• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امریکی ثقافت کی عالم کاری (گلوبلائزیشن) کے ذرائع

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
خرید و فروخت او رمغرب پرستی

گلوبلائزیشن کے قائدین کو اس بات میں بڑی دلچسپی رہی ہے کہ پوری دنیا میں خرید وفروخت اوراس قبیل کے تمام معاملات مغربی طرز پر انجام دیے جائیں، خریدار اپنی جیب میں کرنسی کے بجائے ، کچھ ’کارڈز‘ رکھے جن پر اس کا نام اور دیگر ضروری معلومات درج ہوں، کارڈ کو مخصوص مشین میں ڈال کر دوکاندار مطلوبہ رقم اپنے ’بنک اکاؤنٹ‘ میں منتقل کردے، عالمگیریت کے ٹھیکے داروں کی اس خواہش کے مطابق آج پوری دنیا میں اس طریقۂ تجارت کا رواج بڑھتا جارہا ہے،لوگ کرنسی کے بجائے کارڈز کے ذریعے لین دین کرنے کو فوقیت دینے لگے ہیں۔
اور مغربی تقلید میں اپنی بصیرت کھو بیٹھے ہیں مشرقی ممالک میں تو اس طریقے کو ترقی کی علامت اور اعلیٰ طبقے کا شعار سمجھا جارہا ہے، مغربی طوق گلے میں ڈال کر، پھولے نہ سمانے والے اورکاغذ کے چند نوٹوں کے بوجھ سے دبےجارہے ہیں ان لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ اپنے مطلوبہ سامان کی قیمت ادا کرنے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کی دولت پر قابض دو بڑی کریڈٹ کارڈ کمپنیوں (VISA)’ویزا‘ اور’ماسٹر کارڈ‘(Master Card) کی، ان کے جاری کردہ کارڈز استعمال کرنے کی بنا پر منہ بھرائی کررہے ہیں، ان ’کریڈٹ کارڈز‘ کے ذریعے پوری دنیا میں جہاں بھی کسی قسم کا لین دین ہوگا، اس کا نفع ان دو بڑی کمپنیوں کو ضرور پہنچے گا۔ چنانچہ گلوبلائزیشن نے اس طریقہ تجارت کو قابل تقلید قرار دے کر ان کمپنیوں کا راستہ آسان کردیا ہے اور فطری و طبعی طریقۂ تجارت کو فرسودہ قرا ردے کر ساری دنیا کو اس جدید طریقے کے سحر میں جکڑ دیا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نام نہاد جنسی ادب اور تشدد کی ثقافت کو فروغ

