• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انوار المصابیح انوار المصابیح

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
اس حدیث کے ایک لفظ کے اظہار سے گریز :
اس حدیث کے حوالہ کے لئے مولانا مئوی کا اصل اعتماد دو کتابوں پر ہے ایک امام سیوطی کی المصابیح اور دوسری امام بیہقی کی سنن کبریٰ ۔ ان دونوں کتابوں میں اس حدیث کے جو الفاظ منقول ہیں ان میں تھوڑا سا فرق ہے ۔ بیہقی کی روایت میں ایک لفظ زائد ہے ، جو المصابیح میں نہیں ہے ۔ اس لفظ زائد کے بعد یہ حدیث حنفی مذہب کے لئے کچھ مفید ہونے کے بجائے الٹی سخت مضر پڑ جاتی ہے ، بلکہ یوں کہیے کہ حنفی مذہب کے دعوؤں کا سارا تارو پود ہی بکھر کر رہ جاتا ہے ۔ اس لئے مولانا مئوی نے یہاں اس حدیث کا جو ترجمہ پیش کیا ہے اس کے لئے انہوں نے المصابیح والی روایت کے الفاظ کا ہی انتخاب مناسب سمجھا ہے ۔ بیہقی والی روایت کے اس لفظ زائد کا ذکر تو در کنار اس کی طرف وہ کوئی ادنیٰ سا اشارہ بھی نہیں کرتے ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس موقع پر دونوں کتابوں سے حدیث کے اصل الفاظ آپ کے سا منے پیش کر دیں ۔
المصابیح میں اس روایت کے الفاظ یہ ہیں :
عن ابن عباس ان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کان یصلی فی رمضان عشرین رکعة والوتر انتہیٰ ۔
اور سنن کبریٰ للبیہقی ص٤٩٦ ج٢ میں یہ حدیث بایں الفاظ مروی ہے :
عن ابن عباس قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی فی شہر رمضان فی غیر جماعة بعشرین رکعة والوتر تفرد بہ ابو شیبة ابراہیم بن عثمان العبسیٰ الکوفی وہو ضعیف انتہیٰ ۔
'' یعنی حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینے میں بیس رکعت اور وتر بغیر جماعت کے پڑھتے تھے ''۔
اس حدیث کے جو الفاظ ان دونوں کتابوں میں منقول ہیں ان کو سامنے رکھنے سے یہ فرق واضح ہو جاتا ہے کہ المصابیح میں فی غیر جماعة کا لفظ نہںف ہے اور بیہقی میں ہے ۔ حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال میں ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کے ترجمہ میں اس حدیث کا ذکر کیا ہے اس میں بھی ''فی غیر جماعة'' کی صراحت موجود ہے ۔ (میزان ص٢٣ طبع مصر)

اس حدیث کا احناف کے دعووں سے کوئی تعلق نہیں
اب ہم ''علامہ'' مئوی سے پوچھتے ہیں کہ جب حضرت ابن عباس ہی کا یہ بیان اسی روایت میں بصراحت موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیس رکعتیں اور وتر جماعت کے ساتھ نہیں بلکہ تنہا پڑھتے تھے ۔ تو اس حدیث کو حنفی مذہب کے ان دعؤوں کے ساتھ کیا لگاؤ ہوا کہ تراویح کی بیس رکعتیں باجماعت سنتِ مؤکدہ ہیں ۔ ان کا تارک گنہگار اور شفاعت نبوی سے محروم ہے ۔ ''مؤکدہ'' تو بالائے طاق پہلے بیس رکعتوں کا جماعت کے سا تھ نفس سنت نبویہ ہونا تو ثابت کر لیجئے؟

جماعت کے ساتھ بیس رکعت تراویح کو سنت نبویہ کہنا یکسر با طل ہے :۔
ہم پورے وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ ایک علامہ مئوی کیا ، پوری حنفی دنیا مل کر بھی صحیح تو درکنار کوئی ضعیف روایت بھی ایسی نہیں پیش کر سکتی جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل یا تقریر سے جماعت کے ساتھ تراویح کی بیس رکعتوں کا ثبوت ہوتا ہو ۔ اس لئے اس کو ''سنتِ نبویہ'' کہنا یکسر باطل ، قطعًا بے ثبوت اور بالکل بے دلیل دعویٰ ہے ۔
ابو شیبہ کوفی کی مذکورہ بالا روایت (جس کے ضعف پر تمام محدثین کا اتفاق ہے) کے علاوہ بیس رکعات کی کوئی مرفوع روایت نہیں ہے ۔ لیکن انصاف سے کہیے ! کیا ''فی غیر جماعة'' کا لفظ ہوتے ہوئے اس حدیث کو حنفی مذہب کی دلیل میں پیش کیا جا سکتا ہے ؟ تعجب ہے ''علامہ'' مئوی کی اس ڈھٹائی اور دیدہ دلیری پر کہ کیسے انہوں نے اس حدیث کو حنفی مذہب کی سب سے پہلے اور بنیادی دلیل قرار دے دیا ؟ جب کہ انہوں نے بہیقی کا حوالہ صفحہ اور جلد کی قید کے ساتھ دیاہے ۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ بہیقی میں انہوں نے یہ حدیث اور اس کے پورے الفاظ دیکھ کر یہ حوالہ دیاہے ۔

حیرت انگیز بے باکی :۔
ان سے بڑھ کر حیرت تو اس بے باکی اور جرات پر ہوتی ہے کہ آٹھ رکعت تراویح (بلا وتر)کے ''سنت'' ہونے سے انکار کیا جاتا ہے ۔ جس کا باجماعت ادا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل اور تقریر سے ثابت ہے ۔ اور بیس رکعت باجماعت ادا کرنے کو ''سنت'' ہی نہیں بلکہ ''سنتِ مؤکدہ'' کہا جاتاہے جس کے ثبوت میں کوئی مرفوع حدیث ضعیف تک موجود نہیں ہے ، صحیح تو کجا ؟

خامہ انگشت بد نداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بگریباں کہ اسے کیا کہیے​

آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انفرادًا بھی بیس(٢٠) رکعات کا پڑھنا ثابت نہیں ہے :۔
ہماری اس گرفت سے گھبرا کر کوئی حنفی یہ کہنے لگے کہ خیر باجماعت نہ سہی بغیر جماعت کے اور انفرادًا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیس رکعت تراویح کا پڑھنا اس حدیث سے ثابت ہو جاتا ہے ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ جی نہیں ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انفرادًا اور بغیر جماعت کے بھی بیس رکعات کا پڑھنا ثابت نہیں ہے ۔ کیونکہ مذکورہ بالا روایت باقرارِ علماء احناف بالااتفاق ضعیف اور ناقابل احتجاج ہے ۔ اس حدیث کی بابت اب تک جو گفتگو ہم نے کی ہے وہ الزامی جواب کے لئے بالفرض صحیح مان کر کی ہے ۔ ورنہ حقیقت میں یہ حدیث اس قابل ہی نہیں ہے کہ اس کو معرض استدلال میں پیش کیا جائے یا کسی حکم شرعی کے اثبات کے لئے اس کوما خذ قرار دیا جائے ۔

