• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام احمد کا تقلید کے بارے میں قول اور غیر مقلدوں کے لئے لمحہ فکریہ

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
المہند کے عقائد کو سعودی علماء سے ہم دریافت کریں۔
غیرمقلدین کے بزرگوں نے جوکچھ لکھاجوکھاہے اس کو بھی ہم ہی دریافت کریں۔
جناب جب آپ لوگوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ آپ وحدۃ الوجود ، تصور شیخ ۔۔۔۔ جیسے گمراہ کن عقائد کے حامل ہیں تو آپ کہتے ہیں کہ جناب ہماری طرف غلط بات منسوب کی گئی ہے اور یہ اہل حدیث ہمارے بارے میں غلط فہمیاں پھیلاتے ہیں لہذا سعودیہ والوں کے سامنے کشف حقیقت ہونا چاہیے ۔
اب المہند تو چونکہ آپ کے اپنوں کی لکھی ہوئی ہے آپ کو مشورہ دیا گیا کہ خود اسی کتاب کو پیش کردیں تاکہ آپ کے بارے میں حقیقت حال معلوم ہو جائے ۔ اس میں غلط بات کیا ہے ؟
رہی یہ بات کہ اہل حدیث کے اکابرین کے بارے میں آپ کو دریافت کرنے کے لیے اس وجہ سے کہا تھا چونکہ آپ کا دعوی تھا کہ ہم کچھ چیزیں چھپا لیتے ہیں ۔۔۔۔۔ ہم نے گزارش کی کہ آپ کے مطابق جو کچھ ہم چھپاتے ہیں آپ اس کو طشت از بام کر لیں ۔ کیا بات ہے غلط اس میں ؟
الطیور تقع علی أشکالہا کے مصداق اب آپ کو دوسرے بے اصول نظر آنا شروع ہوگئے ہیں ۔

اورانہوں نے ظاہریہ اوراہل رائے میں غلطی کے تناسب اورفیصد کی بات کی تھی جب اس تعلق سے سوال کیاگیاکہ وہ تناسب اورفیصد کی وضاحت کریں اورمجمل کلام نہ کریں توارشاد ہوا۔
میں نے لکھا تھا کہ ظاہریہ و اہل الرائے دونوں جادہ سے ہٹے ہوئے ہیں البتہ مؤخر الذکر گروہ پہلے سے زیادہ نقصان دہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے مجھے لا علمی کا طعنہ دیا اور کہا کہ اعداد و شمار کے ذریعے ثابت کریں ۔
میں نے اپنی لا علمی کا اعتراف کرتے ہوئے آپ سے گزارش کی تھی کہ آپ اپنے علمی سمندر میں غوطہ زن ہو کر کچھ ارشاد فرما دیں تاکہ اس کو بھی دیکھا جاسکے کہ آپ کتنے پانی میں ہیں ؟
بہر صورت میں اب بھی یہ سمجھتا ہوں کہ ایک شخص ظاہر نصوص کو مضبوطی سے تھام لیتا اس کے برعکس دوسرا نصوص کا طرح طرح کے بہانوں سے رد کرتا ہے تو مؤخر الذکر ہی زیادہ نقصان دہ ہے ۔ ایک آدمی کا منہج ہے نص پرستی جبکہ دوسرے کا منہج ہے نص سے جان چھڑانا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی سے پوچھ لیں کہ دونوں کے درمیان کیافرق ہے ؟

یہ عبارت بالواسطہ یہ بھی کہہ رہی ہے کہ صحیح منہج کا معیار یہ ہے کہ وہ ان حضرات سے محبت رکھے ورنہ ان کا منہج صحیح نہیں۔ اورصحیح منہج صرف وہی ہے جو ان سے محبت رکھے ورنہ نہیں۔عوام کے طبقہ میں اس طرح کی کلیت پسندی پر ان الفاظ میں طنز کیاجاتاہے
جوکالاوہ میرے باپ کا سالا
اس طرح کاکلیہ بول دینا توبڑاآسان ہے لیکن اس کو ثابت کرناکارے دارد۔ ان کے پاس اثبات میں ہے کیا۔نہ کوئی قول رسول ہے نہ کوئی قول صحابی ہے لے دے کر امام احمد بن حنبل اورکچھ اسی طرح کے محدثین کے کچھ اقوال ہیں جس میں انہوں نے حضرات محدثین کی فضیلت ومنقبت پر کچھ باتیں کہی ہیں۔ انہی چیزوں سے ان لوگوں نے یہ سمجھ لیاہے کہ یہ ہمارے معیار حق وصداقت ہونے کی دلیل ہوگئی۔ پتہ نہیں اقوال رجال کب سے ان کے نزدیک معیار حق وصداقت ہوگئے۔
منہج صحیح کیا قرآن وسنت کے مطابق عمل کرنا ۔
جو شخص اس منہج کو صحیح سمجھتا ہے وہ اس منہج پر چلنے والوں سے بھی محبت رکھے گا
جو اس منہج کو درست نہیں سمجھتا وہ اس منہج پر چلنے والون سے بغض رکھے گا ۔
اب یہ باتیں علماء کے پیش نظر تھیں اور اپنے تجربات کی بنیاد پر انہوں نے یہ باتیں کہی ہیں اور اہل سنت اور اہل بدعت کی نشانیاں بتادی ہیں جس سے اہل بدعت کا پول کھلتا ہے تو وہ چیختے ہیں ۔
اس میں قرآن وسنت سے یا قول صحابہ سے دلیل مانگنے کا کیا تک بنتا ہے ؟ البتہ آپ جیسے کہنہ مشق مقلدین جن کے اجتہادات پر خود امام صاحب بھی زندہ ہوں تو سر پیٹ کر رہ جائیں ان سے کوئی بعید نہیں کہ وہ امام ابو حنیفہ کے فضائل اور احناف کے فضائل قرآن وسنت سے نکال لیں ۔
ویسے یہ ان کی پرانی عادت ہے جب چاہاکسی چیز سے استدلال کرلیااورجب چاہااسی چیز کو متروک قراردے دیا۔ امام احمد بن حنبل اسی بارے میں کہتے ہیں۔
قَالَ أَبُو داود: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ: أهل الحديث إذا شاءوا احتجُّوا بعَمْرو بْن شُعَيْب، وإذا شاءوا تركوه [5] .7/434تاریخ الاسلام
ابودائود کہتے ہیں کہ میں نے احمد بن حنبل کو یہ کہتے سناکہ اہل حدیث جب چاہتے ہیں عمروبن شعیب سے استدلال کرلیتے ہیں اورجب چاہتے ہیں اس کو ترک کردیتے ہیں۔
یہی حال ان کا اقوال رجال کے بارے میں ہے جب مرضی نہ ہوگی توکہیں گے اللہ کے رسول کے سواکسی کی بات قابل حجت نہیں اورجب مرضی ہوگی توکچھ محدثین کے فضائل ومناقب والے اقوال کو حجت بناکر پیش کرتے پھریں گے۔
اہل حدیث جب چاہتے ہیں عمرو بن شعیب کو حجت سمجھتے ہیں جب چاہتے اس کو رد کردیتے ہیں ۔۔۔۔ یہ بات کچھ گہری ہے اس کو فن حدیث سے تعلق رکھنے والے اہل حدیث ہی جان سکتے ہیں مقلدین جن کو حدیث سے خدا واسطے کا بیر ہے وہ قواعد مصطلح کی باریکیوں تک پہنچنا نہیں چاہتے ۔۔۔۔ اس کو سمجھنے کے لیے ایک اور قاعدہ ذہن میں رکھیں صحیحین میں مدلسین کی معنعن روایات مقبول ہیں جبکہ غیر صحیحین میں مقبول نہیں ہیں ۔
عام مثال ہے کہ سونار جس سونے کو چاہے رکھ لیتا ہے جس کو چاہے رد کردیتا ہے اب آپ اس سے قبول و رد کی دلیلیں پوچھیں گے تو جواب وہاں سے ملے گا وہی جواب یہاں سمجھیں ۔
بہر صورت کچھ قواعد و ضوابط اور قرائن ہوتے ہیں جن کو مد نظر رکھتے ہوئے محدثین ایسے فیصلے کرتے ہیں اگر آپ اس حوالے سے تسلی کرنا چاہتے ہیں تو الگ دھاگہ شروع کرلیں تاکہ آپ کی تشفی کا سامان مہیا کیا جاسکے ۔
آپ نے جو قول پیش کیا ہے اس میں ’’ اہل حدیث ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور یہ قول امام احمد بن حنبل کا ہے لہذا اس سے مراد اس زمانے کے اہل حدیث ہیں آپ مجھے یہ بتائیں اگر اس زمانے کے اہل حدیث آپ کے نزدیک من مانیاں کرنے کی وجہ سے ناقابل حجت ہیں تو آپ جن احادیث سے امام صاحب کے مذہب کو تقویت دینے کے لیے استدلال کرتے ہیں وہ کن کی روایات ہیں ؟ امام احمد بن حنبل نے جن لوگوں کو اہل حدیث کہا ہے ان کو ایک طرف کرکے آپ ذرا ایک حدیث بھی ثابت کرکے دکھائیں ؟
محدثین سے برہمی اپنی جگہ پر لیکن جناب اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہ ماریں ۔

یہ بھی آج کل کے غیرمقلدین کی لاعلمی کی ایک مثال ہے ۔ اگرکوئی ظاہری اسباب پر نگاہ کرتے ہوئے کچھ کہتاہے تواس کو سیدھے عقیدہ سے جوڑدیاجاتاہے۔ ظاہری اسباب پر نگاہ کرتے ہوئے کسی چیز کے بارے میں ناامیدی کا اظہار کرناعقیدہ کے منافی نہیں ہے۔ بلکہ خود احادیث میں اس تعلق سے رہنمائی ملتی ہے کہ ظاہری اسباب کو نگاہ میں رکھ کر اس طرح کی بات کی جاسکتی ہے۔ غزوہ بدر میں مشرکین مکہ کی طاقت وشوکت اورمسلمانوں کی قلت تعداد اوربے سروسامانی کو دیکھتے ہوئے حضورپاک نے بارگاہ الہی میں جوالفاظ عرض کئے تھے اس کا ایک ٹکرانقل کرتاہوں شاید آپ کو صحت عقیدہ کا علم ہوجائے کہ ایسی باتیں عقیدہ کی صحت کے خلاف نہیں ہیں۔
اللهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ(مسلم ،باب الامداد بالملائکۃ")
اے اللہ اگریہ جماعت اورگروہ مسلمین فناکے گھاٹ اترگئی تو زمین میں تیری پرستش نہیں ہوگی۔
مصنف ابن ابی شیبہ اور مسند احمد اورمسند عبد بن حمید کی روایت میں تو لاتعبد فی الارض کے ساتھ ابدا کا بھی اضافہ ہے یعنی روئے زمین پر پھرکبھی تیری پرستش اورعبادت نہ ہوگی۔
کیااللہ کی قدرت سے یہ بعید تھاکہ اس گروہ مسلمین کی ہلاکت کے بعد بھی اللہ کی پرستش زمین پر کی جائے ۔لیکن حضورپاک نے یہ بات ظاہری اسباب کے اعتبار سے کہی تھی۔
اسی ظاہری اعتبار سے بھی میں نے عرض کیاتھاکہ اگرسعودی سوتے خشک ہوگئے تویہاں کی ندیاں اورنالے بھی خشک ہونے میں دیر نہیں لگائیں گی۔امید ہے کہ میری یہ بات آنجناب کی سمجھ میں آگئی ہوگی۔
حضور کے معجزات اور پشین گوئیاں یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصا تھا حضور کے پاس وحی بھی آتی تھی ان کے پاس جتنی بصیرت تھی وہ تو کسی مجتہد کے پاس نہیں ہوسکتی چہ جائیکہ مقلد اس بات کا دعوی شروع کردے ۔
حضور کے متعلق اللہ نے فرمایا و ما ینطق عن الھوی إن ھو إلا وحی یوحی
اور آپ اپنے متعلق کیا عقیدہ رکھتے ہیں جناب ؟ ہندوستان میں کوئی نیا فتنہ پھر اٹھنے والا تو نہیں ؟
کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ
بہر صورت ہم کسی صاحب بصیرت شخص کی پیشین گوئی کا انکار نہیں کرتے لیکن ہر ایک کی بات آنکھیں بند کرکے مانتے بھی نہیں ۔

اسی ظاہری اعتبار سے بھی میں نے عرض کیاتھاکہ اگرسعودی سوتے خشک ہوگئے تویہاں کی ندیاں اورنالے بھی خشک ہونے میں دیر نہیں لگائیں گی۔امید ہے کہ میری یہ بات آنجناب کی سمجھ میں آگئی ہوگی۔
جس طرح سعودیہ سے پہلے علم کے یہ دریا رواں دوراں تھے اس کے بعد بھی یونہی ٹھاٹھیں مارتے رہیں گے ۔ ان شاء اللہ لاتزال طائفۃ من أمتی ظاہر ین علی الحق ۔۔۔۔۔۔۔ علی رغم أنوف المبتدعۃ

آپ ہمیں سمجھارہے ہیں یاپھردلیل نہ ملنے پر خود کو تسلی دے رہے ہیں۔آپ نے دعویٰ کیاتھاکہ ہماراتعلق اس وقت سے ہے جب عرب میں پٹرول کاظہورنہیں ہواتھاراقم نے اس دعویٰ دلیل مانگی توآپ نے فرمایاکہ چندہ کرکے بھیجاہے۔جب میں نے یہ کہاہے کہ اس میں تودوسرے بھی شریک رہے ہیں آپ کے تعلق وہ خصوصی نوعیت پٹرول کی دولت سے پہلے کہاں تھی جس کا دعویٰ کیاجارہاہے تو آپ اب فرمارہے ہیں۔
سبحان اللہ ۔ اسی بحر میں اگر ہم کہیں کہ وہی لوگ جن پر کفر کے فتوی لگتے تھے آج ان کو منصف مان کر ان کے پاس عرضیاں تیار کرکے کیوں بھیجی جارہی ہیں ۔ مہند میں اسی طرح انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ وغیرہ نے محمد بن عبد الوہاب پر طعن و تشنیع کے پل باندھے اور ان کو گمراہ قرار دیا ہے لیکن آج کے دیوبندی ان کو منصف مانے بیٹھے ہیں ۔ کیوں ؟

بہرحال اتنی بات اصولی طورپرتسلیم شدہ ہے کہ پٹرول کی دولت کی اپنی طاقت اورکشش اورجذب ہے جس نے ہندوستان میں ایک گروہ کو مستقل اپنی جانب کھینچاہے ۔
اور ایک گروہ ہمیشہ سے اس حسرت میں رہا ہے کہ کاش ہمیں بھی کوئی کھینچے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاحال کوششیں جاری ہیں اور اب تو مزید یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ شاید ہندوستان میں یہ کشش کام نہیں کرتی سعودیہ جا کر قسمت آزما کر دیکھتے ہیں ۔

میں جانتاتھاکہ اپ آخر اسی میں پر آئیں گے ۔غیرمقلدین کی یہ پرانی عادت ہے جب زیر بحث موضوع پر بات نہیں کرسکتے تویاتوسیدھے امام ابوحنیفہ کی جانب جاتے ہیں یاپھر تقلید پر آجاتے ہیں اوراپناپراناراگ الاپناشروع کردیتے ہیں۔
زیر بحث دو باتیں تھیں :
ان میں سےایک کہ اہل حدیث کا آپس میں اختلاف اور مقلدین کا آپس میں اختلاف پہلا جائز اور دوسرا قابل مذمت کیوں ہے ؟
اس پر تو آپ کی تسلی ہوگئی ہوگی شاید ۔
دوسری بات تھی : پٹرول پر کون مرتا ہے ؟ اس پر بھی کافی حد تک بات قارئین کے لیے تو واضح ہوگئی ہوگی البتہ آپ ابھی تک بات کو دھکا لگانے کی کوشش کرر ہے ہیں ۔۔۔۔ ہم بھی ان شاء اللہ مستعد ہیں ۔
موضوع سے ہٹنے کا نہ کوئی ارادہ تھا اور نہ ہی ہے ۔
ضمنی باتیں نکل آتی ہیں اصل موضوع کے ساتھ ساتھ اگر ان پر بات کر لی جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ موضوع سے ہٹنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

