• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام ابوحنیفہ کی تابعیت اورمولانا رئیس ندوی کا انکار

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اعتدال سے جب بھی باہر کوئی چیز نکلتی ہے تووہ مذموم بن جاتی ہے اوریہیں سے شدت پسندی پیداہوتی ہے۔ملک اوروطن سے محبت اگرفطری حدود میں ہو توکوئی مضائقہ نہیں لیکن یہ چیز حد سے تجاوز کرجائے تو وطن پرستی اورمذہب کاکفن بن جایاکرتی ہے۔کسی شخصیت سے محبت میں بھی اعتدال ہوناچاہئے اورنفرت میں بھی ۔

کسی بات کی نسبت قائل تک صحیح طورپر ثابت ہو ۔اس کا مطالبہ کرنا اچھی بات ہے اورمستحسن امر ہے لیکن اس میں بھی اعتدال کے مراتب اورحداد کا خیال رکھنااز حد ضروری ہے کہ کس امر کیلئے کیسااورکون ساثبوت طلب کیاجائے۔ اوربے اعتدالی میں مبتلاہوکر اس کے حدود کوپامال کرنا نامناسب امر ہے۔

قران کریم رہتی دنیا تک انسانیت کی ہدایت کیلئے اللہ نے نازل کیاہے لہذا اس کے ثبوت اورصحت کا اس قدراہتمام کیاہے کہ اسے ہردور میں اس قدرتواتراوراتنے جم غفیر نے روایت کیاہے کہ جس کے بعد کوئی شک باقی نہیں رہتا۔احادیث کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہوا۔کچھ احادیث متواتر ہیں لیکن بیشتراحادیث خبر آحاد ہیں لہذا ان کی نسبت وہ یقین نہیں ہوسکتاجوقران پاک کی بہ نسبت ہے۔پھراحادیث میں خود اجلہ محدثین نے فضائل اعمال اورشرعی احکام اورحلال وحرام کے معاملات میں تفریق کی ہے کہ فضائل میں تھوڑی ڈھیل برتی ہے اورحلال وحرام میں سختی سے کام لیاہے۔
اسی طرح مزید غوروفکر سے کام لیں توتاریخی واقعات اورغزوات کے باب میں محدثین نے مزید نرمی سے کام لیاہے اوراس سلسلے میں واقدی جیسے روات پر بھی اعتبار کیاہے۔مزید غورکریں گے توپتہ چلے گاکہ خود اسماء الرجال کے فن میں بھی وہ سختی نہیں برتی گئی جوحدیث پاک کے سلسلے میں ہے۔ یعنی حدیث کا کوئی ٹکرااگر دوسرے روات کے بیان سے مختلف ہے تواسے شاذ اورمنکر کہاگیالیکن اگرایک امام جرح وتعدیل سے کئی روات کسی شخص کے بارے میں کلام نقل کرتے ہیں تو وہاں اس دقت نظر کا ثبوت نہیں دیاگیاجتناکہ احادیث میں برتاگیاہے۔


یہ ثبوت اوراثبات کی فطری ترتیب ہے۔اگرکوئی شخص چاہے کہ احادیث وسنن کے سلسلے میں بھی وہی صحت سند درکار ہو جو قرآن پاک کی ہے تویہ اس کے بیمار ذہن اورعقل کی علامت ہوگی ۔اسی طرح جب کچھ لوگ کسی شخصیت کے فضائل اورکمالات کے تعلق سے بخاری اوراحادیث جیسی صحت سند کا مطالبہ کرتے ہیں تویہ ان کی ائمہ اعلام کی کتابوں اوراس میں درج ترتیب اورطریقہ کار سے ناواقفیت کی نشانی اوردلیل ہوتی ہے۔
تابعیت تو دور کی بات ہے ۔ضعیف روایت سے کسی کا رسول پاک کو دیکھنااوران کی صحبت میں رہناثابت ہوجاتاہے جیساکہ حافظ ابن حجر نے الاصابہ میں تصریح کی ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
القسم الاول فیمن وردت صحبتہ بطریق الروایۃ عنہ اوعن غیرہ سواء کانت الطریق صحیحۃ او حسنۃ اوضعیفۃ او وقع ذکرہ بمایدل علی الصحبۃ بای طریق کان ۔(الاصابہ فی تمییز الصحابۃ 1/12)پھراس کے بعد انہوں نے عہد حضور میں ولادت کو صحابیت کی دلیل بنایاہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔

القسم الثانی من ذکر فی الصحابۃ من الاطفال الذین ولدو ا فی عھدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم لبعض الصحابۃ من النساء اوالرجال ممن مات صلی اللہ علیہ وسلم وھوفی دون سن التمییز ،اذ ذکر اولئک فی الصحابۃ انماھوعلی سبیل الالحاق لغلبۃ الظن علی انہ صلی اللہ علیہ وسلم راھم لتوفر دواعی اصحابہ علی احضارھم اولادھم عندہ عندولادتھم لیحنکھم ویسمیھم ویبرک علیھم والاخباربذلک کثیرۃ شھیرۃ۔(نفس المصدر)

حضورپاکؐ کے پاس نومولود بچوں کویقینالایاجاتاہے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم تحنیک کرتے اان کانام رکھتے اوربرکت کی دعائیں دیاکرتے تھے۔ بعض ایسے بھی بیانات منقول ہیں جیساکہ ابن حجر نے ذکر کیاہے کہ اس عہد میں یہ دستور تھاکہ بچوں کو حضورکے پاس لایاجاتاتھا لیکن اسمیں تخلف عین ممکن ہے۔ صحابہ کرام حضور پاک کے جتنے عاشق صادق تھے ان کی ہمیشہ کوشش ہوتی تھی کہ کسی بہانے سے حضور کی زیارت کا موقع ملے حضور ان کے مسکن اورگھر کو رونق بخشیں ۔لیکن حضرت عبدالرحمن بن عوف نے اپنی شادی میں مدعو نہیں کیاتھا۔پھر یہ کہ بچوں کوحضور پاک کی خدمت میں لانے کی بات تسلیم کی جائے تو یہ صرف مدینہ اورچند قریبی بستیوں تک محدود ہوگا ۔وہ بستیاں جو مدینہ سے دور تھیں مثلامکہ معظمہ،طائف،یمن اوردوسری دوردراز جگہین ۔وہاں کے بچے کس طرح آسکتے ہوں گے۔

پھر حافظ ابن حجر نے امام شافعی کو تبع تابعین میں شامل کیاہے جب کہ ایک بھی روایت صحیحہ ایسی پیش نہیں کی جاسکتی جس سے پتہ چلے کہ ان کی کسی تابعی سے ملاقات ثابت ہے۔
یہ تمام امور یہ واضح کرتی ہیں کہ تابعیت کے انکار میں سند صحیح کا جوزورلگایاجارہاہے وہ علم اورتحقیق سے کوسوں دور ہے۔اورمقصد شاید علمی تحقیق نہیں بلکہ امام ابوحنیفہ کی ضد اورمخالفت ہے۔خیراس چیز نے ماضی میں بھی بہت سے لوگوں کوبرباد کیاہے۔حال میں بھی برباد ہورہے ہیں اورآئندہ بھی ہوں گے ۔نہ ماضی کی کوششوں سے امام عالی مقام پر کچھ اثرپڑاہے اورنہ ہی حال کی کوششوں سے کچھ اثرمرتب ہونے والاہے۔
امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی تابعیت کے سلسلہ میں جہاں تک بات روایت کی اوراس کی صحت کی ہے تو حافظ ذہبی نے صراحتاکہہ دیاہے کہ انہ صح(مناقب امام ابی حنیفۃ وصاحبیہ)،اورحافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ بسند لاباس بہ (تبییض الصحیفۃ) تودوحفاظ حدیث اگرکسی سند کو صحیح ٹھہرارہے ہیں تویہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کے پاس اس سلسلے کی تمام رواۃ کی معلومات بہم تھیں۔ سیف بن جابر کے احوال سے اگرہم لاعلم ہیں تویہ کیسے لازم آیاکہ حافظ ذہبی جنہوں نے اس روایت کی تصحیح کی ہے اورحافظ ابن حجر جنہوں نے اس روایت کو بسند لاباس بہ کہاہے وہ بھی اس سے لاعلم ہوں گے۔ زیادہ سے زیادہ جوبات کہی جاسکتی ہے وہ یہ موجودہ کتب جرح وتعدیل میں اس راوی کے تعلق سے ہمیں کچھ نہیں ملتا۔ تویہ جانناچاہئے کہ اولاتو جرح وتعدیل اورطبقات ورجال کی تمام کتابیں ہماری دسترس میں نہیں ہیں۔ بہت سی ایسی کتابیں جوکہ امتداد زمانہ اورگردش ایام کے ہاتھوں دست برد ہوگئیں اوربہت سی ایسی کتابیں ہیں جوکتب خانوں کے نیم تاریک کمروں میں کسی محقق کی منتظر ہیں۔اس بناء پر کسی شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی لاعلمی اورجہالت کو بحث واستدلال میں حجت بنائے۔