ثقافتی گلوبلائزیشن کا ایک خطرناک اثر نئی نسلوں میں جنس پرستی اور تشدد کا فروغ ہے۔ اس عالمی فتنے کے تحت پروان چڑھنے والی نئی نسلیں ، تشدد کو زندگی کے ایک طرز او ر ایک فطری اُسلوب کے طور پر اپنا رہی ہیں۔ مار دھاڑ اور لڑائی کرنا نوجوانوں کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے۔فلموں میں فن کاروں کی طرح کودنا، چھلانگ لگانا اور ہاتھ پیر مارنا ہی ان کا مطمع نظر ہوگیا ہے۔ (الثقافة العربية في مواجهة المتغیرات الدولية الراهنة، از مسعود ظاہر، رسالہ الفکر العربي المعاصر: بیروت عدد 101، 1993ء)
نوجوانوں میں اسی قسم کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے نتیجے میں معاشرے کو مختلف سنگین جرائم کا سامنا ہے، ہر ملک میں قتل و غارت گری ایک عام سی بات ہوگئی ہے، جرائم پیشہ عناصر ’ہالی وڈ‘اور’بالی وڈ‘ میں بننے والی فلموں کے ذریعے جرائم کے نئے نئے طریقے سیکھ رہے ہیں اور حقیقی زندگی میں ان کا تجربہ کررہے ہیں۔ نوجوان طبقہ اپنے قیمتی اوقات گھٹیا کاموں میں ضا ئع کرکے اپنے دین، اپنے اخلاق، اور اپنے کردار کو زبردست نقصان پہنچا رہا ہے۔ ’ٹی وی ‘ اور سنیما گھروں کے پردوں پر دکھلائی جانے والی فلموں نے اس طبقے کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کردیا ہے، جس کے نتیجے میں تشدد کے ساتھ ساتھ مغربی جنسی کلچر، انسانی زندگی ، اس کی عظمت و قار اور شرافت و کرامت کے لیے ناسور بن کر رہ گیا ہے۔یہ مغربی فلمیں اورفحش ڈرامے خطرناک حد تک تعلیم، تمدنی زندگی اور معاشرتی تعلقات پر اثر انداز ہوئے ہیں، خصوصاً عالم اسلام مغرب کے بچھائے ہوئے اس جال میں بُری طرح پھنس چکا ہے۔ (العولمة از ڈاکٹر جلال امین: ص126)
قاہرہ میں واقع خواتین و اطفال سے متعلق ریسرچ سنٹر نے چودہ سو بہتر (1472) مصری خواتین کے درمیان ایک سروے کرایا، جس کے حیرتناک نتائج سامنے آئے ہیں، ان نتائج کو دیکھ کر عقل صرف ماتم ہی کرسکتی ہے۔اس سروے کے خطرناک انکشافات سے پتا چلتا ہے کہ مصر میں 85 فیصد خواتین جنسی فلمیں دیکھتی ہیں، 75 فیصد فحش مناظر دیکھنے میں دلچسپی رکھتی ہیں، 85 فیصد لڑائی اور تشدد سےبھرپور فلمیں دیکھتی ہیں، 68 فیصد پرانی اور نئی بننے والی جذباتی فلموں میں رغبت رکھتی ہیں، 21 فیصد دیگر فلمیں جبکہ صرف 6 فیصد ٹی وی پر آنے والی خبریں اور ثقافتی پروگرام دیکھتی ہیں ، مزید برآں ان عورتوں میں سے کسی نےبھی معلوماتی فلم یا پروگرام دیکھنے کا تذکرہ تک نہیں کیا۔ (اخبار’اکتوبر‘ مصر، عدد216 ، 1997ء)

یہ سروے یورپ یا امریکہ میں ہوا ہوتا تو ہم یہ سوچ کر خاموش ہوجاتے کہ فحاشی اور عریانیت کے گڑھ میں یہ سب نہیں ہوگا تو کہاں ہوگا ، لیکن مذکورہ بالا نتائج مصرکی مسلم خواتین پر کیے جانے والے سروے کے بعد منظر پر آئے ہیں، اس کو پڑھ کر آنکھیں خون کے آنسو نہ روئیں تو کیا کریں؟ زبان گنگ نہ ہوجائے تو کیا کرے ؟ اور دل ماتم کناں نہ ہو تو کیا کرے؟
مصر نے اپنے روشن ماضی میں عالم اسلام کی دینی، فکری ، تہذیبی اور ثقافتی قیادت کی ہے، اس ملک کو عالم اسلام کے قلب کی حیثیت حاصل رہی ہے، اس ملک کے سینے کو چیرتے ہوئے بہنے والا دریائے نیل مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کا شاہد ہے، لیکن یہ اس دریا کی بدقسمتی ہے کہ آج وہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کے ساتھ ساتھ فکری اور تہذیبی انحطاط کا بھی گواہ بن چکا ہے۔
حالیہ تحقیقات بتلاتی ہیں کہ گلوبلائزیشن کا سب سے بڑا آلہ کار ’انٹرنیٹ‘، جنسیت اور فحش کاری کو سب سے زیادہ فروغ دینے والا ہے، کمپیوٹر کی اسکرین کے سامنے اس عالمی نیٹ ورک پر بیٹھ کر صرف ایک مرتبہ کلک (بٹن دبانا) انٹرنیٹ پر فراہم کردہ فحش سروسز اور تصویروں کی راہ میں آنے والی دو بڑی رکاوٹوں:’جہالت او رشرم‘ کو ختم کردیتا ہے۔ انٹرنیٹ پر لاکھوں کی تعداد میں ایسی ویب سائٹس ہیں جن پر عریاں تصویریں، فحش پروگرام اور جنسی ہیجان برپا کرنے والی فلمیں کھلے عام پیش کی جاتی ہیں، انٹرنیٹ کی مدد سے دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھے ہوئے شخص کی ان تک رسائی ممکن ہے۔ (الاسلام والأمة الإسلامية، از ڈاکٹر جمال المجاہدۃ، ص33)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مغرب پرستی

