- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
امریکی ثقافت کی عالم کاری(گلوبلائزیشن) کے ذرائع
مولانا یاسر ندیم
تہذیب و ثقافت، محض چند رسوم و رواج اور افکار وخیالات کے مجموعے کا نام نہیں ہے، بلکہ تہذیب و تمدن میں حقیقی طور پر مذہبی عنصر غالب ہے۔ کسی بھی تہذیب میں پائے جانے والے نظریات و خیالات او راس میں موجود رسوم ورواج کا سلسلہ، کسی نہ کسی طرح مذہب سے ضرور ملتا ہے۔اس بحث سے قطع نظر کہ وہ رسوم و رواج مذہب کی نظر میں صحیح ہیں یا غلط، ہمارے ارد گرد ہونے والے رسوم ورواج نسل در نسل چلے آرہے ہیں۔ رواجوں کو دوام عطا کرنے کے لئے انہیں بھی مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، اس لیے کسی بھی دین کا سچّا متبع بننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان اس دین کی ثقافت اور کلچر کو بھی اپنائے اور اپنی زندگی میں کسی دوسری قوم کی ثقافت کو بسنے کا موقع نہ دے۔
گزشتہ چند سالوں سے گلوبلائزیشن کی اصطلاح کے ساتھ ساتھ، دوسری دو اصطلاحوں کوبھی بڑی مقبولیت حاصل ہوئی ہے :
عالمگیریت کے کچھ مؤیدین کا یہ خیال ہے کہ دنیا میں پائی جانے والی مختلف تہذیبوں کو ایک دوسرے کے قریب کردیا جائے، ہر تہذیب کے ماننے والے، دوسری تہذیبوں سےبھی اچھی باتیں اخذ کریں اور اُنہیں اپنی زندگی میں جگہ دیں، اس کے لیے مختلف تہذیبوں کے نمائندے، باہمی مذاکرات کی راہ اپنائیں اور ہر تہذیب کی قابل قبول باتوں پر اتفاق کرلیں، اس طرح ایک عالمی تہذیب او ریکساں ثقافت کا وجود ہوسکتا ہے۔تہذیبوں کاتصادم
اور
تہذیبوں کے درمیان مذاکرات
موجودہ دور میں جس کو حقیقت کہا جاسکتا ہے ، وہ یہ ہے کہ گلوبلائزیشن کے ٹھیکے داروں کی یہ کوشش رہی ہے اور مستقبل میں بھی یہی رہے گی کہ ہر قوم کی تہذیب، ثقافت اور اس کے تمدن کو ختم کردیا جائے او رپوری دنیا میں ایک ہی طرح کی تہذیب رائج کردی جائے، جو مغربی بلکہ امریکی اقدار پر مبنی ہو، تاکہ دنیا اس تہذیب کو اپنا کر اس طرح زندگی گزارے کہ مغربی مفادات میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو او رعالمگیریت اپنے تمام مقاصد میں کامیابی سے ہم کنار ہوجائے، اس لیے کہ جب سطح زمین پر پائی جانے والی قومیں، امریکی ثقافت کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیں گی، تو اُنہیں امریکہ کی سیاسی اور اقتصادی پالیسیوں کو اپنانے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ثقافتی عالمگیریت پوری دنیا میں کس طرح فروغ پارہی ہے؟ اس کے کیا اسباب و عوامل ہیں؟ کیا اہداف و مقاصد ہیں؟ اور کیا آثار و نتائج ہیں؟لیکن اگراس نظریے کو مذہبی تناظر کے ساتھ ساتھ موجودہ صورتِ حال کی روشنی میں دیکھا جائے، تو یہ ناممکن نظر آتا ہے۔ اس لیے تہذیب و تمدن کا ترک کرنا، دراصل اس مذہب کو ترک کرنے کے مترادف ہے، علاوہ ازیں گزشتہ چند سالوں میں دنیا کے مختلف گوشوں میں، تہذیبوں کو قریب لانے سے متعلق جو کانفرنسیں ہوئیں، ان میں اسلامی تہذیب ہی کو نشانہ بنایا گیا اور اسلامی ثقافت کے بڑے حصّے کو پس پشت ڈال دینے کی ترغیب دی گئی۔ نیز اس کی جگہ مغربی تہذیب و تمدن کو اپنانے پر زور دیا گیا ، اس لیے ’تہذیبوں کو قریب لانے‘ کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے، بلکہ یہ محض فریب اور دھوکہ ہے!!
