موحترم qarien کرام سے derkhuwast ہے
صحیح مسلم کی حدیث پر aitiraz کا جوب درکار ہے
سیدنا ابو سفیانؓ اورسیدہ ام حبیبہؓ کا نکاح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوست نے سوال کیا کہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی ﷺ نے سیدنا ابو سفیان ؓ کے کہنے پر سیدہ ام حبیبہؓ سے نکاح کیا تھا اور اگر چونکہ نبی ﷺ کسی کی کوئی بات رد نہ کرتے تھے سو اگر سیدنا ابو سفیانؓ نبی ﷺ سے ام حبیبہؓ سے نکاح کی درخواست نہ کرتے تو نبی ﷺ کبھی ان سے نکاح نہ فرماتے۔ روایت حسب ذیل ہے:
عکرمہ نے کہا: ہمیں ابو زمیل نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: مجھے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث بیان کی، کہا: مسلمان نہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بات کرتے تھے نہ ان کے ساتھ بیٹھتے اٹھتے تھے۔اس پر انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !آپ مجھے تین چیزیں عطا فر ما دیجیے ۔آپ نے جواب دیا :" ہاں ۔"کہا میرے پاس عرب کی سب سے زیادہ حسین و جمیل خاتون ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہے میں اسے آپ کی زوجیت میں دیتا ہوں۔آپ نے فر مایا :"ہاں ۔"کہا: اور معاویہ (میرابیٹا ) آپ اسے اپنے پاس حاضر رہنے والا کا تب بنا دیجیے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" ہاں۔ "پھر کہا: آپ مجھے کسی دستے کا امیر مقرر فرمائیں تا کہ جس طرح میں مسلمانوں کے خلاف لڑتا تھا اسی طرح کافروں کے خلا ف بھی جنگ کروں ۔آپ نے فرمایا :"ہاں۔"ابو زمیل نے کہا: اگر انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان باتوں کا مطالبہ نہ کیا ہو تا تو آپ (از خود ) انھیں یہ سب کچھ عطا نہ فر ما تے کیونکہ آپ سے کبھی کو ئی چیز نہیں مانگی جا تی تھی مگر آپ (اس کے جواب میں) "ہاں" کہتے تھے۔ (صحیح مسلم: کتاب: صحابہ کرامؓ کے فضائل ومناقب ، باب: حضرت ابو سفیان صخر بن حرب ؓ کے فضائل، حدیث نمبر ۶۴۰۹)
علامہ ابن کثیر البدایۃ و النہایۃ جلد ۴ صفحہ ۱۳۰ میں اس روایت کی بابت فرماتے ہیں کہ یہ ایک ایسی حدیث ہے جس کے باعث امام مسلم پر سخت اعتراضات کئے گئے ہیں۔
اسی طرح سے امام نووی نے بھی شرح صحیح مسلم میں اس حدیث کی بابت لکھا ہے کہ یہ حدیث مسلم کی ان مشہور احادیث میں سے ہے جن پر اعتراضات کئے گئے ہیں اور پھر کچھ اعتراضات و شواہد نقل بھی فرمائے ہیں جیسا کہ صحیح روایات میں آتا ہے کہ نبی ﷺ کا ام حبیبہؓ سے ۶ ہجری میں حبشہ میں نکاح منعقد ہوا جبکہ ابو سفیانؓ کے ایمان لانے کا واقعہ ۸ ہجری کا ہے۔
قاضی عیاض کا کہ کہنا ہے کہ صحیح مسلم کی اس روایت میں جو یہ بات آئی ہے کہ سیدنا ابوسفیان رض نے ام حبیبہ رض کا نکاح پڑھایا تو یہ انتہا سے زیادہ غریب بات ہے اور یہ امر توبہت مشہور ہے کہ صلح حدیبیہ کی تجدید کی غرض سے جب ابو سفیان رض مدینہ گئے اور اپنی بیٹی ام حبیبہ رض کے گھر تشریف لے جاکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر بیٹھنے لگے تو زوجہ نبی ام حبیبہ رض نے نیچے سے بستر کھینچ لیا۔
