• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابوحنیفہ کی تابعیت اورمولانا رئیس ندوی کا انکار

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
موصوف نے ایک عنوان قائم کیاہے ۔
"امام ابوحنیفہ کی تابعیت کا انکار کرنے والے"
اوراس میں زبرستی ان کوبھی شامل کردیاہے جوامام صاحب کو تابعی مانتے ہیں ۔

اول نمبر پر امام صاحب کاہی نام رکھاہے اورلکھتے ہیں

متعدد روایات کاحاصل یہ ہے کہ خود امام صاحب نے یہ صراحت کردی ہے کہ میں نے کسی صحابی کونہیں دیکھااس لئے تابعی نہیں ہوں۔(لمحات ص201)
پھراس کیلئے انہوں نے لمحات 1/103کا حوالہ دیاہے لیکن اس مقام پر ہمیں ایسی کوئی عبارت نہیں ملی۔

پھر موصوف امام صاحب کے بارے (2/209) پر لکھتے ہیں۔
امام صاحب کا وہ قول تمام لوگوں میں مشہور ہے جس کاحاصل یہ ہے کہ امام صاحب نے فرمایاکہ میں نے کسی تابعی کو نہیں دیکھا۔
لمحات(212)میں لکھتے ہیں۔
امام صاحب سے مروی باتوں کا حاصل یہ ہے کہ میں نے کسی تابعی کو نہیں دیکھا۔
ان تین مقامات پر موصوف نے امام صاحب کی وہ باتیں پیش نہیں کی ہیں۔ امید واثق ہے کہ یہ وہی مارایت افضل من عطاء بن ابی رباح والی عبارت ہوگی۔
ضروری ہے کہ ہم اس پر تفصیلی کلام کریں اور
بعض الناس
کے جہل کو واضح کریں خصوصا وہ لوگ جواتنے مدہوش ہیں کہ احدکمامنکم کاذب فھل منکماتائب جیسی تک بندی کرتے پھرتے ہیں۔
ایک شے ہے دلیل اورایک شے ہے دلیل سے استخراج واستنباط ۔
رفیق طاہر کوشاید یہ فرق نہیں معلوم اس لئے پورے طمطراق کے ساتھ کہتے ہیں۔
میرا سوال یہ ہے کہ یاتو موصوف کا قول درست ہے یا آپکا ۔آپ دنوں میں سے ایک بالضرور جھوٹا ہے ۔ اسکا تعین کرنا ہے
کہ وہ کون ہے۔
یہ دلیل نہیں ہے بلکہ دلیل سے استنباط شدہ نتیجہ ہے۔جیساکہ ایک چیز ہوتی ہے نص اوردوسری چیز نص سے استنباط ۔
پھرپتہ نہیں موصوف اورموصوف کے ہم قبیل لوگوں نے کس ذہانت وفطانت سے یہ سمجھ لیاہے کہ یہ بات امام ابوحنیفہ کی نص قاطع ہے ان کے مدعا کے حق میں ۔

ہمیں نہیں معلوم کہ سابق میں کسی نے اس قول سے یہ سمجھاہو کہ امام ابوحنیفہ کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ وہ تابعی نہیں ہیں۔ حافظ دارقطنی ہوں یادیگر منکرین تابعیت ۔کسی نے بھی امام ابوحنیفہ کے اس قول سے یہ نہیں سمجھاکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے کسی صحابی کو نہیں دیکھا۔ہرایک کے انکار کی بنیاد یہ رہی ہے کہ ان کی کسی صحابی سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ کے اس قول سے یہ مطلب نکالنا صرف دور جدید کے کچھ "مخصوص ذہنوں"کاکام ہے۔


حافظ ذہبی اورابن حجر نے اوردیگر جنہوں نے امام صاحب کی تابعیت کااعتراف کیاہے۔ وہ بھی مذکورہ قول سے پوری واقفیت کے بعد یہ نہیں سمجھتے کہ اس میں کہیں بھی امام صاحب نے اپنی تابعیت کاانکار کیاہے۔ یہ مخصوص مفہوم اس قول کا نکالنا صرف رفیق طاہر صاحب جیسوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ ویسے ہمیں تعجب نہیں کہ اگرامام ابوحنیفہ کی تابعیت کے انکارمیں وہ اس سے زیادہ مضحکہ خیز بلکہ اضحوکہ دلیل پیش کریں اوراس پر مدہوش ہوجائیں اورزبان وبیان کاخیال نہ رکھتے ہوئے کہنے لگیں۔
آپ یا آپ کے امام
بات یہ ہے کہ کچھ لوگ بعض حالات میں شاید ضد اورانکارمیں ثنائی طرز فکر کے مالک ہوجاتے ہیں یاتو یہ ہوگا یاوہ ہوگا جب کہ وہاں پرتیسراطرزفکر موجود ہوتاہے۔ابن حزم کو دیکھئے ۔وہ فرماتے ہیں کہ جب اختلاف رحمت ہے تواس کا صاف مطلب ہے کہ اتفاق زحمت ہے ۔جس پر امام خطابی نے تنقید کرتے ہوئے فرمایاکہ ایساضروری نہیں کیونکہ اللہ پاک نے رات کورحمت کہااس کا کوئی یہ مطلب مراد نہیں لیتا کہ دن زحمت ہے۔اسی طرح ہم بارش کورحمت کہتے ہیں لیکن جب بارش نہ ہورہی ہوتواس کوزحمت اورعذاب نہیں سمجھتے۔