اگرایک شخص کو یہ کہنے کا حق ہے کہ ہمیں چونکہ اس راوی کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔ اس لئے ہم اس سند کو مجہول روات کی وجہ سے ضعیف سمجھیں گے تواگراس کے مقابلہ میں دوسراکہتاہے کہ جب دوحفاظ حدیث نے جو صرف حدیث کے حافظ ہی نہیں بلکہ نقد رجال کے ماہر بھی ہیں انہوں نے اس روایت کی تصحیح وتحسین کی ہے توہم بھی اس سند کو قابل استدلال مانیں گے توکیایہ بات سرے سے قابل تسلیم ہی نہیں ہوگی ؟اوراس قابل ہوگی کہ اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیاجائے۔
آخر ہم دوسرے روات کے بارے میں بھی تودیگر محدثین کے بیانات پر ہی انحصار کرتے ہیں اورانہی کے بیانات پر اطمینان قلب نصیب ہوتاہے تویہاں دوحافظ حدیث کی کسی سند کی تحسین وتصحیح پر اطمینان ہوتاہے تواس میں چیں بجبیں ہونے کی کیابات ہے؟
پھربات یہیں تک منحصر نہیں ہے ۔حافظ دارقطنی جوانکار تابعیت میں پیش قدم ہیں ۔ان سے پیشتر حافظ حدیث ابن کاس نخعی نے جوبڑے پایہ کے محدث گزرے ہیں۔ انہوں نے یہ تصریح کی ہے۔
من فضائلہ انہ روی عن اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فان العلماء اتفقواعلی ذلک واختلفوفی عددھم فمنھم من قال انہم ستۃ وامراۃ ومنھم من قال سبعۃ وامراۃ۔(رسالہ فی مناقب الائمۃ الاربعۃ ،قلمی مخطوط کتب خانہ عارف حکمت نمبر252،(کتاب التواریخ )یہ رسالہ حسین بن حسین احمد الطولونی کی تصنیف ہے جو حافظ زین الدین قاسم بن قطلوبغا کے شاگرد ہیں)
دیکھئے ۔یہاں ابن کاس کے بیان سے پتہ چلتاہے کہ ان کے دور تک اس بات میں کوئی اختلاف نہیں تھاکہ امام ابوحنیفہ نے نہ صرف صحابہ کرام کی زیارت کی ہے بلکہ ان سے روایت بھی کی ہے۔
بات صرف ابن کاس نخعی کی نہیں ہے بلکہ دارقطنی کے ایک اوراستاذ حدیث ابوحامد حضرمی ہیں۔ ان کی تاریخ وفات مین اختلاف ہے ۔تاریخ بغداد میں خطیب نے خود ان کا بیان نقل کیاہے کہ میں225میں پیداہوا۔بعض دیگر علماء نے ان کی تاریخ ولادت230بیان کی ہے۔یہ بڑے پایہ کے محدث تھے ۔صحاح ستہ کے مولفین کے ہم عصر ہیں۔ دارقطنی اوردیگر کبارمحدثین ان کے شاگردوں میں ہیں۔ ان کا انتقال محرم321میں ہوا۔
انہوں نے امام اعظم ابوحنیفہ کے صحابہ کرام سے روایت کو ایک جزء میں جمع کیاتھا۔ان کا جزء حافظ ابن حجر عسقلانی کی المعجم المفہرس اورحافظ ابن طولون دمشقی متوفی953کی الفہرست الاوسط میں داخل ہے۔(ابن ماجہ اورعلم حدیث118)
حافظ ابوسعد سمان حافظ دارقطنی سے زمانی طورپر قریب ہیں۔ ان کا نام اسماعیل،ابوسعد کنت سمان کی نسبت سے مشہور ہیں۔ ان کی ذات جامع العلوم تھی۔ یہ فقیہہ ،مورخ،اصولی، لغوی اورمشہور حافظ حدیث ہیں۔حافظ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں ان کا مبسوط ترجمہ لکھاہے جس کی ابتداء ان الفاظ سے ہوتی ہے۔
الحافظ الکبیر المتقن
ان کے شیوخ حدیث کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ طلب حدیث میں انہوں نے شہروں کی خاک چھانی ۔حافظ ابن عساکر نے ان کی شیوخ کی تعداد تین ہزار چھ سوبیان کی ہے۔یہ بیک واسطہ محمد بن ہارون حضرمی کے بھی شاگرد ہیں۔ حافظ ابوسعد سمان کے شاگردوں مین خطیب بغدادی، عبدالعزیز کتانی، طاہر بن الحسین، ابوعلی الحداد جیسے بلندپایہ محدثین شامل ہیں۔ حافظ ذہبی ان کی شان میں کہتے ہیں۔
کان امامابلامدافعۃ فی القراءۃ والحدیث والرجال والفرائض والشروط،عالمابفقہ ابی حنیفۃ والخلاف بینہ وبین الشافعی وعالمابفقہ الزیدیۃدیگر محدثین نے بھی ان کی تعریف اچھے لفظوں سے کی ہے لیکن چونکہ وہ مائل بہ اعتزال تھے اس لئے حافظ ذہبی نے اس جہت سے ان پر ناراضگی کااظہار کیاہے لیکن اس سے ان کی ثقاہت اوراتقان پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
امام اعظم کی صحابہ سے مرویات پر انہوں نے بھی ایک جزء تالیف کیاہے۔یہ جزء اگرچہ بعینہ موجود نہیں ہیں۔ لیکن جامع مسانید الامام الاعظ میں مسند حافظ ابن خسروکے حوالہ سے روایات ذکر کردی گئ ہیں۔
اسی طرح مشہور محدث ابومعشرعبدالکریم طبری نے بھی امام ابوحنیفہ کی صحابہ سے مرویات پر احادیث کو جمع کرنے کا اہتمام کیاہے۔ان کایہ جزء حافظ ابن حجر العسقلانی کی المعجم المفہرس اورحافظ ابن طولون دمشق کی الفہرست الاوسط کی مرویات میں داخل ہے۔
یہ بات قبل ازیں ذکر کی جاچکی ہے کہ حافظ عبدالقادرالقرشی جن کے شاگردوں میں حافظ عراقی بھی ہیں۔ انہوں نے بھی امام اعظم کی صحابہ کرام سے مرویات پر ایک جزء کی تالیف کی تھی۔ اس کے علاوہ ماقبل میں جن علماء کے بیانات اس تعلق سے ذکر کئے گئے کہ امام ابوحنیفہ نے حضرت انس کو دیکھاہے ۔ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اگر روایت ابن سعد نہ بھی ہوتی اورمحض ان اجلہ علماء کے بیانات ہوتے تویہ امام ابوحنیفہ کی تابعیت کے اثبات کیلئے کافی تھا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
ابوحنیفہ سے رابطہ کی کوشش جاری ہے
کہ
کوئی حیلہ بتائیں جس سے آپ کی تابعیت بھی ثابت ہو جائے
اور
ہم دونوں میں سے کوئی جھوٹا بھی نہ کہلا سکے
واہ سبحان اللہ
کیا کہنے ہیں طحاوی دوراں کے
کسی بھی بات کی دلیل نہیں
بلا سند اقوال
بے بنیاد باتیں
لیکن بسند صحیح اپنے ہی امام کے ایک قول سے اغماض
جمشید میاں !
کہیں امام صاحب کا قول چھوڑ کر آپ تقلید سے تو ہاتھ نہ دھو رہے
خیال کیجئے گا ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اعتدال سے جب بھی باہر کوئی چیز نکلتی ہے تووہ مذموم بن جاتی ہے اوریہیں سے شدت پسندی پیداہوتی ہے۔ملک اوروطن سے محبت اگرفطری حدود میں ہو توکوئی مضائقہ نہیں لیکن یہ چیز حد سے تجاوز کرجائے تو وطن پرستی اورمذہب کاکفن بن جایاکرتی ہے۔
بس یہی بات حسین احمد مدنی دیوبندی کو علامہ محمد اقبال نے بھی سمجھانا چاہی تھی :
عجم ہنوز نہ داند زموز دیں ورنہ
زدیوبند حسین احمد این چہ ابو العجمی است
سرور د، بر سر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبرز مقام محمد عربی است
بہ مصطفیٰ بر ساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام ابو لہبی است
کسی شخصیت سے محبت میں بھی اعتدال ہوناچاہئے اورنفرت میں بھی ۔
جمشید میاں ! آپ نے بلکل درست فرمایا، وگرنہ حنفیوں نے تو اپنے امام اعظم کی محبت اور بغض مخالف میں مندرجہ ذیل راوات کو گڑھا ہے!
قال الحاكم من أفحش ما وضع ، روايته عن شيخ ، عن الفضل بن موسى ، عن محمد بن عمرو ، عن أبي سلمة ، عن أبي هريرة ، رفعه : " يكون في أمتي رجل ، يقال له أبو حنيفة ، هو سراج أمتي ، ويكون في أمتي رجل ، يقال له محمد بن إدريس ، فتنته أضر من فتنة إبليس " .
تاريخ الإسلام الذهبي » الطبقة الثانية والثلاثون » سنة تسع عشرة وثلاث مائة » حرف الميم
اور حد تو یہ ہے کہ ایسی واہی گڑھی ہوئی روایات کو آج تک بیان کرتے ہیں اور حنفیہ کی جاہل عوام تو رہی عوام علماء کہلوانےوالے بھی ہمہ وقت "سراج امتی " کا راگ الاپتے رہتے ہیں!
کسی بات کی نسبت قائل تک صحیح طورپر ثابت ہو ۔اس کا مطالبہ کرنا اچھی بات ہے اورمستحسن امر ہے لیکن اس میں بھی اعتدال کے مراتب اورحداد کا خیال رکھنااز حد ضروری ہے کہ کس امر کیلئے کیسااورکون ساثبوت طلب کیاجائے۔ اوربے اعتدالی میں مبتلاہوکر اس کے حدود کوپامال کرنا نامناسب امر ہے۔
جمشید میاں! بہت اعلیٰ بات کہی ہے آپ نے! حالانکہ آپ (حنفی) جانتے ہیں پھر بھی احادیث جو صحیح ثابت ہوتی ہے، اسے آپ صحیح تسلیم بھی کرتے ہیں، مگر بھی نہ جانے کیوں ان احادیث کو عقیدے میں قبول کرنے کے لئے متواتر کی شرط لگا کر بے اعتدالی میں مبتلا ہوتے ہیں اور حدود کو پامال کرتے ہوئے اس نا مناسب امر کا مظاہرہ کرتے ہیں!
قران کریم رہتی دنیا تک انسانیت کی ہدایت کیلئے اللہ نے نازل کیاہے لہذا اس کے ثبوت اورصحت کا اس قدراہتمام کیاہے کہ اسے ہردور میں اس قدرتواتراوراتنے جم غفیر نے روایت کیاہے کہ جس کے بعد کوئی شک باقی نہیں رہتا۔احادیث کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہوا۔
بس یہ ہی انکار حدیث کی پہلی سیڑھی ہے، جس میں یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ معاذاللہ احادیث رسول اللہ ﷺ میں جو دین کے امور بیان کئے گئے ہیں وہ محفوظ نہیں۔ اور جیسے کہ صرف قرآن ہی رہتی دنیا تک انسانیت کی ہدایت کیلئے نازل کیا ہے! اور رسول اللہ ﷺ نے جو دین کے امور اپنی احادیث میں بتلائے ہیں وہ رہتی دنیا تک انسانیت کی ہدایت نہیں ہے!
مگر فقہاء احناف نے جو اپنی عقل کے اٹکل پچھو لگائے ہیں، وہ رہتی دنیا تک !!!!
اللہ تعالیٰ ہمیں اس فتنہ انکار حدیث سے محفوظ رکھے! آمین
کچھ احادیث متواتر ہیں لیکن بیشتراحادیث خبر آحاد ہیں لہذا ان کی نسبت وہ یقین نہیں ہوسکتاجوقران پاک کی بہ نسبت ہے۔
جمشید میاں! یہ یقین تو انہیں ہی حاصل ہوتا ہے جسے اللہ توفیق دے! اور وہ ہر اس بات پر ایمان لاتا ہے جو رسول اللہ ﷺ سے صحیح ثابت ہو۔ اور جس کو یہ توفیق نہ دے وہ پھر حجت بازیاں کرتا ہے کہ یہ صحیح تو ہے مگر متواتر نہیں، اور " غیر فقہ" صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔ خیر نہ ماننے والی کی حجتیں ختم نہیں ہوتی۔
جمشید میاں ! ایک بات اچھی طرح ذہین نشین کر لیں، جب اہل السنۃ والجماعۃ کسی حدیث کو صحیح تسلیم کرتے ہیں تو اس پر یقین بھی کرتے ہیں، پھر ان کے یقین کی راہ میں یہ شیطانی حجت بازیاں حائل نہیں ہوتی۔
یہ حجت بازیاں صرف اہل الرائے کی ہی میراث ہیں۔
پھراحادیث میں خود اجلہ محدثین نے فضائل اعمال اورشرعی احکام اورحلال وحرام کے معاملات میں تفریق کی ہے کہ فضائل میں تھوڑی ڈھیل برتی ہے اورحلال وحرام میں سختی سے کام لیاہے۔
تھوڑی ڈھیل صرف بیان کرنے میں برتی ہے، اس سے استدلال کرنے پر نہیں۔ کسی بھی معالے میں استدالال کرنے کے لئے حدیث کا صحیح ہونا بنیادی شرط ہے، اور اس میں کسی قسم کی کوئی ڈھیل نہیں!!
اسی طرح مزید غوروفکر سے کام لیں توتاریخی واقعات اورغزوات کے باب میں محدثین نے مزید نرمی سے کام لیاہے اوراس سلسلے میں واقدی جیسے روات پر بھی اعتبار کیاہے۔مزید غورکریں گے توپتہ چلے گاکہ خود اسماء الرجال کے فن میں بھی وہ سختی نہیں برتی گئی جوحدیث پاک کے سلسلے میں ہے۔
اگر ہمارے طحاوی دوراں کو مذکورہ بالا عبارت سمجھ میں آجائے تو وہ خود بھی ایک بار تو مسکرا ہی دیں گے! اب ان سے کوئی پوچھے کہ اسماء الرجال کے فن میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں، کیا وہی کتابیں حدیث کے رجال کو متعلق نہیں!! باالفاظ دیگر، اسماء الرجال کے فن میں جو کچھ برتا گیا ہے وہی حدیث پاک کے سلسلے میں ہے!!
پڑیں پتھر عقل ایسی پہ کہ تم سمجھو تو کیا سمجھو
یعنی حدیث کا کوئی ٹکرااگر دوسرے روات کے بیان سے مختلف ہے تواسے شاذ اورمنکر کہاگیالیکن اگرایک امام جرح وتعدیل سے کئی روات کسی شخص کے بارے میں کلام نقل کرتے ہیں تو وہاں اس دقت نظر کا ثبوت نہیں دیاگیاجتناکہ احادیث میں برتاگیاہے۔
یہ اب آپ کی کم علمی ہو! یا کج فہمی! جو چاہے وہ کہو! شاذ اور منکر حدیث کی صحت پر احکامات کی اصطلاحات میں سے، اب یہ لازم نہیں کہ دیگر امور میں بھی ان اصطلاحات یا اس طرح کی اصطلاحات کا استعمال لازم ہے! ہاں مگر کسی کے قول کو قبول یا رد کرنے کے اصول وہ ہی ہیں جو اصول حدیث کے ہیں!
یہ ثبوت اوراثبات کی فطری ترتیب ہے۔
جمشید میاں! آپ بھی اپنے اکابرین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، اپنی عقل کے اٹکل پچھو لگا کر، قرآن کی آیت کے عمومی حکم کے منکر ہورہے ہیں!
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَكُمۡ فَاسِقٌ ۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِيۡبُوۡا قَوۡمًا ۢ بِجَهَالَةٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰى مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِيۡنَ‏ ﴿سُوۡرَةُ الحُجرَات۶﴾
اے ایمان والو اگر کوئی شریر آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لاوے تو خوب تحقیق کرلیا کرو کبھی کسی قوم کو نادانی سے کوئی ضرر نہ پہنچادو پھر اپنے کئے پر پچتانا پڑے۔ ( ترجمہ اشرف علی تھانوی)
جمشید میاں ! آپ کی بیان کردہ "ثبوت اوراثبات کی فطری ترتیب ہے" قرآن کے برخلاف ہے!
اگرکوئی شخص چاہے کہ احادیث وسنن کے سلسلے میں بھی وہی صحت سند درکار ہو جو قرآن پاک کی ہے تویہ اس کے بیمار ذہن اورعقل کی علامت ہوگی ۔
جمشید میاں! یہ حجت بازی تو فقہ حنفیہ میں آپ کے فقہاء نے کی ہے کہ خبر آحاد قرآن کی طرح متواتر نہیں اس لئے ان سے عقیدہ میں دلیل نہیں مانتے!! یہ بات آپ نے صحیح کہی کہ فقہاء احناف کی یہ حجت بازیاں ان کے بیمار ذہن اور عقل کی علامت ہیں!
اسی طرح جب کچھ لوگ کسی شخصیت کے فضائل اورکمالات کے تعلق سے بخاری اوراحادیث جیسی صحت سند کا مطالبہ کرتے ہیں تویہ ان کی ائمہ اعلام کی کتابوں اوراس میں درج ترتیب اورطریقہ کار سے ناواقفیت کی نشانی اوردلیل ہوتی ہے۔
جمشید میاں! سند بخاری کی سند کی طرح ہو یا نہ ہو، اس سند کا صحیح ہونا لازم ہے، اور انہیں اصولوں کے مطابق جو اصول حدیث میں ہیں! اس کی دلیل دوبارہ لکھ دیتا ہوں:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ جَآءَكُمۡ فَاسِقٌ ۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوۡۤا اَنۡ تُصِيۡبُوۡا قَوۡمًا ۢ بِجَهَالَةٍ فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰى مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِيۡنَ‏ ﴿سُوۡرَةُ الحُجرَات۶﴾
اے ایمان والو اگر کوئی شریر آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لاوے تو خوب تحقیق کرلیا کرو کبھی کسی قوم کو نادانی سے کوئی ضرر نہ پہنچادو پھر اپنے کئے پر پچتانا پڑے۔ ( ترجمہ اشرف علی تھانوی)
قرآن کے اس حکم میں تخصیص آپ کی عقل کے اٹکل پچھو سے نہیں ہوگی!!
اگر آپ اس میں تخصیص کے قائل ہیں تو دلیل پیش کریں، اور فقہ حنفیہ کی رو سے قرآن کی آیات کے حکم میں تخصیص صرف قرآن کی آیت یا متواتر حدیث سے ممکن ہے!!
تابعیت تو دور کی بات ہے ۔ضعیف روایت سے کسی کا رسول پاک کو دیکھنااوران کی صحبت میں رہناثابت ہوجاتاہے جیساکہ حافظ ابن حجر نے الاصابہ میں تصریح کی ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
القسم الاول فیمن وردت صحبتہ بطریق الروایۃ عنہ اوعن غیرہ سواء کانت الطریق صحیحۃ او حسنۃ اوضعیفۃ او وقع ذکرہ بمایدل علی الصحبۃ بای طریق کان ۔(الاصابہ فی تمییز الصحابۃ 1/12)پھراس کے بعد انہوں نے عہد حضور میں ولادت کو صحابیت کی دلیل بنایاہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔

القسم الثانی من ذکر فی الصحابۃ من الاطفال الذین ولدو ا فی عھدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم لبعض الصحابۃ من النساء اوالرجال ممن مات صلی اللہ علیہ وسلم وھوفی دون سن التمییز ،اذ ذکر اولئک فی الصحابۃ انماھوعلی سبیل الالحاق لغلبۃ الظن علی انہ صلی اللہ علیہ وسلم راھم لتوفر دواعی اصحابہ علی احضارھم اولادھم عندہ عندولادتھم لیحنکھم ویسمیھم ویبرک علیھم والاخباربذلک کثیرۃ شھیرۃ۔(نفس المصدر)

حضورپاکؐ کے پاس نومولود بچوں کویقینالایاجاتاہے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم تحنیک کرتے اان کانام رکھتے اوربرکت کی دعائیں دیاکرتے تھے۔ بعض ایسے بھی بیانات منقول ہیں جیساکہ ابن حجر نے ذکر کیاہے کہ اس عہد میں یہ دستور تھاکہ بچوں کو حضورکے پاس لایاجاتاتھا لیکن اسمیں تخلف عین ممکن ہے۔ صحابہ کرام حضور پاک کے جتنے عاشق صادق تھے ان کی ہمیشہ کوشش ہوتی تھی کہ کسی بہانے سے حضور کی زیارت کا موقع ملے حضور ان کے مسکن اورگھر کو رونق بخشیں ۔لیکن حضرت عبدالرحمن بن عوف نے اپنی شادی میں مدعو نہیں کیاتھا۔پھر یہ کہ بچوں کوحضور پاک کی خدمت میں لانے کی بات تسلیم کی جائے تو یہ صرف مدینہ اورچند قریبی بستیوں تک محدود ہوگا ۔وہ بستیاں جو مدینہ سے دور تھیں مثلامکہ معظمہ،طائف،یمن اوردوسری دوردراز جگہین ۔وہاں کے بچے کس طرح آسکتے ہوں گے۔