حدیث ِ ابو شیبہ کے ضعف پر چند حنفی اور غیر حنفی علماء کی شہادتیں :۔
اب ہم ذیل میں چند ایسے حنفی اور غیر حنفی علماء کی شہادتیں پیش کرتے ہیں جنہوں نے ابو شیبہ ا ور اس کی اس حدیث کو ضعیف اور ناقابل احتجاج کہا ہے ۔
(١) امام بیہقی کا قول ابھی اوپر گزار ہے کہ وہ اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد ساتھ ہی یہ بھی لکھتے ہیں کہ : '' اس روایت کے بیان کرنے میں ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان متفرد ہے اور وہ ضعیف ہے ''۔
(٢) امام سیوطی نے اسی المصابیح میں جس کے حوالہ سے مولانا مئوی نے اس حدیث کا ترجمہ پیش کیا ہے ۔ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد ہی صاف صاف لکھا ہے ہٰذا الحدیث ضعیف جدًا لا تقوم بہ حجة (ص٢) یعنی یہ حدیث بالکل ضعیف ہے ۔ حجت کے قابل نہیں ہے ۔ آگے چل کر ابو شیبہ کے متعلق کبار محدثین کی جرحیں نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ومن اتفق ہولاء الئمة علیٰ تضعیفہ لا یحل الاحتجاج بحدیثہ (ص٣) یعنی جس شخص کی تضعیف پر یہ سب ائمہ حدیث متفق ہوں اس کی حدیث سے حجت پکڑنا حلال نہیں ہے ۔
(٣) اس حدیث کی بابت حافظ ابن حجر کا یہ قول پہلے گزر چکا ہے :
فاسنادہ ضعیف وقد عارضہ حدیث عائشہ الذی فی الصحیحین مع کونہا علم بحال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لیلا من غیرہا
یعنی اس حدیث کی اسناد ضعیف ہے اور یہ حضرت عائشہ کی اس حدیث کے معارض بھی ہے جو صحیحین میں مروی ہے کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ) اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رات کے حالات کو دوسرے صحابہ سے زیادہ جانتی تھیں ۔

(٤) علامہ زیلعی حنفی لکھتے ہیں :
وہو معلول بابی شیبة ابراہیم بن عثمان جد الامام ابی بکر بن ابی شیبة وہو متفق علیٰ ض عفہ ولینہ ابن عدی فی الکامل ثم انہ مخالف للحدیث الصحیح عن ابی سلمة بن عبدالرحمن انہ سال عائشہ الحدیث ۔ (نصب الرایہ ص٢٩٣)
یعنی ابو شیبہ کی وجہ سے یہ حدیث معلول (ضعیف) ہے اور اس کے ضعف پر سب محدثین کا اتفاق ہے او رابن عدی نے اس کو لین کہا ہے اور یہ حدیث حضرت عائشہ کی صحیح حدیث کی مخالف بھی ہے ۔ (لہٰذا قابل قبول نہیں ہے) فیقبل الصحیح ویطرح غیرہ کذا فی التعلیق الممجد عند نقل ہٰذا الکلام عن الزیلعی وابن الہمام وغیرہما ۔

(٥) ابن ہمام حنفی لکھتے ہیں :
واما ما روی ابن ابی شیبة فی مصنفہ ..... فضعیف بابی شیبة ابراہیم بن عثمان جد الامام ابی بکر بن ابی شیبة متفق علیٰ ضعفہ مخالفتہ للصحیح ۔ (فتح القدیر جلد اول ص٣٣٣ طبع مصر)
یعنی یہ حدیث ضعیف ہے اور ابو شیبہ کے ضعف پر سب متفق ہیں ۔نیز یہ حدیث حضرت عائشہ کی صحیح حدیث کے مخالف ہے ۔ (اس لئے قابل حجت نہیں )۔
(٦) علامہ عینی حنفی اس حدیث کو شرح بخاری میں ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
کذبہ شعبة وضعفہ احمد وابن معین والبخاری والنسائی وغیرہم واوردلہ ابن عدی ہٰذا الحدیث فی الکامل فی مناکیرہ انتہیٰ (عمدة القاری طبع مصر ص٣٥٩ جلد پنجم)
یعنی اس حدیث کے راوی ابو شیبہ کو شعبہ نے کاذب کہا ہے اور امام احمد و ابن معین و بخاری ونسائی اورغیرہم نے ضعیف قرار دیا ہے اور ابن عدی نے اپنی کتاب ''کامل'' میں اس حدیث کو ابو شیبہ کی مناکیر میں ذکر کیا ہے ۔
علامہ عینی نے ان جرحوں میں سے کسی جرح پر کوئی اعتراض نہیں کیا ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابو شیبہ پر کی گئی یہ سب جرحیں ان کے نزدیک مقبول اورمعتبر ہیں ۔ لہٰذا یہ حدیث بلا شبہہ ان کے نزدیک بھی ضعیف اور ناقابل احتجاج ہے ۔
(٧) علامہ ابو الطیب محمد بن عبدالقادر سندھی ثم المدنی نقشبندی حنفی اپنی ترمذی کی شرح ص ٤٢٣ ج١ میں لکھتے ہیں :
وورد عن ابن عباس قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی فی رمضان عشرین رکعة والوتر رواہ ابن ابی شیبة واسنادہ ضعیف وقد عارضہ حدیث عائشة ہٰذا وہو فی الصحیحین فلا تقوم بہ الحجة انتہیٰ ۔
یعنی اس حدیث کی سند ضعیف ہے اور حضرت عائشہ کی صحیحین والی روایت کے یہ معارض بھی ہے ۔ لہٰذا یہ حجت کے قابل نہیں ہے ۔
(٨) مولانا عبد الحٔ لکھنوی حنفی نے بھی اپنے مجموعہ فتاویٰ میں صراحةً اس حدیث کو ضعیف لکھا ہے ۔ (دیکھو جلد اوّل ص٣٥٤)
(٩) مولانا انور شاہ کشمیری فرما تے ہیں :
واما النبی صلی اللہ علیہ وسلم فصح عنہ ثمان رکعات واما عشرون رکعة فہو عنہ صلی اللہ علیہ وسلم بسند ضعیف وعلیٰ ضعفہ اتفاق انتہیٰ ۔ (العرف الشذی ص٣٢٠)
یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کی آٹھ ہی رکعتیں صحیح طور پر ثابت ہیں ، بیس رکعت والی روایت کی سند ضعیف ہے اور ایسی ضعیف ہے کہ اس کے ضعف پر سب کا اتفاق ہے ۔
(١٠) مولانا محمد زکریا کاندھلوی حنفی اپنی شرح مؤطا میں لکھتے ہیں :
لا شک فی ان تحدید التراویح فی عشرین رکعة لم یثبت مرفوعا عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم بطریق صحیح اصول المحدثین وما ورد فیہ من روایة ابن عباس فمتکلم فیہا علی اصولہم انتہیٰ ۔ (اوجز المسالک جلد اوّل ص٣٩٧)
یعنی اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تراویح کی بیس رکعتوں کی تحدید و تعیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اصولِ محدثین کے طریق پر ثابت نہیں ہے اور جو روایت حضرت ابن عباس سے بیس رکعات کے متعلق مروی ہے وہ باصول محدثین مجروح اور ضعیف ہے ۔
(١١) خود مؤلف '' رکعات تراویح) مولانا حبیب الرحمن مئوی کو بھی ہزار ہیرا پھیری کے باوجود یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں :
'' بہر حال ہم کو اتنا تسلیم ہے کہ ابراہیم ضعیف راوی ہے اور اس کی وجہ سے یہ حدیث بھی ضعیف ہے ''۔ (رکعات ص٥٩)