رفیق طاہراورانہیں کی قماش کے لوگ اگرتھوڑاغوروفکر کرتے تویہ سمجھنے میں انہیں قطعادقت نہیں ہوتی کہ ایک شخص ایک بات مطلق کہتاہے لیکن اس میں قید چھپی ہوتی ہے ۔اوریہی وجہ ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ نے عقدالجید میں ائمہ اربعہ کی تقلید کوہی واجب قراردیاہے کیونکہ دوسرے مذاہب کی کتابیں ناپید ہیں اوران کے عام ومطلق اورتقید وتخصیص میں فرق کرنے والاکوئی نہیں رہا۔(دیکھئے عقدالجید)
امام صاحب کے عطاء ابن ابی رباح کو سب سے افضل قراردینے کے یہ احتمالات بھی ممکن ہیں۔

1: تابعین میں ان سے افضل نہیں دیکھا۔
2: جن سے علم حاصل کیاان میں اس سے افضل نہیں دیکھا
3: مکہ کے مشائخ میں ان سے افضل نہیں دیکھا


ان تمام احتمالات کے ہوتے ہوئے اس کو نص قطعی کی طرح پیش کرنا کہ یہ امام صاحب کے انکار تابعیت کی سب سے پختہ دلیل ہے۔ کس درجہ جہل اورحماقت ہے،قارئین پرواضح ہوگیاہوگا۔اورشاید یہی وجہ ہے کہ جس کی وجہ سے کسی بھی معتمد محدث نے اس کو امام ابوحنیفہ کی تابعیت سے انکار کی دلیل نہیں بنایا۔

مصنف کی یہ عجیب عادت ہے کہ جہاں کہیں مبہم جملہ ملتاہے تواس کو وہ اپنے مدعا پر صریح سمجھتے ہیں لیکن جہاں صریح جملہ ان کے موقف کے برخلاف ہوتاہے تواس کو فرماتے ہیں کہ برسبیل تذکرہ ذکر کردیاگیاہے ۔ان کے اس شترغمزہ پر ہم حیران ہیں !

صاحب اللمحات خلف بن ایوب کو بھی امام صاحب کے تابعیت کے منکرین میں سے سمجھتے ہیں اوردلیل ہے کہ خلف بن ایوب نے کہاہے۔
خدا سے علم محمدﷺ کو ،آپ سے صحابہ کو اورصحابہ سے تابعین اورتابعین سے امام ابوحنیفہ کو حاصل ہوا۔(لمحات ص202)
اب اس مضحکہ خیز دلیل پر کوئی ہنسے یاپھر روئے۔ اورمجھے توکچھ سمجھ میں نہیں آئی کہ اس جملہ میں تابعیت کا انکار کہاں ہے۔امام ابوحنیفہ نے تابعین سے ہی توعلم حاصل کیاہے۔ کیادیگر تابعین نے کبار تابعین سے علم حاصل نہیں کیاہے۔ان کے استادحضرت حماد کو ہی لے لیں ان کے زیادہ ترمشائخ تابعین ہی ہیں۔ تواگرکوئی ان کے حق میں کہے کہ خدا سے علم حضور پاک،حضور پاک سے صحابہ کرام نے اورصحابہ سے تابعین نے اورتابعین سے انہوں نے علم حاصل کیاتواس قول سے وہ تابعین کے زمرہ سے نکل جائیں گے۔بریں عقل ودانش بباید گریست۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
امام صاحب کے عطاء ابن ابی رباح کو سب سے افضل قراردینے کے یہ احتمالات بھی ممکن ہیں۔

1: تابعین میں ان سے افضل نہیں دیکھا۔
2: جن سے علم حاصل کیاان میں اس سے افضل نہیں دیکھا
3: مکہ کے مشائخ میں ان سے افضل نہیں دیکھا
محترم لگتا ہے کہ آپ ابو حنیفہ سے بھی بڑے فقیہ ہو گئے ہیں
کیونکہ
موصوف کی عبارت میں کوئی ایسا کونہ کھدرا باقی نہیں بچا جس میں ان احتمالات کو داخل کیا جاسکے ۔
اگر ہے تو واضح کریں
اپنی طرف سے غلط تأویلیں نہ کریں
دلیل پیش فرمائیں
وگرنہ یہ فیصلہ فرمائیں کہ آپ دونوں میں سے جھوٹا کون ہے ؟
آپ یا أبو حنیفہ ؟؟؟؟
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
ہمیں رفیق طاہر صاحب اورشاہد نذیر صاحب سے زیادہ کچھ نہیں کہناہے!اگران کے پاس کوئی صریح دلیل ہو توپیش کریں ورنہ اس قسم کے مستنبط اورمستخرج دلائل جس کو صاحب لمحات "ماحصل"سے تعبیر کرتے ہیں ۔بحث کے دوران کافی نہیں ہیں۔
موصوف نے ابن عبدالبر کو بھی منکرین تابعیت میں شمار کیاہے اوراس کیلئے دودلیل ذکر کی ہے۔
اولاکہ انہوں نے انتقاء میں کہاہے۔
جوشخص فضائل صحابہ وتابعین کے بعد امام ماکو شافعی وابوحنیفہ (رضی اللہ عنہم) کے فضائل ومناقب کامطالعہ کرے گا اوراس کی بہترین سیرت وکردار سے واقف ہوگا تو وہ اس کو اپنابرگزیدہ عمل پائے گا۔
لمحات(ص206)
دوسرے یہ کہ خاقانی کا قصیدہ جو ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم میں نقل کیاہے اس میں کہاگیاہے اس میں تابعین کے بعد ائمہ کا ذکر کیاگیاہے۔مثلاسفیان ثوری، امام اوزاعی، امام شافعی،ابن مبارک اوراس میں امام ابوحنیفہ کا بھی نام ہے۔
مصنف کاکہناہے کہ چونکہ ابن عبدالبر نے اس پر کوئی نقد نہیں کیااس لئے گویاوہ بھی خاقانی کی موافقت کررہے ہیں۔(مفہوم المصدرالسابق )
مصنف کاکمال یہ ہے کہ حافظ ابن عبدالبر اگر جامع بیان العلم میں اسی کتاب میں انس بن مالک اورعبداللہ بن حارث کی رویت کا اقرار کریں تو وہ برسبیل تذکرہ ہوجاتاہے لیکن اگر کوئی انکار کررہاہو اور وہ اس کی تردید نہ کریں تو یہ انکی رائے اورموافقت بن جاتی ہے۔(لمحات 205)
جب کہ اس کے برخلاف ہمیں ملتاہے کہ
کتاب الکنی میں حافظ ابن عبدالبر کہتے ہیں۔

