• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انوار المصابیح انوار المصابیح

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ابتدائی گذارش
اللہ عزو جل کی توفیق سے جمعیت اہل حدیث لاہور نے اس ربع صدی میں جو تبلیغی کوششیں کی ہیں … علاوہ عام تبلیغی جلسوں کے تین عظیم الشان سالانہ تبلیغی کانفرنسیں اور ہر سال رمضان المبارک کے تبلیغی اجلاس … ان میں سر فہرست مقدور بھر تبلیغی لٹریچر کی اشاعت ہے ۔ چنانچہ اس عرصے میں حضرت مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری ، مولانا محمد داودصاحب غزنوی ، مولانا محمد اسماعیل صاحب سلفی (گوجرانوالہ) ، حضرت مولانا نواب سید محمد صدیق حسن ، مولانا محمد ابراہیم صاحب میر سیالکوٹی کی بعض تالیفات کے علاوہ بھی چھوٹی بڑی اہم کتابیں اور رسائل ہزاروں کی تعداد میں بحمدللہ شائع ہو چکے ہیں ۔ جن میں سے اکثر بلا قیمت تقسیم کئے گئے ۔
اسی سلسلے کی یہ کتاب ''انوارِ مصابیح'' ہے جو قارئین کرام کے سامنے ہے

جیسا کہ آپ حضرات جانتے ہیں کہ ہر سال ہمارے حنفی دوست ۔۔۔ خصوصاً وابستگان '' اکابردیوبند''۔۔۔ مسئلہ تراویح کو خواہ مخواہ نزاعی بنا کر عوام کو پریشان کرنے کا موجب بنتے ہیں ۔ اور مختلف مقامات پر کئی قسم کے ایسے مغالطے پھیلاتے ہیں جن کا دفعیہ علماء اہل حدیث بارہا کر چکے ہیں جس کے نتیجے میں اب ہونایہ چاہیے کہ جو شخص یا جماعت سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم علی صاحبہا الف الف صلوٰة ِ و تحیّہ پر عنل پیرا ہوتے ہوئے آٹھ رکعت تراویح پڑھنا چاہیے ۔ اسے کم از کم اتحاد بین المسلمین کے پیش نظر ہی سہی ۔۔۔ ۔۔ خندہ پیشانی سے یہ حضرات برداشت کریں اور خود جو ان کی مرضی ہو کریں ، مگر ان عاملانِ سنت اور عاشقانِ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے تعرض نہ فرمائیں ۔

بنا بریں مدت سے اس موضوع پر ایک مبسوط کتاب کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی ۔ چنانچہ ایک موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان کے ہمارے مرحوم و مغفور فاضل بزرگ مولونا نذیر احمد رحمانی (متوفی ١٣٨٥ھ نے بڑے احسن طریقے سے یہ خدمت سر انجام دے ڈالی ۔ احسن اللہ جزاء ہ کما یجزی عبادہ الصالحین ۔

کتاب بڑی مفصل ، مدلل اور ہر مغالطے کا شافی جواب ہے ، لیکن ایک دفعہ ہندوستان میںشائع ہونے کے بعداب ایک عرصہ سے نایا ب ہے ۔ بتوفیقہ تعالیٰ جمعیت اہل حدیث لاہور شہر کے اہتمام سے اس کی دوبارہ اشاعت نظر نواز شائقین ہو رہی ہے جس کے ساتھ مرحوم کا سوانحی خاکہ بھی شامل ہے ۔

بر سبیل تذکرہ یہ اپیل شائد نا مناسب نہ سمجھی جائے گی کہ آئے دن پیش آنے والے مشہور مسئلہ '' طلاق ثلاثہ '' پر بھی ایک تفصیلی کتاب ہمارے لٹریچر میں ہونی چاہیے جو خوش قسمتی سے مطبوعہ موجود ہے ،لیکن تیس سال کے زائد عرصے سے بالکل نہیں مل رہی ۔ ضرورت کہ اس کو دوبارہ شائع کر دیا جائے ۔ اگر انوار ِ مصابیح کی ہمارے علم دوست اور مخیر حضرات نے خوب پذیرائی فرمائی تو بہت ممکن ہے آپ کی جمعیت اہل حدیث لاہور شہر جلد از جلد اس سعادت کو حاصل کر سکے ۔ و ان ذلک علی اﷲ یسیر ۔ واﷲ الموفق و نعم المعین وصلی اﷲ علی سیدنا وآلہ صحبہ وسلم کثیرا۔
محمد رمضان ناظم جمیعة اہل حدیث لاہور شہر​
شعبان ١٣٩٤ھ​
ستمبر ١٩٧٤ء​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوانحی خاکہ مؤلف انوار مصابیح
حضرت مولانا نذیر احمد صاحب رحمانی اعظم گڑھی

نام و نسب اور مولد و منشا :۔
نذیر احمد بن عبدالشکور بن جعفر علی بتاریخ ١٠ ذوالحجہ ١٣٢٣ھ (٦ فروری ١٩٠٦ ء موضع املو ضلع اعظم گڈھ ( یوپی ۔ ہند ) میں پیدا ہوئے (یہ موضع مشہور قصبہ مبارک پور سے ایک میل مشرقی جانب اور شہر اعظم گڈھ سے ٦ ۔٧ میل کی مسافت پر بیان کیا جاتا ہے)

تعلیم و تربیت :۔
ابتدائی تعلیم مبارک پور میں ہوئی ۔ اس کے بعد مولانا حمید الدین فراہی مرحوم کے قائم کردہ ''مدرسة الاصلاح '' سرائے میر میں کچھ دنوں پڑھا ۔ پھر مؤ( ضلع اعظم گڈھ ) کے مدرسہ فیضِ عام میں چلے گئے جہاں اس کے مہتمم حضرت مولانا محمد احمد رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیم و تربیت سے مستفیض ہونے کا بہت اچھا موقع ملا ۔

دارالحدیث رحمانیہ دہلی :۔ شوال ١٣٣٩ھ (١٩٢١ ئ ) کو جب دہلی میں مدرسہ دارالحدیث رحمانیہ کے قیام کا اعلان ہوا تو پندرہ سال کی عمر میں (ذوالحجہ ١٩٣٩ھ ١٩٢١ئ ) یہاں آکر داخل ہو گئے ۔ حتیٰ کہ شعبان ١٣٤٦ھ میں یہیں سے پورے علوم عربیہ و دینیہ کی تکمیل کے بعد فارغ التحصیل ہوئے اور سالانہ امتحانوں میں ہمیشہ بہت ممتاز رہے ۔