ابو شیبہ پر کی گئی بعض جرحوں پر اعتراض :
'' علامہ '' مئووی کو یہ تو تسلیم ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے ، کیوں کہ اس کا بنیادی راو ی ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان مجروح اور ضعیف راوی ہے ۔ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ ابراہیم پر سخت سخت جرحیں کی گئی ہیں ، لیکن اس کے باوجود وہ اس بات کے بھی مدعی ہیں کہ '' جتنی جرحیں نقل کی جاتی ہیں سب مقبول نہیں ہیں ۔ بعض ان میں سے مردود بھی ہیں ''۔ اس کی مثال میں انہوں نے شعبہ کی تکذیب کو پیش کیا ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
'' مثلاً نقل کیا جاتا ہے کہ شعبہ نے ابراہیم کی تکذیب کی ہے ، مگر حق یہ ہے کہ شعبہ کی تکذیب قابل قبول نہیں ہے ۔ جیسا کہ ذہبی کے بیان سے ظاہر ہے ۔ ذہبی نے میزان الاعتدال میں لکھا ہے :
کذبہ شعبة لکونہ روی عن الحکم عن ابن ابی لیلی انہ قال شہد صفین من اہل بدر سبعون فقال شعبة کذب وﷲ لقد ذاکرت الحکم فما وجدنا شہد صفین احدًا من اہل بدر غیر خزیمة قلت سبحان اﷲ اما شہدہا علی اما شہدہا عمار انتہیٰ ''
ترجمہ کے بعد فاضل مئوی لکھتے ہیں :
''دیکھئے اس بیان سے شعبہ کی تکذیب کی حقیقت کھل گئی اور معلوم ہو گیا کہ انہوں نے اس وجہ سے تکذیب کی تھی کہ ابراہیم نے حَکم کے واسطہ سے ابن ابی لیلیٰ کا یہ بیان روایت کیا تھا کہ صفین میں ستر بدری صحابی شریک تھے ، مگر جب شعبہ نے حکم سے مذاکرہ کیا تو ایک سے زیادہ بدری صحابی کی شرکت معلوم نہ ہو سکی ۔ تو اس ابراہیم کا جھوٹ کیوں کر ثابت ہوا ۔ ان کا جھوٹ تو جب ثابت ہوتا کہ شعبہ جب حکم سے مذاکرہ کرنے گئے تھے تو وہ یہ کہتے کہ میں نے ابراہیم سے یہ بیان نہیں کیا ۔ مگر شعبہ حکم کا انکار نقل نہیں کرتے ، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ مذاکرہ سے صرف ایک صحابی ثابت ہوا ۔لہٰذا اس سے یہ تو پتا چلتا ہے کہ حکم نے ضرور بیان کیا تھا ، مگر مذاکرہ کے وقت وہ ستّر کا نام نہیں بتا سکے ۔ ایسی صورت میں الزام جو کچھ عائد ہو گا وہ حکم پر نہ کہ ابراہیم پر ''۔ (رکعات ٥٧)

اس اعتراض کا جواب :
مولانا ! حافظ ذہبی کے اس بیان پر ذرا غور کیجئے ۔ واقعہ کی صورت یہ ہے کہ ابراہیم نے حکم سے یہ قول نقل کیا کہ صفین میں ستر بدری صحابی شریک تھے اور ابراہیم ہی نے یہ بھی بیان کیا کہ حکم نے یہ بات ابن ابی لیلیٰ سے روایت کی ہے ۔ اب شعبہ کہتے ہیں کہ ابراہیم کا یہ بیان جھوٹ ہے ۔ بس اس لئے کہ میں نے خود حکم سے اس کے بارے میں مذاکرہ کیا تو ہم نے سوائے خزیمہ کے کوئی ایسا بدری صحابی نہیں پایا جو صفین میں حاضر رہا ہو ۔ یعنی اس مذاکرہ میں دو چار صحابہ کی تعداد بھی ثابت نہ ہو سکی ۔ ستر تو بڑی بات ہے ۔ لہٰذا حکم کی طرف سے اس تعداد کے بیان کی نسبت کرنا جھوٹ ہے ۔
رہی یہ بات کہ '' ابراہیم کا جھوٹ اس وقت ثابت ہوتاہے جب حکم نے اس بیان سے انکار کیا ہوتا '' ۔ تو گزارش یہ ہے کہ انکار تو جب کرتے کہ شعبہ نے اپنے مذاکرہ میں ان سے یہ پوچھا ہوتا کہ آپ نے ابراہیم سے یہ بیان کیا ہے یا نہیں ؟ اگر انہوں نے یہ سوال کیا ہوتا تو ا س کو '' مذاکرہ'' سے تعبیر نہ کرتے ۔ اہل علم سمجھ سکتے ہیں کہ اس قسم کے سوال کو '' مذاکرہ'' نہیں کہا جاتا ۔ '' مذاکرہ'' کی تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ شعبہ اور حکم کی گفتگو اس موضوع پر نہ تھی کہ حکم نے ابراہیم سے یہ بیان کیا ہے یا نہیں ، بلکہ گفتگو اس موضوع پر تھی کہ جنگِ سفین میں کتنے بدری صحابی شریک تھے ۔ اور بظاہر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں ان دونوں حضرات نے اپنی اپنی معلومات پیش کی تھیں ۔ اسی لئے اس کو ''مذاکرہ'' سے تعبیر کیا ہے اور نتیجہ میں بھی فما وجدنا شہد صفین احد من اہل بدر غیر خزیمة کہا ہے ۔ (یعنی ہم نے سوائے خزیمہ کے کوئی ایسا بدری صحابی نہیں پایا جو صفین میں حاضر رہا ہو ) اس عبارت میں فما وجدنا (ہم نے نہیں پایا ) کا لفظ خاص طور سے قابل غور ہے ۔ یہ نہیں کہا کہ : فما اخبرنا باحد ممن شہد صفین من اہل بدر غیر خزیمة (یعنی مذاکرہ کے وقت حکم مجھ کو خزیمہ کے سوا کسی دوسرے کا نام نہ بتا سکے ) ۔