کسی شخص کو کسی مذہب کا پابند بنادینااس بات کا اعلان ہے کہ اس کے اندر وہ صلاحیت نہیں کہ وہ علی الاطلاق اجتہاد کرسکے۔ اگراس کے اندر جزئی طورپر بعض مسائل میں اجتہاد کرنے کی صلاحیت ہے توکرے ۔کس نے منع کیاہے؟۔متاخرین میں ابن ہمام نے بعض مسائل میں اختلاف کیاہے۔حضرت شاہ ولی اللہ نے بعض مسائل میں اختلاف کیاہے مولانا عبدالحی لکھنوی نے بعض مسائل میں اختلاف کیاہے مولانا تقی عثمانی نے بعض مسائل میں اختلاف کیاہے ۔اگرعلم صلاحیت لیاقت ہے تواجتہاد کیجئے اورجتنی لیاقت اوراستعداد ہے اسی کے حد تک اجتہاد کیجئے۔ اوراگرعلم اورلیاقت نہیں ہے توپھرکسی ایک مجہتد کے پابند رہئے۔یہ توعقل کا فطری تقاضہ ہے۔ لیکن اب کچھ لوگ اس فطری طریقہ کے خلاف ہی اجتہاد کرناچاہیں توان کی مرضی ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے اگر ان بزرگوں نے فقہ حنفی سے اختلاف کیا ہے تو اس میں فقہ حنفی کا کیا کمال ہے بلکہ یہ تو اللہ کا ان پر احسان ہے کہ اللہ نے ان کو حق بات کی طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا فرمائی ۔۔ ورنہ اگر وہ فقہ حنفی کے اصول و ضوابط پر پابند رہتے تو یقینا اس سعادت سے محروم رہتے ۔
چونکہ اس طرح کی جرأت فقہ حنفی میں جسارت سمجھی جاتی ہے اس لیے یہ بزرگ حنفیوں کے زیر عتاب رہے ہیں علامہ عبد الحیی لکھنوی کےبارے مین حنفیوں کی کیا رائے ہے؟ آپ سے مخفی نہیں ہوگی ۔

اورکتنے مسائل ایسے ہیں جہاں سلف متفق ہیں اورکتنے مسائل ایسے ہیں جہاں سلف کا اختلاف ہے۔ یقینابڑی اوربہت بڑی تعداد ایسے مسائل کی ہے جہاں سلف کااختلاف ہے۔ ایسے موقع پر ضروری ہے کہ وہ کسی ایک سلف کے فہم کوراجح اوردوسرے کو مرجوح قراردیں اوریہی کام فقہ شافعی میں بھی ہوتاہے فقہ مالکی میں بھی ہوتاہے اورفقہ حنبلی اورحنفی میں بھی ہوتاہے لیکن اس کے باوجود ایک خود کو سلفی کہہ دیتاہے اورخود کو سلفی کہہ کر دوسرے کو تقلید کا طعنہ دیتاہے تمام اسلاف کی باتیں بیک وقت توکوئی بھی نہیں مان سکتا۔اگرکوئی کہتاہے تو وہ جھوٹاہے یعنی کہ بیک وقت تین طلاق ایک اورتین طلاق تین نہیں ہوسکتا۔ بیک وقت حیض کی طلاق نافذ اورعدم نافذ نہیں ہوسکتی اسی طرح دیگر مسائل کاحال ہے توسلفیت نے کون سانیاتیرماراہے مختلف فیہ مسائل میں سلفی کے پاس اگرکچھ اسلاف کے نام ہیں تواتنے ہی یاکم وبیش نام ہمارے بھی پاس اسلاف کے ہیں توسلفیت کا وہ جزواعظم کیاہے جس کی بناء پر کوئی خود کو سلفی کہتاہے۔
جہاں تک قرآن وسنت کے چشمہ صافی سے سیراب ہونے کی بات ہے تویہ چشمہ صافی ہرایک کیلئے صاف ہے ۔کسی مخصوص فرقہ کیلئے نہیں ہے۔ جس نے سلف کانام نہاد عینک لگارکھاہے۔
ظاہر ہے ہر مسئلہ میں مختلف اقوال میں سے کسی ایک کی بات راحج ہو سکتی ہے ۔ لیکن خرابی یہ ہے مقلد ’’ کسی بھی ایک سلف ‘‘ کی رائے کو اختیار نہیں کرتا کہ یہ تو تحقیق ہے بلکہ ہر دفعہ ’’ ایک ہی سلف ‘‘ کی رائے کو ترجیح دے کر اپنے مقلد جامد ہونے کی لاج رکھتا ہے ۔

جہاں تک قرآن وسنت کے چشمہ صافی سے سیراب ہونے کی بات ہے تویہ چشمہ صافی
ہرایک کیلئے صاف ہے
۔کسی مخصوص فرقہ کیلئے نہیں ہے۔ جس نے سلف کانام نہاد عینک لگارکھاہے
کاش کہ مقلدین اس حقیقت کوسمجھ کر اس پر علم پیرا ہو جائیں ۔

جہاں تک مسائل میں تحقیق اورگنجائش کی بات ہے تو وہ کام ہمارے بزرگ پہلے ہی کرچکے ہیں اورحسب استعداد وصلاحیت اب بھی یہ کام ہورہاہے جیساکہ کچھ مثالیں ماقبل میں دی گئیں لیکن ایک اصول اورضابطہ کے ساتھ۔ بے اصولی اوربے ضابطہ پن نہیں کسی حکیم اورکسی ڈاکٹر جس کو قلم پکڑناآگیاوہ مسائل پر کلام کرنے لگے جیساکہ آپ حضرات کے حکیموں اورڈاکٹروں نے حال کررکھاہے ۔
تحقیق کا ضابطہ و اصول اتباع قرآن وسنت ہے ۔ اس کے علاوہ سب کچھ بے اصولیاں اور بے ضابطگیاں ہی ہیں ۔ چاہے کوئی مانے یا نہ مانے ۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

یہ دھاگہ شدید حادثات کا شکار ہو رہا ھے اس سے پہلے کہ مزید شدت اختیار کرے انتظامیہ اسے بند کرنے پر سوچ سکتی ھے۔