اساتذہ :۔
بڑے جید علماء عظا سے تعلیم حاصل کی ۔ حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارکپوری (صاحب تحفة الاحوذی ) مولانا عبدالسلام مبارک پوری (مؤلف سیرة البخاری ) مولانا احمد اللہ صاحب محدث دہلوی شیخ الحدیث دارالحدیث رحمانیہ ، مولانا ابو طاہر البہاری ، مولانا غلام یحییٰ پنجابی کان پوری ، حضرت مولانا حافظ محمد صاحب گوندلوی مدظلہ العالی اور حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب نگر نہسوی مرحوم جیسے اساطین علوم و فنون متعلقہ سے خوب خوب اکتساب فیض کیا ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
مسند تدریس اور بدایوں کا تعلیمی سفر :۔
سند فراغت کے بعد (شعبان ١٣٤٦ھ ) دارالحدیث رحمانیہ ہی میں مدرس مقرر کر دیئے گئے جب کہ عمر عزیز کی ٢٣ ویں منزل میں تھے ۔
جن فنون کو ہمارے درس نظامی میں معقولات کہا جاتا ہے ان سے چونکہ صاحبِ ترجمہ کو طبعی لگاؤ تھا اس لئے ان میں مزید پختگی پیدا کرنے اور اپنے ذوق کو تسکین دینے کے لئے اسی سال مہتمم مدرسہ مرحوم و مغفور شیخ عطاء الرحمن صاحب مہتمم مدرسہ رحمانیہ کی تجویز پر بدایوں کے مشہور مدرسہ معقولات ''شمس العلوم '' جاکر داخلہ لیا اور ایک سالہ قیام میں وہاں کے ایک معقول و ریاضی میں یگانہ روزگار ماہر عالم مولانا عبدالسلام صاحب قندھاری افغانی مرحوم سے بہت سی درسی وغیرہ درسی کتابوں کی تکمیل کر لی ۔ بعدہ دہلی واپس آگئے اور مستقل طور سے دارالحدیث رحمانیہ کے ہو رہے ۔۔۔۔۔ تاآنکہ اکتوبر ١٩٤٧ء کے خونی فسادات کا حادثہ پیش آگیا اور ہندوستان تقسیم ہو کر برصغیر ہندو پاک کی شکل اختیار کر گیا ۔

١٩٤٧ء ١٣٦٦ھ کے بعد :۔
ایک سال گھر پر قیام کرنے پر مجبور ہو گئے اور آخر ١٩٤٨ء میں دارالعلوم احمدیہ سلفیہ در بھنگہ (صوبہ بہار۔ ہند)میں پھر مسندِ تدریس کو رونق بخشی ۔ جہاں کم و بیش ایک سال گذرا ۔ بعدہ جنوری ١٩٥٠ء میں بنارس کے جامعہ رحمانیہ آگئے اور اخیر عمر تک اسی جگہ اصلاحی ، تبلیغی و تالیفی خدمات سر انجام دیتے ہوئے :
وفات :۔
بتاریخ ٢٨ محرم١٩٨٥ھ(٣٠ مئی ١٩٦٥ء ) اتوار کے دن وفات پاگئے۔ تغمدہ اللہ بغفرانہ وادخلہ بحبوحة جنانہ ۔

اولاد :۔
تین لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں جو اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں ۔ البتہ ایک صاحبزادے مولوی ہلال احمد صاحب آپ کی علمی یادگار ہیں جو جامعہ الامیہ مدینہ منورہ سے فارغ التحصیل ہو کر جامعہ مذکورہ کی طرف سے نائیجیریا (افریقہ ) میں تبلیغی اور تدریسی خدمات پرمامور ہیں ۔

تلامذہ :۔
تقریباً چالیس سالہ طویل مدت تدریس میں ظاہر ہے کہ برصغیر ہندو پاک میں پھیلے ہوئے تلامذہ کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہو گی ۔ جن کی تفصیلی فہرست موجودہ حالات میں خصوصاً مشکل ہے ۔ تاہم بعض ممتاز شاگردوں کے اسمائے گرامی ذیل میں ذکر کئے جاتے ہیں کہ ما لا یدرک کلہ لا یترک کلہ ۔
مولانا عبدالغفار حسن صاحب استاذجامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ ، مولانا حافظ قاری عبدالخالق صاحب رحمانی (کراچی ) مولانا عبدالرؤف صاحب جھنڈا نگری (ہند) مولانا عبدالرحیم صاحب حسینوی (لاہوری ) مولانا عبدالرحیم صاحب بھوجیانی امرت سری مرحوم (جو مدرسہ تقویة الاسلام امرت سر میں کئی سال تک مسندِ تدریس پر کامیابی کے ساتھ فائز رہے اور ہنگامہ ١٩٤٧ء میں بھوجیاں ضلع امرت سر میں سکھوں کے ہاتھوں شہید کر دیئے گئے جبکہ عمر کی تیس بتیس سال کی منزل میں ہوں گے ۔ انا ﷲ و انا علیہ راجعون ) مولانااقبال صاحب بڈھیال (ہند) مولانا آزاد رحمانی ، مولانا مجاز اعظمی رحمانی ، مولانا عبدالجلیل رحمانی ، مولانا عبدالحمید رحمانی (حال مدیر ترجمان دہلی ) وغیرہم کثیر ماہم ۔

جماعتی اور قومی خدمات :۔
اگر ایک طرف آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس ہند کی نشة جدیدہ کے گویا روح رواں تھے تو دوسری طرف ہندوستان کی '' دینی و تعلیمی کونسل '' میں بھی خاصا عملی حصہ لیتے تھے ۔ حالات و سیاسیات حاضرہ پر وسیع نظر تھی ۔ جس کے نتیجے میں قومی اور ملی درد سے حصہ وافر ملا تھا ۔

تدریس کے ساتھ تحریری کام :۔
غالباً ١٩٣٣ی میں دارالحدیث رحمانیہ دہلی کی طرف سے ''محدث'' کے نام سے ایک ماہنامہ جاری کیا گیا جس کے ایڈٹر مولانا عبدالحلیم صاحب ناظم صدیقی در بھنگوی تھے تو معاون مولانا نذیر احمد رحمانی ۔ پھر جب اگست ١٩٣٥ء میں ناظم صدیقی صاحب کا انتقال ہو گیا تو ''محدث ''کی تیاری کی پوری ذمہ داری آپ پر آپڑی ۔ اس دوران آپ کی بہت سی علمی تحریریں یادگار ہیں ۔ جن میں :
ردّ عقائدِ بدعیہ حصہ اول :۔
جن میں سب سے اہم ہے ، جو بریلوی حضرات کے پیداکردہ مسائل پر سنجیدہ اور علمی مقالات تھے جو بعد میں شائقین کے اصرار پر کتابی صورت میں شائع ہو کر مقبول عام ہوئے ۔ اس کے دوسرے حصہ کہ بارے میںمعلوم نہ ہو سکا کہ مرتب ہوا یہ نہیں ۔
مضامین مختلفہ :۔
علاوہ ازیں تقسیم ملک کے بعد برصغیر کے جرائد و رسائل میں بھی مختلف موضودوں پر قیمتی مضامین لکھتے رہے ۔ چنانچہ ''الاعتصام '' لاہور میں بھی آپ کی بعض تحریریں شائع ہوئی تھیں ۔