پس '' علامہ'' مئوی کا یہ کہنا کہ '' حکم نے ابراہیم سے ضرور بیان کیا تھا'' .........نرا تحکم اور محض بے دلیل دعویٰ ہے اور عبارت کے ظاہرالفاظ کے بالکل خلاف ہے اور وہ بیان کیسے کرتے جب کہ ان کو خود ہی اس تعداد کا علم نہ تھا ۔ جیسا کہ شعبہ نے بتایا ۔ ''علامہ'' مئوی کی یہ دیدہ دلیری بھی قابل داد ہے کہ'' ایک طرف تو بقول ان کے شعبہ جیسا محتاط اور پرہیزگار عالم ہے '' ۔ جو ابراہیم اورحکم دونوں کا شاگرد ہے اور دونوں کے حالات سے پو ری طرح باخیر ہے وہ اپنی ذاتی معلومات اور پوری واقفیت کی بنا پر اس واقعہ کا سارا الزام ابراہیم پر عائد کرتا ہے ۔ او رحلف کے ساتھ کہتا ہے کذب واﷲ (بخدا ابراہیم نے جھوٹ کہا ہے) اور دوسری طرف ''علامہ''مئوی ہیں جو آج سینکڑوں برس کے بعد مجض ظن و تخمین سے یہ فیصلہ صادر فرما رہے ہیں کہ '' ایسی صورت میں الزام جو کچھ عائد ہو گا وہ حکم پر نہ کہ ابراہیم پر'' ۔ جل جلالہ

قولہ : پھر حافظ ذہبی نے شعبہ کے اس بیان کو بھی ایک ہی صحابی ثابت ہو سکا ، یوں ردّ کر دیا کہ صفین میں حضرت علی اور حضرت عمار بالیقین شریک تھے تو ایک ہی کیسے ثابت ہوا ۔ کم سے کم تین کہیے ۔ یعنی اسی طرح اور تحقیق کیجئے تو ممکن ہے اور نکل آئیں ۔ (رکعات ص٥٨)
ج: حافظ ذہبی کے اس اعتراض نے تو شعبہ کی تکذیب کو اور قوت پہنچا دی ۔ اس لئے ہ جس شخص کو ایسے مشہور صحابہ کی شرکت بھی یاد نہ آئے اور وہ تین کی تعداد بھی نہ بتا سکے بھلا وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ ستر بدری صحابی صفین میں شریک تھے ۔ ا سکے تو صاف معنی یہ ہیں کہ اس کی طرف تعداد کے بیان کرنے کی نسبت کرنا یقینا جھوٹ ہے ۔
رہا یہ کہ ''تحقیق سے ممکن ہے اور نکل آئیں '' تو حضرت وہ آپ کی تحقیق کا نتیجہ ہوں گے حکم کی تحقیق کا نہیں ۔ اور یہاں زیر بحث حکم کی تحقیق اور بیان ہے ۔ زید وبکر کی تحقیق نہیں ۔

