• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابوحنیفہ کی تابعیت اورمولانا رئیس ندوی کا انکار

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
میری بحث ختم ہونے سے پہلے آپ نے اپنی بات سامنے رکھ دی۔
محترم جمشید بھائی،
ایک مرتبہ قبل بھی گزارش کی تھی کہ اگر آپ کی بات ختم نہ ہوئی ہو تو پوسٹ کے آخر میں ’جاری ہے‘ یا ایسا کوئی جملہ لکھ دیا کریں جس سے تاثر مل سکے کہ ابھی بات ختم نہیں ہوئی۔ تاکہ بدمزگی نہ ہو۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,477
پوائنٹ
964
خضر بھائی اللمحات کتاب کی چار جلدوں کا لنک رضا بھائی کی درج ذیل پوسٹ میں موجود ہے۔

اللمحات
جزاکم اللہ .
لیکن بہائی کتاب وہاں سے تحمیل نہیں ہو رہی ہے . بلکہ یہ error آجاتا ہے :
invalid or deleted file
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,477
پوائنٹ
964
حافظ ابن حجر ایک فتوی میں جو ان سے اما م ابوحنیفہ کی تابعیت کے متعلق پوچھاگیااس میں کہتے ہیں۔
"امام ابوحنیفہ نے صحابہ کی ایک جماعت کو پایاہے۔ اس لئے کہ آپ کی کوفہ میں80میں ولادت ہوئی ہے۔اوراس وقت وہاں صحابہ میں سے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی موجود تھے۔اس لئے کہ بالاتفاق ان کی وفات 80کے بعد ہوئی ہے۔ اوران دنوں بصرہ میں انس بن مالک موجود تھے ۔اس لئے کہ ان کی وفات 90میں یااس کے بعد ہوئی ہے۔ اورابن سعد نے ایسی سند سے جس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔بیان کیاہے کہ امام ابوحنیفہ نے حضرت انس کو دیکھاہے۔ نیز ان دونوں حضرات کے علاوہ اوربھی بہت سے صحابہ مختلف شہروں میں بقید حیات موجود تھے۔ بعض علماء نے امام ابوحنیفہ کی صحابہ سے روایت کردہ احادیث کے بارے میں مختلف جزء جمع کئے ہیں۔ لیکن ان کی اسناد ضعف سے خالی نہیں ہیں۔ امام صاحبؓ کے ادراک صحابہ کے باب میں قابل اعتماد وہ امر ہے جوگزرچکااوربعض صحابہ کی رویت کے بارے میں قابل اعتماد وہ روایت جس کو ابن سعد نے طبقات میں ذکر کیاہے لہذا اس اعتبار سے امام ابوحنیفہ تابعین کے طبقہ میں سے ہیں اوریہ مرتبہ دوسرےشہروں میں بسنے والے آپ کے ہم عصر ائمہ میں سے کسی ایک کوبھی حاصل نہ ہوسکا۔ جیسے امام اوزاعی کوجوشام میں تھے اورحمادین(امام حماد بن سلمہ اورامام حماد بن زید)کو جوبصرہ میں تھے اورامام ثوری کوجوکوفہ میں تھے اورامام مالک کو جومدینہ میں تھے اورامام مسلم بن خالد زنجی کو جومکہ میں تھے اورامام لیث بن سعد کو جومصر میں تھے۔حافظ ابن حجر کی بات یہاں ختم ہوتی ہے۔(تبییض الصحیفۃ للسیوطی ص15)