والسلام
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
الطیور تقع علی أشکالہا کے مصداق اب آپ کو دوسرے بے اصول نظر آنا شروع ہوگئے ہیں ۔
کسی سے بھی پوچھ لیجئے یہ بے اصولاپن ہے یانہیں
کہ اپنے عقائد بھی ہم سعودی علماء سے دریافت کریں
اورآپ کے اکابرین کے عقائد بھی ہم ہی سعودی علماء سے دریافت کریں۔
آپ خود کیوں نہیں دریافت کرلیتے ۔جن کتابوں میں آپ کے بزرگوں نے ابن عربی کو شیخ اکبر تصوف اورمحمد بن عبدالوہاب کے خلاف اورجہاد کے خلاف کلام کیاہے اورانگریزی حکومت کو سب سے بہترحکومت قراردیاہے ان سب کے تعلق سے پوچھ لیجئے کہ ایساکہنے والے کیسے لوگ ہیں۔ویسے بھی آپ سعودیہ میں ہی ہیں کوئی مشکل نہیں۔
اس میں قرآن وسنت سے یا قول صحابہ سے دلیل مانگنے کا کیا تک بنتا ہے ؟ البتہ آپ جیسے کہنہ مشق مقلدین جن کے اجتہادات پر خود امام صاحب بھی زندہ ہوں تو سر پیٹ کر رہ جائیں ان سے کوئی بعید نہیں کہ وہ امام ابو حنیفہ کے فضائل اور احناف کے فضائل قرآن وسنت سے نکال لیں ۔
یہ توآپ کا نعرہ ہے اورتکیہ کلام ہے ائمہ کے اجتہادات میں بھی آپ حدیث صریح کا مطالبہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں اوراس حماقت کو اپنی عقل مندی قراردیتے ہیں۔لیکن آپ کے فضائل ومناقب کے باب میں حدیث شریف پوچھنے پر یہ ناراضگی ۔آپ توفرماتے ہیں کہ حدیث میں ہرچیز موجود ہے یہی کہہ کر ائمہ کے اجتہادات سے ناواقفوں کو ورغلانے کی کوشش کرتے ہیں۔بہرحال یہ بات آنجناب نے تسلیم کرلی بڑااچھاکیاکہ اہل حدیث کے فضائل ومناقب میں کوئی حدیث موجود نہیں۔ اب جولوگ اقوال رجال غیرمعبترجیسے نعرے لگاتے ہیں ان کو ٹھنڈاہوجاناچاہئے ۔ اورسمجھ جاناچاہئے کہ جس چیز کو ہم نے قطعی درجہ دے رکھاتھاوہ تو پائے چوبیں ثابت ہوا۔
اس میں قرآن وسنت سے یا قول صحابہ سے دلیل مانگنے کا کیا تک بنتا ہے ؟ البتہ آپ جیسے کہنہ مشق مقلدین جن کے اجتہادات پر خود امام صاحب بھی زندہ ہوں تو سر پیٹ کر رہ جائیں ان سے کوئی بعید نہیں کہ وہ امام ابو حنیفہ کے فضائل اور احناف کے فضائل قرآن وسنت سے نکال لیں ۔
کبھی اپنے گریبان کی جانب نگاہ دوڑائیے مشہور شعر ہے خلاصہ بیان کردیتاہوں کہ اپنی آنکھ کا شہتیر نظرنہیں آتااوردوسروں کی آنکھ کا تنکا دیکھاجاتاہے۔ اگرامام احمد بن حنبل آج کے اہلحدیثوں کے حالات اورکرتوت اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں توشاید اہل حدیث کے طائفہ منصوہ ہونے کے ہی منکر نہ ہوجائیں۔ اوردیگر محدثین توغش ہی کھاکر گرجائیں کہ اہل حدیث کا جولقب ایک مخصوص جماعت کیلئے خاص تھاجس کیلئے علم لیاقت اورکچھ شرائط تھیں آج ایک مسلک بناکر ہربچہ اہل حدیث بناہواہے۔
اہل حدیث جب چاہتے ہیں عمرو بن شعیب کو حجت سمجھتے ہیں جب چاہتے اس کو رد کردیتے ہیں ۔۔۔۔ یہ بات کچھ گہری ہے اس کو فن حدیث سے تعلق رکھنے والے اہل حدیث ہی جان سکتے ہیں مقلدین جن کو حدیث سے خدا واسطے کا بیر ہے وہ قواعد مصطلح کی باریکیوں تک پہنچنا نہیں چاہتے ۔۔۔۔ اس کو سمجھنے کے لیے ایک اور قاعدہ ذہن میں رکھیں صحیحین میں مدلسین کی معنعن روایات مقبول ہیں جبکہ غیر صحیحین میں مقبول نہیں ہیں ۔
عام مثال ہے کہ سونار جس سونے کو چاہے رکھ لیتا ہے جس کو چاہے رد کردیتا ہے اب آپ اس سے قبول و رد کی دلیلیں پوچھیں گے تو جواب وہاں سے ملے گا وہی جواب یہاں سمجھیں ۔
بہر صورت کچھ قواعد و ضوابط اور قرائن ہوتے ہیں جن کو مد نظر رکھتے ہوئے محدثین ایسے فیصلے کرتے ہیں اگر آپ اس حوالے سے تسلی کرنا چاہتے ہیں تو الگ دھاگہ شروع کرلیں تاکہ آپ کی تشفی کا سامان مہیا کیا جاسکے ۔
آپ نے جو قول پیش کیا ہے اس میں ’’ اہل حدیث ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور یہ قول امام احمد بن حنبل کا ہے لہذا اس سے مراد اس زمانے کے اہل حدیث ہیں آپ مجھے یہ بتائیں اگر اس زمانے کے اہل حدیث آپ کے نزدیک من مانیاں کرنے کی وجہ سے ناقابل حجت ہیں تو آپ جن احادیث سے امام صاحب کے مذہب کو تقویت دینے کے لیے استدلال کرتے ہیں وہ کن کی روایات ہیں ؟ امام احمد بن حنبل نے جن لوگوں کو اہل حدیث کہا ہے ان کو ایک طرف کرکے آپ ذرا ایک حدیث بھی ثابت کرکے دکھائیں ؟
محدثین سے برہمی اپنی جگہ پر لیکن جناب اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہ ماریں ۔
اس زباندانی کا مظاہرہ کسی آڑے وقتوں کیلئے محفوظ رکھئے اورجامعہ اسلامیہ میں کسی اچھے استاد سے پوچھ لیجئے کہ اس سے امام احمد کا کیامقصود ہے وہ تقریر جوآپ نے کی ہے وہ مقصود ہے یاامام احمد بن حنبل اہل حدیثوں کی دورنگی کا رونارورہے ہیں کہ عمروبن شعیب کو انہوں نے اپناکرۃ القدم بنالیاہے جب ضرورت پڑی قابل استدلال قراردے دیااورجب ضرورت ختم توجرح شروع۔
نئے تھریڈ شروع کرکے اپناقیمتی وقت ضائع نہ کریں کسی اچھے فرد سے جو عربی زبان ولغت اورعلم جرح وتعدیل میں ماہر ہو پوچھ لیں کہ اس سے امام احمد بن حنبل کامقصود کیاہے ۔ آپ کا کافی ساراوقت بچ جائے گا۔ اوراگروہی مطلب ہے جو آپ بتاناچاہ رہے ہیں تواپناکلام مدلل اورباحوالہ فرمائیے ذاتی اورمستند ہے میرافرمایاہوا سے پرہیز کیجئے۔
حضور کے معجزات اور پشین گوئیاں یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصا تھا حضور کے پاس وحی بھی آتی تھی ان کے پاس جتنی بصیرت تھی وہ تو کسی مجتہد کے پاس نہیں ہوسکتی چہ جائیکہ مقلد اس بات کا دعوی شروع کردے ۔
حضور کے متعلق اللہ نے فرمایا و ما ینطق عن الھوی إن ھو إلا وحی یوحی
اور آپ اپنے متعلق کیا عقیدہ رکھتے ہیں جناب ؟ ہندوستان میں کوئی نیا فتنہ پھر اٹھنے والا تو نہیں ؟
کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ
بہر صورت ہم کسی صاحب بصیرت شخص کی پیشین گوئی کا انکار نہیں کرتے لیکن ہر ایک کی بات آنکھیں بند کرکے مانتے بھی نہیں ۔
خدانخواستہ اگرمعاملہ برعکس ہوتاہم نے صحت عقیدہ کی بات کی ہوتی اورخضرحیات صاحب نے یہ حدیث پیش کی ہوتی اورہم نے وہی باتیں کہیں ہوتیں جوخضرحیات صاحب نے جواب میں کہی ہے ہیں تو پوراحلقہ غیرمقلدین ایک کورس میں گارہاہوتاکہ یہ حنفی توحدیث کو کچھ سمجھتے ہی نہیں حدیث پیش کرنے کےبعد بھی نہیں مانتے لیکن اب خود آزاد ہیں کہ جوکچھ چاہا حدیث کی تاویل کرکے چھٹکاراحاصل کرلیں
آپ کی اس حرکت کو دیکھ کر ایک پرانالطیفہ یاد آگیا کہ ایک خان صاحب نے کسی غیر مسلم کو قبلہ کی جانب پیشاب کرتے ہوئے دیکھاتواسے دولات ماری کہ ہمارے قبلہ کی توہین کرتاہے ۔غیرمسلم نے معافی مانگ لی۔ اگلے دن خان صاحب کو اسی غیرمسلم نے دیکھاکہ وہ خود ہی قبلہ کی جانب پیشاب کررہے ہیں تواس نے خان صاحب کو سرزنش کی کہ آپ نے خود توہمارے ٹھکائی کردی اورخود ایسی حرکت کررہے ہو خان صاحب نے جواب دیاقبلہ ہماراہے تمہارانہیں ہے۔ یعنی ہم جوچاہیں کریں۔ دوسراایسانہیں کرسکتا۔
یہی سلوک اہل حدیثوں نے حدیث کے ساتھ روارکھاہے وہ جوچاہیں حدیث کے ساتھ سلوک روارکھیں اوراگرکوئی دوسرا انہی کی روش پر چلتاہے تومخالفت سنت ،تقلید،عمل بالرائے اورنہ جانے کن کن چیزوں کے یہ لوگ نعرے لگانے لگتے ہیں۔
حضورکا یہ فرمان نہ ازقبیل وحی تھااورنہ ازقبیل معجزات وپیشن گوئی تھا ظاہری اسباب کی عدم دستیابی پرصورت حال کااظہار تھا۔اوراگرمیں نے یہ بات کہی ہے کہ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر ظاہری اسباب کی عدم فراہمی کی بناء پر ناامیدی کا اظہار کیاہے توکوئی دوسرااگرایساکرتاہے تواس کو عقیدہ کی خرابی کانام مت دیجئے ۔
اس میں نہ تقابل نہ تماثل اورنہ ہی اورکوئی چیز ازباب تفاعل ہے اگرآپ ایساکچھ محسوس کررہے ہیں تویہ آپ کے عقل وذہن کا قصور اورفتور ہے۔
جس طرح سعودیہ سے پہلے علم کے یہ دریا رواں دوراں تھے اس کے بعد بھی یونہی ٹھاٹھیں مارتے رہیں گے ۔ ان شاء اللہ لاتزال طائفۃ من أمتی ظاہر ین علی الحق ۔۔۔۔۔۔۔ علی رغم أنوف المبتدعۃ
اس جملہ کا جواب میں قارئین کی بصیرت وبصارت پر چھوڑتاہوں ویسے اگر 47سال کی مہلت جو البانی صاحب کی پیش گوئی پوری ہونے میں لگی توکسی حکومت کی عمر افراد کی عمر سے زیادہ ہوتی ہے 47سال کا چارگناکرلیجئے اپنی اولاد کو وصیت کرجائیے گاپھر آپ کی اولاد یکھ لے گی کہ علم کا دریاکہاں ٹھاٹھیں مارے گا اورکہاں کے سوتے خشک ہوں گے۔
سبحان اللہ ۔ اسی بحر میں اگر ہم کہیں کہ وہی لوگ جن پر کفر کے فتوی لگتے تھے آج ان کو منصف مان کر ان کے پاس عرضیاں تیار کرکے کیوں بھیجی جارہی ہیں ۔ مہند میں اسی طرح انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ وغیرہ نے محمد بن عبد الوہاب پر طعن و تشنیع کے پل باندھے اور ان کو گمراہ قرار دیا ہے لیکن آج کے دیوبندی ان کو منصف مانے بیٹھے ہیں ۔ کیوں ؟
آپ نے ابھی تک کوئی اپنے دعویٰ کی دلیل پیش نہیں کی کہ سعودیہ میں پٹرول نکلنے سے پہلے آپ کے ان سے کچھ خصوصی تعلقات تھے وہ خصوصی تعلقات جو پٹرول نکلنے کے بعد بنے۔ پہلے خود ان تعلقات کی دلیل باحوالہ عرض کردیں اس کے بعد اپنے الزامات دہروائیں ۔آپ کا بڑامسئلہ یہ ہے کہ آپ دعوی کردیتے ہیں لیکن دلیل خود معلوم نہیں ہوتی اورپھر بعد میں عرض کرتے ہیں کہ کیامطلب ایسانہیں تھا کیابنیادی طورپر جو نص پرست ہو وہ زیادہ صحیح نہیں ہوگا۔
اگرکسی چیز کا مجمل علم ہے تومجمل دعوی کیجئے تفصیلی علم ہے توتفصیلی دعوی کیجئے علم مجمل ہوتاہے اوردعویٰ تفصیلی کردیتے ہیں اورجب دلائل مانگے جاتے ہیں توپھرچوردروازے کی تلاش شروع ہوجاتی ہے۔ اس سے گریز کیجئے۔
اور ایک گروہ ہمیشہ سے اس حسرت میں رہا ہے کہ کاش ہمیں بھی کوئی کھینچے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاحال کوششیں جاری ہیں اور اب تو مزید یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ شاید ہندوستان میں یہ کشش کام نہیں کرتی سعودیہ جا کر قسمت آزما کر دیکھتے ہیں ۔
اس باب کا جواب ماقبل میں عرض کردیاگیاہے۔ویسے آپ کے انکار کی وجہ تاحال سمجھ میں نہیں آئی کسی بھی غیرجانبدار شخص سے یہ بات پوچھ لیجئے چلئے ہمیں حنفی اوردیوبندی سمجھ کر مخالف سمجھتے ہیں کسی شافعی سے پوچھ لیجئے۔ کسی غیرجانبدار سعودی عرب پر نگاہ رکھنے والے مبصر سے پوچھ لیجئے۔اب لوگ آنکھوں دیکھی حقیقت کا بھی انکار کرنے لگیں توسوائے اس کے کیاکہاجاسکتاہے کہ بصیرت کے ساتھ بصارت کابھی نقصان ہواہے۔
زیر بحث دو باتیں تھیں :
ان میں سےایک کہ اہل حدیث کا آپس میں اختلاف اور مقلدین کا آپس میں اختلاف پہلا جائز اور دوسرا قابل مذمت کیوں ہے ؟
اس پر تو آپ کی تسلی ہوگئی ہوگی شاید ۔
زیر بحث امر میں تسلی توتب ہوتی جب آپ کچھ کام کی باتیں کرتے باحوالہ اورمدلل اپنی بات ثابت کرتے لیکن آپ اورآپ حضرات توفورانعرے بازی کرنے لگ جاتے ہیں ہم صحیح ہمارامنہج صحیح ہم اہل حق اورہمارے مخالفین بدعتی ضال مضل اورپتہ نہیں کیاکیا۔ ثابت کیجئے آپ کے آپسی اختلاف اورمقلدین کے آپسی اختلاف میں جوہری طورپر کیافرق ہے ؟پھر ہمارااختلاف معتبر اوران کا اختلاف غیرمعتبر کیوں ہے۔ اس کے بغیر صرف نعرے لگادینے کو ہی جن لوگوں نے دلیل کابدل سمجھ رکھاہے توان کیلئے تسلی ہوگئی ہوگی میرے لئے ہرگز تسلی نہیں ہوئی۔
دوسری بات تھی : پٹرول پر کون مرتا ہے ؟ اس پر بھی کافی حد تک بات قارئین کے لیے تو واضح ہوگئی ہوگی البتہ آپ ابھی تک بات کو دھکا لگانے کی کوشش کرر ہے ہیں ۔۔۔۔ ہم بھی ان شاء اللہ مستعد ہیں ۔
دیکھئے ہم نے آپ کو فری آفر دیاہے۔کسی سے بھی پوچھ لیجئے جوغیرجانبدار ہو۔ایساقیمتی آفر توموبائل والے بھی نہیں دیتے لیکن ہم نے آپ کو دیاہے یہ گولڈن چانس کہیں مس(ضائع )نہ ہوجائے۔
پہلی بات تو یہ ہے اگر ان بزرگوں نے فقہ حنفی سے اختلاف کیا ہے تو اس میں فقہ حنفی کا کیا کمال ہے بلکہ یہ تو اللہ کا ان پر احسان ہے کہ اللہ نے ان کو حق بات کی طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا فرمائی ۔۔ ورنہ اگر وہ فقہ حنفی کے اصول و ضوابط پر پابند رہتے تو یقینا اس سعادت سے محروم رہتے ۔
آپ نے پہلی بات عرض کردی دوسری بات ہماری سنئے ان حنفی فقہاء کا فقہ حنفی سے بعض امور میں اختلاف کرنا ہی یہ بتارہاہے کہ فقہ حنفی میں اہل علم کیلئے اجتہاد کی گنجائش ہے ہاں ہرکہتر ومہتر اس لائق نہیں قراردیاجاسکتاکہ وہ اجتہاد کرے۔
چونکہ اس طرح کی جرأت فقہ حنفی میں جسارت سمجھی جاتی ہے اس لیے یہ بزرگ حنفیوں کے زیر عتاب رہے ہیں علامہ عبد الحیی لکھنوی کےبارے مین حنفیوں کی کیا رائے ہے؟ آپ سے مخفی نہیں ہوگی ۔
ان کو یہ جرات فقہ حنفی نے ہی بخشی ہے ۔مولانا عبدالحی لکھنوی کو بعض مسائل میں اختلاف کی جرات امام عصام بن یوسف کےطرزعمل سے ہی ہوئی تھی۔ یہ بزرگ حنفیوں کے زیر عتاب رہنے کا کیامطلب۔ کیاکسی نے ان کو فقہ حنفی سے جلاوطن کردیا۔ہاں اختلاف رائے ہرجگہ ہوتاہے۔
ان کی بعض وہ رائے جو فقہ حنفی سے ہٹ کر تھیں اس کے بارے میں کچھ معاصروں کا یہ خیال ہوگاکہ ان کی یہ رائے درست نہیں ہے توانہوں نے تنقید کی ہوگی۔ آخرآپ کے یہاں بھی توبعض امور پر معاصریں میں اختلاف اورطعن وتشنیع تک نوبت آجاتی ہے توکیااس کو زیرعتاب سے تعبیر کیاجائے گا۔مولانا عبدالحی لکھنوی کے بارے میں بعض کی رائے کچھ بھی ہو خود مولانا کی رائے اپنے بارے میں تازندگی یہ تھی کہ وہ حنفی ہیں اورفقہ حنفی میں جزوی طورپر اجہتاد کی اہل علم کیلئے گنجائش ہے۔
ظاہر ہے ہر مسئلہ میں مختلف اقوال میں سے کسی ایک کی بات راحج ہو سکتی ہے ۔ لیکن خرابی یہ ہے مقلد ’’ کسی بھی ایک سلف ‘‘ کی رائے کو اختیار نہیں کرتا کہ یہ تو تحقیق ہے بلکہ ہر دفعہ ’’ ایک ہی سلف ‘‘ کی رائے کو ترجیح دے کر اپنے مقلد جامد ہونے کی لاج رکھتا ہے ۔
آپ نے پھر نعرہ لگاناشروع کردیا ۔ایسے بیس پچیس مسائل توبیان کردیجئے جس میں ہمارے پاس امام ابوحنیفہ کو چھوڑ کر دیگر اسلاف نہ ہوں۔ لیکن امید ہے کہ سابق کی طرح یہ دعویٰ دلیل سے معری ہی رہے گا۔ اگربیس پچیس مسائل سے طبعیت گھبرارہی ہے توکچھ مشہور اورمعرکہ کے مسائل بیان کردیجئے جس میں ہمارے پاس اسلاف امام ابوحنیفہ کوچھوڑ کر بالکل ہی نہ ہوں۔ رفع یدین کے جس مسئلہ پر آپ کوناز ہے اس میں اورسبھی کو چھوڑدیں توعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عدم رفع کے قائل اورعامل ہیں اوراس کے علاوہ تمام اہل کوفہ ۔یاپھر قرات خلف الامام کا ہی مسئلہ لے لیں جتنے اسلاف سے آپ استدلال کریں گے اتنے ہی ہمارے بھی پاس ملیں گے۔
ہم تویہ کہتے ہیں کہ سلفی کے پاس خود کے نام کی لاج رکھنے کیلئے کوئی بنیادی وجہ نہیں ہے جب کہ ہمارے پاس اس دعوی میں کہ ہرمسئلہ پر ہمارے پاس بھی امام ابوحنیفہ کو چھوڑ کر دیگر اسلاف موجود ہیں ہم اس پر پوری قوت سے دلیل دے سکتے ہیں۔ہاں کوئی خود کو ایک بار سلفی نام دے کر اپنی تمام لایعنی کاوشات کو تحقیق قراردیتاپھر ے اوردوسرے کی کاوشوں کو تقلید سے مطعون کرتاپھرے تواس کا کوئی علاج لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں ہے کیونکہ یہ وسوسہ کی بیماری کے قبیل سے ہے اوروسوسہ شیطانی امور میں سے ہے اورشیطان کا علاج تقوی اورپرہیز گاری سے ہے حکمت کی دوائوں سے نہیں ہے۔
تحقیق کا ضابطہ و اصول اتباع قرآن وسنت ہے ۔ اس کے علاوہ سب کچھ بے اصولیاں اور بے ضابطگیاں ہی ہیں ۔ چاہے کوئی مانے یا نہ مانے ۔
کم ازکم اس بات کوتوآپ کو مانناچاہئے کہ آپ کے یہاں حکیم اورڈاکٹر مسائل پر بے دھڑک کلام کرتے ہیں اورایساکرنے والوں کی تعداد خاصی ہے۔پتہ نہیں کیوں اس حقیقت سے بھی آپ منہ چھپاتے چلے جارہے ہیں۔ خیر دوسروں سے ہم پرامید ہیں کہ وہ اس حقیقت کے منکر نہیں ہوں گے۔والسلام
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
آپ خود کیوں نہیں دریافت کرلیتے ۔جن کتابوں میں آپ کے بزرگوں نے ابن عربی کو شیخ اکبر تصوف اورمحمد بن عبدالوہاب کے خلاف اورجہاد کے خلاف کلام کیاہے اورانگریزی حکومت کو سب سے بہترحکومت قراردیاہے ان سب کے تعلق سے پوچھ لیجئے کہ ایساکہنے والے کیسے لوگ ہیں۔ویسے بھی آپ سعودیہ میں ہی ہیں کوئی مشکل نہیں۔
دیکھیں جمشید صاحب !
آپ سعودیہ والوں کے ہاں اپنے بارےمیں پھیلائی ہوئی غلط فہمیاں دور کرنا چاہتے ہیں کہ نہیں ؟ اگر چاہتے ہیں تو پھر المہند ان کے سامنے رکھنے میں کیا پریشانی ہے ؟ کیا المہند میں لکھے ہوئے عقائدسے آپ نے اظہار براءت کردیا ہے ؟
اب آپ کے بارے میں پھیلی ہوئی غلط فہمیاں دور کرنا کس کی ذمہ داری ہے ؟ آ پ کی یا کسی اور کی ؟

رہی بات ہمارے اکابرین کی ۔ پہلی بات ہمارا اکابرین کے بارے میں یہ طرز عمل ہے کہ جو کچھ قرآن وسنت کے مطابق ہوا وہ قبول اور جو کچھ لغزشیں ہوئی ہیں ان کا اندھا دھند دفاع کرنے کی بجائے براءت کا اظہا رکرتے ہیں ۔
اسی وجہ سے سعودیہ والے یہ جانتے ہوئے بھی کہ اہل حدیث کے بعض اکابرین بعض مسائل میں غلط تھے انہوں نے کبھی ہمارے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہا ر نہیں کیا ۔ یہاں ضمنا ایک بات رکھنا چاہتا ہوں کہ اہل حدیث کے بڑے عالم دین تھے ان کے بارے میں مجھے ہمارے ایک سعودی استاذکی زبانی پتہ چلا کہ وہ اشعری تھے ۔
دوسری بات : جب ہمارے بارے میں وہ غلط فہمی کا شکار ہیں ہی نہیں تو ہمیں کتابیں دکھانے کی کیا ضرورت ہے ؟ ہاں البتہ اگر آ پ کو اس بارے میں پریشانی ہے تو آپ ان کو ہمارے بارے میں کتابیں دکھائیں ، بڑی خوشی سے دکھائیں ۔

یہ وجہ ہے جس کی وجہ سے دونوں طرف سے میں آپ کو گزارش کر رہاہوں کے کتابیں آپ دکھائیں ۔۔۔۔۔۔ اب بتائیں اس میں بے اصولی کہاں ہے ؟
آپ کہہ رہے کہ قارئین سے مشورہ لے لیں ۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے آپ جس سے رائے لینا چاہتے ہیں لے لیں ۔