قولہ : بہر حال اس بیان سے شعبہ کی تکذیب کا ناقابل قبول ہونا واضح ہو گیا ۔ (رکعات ص٥٨)
ج: جی نہیں ! اس بحث کے بعد تو شعبہ کی تکذیب کا حق ہونا او رزیادہ محقق اور مدلل ہو گیا ۔ اسی لئے آج تک کسی محدث او رفقیہ نے شعبہ کی اس تکذیب کو ناقابل قبول قرار نہیں دیا ۔ خودحافظ ذہبی نے بھی اس تکذیب کو مردود نہیں ٹھہرایا ، بلکہ اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ '' خزیمہ کے سوا ہم نے کسی دوسرے بدری صحابی کی حاضری کو صفین میں نہیں پایا '' انہوں نے ابراہیم کے بیان کی تصدیق نہیں کی ہے ۔ تاکہ شعبہ کی تکذیب کا ردّ لازم آئے ۔ علامہ عینی کا حوالہ گزر چکا کہ انہوں نے ابو شیبہ پر محدثین کی جو جرحین بلا کسی رد و انکار کے نقل کی ہیں ان میں سب سے پہلے اسی جرح کو ذکر کیا ہے کہ کذبة شعبة ۔ اس کے بعد امام احمد بن حنبل ، امام بخاری ، ابن معین ، نسائی وغیرہم کی تضعیف کو بیان کیا ہے ۔
امام سیوطی فرماتے ہیں : ومن یکذبہ مثل شعبة فلایلتفت الیٰ حدیثہ (المصابیح ص٣) یعنی شعبہ جیسا حاذق محدث جس شخص کی تکذیب کرے اس کی حدیث قابل التفات بھی نہیں ۔
بتائیے ! یہ باتیں شعبہ کی تکذیب کے ناقابل قبول ہونے کو واضح کرتی ہیں ؟ یا اس کے بکمال درجہ مقبول ہونے کو ؟
قولہ : علاوہ بریں کذب کا اطلاق ہمیشہ تعمد کذب (قصدًا جھوٹ بولنے) پر نہیں ہوتا بلکہ بلا ارادہ محض سہو و نسیان سے خلاف واقعہ بات بولنے پر بھی اسکا اطلاق بکثرت ہوتا ہے......... شعبہ کی تکذیب کا مطلب اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوسکتا کہ ابراہیم نے بے تحقیق بات نقل کر دی ، یا ان سے بھول ہوئی ہے ۔ (رکعات ص ٥٨)
ج: افسوس ہے کہ مولانا مئوی نے اس موقع پر بڑے تجاہل سے کام لیا ہے
اور عوام کی ناواقفیت سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے ۔ اگر وہ رجال کی انہی کتابوں سے جن میں شعبہ کی یہ تکذیب منقول ہے ۔ شعبہ کے بعض وہ دوسرے اقوال بھی ذکر کردیتے جو انہوں نے ابراہیم کے متعلق کہے ہیں تو ان کی اس ''نکتہ آفرینی'' کا سارا بھرم کھل جاتا ۔ او ردنیا جان لیتی کہ شعبہ نے ابراہیم کی تکذیب کس معنی میں کی ہے ۔
سنیے ! تہذیب التہذیب میں ہے :
قال معاذ بن معاذ العنبری کتبت الیٰ شعبة وہو فی بغداد سالہ عن ابی شیبة القاضی اروی عنہ فکتب الیٰ لا ترو عنہ فانہ رجل مذموم واذا قرت کتابی فمزقہ (ص١٢٥ ج١)
یعنی معاذ عنبری بیان کرتے ہیں کہ شعبہ بغداد میں تھے ۔ میں نے ان کے پاس خط لکھ کر دریافت کیا کہ کیا ابو شیبہ قاضی واسط(کو اپنا استاد مان کر) ان سے حدیثیں روایت کروں ؟ تو شعبہ نے مجھے جواب میں لکھا کہ نہین ۔ ان سے کچھ مت روایت کرو وہ برا آدمی ہے ۔ شعبہ نے یہ بھی لکھا تھاکہ میرا یہ خط پڑھنے کے بعد پھاڑ دینا ۔ امام مسلم نے بھی مقدمہ صحیح مسلم میں شعبہ کے اس خط کا ذکر کیا ہے ۔ لکھتے ہیں :
حدثنی عبیداللہ بن معاذ العنبری قال نا ابی قال کتبت الیٰ شعبة اسلہ عن ابی شیبة قاضی واسط فکتب الیٰ لا تکتب عنہ شیئا و مزق کتابی انتہیٰ ۔ (مسلم ص١٧)
شعبہ نے اپنا خط پھاڑ دینے کا حکم کیوں دیا تھا اس کی بابت امام نووی لکھتے ہیں :
امرہ بتمزیقہ مخافة من بلوغہ الیٰ ابی شیبة ووقوفہ علٰی ذکرہ لہ بما یکرہ لئلا ینالہ منہ اذا اویترتب علٰی ذالک مفسدة (انتہیٰ....)
'' یعنی اس خط کو پھاڑ دینے کا حکم اس خوف سے تھا کہ شائد ابو شیبہ کو (جو دوسرے شہر واسط کے جج تھے) اس جرح و تنقید کی اطلاع ہو جائے تو وہ خفا ہو کر ان کے (شعبہ کی) درپے آزار ہو جائیں یا کوئی فساد کھڑا ہو جائے ''۔
حافظ ابو الحجاج مزی کی تہذیب الکمال کے حوالہ سے شعبہ کا یہ قول تحفة الاخیار ص٢٠ اور المصابیح للسیوطی ص٣ میں بھی موجود ہے ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
اب بتائیے ! اگر ابراہیم کے متعلق شعبہ کا واقعی یہی خیال ہوتا کہ ان سے بھول ہو گئی ہے یا انہوں نے ایک بات بے تحقیق نقل کر دی ہے تو کیا ابراہیم سے روایت لینے کے بارے میں وہ اتنا تشدد اختیار کرلیتے کہ ان کی ساری روایتوں کو ناقابل اعتبار قرار دے دیتے ؟ اور لکھ دیتے کہ لا تکتب عنہ شیئا یا لا ترو عنہ (ان سے کوئی حدیث مت لو) اتنا ہی نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ بتائی کہ : فانہ رجل مذموم (اس لئے کہ یہ برا آدمی ہے ) کیا بھول چوک ہوجانے پر بھی کسی انسان کی اس طرح مذمت کی جاتی ہے ؟ ۔
پس شعبہ کی تکذیب کا ہر گز وہ مطلب نہیں ہے جو علامہ مئوی نے سمجھا ہے یا زبر دستی ہم کو سمجھانا چاہتے ہیں ۔ اسی سلسلے میں ایک بات اور بھی قابل ذکر ہے وہ یہ کہ امام احمد بن حنبل نے اسی ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کے متعلق کہا ہے منکر الحدیث قریب من الحسن بن عمارة (تہذیب التہذیب ص١٤٥ ج١) یعنی ''یہ منکر الحدیث ہے اور حسن بن عمارہ کے قریب ہے '' ..... اب ذرا حسن بن عمارہ کا حال معلوم کیجئے ۔
امام مسلم اپنی ''صحیح'' کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :
حدثنا محمود بن غیلان قال ثناء ابو داؤد قال لی شعبة ائت جریر بن حازم فقل لہ لا یحل لک ان تروی عن الحسن بن عمارہ فانہ یکذب قال ابو داؤد قلت شعبة کیف ذاک فقال ثنا عن الحکم باشیاء لم اجد لہا اصلا الخ ۔ (مسلم شریف ص١٧)
یعنی ابو داؤ د (طیالسی بصری) بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے شعبہ نے کہا کہ جریر بن حازم کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ تم کوئی حدیث حسن بن عمارہ سے روایت کرو ۔ کیوں کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں ۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ میں نے شعبہ سے پوچھا کہ کیسے ؟ تو شعبہ نے کہا کہ انہوں نے مجھ سے کئی چیزیں حکم کی روایت سے بیان کیں ، لیکن تحقیق سے وہ بالکل بے اصل ثابت ہوئیں ۔ (اس کے بعد شعبہ نے مثال کے طور پر دو چیزیں پیش کی ہیں )۔
امام نووی شرح مسلم میں اسی صفحہ پر لکھتے ہیں : والحسن بن عمارة متفق علی ضعفہ وترکہ (یعنی حسن بن عمارہ کے ضعف اور تر ک پر سب محدثین کا اتفاق ہے) اسی طرح شعبہ کے متعلق لکھتے ہیں : وابو شیبة ہو ابراہیم بن عثمان وکان قاضی واسط وہو ضعیف متفق علٰی ضعفہ انتہیٰ ۔ (مسلم ص٧)
'' یعنی ابو شیبہ وہی ابراہیم بن عثمان ہیں ۔ یہ شہر واسط کے قاضی (جج) تھے۔ ضعیف ہیں اور ایسے ضعیف ہیں کہ ان کے ضعف پر سب کا اتفاق ہے''۔
ابراہیم اور حسن دونوں کے حالات کی مماثلت پر غور کیجئے ۔ پھر یہ بھی دیکھئے کہ وہی حَکم جن کی بابت شعبہ نے ابراہیم کی تکذیب کی ہے ۔ انہی حکم کے متعلق شعبہ نے حسن بن عمارہ پر بھی یہی جرح کی ہے اور صاف صاف کہا ہے کہ ''ان سے حدیث روایت کرنا حلال نہیں ہے '' ۔ اب سوچئے کہ امام احمد کا اس محتاط جملہ سے کیا منشاء ہے کہ '' ابراہیم حسن بن عمارہ کے قریب ہے'' ۔ اس کے بعد آسانی سے یہ بات بھی حل ہو جاتی ہے کہ شعبہ نے ابراہیم کی تکذیب کس معنی میں کی ہے ؟
بہر حال اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ ابراہیم کے متعلق شعبہ کی تکذیب اپنے معروف معنی کے ساتھ ہی ثابت ہے اور جرح اس کے نامقبول ہونے کی کوئی وجہ اور دلیل نہیں ہے ۔
قولہ : یزید بن ہارون ابراہیم کے بڑے مداح تھے ۔ فرماتے ہیں : ما قضی علیٰ الناس یعنی فی زمانہ اعدل فی قضاء منہ (تہذیب) یعنی ہمارے زمانہ میں ان سے زیادہ عادل کوئی قاضی نہیں ہوا ...........اس کی شہادت کے بعد ابراہیم کے تدین میں تو شک کی گنجائش نہیں رہتی ۔ (رکعات ص٥٩)
ج: یزیدبن ہارون نے جو ابراہیم کے محکمۂ قضا کے منشی تھے ۔ صرف مقدمات اور قضایا کے فیصلوں کے بارے میں ابراہیم کے عادل ہونے کی شہادت دی ہے ۔ رہا یہ کہ ان کی عام زندگی میں تقویٰ اور ورع کی پابندی کا کیا حال تھا ؟ تو اس کے متعلق یزید بن ہارون نے ایک لفظ بھی نہیں کہا ہے ۔ جھگڑوں اور مقدمات کے فیصلوں میں عادل ہونے سے یہ کہاں لازم آتاہے کہ عدالت اور تقویٰ کا وہ معیار پایا جاتا تھا جو روایت کے مقبول ہونے کے لئے شرط ہے ؟ عدل فی القضاء تو بعض غیر مسلموں کا بھی ضرب المثل ہے ۔ نوشیروانِ عادل کا نام آپ نے بھی سنا ہوگا ۔ بقول شیح سعدی مرحوم :