ابوحنیفۃ النعمان بن ثابت الکوفی الفقیہ صاحب الرای ،قیل انہ رای انس بن مالک وسمع من عبداللہ بن الحارث بن جزء ،فیعد بذلک من التابعین۔
(کتاب الکنیٰ لابن عبدالبر ،بحوالہ التعلیقات علی ذب ذبابات الدراسات2/323)


اور جامع بیان العلم وفضلہ ص204میں لکھتے ہیں۔

قال ابوعمر:ذکر محمد بن سعد(کاتب)الواقدی ان اباحنیفۃ رای انس بن مالک وعبداللہ بن الحارث بن جزء (الزبیدی)
ابوعمر کہتے ہیں کہ محمد بن سعد کاتب واقدی نے ذکر کیاہے کہ (امام )ابوحنیفہ نے انس بن مالک اورعبداللہ بن حارث بن جزء کو دیکھاہے۔

اگرکوئی کہے کہ چلئے تعارض ثابت ہوگیا دونوں ساقط۔ تو ساقط نہیں ہوگا بلکہ اصول ہے کہ اگراثبات اورنفی میں تعارض ہوتوترجیح اثبات کوہوگی کیونکہ ایک زائد علم کا وہ اقرار کررہاہے۔اس اصول کابھی تقاضاہے کہ امام ابن عبدالبر کو مثبتین تابعیت میں شمار کیاجاءے اورکسی بھی بھی لحاظ سے صاحب لمحات کا ابن عبدالبر کو منکرین تابعیت میں قراردیناکسی لحاظ سے صحیح نہیں ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
موصوف کا طرز استدلال بہت نرالااورانوکھاہوتاہے ۔
ایک جگہ شیخ کوثری نے تاریخ بغداد کے محشین اورتعلیق کنندگان کا شکوہ کیاہے توموصوف نے یہ سمجھ لیاہے کہ وہ خود اپنے اوپر نقد کررہے ہیں کیونکہ تاریخ بغداد جو شائع ہوئی ہے وہ امام کوثری کی تعلیق اورتحشیہ کے ساتھ بھی شائع ہوئی ہے۔اوراس پر موصوف نے اپنی یہ حاشیہ آرائی کی ہے۔

حاصل یہ کہ تاریخ خطیب کے شاطر مصححین کو مطعون کرکے دراصل مصنف انوار نے اپنے سید الطائفہ کوثری اوران کے معاونین کو مطعون کرڈالا۔اورنہایت حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اپنی نگرانی وتعلیق وتصحیح کے ساتھ شائع ہونے والی تاریخ خطیب کے شاطر مصحیحین کا شکوہ خودکوثری نے بھی کیاہے(لمحات ص208)
حالانکہ اگرموصوف تانیب الخطیب کا مقدمہ پڑھنے کی زحمت گواراکرتے توانہیں اس موقف کے اختیار کرنے پر شرمندگی ہوتی۔ وہاں صاف صاف لکھاہے کہ

جب تاریخ بغداد طبع ہورہی تھی تو تیرہویں جلد جس میں امام ابوحنیفہ کا تذکرہ ہے۔وہ آیاتواس کتاب کے ناشرین میں سے محمد امین خانجی نے شیخ زاہد الکوثری سے مشورہ کیااورکہاکہ میں نہیں جانتاتھاکہ اس کتاب میں امام ابوحنیفہ کے تعلق سے ایسی نارواباتیں ہیں اگرجانتاتواس کتاب کی اشاعت مین ساتھ نہ دیتا لیکن اب میرے لئے پیچھے ہٹنابھی ممکن نہیں ہے تومیں کیاکروں!شیخ کوثری نے جواب دیاکہ ملک معظم عیسی بن ابوبکر الایوبی کا خطب پر مفصل رد موجود ہے اوراس کا ایک نسخہ دارالکتب مصریہ میں اوردوسرانسخہ مکتبہ محمد اسعد اصطنبول میں موجود ہے۔ دونوں نسخوں کاایک دوسرے سے مقابلہ کیاجائے اوراس کو امام صاحب کے ترجمہ مین ذیل کے طورپر شائع کردیاجائے یہ کافی وشافی ہوگا۔
محمد امین خانجی نے اپنے دیگر شرکاء سے مشورہ کیالیکن وہ اس پر راضی نہیں ہوئے ان کے شرکاء کاخیال تھاکہ اس سے کتاب کی فروخت پر اثرپڑے گا۔