''اہل حدیث اور سیاست'' :۔
کے موضوع پر ''ترجمان'' دہلی کی متعدد قسطوںمیں آپ کا بہت جاندار اور مبسوط ایک مقالہ شائع ہوا جو حال ہی میں ساڑھے چارسو (تقریباً) متوسط صفحات پر مشتمل کتابی صورت میں بنارس سے طبع ہو گیا ہے (جسکے مقدمہ نوشتہ مولانا آزاد رحمانی سے یہ سوانحی خاکہ ماخوذ ہے)
چمن اسلام :۔
تقسیم ملک کے بعد آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کی تجویزپر آپ نے بچوں کے لئے چھوٹی چھوٹی چار کتابیں تالیف کیں جو ''چمن اسلام ''کے نام سے شائع ہوئیں ۔ اگرچہ آپ کا نام ان پر مطبوع نہیں ہے ۔ یہ ریڈر ہندوستان میں اہلحدیث مکاتب میں داخل درس ہیں ۔ پاکستان میں بھی راقم کی کوشش سے اہلحدیث اکادمی لاہو نے انہیں ''اسلام کی کتاب''کے عنوان سے شائع کر دیا ہے ۔

انوار مصابیح :۔
بھی مرحوم و مغفور کی بڑے معرکے کی کتاب ہے ،بڑی تفصیلی مدلل ، مسکت ، پراز معلومات اور مسئلہ تراویح کے سارے مباحث پر حاوی ، جس طرح کہ سورة فاتحہ کے مسئلے پر ''تحقیق الکلام '' ایک جامع کتاب ہے یہی وہ اہم کتاب ہے جو اس وقت آپ کے سامنے ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ مولانا نذیر احمد رحمانی جامع الاوصاف شخصیت تھے ، راقم الحروف کی ان سے آخری ملاقات ١٩٤٦ء کے لگ بھگ دہلی دارالحدیث رحمانیہ میں ہوئی تھی ۔ ١٩٧٤ء کے بعد گاہے گاہے خط وکتابت ہو جاتی تھی ۔ مرحوم ، ہفت روزہ ''الاعتصام'' سے قلبی لگاؤ رکھتے تھے ۔ مرکزی جمیعت اہل حدیث کی ہماری تنظیمی مساعی کو قابل رشک قرار دیتے تھے ۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل رحمتہ اللہ علیہ سے تو مرحوم کو بہت ہی عقیدت تھی ۔
دعاء ہے اللہ تعالےٰ اس مبلغِ اسلام اور عاشقِ سنت کو اپنی خاص رحمتوں سے نوازتا رہے اور صالحین کی معیت میں جنت بریں پر اعلےٰ مقام عطاء فرمائے ۔ آمین ۔
ایں دعاء از من و از جملہ جہاں آمین باد​
راقم محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم​

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلوٰةُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمَ الْاَنْبِیَائِ وَالْمُرْسَلِیْنَ وَ عَلیٰ آلِہ وَ اَصْحَابِہ وَاتِّبَاعِہ اَجْمَعِیْنَ ۔
اما بعد
قصبہ مؤضع اعظم گڑھ (یوپی) ہندوستان میں ایک مشہور تجارتی مقام ہے ۔ وہیں سے ایک رسالہ ''رکعات ِتراویح '' کے نام سے شائع ہوا ہے ۔ اس کے ٹائیٹل پر مؤلف کا نام اس طرح درج ہے : ''علامہ کبیر محدث شہیر حضرت مولانا حبیب الرحمن الاعظمی دامت فیوضہم ''۔
اصل مبحث کے لحاظ سے نہ یہ رسالہ ہی نیا ہے اور نہ اس کے مندرجات انہیں چبائے ہوئے لقموں کو ''محدث شہیر'' نے بھی الفاظ کے ہیرپھیر اور مغالطہ آمیز جملوں کے ساتھ دہرایا ہے ۔ جوا س سے پہلے بارہا لکھے لکھائے جا چکے ہیں ۔ ہاں اس رسالے کی اشاعت سے یہ ضرور ہوا کہ مولانا ''دامت فیوضہم '' کو مسلک اہلِ حدیث ، جماعت اہل حدیث اور علمائے اہل حدیث سے جو دیرینہ عداوت ، تعصب ، عناد اورحسد ہے ان کی نمائش کا ایک موقعہ آپ نے پھر پیدا کر لیا ۔ حمد و صلوٰة کے بعد ہی '' علامہ کبیر '' اور '' محدث شہیر'' نے طنز و تعریض کے فقروں کے ساتھ جو زبان کھولی ہے تو کتاب کے آخر تک یہی انداز چلا گیا ہے ۔ جا بجا علماء اہل حدیث کی علمی شان کی تخفیف اوراپنے پندار علمی کا مظاہرہ فرمایا گیا ہے ۔
حیرت تو یہ ہے کہ بایں ادّعائے فضل و کمال ایک خالص علمی و تحقیقی مسئلہ کو جذباتی رنگ میں پیش کیا گیا ہے ۔ عوام کی ناواقفیت سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے رسالہ کے شروع اورآخر میں خصوصیت کے ساتھ اس بات کو نمایا ں کیا گیا ہے کہ رکعاتِ تراویح کے باب میں اہل حدیث کا مسلک بالکل انوکھا اور نرالا ہے ۔ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل سے اس کی تائید ہوتی ہے اور نہ صحابہ و ائمہ دین سے اس کا ثبوت ملتا ہے ۔
مولانا کے اس دعوے میں کہاں تک صداقت ہے ۔ اس کی حقیقت تو آیندہ صفحات میں اپنے موقعہ پر انشاء اللہ اس طرح منکشف ہو کر آپ کے سامنے آئے گی کہ آنکھوں کے پردے کھل جائیں گے ، لیکن سر دست ہم مولانا مئوی سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ جب آپ کو یہ شکایت ہے کہ :
''ہندوستان کے فرقہ (١) اہل حدیث نے رکعات تراویح کے باب میں تقریباً سو برس سے جو شور و غوغا مچا رکھا ہے اس کا وجود پہلے کبھی نہیں تھا ۔ تمام
دنیائِ اسلام میں بیس یا بیس سے زیادہ رکعتیں پڑھی جاتی تھیں اور باہم کوئی رسالہ بازی یا اشتہار بازی نہیں ہوتی تھی ۔'' (رکعات(٢) ص ١ )