نوشیرواں نہمرد کہ نام نکو گذاشت​

سیر و احادیث کی کتابوں میں واقعہ مذکور ہے کہ حضرت ہانی بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو مشہور تابعی شریح کے والد ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک وفد کے ساتھ حاضر ہوئے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قول کے لوگوں سے سنا کہ وہ ہانی کو ابو الحکم کہتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہانی سے اس کی وجہ دریافت کی ۔ انہوں نے کہا :
ان قومی اذا اختلفوا فی شیٔ اتونی فحکمت بینہم فرضی کلا الفرقین فقال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم مااحسن ہٰذا فمالک من الولد قال شریح و مسلم وعبداللہ قال فمن اکبرہم قال قلت شریح قال فانت ابو شریح انتہیٰ (ابو داؤد باب تفسیر الاسم القبی
یعنی میری قوم کے لوگ جب کسی بات میں اختلاف اور جھگڑا کرتے ہیں اور وہ معاملہ میرے پاس لاتے ہیں تو میں جو فیصلہ کر دیتا ہوں اس پر دونوں فریق راضی ہو جاتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کام تو تم بہت اچھا کرتے ہو ۔ مگر اس کی وجہ سے ابو الحکم کہلانا اچھا نہیں ۔الحکم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے ۔ اب سے تمہاری کنیت ابو شریح ہے ۔
علامہ ابن عبد البر لکھتے ہیں :
ہانی کانی کنی فی الجاہلیة ابا الحکم لانہ کان یحکم بینہم فکناہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بابی شریح اذا وفد علیہ وہو مشہور بکنیتہ (الاستیعاب برحاشیہ اصابہ ص٥٩٨ ج٣)
ظاہر ہے کہ فریقین متخامصمین کی رضا مندی ظلم و جو ر کے فیصلے کے ساتھ نہیں ہو سکتی ۔ اس لئے لازمی طور پر اس کے معنی یہی ہیں کہ ہانی اپنے فیصلے میں عدل و انصاف سے کام لیتے تھے ۔ گویا اسلام سے پہلے ہی وہ عادل فی القضاء تھے ۔
سوچنے کی بات ہے کہ جب عدل فی القضا سے کسی کا مسلمان ہونا لازمی نہیں آتا تو بھلا تدین او رتقویٰ ، حفظ اور ضبط کا وہ مرتبہ جو قبول روایت کے لئے محدثین کے نزدیک معتبر ہے اس کا ثبوت صرف اتنی سی شہادت سے کیسے ہو جائے گا ؟ محمد بن ابی لیلیٰ جو کوفہ کے قاضی تھے ان کی نسبت ساجی نے کہا ہے : کان یمدح فی القضاء واما فی الحدیث فلم یکن حجة (تہذیب التہذیب ص٣٠٣ ج٩) یعنی ''مقدمات کے فیصلے کے بارے میں تو ان کی تعریف کی جاتی ہے لیکن حدیث کی روایت کے باب میں وہ قابل حجت نہیں ہیں '' ۔
قولہ : اب رہی قوتِ حافظہ تو ابن عدی کی شہادت سے ثابت ہوتا ہے کہ ابراہیم کا حافظہ بھی بہت زیادہ خراب نہ تھا ۔ اس لئے کہ ابن عدی نے اقرار کیا ہے کہ ابراہیم کی مرویات میں درست اور ٹھیک حدیثیں بھی ہیں ۔ (رکعات ص٥٩)
ج: لیکن ابن عدی نے یہ بھی اقرار کیا ہے کہ یہ حدیث (جس کو آپ نے اپنے مدعا کی سب سے پہلی دلیل قرار دے کر اس موقع پر پیش کیا ہے ) ابراہیم کی ان حدیثوں میں سے نہیں ہے جو درست اور ٹھیک ہیں ۔ یہ تو ابراہیم کی مناکیری میں سے ہے ۔ جیساکہ علامہ عینی نے لکھاہے واورد لہ ابن عدی ہٰذا الحدیث فی الکامل فی مناکیرہ یعنی ''ابن عدی نے کامل میں ابو شیبہ کی اس حدیث کو اس کی مناکیر میں ذکر کیا ہے ''۔ گو ابراہیم کا حافظہ '' بہت زیادہ خراب''نہ سہی ، تاہم جتنا کچھ بھی خراب ہے ا س کا اثر اس حدیث پر بھی پڑا جو غریب حنفی مذہب کا بظاہر سہارا سمجھی گئی ۔ اس لئے یہ سہارا بھی ٹوٹ گیا اور اب مرفوع حدیث کے نام سے کوئی سہارا باقی نہ رہا ۔
(فائدہ) جس طرح ابو شیبہ اس حدیث (زیر بحث) کی روایت میں منفرد ہیں اسی طرح یزید بن ہارون اور ابن عدی کے مذکورہ بالا بیانوں کو ابو شیبہ کی تعدیل و توثیق قرار دینے میں ''علامہ'' مئوی متفرد ہیں ۔ کسی محدث نے بھی ان صفتوں کی بناء پر ابو شیبہ کی توثیق نہیں کی ہے ۔ یزید بن ہارون کے اس قول کے راوی یحیٰ بن معین ہیں ، لیکن اس کے باوجود ابن معین نے ابراہیم ابو شیبہ کو ضعیف اور لیس بثقةٍ ہی کہا ہے ۔ (تہذیب التہذیب ص١٤٤ ج١) یہ وہی یحیٰ بن معین ہیں جن کو ''علامہ'' مئوی نے عیسیٰ بن جاریہ پر جرح کے سلسلے میں لکھاہے ۔ '' امام فن جرح و تعدیل یحیٰ بن معین '' دیکھو رکعات ص٢٧ ۔ ابو شیبہ کی بابت امام ابن المبارک نے کہا ہے ارم بہ (تہذیب التہذیب ص١٤٥ ج١) یعنی پھینکو اس کو ۔یہ وہی ابن المبارک ہیں جن کی شان میں ''علامہ'' مئوی لکھتے ہی'حضتعبداللہ بن مبارک جن کی امامت اور علمی جلالت مسلّم اورمتفق علیہ ہے ......................... (دیکھو رکعات ص١٠)
کیا ابن معین اور ابن مبارک کی جلالت اور فنی مہارت کا مظاہرہ صرف ہم پر رعب جمانے کے لئے ہے ، اپنے عمل کرنے کے لئے نہیں ہے ؟
حافظ ابن حجر جنہوں نے تہذیب التہذیب میں یزید بن ہارون اور ابن عدی کے مذکورہ بالا دونوں قول ذکر کئے ہیں ۔ تقریب التہذیب میں ابراہیم کو کم سے کم جس وصف کا مستحق قرار دیا ہے وہ یہ کہ ان کو متروک الحدیث لکھا ہے اور حافظ یہ لفظ اس راوی پر بولتے ہیں جس کی قطعًا کسی نے توثیق نہیں کی اور اس کے باوجود وہ ایسی جرح کے ساتھ ضعیف ٹھہرایا گیا ہے جو اس راوی کے ثقہ ہونے میں قادح ہے ۔ چنانچہ ان کی عبارت یہ ہے :
العاشرة من لم یوثق البتة وضعف مع ذالک بقادح والیہ الاشارة بمتروک اومتروک الحدیث او واہی الحدیث اوسا قط انتہیٰ
حافظ کے اس بیان کے مطابق ابراہیم کی توثیق تو کسی نے نہیں کی ۔ ہاں اس کو ضعیف ٹھہرایا گیا ہے اور ایسی علت کے ساتھ جو اس کے لئے قدح کا موجب ہے ۔
حافظ جلال الدین سیوطی نے اسی بات کو زیادہ وضاحت اور صفائی سے پیش کیا ہے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں :
ومن اتفق ہولاء الائمة علی تضعیفہ لا یحل الاحتجاج بحدیثہ مع ان ہذین الا مامین المطلعین الحافظین المستوعبین حکیافیہ ما حکیا ولم ینقلا عن احد انہ وثقہ ولو بادنی مراتب التعدیل وقد قال الذہبی وہو من اہل الاستقراء التام فی نقد الرجال لم یتفق اثنان من اہل الفن علیٰ تجریح ثقة وتوثیق ضعیف ومن یکذبہ مثل شعبة فلا یلتفت الی حدیثہ مع تصریح الحافظین المذکورین نقلا عن الحفاظ بان ہٰذا الحدیث مما انکر علیہ وفی ذالک کفایة فی ردہ وہٰذا احد الوجوہ المردود
بہا انتہیٰ بلفظہ (المصابیح ص٢)
علامہ سیوطی نے ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کی زیر بحث حدیث پیش کرنے کے بعد اس کے بنیادی راوی ابراہیم کے متعلق حافظ ذہبی کی میزان الاعتدال اور حافظ ابو الحجاج مزی کی تہذیب الکمال کے حوالے سے ائمۂ حدیث کی سخت سخت جرحیں نقل کی ہیں اور ان جرحوں کی روشنی میں اس حدیث اور ا س کے راوی کی بابت اپنامذکورہ بالا فیصلہ لکھا ہے ۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس راوی کی تضعیف پر بخاری ، احمد بن حنبل ، ابن معین ، نسائی ، ابو حاتم الرازی ، ابن عدی ، ابو داؤد ، ترمذی، احوص بن الفضل وغیرہم جیسے ائمہ حدیث اور ماہرین فن متفق ہوں اس میں کی حدیث سے حجت پکڑنا اور استدلال کرنا حلال نہیں ہے ۔ بالخصوص ایسی حالت میں جب کہ حافظ ذہبی اور حافظ مزی جیسے امامانِ فن و واقفانِ حال نے اس راوی کے متعلق ان جرحوں کے مقابلہ میں کسی محدث سے کوئی ادنیٰ درجہ کی تعدیل اور توثیق بھی نقل نہیں کی ہے اور شعبہ جیسا امام حدیث جس کی تکذیب کرے اس کی روایت تو قابل التفات بھی نہیں ہے ۔ حفاظ حدیث کی تصریح کے مطابق یہ حدیث منکر اور قابل ردّ ہے ۔
دیکھئیے علامہ سیوطی نے صاف لکھا ہے کہ ابراہیم کے متعلق کسی محدث سے کوئی ادنیٰ درجے کی توثیق و تعدیل بھی منقول نہیں ہے ۔ اب اگر کوئی شخص محض '' عدل فی القضائ'' کی تعریف کو توثیق و تعدیل قرار دے اور اس کی بنا پر اس کی روایت کو مقبول بنانے کی کوشش کرے تو اس کے سوا اور کیا کہا جائے کہ یہ اس شخص کی نادانی ہے یا تجاہل ۔
قولہ : لیکن ابراہیم اتنا ضعیف و مجروح نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے یہ حدیث مصنوعی یا بے اصل روایتوں میں جگہ پانے کی مستحق ہو ۔ (رکعات ص٥٩)
ج: یہ طفل تسلی ا ور مغالطہ کی باتیں ہیں ۔ یہ بتائیے کہ ازروئے اصولِ محدثین یہ حدیث مقبول ہے یا مردود ۔ اگر مقبول ہے تو مقبول کی چار ہی قسمیں ہیں ۔ صحیح الذاتہ ، صحیح لغیرہ ، حسن لذاتہ ، حسن لغیرہ ۔ ان چاروں میں کس میں داخل ہے ؟ اگر کسی میں نہیں جیسا کہ آپ نے خود تسلیم کیا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے ۔ جب ضعیف ہے تو ان چاروں میں سے کسی میں داخل نہیں ہو سکتی ۔ اور جب مقبول کے کسی درجہ میں بھی اس کا شمار نہیں تو اب لا محالہ مردود ہو گی ۔ بس اہل حدیث کا مدعا یہی ہے کہ یہ حدیث ناقابل اعتبار او رمردود ہے جیسا کہ امام سیوطی کا قول ابھی گزرا ہے ۔
قولہ : وہ ایسی نہ سہی کہ بالکلیہ اسی پر اعتما کیا جائے لیکن ایسی بھی نہیں ہے کہ استدلال یا تائید کے موقع پر اس کو ذکر بھی نہ کیا جائے۔ (رکعات ص..)
ج: اوّلاً آپ نے تو بالکلیہ اسی پر اعتماد کیا ہے ۔ اس لئے کہ سب سے پہلی دلیل اسی کو ٹھہرایاہے ۔ اس کے بعد کی دلیلوں میں جوآثار آپ نے پیش کئے ہیں وہ تو آ پ کے زعم میں اسی حدیث پر عمل ہے ۔ گویااصل اعتماد اسی حدیث پر ہوا .. ..... اب آپ فرما رہے ہیں کہ یہ ایسی نہیں ہے کہ اس پر باکلیہ اعتماد کیا جائے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب تک آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ سب غلط ہے اور صرف لڑنے جھگڑنے کا ایک مشغلہ ہے ۔
ثانیًا جب یہ حدیث مردود ہے تو استدلال کے قابل کیسے ہو گی ؟ رہا تائید کا معاملہ تو جس حدیث کا بنیادی راوی مطعون بالکذب ہو وہ تائید کے موقع پر بھی ذکر کرنے کے قابل نہیں ہے ۔ نیز تائید کے لئے یہ حدیث اس وقت پیش ہو سکتی تھی جب بیس رکعتوں کے ثبوت میں اس کے علاوہ کوئی دوسری مرفوع روایت ہوتی اور یہ اس کی تقویت کے لئے پیش کی جاتی ، لیکن جب سارا دارو مدار اسی روایت پر ہے ا س کے سوا کوئی دوسری مرفوع روایت نہیں ہے تو اب تائید کے لئے اس کو ذکر کرنے کا کیا مطلب ہوا؟
قولہ : یہی وجہ ہے کہ امام بہیقی نے رکعات التراویح کی تعداد بیان کرنے کے لئے جو باب منعقد کیا ہے اس میں اس کو بھی ذکر کیاہے ۔
ج: اس باب میں امام بہیقی نے سب سے پہلے حضرت عائشہ کی اس روایت کو ذکر کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۔ ا سکو مولانا مئوی نے نہیں بتایا ، کیونکہ اس سے ان کے اس زعم کی تردید ہوتی ہے کہ حضرت عائشہ کی اس حدیث کا تعلق تراویح سے نہیں ہے ۔ نیز اس کے آخر میں امام بیہقی نے یہ بھی بتایا ہے کہ یہ حدیث صحیحین میں بھی ہے ۔گویا یہ اشارہ ہے کہ اس بات کی طرف کہ یہ روایت اعلیٰ درجہ کی صحیح ہے ۔ اس لئے باب میں قابلِ اعتماد اور لائق استدلال یہی روایت ہے ۔
ا س کے بعد بیس رکعات والی (زیر بحث) روایت لائے ہیں جس کے آخر میں صاف صاف لکھ دیا ہے کہ یہ ضعیف ہے ۔ گویا ا س باب میں اس کو ذکر کرنے سے امام بیہقی کا مقصد یہی تھا کہ دنیا کو اس کے ضعف پر متنبہ کر دیں ۔ تاکہ کوئی ناواقف مولانا مئوی جیسے لوگوں کے بھرے میں آ کر مغالطہ میں نہ پڑ جائے ۔ اگر اس روایت کو امام بہبقی نے اس باب میں ذکر نہ کیا ہوتا تو وہ اس کا یہ عیب کس طرح ظاہر کرتے کہ اس کا بنیادی راوی ضعیف ہے ۔ نیز ا س حقیقت کی نقاب کشائی کس طرح ہوتی کہ ا س کے متن میں '' فی غیر جماعة'' کی زیادتی بھی ہے جس کو ظاہر کرنے سے بعض تنگ نظر او رمتعصب حنفی شرماتے ہیں ۔
اللہ کی ہزار ہزار رحمتیں ہوں امام بہیقی اور ان جیسے تمام محدثین پر جنہوں نے اس قسم کی تمام فسوں کاریوں کا پردہ فاش کر دیا ۔ سچ کیا ہے حالی مرحوم نے :