محمد امین خانجی نے دوبارہ مجھ سے مشورہ کیا۔میں نے مختصرنوٹس لکھ کر دے دیئے اوراس پر اپنانام اس غرض سے نہیں لکھاکہ میں نے بحث کا حق ادانہیں کیاتھا۔پھر میں نے دیکھاکہ میرے نوٹس میں بھی کانٹ چھانٹ کی گئی ہے اوراس کو غلط طورپر من ماماتصرف کرکے شائع کیاگیاہے۔(تانیب الخطیب ص41)


اس وضاحت کے بعد دوبارہ مولف لمحات کا تبصرہ پڑھئے اورسوچئے کہ اس کو ان کا ہم جہل سمجھیں یاپھرکذب بیانی!واحلاھمامر
تنبیہ
شیخ کوثری اس کے بعد لکھتے ہیں کہ حکومت مصر نے بقیہ کتاب کی طباعت پر پابندی عائدکردی اورملک معظم کی کتاب کوتیرہویں جلد میں امام ابوحنیفہ کے ترجمہ کے ساتھ شائع کرنے کا حکم دے دیا۔اوراس کتاب کی نگرانی پر جامعہ ازہر کے علماء ومشائخین کو مامور کیاگیا۔پھر کافی مدت کے بعد یہ کتاب شائع ہوئی ۔لیکن اس سے قبل مذکورہ نسخہ شائع جو میری تعلیقات کو کانٹ چھانٹ کر شائع کیاگیاتھاپوری دنیا میں پھیل چکاہے تومیں نے ضروری سمجھاکہ اس پر ایک تفصیلی رد لکھاجائے گااوریہی تانیب الخطیب کا باعث ہے۔
علاوہ ازیں اس کے یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ حامد فقی نے تاریخ بغداد سے کے دارالکتب المصریہ کے نسخہ سے جو زیادہ ترمثالب پر مشتمل ہے اس میں سے خاص امام ابوحنیفہ کا ترجمہ ہندوستان بھیجا اوریہاں شائع کیاگیا۔اس ہندوستانی اشاعت کے آخر میں واضح طورپر لکھاہے کہ اس کے ناشرین طابعین کون ہیں۔
اس کے باوجود علامہ معلمی کا یہ کہناکہ شیخ کوثری کی وجہ سے ہی اس زمانے میں امام ابوحنیفہ پر کلام شروع ہواہے۔ کس درجہ حق کو دھندلااورمسخ کرنے والی بات ہے ۔یعنی جولوگ بلاوجہ تاریخ خطیب سے خاص طورپر امام ابوحنیفہ کا ترجمہ شائع کریں تو ان کو معلمی صاحب قابل معافی اوردرگزر سمجھتے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عکاشہ صاحب نے میرے مراسلے کے جواب میں فرمایاہے کہ
اللہ اکبر ـ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو باربار تابعی ثابت کرتا دیکھ کر عبرت ہوتی ہے ، کہ ثابت بھی کیاکیا جارہا ہے ـ افسوس صد افسوس ـ
واضح رہے کہ ہندوستان میں تابعیت کا سب سے پہلے انکار میاں نذیر حسین صاحب نے کیا۔اورجہاں تک فورم کی بات ہے تومیرے محدود علم کی حد تک اردو مجلس میں باذوق صاحب نے ایک تھریڈ شروع کیاتھا جس میں انکار تابعیت کی بات ہے جس پر وہیں کچھ جواب دیاگیاتھا۔اوریہاں محدث فورم پر بھی بشیرصاحب نے ہی ابتداء کی ہے۔عکاشہ صاحب پر حیرت ہے کہ جولوگ موضوع شروع کرتے ہیں یعنی بحث کی ابتداء کرتے ہیں ان کے بارے میں توکچھ نہیں فرماتے لیکن ہم جیسوں کے بارے میں فرمان ذیشان ضرورجاری ہوجاتاہے۔
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,010
پوائنٹ
289
واضح رہے کہ ہندوستان میں تابعیت کا سب سے پہلے انکار میاں نذیر حسین صاحب نے کیا۔اورجہاں تک فورم کی بات ہے تومیرے محدود علم کی حد تک اردو مجلس میں باذوق صاحب نے ایک تھریڈ شروع کیاتھا جس میں انکار تابعیت کی بات ہے جس پر وہیں کچھ جواب دیاگیاتھا۔
السلام علیکم۔ اپنے علم میں اضافہ کی خاطر میں اس تھریڈ کا صرف مطالعہ کرنا چاہتا تھا ، یہاں مداخلت کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ لیکن چونکہ جمشید بھائی نے میری طرف اشارہ کیا ہے لہذا کچھ وضاحت کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
اردو مجلس سے بھی پہلے میں نے ایک اور فورم (شاید ہلہ گلہ فورم) پر بالکل یہی "تحقیق" پیش کی تھی جس کی بنیاد شیخ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کا ایک مضمون رہا ہے جو ان کے رسالے "الحدیث حضرو" میں شائع ہوا ہے۔
میں نے پچھلے دور میں اس موضوع (امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تابعیت) سے متعلق جو بھی نقل کیا تھا وہ شیخ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کی یہی تحقیق تھی ، اس کو میرا اپنا نقطۂ نظر نہ سمجھا جائے۔
پچھلے کچھ عرصہ کے مطالعے کے بعد ذاتی طور پر شیخ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کی اس تحقیق سے میں 100 فیصد اتفاق کرنا نہیں چاہتا ، اور نہ ہی میں اس موضوع پر اپنی کوئی "حتمی رائے" رکھنا چاہتا ہوں اور نہ اس پر اظہار خیال کا فی الحال کوئی ارادہ ہے۔ امید ہے کہ آئیندہ سے اس موضوع پر مجھے معذور سمجھا جائے گا۔ شکریہ۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
مولف لمحات نے ابن حزم کو بھی منکرین تابعیت میں شمار کیاہے اوراس کیلئے اتحاف النبیہ کا حوالہ دیاہے۔ اتحاف النبیہ جواس وقت نیٹ پر موجود ہےوہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی کتاب "الانتباہ من سلاسل اولیاء اللہ واسانید وارثی رسول اللہﷺکاایک حصہ یابقول محقق قسم ثانی "اتحاف النبیہ فیمایحتاج الیہ المحدث والفقیہہ کے نام سے شائع ہواہے۔ اس میں ہمیں تو ابن حزم یاامام ابوحنیفہ کے تعلق سے عدم تابعیت کی تصریح نہیں ملی ۔شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ پوری کتاب نہیں ہے۔یاپھر میرے ہی تتبع اورتلاش میں کمی ہو لیکن اگرکسی صاحب کو ملے توہمیں ضرورآگاہ کرے۔