امام نووی لکھتے ہیں کہ ابن حزم کہتے ہیں یہ حدیث موضوع ہے۔ اسے عکرمہ بن عمار نے وضع کیا ہے لیکن ان کے اس قول کا کوئی اور موئید نہیں۔ لیکن ابن الصلاح فرماتے ہیں کہ ابن حزم کی یہ بڑی جسارت ہے کہ وہ بڑے بڑے راویوں پر کلام کرتے ہیں ، ہوسکتا ہے کہ سیدنا ابو سفیانؓ نے نبی ﷺ سے تجدید نکاح کی درخواست کی ہو تاکہ ان کی طبیعت خوش ہوجائے لیکن ابن الصلاح کی اس تاویل کو امام نووی یہ کہہ کر رد کردیتے ہیں کہ حدیث میں یہ کہیں مذکور نہیں کہ نبی ﷺ نے تجدید نکاح فرمایا ہو یا سیدنا ابو سفیانؓ نے اس کی درخواست کی ہو۔
البتہ شیخ ابراہیم خلیل نے دعوی کیا ہے کہ ابو سفیان رض نے ام حبیبہ رض سے نہیں بلکہ ان کی بہن عزہ رض سے نکاح کی بات کی تھی ۔ راوی نے غلطی سے ام حبیبہ رض کا نام لے لیا ہے۔ لیکن اس بابت حافظ ابن قیم فرماتے ہیں کہ حدیث میں صراحت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سفیان رض کی تمام باتیں قبول فرمالیں تھی سو اگر یہ عزہ رض ہوتیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابو سفیان رض کو بھی وہی جواب دیتے جو انہوں نے ام حبیبہ رض کو دیا تھا کہ دو بہنوں کا ایک نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔
لیکن حافظ ابن قیم جب اس روایت سے متعلق زادالمعاد میں کلام کرتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سفیان رض کی تینوں باتیں نہیں بلکہ صرف ایک بات مانی تھی اور ایسا ہی تاویل بیشتر اہلحدیث علماء نے کی ہے کہ سیدنا ابو سفیانؓ کی چھوٹی بیٹی عزہ کی کنیت بھی ام حبیبہؓ تھی اور سیدنا ابو سفیانؓ نے ان سے نکاح کرنے کی درخواست کی تھی۔۔ لیکن حافظ ابن قیم اور متاخرین اہلحدیث علماء کی کی یہ بات خود حدیث کے الفاظ کے خلاف ہے جہاں تینوں باتیں ماننے کی صراحت موجود ہے۔ کیونکہ حدیث میں صاف صراحت موجود ہے کہ ہر درخواست کے جواب میں آپﷺ ’’نعم‘‘ فرماتے جاتے تھے۔جبکہ اگر یہ عزہ ہوتیں تو نبی ﷺ سیدنا ابو سفیانؓ کو منع فرمادیتے کہ دو بہنوں کا ایک نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔ سو حدیث کے ظاہری الفاظ سیدہ عزہؓ سے متعلق قطعی قابل قبول نہیں ہیں اور یہ تاویل حدیث کے مطابق نہیں بنتی۔
پھر اس حدیث میں صراحت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سفیان رض کے کہنے پر انکو کفار کے خلاف جنگ کرنے کے لئے عہدہ دیا جبکہ یہ بات معروف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم کسی کو مانگنے پر عہدہ نہیں دیتے تو ابو سفیان رض کو کیونکر عہدہ دیدیا۔ پھر یہ بات بھی شواہد سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو سفیان رض کو کفار کے خلاف کسی جنگ میں عہدہ دینے کے بجائے انکو نجران کا عامل بنا کر بھیج دیا تھا تو پھر یہ سپہ سالار بنانے والی بات کب ہوئی۔