----------------
(١) مروجہ فرقہ بندیاں وجوب تقلید کا ثمرہ ہیں اور اہل حدیث وجوب تقلید کے منکر ہیں ۔ تو پھر بھلا ان کو ان فقہی اور تقلیدی فرقہ بندیوں سے کیا لگاؤ؟ اس لئے اس معنی میں اہل حدیث کو ''فرقہ '' کہنا یقینا معاندانہ افتراء ہے وہ تو خالص کتاب و سنت کے تمسک کے داعی ہیں ۔ جو خود ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کا مسلک تھا ۔ منہ ۔
(٢) رکعات سے مراد ''رکعات تراویح '' مؤلفہ مولانا حبیب الرحمن اعظمی ہے ۔ آیندہ بھی یہ نام اسی اختصار کے ساتھ آئے گا ۔ منہ ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
حنفی مذہب چھپانے کا راز
توآخر اس میں کیا راز ہے کہ آپ جیسے متعصب اور غالی حنفی نے اس موقعہ پر حنفیہ کے مسلک کو دوسرے مسلکوں میں مدغم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ہندوستان کے اہل حدیثوں کا '' شور غوغا '' تو ہندوستان کے حنفیوں ہی کے خلاف ہے جو تراویح کی آٹھ رکعتوں کے سنت ہونے کا انکار کرتے ہیں اور صرف بیس رکعتوں کے مسنون ہونے کا اعلان کرتے رہتے ہیں ۔ اگر اس ''شور و غوغا'' نے آپ کی تقلیدی نیند حرام کر دی اور من بعثنا من مرقدنا کہ کر آپ اٹھے اور اس شور کو بند کرنے کے لئے ''رسالہ بازی یا اشتہار بازی '' کی مہم میں اپنی شرکت بھی ضروری سمجھی تو پھر مستقلاً اپنے پورے مسلک کو زیر بحث لانے سے گریز کیوں فرمایا گیا ہے ۔ ''دنیائے اسلام '' اور ''جمہور امت '' کی پناہ لے کر حنفیہ کے ادھورے مذہب کو صرف ضمناً اور طبعاً ذکر کرنے کا راز کہیں یہ تو نہیں کہ آپ کی ''تحقیقاتِ علمیہ ''کی زد خود حنفی مذہب پر پڑتی ہے اس لئے عوام کو مغالطہ میں ڈالنے کے لئے فرار کی راہ اس کے سوااورکوئی نظر نہ آئی کہ ''دنیائے اسلام '' اور ''جمہور امت '' جیسے مرعوب کن اور جذباتی الفاظ بول کر ذہنوںکی توجہ کو دوسری طرف مبذول کر دیا جائے اور حنفی مذہب والی بات کو یونہی گول مول رہنے دیا جائے ۔
یعنی مولانا حبیب الرحمن صاحب نے ٩٦صفحے کی اس کتاب میں حنفیہ کے مذہب کی بابت ہمیں مبہم طور پر صرف اتنا بتایا ہے کہ وہ بھی تراویح کی بیس ہی رکعتوں پر عامل ہیں ۔ نیز ان بیس رکعتوں کیساتھ ساتھ مولانا ہر جگہ بیس سے زائد رکعتوں کا تذکرہ بھی کرتے جاتے ہیں اور بظاہر بڑے زور بیان کیساتھ کرتے ہیں ۔ چنانچہ شروع ہی میںلکھتے ہیں :
''تمام دنیا ء اسلام میں بیس یا بیس سے زیادہ رکعتیں پڑھی جاتی تھیں ۔ تقریباً ساڑھے بارہ سو برس تک تمام مسلمانانِ اہل سنت بیس اور بیس سے زائد ہی کو سنت اور قابل عمل سمجھتے رہے ۔ ساڑھے بارہ سو برس کے بعد فرقہ اہل حدیث نے یہ جدید انکشاف کیا کہ اب تک جو مسلمان کرتے یا سمجھتے رہے ہیں وہ صحیح نہیں ہے صحیح یہ ہے کہ صرف آٹھ رکعتیں سنت اور قابل عمل ہیں ۔'' (رکعات ص ١)
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
چند بنیادی تنقیحات
لیکن اس پوری کتاب میں مولانا نے یہ کہیں نہیں بتایا کہ حنفیہ جن بیس رکعتوں پر عامل ہیں فقہ حنفی کی رو سے ان کی نوعیت کیا ہے ؟ نیز ساڑھے بارے سو برس تک تمام دنیاء اسلام میں جن مسلمانانِ اہل سنت نے بیس سے زیادہ رکعتوں کو سنت سمجھا اور سنت سمجھ کر ہی ان پر عامل رہے تو کیا واقعی ان کا یہ سمجھنا حنفی مذہب کی رو سے بھی صحیح تھا ؟ کیا حنفیہ کے نزدیک جس طرح تراویح کی بیس رکعتیں مسنون ہیں ۔ اسی طرح بیس سے زائد رکعات بھی مسنون رہی ہیں ۔
یہ ہیں وہ بنیادی تنقیحات جن سے ہمارے مولانا نے مصلحتا ًاغماض فرمایا ہے ۔ حالانکہ یہ تنقیحات نہایت ضروری ہیں ۔ ان تنقیحات کے فیصلے کے بعد آدھی بحث ختم ہو جاتی ہے ۔
آیئے اب ہم آپ کو بتائیں کہ بیس اور بیس سے زائد رکعتوں کا حکم حنفی مذہب کی رو سے کیا ہے ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
تراویح کی رکعات اور حنفی مذہب
حنفی مذہب میں صلوٰة تراویح کی حیثیت عام نوافل کی سی نہیں ہے ۔ یہ ان کے نزدیک سنتِ مؤکدہ ہے اور جس طرح نفس تراویح سنتِ مؤکدہ ہے ۔ اسی طرح اس کی بیس رکعات بھی سنتِ مؤکدہ ہیں ۔ مولانا عبدالحئی حنفی تحفتہ الاخیار میں لکھتے ہیں : ۔
قد صرح اصحابنا بان التراویح سنة مؤکدة ...... وصوحوا ایضا بان عشرین رکعة سنة مؤکدة ایضا ۔ (ص ١٥)
اور سنت مؤکدہ کا حکم یہ ہے کہ عمداً اس کا ترک کر دینا گناہ اور موجب حرمانِ شفاعت ہے ۔ تلویح میں ہے : ۔
وترک السنة المؤکدة قریب من الحرام یتحق حرمان الشفاعة (تحفة الاخیار)
بحرالرائق میں ہے : ۔
بمنزلة الواجب فی الاثم بالترک کما صرحوا بہ کثیرا
شرح منار میں علامہ زین نے لکھا ہے : ۔
لا صح انہ یا ثم بترک المؤکدة لانھا فی حکم الواجب کذا فی الطحطاوی رکعات تراویح کے باب میں علماء حنفیہ نے صرف دو عددوں کا مسنون ہونا تسلیم کیا ہے ۔ کم از کم آٹھ اور زیادہ سے زیادہ بیس ۔ آٹھ رکعتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی سنت قرار دیتے ہیں اور بیس کو خلفاء راشدین اور صحابہ کرام کی ۔ بیس سے زیادہ رکعتوں کو نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مانتے ہیں اور نہ صحابہ و خلفاء راشدین کی ، بلکہ بیس سے زائد رکعتوں کو تو نذاعی اور جماعت کے ساتھ پڑھنے کو مکروہ کہتے ہیں اور اس کے مکروہ ہونے میں تو کسی حنفی کا اختلاف ہی نہیں ہے ۔ لیکن بعض نے تو اس کو صاف صاف بدعت لکھا ہے ۔ آٹھ رکعات کے متعلق علماء حنفیہ کے اقوال آئندہ مباحث میں نقل کئے جائیں گے ۔ یہاں چونکہ نتقیحات مذکورہ بالا پر گفتگو ہے اس لئے وہی عبارتیں نقل کی جاتی ہیں جن کا تعلق بیس اور بیس سے زائد رکعات سے ہے ۔