تنبیہ:
اس موقع پر ضروری ہے کہ ایک بات عرض کردوں!

الدیوبندیہ نامی کتاب کسی صاحب نے لکھی ہے اوراس کتاب کی تالیف کا بڑامنشاء یہ ہے کہ اہل دیوبند اپنے جوعقائد بتاتے ہیں وہ دھوکہ پر مبنی ہیں ان کے عقائد صوفیانہ ہیں۔ کوئی ہمیں بتائے گاکہ شاہ ولی اللہ کی یہ کتاب جو صوفیاء اورمحدثین دونوں کے سلسلہ اسناد پر مشتمل تھیں اس کے ایک خاص حصہ کو عربی میں ترجمہ کرکے عرب میں شائع کرنے کاکیامقصد ہے؟۔ ویسے ہمیں یقین ہے کہ اگرکسی دیوبندی عالم کی کتاب کاجس میں دونوں چیزیں مخلوط ہوتیں۔ الگ سے ایک حصہ جو کتب حدیث کے سلسلہ اسناد پر مشتمل ہے شائع کیاجاتا اورصوفیاء کے سلاسل کو چھوڑدیاگیاہوتاتوپتہ نہیں تحریف اورتغییر نصوص اورکیسے کیسے الزامات سے نوازاجاتا۔لیکن خود کریں توسب بجااوردوسرے کریں توسب بے جا۔۔۔۔۔۔۔
خطیب بغدادی
خطیب بغدادی کو بھی منکرین تابعیتِ امام صاحب شمار کیاہے اوردلائل کے نام پر وہ طرفہ تماشاکیاہے کہ بس پڑھنے سے ہی تعلق رکھتاہے۔جی توچاہتاہے کہ موصوف کی پوری بحث جوڈیڑھ صفحے پرمشتمل ہے لکھ دوں ۔لیکن افسوس اتناطویل ٹائپ ہونامشکل ہے؟ویسے جن کے پاس یہ کتابیں ہیں وہ (لمحات2/215-216)کا مطالعہ کریں۔
اولاتوفرماتے ہیں کہ

حافظ خطیب ایسی روایات کے بھی ناقل ہیں جن سے مستخرج ہوتاہے کہ امام صاحب نے خود اوران کے معاصرین نے کہاہے کہ امام صاحب تابعی نہیں ہیں۔دریں صورت ہرشخص بآسانی سمجھ سکتاہے کہ اپنے استاد الاساتذہ امام دارقطنی سے اس معاملہ میں الگ رائے قائم کرنے کیلئے حافظ خطیب کے سامنے کوئی داعیہ وسبب نہیں تھا (المصدرالسابق)
اس پورے پیراگراف پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے ۔پائے چوبیں قسم کے استدلال کے بخیے ادھیڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔وہ قارئین اورعقل وفہم کی دولت سے متصف افراد خود سمجھ جائیں گے۔

خطیب نے بکثرت امورجرح وتعدیل وعلوم روایت کے سلسلے میں دارقطنی کے اقوال بطور حجت نقل کئے ہیں۔لہذا بلادلیل وثبوت یہ کہناکسی طرح بھی درست نہیں ہوگاکہ انہوں نے امام صاحب ،امام دارقطنی اوردیگر اہل علم کے فیصلے کے خلاف یہ موقف اختیار کیاہوگا۔
خلاصہ کلام اگر یہ نکالا جا ئے کہ خطیب بغدادی دار قطنی کے مقلد تھے اوریہ بلاثبوت ممکن نہیں کہ انہوں نے ان کی تقلید چھوڑدی ہوگی۔اس قسم کے استدلال سے موصوف خطیب بغدادی کو منکرین رویت ثابت کرنے چلے ہیں۔

بارہا عرض کیاگیاکہ ذکر سے یہ لازم نہیں آتاکہ ذکر کنندہ اپنی ذکر کردہ بات کو صحیح بھی مانتاہے۔(لمحات216)
لیکن اگر خطیب بغدادی نےامام دارقطنی کا قول نقل کردیاہے تواس کیلئے کیاثبوت ہے کہ خطیب بغدادی دارقطنی کے اس قول کو صحیح بھی مانتے ہیں؟لمحات کے مصنف کو چاہئے کہ وہ اس مدعا پر ثبوت پیش کرتے کہ دارقطنی کاقول جو خطیب بغدادی نے نقل کیاہے وہ اس کو صحیح بھی مانتے ہیں۔