پھر حافظ ابن حجر نے امام شافعی کو تبع تابعین میں شامل کیاہے جب کہ ایک بھی روایت صحیحہ ایسی پیش نہیں کی جاسکتی جس سے پتہ چلے کہ ان کی کسی تابعی سے ملاقات ثابت ہے۔
یہ تمام امور یہ واضح کرتی ہیں کہ تابعیت کے انکار میں سند صحیح کا جوزورلگایاجارہاہے وہ علم اورتحقیق سے کوسوں دور ہے۔
جمشید میاں! ہم جانتے ہیں کہ مقلدین احناف اپنے امام اعظم کی طرح علم الحدیث میں یتیم و مسکین ہوا کرتے ہیں۔ آپ کو اتنی سی بات سمجھ نہیں آتی کہ کسی کا تابعی ثابت ہونا اس کی صحابہ سے روایات کی سند کو متصل ثابت کرتا ہے۔ اور یہ بات صرف فضیلت پر محمول نہیں۔
آپ فضیلت کے حوالے سے تھوڑی ڈھیل کا بہانہ بنا کر پوری چھٹی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
آپ کے امام اعظم کی وہ تمام مرویات جو انہوں نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے روایات کی ہیں،ان تمام میں آپ کے امام اعظم کے بعد کی سند سے قطع نظر آپ کے امام اعظم سے صحابہ رضی اللہ عنہم تک منقطع ہے۔ اور آپ کے امام اعظم کے تابعی ثابت ہونے سے ان کی ان صحابہ سے روایات کا انقطاع رفع ہو جائے گا، جن سے ملاقات اور سماع ثابت ہو! سمجھے میاں جمشید صاحب!!
لہذا یہ بات صرف فضیلت کی نہیں!! یہ احادیث کی صحت کا معاملہ بھی ہے!!
اورمقصد شاید علمی تحقیق نہیں بلکہ امام ابوحنیفہ کی ضد اورمخالفت ہے۔خیراس چیز نے ماضی میں بھی بہت سے لوگوں کوبرباد کیاہے۔حال میں بھی برباد ہورہے ہیں اورآئندہ بھی ہوں گے ۔نہ ماضی کی کوششوں سے امام عالی مقام پر کچھ اثرپڑاہے اورنہ ہی حال کی کوششوں سے کچھ اثرمرتب ہونے والاہے۔
اس کا مقصد ابھی پچھلے پیراگراف میں بیان کیا ہے۔
جمشید میاں! ماضی میں بھی شیطان کا رد کیا گیا، آج بھی کیا جا رہا ہے اور آئندہ بھی کیا جاتا رہاگا۔ نہ ماضی کی کوششوں سے شیطان پر کچھ اثر پڑا ہے اور نہ ہی حال کی کوششوں سے کچھ اثر مرتب ہونے والا ہے!! جیسا کہ عیسائیت بھی عیسیٰ علیہ السلام کے نزول تک رہے گی۔ ممکن ہے فقہ حنفیہ بھی اسی طرح رہے، مگر عیسی ٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد کسی فقہ حنفیہ کا وجود یقیناً ختم ہو جائے گا، اور رہے گا صرف فقہ اہل الحدیث۔جو شریعت محمدی ﷺ ہے!
امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی تابعیت کے سلسلہ میں جہاں تک بات روایت کی اوراس کی صحت کی ہے تو حافظ ذہبی نے صراحتاکہہ دیاہے کہ انہ صح(مناقب امام ابی حنیفۃ وصاحبیہ)،اورحافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ بسند لاباس بہ (تبییض الصحیفۃ) تودوحفاظ حدیث اگرکسی سند کو صحیح ٹھہرارہے ہیں تویہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کے پاس اس سلسلے کی تمام رواۃ کی معلومات بہم تھیں۔
جمشید میاں ! جب دو کیا کئی حفاظ حدیث آپ کے امام اعظم کو مرجئی کہتے ہیں تو اس وقت آپ یہ بات تسلیم کیوں نہیں کرتے، جب کہ وہاں کشید کردہ علامت نہیں بلکہ دلائل و قرائین موجود ہیں۔
جمشید میاں! اس کو علامت نہیں کہا جاتا! اب آپ کہو گے کہ جب کوئی محدث کسی حدیث کو صحیح کہتا ہے تو یہ اس بات کی علامات ہے کہ ان کے پاس اس سلسلے کی تمام راوۃ کی معلومات بہم تھیں۔ اب خواہ اس کی سند کا ضعف دلائل سے ثابت بھی کردے ، جمشید میاں اسے "دوحفاظ حدیث اگرکسی سند کو صحیح ٹھہرارہے ہیں تویہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کے پاس اس سلسلے کی تمام رواۃ کی معلومات بہم تھیں۔"
دلائل کے مقابلے میں کسی بھی محدث کی تصحیح و تضعیف کو اس محدث کی خطا کہا جاتا ہے!!
سیف بن جابر کے احوال سے اگرہم لاعلم ہیں تویہ کیسے لازم آیاکہ حافظ ذہبی جنہوں نے اس روایت کی تصحیح کی ہے اورحافظ ابن حجر جنہوں نے اس روایت کو بسند لاباس بہ کہاہے وہ بھی اس سے لاعلم ہوں گے۔ زیادہ سے زیادہ جوبات کہی جاسکتی ہے وہ یہ موجودہ کتب جرح وتعدیل میں اس راوی کے تعلق سے ہمیں کچھ نہیں ملتا۔ تویہ جانناچاہئے کہ اولاتو جرح وتعدیل اورطبقات ورجال کی تمام کتابیں ہماری دسترس میں نہیں ہیں۔ بہت سی ایسی کتابیں جوکہ امتداد زمانہ اورگردش ایام کے ہاتھوں دست برد ہوگئیں اوربہت سی ایسی کتابیں ہیں جوکتب خانوں کے نیم تاریک کمروں میں کسی محقق کی منتظر ہیں۔اس بناء پر کسی شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی لاعلمی اورجہالت کو بحث واستدلال میں حجت بنائے۔
جمشید میاں ! اسی طرح کے اٹکل پچھو کا مظاہرہ آپ کے یوسف بنوری صاحب نے "معارف السنن شرح سنن الترمذي" میں بھی کیا ہے۔ ان کی بحث کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ:
مقلدین احناف جو عشاء کے فرض سے قبل جو "4رکعات سنت غیر مؤ کدہ" پڑھتے ہیں ، وہ کسی حدیث سے ثابت نہیں ، اور فقہ حنفیہ کی کتب اس سے بھری پڑی ہیں۔ اس اعتراف کے بعد فرماتے ہیں کہ جس نے ہماری دلیل تلاش کرنی ہو تو ہوسکتا ہے کہ وہ ان کتابوں میں ہو جو ضائع ہو گئی، یا کی کے پاس کہیں کوئی قلمی نسخہ ہو!
اور میاں جمشید! جیسا کہ آپ نے کہا ہے "تویہ جانناچاہئے کہ اولاتو جرح وتعدیل اورطبقات ورجال کی تمام کتابیں ہماری دسترس میں نہیں ہیں۔ بہت سی ایسی کتابیں جوکہ امتداد زمانہ اورگردش ایام کے ہاتھوں دست برد ہوگئیں اوربہت سی ایسی کتابیں ہیں جوکتب خانوں کے نیم تاریک کمروں میں کسی محقق کی منتظر ہیں۔اس بناء پر کسی شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی لاعلمی اورجہالت کو بحث واستدلال میں حجت بنائے۔"
پھر تو یہ ان کتابوں میں یہ بھی ممکن ہے کہ تمام ضعیف روات کو توثیق درج ہو اور تمام ثقہ روات کی تضعیف!! اور ممکن ہے آپ کے امام اعظم کو اور مرجئی کے علاوہ اور بھی دیگر القبات سے نوازا گیا ہو!! تو کیا خیال ہے !!
آپ اپنی عقل کے اٹکل پچھو لگا کر علم الجرح و تعدیل سے چھٹکارا حاصل کرنے کی لا حاصل سعی کر رہے ہیں میاں جمشید!
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
اگرایک شخص کو یہ کہنے کا حق ہے کہ ہمیں چونکہ اس راوی کے بارے میں معلومات نہیں ہیں۔ اس لئے ہم اس سند کو مجہول روات کی وجہ سے ضعیف سمجھیں گے تواگراس کے مقابلہ میں دوسراکہتاہے کہ جب دوحفاظ حدیث نے جو صرف حدیث کے حافظ ہی نہیں بلکہ نقد رجال کے ماہر بھی ہیں انہوں نے اس روایت کی تصحیح وتحسین کی ہے توہم بھی اس سند کو قابل استدلال مانیں گے توکیایہ بات سرے سے قابل تسلیم ہی نہیں ہوگی ؟اوراس قابل ہوگی کہ اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیاجائے۔
جمشید میاں! ان دو حفاظ حدیث سے مجہول روات کی توثیق طلب کی جائے گی، اگر توثیق مل جائے تو فبہا،اور اگر نہ مل پائے تو اسے ضعیف روایات کی ٹوکری میں دال دیا جائے گا۔ یہ ہی اصول ہے۔ آپ اپنی فقہ کے اصولوں میں تو جو چاہے کرو، لیکن علم الجرح والتعدیل میں آپ کی من مانی نہیں چل سکتی!!
آخر ہم دوسرے روات کے بارے میں بھی تودیگر محدثین کے بیانات پر ہی انحصار کرتے ہیں اورانہی کے بیانات پر اطمینان قلب نصیب ہوتاہے تویہاں دوحافظ حدیث کی کسی سند کی تحسین وتصحیح پر اطمینان ہوتاہے تواس میں چیں بجبیں ہونے کی کیابات ہے؟
جب کسی بھی محدث کی تصحیح کے برخلاف دلائل موجود ہوں تو ان کی تصحیح کو خطا قرار دیا جاتا ہے!!
آپ کو علم الحدیث و علم الجرح و التعدیل سے اتنی تکلیف کیوں ہوتی ہے! کہ یہ چیں بجیں کرنے لگ جاتے ہو!!
پھربات یہیں تک منحصر نہیں ہے ۔حافظ دارقطنی جوانکار تابعیت میں پیش قدم ہیں۔ ان سے پیشتر حافظ حدیث ابن کاس نخعی نے جوبڑے پایہ کے محدث گزرے ہیں۔ انہوں نے یہ تصریح کی ہے۔
من فضائلہ انہ روی عن اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فان العلماء اتفقواعلی ذلک واختلفوفی عددھم فمنھم من قال انہم ستۃ وامراۃ ومنھم من قال سبعۃ وامراۃ۔(رسالہ فی مناقب الائمۃ الاربعۃ ،قلمی مخطوط کتب خانہ عارف حکمت نمبر252،(کتاب التواریخ )یہ رسالہ حسین بن حسین احمد الطولونی کی تصنیف ہے جو حافظ زین الدین قاسم بن قطلوبغا کے شاگرد ہیں)
دیکھئے ۔یہاں ابن کاس کے بیان سے پتہ چلتاہے کہ ان کے دور تک اس بات میں کوئی اختلاف نہیں تھاکہ امام ابوحنیفہ نے نہ صرف صحابہ کرام کی زیارت کی ہے بلکہ ان سے روایت بھی کی ہے۔
یہ رسالہ تو مجھے میسر نہیں آیا، آپ اس رسالہ کا قلمی نسخہ سکین کرکے اس کی سند حسن بن حسین احمد الطولونی تک کے ساتھ ہم تک پہنچا دیں، تاکہ اس کا جواب بھی دیا جا سکے!
بات صرف ابن کاس نخعی کی نہیں ہے بلکہ دارقطنی کے ایک اوراستاذ حدیث ابوحامد حضرمی ہیں۔ ان کی تاریخ وفات مین اختلاف ہے ۔تاریخ بغداد میں خطیب نے خود ان کا بیان نقل کیاہے کہ میں225میں پیداہوا۔بعض دیگر علماء نے ان کی تاریخ ولادت230بیان کی ہے۔یہ بڑے پایہ کے محدث تھے ۔صحاح ستہ کے مولفین کے ہم عصر ہیں۔ دارقطنی اوردیگر کبارمحدثین ان کے شاگردوں میں ہیں۔ ان کا انتقال محرم321میں ہوا۔
انہوں نے امام اعظم ابوحنیفہ کے صحابہ کرام سے روایت کو ایک جزء میں جمع کیاتھا۔ان کا جزء حافظ ابن حجر عسقلانی کی المعجم المفہرس اورحافظ ابن طولون دمشقی متوفی953کی الفہرست الاوسط میں داخل ہے۔(ابن ماجہ اورعلم حدیث118)
ایک بار پھر بتلا دوں ، کسی بھی کتاب میں کسی کی جمع کردہ بھی ، وہ تمام روایات جو آپ کے امام اعظم کسی صحابی سے روایت کریں، وہ آپ کے امام کے بعد کی سند سے قطع نظر آپ کے امام سے "ایک ضعیف راوی کی منقطع روایات ہیں"
حافظ ابوسعد سمان حافظ دارقطنی سے زمانی طورپر قریب ہیں۔ ان کا نام اسماعیل،ابوسعد کنت سمان کی نسبت سے مشہور ہیں۔ ان کی ذات جامع العلوم تھی۔ یہ فقیہہ ،مورخ،اصولی، لغوی اورمشہور حافظ حدیث ہیں۔حافظ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں ان کا مبسوط ترجمہ لکھاہے جس کی ابتداء ان الفاظ سے ہوتی ہے۔

