• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الیاس گھمن کے اعتراضات کا جواب

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

یعنی کہ آپ کےخیال میں ، '' بونوں'' کو امامت کراوانے کا زیادہ حق ہے!! کیونکہ ان کے ہی تمام اعضاء چھوٹے ہوتے ہیں!! چلو جناب ! احناف کے چوڑے سینے والے دراز قد افراد تو ہاتھ ملنا شروع کر دیں!!
بھائی جان! عضو کا معنی ذَکر یعنی آلہ تناسل عضو کا تعین ہے، لہٰذا اسے ترجمہ میں استعمال کیا جائے گا، یہ اس عبارت سے مستفید مسئلہ نہیں!!کہ جسے ترجمہ میں بیان نہیں کیا جائے!!
لا حول ولا قوۃ الا باللہ
اسی لیے میں نے عرض کیا تھا کہ اکبرہم راسا و اصغرہم عضوا کے درمیان قومہ نہ لگائیں۔ جب دونوں ایک دوسرے سے متعلق ہوں گے تو اس کی مراد بنے گی کہ وہ قوم میں ایسی ہیئت کا ہو اس کا سر سب سے بڑا اور اس کی مناسبت سے اعضاء سب سے چھوٹے ہوں۔ یہ جو دونوں کو یکجا کرنے سے مناسبت آتی ہے یہ اس بات کو صاف کرتی ہے۔ دونوں کو الگ الگ جملہ کریں گے تو یقینا آپ کو عضوا کی تعیین ہی کرنی پڑ جائے گی۔ اور اگر قومہ لگانا ضروری ہے ہی تو ضرورت بھی بتا دیں۔
ویسے عبارت پیچھے سے پڑھتے ہوئے آتے جائیں۔ وجہ کثرت جماعت ہے۔ اگر وہ بونوں میں پائی جائے تو وہ ٹھیک ورنہ بڑے قد والے کو ہی امام بنا لیجیے گا۔
اور آپ کوئی قانون بیان فرمائیے اس کو ترجمہ میں لانے کا۔ آپ کہہ رہے ہیں اسے ترجمہ میں بیان کیا جائے گا، میں کہہ رہا ہوں نہیں کیا جائے گا۔ میری دلیل یہ ہے کہ یہ عبارت میں موجود نہیں ہے۔ آپ اپنی دلیل میں کوئی قانون لائیے۔
مصیبت یہ ہے کہ ایک تو تشریح، پھر تشریح بھی بعض مشائخ کی، پھر اس سے بھی صاحب کتاب نالاں پھر بھی آپ اسے ترجمہ میں گھسیڑنے پر بضد ہیں۔


یہ اعتراض صاحب متن پر کیا جائے!!
اعتراض کہاں ہے؟ میں نے تو مراد واضح کی ہے۔

بھائی جان! احناف اس پر فتوی دیں نہ دیں، وہ اسے باطل قرار دے دیں!!
یعنی احناف اسے قبول کریں یا نہ کریں ہم ان کے سر ضرور تھوپیں گے کہ ان کا یہی مسلک ہے؟؟؟

نہیں جناب! آپ نے پھر غلط مثال دے دی!! اور کبھی یہ صحیح بخاری کے متعلق یہ مطالبہ ہمارے سامنے پیش کیجئے گا!!
مین نے دار العلوم دیوبند کی بنا سے پہلے کے حوالہ کی شرط اس لئے رکھی ہے کہ، علمائے دیوبند نے اپنے سے قبل فقہ حنفیہ میں وارد کئی مؤقف کو مسخ کر کے بیان کیا ہے!! اور فقہ حنفیہ کا پہلے کا مؤقف علمائے دیوبند کے مؤقف سے فقہ حنفی کی رو سے رد نہیں کیا جاسکتا!! اور ویسے بھی علمائے دیوبند کے حوالے کو تو بر صغیر کے آدھے حنفی قبول ہی نہیں کرتے!! جنہیں بریلوی کہا جاتا ہے!!
بھائی ! یہ بات اتنی واضح کیسے ہو گئی، کہ عضو کے تعین میں جھگڑا ہو رہا ہے!! یہاں تک کہ آپ نے تو تمام اعضاء کو شامل قرار دے کر ''بونوں'' کو امامت کا زیادہ حقدار قرار دے دیا!! فتدبر!!
تو میں نے اسی کتاب سے دو لطیف جوابات دکھائے ہیں۔ باقی بونوں کو میں نے نہیں آپ نے حق دار ٹھہرایا ہے زبردستی۔ میں نے تو اسے پچھلے جملے کے ساتھ نتھی کیا تھا۔
ویسے بعض مشائخ کی بات کو تو ظاہر ہے قبول کوئی نہیں کر رہا۔ تو باقی صرف یہ ابہام رہ جاتا ہے کہ عضو سے پھر بھلا کیا مراد ہے؟ تو مصنف نے اسے مبہم چھوڑ دیا ہے۔ اب پہلے بعض مشائخ نے مراد بیان کرنے کی کوشش کی، وہ کامیاب ہوئے یا نہ ہوئے اب آپ بضد ہیں کہ مصنف کی یہی مراد ہے جو ہم بیان کریں گے۔ یہی متعین ہے۔ ذرا بتائیے کہ ناک، کان وغیرہ کیوں مراد نہیں ہیں؟؟؟ بعض مشائخ کی رائے آپ کو آخر اس قدر پسند کیوں ہے؟؟