ویسے تاریخ بغداد میں جب ہم نے رجوع کیاتوہمیں اس سلسلے میں ایساقطعانہیں لگاکہ انہوں نے برسبیل تذکرہ یہ بات کہی ہے بلکہ ایسالگاکہ یہ ان کی مستقل رائے ہے۔ اولاانہوں نے چند سطروں میں امام ابوحنیفہ کے نام،خصوصیت،مشائخین،شاگرد ،قابل ذکر بات،اوروفات کاذکرکیاہے پھر روایات ذکر کی ہیں۔ اس سے صاف واضح ہوجاتاہے کہ انہوں نے اولااپنی رائے بیان کردی ہے۔ بعد ازاں اس سلسلےمیں علماء کے مختلف اقوال پیش کئے ہیں۔
نامناسب نہیں کہ اگرہم بھی کچھ سطریں نقل کردیں۔
النعمان بن ثابت ،ابوحنیفہ التیمی،امام اصحاب الرای،وفقیہ اہل العراق،رای انس بن مالک وسمع من عطاء بن ابی رباح الخ
روی عنہ ابویحیی الحمانی وہشیم بن شبیر عباد بن العوام الخ
وھومن اھل الکوفہ نقلہ ابوجعفر المنصور الی بغداد فاقام بھا حتی مات ،ودفن بالجانب الشرقی منھافی مقبرۃ الخیزران، وقبرہ ھناک ظاہرمعروف(تاری بغداد ،تحقیق دکتور بشارعواد 15/445)


ہرایک دیکھ سکتاہے کہ وہ ان کی مستقل رائے ہے یاانہوں نے اس کو "برسبیل تذکرہ"ذکر کردیاہے۔

موصوف بھی امام صاحب کیلئے ثبوت رویت صحابی کے اسی طرح منکر ہیں جس طرح خود امام صاحب اوردوسرے اہل علم(المصدرالسابق)
دلیل ندارد
دعوے کرنے کوتوکوئی بھی بڑے بڑے دعوے کرسکتاہے۔لیکن دلیل اورثبوت جس چیز کانام ہے وہ کہاں ہے؟
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
امام شیرویہ بن شہردار بن شیرویہ ابوشجاع دیلمی
اس میں توموصوف نے حد ہی پار کردی ہے اوراستدلال کے نام پر وہ قلابازی دکھائی ہے کہ
ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیاکہئے
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیالکھئے

میں ان کی پوری عبارت نقل کردیتاہوں جومختصر طورپر ہے۔
امام شیرویہ ابوشجاع دیلمی(مولود445ھ متوفی506ھ)اپنے زمانہ یعنی پانچویں صدی کے مشہور محدث ہیں ۔انہوں نے اپنی کتاب التحلی میں اپنی سند کے ساتھ ابوجعفر قائنی کا وہ خواب نقل کیاجس کا حاصل یہ ہے کہ قائنی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امام صاحب کو غیرتابعی قراردینے پر متفق تھے۔(کمامر)
اس سے مستفاد ہوتاہے کہ بطور حجت اپنی نقل کردہ اس روایت کے مقتضی کے مطابق امام شیرویہ اپنانظریہ بھی رکھتے تھے کہ امام صاحب تابعی نہیں۔
ماقبل میں موصوف کا سنہرے لفظوں سے لکھاجانے والاقول گزرچکاہے کہ
بارہا عرض کیاگیاکہ ذکر سے یہ لازم نہیں آتاکہ ذکر کنندہ اپنی ذکر کردہ بات کو صحیح بھی مانتاہے۔(لمحات216)
لیکن کچھ سطروں بعد ہی موصوف اپنایہ قول بھول گئے اورفرمانے لگے
اس سے مستفاد ہوتاہے کہ بطور حجت اپنی نقل کردہ اس روایت کے مقتضی کے مطابق امام شیرویہ اپنانظریہ بھی رکھتے تھے کہ امام صاحب تابعی نہیں۔
اورکمال کی ہوشیاری یہ کی ہے کہ مغالطے میں رکھنے کیلئے
بطور حجت
کا لفظ بڑھادیا۔
حالانکہ اس کیلئے ان کے پاس کوئی ثبوت اورکوئی دلیل نہیں ہے کہ انہوں نے یہ بات حجت سمجھ کر ذکر کی ہے ۔اس دورنگی کا کوئی ٹھکانہ ہے کہ مخالف کی دلیل ہو تو برسبیل تذکرہ اورذکر سے یہ لازم نہیں آتا جیسی باتوں کا سہارا لیں اوراپنی بات ہوتوبغیر کسی دلیل اورثبوت کے
بطور حجت نقل کردہ