الحافظ الکبیر المتقن
ان کے شیوخ حدیث کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ طلب حدیث میں انہوں نے شہروں کی خاک چھانی ۔حافظ ابن عساکر نے ان کی شیوخ کی تعداد تین ہزار چھ سوبیان کی ہے۔یہ بیک واسطہ محمد بن ہارون حضرمی کے بھی شاگرد ہیں۔ حافظ ابوسعد سمان کے شاگردوں مین خطیب بغدادی، عبدالعزیز کتانی، طاہر بن الحسین، ابوعلی الحداد جیسے بلندپایہ محدثین شامل ہیں۔ حافظ ذہبی ان کی شان میں کہتے ہیں۔
کان امامابلامدافعۃ فی القراءۃ والحدیث والرجال والفرائض والشروط،عالمابفقہ ابی حنیفۃ والخلاف بینہ وبین الشافعی وعالمابفقہ الزیدیۃدیگر محدثین نے بھی ان کی تعریف اچھے لفظوں سے کی ہے لیکن چونکہ وہ مائل بہ اعتزال تھے اس لئے حافظ ذہبی نے اس جہت سے ان پر ناراضگی کااظہار کیاہے لیکن اس سے ان کی ثقاہت اوراتقان پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
امام اعظم کی صحابہ سے مرویات پر انہوں نے بھی ایک جزء تالیف کیاہے۔یہ جزء اگرچہ بعینہ موجود نہیں ہیں۔ لیکن جامع مسانید الامام الاعظ میں مسند حافظ ابن خسروکے حوالہ سے روایات ذکر کردی گئ ہیں۔
ایک اور بار بتلائے دیتا ہوں : کسی بھی کتاب میں کسی کی جمع کردہ بھی ، وہ تمام روایات جو آپ کے امام اعظم کسی صحابی سے روایت کریں، وہ آپ کے امام کے بعد کی سند سے قطع نظر آپ کے امام سے "ایک ضعیف راوی کی منقطع روایات ہیں"
اسی طرح مشہور محدث ابومعشرعبدالکریم طبری نے بھی امام ابوحنیفہ کی صحابہ سے مرویات پر احادیث کو جمع کرنے کا اہتمام کیاہے۔ان کایہ جزء حافظ ابن حجر العسقلانی کی المعجم المفہرس اورحافظ ابن طولون دمشق کی الفہرست الاوسط کی مرویات میں داخل ہے۔
جب جب آپ اس طرح کی حجت بازی کریں گے ہمارا وہی جواب آپ کو بار بار لکھا جائے گا کہ:
کسی بھی کتاب میں کسی کی جمع کردہ بھی ، وہ تمام روایات جو آپ کے امام اعظم کسی صحابی سے روایت کریں، وہ آپ کے امام کے بعد کی سند سے قطع نظر آپ کے امام سے "ایک ضعیف راوی کی منقطع روایات ہیں"
یہ بات قبل ازیں ذکر کی جاچکی ہے کہ حافظ عبدالقادرالقرشی جن کے شاگردوں میں حافظ عراقی بھی ہیں۔ انہوں نے بھی امام اعظم کی صحابہ کرام سے مرویات پر ایک جزء کی تالیف کی تھی۔
ایک بار پھر سہی: کسی بھی کتاب میں کسی کی جمع کردہ بھی ، وہ تمام روایات جو آپ کے امام اعظم کسی صحابی سے روایت کریں، وہ آپ کے امام کے بعد کی سند سے قطع نظر آپ کے امام سے "ایک ضعیف راوی کی منقطع روایات ہیں"
اس کے علاوہ ماقبل میں جن علماء کے بیانات اس تعلق سے ذکر کئے گئے کہ امام ابوحنیفہ نے حضرت انس کو دیکھاہے ۔ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اگر روایت ابن سعد نہ بھی ہوتی اورمحض ان اجلہ علماء کے بیانات ہوتے تویہ امام ابوحنیفہ کی تابعیت کے اثبات کیلئے کافی تھا۔
جمشید میاں! اب آپ امام ابو حنیفہ کا ذکر تورات میں مانو ، اور آپ کو اس کے اثبات کے لئے ایک من گھڑت وضع کردہ روایت ہی کافی ہو تو اس میں ہم کیا کر سکتے ہیں۔
اہل السنۃ والجماعۃ قرآن و حدیث سے اخذ شدہ اصول کے مطابق کسی بات کو تسلیم کرتے ہیں یا رد!! فتدبر !!

ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
شخصیت سے محبت میں بھی اعتدال ہوناچاہئے اورنفرت میں بھی ۔ِِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمشید بھائی کے اعتدال کے نمونے تقریبا ان کی ایک ماہ سے زائد محنت شاقہ پر محیط ہیں ۔۔۔اور کچھ دن وہ آرام کرکے یا بقول ان کے کسی مصروفیت سے واپس آتے ہی انہوں نے وہی سابقہ اعتدال کو بڑہانا شروع کردیا ہے لہذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ اعتدال پر ایک طائرانہ نظر کر لی جائے تاکہ آئند ہ اعتدال کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو سکیں ۔۔
( یہاں صرف سادہ سی باتوں اورجمشید بھائی کے قواعد وضوابط اور مواعیدکے حوالے سےہی چند معروضات ہیں ۔۔ باقی جو گہری باتیں ہیں ان کے حوالے سے اہل عمل اپنا دور نبھائیں گے ۔۔ )
بھائی جمشید صاحب ایک راوی کے حوالے سے بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
دوسرے یہ کہ وہ متکلمین کے مسلک کی جانب مائل ہوگئے تھ(سیر اعلام النبلاء) اس بناء پر محدثین کا غصہ ان پر اوربھڑک گیا۔ ورنہ یہ نہ ہوتاتوپھر محدثین وہ سارے احتمالات ذکر کرتے جو دوسرے روات میں کرتے ہیں۔
مزید فرماتے ہیں :
پھر سب سے بڑی بات یہ کہ ہم نے مان لیاکہ چلو حافظ ابن حجر اورحافظ ذہبی کا فیصلہ کہ فاسق رقیق الدین ،لیکن شروع سے ہی توایسامعاملہ نہیں تھا۔بعد میں ایساہوا۔توایک زمانے تک موصوف صحیح اورنیک اورثقہ تھے بعد میں ان میں تغیر آیا۔توپھر مطلقاکذاب کہناکس حیثیت سے ہے اوران کی تمام روایات کو ناقابل اعتبار ٹھہرانے کی کیادلیل بنتی ہے؟
ملاحظہ فرمائیں یہاں ذہبی اور ابن حجر سمیت دیگر محدثین سے شکوہ کیا جارہا ہے اور آگے جا کر جب کوئی بات بنتی محسوس نہیں ہوئی تو انہیں کے بارے میں موصوف کا ارشاد ملاحظہ فرمائیں :
امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی تابعیت کے سلسلہ میں جہاں تک بات روایت کی اوراس کی صحت کی ہے تو حافظ ذہبی نے صراحتاکہہ دیاہے کہ انہ صح(مناقب امام ابی حنیفۃ وصاحبیہ)،اورحافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ بسند لاباس بہ (تبییض الصحیفۃ) تودوحفاظ حدیث اگرکسی سند کو صحیح ٹھہرارہے ہیں تویہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کے پاس اس سلسلے کی تمام رواۃ کی معلومات بہم تھیں۔
مزید لکھتے ہیں :
سیف بن جابر کے احوال سے اگرہم لاعلم ہیں تویہ کیسے لازم آیاکہ حافظ ذہبی جنہوں نے اس روایت کی تصحیح کی ہے اورحافظ ابن حجر جنہوں نے اس روایت کو بسند لاباس بہ کہاہے وہ بھی اس سے لاعلم ہوں گے۔ زیادہ سے زیادہ جوبات کہی جاسکتی ہے وہ یہ موجودہ کتب جرح وتعدیل میں اس راوی کے تعلق سے ہمیں کچھ نہیں ملتا۔ تویہ جانناچاہئے کہ اولاتو جرح وتعدیل اورطبقات ورجال کی تمام کتابیں ہماری دسترس میں نہیں ہیں۔ بہت سی ایسی کتابیں جوکہ امتداد زمانہ اورگردش ایام کے ہاتھوں دست برد ہوگئیں اوربہت سی ایسی کتابیں ہیں جوکتب خانوں کے نیم تاریک کمروں میں کسی محقق کی منتظر ہیں۔اس بناء پر کسی شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی لاعلمی اورجہالت کو بحث واستدلال میں حجت بنائے۔
جمشید صاحب سے عرض ہے کہ حافظ جعابی والا معمہ حل کرنے کے بعد آپ کو یہ قاعدہ الہام ہوا ہے یا اس وقت اس کی ضرورت ہی نہیں تھی ؟؟؟
بلکہ یہاں تو آپ کا قاعدہ قلا بازیاں کھاتا ہوا نظر آرہا ہے کہ :
جن مصادر کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ نے جعابی کے لیے عذر تلاش کیا ہے وہ ذہبی اور ابن حجر کو نہیں مل سکے تھے .. اسی لیے انہوں نے جرح تو کردی لیکن یہ عذر بیاں نہ کیا کہ :
لیکن شروع سے ہی توایسامعاملہ نہیں تھا۔بعد میں ایساہوا۔توایک زمانے تک موصوف صحیح اورنیک اورثقہ تھے بعد میں ان میں تغیر آیا
ذرا اس عبارت کے مصادر کے نام ضرور ذکر کریں .. جو ابن حجر اور ذہبی کو چھوڑتے ہوئے ... اور اس سے بھی بڑی بات کہ آپ کے قاعدے کی مخالفت کرتے ہوئے آپ تک پہنچے ہیں ....
بہر صورت پتہ نہیں اب سیف بن جابر کے بارے میں آپ کی رائے ٹھیک ہے یا پھر جعابی کے بارے میں آپ کا اجتہاد درست ہے ؟
ذرا اس حوالے سے بھی ایک قاعدہ ارشاد فرما دیں کہ ذہبی اور ابن حجر رحمہما اللہ کی بات کہاں کہاں یا کن حالات میں قابل حجت ہے ؟ ؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جمشید بھائی نے 29 علماء کا ذکر کیا کہ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تابعیت کے قائل ہیں .. اس پر ابو الحسن علوی صاحب حفظہ اللہ نے یہ تبصر ہ کیا کہ :
جن اہل وعلم نے بھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے لکھا ہے کہ انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھا تھا تو وہ اہل علم تو یہ بات دو، تین، چار سو سال بعد بتلا رہے ہیں۔ یہ اہل علم وہاں موجود نہیں تھے جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھ رہے تھے کہ ان کا قول کسی گواہی یا شہادت کے برابر سمجھتے ہوئے پیش کیا جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ان اہل علم سے سند صحیح کے ساتھ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے حضرت انس رضی اللہ کو دیکھنے کا ذکر ملتا ہو۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ کوئی دینی مسئلہ تو تھا نہیں کہ اس بارے اہل علم حضرات اس قدر حساس ہوتے جس قدر حدیث کے بیان میں حساسیت ہوتی ہے لہذا امکان غالب یہی ہے کہ جس طرح تاریخی قصوں کا ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہونا کسی سند کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ پہلوں کی کہی ہوئی بات ہی پر اعتماد کرتے ہوئے کسی بات کو آگے نقل کر دیا جاتا ہے۔ ائمہ کے مناقب میں بھی یہی کام ہوا ہے کہ لوگوں نے سنی سنائی تاریخ ہی آگے نقل کی ہے۔
آپ کے کل کلام میں یہ ایک روایت ایسی ہے جس کی بنیاد سند پر ہے اور اس کی سند کی تحقیق ممکن ہے بشرطیکہ کہ یہ روایت موجود ہو۔ طبقات ابن سعد مطبوع موجود ہے۔آپ اس سے اس روایت کو سند کے ساتھ تلاش کر کے یہاں بیان فرما دیں۔ اس روایت پر غور کیا جا سکتا ہے۔
تو جمشید بھائی نے یوں تعجب کا اظہار کیا :
تعجب کی بات یہ ہے کہ میں نے دلائل ذکر ہی نہیں کئے ۔لیکن ابوالحسن علوی صاحب دلائل پر گفتگوشروع کردے رہے ہیں۔ اس قدر پیش قدمی یاجلد بازی کی ضرورت سمجھ نہیں آئی۔
اس کے علاوہ اور بھی متعدد مرتبہ دلائل کا وعدہ فرمایا مثلا :
ویسے رفیق طاہر صاحب کو ذراصبر وتحمل رکھناچاہئے ۔ابھی تومولانارئیس ندوی صاحب کے مزعومات پر بات مکمل ہونے دیں۔ پھراس کے بعد برصغیر کے جن چند اہل علم نے امام ابوحنیفہ کی تابعیت کاانکار کیاہے اس کابھی ذکر ہوگا اورپھرآخر میں ہم انشاء اللہ اپنی بات اپنے دلائل کے ساتھ رکھیں گے۔
ایک اور جگہ یوں دعوی کرتے ہیں کہ :
امام صاحبؓ کی تابعیت ،رویت صحابی اورروایت صحابی کا کن حضرات نے اقرار کیاہے اس پر ہم آخر میں گفتگو کریں گے۔ پہلے منکرین دلائل کا ایک جائزہ لے لیاجائے۔
مطلب ایسی عبارات پیش کرتے رہے جس سے تأثر یہ دینےکی کوشش کرتے رہے کہ پتہ نہیں آخر میں کتنے دلائل کے انبار لگا دیں گے اور ہم بھی الیس الصبح بقریب کا ورد کرتے رہے اور انتظار کرتے رہے لیکن آنجناب تشریف لائے اور آتے ہی کمال کردیا کہ :
یہ تمام امور یہ واضح کرتی ہیں کہ تابعیت کے انکار(اثبات ) میں سند صحیح کا جوزورلگایاجارہاہے وہ علم اورتحقیق سے کوسوں دور ہے۔
سبحان اللہ ، سبحان اللہ مجھے تو شعر وغیرہ اتنے آتے نہیں جمشید بھائی اب خو د ہی اپنی اس فن کاری پر کوئی شعر یا حکایت منطبق کرلیں
کہ اتنے دنوں سے دلائل دلائل دلائل کے انبار کے عہدو پیمان کیے جارہےتھے بقرہ عید میں بقرہ کیساتھ وہ بھی قربان ہو گئے اور آخر میں آتے ہی حضور نے یہ مزدہ جانفزاں سنا دیا ہے کہ :
سند صحیح کا مطالبہ کرنا علم اور تحقیق سے کوسوں دور ہے ....
تو جناب علوی صاحب کے جواب میں آپ نے جو خامہ فرسائی کی تھی کہ :
تعجب کی بات یہ ہے کہ میں نے دلائل ذکر ہی نہیں کئے ۔لیکن ابوالحسن علوی صاحب دلائل پر گفتگوشروع کردے رہے ہیں۔ اس قدر پیش قدمی یاجلد بازی کی ضرورت سمجھ نہیں آئی۔
اس سے مراد کون سے دلائل ہیں ... اگر علماء کے اقوال ہی ذکر کرنے تھے تو وہ تو آپ اس وقت بھی ذکر کر چکے تھے .
اگر علماء کے اقوال بھی دلائل نہیں ہیں اور ’’ سند صحیح ‘‘ کا مطالبہ کرنا بھی علم و تحقیق سے کوسوں دور ہے تو پھر آپ نے اتنے دنوں میں کیا کارنامہ سرانجام دیا ہے ....
40 دن ضائع کرنے کے بعد اب مزید کس نیت سے دوبارہ میدان میں کود پڑے ہیں ...
عالی جناب ! ذرا اس حوالے سے بھی کوئی قاعدہ بیان کردیں .. .
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اتنے دن ضائع کرنے کے بعد کیا معصومانہ انداز میں لکھتے ہیں کہ :
محترم ابوالحسن علوی صاحب نے سنجیدہ انداز میں پوچھاہے کہ 40دن ہوگئے ہیں ۔
تو جناب گزارش ہے کہ علوی صاحب نے پوچھا نہیں بلکہ آپ کو یاد دلایا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ :
امید ہے جمشید صاحب اپنے دعوی کی کوئی دلیل جلد ہی پیش فرمائیں گے۔ میرے خیال میں تھریڈ شروع کرنے کے چالیس دن بعد اس کی دلیل طلب کرنا شاید جلد بازی میں شامل نہیں ہے۔
اسی طرح کہتے ہیں :
اب جب کہ سفرختم ہواہے انشاء اللہ کوشش کروں گاکہ تمام باتوں کے جوابات مکمل طورپر دے دیئے جائیں۔والسلام
دیکھ لیا ہے اور چلیں اب مزید دیکھ لیتے ہیں کہ اب آئندہ چالیس دن ( لا سمح اللہ ) میں کیا کرتے ہیں ؟
ویسے مذکورہ اقتباس میں جوابات کا لفظ بھی قارئیں کے لیے بڑی غنیمت ہے کہ جمشید بھائی اب صرف دلائل ہی نہیں جو ان پر اعتراضات ہیں ان کے جوابات بھی فراہم کریں گے ۔۔۔ اللّہم آمین ۔۔۔
ایک جگہ دلائل کےانبار میں اضافہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
پھر حافظ ابن حجر نے امام شافعی کو تبع تابعین میں شامل کیاہے جب کہ ایک بھی روایت صحیحہ ایسی پیش نہیں کی جاسکتی جس سے پتہ چلے کہ ان کی کسی تابعی سے ملاقات ثابت ہے۔
عرض ہےکہ یہ ان کی بدقسمتی ہے شاید کہ آپ جیسے اہل فن ان کے مقلدین میں نہیں ہیں ... ورنہ جسطر ح آپ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تابعیت کے ضمن میں دلائل کے انبار لگائے ہیں یہاں تو آپ بالأولی میدان جیت سکتے تھے ...
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
کل جمع پونجی اور اس کی حقیقت