اسی طور سے اس روایت کے متن میں ایک اور چیز جو اس احقر کو سخت الجھن میں مبتلا کرتی ہے کہ عبداللہ بن عباس رض فرماتے ہیں کہ مسلمان نہ تو سیدنا ابو سفیان رض کی طرف دیکھتے تھے اور نہ ان کے ساتھ بیٹھتے تھے، اسی لئے ابو سفیان رض نے یہ تین چیزیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیں۔ جبکہ مکہ کی غالب اکثریت نے ابو سفیان رض کے قبول اسلام کے ایک یا دو دن بعد ہی اسلام قبول کیا تھا، سو ایک دن پہلے تک تو ابو سفیان رض ان کے سردار تھے، جن کی اہل مکہ بے پناہ عزت کیا کرتے تھے، پھر اچانک سے انکو یہ کیا ہوگیا کہ ابو سفیان رض کو *منہ لگانا* چھوڑ دیا۔۔ جہاں تک انصار و مہاجرین کی بات ہے تو انکا اخلاق اس بات سے بہت ماورا تھا کہ وہ اس قسم کی حرکت کرتے، وہ تو نئے مسلمان ہونے والے لوگوں کی تالیف قلب کرتے تھے نا کہ مکہ کے سردار جن کی فراست کی وجہ سے مکہ بغیر کسی خاص مزاحمت کے فتح ہوگیا تھا، کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھتے۔ اور پھر خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سفیان رض کے گھر کو دارالامن قرار دیکر ابو سفیان رض کا جو اکرام کیا تھا، اس کے بعد یہ سب کہا ممکن تھا کہ لوگ ابوسفیان رض کو چھوڑ دیتے۔ پھر یہ ارشاد بھی زیر غور رہے کہ اسلام لانے سے پہلے جو معزز تھا، اسلام لانے کے بعد اس کے اعزاز میں مزید اضافہ ہوگیا اسی لئے سیدنا عمر رض سیدنا عباس رض و سیدنا ابو سفیان رض کا اسلام لانے کے بعد از حد احترام کرتے تھے۔
بلفرض اگر اس روایت کو صحیح باور کیا جائے تو اس روایت کے آخر میں راوی ابو زمیل کے الفاظ کہ اگر سیدنا ابو سفیانؓ نبی ﷺ سے ان چیزوں کا مطالبہ نہ کرتے تو نبی ﷺ ان کو کبھی یہ چیزیں عطا نہ کرتے، بہت مہمل اور قابل اعتراض ہیں۔ معاذ اللہ سیدنا ابو سفیانؓ کی بیٹی ام حبیبہؓ کیا کوئی گری پڑی خاتون تھیں کہ نبی ﷺ ان سے نکاح کرنا پسند نہ فرماتے یا پھر سیدنا معاویہؓ جو کہ صلح حدیبیہ کے بعد ایمان لے آئے تھے ، نبی ﷺ کے نزدیک امانت دار نہیں تھے کہ آپ ﷺ انکو کبھی اپنا کاتب مقرر نہ کرتے۔ اس روایت میں جہاں تاریخی لحاظ سے کئی قباحتیں ہیں، وہاں اس کو درست ماننے سے سیدنا ابو سفیانؓ، سیدنا معاویہؓ اور سیدہ ام حبیبہؓ پر بھی تبرا آتا ہے۔ درست بات یہی ہے کہ یہ روایت شاذ ہے( یعنی ثقہ راوی اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کی مخالفت کررہا ہے۔) اور نبی ﷺ نے سیدہ ام حبیبہؓ سے فتح مکہ سے کافی پہلے ۶ ہجری میں ہی نکاح فرمالیا تھا جس وقت کہ سیدہ ام حبیبہؓ حبشہ میں تھیں اور نبی ﷺ نے اپنے صحابی سیدنا عمرو بن امیہ ضمریؓ کے ہاتھوں شاہ حبش نجاشی کو سیدہ ام حبیبہؓ کے لئے نکاح کا پیغام بھیجا جس پر سیدہ ام حبیبہؓ کی طرف سے مقرر وکیل سیدنا خالد بن سعید ؓ نے خطبہ نکاح پڑھا اور سیدہ ام حبیبہؓ کا ہاتھ نبی ﷺ کے ہاتھ میں دیکر آپؓ کو ام المومنین ہونے کا شرف مختص کردیا گیا۔اسی طرح سیدنا ابو سفیانؓ کو بغیر کسی سفارش کے ان کی قابلیت کے پیش نظر کوئی عہدہ طلب کرنے سے پہلے ہی ان کو نجران کا عامل بنا کر روانہ کردیا تھا اور یہی کچھ سیدنا معاویہؓ کے بارے میں بھی ہے کہ ان کو بھی بلا کسی سفارش کے اپنا کاتب مقرر فرمایا تھا۔