مولانا رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں : ۔
بناء علیہ جو صحابہ اور تابعین اور مجتہدین علماء نے اعدادِ رکعات اختیار کئے ہیں سب امور مندوب ہیں ، مگر علماء حنفیہ کے نزدیک جو عدد ان میں فعل یا قول رسول اللہ سے بجماعت ثابت ہوا ہے اس میں جماعت کو سنت کہیں گے اور اس کے سوائے میں جماعت کو بتداعی مکروہ فرمائیں گے ، کیونکہ ان کے نزدیک جماعت نفل بتداعی مکروہ ہے مگر جس موقع میں کہ نص سے ثابت ہو چکی ہے وہاں مکروہ نہیں ۔ اس واسطے کتبِ فقہ میں یہ مسئلہ لکھا ہے کہ اگر عددِ تراویح میں شک ہو جائے کہ اٹھارہ پڑھے یا بیس تو دو رکعت فرادی پڑھیں نہ بجماعت۔ بسبب اطلاق حدیث کے زیادہ ادا کرنا ممنوع نہیں ۔ خواہ کوئی عدد ہو مگر جماعت بیس سے زیادہ کی ثابت نہیں ۔ (الرأ النجیح ص ١٢ ، ١٣) ۔
کفایة الشعبی میں ہے :
الامام اذا تم التراویح بعشر تسلیمات وقام وشرع فی الحادی علی ظن انھاعاشر ثم علم انہ زیادة فالواجب علیہ وعلی القوم ان یفسدوا ثم یقضون وحدانا لان الصحابة اجمعوا علی ھذا القدر فالزیادة علیہ محدث وکل محدث ضلالة وکل ضلالة فی النار انتھی (غایة التنقیح ص ٣٦)
امام جب ترویح بیس رکعات دس سلام سے پورے کر لے اس کے بعد گیارہواںاں ترویحہ یہ سمجھ کر شروع کرے کہ یہ دوسواں ہی ہے لیکن پھر اس کو یاد آ جائے کہ یہ زاید ہے تو امام اور مقتدی دونوں پر واجب ہے کہ نماز توڑ دیں اور الگ الگ ہو کر قضا کریں کیونکہ صحابہ نے بیس ہی رکعات پر اجماع کر لیا ہے لہذا اب اس سے زیادہ پڑھنا بدعت ہے اور بدعت ضلالت ہے اور ضلالت کا انجام جہنم ہے ۔
اسی سلسلہ میں یہ بات بھی ذہن نشین کر لیئے کہ حنفیہ کے نزدیک جس طرح تراویح اور اس کی بیس رکعتیں سنتِ مؤکدہ ہیں اسی طرح اس کا با جماعت ادا کرنا بھی سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے اگر کسی مسجد کے سب مصلی تراویح با جماعت ترک کردیں تو سب کے سب گنہگار ہوں گے ۔ مولانا عبدالحٔ حنفی تحفة الاخیار میں لکھتے ہیں ۔ قیام رمضان بالجماعة سنة مؤکدة صفحہ ٣٢
النہر الفائق میں ہے : ۔
وسن فی رمضان عشرون رکعة بجماعة وھو ظاہر فی انھا علی الاعیان وھو قول المرغینانی والصحیح الذی علیہ العامة انھا علی الکفایة حتی لو ترکھا کل اھل المسجد اثموا انتھی
اور در مختار میں ہے : ۔
والجماعة فیھا سنة علی الکفایة فی الاصح فلو ترکھا اھل المسجد اثموا انتھی
فقہ حنفی کی تمام چھوٹی بڑی کتابوں کی ورق گردانی کر جائیے ۔ پوری قوت صرف کرنے کے باوجود کوئی گھٹیا سے گھٹیا سے ثبوت بھی آپ کو اس بات کا نہیں ملے گا کہ حنفی مذہب کی رو سے تراویح کی بیس رکعتوں سے زیادہ کا بھی وہی حکم ہے جو بیس رکعتوں کا ہے ۔ بیس سے زائد مندوب ہیں ۔ثواب کی نیت سے الگ الگ تو پڑھی جاسکتی ہیں ، لیکن جماعت کے ساتھ ان کا ادا کرنا باتفاق حنفیہ مکروہ اور ممنوع ہے ۔ کسی نے بھی ان کا سنت ہونا تسلیم نہیں کیا ہے ۔
ہماری اس تمہید کو سامنے رکھ کر اب ذرا ''ساڑھے بارہ سو سال '' کے تعامل والی فہرست کو ایک مرتبہ پھر پڑھ جائیے جو مؤلف ''رکعات تراویح '' نے شروع کے پانچ صفحات میں پھیلا کر پیش کی ہے اور اس فہرست میں سے ان حضرات کے ناموں کو چن کر الگ کر لیجئے جن کے متعلق بیس رکعات سے زیادہ تراویح پڑھنے یا پڑھانے کا ذکر ہے اوردیکھئے کہ کیا ان حضرات میں سے کسی ایک کے متعلق بھی یہ تصریح ہے کہ بیس رکعتیں تو انہوں نے اس جماعت کیساتھ پڑھی تھیں اور باقی رکعتیں جماعت سے الگ ہو کر انفراداً پڑھی تھیں ۔ ہر گز اس قسم کی کوئی بات آپ کو وہاں نہیں ملے گی ۔ بلکہ اس کے بر خلاف یا تو صراحت ہے یا قرائن قویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہون نے یہ تمام رکعتیں جماعت ہی سے ادا کی تھیں ۔
پس حنفی مذہب کی رو سے ان تمام حضرات صحابہ و تابعین اورائمہ دین کی یہ نمازیں مکروہ اور فاسد ہیں بلکہ علی قول لبعض بدعت اورضلالت ہیں ۔ (عیاذاً باﷲ )
یہ تو بیس سے زیادہ پڑھنے والوں کے متعلق فیصلہ ہوا ۔ اب بیس سے کم پڑھنے والوں کا حال سنئے ! اسی فہرست میں امام ابو مجلز (تابعی) کے متعلق منقول ہے کہ وہ سولہ رکعتیں لوگوں کو پڑھایا کرتے تھے (اوراس سے زیادہ رکعات پڑھنے کا ان کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں ہے ) لہذا حنفی مذہب کی رو سے امام ابو مجلزرحمتہ اللہ علیہ اور ان کے تمام مقتدی بھی گنہگار بلکہ بدعتی ہیں ، کیونکہ سنت مؤکدہ (بیس رکعات) کے تارک ہیں ۔ چنانچہ مولانا محمد علی مونگیری لکھتے ہیں :
''پس جب بیس رکعت کا ثبوت بطور درایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا اور صحابہ کرام کی مواظبت اس عدد پر پائی گئی تو بلا شک اس عدد کا سنت مؤکدہ ہونا ثابت ہوا ۔ اب اگر کوئی شخص بیس رکعت تراویح نہ پڑھے یا اس کے سنت مؤکدہ ہونے کا اعتقاد نہ رکھے وہ بلا شبہ بدعتی اور گنہگار ہے '' ( غایة التنقیح ص ٥٠)