جمشید بھائی لکھتے ہیں کہ :
امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی تابعیت کے سلسلہ میں جہاں تک بات روایت کی اوراس کی صحت کی ہے تو حافظ ذہبی نے صراحتاکہہ دیاہے کہ انہ صح(مناقب امام ابی حنیفۃ وصاحبیہ)،اورحافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ بسند لاباس بہ (تبییض الصحیفۃ)
یہاں سے معلوم ہوتا ہے بلہکہ آپ کی عبارت اعلان کررہی ہے کہ یہ آپ کی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تابعیت کےحوالے سے کل جمع پونجی ہے ... اور جس کی استنادی حیثیت کے بارے میں علماء کی کیا رائے ہے اس سے قطع نظر لیکن خود آپ اس کو کس درجہ تک صحیح سمجھتے ہیں آپ کے ان الفاظ سےواضح ہے :
سندصحیح کا جوزورلگایاجارہاہے وہ علم اورتحقیق سے کوسوں دور ہے۔
شروع شروع میں جب جمشید بھائی نے یہ روایت پیش کی تھی تو اس پر درج ذیل اعتراضات کیے گئےتھے (بتصرف ) ::
( ١ ) اس روایت کی سند میں سیف بن جابر راوی پر کتب جر ح و تعدیل خاموش ہیں . یعنی یہ راوی مجہول ہے ( حسب علمی )
( ٢ ) دوسری بات یہ کہ : ذہبی اور ابن سعد کے درمیان اتنی لمبی سند کہاں گئی ہے ؟
( ٣ ) تیسری بات یہ کہ اگر امام ابوحنیفہ کا امام اعظم اور تابعی ہونا معروف و مشہو رتھا تو اس طرح کے غیر معروف راویوں کی روایات کاسہارا کیوں لیا جاتا ہے .؟؟ امام ابوحنیفہ کے دور میں علماء کی ایک بڑی جماعت کوفہ میں رہی ہے ، ان میں سے کسی سے بھی یہ اتنا معروف و مشہور ( اگر واقعی ہے ) واقعہ کیوں نہیں بیان کیا جاتا ؟؟؟


ان میں سے صرف ایک اعتراض کا جواب دینے کی کوشش جمشید بھائی نے کی ہے باقی کو سرے سے چھیڑا ہی نہیں ... اور جواب کی حقیقت اور تو اور وہ خود بھی اچھی طرح جانتے ہوں گے...
جس وقت یہ اعتراضات کیے گئے تھے اس وقت ابھی جمشید بھائی کا یہ فرمان ذی شان سامنے نہیں آیا تھا کہ :

کہ تابعیت کے انکار میں سند صحیح کا جوزورلگایاجارہاہے وہ علم اورتحقیق سے کوسوں دور ہے۔
اب چونکہ انہوں نے قول فیصل داغ دیا ہے تو اس طرح کے اعتراضات کرنے فضول ہیں ...