تحریر: محمد فھد حارث
صحیح مسلم کی حدیث پر aitiraz کا جوب درکار ہے
سیدنا ابو سفیانؓ اورسیدہ ام حبیبہؓ کا نکاح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوست نے سوال کیا کہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی ﷺ نے سیدنا ابو سفیان ؓ کے کہنے پر سیدہ ام حبیبہؓ سے نکاح کیا تھا اور اگر چونکہ نبی ﷺ کسی کی کوئی بات رد نہ کرتے تھے سو اگر سیدنا ابو سفیانؓ نبی ﷺ سے ام حبیبہؓ سے نکاح کی درخواست نہ کرتے تو نبی ﷺ کبھی ان سے نکاح نہ فرماتے۔ روایت حسب ذیل ہے:
عکرمہ نے کہا: ہمیں ابو زمیل نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: مجھے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث بیان کی، کہا: مسلمان نہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بات کرتے تھے نہ ان کے ساتھ بیٹھتے اٹھتے تھے۔اس پر انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !آپ مجھے تین چیزیں عطا فر ما دیجیے ۔آپ نے جواب دیا :" ہاں ۔"کہا میرے پاس عرب کی سب سے زیادہ حسین و جمیل خاتون ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہے میں اسے آپ کی زوجیت میں دیتا ہوں۔آپ نے فر مایا :"ہاں ۔"کہا: اور معاویہ (میرابیٹا ) آپ اسے اپنے پاس حاضر رہنے والا کا تب بنا دیجیے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" ہاں۔ "پھر کہا: آپ مجھے کسی دستے کا امیر مقرر فرمائیں تا کہ جس طرح میں مسلمانوں کے خلاف لڑتا تھا اسی طرح کافروں کے خلا ف بھی جنگ کروں ۔آپ نے فرمایا :"ہاں۔"ابو زمیل نے کہا: اگر انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان باتوں کا مطالبہ نہ کیا ہو تا تو آپ (از خود ) انھیں یہ سب کچھ عطا نہ فر ما تے کیونکہ آپ سے کبھی کو ئی چیز نہیں مانگی جا تی تھی مگر آپ (اس کے جواب میں) "ہاں" کہتے تھے۔ (صحیح مسلم: کتاب: صحابہ کرامؓ کے فضائل ومناقب ، باب: حضرت ابو سفیان صخر بن حرب ؓ کے فضائل، حدیث نمبر ۶۴۰۹)
علامہ ابن کثیر البدایۃ و النہایۃ جلد ۴ صفحہ ۱۳۰ میں اس روایت کی بابت فرماتے ہیں کہ یہ ایک ایسی حدیث ہے جس کے باعث امام مسلم پر سخت اعتراضات کئے گئے ہیں۔
اسی طرح سے امام نووی نے بھی شرح صحیح مسلم میں اس حدیث کی بابت لکھا ہے کہ یہ حدیث مسلم کی ان مشہور احادیث میں سے ہے جن پر اعتراضات کئے گئے ہیں اور پھر کچھ اعتراضات و شواہد نقل بھی فرمائے ہیں جیسا کہ صحیح روایات میں آتا ہے کہ نبی ﷺ کا ام حبیبہؓ سے ۶ ہجری میں حبشہ میں نکاح منعقد ہوا جبکہ ابو سفیانؓ کے ایمان لانے کا واقعہ ۸ ہجری کا ہے۔
قاضی عیاض کا کہ کہنا ہے کہ صحیح مسلم کی اس روایت میں جو یہ بات آئی ہے کہ سیدنا ابوسفیان رض نے ام حبیبہ رض کا نکاح پڑھایا تو یہ انتہا سے زیادہ غریب بات ہے اور یہ امر توبہت مشہور ہے کہ صلح حدیبیہ کی تجدید کی غرض سے جب ابو سفیان رض مدینہ گئے اور اپنی بیٹی ام حبیبہ رض کے گھر تشریف لے جاکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر بیٹھنے لگے تو زوجہ نبی ام حبیبہ رض نے نیچے سے بستر کھینچ لیا۔
