نام نہاد جنسی ادب اور تشدد کی ثقافت کو فروغ
ثقافتی گلوبلائزیشن کا ایک خطرناک اثر نئی نسلوں میں جنس پرستی اور تشدد کا فروغ ہے۔ اس عالمی فتنے کے تحت پروان چڑھنے والی نئی نسلیں ، تشدد کو زندگی کے ایک طرز او ر ایک فطری اُسلوب کے طور پر اپنا رہی ہیں۔ مار دھاڑ اور لڑائی کرنا نوجوانوں کا محبوب مشغلہ بن گیا ہے۔فلموں میں فن کاروں کی طرح کودنا، چھلانگ لگانا اور ہاتھ پیر مارنا ہی ان کا مطمع نظر ہوگیا ہے۔ (الثقافة العربية في مواجهة المتغیرات الدولية الراهنة، از مسعود ظاہر، رسالہ الفکر العربي المعاصر: بیروت عدد 101، 1993ء)
نوجوانوں میں اسی قسم کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے نتیجے میں معاشرے کو مختلف سنگین جرائم کا سامنا ہے، ہر ملک میں قتل و غارت گری ایک عام سی بات ہوگئی ہے، جرائم پیشہ عناصر ’ہالی وڈ‘اور’بالی وڈ‘ میں بننے والی فلموں کے ذریعے جرائم کے نئے نئے طریقے سیکھ رہے ہیں اور حقیقی زندگی میں ان کا تجربہ کررہے ہیں۔ نوجوان طبقہ اپنے قیمتی اوقات گھٹیا کاموں میں ضا ئع کرکے اپنے دین، اپنے اخلاق، اور اپنے کردار کو زبردست نقصان پہنچا رہا ہے۔ ’ٹی وی ‘ اور سنیما گھروں کے پردوں پر دکھلائی جانے والی فلموں نے اس طبقے کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کردیا ہے، جس کے نتیجے میں تشدد کے ساتھ ساتھ مغربی جنسی کلچر، انسانی زندگی ، اس کی عظمت و قار اور شرافت و کرامت کے لیے ناسور بن کر رہ گیا ہے۔یہ مغربی فلمیں اورفحش ڈرامے خطرناک حد تک تعلیم، تمدنی زندگی اور معاشرتی تعلقات پر اثر انداز ہوئے ہیں، خصوصاً عالم اسلام مغرب کے بچھائے ہوئے اس جال میں بُری طرح پھنس چکا ہے۔ (العولمة از ڈاکٹر جلال امین: ص126)
قاہرہ میں واقع خواتین و اطفال سے متعلق ریسرچ سنٹر نے چودہ سو بہتر (1472) مصری خواتین کے درمیان ایک سروے کرایا، جس کے حیرتناک نتائج سامنے آئے ہیں، ان نتائج کو دیکھ کر عقل صرف ماتم ہی کرسکتی ہے۔اس سروے کے خطرناک انکشافات سے پتا چلتا ہے کہ مصر میں 85 فیصد خواتین جنسی فلمیں دیکھتی ہیں، 75 فیصد فحش مناظر دیکھنے میں دلچسپی رکھتی ہیں، 85 فیصد لڑائی اور تشدد سےبھرپور فلمیں دیکھتی ہیں، 68 فیصد پرانی اور نئی بننے والی جذباتی فلموں میں رغبت رکھتی ہیں، 21 فیصد دیگر فلمیں جبکہ صرف 6 فیصد ٹی وی پر آنے والی خبریں اور ثقافتی پروگرام دیکھتی ہیں ، مزید برآں ان عورتوں میں سے کسی نےبھی معلوماتی فلم یا پروگرام دیکھنے کا تذکرہ تک نہیں کیا۔ (اخبار’اکتوبر‘ مصر، عدد216 ، 1997ء)
یہ سروے یورپ یا امریکہ میں ہوا ہوتا تو ہم یہ سوچ کر خاموش ہوجاتے کہ فحاشی اور عریانیت کے گڑھ میں یہ سب نہیں ہوگا تو کہاں ہوگا ، لیکن مذکورہ بالا نتائج مصرکی مسلم خواتین پر کیے جانے والے سروے کے بعد منظر پر آئے ہیں، اس کو پڑھ کر آنکھیں خون کے آنسو نہ روئیں تو کیا کریں؟ زبان گنگ نہ ہوجائے تو کیا کرے ؟ اور دل ماتم کناں نہ ہو تو کیا کرے؟
مصر نے اپنے روشن ماضی میں عالم اسلام کی دینی، فکری ، تہذیبی اور ثقافتی قیادت کی ہے، اس ملک کو عالم اسلام کے قلب کی حیثیت حاصل رہی ہے، اس ملک کے سینے کو چیرتے ہوئے بہنے والا دریائے نیل مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کا شاہد ہے، لیکن یہ اس دریا کی بدقسمتی ہے کہ آج وہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کے ساتھ ساتھ فکری اور تہذیبی انحطاط کا بھی گواہ بن چکا ہے۔
حالیہ تحقیقات بتلاتی ہیں کہ گلوبلائزیشن کا سب سے بڑا آلہ کار ’انٹرنیٹ‘، جنسیت اور فحش کاری کو سب سے زیادہ فروغ دینے والا ہے، کمپیوٹر کی اسکرین کے سامنے اس عالمی نیٹ ورک پر بیٹھ کر صرف ایک مرتبہ کلک (بٹن دبانا) انٹرنیٹ پر فراہم کردہ فحش سروسز اور تصویروں کی راہ میں آنے والی دو بڑی رکاوٹوں:’جہالت او رشرم‘ کو ختم کردیتا ہے۔ انٹرنیٹ پر لاکھوں کی تعداد میں ایسی ویب سائٹس ہیں جن پر عریاں تصویریں، فحش پروگرام اور جنسی ہیجان برپا کرنے والی فلمیں کھلے عام پیش کی جاتی ہیں، انٹرنیٹ کی مدد سے دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھے ہوئے شخص کی ان تک رسائی ممکن ہے۔ (الاسلام والأمة الإسلامية، از ڈاکٹر جمال المجاہدۃ، ص33)