علامہ ابن عابدین رح دیوبند سے پہلے کے ہیں۔ وہ رد المحتار (1۔558 ط دار الفکر) میں دونوں کو ایک ساتھ ذکر کرتے ہیں اور پھر ان کی اکٹھی وضاحت فرماتے ہیں اور آگے اس بعض مشائخ کے قول کا واضح رد بھی کرتے ہیں:
(قوله ثم الأكبر رأسا إلخ) لأنه يدل على كبر العقل يعني مع مناسبة الأعضاء له، وإلا فلو فحش الرأس كبرا والأعضاء صغرا كان دلالة على اختلال تركيب مزاجه المستلزم لعدم اعتدال عقله اهـ ح. وفي حاشية أبي السعود؛ وقد نقل عن بعضهم في هذا المقام ما لا يليق أن يذكر فضلا عن أن يكتب اهـ وكأنه يشير إلى ما قيل أن المراد بالعضو الذكر

میں نے تو پہلے یہ نہیں دیکھا تھا۔ لیکن اللہ پاک نے اپنی مہربانی سے اس طرف رہنمائی فرمائی تھی۔ فللہ الحمد علی ذلک۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
لامہ ابن عابدین رح دیوبند سے پہلے کے ہیں۔ وہ رد المحتار (1۔558 ط دار الفکر) میں دونوں کو ایک ساتھ ذکر کرتے ہیں اور پھر ان کی اکٹھی وضاحت فرماتے ہیں اور آگے اس بعض مشائخ کے قول کا واضح رد بھی کرتے ہیں:
(قوله ثم الأكبر رأسا إلخ) لأنه يدل على كبر العقل يعني مع مناسبة الأعضاء له، وإلا فلو فحش الرأس كبرا والأعضاء صغرا كان دلالة على اختلال تركيب مزاجه المستلزم لعدم اعتدال عقله اهـ ح. وفي حاشية أبي السعود؛ وقد نقل عن بعضهم في هذا المقام ما لا يليق أن يذكر فضلا عن أن يكتب اهـ وكأنه يشير إلى ما قيل أن المراد بالعضو الذكر
اس عبارت کا آپ ہی ترجمہ لکھ دیں ، کہ کہیں پھر اس کے ترجمہ پر تنازہ نہ ہو جائے!!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
(قوله ثم الأكبر رأسا إلخ) لأنه يدل على كبر العقل يعني مع مناسبة الأعضاء له، وإلا فلو فحش الرأس كبرا والأعضاء صغرا كان دلالة على اختلال تركيب مزاجه المستلزم لعدم اعتدال عقله اهـ ح. وفي حاشية أبي السعود؛ وقد نقل عن بعضهم في هذا المقام ما لا يليق أن يذكر فضلا عن أن يكتب اهـ وكأنه يشير إلى ما قيل أن المراد بالعضو الذكر
مصنف کا قول ثم الاکبر راسا الی آخرہ اس لیے کہ یہ عقل کی بڑائی پر دلالت کرتا ہے یعنی اس کے ساتھ اعضاء کی مناسبت کے ساتھ۔ ورنہ اگر سر بہت زیادہ بڑا اور اعضاء بہت چھوٹے ہوں تو یہ اس کے مزاج کی ترکیب کے خلل پر دلالت کرتا ہے جو کہ مستلزم ہے عقل کے عدم اعتدال کو۔الخ۔ اور حاشیۃ ابی سعود میں ہے: اس مقام پر بعض سے وہ چیزیں منقول ہیں جن کا ذکر کرنا بھی مناسب نہیں ہے چہ جائیکہ اسے لکھا جائے۔ الخ۔ اور گویا کہ اس قول کی جانب اشارہ کیا ہے کہ عضو سے مراد ذکر ہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس لیے کہ یہ عقل کی بڑائی پر دلالت کرتا ہے یعنی اس کے ساتھ اعضاء کی مناسبت کے ساتھ۔ ورنہ اگر سر بہت زیادہ بڑا اور اعضاء بہت چھوٹے ہوں تو یہ اس کے مزاج کی ترکیب کے خلل پر دلالت کرتا ہے جو کہ مستلزم ہے عقل کے عدم اعتدال کو۔
اگر شارح کی یہ بات مان لی جائے، تو یہ تو ماتن کے خلاف ہے، کیونکہ ماتن اسی ''عدم اعتدال'' کو معیار قرار دیتے ہیں!!
ماتن کے الفاظ درج ذیل ہیں:
ثُمَّ الْأَكْبَرُ رَأْسًا وَالْأَصْغَرُ عُضْوًا،
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اگر شارح کی یہ بات مان لی جائے، تو یہ تو ماتن کے خلاف ہے، کیونکہ ماتن اسی ''عدم اعتدال'' کو معیار قرار دیتے ہیں!!
ماتن کے الفاظ درج ذیل ہیں:
ثُمَّ الْأَكْبَرُ رَأْسًا وَالْأَصْغَرُ عُضْوًا،
اسے تو ضد کہتے ہیں۔
شارح نے تو اس کی وضاحت کی ہے۔ ماتن نے یہ کہاں لکھا ہے کہ "عدم اعتدال" معیار ہے؟؟
اور اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ ماتن کے الفاظ سے یہی ظاہر ہو رہا ہے تو پھر بات یہ ہے کہ علامہ ابن عابدین بھی اس بات کو آپ کی طرح نہیں سمجھتے اور نہ احناف۔ اور یقینا یہ حضرات اپنے مسئلے کو آپ سے زیادہ جانتے ہوں گے۔ لیکن اگر آپ بضد ہیں کہ آپ کا فہم ہی صحیح ہے تو پھر میرے بھائی آپ کا فہم آپ کے لیے ہی حجت ہو سکتا ہے۔ اوروں کے لیے تو نہیں ہو سکتا۔
فقہ اپنے قواعد کے گرد چلتا ہے جیسے یہاں کثرت جماعت یا زیادتی علم وغیرہ۔ اگر آپ ان قواعد سے ناواقف ہوں تو ابن عابدین کا کیا قصور ہے؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اسے تو ضد کہتے ہیں۔
بھائی جان !متن اور شرح کا تضاد بیان کرنا ضد ہوتا ہے کیا؟
شارح نے تو اس کی وضاحت کی ہے۔ ماتن نے یہ کہاں لکھا ہے کہ "عدم اعتدال" معیار ہے؟؟
سر کے بڑے اور اعضاء کے چھوٹے ہونے کو شارح خود ''عدم اعتدال'' قرار دے رہا ہے، اور اسی ثُمَّ الْأَكْبَرُ رَأْسًا وَالْأَصْغَرُ عُضْوًا، کو ماتن معیار قرار دے رہا ہے۔
ایک بنیادی بات یاد رکھیں، کہ جب شرح متن کی نفی کر دے ، یا متضاد ہو جائے تو وہ شرح باطل ٹھہرتی ہے، اور اگر جان بوجھ کر ایسی شرح کی گئی ہو تو اسے دجل کہتے ہیں، الّا یہ کہ شارح کا ماتن اور متن کا رد مقصود ہو۔
اور اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ ماتن کے الفاظ سے یہی ظاہر ہو رہا ہے تو پھر بات یہ ہے کہ علامہ ابن عابدین بھی اس بات کو آپ کی طرح نہیں سمجھتے اور نہ احناف۔ اور یقینا یہ حضرات اپنے مسئلے کو آپ سے زیادہ جانتے ہوں گے۔ لیکن اگر آپ بضد ہیں کہ آپ کا فہم ہی صحیح ہے تو پھر میرے بھائی آپ کا فہم آپ کے لیے ہی حجت ہو سکتا ہے۔ اوروں کے لیے تو نہیں ہو سکتا۔
گر یہی بات ہے، تو ابن عابدین اور ابو سعود سے بھی پہلے کے مشائخ ان سے بہتر مسئلہ جانتے ہوں گے، اسے کیوں رد کیا؟ یہ سبق ابن عابدین کو سمجھائیں!!
ہم نے تو آپ کو ابن عابدین کی شرح کا متن سے تضاد بیان کر دیا ہے!!
فقہ اپنے قواعد کے گرد چلتا ہے جیسے یہاں کثرت جماعت یا زیادتی علم وغیرہ۔ اگر آپ ان قواعد سے ناواقف ہوں تو ابن عابدین کا کیا قصور ہے؟
اشماریہ بھائی! میں فقہ حنفیہ کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں، فقہ حنفیہ کے فروع بھی اور اصول بھی!!
لیکن لَعَنَ اللَّهُ الْمُحَلِّلَ ، وَالْمُحَلَّلَ لَهُ میں لعنت کا سے مراد رحمت قرار دینا، یقیناً دجل ہی قرار دیا جائے گا، اور اسے فقہی قواعد کو شیطانی!!
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