امام نووی لکھتے ہیں کہ ابن حزم کہتے ہیں یہ حدیث موضوع ہے۔ اسے عکرمہ بن عمار نے وضع کیا ہے لیکن ان کے اس قول کا کوئی اور موئید نہیں۔ لیکن ابن الصلاح فرماتے ہیں کہ ابن حزم کی یہ بڑی جسارت ہے کہ وہ بڑے بڑے راویوں پر کلام کرتے ہیں ، ہوسکتا ہے کہ سیدنا ابو سفیانؓ نے نبی ﷺ سے تجدید نکاح کی درخواست کی ہو تاکہ ان کی طبیعت خوش ہوجائے لیکن ابن الصلاح کی اس تاویل کو امام نووی یہ کہہ کر رد کردیتے ہیں کہ حدیث میں یہ کہیں مذکور نہیں کہ نبی ﷺ نے تجدید نکاح فرمایا ہو یا سیدنا ابو سفیانؓ نے اس کی درخواست کی ہو۔
البتہ شیخ ابراہیم خلیل نے دعوی کیا ہے کہ ابو سفیان رض نے ام حبیبہ رض سے نہیں بلکہ ان کی بہن عزہ رض سے نکاح کی بات کی تھی ۔ راوی نے غلطی سے ام حبیبہ رض کا نام لے لیا ہے۔ لیکن اس بابت حافظ ابن قیم فرماتے ہیں کہ حدیث میں صراحت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سفیان رض کی تمام باتیں قبول فرمالیں تھی سو اگر یہ عزہ رض ہوتیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابو سفیان رض کو بھی وہی جواب دیتے جو انہوں نے ام حبیبہ رض کو دیا تھا کہ دو بہنوں کا ایک نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔
لیکن حافظ ابن قیم جب اس روایت سے متعلق زادالمعاد میں کلام کرتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سفیان رض کی تینوں باتیں نہیں بلکہ صرف ایک بات مانی تھی اور ایسا ہی تاویل بیشتر اہلحدیث علماء نے کی ہے کہ سیدنا ابو سفیانؓ کی چھوٹی بیٹی عزہ کی کنیت بھی ام حبیبہؓ تھی اور سیدنا ابو سفیانؓ نے ان سے نکاح کرنے کی درخواست کی تھی۔۔ لیکن حافظ ابن قیم اور متاخرین اہلحدیث علماء کی کی یہ بات خود حدیث کے الفاظ کے خلاف ہے جہاں تینوں باتیں ماننے کی صراحت موجود ہے۔ کیونکہ حدیث میں صاف صراحت موجود ہے کہ ہر درخواست کے جواب میں آپﷺ ’’نعم‘‘ فرماتے جاتے تھے۔جبکہ اگر یہ عزہ ہوتیں تو نبی ﷺ سیدنا ابو سفیانؓ کو منع فرمادیتے کہ دو بہنوں کا ایک نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔ سو حدیث کے ظاہری الفاظ سیدہ عزہؓ سے متعلق قطعی قابل قبول نہیں ہیں اور یہ تاویل حدیث کے مطابق نہیں بنتی۔
پھر اس حدیث میں صراحت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سفیان رض کے کہنے پر انکو کفار کے خلاف جنگ کرنے کے لئے عہدہ دیا جبکہ یہ بات معروف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم کسی کو مانگنے پر عہدہ نہیں دیتے تو ابو سفیان رض کو کیونکر عہدہ دیدیا۔ پھر یہ بات بھی شواہد سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو سفیان رض کو کفار کے خلاف کسی جنگ میں عہدہ دینے کے بجائے انکو نجران کا عامل بنا کر بھیج دیا تھا تو پھر یہ سپہ سالار بنانے والی بات کب ہوئی۔