پھر اہل حدیث حضرات ہمیشہ سے علماء دیوبند اورصوفیاء کرام کو مطعون کرتے آئے ہیں کہ وہ لوگ خواب کا سہارالیتے ہیں۔ خواب حجت شرعیہ نہیں ہے وغیرذلک۔اورجب اپنی ضرورت پڑی تواپناخواب کیادوسرے کاخواب بھی" حجت کے طورپر نقل کردہ "ہونے لگا۔
اس سب کے باوجود کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہے کہ کئی سوصفحات میں امام ابوحنیفہ کی تابعیت کی تردید کی گئی ہے۔مقدار سے مرعوب ہونے والے دیکھ سکتے ہیں کہ معیار کاکیاحال ہے۔اگرمصنف کو ایسے ہی "معیاری دلیلوں"سے کام لیناتھاتوپھر انہوں نے چند سوصفحات پر خواہ مخواہ اکتفاء کیا۔ چند ہزار صفحات کی بھی وہ کتاب بہت آسانی سے لکھ سکتے تھے۔
پھرمصنف کا ایک اورشترغمزہ ملاحظہ کریں۔
مسند خوارزمی کی بہ نسبت بارہااپنی کتاب میں لکھاہے۔
بقول شاہ ولی اللہ مجموعہ اکاذیب ہے
حالانکہ اولاتو شاہ ولی کے یہ الفاظ قطعانہیں لیکن چونکہ موصوف کا روایت بالمعنی کا بہت زیادہ شوق ہے اوراسی شوق میں وہ کچھ بھی کہہ جاتے ہیں۔ لیکن موصوف کی جرات قابل داد ہے کہ شاہ ولی اللہ کایہ حکم صرف مسند خوارزمی کے ساتھ تنہاتونہیں ہے بلکہ انہوں نے اسی طبقہ میں کتب خطیب بغدادی،اوردیلمی کی کتابوں کوبھی رکھاہے جن کی کتاب کے مذکورہ خواب سے موصوف استدلال کررہے ہیں۔ طرفہ تماشاتویہ ہے کہ کتب دیلمی کو شاہ صاحب نے بالبقین طبقہ رابعہ کی کتاب میں رکھاہے جب کہ خوارزمی کی کتاب کو شک کے ساتھ اس طبقہ میں رکھاہے ۔

چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔

ومظنۃ ھذہ الاحادیث کتاب الضعفاء لابن حبان،وکامل ابن عدی،وکتب الخطیب وابی نعیم ،والجوزقانی،وابن عساکر،وابن النجار والدیلمی ،وکاد مسندالخوارزمی یکون میں من ھذہ الطبقۃ ماکان ضعیفامحتملا،واسواھا ماکان موضوعا اومقلوباشدیدالنکارۃ ،وھذہ الطبقۃ مادۃ کتاب الموضوعات لابن الجوزی(حجۃ اللہ البالغۃ 1/232)
دیکھ سکتے ہیں کہ شاہ صاحب نے اولاتوان کتابوں کو مجموعہ اکاذیب نہیں کہابلکہ یہ کہاہے کہ ان کتابوں میں قابل تحمل ضعیف روایتیں اوراس سے درجہ بدرجہ ترقی کرتی ہوئیں موضوع روایات تک موجود ہیں۔ پھردیلمی کی کتابوں کے بارے میں شاہ صاحب نے بالیقین فیصلہ سنایاہے جب کہ مسند خوارزمی کے بارے میں ہے کہ قریب ہے کہ وہ بھی اسی طبقہ میں ہو ۔یعنی شاہ صاحب ان کتابوں سے اس کو بہتر سمجھتے ہیں۔
اس کے باوجود مسندخوارزمی کو بقول شاہ ولی اللہ "مجموعہ اکاذیب کہنا"شاہ صاحب کے موقف کی غلط ترجمانی ہے۔
اورکمال یہ ہے کہ مسند خوارزمی تو بول شاہ ولی اللہ وہ مجموعہ اکاذیب قراردیں لیکن شاہ صاحب کی اسی طبقہ میں رکھی ہوئی دیلمی کی کتابوں سے اپنے موقف اورمدعا کیلئے استدلال کریں۔کیایہ ڈبل اسٹینڈرڈ کی شاندار مثال ہے ؟
انہوں نے ابن اثیر اورابن خلکان کوبھی شمار کیاہے اوردیگر چند منکرین تابعیت پر ہم آخر میں گفتگو کریں گے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
امام نووی
امام نووی کوبھی انہوں نے منکرین تابعیت میں شمار کیاہے اوردلیل کیابنی ہے۔اوراس کی دلیل ان کے پاس ہے۔

تدوین مذاہب کاکام صحابہ کے بعد ان اماموں نے کیاجوصحابہ وتابعین کے مذاہب کے پابند تھے مثلاامام مالک وابوحنیفہ لمحات ص219/2،بحوالہ 1/91،المجموع شرح المہذب للنووی)
یعنی صرف یہ بات کہ امام ابوحنیفہ اورامام مالک صحابہ وتابعین کے مذاہب کے پابند تھے ۔اس سے انہوں نے دلیل اخذ کرلی کہ وہ تابعی نہیں ہیں۔ یعنی ان کے خیال میں صغارتابعین کبار تابعین کے مذاہب کی پابندی نہیں کرسکتے۔ ابراہیم نخعی ،حضرت علقمہ،اسود،مسروق اوردیگر کبار تابعین کے مذاہب کی پابندی نہیں کرسکتے۔امام حماد ابراہیم نخعی اودیگر کبار تابعین کے مذاہب کی پابندی نہیں کرسکتے۔اگرمصنف کااستدلال اسی طرح بے لگام رہا توبعض صحابہ کرام جو ایک دوسرے سے شدید متاثر تھے مثلاحضرت عبداللہ بن مسعودؓ جو حضرت عمرفاروقؓ کی فتاوی جات کی بڑی قدر کرتے تھے اورفرماتے تھے کہ اگرپوری دنیا کے لوگ ایک وادی میں چلیں اورعمر دوسری وادی میں تومیں دوسری وادی کو ترجیح دوں ۔ اس دلیل کی بناء پر وہ کہیں ان کوبھی صحابہ کی فہرست سے خارج نہ کردیں۔
اس طرح کی بوالعجبیوں کا نام مصنف نے استدلال رکھاہے اورکمال تویہ ہے کہ تہذیب الاسماء جو خاص طورپر شرح مہذب میں وارد ہونے والے فقہاء کرام اوردیگر اسماء کی شرح پرمشتمل ہے ۔اس میں امام ابوحنیفہ کا ذکر آیاہے تواس میں امام نووی نے مشہور شافعی فقیہہ ابواسحاق شیرازی سے امام ابوحنیفہ کی صحابہ سے روایت کی نفی اورخطیب بغدادی کے حوالہ سے اثبات کیاہے کہ انہوں نے حضرت انس کو دیکھاہے۔(تہذیب الاسماء 2/217)
تواس بارے میں موصوف کا فرمان ہے کہ