بھائی جان !متن اور شرح کا تضاد بیان کرنا ضد ہوتا ہے کیا؟

سر کے بڑے اور اعضاء کے چھوٹے ہونے کو شارح خود ''عدم اعتدال'' قرار دے رہا ہے، اور اسی ثُمَّ الْأَكْبَرُ رَأْسًا وَالْأَصْغَرُ عُضْوًا، کو ماتن معیار قرار دے رہا ہے۔
ایک بنیادی بات یاد رکھیں، کہ جب شرح متن کی نفی کر دے ، یا متضاد ہو جائے تو وہ شرح باطل ٹھہرتی ہے، اور اگر جان بوجھ کر ایسی شرح کی گئی ہو تو اسے دجل کہتے ہیں، الّا یہ کہ شارح کا ماتن اور متن کا رد مقصود ہو۔

گر یہی بات ہے، تو ابن عابدین اور ابو سعود سے بھی پہلے کے مشائخ ان سے بہتر مسئلہ جانتے ہوں گے، اسے کیوں رد کیا؟ یہ سبق ابن عابدین کو سمجھائیں!!
ہم نے تو آپ کو ابن عابدین کی شرح کا متن سے تضاد بیان کر دیا ہے!!

اشماریہ بھائی! میں فقہ حنفیہ کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں، فقہ حنفیہ کے فروع بھی اور اصول بھی!!
لیکن لَعَنَ اللَّهُ الْمُحَلِّلَ ، وَالْمُحَلَّلَ لَهُ میں لعنت کا سے مراد رحمت قرار دینا، یقیناً دجل ہی قرار دیا جائے گا، اور اسے فقہی قواعد کو شیطانی!!
ماتن نے کہا کہ سر بڑا اور اعضاء چھوٹے ہوں۔ شارح نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ سر کی مناسبت سے اعضاء چھوٹے ہوں۔ اس میں تضاد کہاں ہے؟
آپ مجھے ماتن کے یہ الفاظ دکھائیے کہ سر بڑا اور اعضاء عدم اعتدال کے ساتھ چھوٹے ہوں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ماتن نے کہا کہ سر بڑا اور اعضاء چھوٹے ہوں۔ شارح نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ سر کی مناسبت سے اعضاء چھوٹے ہوں۔ اس میں تضاد کہاں ہے؟
آپ مجھے ماتن کے یہ الفاظ دکھائیے کہ سر بڑا اور اعضاء عدم اعتدال کے ساتھ چھوٹے ہوں۔
یاد رہے کہ یہ بحث اس تناظر میں ہے جب عضو سے مراد سر کے علاوہ دیگر اعضاء لئے جائیں!! جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا:
اگر شارح کی یہ بات مان لی جائے، تو یہ تو ماتن کے خلاف ہے، کیونکہ ماتن اسی ''عدم اعتدال'' کو معیار قرار دیتے ہیں!!
ماتن کے الفاظ درج ذیل ہیں:
ثُمَّ الْأَكْبَرُ رَأْسًا وَالْأَصْغَرُ عُضْوًا،
ماتن نے کہا کہ سر بڑا ہو اور سر کے علاوہ دیگر اعضاء چھوٹے ہوں!
اب بتلائے کہ بڑا کسے کہیں گے؟ اور چھوٹا کسے کہیں گے؟ اسی کوجو عموم سے بڑھ کر ہو ، اور جو عموم سے کم ہو۔ اور اور قدوقامت میں اعتدال تو وہی ہوتا ہے جو عموم ہے!! یا آپ عمومی جسامت معتدل نہیں سمجھتے؟ اور صر ف ان بڑے سر اور چھوٹے دھڑ والوں کی جسمات کو معتدل سمجھتے ہو؟
ایک نکتہ اور سمجھئے، یہاں امامت کے لئے انتخاب کیا جا رہا ہے، اگر اعتدال کی بات ہوتی تو اعتدال تو وہی ہے جو عموم ہے، جسامت کی جو مناسبت عموم کی ہے وہی اعتدلال ہے، لیکن ماتن نے ایک ''عجوبہ'' کو منتخب کرنے کو فرمایا ہے!!
باقی آپ کا یہ کہنا کہ یہ عدم اعتدلال کے الفاظ دکھلاؤں، تو میرے بھائی، یہ الفاظ تو عبارت کے نہیں، اور نہ ہم نے یہ کہا ہے، کہ انہیں الفاظ کے ساتھ ماتن کا متن ہے، ہم نے کہا ہے کہ ماتن کے الفاظ بڑے سر اور چھوٹے دھڑ والے کو امامت کا حقدار ٹھہراتے ہیں، اور جس کا سر بڑا اور جسم چھوٹا ہو اس کی جسامت معتدل نہیں ہوتی، بلکہ اس کی جسامت میں عدم اعتدال پایا جاتا ہے۔
اور شارح فرماتے ہیں کہ:
ورنہ اگر سر بہت زیادہ بڑا اور اعضاء بہت چھوٹے ہوں تو یہ اس کے مزاج کی ترکیب کے خلل پر دلالت کرتا ہے جو کہ مستلزم ہے عقل کے عدم اعتدال کو
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

یاد رہے کہ یہ بحث اس تناظر میں ہے جب عضو سے مراد سر کے علاوہ دیگر اعضاء لئے جائیں!! جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا:

