تحقیقی جواب
یہ جو کچھ بھی ہم نے عرض کیا ہے اس کی نوعیت '' ساڑھے بارہ سو سالہ عمل'' والی مرعوب کن او رجذاتی دلیل کے الزامی جواب کی ہے اب اس کا تحقیقی جواب سنئے ۔
اوّلاً : اس وقت تک اسلام کی زندگی ١٣٧٧ سال کی ہو چکی ہے اور بیس رکعات یا اس سے زائد کا رواج بقول علامہ مؤی صرف ساڑھے بارہ سو سال سے شروع ہوا ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اسلام کی زندگی کے ایک سو ستائیس برس کے بعد یہ عمل جاری ہوا ۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا زمانہ اور اس کے بعدبھی خیر القرون کا ایک طویل زمانہ اس نام نہاد تعامل سے خالی رہا ہے ، مگرپھر بھی زعم یہی ہے کہ یہی '' سنت '' ہے اور اس کے خلافِ سنت ہے ۔
یا للعجب وضیعة الادب ۔
ثانیًا : مولانا مئوی کو معلوم ہونا چاہئیے کہ ہم '' اہل حدیث'' ہیں ۔ ہمارا نعرہ ہے
اصل دین آمد کلام اللہ معظم داشتن
پس حدیث مصطفی برجاںمسلم داشتن
ہم کہا کرتے ہیں :
ہوتے ہوئے مصطفی کی گفتار
مت دیکھ کسی کا قول و کردار
ہمارا شیوہ معرفت الحق بالرجال نہیں بلکہ معرفت الرجال بالحق ہے ۔ ہمارا اصول حضرت شاہ ولی علیہ الرحمة کے لفظوں میں یہ ہے :
....
فاذا لم یجدو فی کتاب اﷲ اخذوا سنة رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سواء کان مستفیضًا دائرًا بین الفقہاء ویکون مختصًا باہل بلد اور اہل بیت او ربطریقة خاصة وسوائٍ عمل بہ الصحابة والفقہاء اولم یعلموا بہ ومتیٰ کان فی المسئلة حدیث فلا یتبع فیہا خلاف اثر من الاٰثار ولا اجتہاد احد من
(محدثین کا قاعدہ یہ تھا کہ ) جب کسی مسئلہ میں قرآنی فیصلہ نہ ملتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اورسنت سے اس مسئلہ کو لیتے ۔ خواہ وہ حدیث فقہاء میں مشہور ہو یا کسی شہر کے لوگوں میں پائی جاتی ہو ۔ یا کسی خاص گھر کے لوگوں میں یا کسی خاص سند سے مروی ہو چاہے صحابہ اور فقہاء نے اس پر عمل کیا ہو یا نہ کیا ہو اور المجتہدین ۔ الخ
جب کسی مسئلہ میں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم مل جاتی تو کسی صحابی کے اثر یا مجتہد کے اجتہاد کی اتباع نہ کرتے ۔ (مختصراً از حجة اللہ ص١١٩ ج١ طبع مصر )
اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی '' سنت ثابتہ'' کی بابت ہمارے نزدیک یہ سوال اٹھانا ہی سرے سے اصولاً غلط ہے کہ '' فلاں مدت سے اس پر مسلمانوں کاعمل نہیں ہے '' یہ تو حدیث کے ردّ کر دینے کا ایک مقلدانہ حیلہ ہے ۔ چنانچہ علامہ محمد عابد سندھی کے مایہ ناز استاذ علامہ فلانی اپنی کتاب '' ایقاذہمم اولی الابصار'' میں مقلدانہ حیلوں کے بیان کے سلسلہ میں لکھتے ہیں :
وان عجذ عن ذالک کلہ ادعی النسخ بلا دلیل او الخصوصیة او عدم العمل بہ او غیر ذالک مما یحضر ذہنہ العلیل (١٠٩)
یعنی مقلد اپنے امام کی رائے کے خلاف جب کسی حدیث کو پاتا ہے تو مختلف قسم کی دور دراز تاویلوں سے اس کو رد کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جب سب باتوں سے عاجر آجاتا ہے تو بلا دلیل یہ دعویٰ کر دیتا ہے کہ یہ تو منسوخ ہے ۔ یا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے یا یہ کہ اس پر عمل نہیں ہے ۔
حافظ ابن القیم رحمة اللہ علیہ اہل المدینہ کو حجة قرار دینے والوں کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
والسنة ہی العیار علی العمل ولیس العمل عیارًا علی السنة (اعلام ص٢٩٨ ج١)
یعنی لوگوں کے عمل کی تصحیح کا معیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے یہ نہیں کہ لوگوں کے عمل کو سنت رسول کی تصحیح کا معیار قرار دیا جائے ۔ علامہ ابن قدامہ ایک بحث کے ذیل میں لکھتے ہیں :
ولو ثبت فسنة النبی صلی اللہ علیہ وسلم مقدمة علٰی فعل اہل المدینہ (المغنی مع الشرح الکبیر جلد الثانی ص٣٧٧)
حافظ ابن القیم رحمة اللہ علیہ نے بالکل سچ فرمایا :