اس سے معلوم ہواکہ امام نووی نے تہذیب الاسماء میں حضرت انس کو دیکھنے کا ذکر جوبرسبیل تذکرہ کردیاہے اسے وہ صحیح نہیں مانتے اوریہ معلوم ہے کہ کسی بات کا ذکر کرنا اس امر کو مستلزم نہیں کہ ذکر کرنے والا اسے صحیح مانتاہے۔(لمحات 2/220)
حالانکہ ہرشخص دیکھ سکتاہے کہ برسبیل تذکرہ بات کہاں کی گی گئی ہے ؟ویسے موصوف کے برسبیل تذکرہ پر ہم بھی کچھ برسبیل تذکرہ ذکر کریں کہ آپ نے برسبیل تذکرہ کااس سے اچھااستعمال برسبیل تذکرہ دیکھاہے؟اگربرسبیل تذکرہ کسی نے برسبیل تذکرہ کااس سے اچھااستعمال دیکھاہوتوبرسبیل تذکرہ ہمیں ضرور مطلع کرے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
امام نووی
امام نووی کوبھی انہوں نے منکرین تابعیت میں شمار کیاہے اوردلیل کیابنی ہے۔اوراس کی دلیل ان کے پاس ہے۔

تدوین مذاہب کاکام صحابہ کے بعد ان اماموں نے کیاجوصحابہ وتابعین کے مذاہب کے پابند تھے مثلاامام مالک وابوحنیفہ لمحات ص219/2،بحوالہ 1/91،المجموع شرح المہذب للنووی)
یعنی صرف یہ بات کہ امام ابوحنیفہ اورامام مالک صحابہ وتابعین کے مذاہب کے پابند تھے ۔اس سے انہوں نے دلیل اخذ کرلی کہ وہ تابعی نہیں ہیں۔ یعنی ان کے خیال میں صغارتابعین کبار تابعین کے مذاہب کی پابندی نہیں کرسکتے۔ ابراہیم نخعی ،حضرت علقمہ،اسود،مسروق اوردیگر کبار تابعین کے مذاہب کی پابندی نہیں کرسکتے۔امام حماد ابراہیم نخعی اودیگر کبار تابعین کے مذاہب کی پابندی نہیں کرسکتے۔اگرمصنف کااستدلال اسی طرح بے لگام رہا توبعض صحابہ کرام جو ایک دوسرے سے شدید متاثر تھے مثلاحضرت عبداللہ بن مسعودؓ جو حضرت عمرفاروقؓ کی فتاوی جات کی بڑی قدر کرتے تھے اورفرماتے تھے کہ اگرپوری دنیا کے لوگ ایک وادی میں چلیں اورعمر دوسری وادی میں تومیں دوسری وادی کو ترجیح دوں ۔ اس دلیل کی بناء پر وہ کہیں ان کوبھی صحابہ کی فہرست سے خارج نہ کردیں۔
اس طرح کی بوالعجبیوں کا نام مصنف نے استدلال رکھاہے اورکمال تویہ ہے کہ تہذیب الاسماء جو خاص طورپر شرح مہذب میں وارد ہونے والے فقہاء کرام اوردیگر اسماء کی شرح پرمشتمل ہے ۔اس میں امام ابوحنیفہ کا ذکر آیاہے تواس میں امام نووی نے مشہور شافعی فقیہہ ابواسحاق شیرازی سے امام ابوحنیفہ کی صحابہ سے روایت کی نفی اورخطیب بغدادی کے حوالہ سے اثبات کیاہے کہ انہوں نے حضرت انس کو دیکھاہے۔(تہذیب الاسماء 2/217)
تواس بارے میں موصوف کا فرمان ہے کہ

اس سے معلوم ہواکہ امام نووی نے تہذیب الاسماء میں حضرت انس کو دیکھنے کا ذکر جوبرسبیل تذکرہ کردیاہے اسے وہ صحیح نہیں مانتے اوریہ معلوم ہے کہ کسی بات کا ذکر کرنا اس امر کو مستلزم نہیں کہ ذکر کرنے والا اسے صحیح مانتاہے۔(لمحات 2/220)
حالانکہ ہرشخص دیکھ سکتاہے کہ برسبیل تذکرہ بات کہاں کی گی گئی ہے ؟ویسے موصوف کے برسبیل تذکرہ پر ہم بھی کچھ برسبیل تذکرہ ذکر کریں کہ آپ نے برسبیل تذکرہ کااس سے اچھااستعمال برسبیل تذکرہ دیکھاہے؟اگربرسبیل تذکرہ کسی نے برسبیل تذکرہ کااس سے اچھااستعمال دیکھاہوتوبرسبیل تذکرہ ہمیں ضرور مطلع کرے۔
 
Top