آخر میں میں جمشید بھائی سےگزارش کروں گا کہ اگر آپ کے نزدیک امام ابوحنیفہ کی تابعیت کا ثبوت سند صحیح کا محتاج نہیں تو پھر آپ اتنا تنگ کیوں ہو رہے ہیں ، سیدھا سیدھا کہہ دیں کہ ہماری دلیل سند ( صحیح کی قید والابھی آپ
تکلف ہی کرتے ہیں ) نہیں بلکہ ہمیں کسی اور ذریعے سے اس کے بارے میں مصدقہ معلومات ہیں ... لہذا جو ان پر یقین رکھتا ہے وہ آپ کی موافقت کرلے گا ... اور جو ان سے اختلاف رکھتا ہے اس کا وقت بھی ضیاع سے بچ جائے گا ....
اور ویسے بھی سند کا تعلق تو محدثین کے ساتھ ہے جبکہ محدثین سے جمشید بھائی کی برہمی اس موضوع کے شروع میں ہی قابل ملاحظہ ہے مثلا ایک جگہ فرماتے ہیں :
دوسرے یہ کہ وہ متکلمین کے مسلک کی جانب مائل ہوگئے تھ(سیر اعلام النبلاء) اس بناء پر محدثین کا غصہ ان پر اوربھڑک گیا۔ ورنہ یہ نہ ہوتاتوپھر محدثین وہ سارے احتمالات ذکر کرتے جو دوسرے روات میں کرتے ہیں۔
لیکن خدشہ ہے کہ محدث فورم پر شاید آپ کو ایسے خیالات کی پذیرائی کا موقع نںن دیا جائے گا .. ( واللہ أعلم )
اور اس کے لیے آپ کو کسی ایسی جگہ کی تلاش کرنی پڑے گی جہاں کے منتظمین نے بچپن سے ہی یہ بات یاد کی ہوتی ہے کہ :
کل نص یخالف ما علیہ أصحابنا فہو إما مؤول أو منسوخ . ( مفہوم )
اور اسی طرح :
فلعنۃ ربنا أعداد رمل علی من رد قول أبی حنیفۃ . ( مفہوم )
ہدانا اللہ و إیاکم ... و أرجو اللہ لنا و لکم التوفیق والسداد
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
حضرت عائشہ بنت عجرد رضی اللہ عنہا
ابن معین نے حضرت عائشہ بنت عجرد سے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت کی بات کہی ہے۔اس سلسلے میں ابن معین کہتے ہیں۔
ان اباحنیفۃ صاحب الرای سمع عائشہ بنت عجرد رضی اللہ عنہاتقول سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اکثرجنداللہ فی الارض الجراد لاآکلہ ولااحرمہ ۔(کتاب التاریخ والعلل )
ان کی صحابیت کے بارے میں کچھ حضرات نے شک کااظہار کیاہے لیکن ان کا یہ شک امام ابن معین کے مقابلے میں جو شک کرنے والوں سے زیادہ اعلم ،اتقن اورمتقدم ہیں۔حجت نہیں بن سکتا۔جب کہ خودابن معین عائشہ بنت عجرد کے صحابیہ ہونے کے قائل ہیں۔جیساکہ حافظ ذہبی نے تجریداسماء الصحابہ میں ذکر کیاہے۔یہ اور بات ہے کہ حافظ ذہبی اس کو ابن معین کا تفرد اورشذوذ قراردیتے ہیں اوردارقطنی کے بیان پر ان کو زیادہ اعتماد ہے۔اس بارے میں علامہ ابوتراب رشداللہ سندھی صاحب العلم الرابع نے اپنی کتاب الاعلام برواۃ الامام میں حضرت عائشہ بنت عجرد کی صحابیت پر محققانہ گفتگو کی ہے اس کو ہم ذیل میں نقل کردیتے ہیں۔
"عائشہ بنت عجرد رضی اللہ عنہا سے امام ابوحنیفہ نے براہ راست بھی روایت کی ہے اوروہ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں اوعثمان بن راشد کے واسطے سے بھی ان کی روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہے۔حافظ ذہبی نے میزان میں ان کا ذکر کیاہے اورکہاہے کہ یہ معروف نہیں ہیں۔ دارقطنی کہتے ہیں کہ ان سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی ۔ ان کے بارے کہاجاتاہے کہ یہ صحابیہ تھیں مگریہ بات ثابت نہیں ہے۔ بلکہ انہوں نے ارسال(یعنی صحابی کا نام درمیان سے حذف)کرکے یہ وہم پیداکردیاہے کہ وہ صحابیہ ہیں الخ
میں کہتاہوں کہ ان کی صحابیت کے قائل ابن معین ہیں اس کی تصریح خود حافظ ذہبی نے تجریدالصحابہ میں کی ہے اورا سمیں کوئی شک نہیں کہ ابن معین ذہبی اوران جیسے دیگرحضرات سے بلندپایہ ہیں۔اس امر کی دلیل جوابن معین کی تاریخ میں مذکور ہے۔ اس تاریخ کو عباس اصم ،عباص دوسری کے واسطے سے ابن معین سے روایت کرتے ہیں۔ (اس تاریخ کے الفاظ حسب ذیل ہیں۔)
"بلاشبہ امام ابوحنیفہ صاحب الرائے نے حضرت عائشہ بنت عجرد کو یہ فرماتے سناکہ وہ کہہ رہی تھیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا"۔حافظ ابن حجر کااسے غلط کہنابذات خود غلط ہے۔ اس لئے کہ ابن معین جیسے بلندپایہ شخص نے اس حدیث کااعتبار کیاہے اوراس کی بنیاد پر ان کی صحابیت کافیصلہ کردیاہے۔اوربعض نے جوان کاتذکرہ تابعیات کے ضمن میں کیاہے اس کاسبب بھی جہالت ہے اورعلم کے مقابلہ میں جہالت کو دلیل نہیں بنایاجاسکتا۔خاص طورپر اس وقت جب کہ علم بھی عالم متقن اوربصیرت رکھنے والے کا ہو جیساکہ ابن معین ہیں۔ اس لئے کہ وہ بالاتفاق ناقدین کے سردار اوران کے پیشواہیں۔ لہذا تجریدالصحابہ میں ذہبی کا ابن معین کے قول کوشاذ کہہ دینا تم کوکسی قسم کی حیرت میں مبتلانہ کردے کیوں کہ محدثین کے نزدیک ایک ناقد ثقہ کا کسی بات کوتنہابیان کرنا جب کہ وہ دوسرے ثقات روات کے منافی نہ ہو۔صحت روایت کیلئے مضر نہیں ہے۔اورجب حضرت عائشہ کی صحابیت متحقق ہوگئی توان کا معروف نہ ہونا مضر نہیں اس لئے کہ تمام صحابہ جیساکہ اپنے موقع ومحل پر ثابت ہوچکاہے عادل ہیں۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
دوسرے اس باب میں یہ بھی ہمیں یاد رکھناچاہئے کہ عائشہ بنت عجرد پر سب سے اولین کلام امام شافعی نے کیاہے ۔انہوں نے کتاب الام میں اپنے فریق پر دلیل قائم کرتے ہوئے اورالزامی جواب دیتے ہوئے کہاہے کہ جولوگ حضرت بسرہ رضی اللہ عنہا کی روایت قبول نہیں کرتے وہ لوگ عائشہ بنت عجرد اوراوران جیسی دیگر غیرمعروف خواتین سے روایت کرتے ہین اوران کی روایتوں سے استدلال کرتے ہیں۔(مفہوم لسان المیزان ترجمہ عائشہ بنت عجرد)

امام شافعی کے کلام میں کہیں بھی حضرت عائشہ بنت عجرد کی صحابیت کی نفی نہیں ہے بلکہ وہ صرف اتناکہہ رہے ہیں کہ حضرت بسرہ مشہور ومعروف ہیں اورحضرت عائشہ بنت عجرد غیرمعروف ہیں توجولوگ حضرت عائشہ بنت عجرد سے دلیل پکڑتے ہیں ان کو حضرت بسرہ کی روایت بھی ماننی چاہئے۔

پھراس کے بعد امام دارقطنی نے سنن دارقطنی میں حضرت عائشہ بنت عجرد کی ایک روایت نقل کرنے کے بعد کہاہے کہ ان سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی ۔لیکن دارقطنی کایہ قول امام فن یحیی بن معین کے مقابلہ میں حجت نہیں ہوسکتا۔ امام فن جرح وتعدیل یحیی بن معین حضرت عائشہ بنت عجرد کے بارے میں کہتے ہیں۔ لھاصحبۃ(تجرید الصحابہ)

امام دارقطنی اورچند دیگر محدثین کہتےہیں کہ عائشہ بنت عجرد نے روایت میں ارسال کرکے اوردرمیان سے صحابی کا نام حذف کرکے یہ وہم پیداکردیاہے کہ وہ صحابیہ ہیں۔
لیکن یہ بات محل نظرہے کیونکہ اولاتو حضرت عائشہ بنت عجرد کی جوروایت ہے اس میں سماعت کی صراحت ہے اوراس کے ہوتے ہوئے یہ تاویل نہیں چل سکتی کہ انہوں نے ارسال کردیاہے۔ دوسرے یہ کہ ایک صغارصحابی تمام حدیثیں براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنتا بلکہ بہت سی حدیثیں ایسی ہوتی ہیں جوکہ وہ دیگرصحابہ کرام سے سنتاہے توکبھی ان صحابی کا نام ذکر کیاجاتاہے اورکبھی نہیں کیاجاتا۔اس لئے اگرعائشہ بنت عجرد نے بعض روایات میں حضرت ابن عباس کانام لیاہے تواس کو اس بات کی دلیل قطعی بناناکہ وہ صحابیہ نہیں ہے بلکہ تابعیہ ہیں اورانہوں نے دیگر روایت میں ارسال کردیاہے،تسلیم نہیں کیاجاسکتا۔