ابن حجر كی وفات 852ھ ، جبکہ سیوطی کی پیدائش 849ھ میں ہے (رحمہما اللہ ) 3 سال کی عمر میں سیوطی ابن حجر کے پاس پہنچ گئے تھے ، یا ابن حجر ان کے گھر اتنا ضروری فتوی دینے آگئے تھے ...؟؟؟ اصول حدیث کی رو سے تو 3 سال کے بچے میں ’’ تحمل ‘‘ کی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی ، البتہ یہ کہیں کہ یہ ’’ إمام صاحب ‘‘ کی کرامت تھی ، تو الگ بات ہے ...
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
ہم نے تو بسند صحیح امام صاحب کی زبانی تابعیت کا انکار نقل کر دیا ہے ۔ اور جمشید طحاوی اور تمام تر حنفی ذریت کو قیامت تک کے لیے مہلت دیتے ہیں کہ بسند صحیح انکی تابعیت ثابت کردیں ۔
یا اس سوال کا جواب دے دیں کہ
أحدکما کاذب فہل منکما تائب ؟؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,477
پوائنٹ
964
میں نے شیخ زاہد الکوثری علیہ الرحمہ پر جتناکچھ پڑھاہے اس سے یہی مستفاد ہوتاہے کہ ان کی باتوں پر اورکتابوں کی تحقیق میں ان کے تعلقیات اورحواشی پر لوگوں کواعتراض رہاہے مجھے ایک بھی ایسی مثال نہیں ملتی جس میں کسی نے دلائل کے ساتھ ثابت کیاہو ان کی تحقیق کردہ کتابوں میں نص کتاب میں تحریف اورتبدیلی کی گئی ہے۔یہ محض موصوف کی اپنی بدگمانی ہے ۔پھراگرکتاب کو موصوف تعصب کی عینک ہٹاکر پڑھتے توپتہ چلتاکہ اگرشیخ الاسلام زاہد الکوثری کو تحریف کرنی ہی ہوتی تووہاں کرتے جہاں ان پر ثقاہت اورعدم ثقاہت کی بحث ہے۔اورپھر دوسرے مقامات ہیں جہاں امام ابویوسف اورامام محمد پر کلام ہے ۔ لیکن انہوں نے اپنی بات کو ہمیشہ حاشیہ اورتعلیق کے طورپر ذکر کیاہے۔
اس سلسلے میں آپ نے بڑا کچھ پڑہا ہے ، ذرا ان کتب کا مطالعہ بھی کر لیں :
1ـ الردود للشیخ بکر أبو زید .
2۔ طلیعۃ التنکیل للمعلمی .
موصوف نے اپنی اسبات کی تائید میں یہ بھی جڑ دیاکہ حیدرآباد سے کتاب المجروحین لابن حبان شائع ہوئی تواس میں سے امام ابوحنیفہ کاترجمہ نکال دیاگیا۔
تحریف بنتی ہے یا نہیں ؟ اس بات کو ایک طرف کریں .. لیکن آپ اس کی ذرا وضاحت فرمادیں کہ ’’ مجنون أبی حنیفہ ‘‘ کا عظیم لقب حاصل کرنے والے کوثری صاحب نے إمام صاحب رحمہ اللہ کا ’’ تعارف ‘‘ کیوں نکالا ؟
آخر ہمارے بھائیوں کا مطمح نظر کیا ہے ؟
ایک طرف تو إمام صاحب اور ان کی فقہ کے تعارف میں دن رات ایک کیے ہوئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ، اور ساتھ ساتھ محدثین سے شکوہ بھی کرتےہیں کہ انہوں نے ’’ احناف ‘‘ کو نظر انداز کیا ہے ... اور دوسری طرف کتابوں سے ان کے تراجم کو صاف کررہے ہیں ....
کیا اس سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ آپ حقیقی تعارف کی بجائے ’’ من مانا ‘‘ تعارف کروانا چاہتے ہیں ؟؟؟