اس عبارت پر غور کیجئے ۔ یہ فتوی تین صورتوں کو شامل ہے ۔
(الف ) جو شخص سرے سے تراویح پڑھے ہی نہیں ۔
(ب) تراویح تو پڑھے ،لیکن بیس سے کم پڑھے (مثلاً آٹھ یا تیرہ یا سولہ وغیرہ )
(ج ) خاص بیس رکعت کے سنت مؤکدہ ہونے کا اعتقاد نہ رکھے ۔

اس فتوی کی رو سے یہ سب بلا شبہ بدعتی اور گنہگار ہیں ۔
الغرض جن حضرات نے بیس سے زیادہ تراویح باجماعت ادا کیں حنفی مذہب کی رو سے وہ بھی گنہگار اور بدعتی اور جن حضرات نے اس سے کم ادا کیں وہ بھی گنہگار اور بدعتی اور جس مسجد کے سب مصلیوں نے انفراداً ادا کیں وہ بھی گنہگار اور محروم شفاعت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ۔
الٹا الزام لیکن دیدہ دلیری یہ دیکھئے کہ مولانا مئوی لٹا الزام ہم کو دیتے ہیں کہ ''ساڑھے بارہ سو برس کے بعد فرقہ اہل ہدیث نے یہ جدید انکشاف کیا کہ اب تک جو مسلمان کرتے یا سمجھتے رہے ہیں وہ صحیح نہیں ہے ''۔

حالانکہ کہنا یہ چاہئے تھا کہ سلف صالحین ہمیشہ تراویح کو نفلی عبادت سمجھ کر بیس یا اس سے کم و بیش رکعتیں باجماعت بھی اور انفراداً بھی پڑھتے رہے اور ان سب صورتوں کو بلا کراہت صحیح اور قابل عمل سمجھتے رہے ، مگر حنفی فرقہ نے یہ جدید انکشاف کیا کہ تمام سلف صالحین اب تک جو کرتے یا سمجھتے رہے ہیں وہ صحیح نہیں ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ صرف بیس رکعتیں جماعت کے ساتھ ادا کی جائیں ۔ یہی خاص عدد سنت اور باجماعت قابل عمل ہے ۔ لیجئے !

ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
راز کھل گیا
اب آپ کی سمجھ میں یہ راز بھی آگیا ہو گا کہ مولانا مئوی نے اس موقعہ پرحنفی مذہب کی پوری بات پیش کرنے سے کیوں گریز فرمایا ہے اور بجائے اس کے کہ خاص حنفی مذہب کو زیر بحث لاتے ''دنیائے اسلام '' اور ''جمہور امت '' جیسے رعب جمانے والے الفاظ کی بھول بھلیوں میں ذہنوں کو الجھانے کی کوشش کیوں کی ہے ۔

بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
دعویٰ اوردلیل میں مطابقت نہیں
مولانا حبیب الرحمن صاحب نے ہمیں مرعوب کرنے یا عوام کو فریب دینے کے لئے دعوے تو بڑے طنطنے کیساتھ یہ کیا کہ تقریباً ساڑھے بارہ سو برس تک تمام مسلمانانِ اہل سنت بیس اور بیس سے زائد ہی کو ''سنت اور قابل عمل سمجھتے رہے ''۔ مگر دلیل میں صرف یہ پیش کیا گیا کہ فلاں نے بیس رکعتیں پڑھیں یا پڑھائیں اور فلاں نے ٣٦ ۔ فلاں نے ٤٠ ۔ فلاں نے ٢٤ وغیرہ ۔

بتائیے یہ دھاندلی نہیں تو او ر کیا ہے ۔ ٢٠ ، ٢٤، ٤٠ وغیرہ رکعتیں پڑھنے یا پڑھانے سے یہ کب لازم آتا ہے کہ ان سب حضرات نے آٹھ رکعتوں کے''سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم '' ہونے سے انکار کیا ہے اور بیس یا اس سے زیادہ رکعتیں انہوں نے رکوع اورسجود کی زیادتی کے شوق میں نفل سمجھ کر ادا کی تھیں بلکہ ''سنت نبوی'' سمجھ کر پڑھتے رہے اور سنت بھی سنت مؤکدہ جس کا تارک گنہگار اور محروم شفاعت ہے ۔ نزاع تو اسی میں ہے ۔ نزاعی امر سے کترا کر ادھر ادھر کی باتوں میں الجھنا اہل علم کی شان سے بعید ہے ۔