اسی طور سے اس روایت کے متن میں ایک اور چیز جو اس احقر کو سخت الجھن میں مبتلا کرتی ہے کہ عبداللہ بن عباس رض فرماتے ہیں کہ مسلمان نہ تو سیدنا ابو سفیان رض کی طرف دیکھتے تھے اور نہ ان کے ساتھ بیٹھتے تھے، اسی لئے ابو سفیان رض نے یہ تین چیزیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیں۔ جبکہ مکہ کی غالب اکثریت نے ابو سفیان رض کے قبول اسلام کے ایک یا دو دن بعد ہی اسلام قبول کیا تھا، سو ایک دن پہلے تک تو ابو سفیان رض ان کے سردار تھے، جن کی اہل مکہ بے پناہ عزت کیا کرتے تھے، پھر اچانک سے انکو یہ کیا ہوگیا کہ ابو سفیان رض کو *منہ لگانا* چھوڑ دیا۔۔ جہاں تک انصار و مہاجرین کی بات ہے تو انکا اخلاق اس بات سے بہت ماورا تھا کہ وہ اس قسم کی حرکت کرتے، وہ تو نئے مسلمان ہونے والے لوگوں کی تالیف قلب کرتے تھے نا کہ مکہ کے سردار جن کی فراست کی وجہ سے مکہ بغیر کسی خاص مزاحمت کے فتح ہوگیا تھا، کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھتے۔ اور پھر خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سفیان رض کے گھر کو دارالامن قرار دیکر ابو سفیان رض کا جو اکرام کیا تھا، اس کے بعد یہ سب کہا ممکن تھا کہ لوگ ابوسفیان رض کو چھوڑ دیتے۔ پھر یہ ارشاد بھی زیر غور رہے کہ اسلام لانے سے پہلے جو معزز تھا، اسلام لانے کے بعد اس کے اعزاز میں مزید اضافہ ہوگیا اسی لئے سیدنا عمر رض سیدنا عباس رض و سیدنا ابو سفیان رض کا اسلام لانے کے بعد از حد احترام کرتے تھے۔
بلفرض اگر اس روایت کو صحیح باور کیا جائے تو اس روایت کے آخر میں راوی ابو زمیل کے الفاظ کہ اگر سیدنا ابو سفیانؓ نبی ﷺ سے ان چیزوں کا مطالبہ نہ کرتے تو نبی ﷺ ان کو کبھی یہ چیزیں عطا نہ کرتے، بہت مہمل اور قابل اعتراض ہیں۔ معاذ اللہ سیدنا ابو سفیانؓ کی بیٹی ام حبیبہؓ کیا کوئی گری پڑی خاتون تھیں کہ نبی ﷺ ان سے نکاح کرنا پسند نہ فرماتے یا پھر سیدنا معاویہؓ جو کہ صلح حدیبیہ کے بعد ایمان لے آئے تھے ، نبی ﷺ کے نزدیک امانت دار نہیں تھے کہ آپ ﷺ انکو کبھی اپنا کاتب مقرر نہ کرتے۔ اس روایت میں جہاں تاریخی لحاظ سے کئی قباحتیں ہیں، وہاں اس کو درست ماننے سے سیدنا ابو سفیانؓ، سیدنا معاویہؓ اور سیدہ ام حبیبہؓ پر بھی تبرا آتا ہے۔ درست بات یہی ہے کہ یہ روایت شاذ ہے( یعنی ثقہ راوی اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کی مخالفت کررہا ہے۔) اور نبی ﷺ نے سیدہ ام حبیبہؓ سے فتح مکہ سے کافی پہلے ۶ ہجری میں ہی نکاح فرمالیا تھا جس وقت کہ سیدہ ام حبیبہؓ حبشہ میں تھیں اور نبی ﷺ نے اپنے صحابی سیدنا عمرو بن امیہ ضمریؓ کے ہاتھوں شاہ حبش نجاشی کو سیدہ ام حبیبہؓ کے لئے نکاح کا پیغام بھیجا جس پر سیدہ ام حبیبہؓ کی طرف سے مقرر وکیل سیدنا خالد بن سعید ؓ نے خطبہ نکاح پڑھا اور سیدہ ام حبیبہؓ کا ہاتھ نبی ﷺ کے ہاتھ میں دیکر آپؓ کو ام المومنین ہونے کا شرف مختص کردیا گیا۔اسی طرح سیدنا ابو سفیانؓ کو بغیر کسی سفارش کے ان کی قابلیت کے پیش نظر کوئی عہدہ طلب کرنے سے پہلے ہی ان کو نجران کا عامل بنا کر روانہ کردیا تھا اور یہی کچھ سیدنا معاویہؓ کے بارے میں بھی ہے کہ ان کو بھی بلا کسی سفارش کے اپنا کاتب مقرر فرمایا تھا۔
تحریر: محمد فھد حارث