یہ اگر اس کی دلیل بنتی ہے کہ کسی پر کتاب کی تحقیق میں تحریف نص کا الزام عائد کیاجائے تو پھر موصوف اس بارے میں کیافرماتےکہ سعودی عرب سے جب کتاب السنۃ لابن احمد بن حنبل شائع ہوئی توامام ابوحنیفہ کا ترجمہ نکال دیاگیااوروہاں کے کبار مشائخ نے کہاکہ شرعی مصلحت اورسیاست کا تقاضایہی تھی۔
سعودی حکومت کا ترجمہ نکالنا تو ہمیں سمجھ آتا ہے کہ حنفی نہیں بلکہ محمدی ہیں ، لیکن کوثری صاحب تو ماشاء اللہ حنفی ہیں انہوں نےایسا کام کیوں کیا ہے؟؟؟
اپنوں کرم غیروں پرستم کا اس سے بہتر نمونہ ہمیں اورکہاں اورکیامل سکتاہے؟
لیکن کم ازکم’’ اپنے‘‘ تو ستم نہ کریں ، جو کچھ کتب میں لکھا ہوا ہے صاف صاف بیان کردیا کریں
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
ہمین خوش فہمی تھی کہ لوگ خود ہی سمجھ جائیں گے کہ مضمون ابھی جاری ہے لیکن اب لگتاہے کہ بالصراحت لکھناہی پڑے گا۔
تمام برادران سے درخواست ہے کہ وہ مضمون کے ختم ہونے کاانتظار کریں اوراس کے بعد اپنی بات رکھیں۔مضمون ختم ہوتے ہوتے ان کے تمام اعتراضات کا جواب مل جائے گا۔یہی درخواست رفیق طاہر صاحب سے بھی ہے کہ زیادہ بے چین نہ ہوں ۔
عکاشہ صاحب کی ایک بات جس کا نفس مضمون سے تعلق نہیں جواب دینے میں حرج نہیں
سعودی ریال کمانے اورحاصل کرنے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں جس کوجتنی توفیق ملے حاصل کرے(بس خدامجھے محفوظ رکھے)
لیکن گزارش صرف اتنی بات ہے کہ اس سلسلے مین ڈبل اسٹینڈرڈ نہ بنائے کہ ایک ہی حرکت اگر سعودی کریں تواس پر خاموشی اورغیرسعودی کریں تواس پر تحریف وتغییر نصوص کا الزام عائد کردیں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
پھرموصوف کی یہ بات بھی نہایت قابل تعجب ہے کہ وہ انشاء اللہ سے مشروط کرنے کوشک اورتذبذب کی علامت سمجھتے ہیں۔ کیاانہوں نے حافظ ذہبی کوبھی دورحاضر کے لوگوں کی طرح سمجھ رکھاہے جوکسی کام اوروعدے کوٹالنے کیلئے انشاء اللہ کہتے ہیں اور اگرکرنا ہو انشاء اللہ کے بغیر ذکر کرتے ہیں۔

انہوں نے حافظ ابن حجر کے فتوی پر بھی کلام کیاہے۔ اوراس سلسلے میں اپنے8اعتراضات پیش کئے ہیں۔
اس سلسلے میں کچھ اعتراضات ایسے ہیں جوانتہائی لغو ہیں۔
مثلاحافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ امام صاحب 80میں پیداہوئے ،پھر اس کو کیوں نہیں مانتے ۔
حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ امام صاحب کے معاصر اماموں کو رویت کاشرف حاصل نہیں تھاجب کہ بعض امام کو یقینی طورپر رویت کا شرف حاصل تھا۔
حافظ ابن حجر نے اپنے محولہ بالافتوی میں اس کی صراحت کردی ہے کہ وہ یہ بات کن ائمہ کرام کے حوالہ سے کہہ رہےہیں اس کے باوجود غلط مطلب مراد لینا صرف موصوف کاہی کام ہوسکتاہے۔
اس بناء پر ہم ضروری نہیں سمجھتے کہ موصوف کے تمام اعتراضات نقل کریں بلکہ جو اعتراض قابل قدرنظرآئیں گے ہم ان پر صرف کلام کریں گے۔اگرکسی کو لگے کہ کوئی اعتراض ان کی نگاہ میں قوی ہے توپھر وہ یہ مضمون ختم ہونے کے بعد اپنی بات رکھ سکتے ہیں۔ امید ہے کہ اب رفقائے محدث فورم درمیان مداخلت نہیں کریں گے۔
موصوف کاایک اعتراض وہی ہے جو ہمارے خضرحیات صاحب نے پیش کیاہے۔کہ وہ تین سال کے بچے تھے
اس سلسلے میں ان کی عبارت دیکھنے کے لائق ہے۔