بیس یا اس سے کم و بیش رکعتوں کا پڑھنا یہ ہر گز اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ اس کے پڑھنے والے آٹھ رکعتوں کو سنت نہیں سمجھتے تھے ۔یہ تنگ نظری تو صرف حلقئہ دیوبند کے چند ضدی مولویوں ہی میں پائی جاتی ہے اور یہی ضد نزاع کا باعث بنی ہوئی ہے ۔چنانچہ رمضان شریف کے موقع پر مہتمم دارالعلوم دیوبند کی طرف سے ہر سال یہ اعلان ہوتا رہتا ہے کہ ''عشاء کے فرض اور سنت کے بعد بیس رکعت تراویح باجماعت مسنون ہے ۔ بعض لوگ بارہ یا آٹھ بتلاتے ہیں یہ درست نہیں ہے ۔(اخبار الجمعیة دہلی ٤اپریل ٥٧ئ ) ورنہ حنفیہ جو بیس رکعتوں کے قاتل اور اس کے عامل ہیں ان کے اکابر علماء بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے آٹھ ہی رکعتوں کا ثبوت ہے ۔ لہٰذا اس تعداد کا ادا کرنا '' سنت '' ہے اور اس سے زائد مستحب ہے ۔ ابن الہمام ، ابن نجیم المصری صاحب بحر الرائق ، طحطاوی حنفی مذہب کے وہ اکابر ہیں جن کے علم و فضل کے مقابلے میں عصر حاضر کا کوئی حنفی عالم پاسنگ کے برابر بھی نہیں ہوسکتا حواہ وہ اپنے دائرے میں کوئی '' علامہ کبیر'' اور محدث شہیر ہی کیوں نہ ہو ۔ یہ تینوں اکابر علماء حنفیہ لکھتے ہیں :
ان قیام رمضان سنة احدی عشرة رکعة بالوتر فی جماعة فعلہ صلی اللہ علیہ وسلم وترکہ بعذر ........ وکونہا عشرین سنةالخلفاء الراشدین ...... فتکون العشرون منہا مستحباً وذالک القدر منہا ہو السنة کالاربع بعد العشاء مستحبة ورکعتان منہا سنة وظاہر کلام المشائخ ان السنة عشرون و مقتضی الدلیل ما قلنا ہٰذا ما قال الشیخ ابن الہمام فی فتح القدیر طبع مصر ص ٣٣٤ج اوّل وقال ابن نجیم ذکر المحقق فی فتح القدیر ما حاصلہ ان الدلیل یقتضی ان تکون السنة من العشرین ما فعلہ صلی اللہ علیہ وسلم منہا ثم ترکہ خشیة ان تکتب علینا والباقی مستحب وقد ثبت ان ذالک کان احدی عشرة رکعة بالوتر کما ثبت فی الصحیحین من حدیث عائشة فاذن یکون المسنون علٰی اصول مشائخنا ثمانیة منہاو المستحب اثنا عشرة انتہی (بحر الرائق ص ٦٦، ج٢)
نواب صدیق حسن خاں رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں '' وہم در طحطاوی بعد نقل کلام فتح القدیر مثل کلام بحر الرائق گفتہ '' یعنی : فاذن یکون المسنون علیٰ اصول مشائخنا ثمانیة منہا والمستحب اثنا عشرة انتہی (مسسک الخنام جلد اوّل ص٢٨٨)
دیکھئے یہ تینوں ائمۂ احناف یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ بیس رکعات تراویح میں سے آٹھ رکعتیں تو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور باقی مستحب ہیں ۔ مؤلف '' رکعات تراویح''جیسے متصلب حنفی ہزار کوشش کریں ، مگر صحابہ اور تابعین کے اقوال سے وہ ہر گزا س بات کا ثبوت پیش نہیں کر سکتے کہ ان کے نزدیک تراویح کی آٹھ رکعتیں '' سنت'' نہیں ہیں اور اس کے مقابلے میں وہ بیس یا بیس سے زائد رکعتوں ہی کو '' سنت نبوی'' سمجھتے تھے ۔ یقینا یہ دعوی بلادلیل اور نرا مغالطہ ہے ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
تحقیقی جواب
یہ جو کچھ بھی ہم نے عرض کیا ہے اس کی نوعیت '' ساڑھے بارہ سو سالہ عمل'' والی مرعوب کن او رجذاتی دلیل کے الزامی جواب کی ہے اب اس کا تحقیقی جواب سنئے ۔
اوّلاً : اس وقت تک اسلام کی زندگی ١٣٧٧ سال کی ہو چکی ہے اور بیس رکعات یا اس سے زائد کا رواج بقول علامہ مؤی صرف ساڑھے بارہ سو سال سے شروع ہوا ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اسلام کی زندگی کے ایک سو ستائیس برس کے بعد یہ عمل جاری ہوا ۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا زمانہ اور اس کے بعدبھی خیر القرون کا ایک طویل زمانہ اس نام نہاد تعامل سے خالی رہا ہے ، مگرپھر بھی زعم یہی ہے کہ یہی '' سنت '' ہے اور اس کے خلافِ سنت ہے ۔ یا للعجب وضیعة الادب ۔

ثانیًا : مولانا مئوی کو معلوم ہونا چاہئیے کہ ہم '' اہل حدیث'' ہیں ۔ ہمارا نعرہ ہے

اصل دین آمد کلام اللہ معظم داشتن
پس حدیث مصطفی برجاںمسلم داشتن​

ہم کہا کرتے ہیں :

ہوتے ہوئے مصطفی کی گفتار
مت دیکھ کسی کا قول و کردار​

ہمارا شیوہ معرفت الحق بالرجال نہیں بلکہ معرفت الرجال بالحق ہے ۔ ہمارا اصول حضرت شاہ ولی علیہ الرحمة کے لفظوں میں یہ ہے :
.... فاذا لم یجدو فی کتاب اﷲ اخذوا سنة رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سواء کان مستفیضًا دائرًا بین الفقہاء ویکون مختصًا باہل بلد اور اہل بیت او ربطریقة خاصة وسوائٍ عمل بہ الصحابة والفقہاء اولم یعلموا بہ ومتیٰ کان فی المسئلة حدیث فلا یتبع فیہا خلاف اثر من الاٰثار ولا اجتہاد احد من
(محدثین کا قاعدہ یہ تھا کہ ) جب کسی مسئلہ میں قرآنی فیصلہ نہ ملتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اورسنت سے اس مسئلہ کو لیتے ۔ خواہ وہ حدیث فقہاء میں مشہور ہو یا کسی شہر کے لوگوں میں پائی جاتی ہو ۔ یا کسی خاص گھر کے لوگوں میں یا کسی خاص سند سے مروی ہو چاہے صحابہ اور فقہاء نے اس پر عمل کیا ہو یا نہ کیا ہو اور المجتہدین ۔ الخ
جب کسی مسئلہ میں حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم مل جاتی تو کسی صحابی کے اثر یا مجتہد کے اجتہاد کی اتباع نہ کرتے ۔ (مختصراً از حجة اللہ ص١١٩ ج١ طبع مصر )
اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی '' سنت ثابتہ'' کی بابت ہمارے نزدیک یہ سوال اٹھانا ہی سرے سے اصولاً غلط ہے کہ '' فلاں مدت سے اس پر مسلمانوں کاعمل نہیں ہے '' یہ تو حدیث کے ردّ کر دینے کا ایک مقلدانہ حیلہ ہے ۔ چنانچہ علامہ محمد عابد سندھی کے مایہ ناز استاذ علامہ فلانی اپنی کتاب '' ایقاذہمم اولی الابصار'' میں مقلدانہ حیلوں کے بیان کے سلسلہ میں لکھتے ہیں : وان عجذ عن ذالک کلہ ادعی النسخ بلا دلیل او الخصوصیة او عدم العمل بہ او غیر ذالک مما یحضر ذہنہ العلیل (١٠٩)