خلاصہ کلام یہ کہ اگرکسی کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے نقطہ نظراوردلائل کی بناء پر حضرت عائشہ بنت عجرد کو تابعیہ مانے تودوسرے کو حق ہے کہ وہ دوسرے دلائل کی بناء پر حضرت عائشہ بنت عجرد کو کوصحابیہ مانے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
عبداللہ بن ابی حبیبہ
امام ابویوسف اورامام محمد سے مروی کتاب الاثار میں امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت موجود ہے۔
ابوحنیفہ قال حدثنا عبداللہ بن حبیبہ قال سمعت اباالدرداء یقول بینااناردیف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: یااباالدرداء من شھد ان لاالہ الاللہ وانی رسول اللہ وجبت لہ الجنۃ ،قال قلت وان زنی وان سرق فسکت عنی ثم سار ساعۃ ،ثم قال من شھد ان لاالہ الااللہ وانی رسول اللہ وجبت لہ الجنۃ ،قلت وان زنی وان سرق قال وان زنی وان سرق وان رغم انف ابی الدرداء ،قال فکانی انظرالی اصبع ابی الدرداء السبابۃ ،یومی بھاالی ارنبتہ (کتاب الآثار بروایۃ ابی یوسف ۔ص197)
یہ عبداللہ بن ابی حبیبہ کون ہیں۔ اس بارے میں شہاب الدین احمد بن علی منینی (م 1172)جوبڑے پائے کے محدث ہیں اور شیخ عبدالباقی حنبلی، مشہور محدث ابن عقیلہ حنفی (م 1150)وغیرہ نے کہاہے کہ یہ عبداللہ بن ابی حبیبہ الانصاری ہیں۔ ان کے والد کانام اورع ابن الاذرع ہے اور یہ صحابی ہیں۔ انہوں نے صلح حدیبیہ میں شرکت کی تھی۔ چنانچہ اس بارے میں علامہ ابن عابدین اپنے ثبت "عقوداللآلی فی اسانید العوالی"مین اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔
"شہاب منینی کہتے ہیں یہ حدیث اس شخص کے دعوی کی شاہد ہے جو امام ابوحنیفہ کی صحابہ سے روایت کو ثابت کرتاہے اس لئے کہ حافظ ابن حجر نے عبداللہ بن ابی حبیبہ کو صحابہ میں شمار کیاہے چنانچہ وہ الاصابہ میں کہتے ہیں کہ ان کے والد کانام اورع بن الاذعر ہے ،یہ انصاری اوراوسی ہیں۔ ابن ابی داؤد کہتے ہیں کہ عبداللہ بن حبیبہ صلح حدیبیہ میں موجود تھے بخاری اورابن حبان نے ان کوصحابہ میں شمار کیاہے۔ بغوی کابیان ہے کہ یہ قباء میں سکونت پذیر تھے"۔
اس پر ایک اعتراض یہ ہوتاہے کہ خود حافظ ابن حجرؒ نے کتاب الاثار کے روات پر جوکتاب لکھی ہے جس کا نام "الایثارلمعرفۃ رواۃ الاثار "ہے ۔ اس میں عبداللہ بن ابی حبیبہ کے بارے مین حسب ذیل بات لکھی ہے۔
عبداللہ بن ابی حبیبہ الطائی عن ابی الدرداء وعنہ ابوحنیفہ ،روی عنہ ابواسحاق حدیثااخر فی افراد الدارقطنی وقال ابن ابی حاتم عبداللہ بن ابی حبیبہ عن ابی امامۃ بن سہل وعنہ بکیر بن عبداللہ بن الاشج ولم یذکر فیہ جرحاً
حافظ ابن حجر کے اس بیان سے بعض لوگوں کو شبہ ہوگیاکیونکہ جب عبداللہ بن ابی حبیبہ انصاری نہیں بلکہ تابعی ہیں توپھر ان سے روایت کرنے میں تابعیت کاکوئی سوال ہی پیدانہیں ہوتاہے۔
لیکن یہاں پر ایسالگتاہے کہ حافظ سے تسامح ہوگیاہے کیونکہ انہوں نے ثبوت مین ابن ابی حاتم کاجوقول پیش کیاہے ۔اورعبداللہ بن ابی حبیبہ الطائی ابوالدرداء سے نہیں بلکہ حضرت ابوامامہ سے روایت کرتے ہیں اورلگتاہے کہ صحیح بات وہی ہے جو دیگر محدثین نے بیان کی ہے کہ یہ عبداللہ بن ابی حبیبہ الطائی نہیں بلکہ الانصاری ہیں اوران کی صحبت ثابت ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
ان کی صحابیت کے بارے میں کچھ حضرات نے شک کااظہار کیاہے لیکن ان کا یہ شک امام ابن معین کے مقابلے میں جو شک کرنے والوں سے زیادہ اعلم ،اتقن اورمتقدم ہیں۔حجت نہیں بن سکتا۔جب کہ خودابن معین عائشہ بنت عجرد کے صحابیہ ہونے کے قائل ہیں۔جیساکہ حافظ ذہبی نے تجریداسماء الصحابہ میں ذکر کیاہے۔یہ اور بات ہے کہ حافظ ذہبی اس کو ابن معین کا تفرد اورشذوذ قراردیتے ہیں اوردارقطنی کے بیان پر ان کو زیادہ اعتماد ہے۔اس بارے میں علامہ ابوتراب رشداللہ سندھی صاحب العلم الرابع نے اپنی کتاب الاعلام برواۃ الامام میں حضرت عائشہ بنت عجرد کی صحابیت پر محققانہ گفتگو کی ہے اس کو ہم ذیل میں نقل کردیتے ہیں۔
"عائشہ بنت عجرد رضی اللہ عنہا سے امام ابوحنیفہ نے براہ راست بھی روایت کی ہے اوروہ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں اوعثمان بن راشد کے واسطے سے بھی ان کی روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہے۔حافظ ذہبی نے میزان میں ان کا ذکر کیاہے اورکہاہے کہ یہ معروف نہیں ہیں۔ دارقطنی کہتے ہیں کہ ان سے حجت نہیں پکڑی جاسکتی ۔ ان کے بارے کہاجاتاہے کہ یہ صحابیہ تھیں مگریہ بات ثابت نہیں ہے۔ بلکہ انہوں نے ارسال(یعنی صحابی کا نام درمیان سے حذف)کرکے یہ وہم پیداکردیاہے کہ وہ صحابیہ ہیں الخ
میں کہتاہوں کہ ان کی صحابیت کے قائل ابن معین ہیں اس کی تصریح خود حافظ ذہبی نے تجریدالصحابہ میں کی ہے اورا سمیں کوئی شک نہیں کہ ابن معین ذہبی اوران جیسے دیگرحضرات سے بلندپایہ ہیں۔اس امر کی دلیل جوابن معین کی تاریخ میں مذکور ہے۔ اس تاریخ کو عباس اصم ،عباص دوسری کے واسطے سے ابن معین سے روایت کرتے ہیں۔ (اس تاریخ کے الفاظ حسب ذیل ہیں۔)
"بلاشبہ امام ابوحنیفہ صاحب الرائے نے حضرت عائشہ بنت عجرد کو یہ فرماتے سناکہ وہ کہہ رہی تھیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا"۔حافظ ابن حجر کااسے غلط کہنابذات خود غلط ہے۔ اس لئے کہ ابن معین جیسے بلندپایہ شخص نے اس حدیث کااعتبار کیاہے اوراس کی بنیاد پر ان کی صحابیت کافیصلہ کردیاہے۔اوربعض نے جوان کاتذکرہ تابعیات کے ضمن میں کیاہے اس کاسبب بھی جہالت ہے اورعلم کے مقابلہ میں جہالت کو دلیل نہیں بنایاجاسکتا۔خاص طورپر اس وقت جب کہ علم بھی عالم متقن اوربصیرت رکھنے والے کا ہو جیساکہ ابن معین ہیں۔ اس لئے کہ وہ بالاتفاق ناقدین کے سردار اوران کے پیشواہیں۔ لہذا تجریدالصحابہ میں ذہبی کا ابن معین کے قول کوشاذ کہہ دینا تم کوکسی قسم کی حیرت میں مبتلانہ کردے کیوں کہ محدثین کے نزدیک ایک ناقد ثقہ کا کسی بات کوتنہابیان کرنا جب کہ وہ دوسرے ثقات روات کے منافی نہ ہو۔صحت روایت کیلئے مضر نہیں ہے۔اورجب حضرت عائشہ کی صحابیت متحقق ہوگئی توان کا معروف نہ ہونا مضر نہیں اس لئے کہ تمام صحابہ جیساکہ اپنے موقع ومحل پر ثابت ہوچکاہے عادل ہیں۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
میاں جمشید! یہ تو آپ بہت دور کی کوڑی لائے ہو!
ویسے یہ بتلائیے کہ یہاں آپ اپنے ہی لکھے الفاظ کو بھول گئے ہیں، ابھئ پچھلے ہی مراسئلہ میں آپ نے امام الذھبی کے متعلق فرمایا تھا:
جب دوحفاظ حدیث نے جو صرف حدیث کے حافظ ہی نہیں بلکہ نقد رجال کے ماہر بھی ہیں انہوں نے اس روایت کی تصحیح وتحسین کی ہے توہم بھی اس سند کو قابل استدلال مانیں گے توکیایہ بات سرے سے قابل تسلیم ہی نہیں ہوگی ؟
اور مزید فرمایاتھا
آخر ہم دوسرے روات کے بارے میں بھی تودیگر محدثین کے بیانات پر ہی انحصار کرتے ہیں اورانہی کے بیانات پر اطمینان قلب نصیب ہوتاہے تویہاں دوحافظ حدیث کی کسی سند کی تحسین وتصحیح پر اطمینان ہوتاہے تواس میں چیں بجبیں ہونے کی کیابات ہے؟
اب جب امام الذھبی کا فیصلہ جو آپ نے خود رقم کیا ہے :
جیساکہ حافظ ذہبی نے تجریداسماء الصحابہ میں ذکر کیاہے۔یہ اور بات ہے کہ حافظ ذہبی اس کو ابن معین کا تفرد اورشذوذ قراردیتے ہیں
جمشید میاں ! ذرا یہ تو بتلائیے کہ یہاں امام الذھبی کے فیصلہ کو ماننے میں کو کو کیا چیز مانع ہے؟
ان کی صحابیت کے بارے میں کچھ حضرات نے شک کااظہار کیاہے لیکن ان کا یہ شک امام ابن معین کے مقابلے میں جو شک کرنے والوں سے زیادہ اعلم ،اتقن اورمتقدم ہیں۔حجت نہیں بن سکتا
جمشید میں یہ جو آپ نے " کچھ حضرات" لکھا ہے وہ علم الرجال کے امام ہیں!!
اور مزید یہ کہ انہوں نے شک کا اظہار نہیں کیا، بلکہ دوسروں کے شک کا رفع کیا ہے، جیسا کہ امام الذہبی کا ابن معین کے قول کو ام کا تفرد اور شذوذ قرار دینا!! اور حافظ ابن حجر نے بھی اسے غلط کہا ہے۔
"بلاشبہ امام ابوحنیفہ صاحب الرائے نے حضرت عائشہ بنت عجرد کو یہ فرماتے سناکہ وہ کہہ رہی تھیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا"۔حافظ ابن حجر کااسے غلط کہنابذات خود غلط ہے
اب آپ یہاں ان "دوحفاظ حدیث نے جو صرف حدیث کے حافظ ہی نہیں بلکہ نقد رجال کے ماہر بھی ہیں"، کے فیصلہ کو کیوں نہیں مان رہے؟
ایک معمہ یہ بھی حل کرتے چلیں کہ کہ جیسا آپ نے لکھا ہے کہ :
ابن معین جیسے بلندپایہ شخص نے اس حدیث کااعتبار کیاہے اوراس کی بنیاد پر ان کی صحابیت کافیصلہ کردیاہے۔اوربعض نے جوان کاتذکرہ تابعیات کے ضمن میں کیاہے اس کاسبب بھی جہالت ہے اورعلم کے مقابلہ میں جہالت کو دلیل نہیں بنایاجاسکتا۔خاص طورپر اس وقت جب کہ علم بھی عالم متقن اوربصیرت رکھنے والے کا ہو جیساکہ ابن معین ہیں۔ اس لئے کہ وہ بالاتفاق ناقدین کے سردار اوران کے پیشواہیں۔
جمشید میاں ذرا یہ تو بتلائیے گا کہ یہی بلند پایہ شخص ، عالم ،متقن اور بصیرت رکھنے والے، اور بالاتفاق ناقدین کے سردار اور ان کے پیشوا ابن معین آپ کے ایک "امام محمد بن حسن الشیبانی "کو "جہمی کذاب" قرار دیتے ہیں تو آپ کیوں نہیں مانتے؟
جمشید میاں! کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے!!
خلاصہ کلام یہ کہ اگرکسی کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے نقطہ نظراوردلائل کی بناء پر حضرت عائشہ بنت عجرد کو تابعیہ مانے تودوسرے کو حق ہے کہ وہ دوسرے دلائل کی بناء پر حضرت عائشہ بنت عجرد کو کوصحابیہ مانے۔
جمشید میاں! عائشہ بنت عجرد موضوع بحث نہیں ہیں! بات تو اصل میں آپ کے امام کی تابعیت کے اثبات و نفی کی ہے! اب آپ کے امام اعظم کی تابعیت کا کوئی ثبوت تو ہے نہیں، آپ نے یہ نکتہ نکلالنا چاہا ہے ، جس نے ماننا ہے ماننے جس نے نہیں ماننا نہ مانے۔
تو میاں جمشید! خلاصہ کلام یہ کہ بغیر دلیل کے اہل السنۃ والجماعۃ تو نہیں مانتے، باقی رہے احناف جیسے اہل الھوا، تو وہ اپنے اھوا کی پیروری کریں ، ہم بھلا اس میں کیا کر سکتے ہیں۔ دین میں کوئی جبر تو ہے نہیں!
ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
ہم اہل حدیث ہیں، دھوکہ نہیں جانتے، صد شکر کہ ہمارے مذہب میں حیلہ اور فنکاری نہیں۔​
 
Top