گلوبلائزیشن کے بدترین اثرات میں سے ایک اثر یہ بھی ہے کہ مغربی کلچر جو دراصل امریکی کلچر ہے، مکمل طور پر لوگوں کے دل و دماغ پر چھا گیا ہے ، امریکی موسیقی کار مائیکل جیکسن کا میوزک اور موسیقی ہی بہت زیادہ دلچسپی کی چیز بن گئی ہے۔ ریمبو کی فلمیں اور ’ڈیلس اسٹوڈیو‘ کی جانب سے بنائے جانے والے پروگرام ہی پوری دنیا میں لوگوں کے اور خصوصاً نوجوان نسل کے ذہنی دریچوں پر دستک دے رہے ہیں او ران کی طبیعت و فطرت پر بُری طرح اثر انداز ہورہے ہیں ، حتیٰ کہ امریکی تلفظ ہی میں انگلش بولنا، اس وقت کا ایک بہت بڑا فیشن بن گیا ہے۔ (الثقافة العربية في عصر العولمـة، از ڈاکٹر عبدالفتاح احمد فاوی، الأ هرام 222، 2001ء، دیکھئے رسالہ المستقبل العربي ، بیروت عدد 229، مارچ 1998ء)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عالم اسلام میں فیشن... ایک درد ناک صورت حال

اُمتِ مسلمہ کے ثقافتی تشخص کو مٹانے کی خاطر، عالمگیریت کا ایک تحفہ امریکی لباس اور اس سے متعلقہ چیزوں کا وہ سیلاب ہے جس میں پورا عالم اسلام آج غرق ہوچکا ہے، ان کپڑوں اور سامانوں پر انگلش زبان میں ایسے جملے لکھے ہوئے ہیں جو امریکی تہذیب کی ترجمانی کرتے ہیں، عالم عرب کی بڑی بڑی دکانوں اور تجارتی مراکز کے اشتہاری بورڈز، نیز ان میں فروخت ہونے والی اشیا پر عربی زبان کے بجائے انگلش میں فقرے اور جملے لکھے ہوئے ہوتے ہیں اورمقامی مصنوعات کی جگہ ان ہی مصنوعات کی سب سے زیادہ مانگ بھی ہے۔
ایک او رحیرت ناک سروے سے عجیب و غریب انکشاف ہوتا ہے کہ دل یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اسلام کے مرکز و قلب اور ارضِ وحی و قرآن میں بسنے والے ان عربوں کی عقلوں نے کام کرنا بند کردیا ہے یا انعاماتِ خداوندی کی ناشکری کی وجہ سے اللہ نے سزا کے طور پر ان کی عقلوں کو ہی سلب کرلیا ہے؟
1995ء کے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ صرف ایک سال میں سعودی عرب کی خواتین نے 538 ٹن لپ اسٹک (سرخی)، 43 ٹن نیل پالش (ناخن رنگنے والا مادہ)، اور 41 ٹن نیل پالش ریمور (نیل پالش زائل کرنے والا مادہ)، استعمال کیا ہے، جب کہ 232 ٹن آئی لائنر (مسکارا یعنی آنکھوں کو پرکشش بنانے والا مادہ) اور 445 ٹن مختلف رنگوں کے خضاب استعمال کیے ہیں ، نیز 1200 سے 1500 ملین ریال پرفیوم پر خرچ کیے ہیں۔صرف گرمی کے موسم میں چار ہزار چار سو(4400) خواتین نے 110 ملین ریال کے مغربی طرز کی شادی کے کپڑے سلوائے ، اوسطاً 8 ہزار ریال ایک شادی کے جوڑے پر خرچ ہوتے ہیں، سعودی عرب میں عام طور پر ایک عورت شادی کے موقع پر صرف اپنے بناؤ سنگار کے لیے 25 ہزا ریال خرچ کردیتی ہے۔