Michel Bugnon Mordant(مائیکل بگنن) اپنی کتاب أمریکا المستبدة (عربی ترجمہ) میں لکھتے ہیں:
اب اگر وہ قوم ان تبدیلیوں کو قبول کرلے او راپنی ثقافت سے منہ موڑ لے، تو گویا اس نے پنے تشخص کا خاتمہ کردیا او راپنے وجود پر سوالیہ نشان لگا دیا۔’’کسی بھی قوم کا تہذیبی ورثہ اس کی زبان، تاریخ، مہارت و لیاقت، فنی ادبی اورعلمی صلاحیتیں رسوم و رواج او راس کے اقدار ہوتے ہیں، جس طرح یہ مذکورہ چیزیں تمدن کا ایک حصہ ہیں، اسی طرح كسی قوم کا لباس ، کھانے پینے کی اشیا، اُسلوبِِ عمل، کھیل کودکے طریقے، محبت و مسرت اور خوشی و غم کا انداز اور اس کے احساسات وجذبات بھی ثقافت میں شامل ہیں، اگر ہم کسی قوم سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ اپنی مذکورہ صفات سے کنارہ کش ہوجائے، اپنے اندازِ فکر اور احساسات و نظریات سے عہدہ برآ ہوجائے اوراپنی زبان و لباس کو تبدیل کردے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس قوم سے اس کی ثقافت کو سلب کررہے ہیں او راس کے تمدن کو چھین کر ، دوسری تہذیب اس پر مسلط کررہے ہیں۔‘‘ (أمریکا المستبدة الولایات المتحدة... الخ: ص108)
گلوبلائزیشن جہاں سیاسی اور اقتصادی سطح پر اپنے آپ کو نافذ کرناچاہتا ہے، وہیں تہذیب و ثقافت کو بھی اپنے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے۔ سیاست اور معیشت کے بعد، اس کا مقصد یہ ہے کہ ثقافت کی بھی عالم کاری کردی جائے او رپوری دنیا پر ایک ہی طرح کا تمدن مسلط کردیا جائے۔لوگوں میں رنگ و نسل کا اختلاف تو پایا جائے(جو قدرتی او ریقینی ہے)، لیکن زبان، مزاج و مذاق، رہن سہن اور معیارِ زندگی، حتیٰ کہ فکر و نظر میں بھی مماثلت اور یگانگت قائم ہوجائے۔ لوگوں کی زبان ایک ہو، جبکہ بقیہ زبانیں تاریخ کے حوالے کردی جائیں، ان کے احساسات و نظریات ایک طرح کے ہوں، تاکہ نظریات کے اختلاف کی وجہ سے، کسی کے مفادات کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ کھڑی ہوسکے او ران کا طرزِ زندگی بھی ایک ہو، تاکہ زندگی میں پرتعیش اشیا کو بنانے اور فروخت کرنے والی کمپنیوں کو کبھی کساد بازاری کی شکایت نہ ہوسکے۔
اب تک عالمگیریت کے دیگر شعبوں میں مغربی اور امریکی اقدار کا غلبہ رہا ہے، بلکہ دیگر رجحانات کی طرف نظر التفات بھی نہ کی گئی، سیاست کو امریکی مفاد کے مطابق ڈھالا گیا، اقتصادیات کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کی خواہشات کے مطابق تشکیل دیا گیا، لہٰذا جب ثقافتی عالم گیریت کی باری آئی تو فطری طور پر مغربی اور امریکی ثقافت ہی کو اقوام عالم پر مسلط کرنے کے لیے منتخب کیا گیا، اسی کو یہ حق دیا گیاکہ وہ پوری دنیا کی مشترکہ تہذیب بنے، اسی کو اس لائق سمجھا گیا کہ وہ عالمی تمدن کی شکل اختیارکرلے۔
ثقافتی عالمگیریت کو اگرچہ بعض لوگ کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے، لیکن درحقیقت عالمگیریت کا سب سے خطرناک پہلو’ثقافتی عالمگیریت‘ ہی ہے، کیونکہ سیاست اور اقتصادیات کی عالم کاری مادیت کے پیش نظر کی جارہی ہے جبکہ ثقافت کا تعلق مذہب سے ہے، خصوصاً اسلامی تہذیب و تمدن، مذہبِ اسلام کی اساس ہے،اس لیے دنیا کی تمام تہذیبوں بشمول اسلامی تہذیب کو ختم کرکے صرف مغربی تہذیب کو مسلط کرنا ، براہِ راست مذہب پر حملہ ہے، بنا بریں ثقافتی عالمگیریت کو سہل پسندی کے ساتھ نہیں لیا جاسکتا۔
عالمگیریت کے پالیسی ساز ادارے، تہذیب و تمدن کی عالم کاری اس لیے کرنا چاہتے ہیں تاکہ رسوم و رواج ،عادات و اطوار اور معیارِ زندگی میں مماثلت کی وجہ سے انسانیت دو طبقوں میں تقسیم ہوجائے، ایک طبقہ جس کے افراد زیادہ ہوں، ان کی حیثیت عالمی بازار کے ایک صارف کی ہو، ان کا کام ٹیکس ادا کرنا اور عالمی ثروت کے حق دار طبقے کی خدمت کرنا ہو ، جبکہ دوسرا طبقہ کم افراد پر مشتمل ہو، جو سب کے سب تاجر، صنعت کار اور سرمایہ کار ہوں، ان کا کام اپنی تجارت کو فروغ دینا اور زیادہ سے زیادہ دولت کمانا ہو۔
ثقافتی عالمگیریت کایہی مقصد ہےکہ مغربی ثقافت کےرواج پانے سے جہاں سیاسی مفادات پورے ہوں، وہیں اقتصادی منصوبوں میں بھی کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو او رروئے زمین پر کوئی ایسا شخص باقی نہ بچے، جس کے ذہن میں مغربی پالیسیوں کے بارے میں سوالات کھڑے ہوں، جس کی زبان سے صہیونی مفادات کے خلاف کوئی حرف نکلے او رجس کی سوچ اور نظریے سے دوسرے لوگ بھی راہ پائیں اور عالمگیریت کے راستے میں حائل ہوجائیں۔