وکذالک اہل الرای المحدث ینقمون علٰی اہل الحدیث وحزب الرسول اخذ ہو بحدیثہ وترکہم ماخالفہ . (التبیان فی اقسام القرآن فصل ١٧ ص٣٤)
یعنی جس طرح دوسرے اہل باطل اہل حق سے عناد اور دشمنی رکھتے ہیں اسی طرح اہل الرائے (حنفیوں) کو اہل حدیث کی یہ بات بری معلوم ہوتی ہے کہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے سامنے کسی دوسرے کی بات نہیں مانتے ۔
شاہ نظام الدین اولیاء علیہ الرحمة کے شاگرد رشید مولانا فخر الدین سامانوی (سامانوی اسامانة کی طرف نسبت ہے ۔ یہ ایک شہر ہے جو تقسیم سے پہلے پنجاب کی مشہور ریاست پٹیالہ کے ماتحت تھا ۔ دیکھو الامکنہ نزہة الخواطر ص٣٠ ) ثم دہلوی لکھتے ہیں :
علم ان من اہل السنة والجماعة ثلث فری الفقہاء والمحدثون و الصوفیة فاالفقہاء سموا المحدثین اصحاب الظواہر لانہم یعتمدون علٰی مجرد الخبر
اہل سنت والجماعت کے تین گروہ ہیں ۔ فقہاء ، محدثین ، صوفیہ ۔ فقہاء محدثین کو اصحاب ظواہر کہتے ہیں ، کیونکہ یہ لوگ صرف حدیث پر عمل کرتے ہیں اور حدیث کے
ویطلبون الاسناد الصحیح وسموا انفسہم اہل الرای لانہم یعملون بالری ویترکون خبرا الواحد فعندہم العمل بالدرایة مع وجود مخالفة خبر الواحد عن الثقات جائز وعند المحدثین لا یجود انتہی مختصرًا (نزہة الخواطر مع معجم الا مکنہ ص١٠٥)
لئے سند صحیح تلاش کرتے ہیں ۔ اور فقہاء اپنے آپ کو اہل الرأ کہتے ہیں ، کیونکہ یہ لوگ رائے پرعمل کرتے ہیں اور خبر واحد کو چھوڑ دیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک اپنی درایت پر عمل کرنا جائز ہے اگرچہ اس کے خلاف ثقہ راویوں کی روایت (خبر واحد) موجود ہو ، لیکن یہ محدثین (اہل حدیث) کے نزدیک یہ جائز نہیں ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک شخص نے ایک مسئلہ دریافت کیا ۔ انہوں نے جواب دیا اس پر سائل نے یہ معارضہ کیا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو اس کے خلاف کہتے ہیں ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے جواب کے ثبوت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پیش کی اور اس کے بعد فرمایا کہ بتاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مانو گے یا ان کے مقابلہ مین ابن عباس کی ؟ یاد رکھو ! اگر تم سچے مومن ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کو دوسروں کی سنت پر مقدم جانو ۔ الفاظ یہ ہیں ۔
فیقول رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم احق ان تاخذ او بقول ابن عباس ان کنت صادقا وفی روایة فسنة اللہ وسنة رسولہ احق ان تتبع من سنة فلان ان کنت صادقاً (مسلم شریف جلد اوّل ص٤٠٥)
حضرت عبداللہ بن عمر کے بیٹے عبداللہ نے اپنے باپ سے نقل کرتے ہوئے صحابہ کا عمل بیان کیا کہ نویں ذی الحجہ کو منیٰ سے عرفات جاتے ہوئے بعض صحابہ تکبیر پڑھ رہے تھے اور بعض تلبیہ کہ رہے تھے ، مگر کوئی ان پر معترض نہ تھا ۔ یہ روایت سن کر ان کے شاگر عبداللہ بن سلمہ نے افسوس کے ساتھ کہا :
واﷲ لعجبًا منکم کیف لم تقولوا لہ ماذا ریت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یصنع (مسلم شریف جلد اوّل ص٤١٦)
یعنی '' واﷲ بڑا تعجب ہے آپ لوگوں پر کہ صرف صحابہ کا عمل سن کر خاموش رہ گئے ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ لوگوں نے یہ کیوں نہیںپوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس میں کیا عمل ہے ؟ '' ۔
ہندوستاں کا ذی علم طبقہ مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم کو خوب جانتا ہے اور ان کی علمی جلالت او رتاریخی بصیرت سے بھی اچھی طرح واقف ہے ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقعہ پر ہم ان کی ایک تحریر کا کچھ اقتباس پیش کر دیں جس سے ہندوستان کے اہل حدیثوں کے مسلک اور ان کی اس تحریک کیاثرات اور کارناموں پر تھوڑی سی روشنی پڑتی ہے ۔