حافظ عراقی اورابن حجر عسقلانی کی طرف منسوب فتویٰ کا ذکر سوطی سے پہلے کسی نے نہیں کیا۔سوطی کے معاصرین اورسیوطی کے بعد بھی کسی ایسے شخص نے اس فتوی کاذکراس دعوے کے ساتھ نہیں کیاہے کہ حافظ ابن حجر اورعراقی کی طرف اس کا انتساب صحیح ہے(لمحات 2/246)
پھر اس کے بعد حسب معمول اپنی بدگمانی کا اظہار کیاہے۔

پھر آگے چل لکھتے ہیں۔

وفات حافظ ابن حجرکے وقت سیوطی صرف تین سال کے بچے تھے کیونکہ وفات حافظ ابن حجر849میں ہوئی اوروفات عراقی اس سے پہلے 825یا826میں ہوئی۔ جب سیوطی نے دونون حضرات کا زمانہ نہیں پایاتوانہیں وہ سند اورواسطہ بیان کرناچاہئے تھا جس کے ذریعہ انہیں ان کا فتویٰ دستیاب ہوا۔ ( المصدرالسابق)
اجمالی تبصرہ توہمارایہی ہے کہ کچھ مدت اورایام گزرنے کے بعد کہیں اسی طرح کی باتیں موصوف کے متعلق بھی نہ کہی جانے لگیں۔
پھرمولانا کے ارشادات میں کئی باتیں محل نظرہیں۔
1: حافظ ابن تیمیہ نے کیاتمام باتیں انہی کی بیان کی ہیں جس کی سند اورسماعت ان کوحاصل تھی۔

2: کیاکسی کے فتاوی جات ذکر کرنے کیلئے سماعت ضروری ہے۔موصوف نے بہت سی باتیں ایسی مصنفین کی بیان کی ہیں جن سے ان کو سماعت حاصل نہیں ہے۔ پھر موصوف کی ایسی تمام باتیں ناقابل اعتبار کیوں نہ ٹھہرائی جائیں۔

کیاعراقی اورابن حجر کی تمام کتابیں اورتمام فتاوی جات شائع ہوچکی ہیں؟اگرنہیں توپھرموصوف کس دلیل سے سیوطی کو غلط ٹھہرارہے ہیں۔
ان تمام باتوں پر غورکئے بغیر موصوف کا یہ فرمادینا

اس لئے جب تک یہ نہ معلوم ہوجائے کہ فتوی مذکورہ کی اشاعت کسی انسان نما شیطان کاکام نہیں ہے تب تک یہی سمجھاجائے گاکہ حافظ ابن حجر عسقلانی کی طرف فتویٰ مذکورہ کا انتساب غیرصحیح ہے۔(المصدرالسابق)
کتنی غلط اورعلم وتحقیق سے گری ہوئی ہے ہرایک سمجھ سکتاہے۔

پھر سب سے قابل لحاظ بات یہ اگر موصوف تدریب الراوی کی جانب رجوع کرتے تواس کے آخر میں حافظ سیوطی نے تصریح کی ہے کہ ان کے والد ان کو حافظ ابن حجر کے پاس لے گئے اورانہوں نے ان سے فلاح حدیث سنی ہے۔دوسرے انکو حافظ ابن حجر سے اجازت عامہ بھی حاصل ہے۔

اس کی تصریح انہوں نے کئی کتابوں میں کی ہے۔مثلاتدریب الراوی کاآخری حصہ اور ذیل تذکرۃ الحفاظ وغیرہ میں ۔آخر الذکر کتاب میں وہ لکھتے ہیں۔
فإن والدي كان يتردد إليه وينوب في الحكم عنه، وإن يكن فاتني حضور مجالسه والفوز بسماع كلامه والأخذ عنه فقد انتفعت في الفن بتصانيفه واستفدت منه الكثير وقد غلق بعده الباب وختم به هذا الشأن).
تذكرة الحفاظ ص 553 في ترجمة الحافظ ابن حجر)