مزید برآں 1997ء کے اعداد و شمار سے یہ دل سوز انکشاف ہوتا ہے کہ خلیج عرب کی خواتین نے صرف ایک سال میں 799 ملین ڈالر پرفیوم پر اور 4 ملین ڈالر خضاب پر خرچ کیے ہیں، نیز 600 ٹن لپ اسٹک اور 500 ٹن نیل پالش استعمال کی ہے جبکہ خلیج کی خواتین نے 5ء1 ارب ڈالر میک اَپ کے سامان پر خرچ کیے ہیں۔ ( رسالہ الأسرة ماہ صفر 1420ھ)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مغرب زدہ مسلمانوں کا اعتراض

کچھ فریب خوردہ مسلمان جو ’ماڈر ینیٹی‘ اور جدّت کو نعمتِ الٰہی سمجھ کر اپنائے ہوئے ہیں اور مغرب کے دام فریب میں آکر اس کی اندھی تقلید میں شاد کام ہیں، اپنے احساسِ کمتری (جس کی وجہ سے وہ مغرب کی اندھی تقلید میں ملوث ہیں) کا جواز پیش کرنےکے لیے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اگر یہ مغربی ریستوران، مغربی طرز کےلباس اور امریکی مصنوعات دیگر ممالک میں فروغ پاجائیں یا مسلمان اُنہیں استعمال کرلیں تو اس میں کیا حرج ہے؟ان اشیا کے عام ہونے سے مسلمانوں کے وجود کو کون سا خطرہ لاحق ہے؟ اور ان کا ثقافتی تشخص آخر کس طرح متاثر ہوتا ہے؟
ایسے مغرب پرستوں کے لیے جواب میں صرف ایک فرانسیسی مثال پیش کردینا کافی ہے کہ ’’آپ مجھے اپنا کھانا بتلا یئے، میں بتلاتا ہوں کہ آپ کون ہیں؟‘‘ یہ مثال حقیقت کی عکاس ہے ، کیونکہ لباس، ماکولات و مشروبات وغیرہ یہ ایسی چیزیں ہیں جو اپنے ملک کے نظریات وخیالات، عادات و اقدار اور زبان بھی ساتھ لاتی ہیں۔ (رسالہ المنار الجدید مقالہ: الشباب المسلم والعولمـة، از کامل الشریف )
بازاروں میں ایسے امریکی اور یورپی لباس عام ہیں، جن پر انگلش میں ایسی عبارتیں لکھی ہوئی ہیں جو جنسی خواہشات کے لیے محرک ہوسکتی ہیں نیز ان پر اسلامی مقدسات کے خلاف جملے بھی درج ہوتے ہیں مثلاًKiss me (میرا بوسہ لو) ،Take me (مجھے پکڑو)، I’m Jewish (میں یہودی ہوں)، Prostitute(بازاری عورت)، Adultery (زنا) اور Zion (صہیونی) جیسے غیر مہذب اور مخرب اخلاق الفاظ، ان ملبوسات پر درج رہتے ہیں ، جن کا مقصد اس مغربی تہذیب کو پھیلانا ہے جس کی بنیاد اباحیت اور بے امن آزادی پر ہے۔
اس لیے یورپی و امریکی مصنوعات کا فروغ اپنی تہذیب و ثقافت کو مٹانے، اپنے ملّی و قومی تشّخص کو دفن کرنے اور غیروں کی تہذیب کو اپنانے کی طرف ایک قدم ہوگا، جو افسوس کہ عالم اسلام اُٹھا چکاہے، لیکن اس سے بڑھ کر باعث افسوس یہ ہےکہ اس راہ کے منفی اثرات و نتائج کا ابھی تک اس کو ادراک نہیں ہوپایا ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ماشاء اللہ ۔ اللہ مزید سوچ وفکر میں پختگی عطا فرمائے ۔
یہ یاسر ندیم صاحب ہیں کون ؟
 
Top