یہ توآپ کا نعرہ ہے اورتکیہ کلام ہے ائمہ کے اجتہادات میں بھی آپ حدیث صریح کا مطالبہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں اوراس حماقت کو اپنی عقل مندی قراردیتے ہیں۔لیکن آپ کے فضائل ومناقب کے باب میں حدیث شریف پوچھنے پر یہ ناراضگی ۔آپ توفرماتے ہیں کہ حدیث میں ہرچیز موجود ہے یہی کہہ کر ائمہ کے اجتہادات سے ناواقفوں کو ورغلانے کی کوشش کرتے ہیں۔بہرحال یہ بات آنجناب نے تسلیم کرلی بڑااچھاکیاکہ اہل حدیث کے فضائل ومناقب میں کوئی حدیث موجود نہیں۔ اب جولوگ اقوال رجال غیرمعبترجیسے نعرے لگاتے ہیں ان کو ٹھنڈاہوجاناچاہئے ۔ اورسمجھ جاناچاہئے کہ جس چیز کو ہم نے قطعی درجہ دے رکھاتھاوہ تو پائے چوبیں ثابت ہوا۔
قرآن وسنت میں ہر چیز ہے یہ ہماری نہیں قرآن مجید کا دعوی ہے ما فرطنا فی الکتب من شیء ۔
قرآن وسنت اور احادیث میں بے شمار نصوص ایسی ہیں جن میں قرآن وسنت کی اتباع کرنے والوں کی مدح و ثناء کی گئی ہے اور اس کےبرعکس مذمت کی گئی ہے ۔ حضور کا ارشاد گرامی ہے :
من أطاعنی دخل الجنۃ و من عصانی فقد أبی ۔ اب اس حدیث کو مد نظر رکھتے ہوئے اہل حدیث کا یہ نظریہ ہے کہ ان شاء اللہ وہ جنت میں جائیں گے ۔۔۔۔۔ اور جو لوگ سالہا سال حدیث سے جان چھڑانے کی کوشش میں رہتے ہیں وہ بھی اپنا مقام و مورد یہاں سے اندازہ لگا لیں ۔
علماء کے اقوال تاریخ سے متعلق ہیں اب آپ کیا چاہتےہیں کہ اللہ تعالی ان تمام چیزوں کو قرآن میں ہی نازل فرمادیتے ۔ اقوال رجال کے غیر معتبر ہونے کی بات ہم قرآن وسنت کے مقابلے میں کرتے ہیں ۔ تاریخی اقوال کا ہم نے کب انکار کیا ہے ؟
اگر ہمارا قرآن وسنت پر عمل کے دعوی سے ہمیں تاریخ بھی قرآن وسنت سے ثابت کرنی ہے تو پھر مقلدین کو بھی یہ سب چیزیں امام صاحب سے ثابت کرنی چاہییں ۔ کیا خیال ہے ایسا کر سکتے ہیں ؟

اس زباندانی کا مظاہرہ کسی آڑے وقتوں کیلئے محفوظ رکھئے اورجامعہ اسلامیہ میں کسی اچھے استاد سے پوچھ لیجئے کہ اس سے امام احمد کا کیامقصود ہے وہ تقریر جوآپ نے کی ہے وہ مقصود ہے یاامام احمد بن حنبل اہل حدیثوں کی دورنگی کا رونارورہے ہیں کہ عمروبن شعیب کو انہوں نے اپناکرۃ القدم بنالیاہے جب ضرورت پڑی قابل استدلال قراردے دیااورجب ضرورت ختم توجرح شروع۔
نئے تھریڈ شروع کرکے اپناقیمتی وقت ضائع نہ کریں کسی اچھے فرد سے جو عربی زبان ولغت اورعلم جرح وتعدیل میں ماہر ہو پوچھ لیں کہ اس سے امام احمد بن حنبل کامقصود کیاہے ۔ آپ کا کافی ساراوقت بچ جائے گا۔ اوراگروہی مطلب ہے جو آپ بتاناچاہ رہے ہیں تواپناکلام مدلل اورباحوالہ فرمائیے ذاتی اورمستند ہے میرافرمایاہوا سے پرہیز کیجئے۔
ٹھیک ہے مفید مشورہ کے لیے شکریہ لیکن آپ نے جو ثابت کرنا چاہا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کی بھی وضاحت کریں :
آپ نے جو قول پیش کیا ہے اس میں ’’ اہل حدیث ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور یہ قول امام احمد بن حنبل کا ہے لہذا اس سے مراد اس زمانے کے اہل حدیث ہیں آپ مجھے یہ بتائیں اگر اس زمانے کے اہل حدیث آپ کے نزدیک من مانیاں کرنے کی وجہ سے ناقابل حجت ہیں تو آپ جن احادیث سے امام صاحب کے مذہب کو تقویت دینے کے لیے استدلال کرتے ہیں وہ کن کی روایات ہیں ؟ امام احمد بن حنبل نے جن لوگوں کو اہل حدیث کہا ہے ان کو ایک طرف کرکے آپ ذرا ایک حدیث بھی ثابت کرکے دکھائیں ؟
محدثین سے برہمی اپنی جگہ پر لیکن جناب اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہ ماریں ۔


حضورکا یہ فرمان نہ ازقبیل وحی تھااورنہ ازقبیل معجزات وپیشن گوئی تھا ظاہری اسباب کی عدم دستیابی پرصورت حال کااظہار تھا۔اوراگرمیں نے یہ بات کہی ہے کہ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر ظاہری اسباب کی عدم فراہمی کی بناء پر ناامیدی کا اظہار کیاہے توکوئی دوسرااگرایساکرتاہے تواس کو عقیدہ کی خرابی کانام مت دیجئے
ٹھیک ہے میں اپنی بات کو واپس لیتا ہوں ۔۔ اور تصحیح کےلیے شکریہ ۔

اس باب کا جواب ماقبل میں عرض کردیاگیاہے۔ویسے آپ کے انکار کی وجہ تاحال سمجھ میں نہیں آئی کسی بھی غیرجانبدار شخص سے یہ بات پوچھ لیجئے چلئے ہمیں حنفی اوردیوبندی سمجھ کر مخالف سمجھتے ہیں کسی شافعی سے پوچھ لیجئے۔ کسی غیرجانبدار سعودی عرب پر نگاہ رکھنے والے مبصر سے پوچھ لیجئے۔اب لوگ آنکھوں دیکھی حقیقت کا بھی انکار کرنے لگیں توسوائے اس کے کیاکہاجاسکتاہے کہ بصیرت کے ساتھ بصارت کابھی نقصان ہواہے۔
ہمارے سعودیہ کے ساتھ تعلقات ہیں ہم نے ان کا انکار کب کیا ہے ؟ اور نہ ہی انکار کرنے کی کوئی ضرروت ہے ؟ ہم خوب جانتے ہیں کہ کن لوگوں کے تعلقات قائم ہیں اور کون مسلسل تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں ؟ آپ ایک بات کو تو مانتے ہیں اور دوسری کا انکار کرتے ہیں کیوں ؟
آپ یہ بات ماننے میں کیوں پس و پیش کرر ہے ہیں کہ دیوبندی لگاتار سعودیہ سے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ؟
تحفظ سنت کانفرنس کا اقتباس شاید آپ کو بھول گیا ہے اس کو ایک دفعہ پھر پڑھیں اور اندازہ لگائیں کہ فراق سے کیا برا حال ہو رہا ہے بیچاروں کا ۔
ہوسکتا ہے آپ ذاتی طور پر اس بات کو اچھا نہ سمجھتے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ظاہر ہے مشائخ دیوبند کے سامنے آپ کی ذات کی کیا حیثیت ہے ؟
اپنی پسند یا نا پسند پر حقائق انکار تو نہیں کیا جا سکتا جناب ؟

آپ نے پھر نعرہ لگاناشروع کردیا ۔ایسے بیس پچیس مسائل توبیان کردیجئے جس میں ہمارے پاس امام ابوحنیفہ کو چھوڑ کر دیگر اسلاف نہ ہوں۔ لیکن امید ہے کہ سابق کی طرح یہ دعویٰ دلیل سے معری ہی رہے گا۔ اگربیس پچیس مسائل سے طبعیت گھبرارہی ہے توکچھ مشہور اورمعرکہ کے مسائل بیان کردیجئے جس میں ہمارے پاس اسلاف امام ابوحنیفہ کوچھوڑ کر بالکل ہی نہ ہوں۔ رفع یدین کے جس مسئلہ پر آپ کوناز ہے اس میں اورسبھی کو چھوڑدیں توعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عدم رفع کے قائل اورعامل ہیں اوراس کے علاوہ تمام اہل کوفہ ۔یاپھر قرات خلف الامام کا ہی مسئلہ لے لیں جتنے اسلاف سے آپ استدلال کریں گے اتنے ہی ہمارے بھی پاس ملیں گے۔
ہم تویہ کہتے ہیں کہ سلفی کے پاس خود کے نام کی لاج رکھنے کیلئے کوئی بنیادی وجہ نہیں ہے جب کہ ہمارے پاس اس دعوی میں کہ ہرمسئلہ پر ہمارے پاس بھی امام ابوحنیفہ کو چھوڑ کر دیگر اسلاف موجود ہیں ہم اس پر پوری قوت سے دلیل دے سکتے ہیں۔ہاں کوئی خود کو ایک بار سلفی نام دے کر اپنی تمام لایعنی کاوشات کو تحقیق قراردیتاپھر ے اوردوسرے کی کاوشوں کو تقلید سے مطعون کرتاپھرے تواس کا کوئی علاج لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں ہے کیونکہ یہ وسوسہ کی بیماری کے قبیل سے ہے اوروسوسہ شیطانی امور میں سے ہے اورشیطان کا علاج تقوی اورپرہیز گاری سے ہے حکمت کی دوائوں سے نہیں ہے۔
سلفی کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سلف میں سے اپنی مرضی کے مطابق کسی ایک کو لے لو اور باقیوں کو چھوڑ دو ۔ سلفی کا مطلب ہے کہ سلف کے متفقہ منہج کے مطابق چلو ۔ اور سلف کا متفقہ منہج یہ ہے کہ قرآن وسنت پر عمل کیا جائے ۔ اور اس کے مخالف بات کو چھوڑ دیا جائے ۔
اگر سلف میں سےکسی ایک کی بات کو دوسرے کی بات پر ترجیح دینی ہے تو اس کی بنیاد قرآن وسنت ہو نا چاہیے نہ کہ اپنی من مانی ۔ کیونکہ قرآن وسنت کو معیار قرار دے کر ہی ہم سلف کے ساتھ انصاف کر سکتےہیں ۔ کیونکہ یہ تو امر واقع ہے کہ سلف کے مابین مسائل میں اختلاف رہا ہے ۔ اب ہر ایک کی بات کو ماننا تو ویسے ہی نا ممکن ہے دوسری صورت یہ ہے کہ کسی ایک کا پلو پکڑ کا بیٹھ جائیں یہ بھي غلط ہے ایک ہی صورت باقی رہتی ہے قرآن وسنت کو معیار قرار دے لیا جائے جو کچھ اس کے مطابق ہو اس کو لے لیا جائے اور جو کچھ اس کے مخالف ہے اس کو چھوڑ دیا جائے ۔
لیکن آپ لوگ قلادہ گلے میں ڈال کر اس کے مطابق اقوال ڈہونڈنا شروع کر دیتے ہیں جو اس کے مطابق آگیا ہے قبول ، باقی رد ۔ اور نصوص شریعت کا بھی یہی حال کرتے ہیں آپ لوگ ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
زیر بحث امر میں تسلی توتب ہوتی جب آپ کچھ کام کی باتیں کرتے باحوالہ اورمدلل اپنی بات ثابت کرتے لیکن آپ اورآپ حضرات توفورانعرے بازی کرنے لگ جاتے ہیں ہم صحیح ہمارامنہج صحیح ہم اہل حق اورہمارے مخالفین بدعتی ضال مضل اورپتہ نہیں کیاکیا۔ ثابت کیجئے آپ کے آپسی اختلاف اورمقلدین کے آپسی اختلاف میں جوہری طورپر کیافرق ہے ؟پھر ہمارااختلاف معتبر اوران کا اختلاف غیرمعتبر کیوں ہے۔ اس کے بغیر صرف نعرے لگادینے کو ہی جن لوگوں نے دلیل کابدل سمجھ رکھاہے توان کیلئے تسلی ہوگئی ہوگی میرے لئے ہرگز تسلی نہیں ہوئی۔
اس بحث کا آغاز غالبا یہاں سےہوا تھا :
اپنی رائے کی بجائے صرف قرآن وسنت سے استدلال کرنے والوں میں بھی اختلاف ہو سکتا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ کتاب وسنت میں کوئی اختلاف نہیں لیکن علماء میں (نہایت خالص نیت کے باوجود) کتاب وسنت کے فہم میں اختلاف ہوجانا اظہر من الشمس بات ہے۔
صحابہ کرام ﷢ میں بھی بہت سے مسائل میں اختلاف تھا۔ کیا وہ بھی کتاب وسنت کو چھوڑ کر اپنی رائے چلاتے تھے؟؟؟
جس پر آپ نے کہا :
کیاصحابہ کرام ظاہری اورجمود علی الظاہرکے وتیرہ پر تھے۔؟
مسئلہ کی بنیاد یہ ہے کہ
مسائل میں اختلاف ہوجانافطری امر ہے یہ فہم کی وجہ سے ہو علم اورمعلومات کی وجہ سے ہو یااس کے دیگر اسباب ہوں۔
لیکن اہل حدیث جب مقلدین کے تعلق سے گفتگو کرتے ہیں تو ان کو یہ اختلاف نہایت مذموم نظرآتاہے جیساکہ البانی نے سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ میں اختلاف امتی رحمہ اپنے"فوائد"پیش کرتے ہوئے لکھاہے۔اوراس سے قبل انہی باتوں کو ابن حزم ظاہری کہہ چکے ہیں۔
لیکن جب آپس میں خود مختلف مسائل پر اختلاف ہوتاہے توصحابہ کرام کی یادآنے لگتی ہے۔
آپ سے عرض کی گئی تھی :
صحابہ کا اختلاف بھی فہم نصوص کتاب وسنت کی بنا پر ہوتا تھا اور الحمد للہ اہل حدیث کا اختلاف بھی اسی نوعیت کا ہے ۔ جب کہ مقلدین پر نصوص کتاب وسنت کے فہم کی پابندی ہے اور پیچھے ایک امام کے( فہم کے) آمین ہے ۔
گویا مقلدین کا اختلاف فہم نصوص مذہب میں ہوتا ہے جبکہ اہل حدیث کا اختلاف فہم نصوص کتاب وسنت میں ہوتا ہے اسی لیے ہمیں صحابہ کی یاد آتی ہے کہ صحابہ کااختلاف بھی اسی نوعیت کا تھا ۔ آپ کو بھی اگر صحابہ کی یاد ستاتی ہے تو ذرا سنگ دل ہو کر صنمِ تقلید کے پرخچے اڑا دیں اور وصال کے مزے لوٹیں ۔
جس پر آپ نے جوابا کچھ کہنے کی بجائے موضوع کو بدلتے ہوئے فرمایا :
ویسے صنم تقلید کہنے سے پہلے ذراتقلید کی شروعات سے اب تک جتنے مقلدین گزرے ہیں سب کو مشرک اورکافر کہنے کا فتوی صادرکردیں۔اورذراائمہ حرمین سے بھی اس کی توثیق کرالیں پھر ہم بھی آپ کی گزارش پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔اوراگریہ نہ ہوسکے توبراہ کرم اپنے الفاظ سے رجوع کا حوصلہ دکھائیں۔اوراگریہ دونوں ہی نہ ہوسکے تومجھے پیشگی کہنے دیجئے
نہ خنجراٹھے گانہ تلوار ان سے
یہ بازومیرے آزمائے ہوئے ہیں
آپ کے یوں پینترا بدلنے سے یہی سمجھ آتی ہے کہ آپ کی تسلی ہوگئی ہے لیکن اعتراف کرنے سے کترا رہے ہیں ۔
اب آپ نے دوبارہ پھر ارشاد فرمادیا ہے کہ ابھی میری تسلی نہیں ہوئی اب آپ ہی کوئی نسخہ بتادیں جس سے آپ کی طبیعت ذرا سنبھلنے کی امید ہے ۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
شاہد نذیر صاحب کبھی آپ کہتے ہیں