یعنی مقلد اپنے امام کی رائے کے خلاف جب کسی حدیث کو پاتا ہے تو مختلف قسم کی دور دراز تاویلوں سے اس کو رد کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جب سب باتوں سے عاجر آجاتا ہے تو بلا دلیل یہ دعویٰ کر دیتا ہے کہ یہ تو منسوخ ہے ۔ یا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے یا یہ کہ اس پر عمل نہیں ہے ۔

حافظ ابن القیم رحمة اللہ علیہ اہل المدینہ کو حجة قرار دینے والوں کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
والسنة ہی العیار علی العمل ولیس العمل عیارًا علی السنة (اعلام ص٢٩٨ ج١)
یعنی لوگوں کے عمل کی تصحیح کا معیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے یہ نہیں کہ لوگوں کے عمل کو سنت رسول کی تصحیح کا معیار قرار دیا جائے ۔ علامہ ابن قدامہ ایک بحث کے ذیل میں لکھتے ہیں :
ولو ثبت فسنة النبی صلی اللہ علیہ وسلم مقدمة علٰی فعل اہل المدینہ (المغنی مع الشرح الکبیر جلد الثانی ص٣٧٧)

حافظ ابن القیم رحمة اللہ علیہ نے بالکل سچ فرمایا :
وکذالک اہل الرای المحدث ینقمون علٰی اہل الحدیث وحزب الرسول اخذ ہو بحدیثہ وترکہم ماخالفہ . (التبیان فی اقسام القرآن فصل ١٧ ص٣٤)
یعنی جس طرح دوسرے اہل باطل اہل حق سے عناد اور دشمنی رکھتے ہیں اسی طرح اہل الرائے (حنفیوں) کو اہل حدیث کی یہ بات بری معلوم ہوتی ہے کہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے سامنے کسی دوسرے کی بات نہیں مانتے ۔
شاہ نظام الدین اولیاء علیہ الرحمة کے شاگرد رشید مولانا فخر الدین سامانوی (سامانوی اسامانة کی طرف نسبت ہے ۔ یہ ایک شہر ہے جو تقسیم سے پہلے پنجاب کی مشہور ریاست پٹیالہ کے ماتحت تھا ۔ دیکھو الامکنہ نزہة الخواطر ص٣٠ ) ثم دہلوی لکھتے ہیں :
علم ان من اہل السنة والجماعة ثلث فری الفقہاء والمحدثون و الصوفیة فاالفقہاء سموا المحدثین اصحاب الظواہر لانہم یعتمدون علٰی مجرد الخبر
اہل سنت والجماعت کے تین گروہ ہیں ۔ فقہاء ، محدثین ، صوفیہ ۔ فقہاء محدثین کو اصحاب ظواہر کہتے ہیں ، کیونکہ یہ لوگ صرف حدیث پر عمل کرتے ہیں اور حدیث کے
ویطلبون الاسناد الصحیح وسموا انفسہم اہل الرای لانہم یعملون بالری ویترکون خبرا الواحد فعندہم العمل بالدرایة مع وجود مخالفة خبر الواحد عن الثقات جائز وعند المحدثین لا یجود انتہی مختصرًا (نزہة الخواطر مع معجم الا مکنہ ص١٠٥)
لئے سند صحیح تلاش کرتے ہیں ۔ اور فقہاء اپنے آپ کو اہل الرأ کہتے ہیں ، کیونکہ یہ لوگ رائے پرعمل کرتے ہیں اور خبر واحد کو چھوڑ دیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک اپنی درایت پر عمل کرنا جائز ہے اگرچہ اس کے خلاف ثقہ راویوں کی روایت (خبر واحد) موجود ہو ، لیکن یہ محدثین (اہل حدیث) کے نزدیک یہ جائز نہیں ۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک شخص نے ایک مسئلہ دریافت کیا ۔ انہوں نے جواب دیا اس پر سائل نے یہ معارضہ کیا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو اس کے خلاف کہتے ہیں ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے جواب کے ثبوت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پیش کی اور اس کے بعد فرمایا کہ بتاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مانو گے یا ان کے مقابلہ مین ابن عباس کی ؟ یاد رکھو ! اگر تم سچے مومن ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کو دوسروں کی سنت پر مقدم جانو ۔ الفاظ یہ ہیں ۔

فیقول رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم احق ان تاخذ او بقول ابن عباس ان کنت صادقا وفی روایة فسنة اللہ وسنة رسولہ احق ان تتبع من سنة فلان ان کنت صادقاً (مسلم شریف جلد اوّل ص٤٠٥)
حضرت عبداللہ بن عمر کے بیٹے عبداللہ نے اپنے باپ سے نقل کرتے ہوئے صحابہ کا عمل بیان کیا کہ نویں ذی الحجہ کو منیٰ سے عرفات جاتے ہوئے بعض صحابہ تکبیر پڑھ رہے تھے اور بعض تلبیہ کہ رہے تھے ، مگر کوئی ان پر معترض نہ تھا ۔ یہ روایت سن کر ان کے شاگر عبداللہ بن سلمہ نے افسوس کے ساتھ کہا :
واﷲ لعجبًا منکم کیف لم تقولوا لہ ماذا ریت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یصنع (مسلم شریف جلد اوّل ص٤١٦)
یعنی '' واﷲ بڑا تعجب ہے آپ لوگوں پر کہ صرف صحابہ کا عمل سن کر خاموش رہ گئے ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ لوگوں نے یہ کیوں نہیںپوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس میں کیا عمل ہے ؟ '' ۔

ہندوستاں کا ذی علم طبقہ مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم کو خوب جانتا ہے اور ان کی علمی جلالت او رتاریخی بصیرت سے بھی اچھی طرح واقف ہے ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقعہ پر ہم ان کی ایک تحریر کا کچھ اقتباس پیش کر دیں جس سے ہندوستان کے اہل حدیثوں کے مسلک اور ان کی اس تحریک کیاثرات اور کارناموں پر تھوڑی سی روشنی پڑتی ہے ۔
 
Top