ماتن نے کہا کہ سر بڑا ہو اور سر کے علاوہ دیگر اعضاء چھوٹے ہوں!
اب بتلائے کہ بڑا کسے کہیں گے؟ اور چھوٹا کسے کہیں گے؟ اسی کوجو عموم سے بڑھ کر ہو ، اور جو عموم سے کم ہو۔ اور اور قدوقامت میں اعتدال تو وہی ہوتا ہے جو عموم ہے!! یا آپ عمومی جسامت معتدل نہیں سمجھتے؟ اور صر ف ان بڑے سر اور چھوٹے دھڑ والوں کی جسمات کو معتدل سمجھتے ہو؟
ایک نکتہ اور سمجھئے، یہاں امامت کے لئے انتخاب کیا جا رہا ہے، اگر اعتدال کی بات ہوتی تو اعتدال تو وہی ہے جو عموم ہے، جسامت کی جو مناسبت عموم کی ہے وہی اعتدلال ہے، لیکن ماتن نے ایک ''عجوبہ'' کو منتخب کرنے کو فرمایا ہے!!
باقی آپ کا یہ کہنا کہ یہ عدم اعتدلال کے الفاظ دکھلاؤں، تو میرے بھائی، یہ الفاظ تو عبارت کے نہیں، اور نہ ہم نے یہ کہا ہے، کہ انہیں الفاظ کے ساتھ ماتن کا متن ہے، ہم نے کہا ہے کہ ماتن کے الفاظ بڑے سر اور چھوٹے دھڑ والے کو امامت کا حقدار ٹھہراتے ہیں، اور جس کا سر بڑا اور جسم چھوٹا ہو اس کی جسامت معتدل نہیں ہوتی، بلکہ اس کی جسامت میں عدم اعتدال پایا جاتا ہے۔
اور شارح فرماتے ہیں کہ:
میرا سر بڑا اور اعضاء چھوٹے ہیں۔ کیا اس جملہ کا یہ مطلب ہوگا کہ میرا سر تو عموم سے بڑا ہے لیکن اعضاء بھی عموم سے چھوٹے ہیں اور میں بونا ہوں؟ ایسا تو کوئی بھی نہیں سمجھتا۔ آپ سمجھتے ہوں تو الگ بات ہے۔
دوم: جو آپ نے نکتہ سمجھایا ہے وہ درست نہیں ہے۔ کیوں کہ یہاں چھوٹا سر کی مناسبت سے اعضاء کو کہا جا رہا ہے نہ کہ مطلقا۔
سوم: جب عبارت کے یہ الفاظ نہیں ہیں تو پھر ظاہر ہے جو احناف نے اس کا مطلب سمجھا ہے وہی احناف کے ہاں مراد ہوگا۔ اگر آپ اس کا کچھ اور مطلب سمجھتے ہیں تو وہ آپ کے سر ہے احناف کے تو نہیں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میرا سر بڑا اور اعضاء چھوٹے ہیں۔ کیا اس جملہ کا یہ مطلب ہوگا کہ میرا سر تو عموم سے بڑا ہے لیکن اعضاء بھی عموم سے چھوٹے ہیں اور میں بونا ہوں؟ ایسا تو کوئی بھی نہیں سمجھتا۔ آپ سمجھتے ہوں تو الگ بات ہے۔
تو پھر آپ کی جسامت معتدل نہیں، کیونکہ عمومی جسامت کے مقابلے میں آپ کا سر آپ کے دھڑ سے بڑا ہے!!