صرف امام کے اقوال پر اندھے بن کر عمل کئے جاؤ
عمل تو قول امام پر ہو
حدیث رسول چھوڑ دینا قول امام مت چھوڑنا
صرف کہتے نہیں بلکہ اپنا کہا ثابت بھی کیا ہے۔

جب میں جواب دیا تو اب آپ نے موقف بدلا اور امام کی جگہ ائمہ کہنا شروع کردیا
یہ خبر تو یقینا ہمارے لئے حیران کن ہے کہ آپ نے جواب دے دیا لیکن وہ جواب کہاں ہے زرا نشاندہی فرمادیں؟ اور آپکی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ہم نے اپنا موقف نہیں بدلا ہمارا موقف تو ایک ہی ہے یہ تو مقلدین حضرات ہیں جو گرگٹ کی طرح جان بچانے کے لئے رنگ بدلتے رہتے ہیں۔ملاحظہ ہو:

حنفی حضرات قولی طور پر صرف اور صرف ابوحنیفہ کی تقلید کرتے ہیں اور اسی ایک شخص کی تقلید کی طرف دوسرے مسلمانوں کو دعوت دیتے ہیں۔ دیوبندیوں کی مستند عقیدہ کی کتاب میں لکھا ہے: جاننا چاہیے کہ ہم اور ہمارے مشائخ اور ہماری ساری جماعت بحمداللہ فروعات میں مقلد ہیں مقتدائے خلق حضرات امام ہمام امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے۔(المہند علی المفند)

حنفی اپنے اس امام کی اندھی تقلید کرتے ہیں اسکے اقوال کے آگے قرآن و حدیث کو کوئی اہمیت نہیں دیتے بلکہ قول امام کو ٹھکرا کر حدیث پر عمل کو گمراہی لیکن حدیث کو ٹھوکر مار کر قول امام پر عمل کو عین ہدایت سمجھتے ہیں اسکے ثبوت میں تقی عثمانی صاحب کے یہ حوالہ جات ہی کافی ہیں۔

بلکہ ایسے شخص کو اگر اتفاقاً کوئی حدیث ایسی نظر آجائے جو بظاہر اس کے امام مجتہد کے مسلک کے خلاف معلوم ہوتی ہو تب بھی اس کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے امام و مجتہد کے مسلک پر عمل کرے...... اگر ایسے مقلد کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف پاکر امام کے مسلک کو چھوڑ سکتا ہے، تو اس کا نتیجہ شدید افراتفری اور سنگین گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 87)

چناچہ اس کا کام صرف تقلیدہے، اور اگر اسے کوئی حدیث اپنے امام کے مسلک کے خلاف نظر آئے تب بھی اسے اپنے امام کا مسلک نہیں چھوڑنا چاہیے۔(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 92)

ا ن کا کام یہ ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے امام مجتہد کے قول پر عمل کریں،اور اگر انہیں کوئی حدیث امام کے قول کے خلاف نظر آئے تو اس کے بارے میں سمجھیں کہ اس کا صحیح مطلب یا صحیح محمل ہم نہیں سمجھ سکے۔(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 94)

اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ حنفی مذہب صرف ابوحنیفہ کے خیالات کا مجموعہ نہیں بلکہ اس مذہب کے اختراع میں انکے شاگرد بھی پورے پورے حصہ دار ہیں اور یوں حنفی مذہب ایک نہیں بلکہ تین افراد کے فتووں کا مجموعہ ہے جیسا کہ شاہ ولی اللہ حنفی نے اس کی صراحت کی ہے: ان کے اندر کے سارے مسائل امام ابوحنیفہ کا مذہب کہے جانے لگے۔ اس طرح امام ابویوسف اور امام محمد کے مذاہب بھی امام ابوحنیفہ کے مذہب کے ساتھ مل گئے اور ان سب کو ایک ہی شمار کر لیا گیا۔(اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ، صفحہ 44)

اس چشم کشا حقیقت سے معلوم ہوا کہ حنفی فروعی مسائل میں ایک نہیں بلکہ چار ائمہ کے مقلد ہیں پھر عقائد کے دو امام الگ۔ اپنے مذہب میں اماموں کا مینہ بازار لگانے کے باوجود بھی حنفی خود کو صرف ابوحنیفہ ہی کی طرف منسوب کرتے ہیں جو کہ حقیقت کو چھپانے کے مترادف ہے۔

فقہ حنفی میں مندرج ہے:
علماء نے صراحت کی ہے کہ ذوی الارحام یعنی رشتہ داری سے متعلق تمام مسائل میں امام محمد کے قول پر فتویٰ ہے اور ’’الاشباہ و النظائر‘‘ کے قضاء میں ہے کہ ’’قضا‘‘ (فیصلوں) سے متعلق تمام مسائل میں قاضی ابویوسف کے قول پر فتوی ہے۔ شرح البیری میں ہے کہ گواہی سے متعلق مسائل میں بھی انہیں کے قول پر فتویٰ ہوگا اور سترہ ١٧ مسائل میں زفر کے قلو پر فتویٰ ہوگا۔(ردالمحتار،جلد١، صفحہ ٧٠)

جن جن مسائل میں ابوحنیفہ کے شاگردوں نےاپنے استاد سے اختلاف کیا ہے انہی اختلافی مسائل پر آج حنفی مذہب کی بنیاد قائم ہے۔گویا کہ کچھ مسائل میں مقلدین ابوحنیفہ کی تقلید کرتے ہیں اور کچھ مسائل میں انکے شاگردوں کی تقلید کرتے ہیں۔ بلکہ مذکورہ بالا حوالے سے تو ظاہر ہے کہ یہ لوگ ابوحنیفہ کے کم اور ابویوسف اور امام محمد کے زیادہ اور بڑے مقلد ہیں۔

معاملہ صاف اور واضح ہوگیا کہ جب میں نے صرف امام کی بات کی تو بھی مستند حوالہ جات پیش کئے کہ یہ حنفی موقف ہے اور جب ائمہ کی بات کی تو اسے بھی مستند علمائے احناف سے ثابت شدہ حقیقت کے طور پر پیش کیا کہ یہ بھی حنفی موقف ہے۔ اب آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ ہم نے اپنا موقف نہیں بدلا بلکہ آپ ہی کے دو الگ الگ اور متضاد موقف پیش کئے ہیں لہٰذا اگر موقف بدلنے کا الزام لگانا ہے تو یہ الزام آپ ہی پر عائد ہوتا ہے۔

آپ پہلے فیصلہ کرلیں کہ ہم صرف امام ابو حنیفہ کے قول کو حرف آخر سمجھتے ہیں یا دلیل کی بنیاد پر ان کے قول کو چھوڑ کر دیگر ائمہ کی اقوال پر چلتے ہیں ( اگر ان کا قول قرآن و سنت کے موافق ہو) یا آپ نے ایک بار پھر موقف بدلنا ہے تو فائنل موقف بتادیں ، میں پھر ہی کچھ عرض کرسکوں گا
اپنے مذہب کی متضاد باتوں کے بجائے آپ خود فیصلہ کرلیں کہ اگر آپ امام ابوحنیفہ کے مقلد ہیں تو آپکو امام صاحب کے ان تمام مسائل پر عمل پیرا ہو جانا چاہیے جنھیں صاحبین نے ٹھکرا دیا ہے کیونکہ تقلید شخصی کی تعریف تقی عثمانی صاحب ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: اور دوسری صورت یہ ہے کہ تقلید کے لئے کسی ایک مجتہد عالم کو اختیار کیا جائے، اور ہر مسئلہ میں اسی کا قول اختیار کیا جائے، اسے ’’تقلید شخصی‘‘ کہا جاتا ہے۔(تقلید کی شرعی حیثیت،صفحہ15)

تقلید شخصی کی اس تعریف کے برعکس اگر آپ ہر مسئلہ میں ابوحنیفہ کا قول اختیار نہیں کرتے تو مقلدین ابوحنیفہ کی تقلید شخصی کے دعویٰ میں جھوٹے ہیں۔ اور اگر اسی طرح کچھ مسائل میں ابوحنیفہ کی اور کچھ مسائل میں انکے شاگردوں کی تقلید کرنی ہے تو ابوحنیفہ کی تقلید کا جھوٹا راگ الاپنے کے بجائے اس بات کا اقرار، اعتراف و اعلان کریں کہ حنفی فروعات میں چار اماموں کے مقلد ہیں۔اور یہ بھی طے ہے کہ چاہے حنفی ایک امام کی تقلیدکا اقرار کریں یا چار کی جن مسائل میں صاحبین نے امام صاحب سے اختلاف نہیں کیا ان مسائل میں حنفی ابوحنیفہ کی بات کو حرف آخر سمجھتے ہیں اور جن مسائل میں صاحبین نے ابوحنیفہ سے اختلاف کیا ہے ان مسائل میں صاحبین کی بات کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔ قرآن و حدیث کا مقلدوں سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی انکے مذہب میں قرآن وحدیث کی یہ اہمیت ہے کہ انکی وجہ سے اپنے ائمہ کی بات سے اختلاف کرلیں۔ حنفی صرف اور صرف مقلد ہیں اور وہ بھی نابینا جو اپنے ائمہ کے پیچھے اندھے کنویں میں کود چکے ہیں۔

اسکے علاوہ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ حنفی مقلدین اپنے امام سے دلائل کی بنیاد پر کوئی اختلاف نہیں کرتے بلکہ غیر اختلافی مسائل میں ابوحنیفہ کی اندھی تقلید کرتے ہیں اور ان مسائل میں جن میں امام صاحب کے شاگردوں نے اپنے استاد سے اختلاف کیا ہے صاحبین کی اندھی تقلید میں مبتلا ہیں۔ اگر تلمیذ صاحب اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو مکرر گزارش ہے کہ دنیا میں موجود کسی حنفی عالم کا نام بمعہ ان اختلافات کی تفصیل کے جن میں انہوں نے دلائل کی بنیاد پر ابوحنیفہ سے الگ راہ اپنائی ہے پیش کریں۔ ورنہ خالی خولی باتوں سے لوگوں کو بے وقوف بنانا چھوڑ دیں۔

آپ کے فہم کی کوئی اہمیت نہیں ۔ ہمارے فقہی ائمہ اس قول کی تشریح کرچکے ہیں ۔ ملاحظہ ہو محمد أمين بن عمر (ابن عابدين) کہتے ہیں


أي على من رد ما قاله من الأحكام الشرعية محتقرا لها ، فإن ذلك موجب للطرد والإبعاد ، لا بمجرد الطعن في الاستدلال ; لأن الأئمة لم تزل يرد بعضهم قول بعض
آپ نے خوف کے مارے یہاں بھی عربی عبارت کا ترجمہ نہیں کیا۔ بہرحال ہماری کوٹ کی گئی عبارت واضح ہے اور کسی اضافی تشریح کی محتاج نہیں جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ابوحنیفہ کے قول کو رد کردینے والا بدترین لعنتی ہے۔ اور ان لعنتوں کے سب سے بڑے مستحق بھی صاحبین ہیں کیونکہ انہوں نے ایک تہائی مسائل میں ابوحنیفہ کے اقوال کو ٹھکرا دیا ہے۔

نوٹ: اگرابن عابدین نے عبارت کی کوئی ایسی تشریح کی ہے جس سے اصل عبارت کا مفہوم و معنی بدل جاتے ہیں تو ایسی تشریح مردود ہے اور شارح کے منہ پر ماری جائے گی۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اپنی رائے کی بجائے صرف قرآن وسنت سے استدلال کرنے والوں میں بھی اختلاف ہو سکتا ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ کتاب وسنت میں کوئی اختلاف نہیں لیکن علماء میں (نہایت خالص نیت کے باوجود) کتاب وسنت کے فہم میں اختلاف ہوجانا اظہر من الشمس بات ہے۔
صحابہ کرام ﷢ میں بھی بہت سے مسائل میں اختلاف تھا۔ کیا وہ بھی کتاب وسنت کو چھوڑ کر اپنی رائے چلاتے تھے؟؟؟
جس پر آپ نے کہا :
اقتباس اصل پیغام ارسال کردہ از: جمشید پیغام دیکھیے
کیاصحابہ کرام ظاہری اورجمود علی الظاہرکے وتیرہ پر تھے۔؟
مسئلہ کی بنیاد یہ ہے کہ
مسائل میں اختلاف ہوجانافطری امر ہے یہ فہم کی وجہ سے ہو علم اورمعلومات کی وجہ سے ہو یااس کے دیگر اسباب ہوں۔
لیکن اہل حدیث جب مقلدین کے تعلق سے گفتگو کرتے ہیں تو ان کو یہ اختلاف نہایت مذموم نظرآتاہے جیساکہ البانی نے سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ میں اختلاف امتی رحمہ اپنے"فوائد"پیش کرتے ہوئے لکھاہے۔اوراس سے قبل انہی باتوں کو ابن حزم ظاہری کہہ چکے ہیں۔
لیکن جب آپس میں خود مختلف مسائل پر اختلاف ہوتاہے توصحابہ کرام کی یادآنے لگتی ہے۔
آپ سے عرض کی گئی تھی :
صحابہ کا اختلاف بھی فہم نصوص کتاب وسنت کی بنا پر ہوتا تھا اور الحمد للہ اہل حدیث کا اختلاف بھی اسی نوعیت کا ہے ۔ جب کہ مقلدین پر نصوص کتاب وسنت کے فہم کی پابندی ہے اور پیچھے ایک امام کے( فہم کے) آمین ہے ۔
آپ اورآپ کی جماعت کا یہ انداز نعرے بازی والا ہے۔
الحمد للہ اہل حدیث کااختلاف بھی اسی نوعیت کاہے۔
یہ جملہ بولناجتناآسان ہے اسے ثابت کرنااتنامشکل ہی ہے لیکن اپ حضرات نے نعرے بازی کرکے اس مشکل کو بھی آسان کرلیاہے اورہرمسئلہ کاحل نعرہ لگاناسیکھ لیاہے۔اب میں آپ کو آپ کا ہی جملہ یاددلادوں
چہ پدی چہ پدی کا شوربہ
کہاں رسول پاک کے فیض صحبت سے منوراورمطہر قلب وذہن کے مالک صحابہ کرام
اورکہاں یہ مینڈکی کوبھی زکام ہواہے ہمارااختلاف اورصحابہ کرام کا اختلاف بالکل برابر نوعیت کاہے۔
صحابہ کرام اختلاف کے وقت بھی جادہ شریعت پر مستقیم رہتے تھے
اوردوسری جانب غیرمقلدین اکابرین کے اختلاف کو دیکھئے جس میں کفروفسق اورپتہ نہیں کیاکیاایک دوسرے پر اتہامات لگائے گئے ہیں لیکن پھر بھی نعرہ یہی رہے گاکہ ہمارااختلاف صحابہ کرام کےا ختلاف کے جیسے ہے۔
غیر مقلدوں کی طرف سے ثناء اللہ امرتسری پر کفر کا فتوی
کہئے توکچھ مزید لنک ارسال کروں آپ حضرات کے اکابرین کے آپسی اختلافات کے ۔تاکہ غیرجانبدار قارئین کوبھی لگے کہ صحابہ کرام جیسے اختلافات کے مدعیاں کی حالت زار کیاہے۔
جس پر آپ نے جوابا کچھ کہنے کی بجائے موضوع کو بدلتے ہوئے فرمایا :
ویسے صنم تقلید کہنے سے پہلے ذراتقلید کی شروعات سے اب تک جتنے مقلدین گزرے ہیں سب کو مشرک اورکافر کہنے کا فتوی صادرکردیں۔اورذراائمہ حرمین سے بھی اس کی توثیق کرالیں پھر ہم بھی آپ کی گزارش پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔اوراگریہ نہ ہوسکے توبراہ کرم اپنے الفاظ سے رجوع کا حوصلہ دکھائیں۔اوراگریہ دونوں ہی نہ ہوسکے تومجھے پیشگی کہنے دیجئے
نہ خنجراٹھے گانہ تلوار ان سے
یہ بازومیرے آزمائے ہوئے ہیں
آپ خود توفرمائیں کہ ضمنی باتوں کا جواب دینے کو باتوں سے پلٹنا اورموضوع کابدلنانہیں کہتے لیکن اگرہم نے آپ نعروں کے ڈھول کا پول کھولناشروع کردیاتواس کو پینترا بدلنے سے تعبیر فرمانے لگے
ضمنی باتیں نکل آتی ہیں اصل موضوع کے ساتھ ساتھ اگر ان پر بات کر لی جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ موضوع سے ہٹنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
آپ کے یوں پینترا بدلنے سے یہی سمجھ آتی ہے کہ آپ کی تسلی ہوگئی ہے لیکن اعتراف کرنے سے کترا رہے ہیں ۔
آپ ہی ذرااپنے مراسلات پر ایک نگاہ دوڑاکربتادیں کہ کتنی باتیں آنجناب نے باحوالہ ،مدلل فرمائی ہیں؟
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
دیکھیں جمشید صاحب !
آپ سعودیہ والوں کے ہاں اپنے بارےمیں پھیلائی ہوئی غلط فہمیاں دور کرنا چاہتے ہیں کہ نہیں ؟ اگر چاہتے ہیں تو پھر المہند ان کے سامنے رکھنے میں کیا پریشانی ہے ؟ کیا المہند میں لکھے ہوئے عقائدسے آپ نے اظہار براءت کردیا ہے ؟
اب آپ کے بارے میں پھیلی ہوئی غلط فہمیاں دور کرنا کس کی ذمہ داری ہے ؟ آ پ کی یا کسی اور کی ؟