اس کی تصریح مشہور مصنف شیخ کتانی نے اپنے ایک رسالہ كشف اللبس عن حديث وضع اليدين على الرأسمیں کی ہے۔اس میں وہ حافظ سیوطی کے حافظ ابن حجر سے تلمذکے بارے میں المنح البادیہ فی الاسانید الصحیحہ سے نقل کرتے ہیں۔کہ ان کے والد ان کو لے کر حافظ ابن حجر کی مجالس میں جایاکرتے تھے۔(ص17)

پھر موصوف نے حافظ سخاوی کی حافظ سیوطی پر جرح نقل کی ہے۔

لیکن وہ یہ بھول گئے کہ علماء نے سخاوی پر سیوطی کی جرح کو اورسیوطی پر سخاوی کی جرح کو اقران اورمعاصرت کا نتیجہ بتایاہے ۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
موصوف نے حافظ ابن حجر کے فتویٰ میں مذکور لاباس بہ پر لمبی چوڑی تفصیل نقل کی ہے اورمن مانامطلب یہ نکال لیاہے کہ لاباس بہ کا مطلب ناقابل اعتبار ہوتاہے۔

لاباس بہ سند ساقط الاعتبار سندوں کی اقسام میں سے ہے(لمحات ص2/244)
اس سلسلے میں ہم نے مختلف اصول حدیث کی کتابوں کی ورق گردانی کی توہمیں اس کے برخلاف تصریحات ملیں۔
حافظ ذہبی میزان الاعتدال کے مقدمہ میں لکھتے ہیں۔
ولم اتعرض لذکر من قیل فیہ محلہ الصدق ،ولامن قیل فیہ، لاباس بہ، ولامن قیل ھوصالح الحدیث اویکتب حدیثہ او شیخ فان ھذا وشبہ دیل علی عدم الضعف المطلق(مقدمہ میزان الاعتدال)

پھراس کے بعد الفاظ تعدیل مین سے نمبر3پر لکھتے ہیں

ثم صدوق ولاباس بہ ولیس بہ باس(میزان الاعتدال)

اس کے بعد حافظ عراقی شرح الالفیہ میں الفاظ تعدیل کے مراتب پر لکھتے ہیں۔

المرتبۃ الثالثۃ :قولھم لیس بہ باس،اولاباس بہ،اوصدوق اومامون وجعل ابن ابی حاتم وابن الصلاح ھذہ ثانیۃ وادخلا فیھا قولھم :محلہ الصدق (2/3)

حافظ سخاوی شرح الفیہ میں جرح وتعدیل کے دونوں مراتب کو چھ حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد الفاظ جرح میں پانچویں نمبر پر لکھتے ہیں۔

لیس بہ باس ،اولاباس بہ ۔
پھر چھٹے نمبر پر لکھتے ہیں۔
ثم مااشعر بالقرب من التجریح وھوادنی المراتب (1/165)
ان تمام میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ لیس بہ باس سے توثیق مراد ہے اورموصوف نے جوساقط الاعتبار کہاہے وہ دور دور تک مراد نہیں ہے۔

پھر یہ چیز بھی قابل غور ہے کہ راوی کے بارے میں لیس بہ باس کہنااورسند کے بارے میں لیس بہ باس کہنا دوالگ الگ باتیں ہیں۔ لیکن مصنف مذکور اپنی غلط فہمی سے دونوں کو ایک سمجھے ہوئے ہیں۔ اگرکسی سند کے بارے میں کہاجائے کہ لیس بہ باس تومطلب یہی ہوتاہے کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کوئی حرج نہیں ہے۔ اس سے استدلال کیاجاسکتاہے اورحجت پکڑی جاسکتی ہے ۔لیکن موصوف اولاتولیس بہ باس کاغلط مطلب سمجھے ہوئے ہیں اورپھردوسرے راوی اورسند میں فرق نہیں کرتے ہیں۔
 
Top