دوم: جو آپ نے نکتہ سمجھایا ہے وہ درست نہیں ہے۔ کیوں کہ یہاں چھوٹا سر کی مناسبت سے اعضاء کو کہا جا رہا ہے نہ کہ مطلقا۔
ہمارا بیان کیا گیا نکتہ بلکل درست ہے، کیونکہ سرکا اعضا ء کے مقابلے میں بڑا ہو نا اسی وقت کہا جائے گا، جب وہ عمومی جسامت سے ہٹ کر ہوگا، کیونکہ اگر اس کی جسامت عمومی یعنی ہے تو پھر اسے بڑے سر والا کہنا ہی غلط ہے
سوم: جب عبارت کے یہ الفاظ نہیں ہیں تو پھر ظاہر ہے جو احناف نے اس کا مطلب سمجھا ہے وہی احناف کے ہاں مراد ہوگا۔ اگر آپ اس کا کچھ اور مطلب سمجھتے ہیں تو وہ آپ کے سر ہے احناف کے تو نہیں۔
اب اسی طرح کا مطالبہ بعض لوگ کرتے ہیں کہ قرآن میں شراب حرام نہیں، اگر ہے تو حرام کے الفاظ دکھلاؤ!!!
بھائی جان ! آپ بھی ان کو یہ ہی کہتے ہوں گے کہ قرآن میں شراب کے لئے لفظ حرام استعمال نہیں ہوا لیکن جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ شراب کے حرام ہونے پر دلالت کرتے ہیں!!
ویسے ایک صاحب علم شخص کو اس طرح کی باتیں جچتی نہیں!!
تو جن مشائخ نے اس عضوء سے مراد کو ذَکر بیان کیا ہے، کیا جس کا ذِکر طحطاوی، ابن عابدین اور ابو السعود نے کیا ہے وہ حنفی نہیں تھے؟
آپ کو ایک بات اور بیان کی تھی! آپ شاید پچھلی باتیں بھول بہت جلد بھول جاتے ہو: یاد دہانی کے لئے عرض ہے:
اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ ماتن کے الفاظ سے یہی ظاہر ہو رہا ہے تو پھر بات یہ ہے کہ علامہ ابن عابدین بھی اس بات کو آپ کی طرح نہیں سمجھتے اور نہ احناف۔ اور یقینا یہ حضرات اپنے مسئلے کو آپ سے زیادہ جانتے ہوں گے۔ لیکن اگر آپ بضد ہیں کہ آپ کا فہم ہی صحیح ہے تو پھر میرے بھائی آپ کا فہم آپ کے لیے ہی حجت ہو سکتا ہے۔ اوروں کے لیے تو نہیں ہو سکتا۔
گر یہی بات ہے، تو ابن عابدین اور ابو سعود سے بھی پہلے کے مشائخ ان سے بہتر مسئلہ جانتے ہوں گے، اسے کیوں رد کیا؟ یہ سبق ابن عابدین کو سمجھائیں!!
ہم نے تو آپ کو ابن عابدین کی شرح کا متن سے تضاد بیان کر دیا ہے!!
 
Last edited:
Top