رہی بات ہمارے اکابرین کی ۔ پہلی بات ہمارا اکابرین کے بارے میں یہ طرز عمل ہے کہ جو کچھ قرآن وسنت کے مطابق ہوا وہ قبول اور جو کچھ لغزشیں ہوئی ہیں ان کا اندھا دھند دفاع کرنے کی بجائے براءت کا اظہا رکرتے ہیں ۔
اسی وجہ سے سعودیہ والے یہ جانتے ہوئے بھی کہ اہل حدیث کے بعض اکابرین بعض مسائل میں غلط تھے انہوں نے کبھی ہمارے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہا ر نہیں کیا ۔ یہاں ضمنا ایک بات رکھنا چاہتا ہوں کہ اہل حدیث کے بڑے عالم دین تھے ان کے بارے میں مجھے ہمارے ایک سعودی استاذکی زبانی پتہ چلا کہ وہ اشعری تھے ۔
دوسری بات : جب ہمارے بارے میں وہ غلط فہمی کا شکار ہیں ہی نہیں تو ہمیں کتابیں دکھانے کی کیا ضرورت ہے ؟ ہاں البتہ اگر آ پ کو اس بارے میں پریشانی ہے تو آپ ان کو ہمارے بارے میں کتابیں دکھائیں ، بڑی خوشی سے دکھائیں ۔

یہ وجہ ہے جس کی وجہ سے دونوں طرف سے میں آپ کو گزارش کر رہاہوں کے کتابیں آپ دکھائیں ۔۔۔۔۔۔ اب بتائیں اس میں بے اصولی کہاں ہے ؟
آپ کہہ رہے کہ قارئین سے مشورہ لے لیں ۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے آپ جس سے رائے لینا چاہتے ہیں لے لیں ۔
سبحان اللہ!یہ سنجیدہ اورمعصومانہ الفاظ پڑھ کر اصل حالت سے ناواقف ایک شخص یہی خیال کرے گاکہ خضرحیات صاحب نے بڑی سنجیدہ اوراچھی بات کہی ہے لیکن اس میں چھپے مغالطے کو وہ نہیں جانیں گے۔
اصل بات یہ ہے کہ یہ حضرات ابن عربی کو کافرومشرک قراردیتے ہیں اورجوابن عربی کا حمایتی نظرآیااس کو بھی اسی کے ساتھ پرودیتے ہیں۔اسی کے ساتھ تصوف اورتصوف کے اصطلاحات بھی ان کے یہاں اگرکفروشرک نہیں توبدعت اورسنگین نوعیت کی بدعت سے کم حیثیت نہیں رکھتی ۔اسی کے ساتھ وحدۃ الوجود اوروحدت الشہور کی اصطلاحات وغیرہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اپنے جن اکابرکے بارے میں انہوں نے پروپیگنڈہ کے زور پر یہ محل کھڑاکیاہے کہ وہ کتاب وسنت کے سچے داعی تھے انہوں نے ہندوستان میں مخالف حالات میں کتاب وسنت کا پیغام پہنچایا۔غیرمقلدین نے اپنے اکابرین کی تصویر اورسیرت کا صرف ایک حصہ سعودیوں کے سامنے پیش کیا جب کہ سیرت نگاری اورانصاف کا تقاضہ تھاکہ پوراحصہ پیش کرتے لیکن انہوں ںے تصوف وغیرہ کے تعلق سے اپنے اکابرین کی سیرت کی پردہ پوشی کی۔
اب اگرغیرمقلدین کے ان اکابرین کے تعلق سے یہ باتیں عام ہوجائیں کہ وہ توصاحب ابن عربی کے حمایتی تھے۔ان کو شیخ اکبر گردانتے ہیں تصوف میں گلے گلے تک ڈوبے ہوئے تھے تویہ ساراعظمت کا محل دھڑام سے گرنہیں جائے گا اورجوفتوی انہوں نے دیوبندیوں کے بعض کرامات سے خودساختہ عقیدہ اورابن عربی کی حمایت پر لگایاہے ۔اب اسی فتوی کی زد میں ان کے اکابرین بھی ہوں گے۔اوریہی اصل وجہ ہے کہ یہ حضرات ان کتابوں کو اوران کی ایسی عبارتوں کو تاحد امکان چھپاتے رہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جس کی بناء پر میں آپ کو بار بار اس کی زحمت دے رہاہوں کہ خود سے اس طرح کی عبارات سامنے رکھ کر اپنے اکابرین کے تعلق سے دریافت کریں ۔اگرمزید زحمت اٹھانے کی خواہش ہوتو الدیوبندیہ سے اس طرح کے امور پرجوفتاوی جات نقل کئے گئے ہیں ان کوبھی شامل کرلیں کہ کیاہمارے اکابرین ان فتوی کی زد میں آتے ہیں یانہیں!
ق
رآن وسنت میں ہر چیز ہے یہ ہماری نہیں قرآن مجید کا دعوی ہے ما فرطنا فی الکتب من شیء ۔
قرآن وسنت اور احادیث میں بے شمار نصوص ایسی ہیں جن میں قرآن وسنت کی اتباع کرنے والوں کی مدح و ثناء کی گئی ہے اور اس کےبرعکس مذمت کی گئی ہے ۔ حضور کا ارشاد گرامی ہے :
من أطاعنی دخل الجنۃ و من عصانی فقد أبی ۔ اب اس حدیث کو مد نظر رکھتے ہوئے اہل حدیث کا یہ نظریہ ہے کہ ان شاء اللہ وہ جنت میں جائیں گے ۔۔۔۔۔ اور جو لوگ سالہا سال حدیث سے جان چھڑانے کی کوشش میں رہتے ہیں وہ بھی اپنا مقام و مورد یہاں سے اندازہ لگا لیں ۔
علماء کے اقوال تاریخ سے متعلق ہیں اب آپ کیا چاہتےہیں کہ اللہ تعالی ان تمام چیزوں کو قرآن میں ہی نازل فرمادیتے ۔ اقوال رجال کے غیر معتبر ہونے کی بات ہم قرآن وسنت کے مقابلے میں کرتے ہیں ۔ تاریخی اقوال کا ہم نے کب انکار کیا ہے ؟
اگر ہمارا قرآن وسنت پر عمل کے دعوی سے ہمیں تاریخ بھی قرآن وسنت سے ثابت کرنی ہے تو پھر مقلدین کو بھی یہ سب چیزیں امام صاحب سے ثابت کرنی چاہییں ۔ کیا خیال ہے ایسا کر سکتے ہیں ؟
ہم کہاں تک اپ کی غلطیوں اورمغالطوں کو نمایاں کرتے جائیں ۔سوال اس کا نہیں کہ من اطاعنی دخل الجنۃ
سوال اس کا ہے کہ کوئی حضور کی صحیح اطاعت کررہاہے اس کی دلیل کیاہے؟ورنہ دنیامیں آپ سے پہلے خوراج تھے ان کا بھی یہی نعرہ تھاان الحکم الاللہ اوردیگر مشبہ اورمجسمہ قسم کے گروپ تھے وہ بھی نصوص وغیرہ سے استدلال کیاکرتے تھے اپنے خراب عقیدوں کے اثبات کیلئے۔ توسوال نصوص کانہیں ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ ان کا یہ دعویٰ دلیل سے کتناثابت ہوتاہے۔ آپ نے جس قسم کی بات کی ہے اطاعت کتاب وسنت ۔یہ نعرہ آپ سے قبل ظاہریہ حضرات بڑے پرزور طریقے سے لگاچکے ہیں۔ ابن حزم کی کتاب پڑھ لیجئے جہاں ہرسطر پر ان کا یہی پندارنمایان ہے کہ "مستند ہے میرافرمایاہوا"توسوال روز اول سے یہی ہے کہ دعویٰ کرلیابہت اچھا۔اب اس کی دلیل کیاہے؟
ٹھیک ہے مفید مشورہ کے لیے شکریہ لیکن آپ نے جو ثابت کرنا چاہا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کی بھی وضاحت کریں :
آپ نے جو قول پیش کیا ہے اس میں ’’ اہل حدیث ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور یہ قول امام احمد بن حنبل کا ہے لہذا اس سے مراد اس زمانے کے اہل حدیث ہیں آپ مجھے یہ بتائیں اگر اس زمانے کے اہل حدیث آپ کے نزدیک من مانیاں کرنے کی وجہ سے ناقابل حجت ہیں تو آپ جن احادیث سے امام صاحب کے مذہب کو تقویت دینے کے لیے استدلال کرتے ہیں وہ کن کی روایات ہیں ؟ امام احمد بن حنبل نے جن لوگوں کو اہل حدیث کہا ہے ان کو ایک طرف کرکے آپ ذرا ایک حدیث بھی ثابت کرکے دکھائیں ؟
چلئے خداکاشکر ہے کہ آپ نے مفید مشورہ تومانا۔ظاہر سی بات ہے کہ امام احمد بن حنبل اپنے زمانے کے ہی اہل حدیث کی بات کررہے ہیں ہرجماعت کی طرح اہل حدیث میں بھی ہرقسم کے افراد ہوتے ہیں کچھ لوگ اصول پرستی کے بجائے ہرمقام وموقع کیلئے ایک نیااصول وضع کرلیتے ہیں ایسی ہی اہل حدیث حضرات کے بارے میں انہوں نے یہ بات کہی ہوگی۔جن ان کو اپنی مستدل حدیثیں عمروبن شعیب کی سند سے ملتی ہوں گی تواس کو قابل استدلال قراردے لیتے ہوں اورجب مخالف کی حدیثیں ہوں گی تواس کو ناقابل استدلال قراردے دیتے ہوں گے۔ آج بھی نہ جانے کتنے اصول حدیث کی فنی اصطلاحات ہیں جس میں اسی طرز کا رویہ رواکھاجاتاہے جس میں سے ایک زیادۃ الثقہ اورشاذ کا مسئلہ ہے۔
ٹھیک ہے میں اپنی بات کو واپس لیتا ہوں ۔۔ اور تصحیح کےلیے شکریہ ۔
خدا آپ کو مزید قبول حق کی توفیق عطافرمائے۔اورآپ کی زبان سے نکلے صحیح حرف وقول کوقبول کرنے کی ہمیں بھی توفیق دے۔
ہمارے سعودیہ کے ساتھ تعلقات ہیں ہم نے ان کا انکار کب کیا ہے ؟ اور نہ ہی انکار کرنے کی کوئی ضرروت ہے ؟ ہم خوب جانتے ہیں کہ کن لوگوں کے تعلقات قائم ہیں اور کون مسلسل تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں ؟ آپ ایک بات کو تو مانتے ہیں اور دوسری کا انکار کرتے ہیں کیوں ؟
آپ یہ بات ماننے میں کیوں پس و پیش کرر ہے ہیں کہ دیوبندی لگاتار سعودیہ سے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ؟
تحفظ سنت کانفرنس کا اقتباس شاید آپ کو بھول گیا ہے اس کو ایک دفعہ پھر پڑھیں اور اندازہ لگائیں کہ فراق سے کیا برا حال ہو رہا ہے بیچاروں کا ۔
ہوسکتا ہے آپ ذاتی طور پر اس بات کو اچھا نہ سمجھتے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ظاہر ہے مشائخ دیوبند کے سامنے آپ کی ذات کی کیا حیثیت ہے ؟
اپنی پسند یا نا پسند پر حقائق انکار تو نہیں کیا جا سکتا جناب ؟
چلئے لگتاہے کہ آپ کا یہ مراسلہ قبول حق کا مراسلہ ہے اس میں بھی آپ نے سعودی حضرات سے خصوصی تعلقات کوبھی قبول کرلیا۔
پورے پیراگراف اورمتن میں سعودی سے مالی امداد واستمداد کاکوئی ذکر نہیں ہے۔اب بات نفس دارالعلوم دیوبند کی ہوجائے ۔دارالعلوم دیوبند کا سعودی عرب یاگلف یاکسی بھی بیرونی ملک میں کوئی چندہ نہیں ہوتاہے؟اس کو واضح طورپر یاد رکھیں۔اب دارالعلوم دیوبند سے ملحق یااس سے منسوب بہت سارے مدارس ہیں جس کی گنتی بھی مشکل ہے ۔اس میں سے کون لوگ سعودی عرب جاکر چندہ کرتے ہیں کون نہیں کرتے ہیں اس کا سروے اورریکارڈ بھی کچھ نہیں ہے لیکن اتنی بات ماننے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ دارالعلوم دیوبندسے منسوب کچھ مدارس باہر چندہ کرتے ہوں گے کچھ مدارس چندہ کیلئے غیرمقلدین سے بھی ملتے ہوں گے۔ لیکن یہ کچھ حضرات ہوں گے؟کوئی ذمہ دار قسم کے حضرات نہیں ہوں گے۔ لہذا یہ کچھ حضرات کاانفرادی فعل ہے جس کی دارالعلوم دیوبند پر ذمہ داری عائد نہیں کی جاسکتی۔
ارے جناب میں ذاتی طورپر تونفس سعودی حکومت کو ہی اچھانہیں سمجھتا !دارالعلوم دیوبند کو توچھوڑیئے۔مولانا محمد علی جوہر کی طرح اس کو وعدہ خلافی ہی سمجھتاہوں کہ شروع میں تو سعودی حکومت کے بانی نے اس کا وعدہ کیاکہ شریعت کے مطابق خلافت قائم ہوگی اوربعد میں اس کو خاندانی ملوکیت میں تبدیل کردیاگیا۔ اس زمانے کے اخبارات پڑھئے۔ حیران رہ جائیں گے ۔مولانا محمد علی جوہر نے اس مسئلہ پر کتنارونانہیں رویا!۔
میں موروثی جاگیر کے کسی بھی طریقہ کو درست نہیں سمجھتا چاہے وہ مدارس میں ہو یاحکومت میں۔جواہل ہے اس کو حق ملناچاہئے لیکن اب عمومی طورپر مدارس مہتمم اورناظم حضرات کی جاگیر بن چکی ہے۔مدارس چاہے اہل حدیث کے ہوں یادیوبند کے ۔سب میں موروثی طریقہ کار رائج ہے۔ مہتمم حضرت کےبعد سب سے زیادہ باصلاحیت اورلیاقمت مند ان کا فرزند اورکوئی رشتہ دار ہی ہوسکتاہے دوسرادنیا میں کوئی ہوہی نہیں سکتا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اہل حدیث اوردیوبندیوں میں اتنے سارے اختلافات موجود ہیں اوراس پر کتابیں بھی شائعد ہوتی ہیں لیکن یہ ایک ایسامسئلہ ہے جس پر دونوں طرف کے مہتمم اورناظمین حضرات متفق ہیں۔اس میں شریعت اورکتاب وسنت سے دونوں جانب کے ناظمین حضرات کو کوئی رہنمائی نہیں ملتی۔یاشاید دونوں نے کتاب وسنت سے کوئی نص پالیاہے کہ مدارس کو چلانے کا سب سے بہترین طریقہ یہی ہے کہ اس کو موروثی اورخاندانی جاگیر بنایاجائے اوراگراس کے برعکس کیاگیاتویہ خلاف شریعت عمل ہوگا۔
سلفی کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سلف میں سے اپنی مرضی کے مطابق کسی ایک کو لے لو اور باقیوں کو چھوڑ دو ۔ سلفی کا مطلب ہے کہ سلف کے متفقہ منہج کے مطابق چلو ۔ اور سلف کا متفقہ منہج یہ ہے کہ قرآن وسنت پر عمل کیا جائے ۔ اور اس کے مخالف بات کو چھوڑ دیا جائے ۔
اگر سلف میں سےکسی ایک کی بات کو دوسرے کی بات پر ترجیح دینی ہے تو اس کی بنیاد قرآن وسنت ہو نا چاہیے نہ کہ اپنی من مانی ۔ کیونکہ قرآن وسنت کو معیار قرار دے کر ہی ہم سلف کے ساتھ انصاف کر سکتےہیں ۔ کیونکہ یہ تو امر واقع ہے کہ سلف کے مابین مسائل میں اختلاف رہا ہے ۔ اب ہر ایک کی بات کو ماننا تو ویسے ہی نا ممکن ہے دوسری صورت یہ ہے کہ کسی ایک کا پلو پکڑ کا بیٹھ جائیں یہ بھي غلط ہے ایک ہی صورت باقی رہتی ہے قرآن وسنت کو معیار قرار دے لیا جائے جو کچھ اس کے مطابق ہو اس کو لے لیا جائے اور جو کچھ اس کے مخالف ہے اس کو چھوڑ دیا جائے ۔
لیکن آپ لوگ قلادہ گلے میں ڈال کر اس کے مطابق اقوال ڈہونڈنا شروع کر دیتے ہیں جو اس کے مطابق آگیا ہے قبول ، باقی رد ۔ اور نصوص شریعت کا بھی یہی حال کرتے ہیں آپ لوگ ۔
دیکھئے اہل الرائے میں اوراہل حدیث میں کیافرق ہے اس پر ابوالحسن علوی صاحب نے ایک مضمون لکھاتھا اورکچھ فرق کی نشاندہی کی تھی(اگرچہ وہ فروق درست نہ تھے)توسوال یہ ہے کہ ایک اہل علم حنفی جو بعض جزئیات میں امام ابوحنیفہ سے اپنے علم کی روشنی میں اختلاف کرتاہے اس میں ایک سلفی میں بنیادی اورجوہری کیافرق ہے؟
آپ حضرات کا مغالطہ یہ ہوتاہے کہ آپ اپنی جانب سے اہل علم کو رکھتے ہیں اورہماری جانب سے عامیوں کو !سوال یہ ہے کہ اہل حدیث کا عامی افراد کتنی تحقیق کا مالک ہے۔آپ اپنے محلہ کے عامیوں کا جواہل حدیث ہوں اورسروے کریں اوراب تک قرآن وحدیث پر تحقیق کرکے مخالف قرآن وسنت مسائل ترک کئے ہیں ذراہمیں بھی بتائیں۔آپ کا جواب یہی ہوگاکہ عامی اہل علم سے سوال کرے اوروہ تقلید نہیں اتباع ہے۔ اس جواب میں بالواسطہ طورپر اس کا بھی اعتراف ہے کہ عامی تحقیق کا اہل نہیں ہوتا۔
اب رہاسوال اہل علم حنفی اورسلفی کا ۔موجودہ دور کے دواہل علم حنفی کا نام لیتاہوں
مولاناتقی عثمانی
مولاناخالد سیف اللہ رحمانی
اس کے بالمقابل دوسلفی اہل علم کو رکھیں اوربتائیں کہ دونوں میں بنیادی اورجوہری فرق کیاہے؟یا د رہے کہ دونوں نے کچھ مسائل میں فقہ حنفی کے بعض مسائل سے ہٹ کر اپنی رائے کا اظہار کیاہے۔ یاپھر حنفی کو الگ رکھیں دوشافعی اہل علم کو لے لیں دومالکی اہل علم یادوحنبلی اہل علم کو لے لیں اورپھر دو غیرمقلدعالم حضرات کو لے لیں اوربتائیں کہ دونوں میں جوہری طورپر کیافرق ہے۔ (واضح رہے کہ یہاں کسی مجمل اورمبہم نعرہ کی بات نہ کی جائے بلکہ بنیادی اورجوہری فرق بتایاجائے)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اصل بات یہ ہے کہ یہ حضرات ابن عربی کو کافرومشرک قراردیتے ہیں اورجوابن عربی کا حمایتی نظرآیااس کو بھی اسی کے ساتھ پرودیتے ہیں۔اسی کے ساتھ تصوف اورتصوف کے اصطلاحات بھی ان کے یہاں اگرکفروشرک نہیں توبدعت اورسنگین نوعیت کی بدعت سے کم حیثیت نہیں رکھتی ۔اسی کے ساتھ وحدۃ الوجود اوروحدت الشہور کی اصطلاحات وغیرہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اپنے جن اکابرکے بارے میں انہوں نے پروپیگنڈہ کے زور پر یہ محل کھڑاکیاہے کہ وہ کتاب وسنت کے سچے داعی تھے انہوں نے ہندوستان میں مخالف حالات میں کتاب وسنت کا پیغام پہنچایا۔غیرمقلدین نے اپنے اکابرین کی تصویر اورسیرت کا صرف ایک حصہ سعودیوں کے سامنے پیش کیا جب کہ سیرت نگاری اورانصاف کا تقاضہ تھاکہ پوراحصہ پیش کرتے لیکن انہوں ںے تصوف وغیرہ کے تعلق سے اپنے اکابرین کی سیرت کی پردہ پوشی کی۔
اب اگرغیرمقلدین کے ان اکابرین کے تعلق سے یہ باتیں عام ہوجائیں کہ وہ توصاحب ابن عربی کے حمایتی تھے۔ان کو شیخ اکبر گردانتے ہیں تصوف میں گلے گلے تک ڈوبے ہوئے تھے تویہ ساراعظمت کا محل دھڑام سے گرنہیں جائے گا اورجوفتوی انہوں نے دیوبندیوں کے بعض کرامات سے خودساختہ عقیدہ اورابن عربی کی حمایت پر لگایاہے ۔اب اسی فتوی کی زد میں ان کے اکابرین بھی ہوں گے۔اوریہی اصل وجہ ہے کہ یہ حضرات ان کتابوں کو اوران کی ایسی عبارتوں کو تاحد امکان چھپاتے رہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جس کی بناء پر میں آپ کو بار بار اس کی زحمت دے رہاہوں کہ خود سے اس طرح کی عبارات سامنے رکھ کر اپنے اکابرین کے تعلق سے دریافت کریں ۔اگرمزید زحمت اٹھانے کی خواہش ہوتو الدیوبندیہ سے اس طرح کے امور پرجوفتاوی جات نقل کئے گئے ہیں ان کوبھی شامل کرلیں کہ کیاہمارے اکابرین ان فتوی کی زد میں آتے ہیں یانہیں!
آپ کا یہ سارا اقتباس اس بات سے تعلق رکھتا ہےکہ اہل حدیث اپنے بزرگوں کی غلطیاں سعودیہ والوں کے پاس کیوں نہیں رکھتے ؟
اس حوالے سے آپ نے کوئی ارشاد نہیں فرمایا کہ آپ المہند پیش کرنے سے کیوں کتراتے ہیں ؟
شاید آپ یہ کہنا چاہتے کہ جن وجوہات کی بنا پر اہل حدیث اپنے اکابر کی کتب پیش نہیں کرتے وہی وجوہات ہماری طرف سے سمجھ لیں ؟ کیا ایسا ہی ہے ؟
پہلی بات یہ کہ علمائے دیوبند اپنے بارے میں پھیلائی غلط فہمیاں دور کرنے کے شدید خواہاں ہیں ، جب کہ اہل حدیث کو سعودیہ میں اس طرح کی کوئی پریشانی نہیں ہے ۔
دوسری بات اہل حدیث کے اکابرین سے جو غلطیاں ہوئی ان کو اہل حدیث غلط تسلیم کرتے ہیں کیا آپ بھی اپنے وہ عقائد جن کو سعودیہ والوں کے سامنے پیش نہیں کرنا چاہتے غلط تسلیم کرتے ہیں ؟
چونکہ ہم اپنے اکابر کی غلطیوں کا اندھا دھند دفاع نہیں کرتے اس وجہ سے ہمیں ان کی سزا بھی بھگتنا نہیں پڑتی ۔
آپ نے کہا ہے کہ اگر سعودیہ والوں کو پتہ چل جائے کہ آپ کے اکابر یہ یہ عقیدہ رکھتے تھے تو آپ کی عظمت کا محل دھڑم سے گر جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔ عرض ہے کہ اسی وجہ سے ہم آپ کو کھلی چھٹی دے رہے ہیں کہ آپ یہ محل گرالیں ۔
بہر صورت میں اپنی بات کو دوبارہ پھر نقل کرتا ہوں امید ہے آپ بات کو ادھر ادھر گمانے کی بجائے دیانتداری کا ثبوت دیتے ہوئے اس کی وضاحت کریں گے کہ میری بات میں بے اصولی کہاں پائی جاتی ہے ، ملاحظہ فرمائیں :
دیکھیں جمشید صاحب !
آپ سعودیہ والوں کے ہاں اپنے بارےمیں پھیلائی ہوئی غلط فہمیاں دور کرنا چاہتے ہیں کہ نہیں ؟ اگر چاہتے ہیں تو پھر المہند ان کے سامنے رکھنے میں کیا پریشانی ہے ؟ کیا المہند میں لکھے ہوئے عقائدسے آپ نے اظہار براءت کردیا ہے ؟
اب آپ کے بارے میں پھیلی ہوئی غلط فہمیاں دور کرنا کس کی ذمہ داری ہے ؟ آ پ کی یا کسی اور کی ؟

