدبر کرے، کیونکہ اس میں اللہ تعالی کی صفات ، اس کی عظمت اور اس کے وجود کی دلیلوں کا بیان ہے، جو دلوں کو ایمان ، محبت اور تعظیم سے بھر دیتا ہے، اور اس بات کا پختہ یقین کہ اللہ سبحانہ و تعالی ہی ہر چیز کا رب اوراس کا مالک ہے؛ کیونکہ وہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا اور ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے، اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور نہ ہی کوئی رب ہے ۔

علاوہ ازیں مؤمن کو یہ بھی چاہیے کہ وہ اللہ تعالی سے علم نافع میں اضافہ ، بصیرت والی نگاہیں، ، حق پر ثابت قدمی ، ہدایت کے بعد بھٹکنے سے عافیت کا سوال کثرت سے کرتا رہے ، بیشک اللہ سبحانہ نے اپنے بندوں کو اپنے ہی سے مانگنے کی دعوت دی ہے، اور ان کو اس کی ترغیب دی ہے اور قبولیت کا وعدہ فرمایا ہے، جیساکہ اللہ عز وجل نے فرمایا:
" وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ"
اور تمہارے رب کا فرمان (سرزد ہوچکا ہے) کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ ابھی ابھی ذلیل ہو کر جہنم میں پہنچ جائیں گے۔
اور اس معنى ميں آيات بہت زياده ہيں ۔
اور میں اللہ سے دعاء کرتا ہوں کہ ہمیں، تمہیں، تیرے ساتھی اور تمام مسلمانوں کو دین کو سمجھنے، اور اس پرثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہم سب کو گمراہ کن فتنوں اور انسانوں اور جنوں کے شیطانوں کی مکاریوں اور ان کے وسوسوں سے پناہ دے ، بیشک اللہ اس پر مددگار اور قادر ہے، و السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، وصلى الله وسلم على عبده ورسوله نبينا محمد وآله وصحبه ۔

حوالاجات
 
Top