رہی بات ہمارے اکابرین کی ۔ پہلی بات ہمارا اکابرین کے بارے میں یہ طرز عمل ہے کہ جو کچھ قرآن وسنت کے مطابق ہوا وہ قبول اور جو کچھ لغزشیں ہوئی ہیں ان کا اندھا دھند دفاع کرنے کی بجائے براءت کا اظہا رکرتے ہیں ۔
اسی وجہ سے سعودیہ والے یہ جانتے ہوئے بھی کہ اہل حدیث کے بعض اکابرین بعض مسائل میں غلط تھے انہوں نے کبھی ہمارے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہا ر نہیں کیا ۔ یہاں ضمنا ایک بات رکھنا چاہتا ہوں کہ اہل حدیث کے بڑے عالم دین تھے ان کے بارے میں مجھے ہمارے ایک سعودی استاذکی زبانی پتہ چلا کہ وہ اشعری تھے ۔
دوسری بات : جب ہمارے بارے میں وہ غلط فہمی کا شکار ہیں ہی نہیں تو ہمیں کتابیں دکھانے کی کیا ضرورت ہے ؟ ہاں البتہ اگر آ پ کو اس بارے میں پریشانی ہے تو آپ ان کو ہمارے بارے میں کتابیں دکھائیں ، بڑی خوشی سے دکھائیں ۔

یہ وجہ ہے جس کی وجہ سے دونوں طرف سے میں آپ کو گزارش کر رہاہوں کے کتابیں آپ دکھائیں ۔۔۔۔۔۔ اب بتائیں اس میں بے اصولی کہاں ہے ؟
آپ کہہ رہے کہ قارئین سے مشورہ لے لیں ۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے آپ جس سے رائے لینا چاہتے ہیں لے لیں ۔


آپ نے لکھا ہے کہ :
ہم کہاں تک اپ کی غلطیوں اورمغالطوں کو نمایاں کرتے جائیں ۔سوال اس کا نہیں کہ من اطاعنی دخل الجنۃ
سوال اس کا ہے کہ کوئی حضور کی صحیح اطاعت کررہاہے اس کی دلیل کیاہے؟ورنہ دنیامیں آپ سے پہلے خوراج تھے ان کا بھی یہی نعرہ تھاان الحکم الاللہ اوردیگر مشبہ اورمجسمہ قسم کے گروپ تھے وہ بھی نصوص وغیرہ سے استدلال کیاکرتے تھے اپنے خراب عقیدوں کے اثبات کیلئے۔ توسوال نصوص کانہیں ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ ان کا یہ دعویٰ دلیل سے کتناثابت ہوتاہے۔ آپ نے جس قسم کی بات کی ہے اطاعت کتاب وسنت ۔یہ نعرہ آپ سے قبل ظاہریہ حضرات بڑے پرزور طریقے سے لگاچکے ہیں۔ ابن حزم کی کتاب پڑھ لیجئے جہاں ہرسطر پر ان کا یہی پندارنمایان ہے کہ "مستند ہے میرافرمایاہوا"توسوال روز اول سے یہی ہے کہ دعویٰ کرلیابہت اچھا۔اب اس کی دلیل کیاہے؟
دیکھیے حضور کا ارشاد ہے :
ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بہما کتاب اللہ و سنۃ رسولہ
اب تمسک بالکتاب والسنۃ کسی بھی شخص کی صحت اطاعت کی دلیل ہونا کافی ہے ۔ اور کسی بھی شخص کا کتاب وسنت کی روشنی میں حق بات واضح ہوجانے کے بعد اس کو چھوڑ دینا یہ اس بات پر دال ہے کہ یہ شخص اطاعت سے محروم ہے ۔
محمود الحسن دیوبندی صاحب نے حق واضح ہوجانے کے بعد اس کو ترک کیا ہے کہ نہیں ؟
علامہ انور شاہ کشمیر خلاف مذہب دلیل سامنے آنے پر بجائے اس کے کہ اس کی پیروی کریں اس کی تأویل میں چودہ سال لگے رہے تھے کہ نہیں ؟
کیا کسی اہل حدیث نے بھی ایسا کیا ہے ؟ اگر کسی اہل حدیث کے موقف کی غلطی کو واضح کردیا جائے تو وہ اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہیں نہ کہ ضد اور ہٹ دھرمی کرکے طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں ۔جو ایسا نہیں کرتا وہ منہج اہل حدیث پر نہیں ہے ۔
آپ نے کہا خوارج نے بھی ان الحکم إلا للہ کا نعرہ لگایا تھا خوارجیوں کی دو غلطیاں تھیں ایک تو انہوں نے احادیث رسول سے قرآن کو نہیں سمجھا دوسری بات نصوص شریعت میں سلف کے فہم کو اہمیت نہیں دی اس وجہ سے گمراہ ہوگئے ۔ جبکہ اہل حدیث میں الحمد للہ یہ خامیاں نہیں پائی جاتیں ہم اتباع قرآن وسنت علی فہم السلف کے قائل و فاعل ہیں الحمد للہ ۔ ہاں البتہ سلف سے مراد ہماری صرف کوئی خاص امام نہیں ہے ۔
آپ بار بار کہہ رہے ہیں کہ آپ ( صرف ) نعرے بازی کرتے ہیں یہ بات بھی آپ کی غلط ہے ہمارا عمل ہمارے نعروں کی تائید کرتا ہے ۔کس جگہ ہم نے قرآن کی کسی آیت یا حدیث رسول کو رد کیا ہے ؟ اور فتاوی کی بنیاد کنز ، قدوری اور ہدایہ پر رکھی ہے ؟
اور اہل الظاہر اور اہل حدیث کے درمیان اگرچہ اس بات کا اتفاق ہے کہ دونوں عمل کی بنیاد قرآن وسنت پر رکھتے ہیں لیکن اہل الظاہر کی غلطی یہ ہے کہ وہ فہم سلف صالحین سے بھرپور استفادہ نہیں کر سکے ۔ بہر صورت کسی بھی شخص کی اچھی بات کو لینا چاہیے اور غلط بات کو چھوڑ دینا حق کا تقاضا ہے ۔

چلئے خداکاشکر ہے کہ آپ نے مفید مشورہ تومانا۔ظاہر سی بات ہے کہ امام احمد بن حنبل اپنے زمانے کے ہی اہل حدیث کی بات کررہے ہیں ہرجماعت کی طرح اہل حدیث میں بھی ہرقسم کے افراد ہوتے ہیں کچھ لوگ اصول پرستی کے بجائے ہرمقام وموقع کیلئے ایک نیااصول وضع کرلیتے ہیں ایسی ہی اہل حدیث حضرات کے بارے میں انہوں نے یہ بات کہی ہوگی۔جن ان کو اپنی مستدل حدیثیں عمروبن شعیب کی سند سے ملتی ہوں گی تواس کو قابل استدلال قراردے لیتے ہوں اورجب مخالف کی حدیثیں ہوں گی تواس کو ناقابل استدلال قراردے دیتے ہوں گے۔ آج بھی نہ جانے کتنے اصول حدیث کی فنی اصطلاحات ہیں جس میں اسی طرز کا رویہ رواکھاجاتاہے جس میں سے ایک زیادۃ الثقہ اورشاذ کا مسئلہ ہے
ہم بھی اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ آپ نے کچھ تو خیال کیا اگرچہ مجبوری کے تحت سہی ۔ یعنی سارے اہل حدیث ایسے نہیں تھے بلکہ کچھ ایسےتھے (اوریہ کچھ کم ازکم ان اسانید میں تو نہیں آتے ہوں گے جن کی حجیت کے حنفی حضرات بہی قائل ہیں ) اور ان کی نشانی یہ ہےکہ وہ اپنی مرضی کی باتیں لیتے تھے باقیوں کوچھوڑ دیتے تھے ۔ ویسے آپ کسی کی تعیین کر سکتے ہیں ؟
اگر اسی انداز فکر سے کتب احناف میں دیکھا جائے تو ماشاء اللہ کافی مواد مل سکتا ہے کہ کیسے مطلب برآری کی خاطر ایک چیز کو ایک جگہ حجت اور دوسری جگہ ناقابل حجت بتایا گیا ہے مثلا کسی صحابی کوغیر فقیہ کہہ کر اس کی حدیث کو رد کرنا لیکن جب اپنی موافقت میں ہو تو قبول کرلینا ۔ اسی طرح خبر واحد کو قیاس کے مخالف ہو تو حجت نہیں لیکن یہی خبر واحد جب مذہب حنفی کے مطابق ہو تو حرج ہی کوئی نہیں ۔

چلئے لگتاہے کہ آپ کا یہ مراسلہ قبول حق کا مراسلہ ہے اس میں بھی آپ نے سعودی حضرات سے خصوصی تعلقات کوبھی قبول کرلیا۔
پورے پیراگراف اورمتن میں سعودی سے مالی امداد واستمداد کاکوئی ذکر نہیں ہے۔اب بات نفس دارالعلوم دیوبند کی ہوجائے ۔دارالعلوم دیوبند کا سعودی عرب یاگلف یاکسی بھی بیرونی ملک میں کوئی چندہ نہیں ہوتاہے؟اس کو واضح طورپر یاد رکھیں۔اب دارالعلوم دیوبند سے ملحق یااس سے منسوب بہت سارے مدارس ہیں جس کی گنتی بھی مشکل ہے ۔اس میں سے کون لوگ سعودی عرب جاکر چندہ کرتے ہیں کون نہیں کرتے ہیں اس کا سروے اورریکارڈ بھی کچھ نہیں ہے لیکن اتنی بات ماننے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ دارالعلوم دیوبندسے منسوب کچھ مدارس باہر چندہ کرتے ہوں گے کچھ مدارس چندہ کیلئے غیرمقلدین سے بھی ملتے ہوں گے۔ لیکن یہ کچھ حضرات ہوں گے؟کوئی ذمہ دار قسم کے حضرات نہیں ہوں گے۔ لہذا یہ کچھ حضرات کاانفرادی فعل ہے جس کی دارالعلوم دیوبند پر ذمہ داری عائد نہیں کی جاسکتی۔
کوئی تو بات نکلی ہے نا جناب !
اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں
یعنی جو لوگ سعودیہ سے پٹرول کے خواہش مند ہیں آپ ان کو قابل اعتماد دیوبندی ہی نہیں سمجھتے ۔۔۔۔۔۔۔۔ بات تو ایک ہی ہے کان ادھر سے پکڑ لیں یا ادھر سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے اعتماد اور عدم اعتماد کا یہ پیمانہ عجیب ہے ۔
ویسے کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو سعودیہ والوں سے چندہ کر لیتے ہیں جو آپ کے ہاں ناقابل اعتماد ہیں البتہ ایسے لوگوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ ذرا یہ لنک ملاحظہ فرمائیں :
نمازوں کا فدیہ
اس فتوی میں آپ یہ بات بھی نوٹ کریں گے’’ مستند ہے میرا فرمایا ہوا ‘‘ کیا ہوتا ہے ؟

آپ حضرات کا مغالطہ یہ ہوتاہے کہ آپ اپنی جانب سے اہل علم کو رکھتے ہیں اورہماری جانب سے عامیوں کو !سوال یہ ہے کہ اہل حدیث کا عامی افراد کتنی تحقیق کا مالک ہے۔آپ اپنے محلہ کے عامیوں کا جواہل حدیث ہوں اورسروے کریں اوراب تک قرآن وحدیث پر تحقیق کرکے مخالف قرآن وسنت مسائل ترک کئے ہیں ذراہمیں بھی بتائیں۔آپ کا جواب یہی ہوگاکہ عامی اہل علم سے سوال کرے اوروہ تقلید نہیں اتباع ہے۔ اس جواب میں بالواسطہ طورپر اس کا بھی اعتراف ہے کہ عامی تحقیق کا اہل نہیں ہوتا۔
اب رہاسوال اہل علم حنفی اورسلفی کا ۔موجودہ دور کے دواہل علم حنفی کا نام لیتاہوں
مولاناتقی عثمانی
مولاناخالد سیف اللہ رحمانی
اس کے بالمقابل دوسلفی اہل علم کو رکھیں اوربتائیں کہ دونوں میں بنیادی اورجوہری فرق کیاہے؟یا د رہے کہ دونوں نے کچھ مسائل میں فقہ حنفی کے بعض مسائل سے ہٹ کر اپنی رائے کا اظہار کیاہے۔
جنا ب ہم اپنے اہل علم کے مقابلےمیں اہل علم اور عامی کے مقابلے میں عامی کور کھتے ہیں ۔۔۔۔۔ ویسے یہ کوئی بڑی بات نہیں اس طرح کا اعتراض توہم بھی کر سکتے ہیں کہ آپ ثبوت تقلید پر بات کرنے کے لیے عامیوں کی مثالیں دیتے ہیں اور جواز سب کے لیے نکال لیتے ہیں ۔
بہر صورت آپ نے ایک أچھی صورت نکالی ہے کہ ہمارے اور آپ کے علماء کا آپس میں تقابل کر لینا چاہیے آپ نے دو علماء کے نام پیش کردیے میں بھی دو علماء کے نام رکھوں گا لیکن یہ بتادیں کہ تقابل کن چیزوں میں کرنا ہے ؟
کسی بھی کتاب کی بنیاد پر ؟ یا خاص مسائل لے کر ان علماء کے فتاوی کا تقابل ؟ یا اصول پر لکھی ہوئی کتاب وغیرہ کا تقابل ؟
اور میرے خیال سے تقابل کا یہ سلسلہ ایک علیحدہ عنوان کے تحت ہونا چاہیے کیا خیال ہے آپ کا ؟ اس میں پھر مزید باتیں مل جل کر طے کر لیں گے کہ تقابل کرنا کرنا کس طرح فائدہ مند رہے گا کیونکہ میرے ذہن میں ایک اور بات بھی آرہی ہےکہ بجائے اس کے کہ چند علماء کا آپس میں تقابل کیا جائے ، چند مسائل لیے لینے چاہیں اور اس میں اہل حدیث اور دیوبندی دونوں طرف سے آراء جمع کرکے کوئی نتیجہ نکالنا چاہیے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جس پر آپ نے کہا :
اقتباس اصل پیغام ارسال کردہ از: جمشید پیغام دیکھیے

آپ سے عرض کی گئی تھی :

آپ اورآپ کی جماعت کا یہ انداز نعرے بازی والا ہے۔
یہ جملہ بولناجتناآسان ہے اسے ثابت کرنااتنامشکل ہی ہے لیکن اپ حضرات نے نعرے بازی کرکے اس مشکل کو بھی آسان کرلیاہے اورہرمسئلہ کاحل نعرہ لگاناسیکھ لیاہے۔اب میں آپ کو آپ کا ہی جملہ یاددلادوں
چہ پدی چہ پدی کا شوربہ
کہاں رسول پاک کے فیض صحبت سے منوراورمطہر قلب وذہن کے مالک صحابہ کرام
اورکہاں یہ مینڈکی کوبھی زکام ہواہے ہمارااختلاف اورصحابہ کرام کا اختلاف بالکل برابر نوعیت کاہے۔
صحابہ کرام اختلاف کے وقت بھی جادہ شریعت پر مستقیم رہتے تھے
اوردوسری جانب غیرمقلدین اکابرین کے اختلاف کو دیکھئے جس میں کفروفسق اورپتہ نہیں کیاکیاایک دوسرے پر اتہامات لگائے گئے ہیں لیکن پھر بھی نعرہ یہی رہے گاکہ ہمارااختلاف صحابہ کرام کےا ختلاف کے جیسے ہے۔
غیر مقلدوں کی طرف سے ثناء اللہ امرتسری پر کفر کا فتوی
کہئے توکچھ مزید لنک ارسال کروں آپ حضرات کے اکابرین کے آپسی اختلافات کے ۔تاکہ غیرجانبدار قارئین کوبھی لگے کہ صحابہ کرام جیسے اختلافات کے مدعیاں کی حالت زار کیاہے۔
جس پر آپ نے جوابا کچھ کہنے کی بجائے موضوع کو بدلتے ہوئے فرمایا :

آپ خود توفرمائیں کہ ضمنی باتوں کا جواب دینے کو باتوں سے پلٹنا اورموضوع کابدلنانہیں کہتے لیکن اگرہم نے آپ نعروں کے ڈھول کا پول کھولناشروع کردیاتواس کو پینترا بدلنے سے تعبیر فرمانے لگے


آپ ہی ذرااپنے مراسلات پر ایک نگاہ دوڑاکربتادیں کہ کتنی باتیں آنجناب نے باحوالہ ،مدلل فرمائی ہیں؟
آپ کے اس سارے مراسلے میں سوئے ترتیب کی وجہ سے صرف ایک بات سمجھ سکا ہوں کہ آپ نے ہم پر یہ اعتراض کیا ہے کہ ہم صحابہ کو اور خود کو برابر سمجھتے ہیں ۔
علم و فضل میں تو یقینا صحابہ کرام کے برابر بالکل نہیں ہیں لیکن منہج ایک ہونے میں ہم صحابہ کرام کی طرح ہی ہیں وہ بھی قرآن وسنت سےاستدلال کرتے تھے ہم بھی قرآن وسنت سے استدلال کرنے کے قائل ہیں ۔
صحابہ کا اور ہمارا فرق واضح کرنے کے لیے اتنی بات ہی کافی ہے کہ ہم صحابہ کے محتاج ہیں فہم قرآن وسنت میں ۔۔۔۔ اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں فہم قرآن و سنت علی فہم السلف اور سلف میں صحابہ پہلے نمبر پر ہیں ۔
لیکن علم و فضل میں ہمارا صحابہ کرام کی گرد کو بھی نہ پہنچ سکنا اس بات کا جواز فراہم نہیں کرتا کہ ہم قرآن وسنت سے آزاد ہو جائیں ۔
غور وفکر کا یہ انداز تو انتہائی عجیب ہے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن پاک کا ارشاد ہے :
لقد کان لکم فی رسول اللہ أسوۃ حسنۃ
اس بنیاد پر ہم حتی الإمکان کوشش کرتے ہیں کہ حضور کے نقش قدم پر چل سکیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حرص رکھنے والے کو اس طرح کے طعنے دیے جائیں کہ واہ اب حضور کی طرح بننے چلا ہے ۔
میرے خیال سے آپ حضرات نے اسی خطرے سے قرآن وسنت اور صحابہ کرام سے دور ہٹ کر امام صاحب کے ہاں ڈیرے ڈال لیے ہیں تاکہ ان کی پیروی میں کہیں ان کی ہمسری کرنےکی گستاخی نہ ہوجائے ۔
یقینا صحابہ کرام کے استدلال کی صحت کے امکان بہت زیادہ تھے لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ کوئی اور استدلال کر ہی نہیں سکتا ۔۔۔۔ خاص طور پر جب اس کے لیے رہنمائی بھی موجود ہو ،طریقہ کار بھی موجود ہو ۔
ایسی صورت میں تو یوں کہنا پڑیے گا گویاقرآن وسنت ایک خاص وقت کے لیے تھے اس کے بعد ان کا عملی طور پر کوئی فائدہ نہیں بس تبرک کے طور پر رکھ لیا جائے ۔
رہا اختلاف کی صورت میں ایک دوسرے کو کفر اور فسق و فجور سے متصف کرنا یقینا صحابہ کرام اس سے بری تھے اور بعد میں جوں جوں زمانہ گزرتا گیا تو بمصداق حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم :
’’لا یأتی زمان إلا والذی بعدہ شرمنہ ‘‘ ایس چیزیں بھی ساتھ ساتھ آتی رہیں اور ہر جگہ ایسے فتوی بکثرت دکھائے جا سکتے ہیں کیا دیوبندی و بریلوی تقلید امام ابی حنیفہ پر متفق نہیں ہیں ؟ لیکن اس کے باوجود ایک دوسرے پر ایسے فتوی مل جائیں گے ۔ اسی طرح دیوبندیوں کے اندر حیاتی و مماتی ایک دوسرے کسے ساتھ یہی حال کرتے ہیں بریلویوں کا بھی آپس میں یہی حال ہے ۔
جس جگہ کا آپ نے لنک دیا ہے اسی جگہ ایک دھاگہ یہ بھی ہے کہ دیوبندی صرف حیاتی ہیں اور منکر حیات النبی اہل سنت والجماعت سے خارج ہے ۔
کہنے کا مقصد یہ ہےکہ ہر جگہ اچھی بات کو لیا جائے گا اور غلطی سے اجتناب کیا جائے گا ۔
جس کتاب کا آپ نے لنک دیا ہے اس میں اس بات کی بھی تردید ہے کہ اہل حدیث صرف احناف کی غلطیوں کے پیچھے پڑے رہتے اور اپنوں کی غلطیوں سے صرف نظر کرتے ہیں ۔

اللہ تعالی ہمیں حق بات سمجھنے کی اور اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
 
Top