گروہ ایک جویا تھا علمِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا لگایا پتا جس نے ہر مفتری کا
نہ چھوڑا کوئی رخنہ کذب خفی کا کیا قافیہ تنگ ہر مدعی کا
کیے جرح و تعدیل کے وضع قانوں​
نہ چلنے دیا کوئی باطل کا افسوں​

(تنبیہ) یہ بات اس موقع پر قابل ذکر ہے کہ مولانا مئوی نے حضرت جابر کے اس بیان پر بحث کے سلسلے میں کہ '' آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں ہم لوگوں کو آٹھ رکعات تراویح اور وتر پڑھایا ''۔ عیسیٰ بن جاریہ پر طویل گفتگو کی ہے ۔اور انہی (عیسیٰ) کی وجہ سے اس روایت کو رد کر دیا ہے ۔ لیکن تقلیدی جمود و عصبیت کا یہ طرفہ تماشا دیکھئے کہ مولانا نے اپنے زعم میں جن وجوہ کی بناء پر عیسیٰ کی اس روایت کو بلا کسی ترددّ و تذبذب کے ردّ کر دیا ہے وہ تمام وجوہ ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کی حدیث (زیربحث) میں بدرجۂ اتم موجود ہیں ۔ اس کے باوجود ابو شیبہ کی روایت کو ردّ کرتے ہوئے ''علامہ'' مئوی کی زبان لڑکھڑا رہی ہے اور قلم پر رعشہ طاری ہے ، بلکہ ہیر پھیر کر کسی نہ کسی درجہ میں اس کو کارآمد ہی ثابت کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں ۔
حدیث عیسیٰ پر (علامہ مئوی کی طرف سے کی گئی) ساری بحثوں کو لوٹا کر اگر ہم حدیثِ ابو شیبہ پر منطبق کر کے دکھائیں تو بڑا طول ہو گا ۔ اس لئے اتنا تو نہیں تاہم دو ایک باتیں تمثیلاً ضرورپیش کردینا چاہتے ہیں ۔
عیسیٰ بن جاریہ کو امام ابو داؤد اور اما م نسائی نے منکرالحدیث کہا ہے ۔ ا س جرح کی بابت حافظ سخاوی کی ایک عبارت کا ترجمہ کرتے ہوئے ''علامہ'' مئوی لکھتے ہیں :
یعنی منکر الحدیث ہونا آدمی کا ایسا وصف ہے کہ وہ اس کی وجہ سے اس بات کا مستحق ہو جاتا ہے کہ اس کی حدیث ترک کر دی جائے (اس سے حجت نہ پکڑی جائے اور قبول نہ کی جائے ) اس تصریح کے بموجب ازروئے اصل عیسیٰ کی یہ روایت قابل قبول نہیں ہو سکتی ۔ بالخصوص جب کہ حضرت جابر سے اس بات کو نقل کرنے میں وہ متفرد ہے ۔ دوسرا کوئی اس کا مؤید و متابع موجود نہیں ہے نہ کسی دوسرے صحابہ کی حدیث اس کی شاہد ہے ۔ (رکعات ص٢٨)
اس اقتباس پر غور کیجئے ! ''علامہ'' مئوی نے حدیث عیسیٰ کے ردّ کرنے کی تین بیان کی ہیں ۔ (الف) عیسیٰ منکر الحدیث راوی ہے ۔ (ب) وہ اس بات کے بیان کرنے میں متفرد ہے ۔ (ج) کسی دوسرے صحابی کی حدیث اس کی شاہد نہیں ہے ۔
اب اسی معیار پر ابو شیبہ کی حدیث (زیر بحث) کو پرکھ کر دیکھئے اور ''علامہ'' مئوی کے ''انصاف'' کی داد دیجئے ۔
(الف) حافظ ابن حجر نے ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کے متعلق ائمہ محدثین سے جو جرحیں نقل کی ہیں ان میں چند جرحیں یہ ہیں ۔ لکھتے ہیں :
وقال الترمذی منکر الحدیث وقال النسائی والدولابی متروک الحدیث وقال ابو حاتم ضعیف الحدیث سکتوا عنہ وترکوا حدیثہ وقال الجوزجانی ساقط وقال صالح جزرة ضعیف لا یکتب حدیثہ (تہذیب التہذیب ص١٤٤ ج١)
یعنی ''ا مام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ منکر الحدیث راوی ہے ۔ اور امام نسائی و دولابی نے کہا ہے کہ اس کی حدیث ترک کر دی گئی ہے ، ابو حاتم نے کہا ضعیف الحدیث ہے ۔ محدثین نے اس کی حدیث کو ترک کر دیا ہے ۔ جوزجانی نے کہا پایۂ اعتبار سے گرا ہوا راوی ہے ۔ صالح جزرہ نے کہا ضعیف ہے اور ایسا ضعیف ہے کہ اس کی حدیث لکھنے کے قابل بھی نہیں ہے ''۔
(ب) سنن کبریٰ کے حوالہ سے امام بہیقی کا یہ قول پہلے گزر چکا ہے ۔ تفرد بہ ابوشیبة ابراہیم بن عثمان العبسی الکوفی وہو ضعیف اٰہ ۔ یعنی ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کوفی اس روایت کے بیان کرنے میں متفرد ہے اور یہ ضعیف راوی ہے ۔
(ج) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیس رکعات کاپڑھنا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت کے سوا کسی دوسرے صحابی سے بسند ضعیف بھی مروی نہیں ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ کسی دوسرے صحابہ کی حدیث اس کی شاہدبھی نہیں ہے ۔
بتائیے اکر عیسیٰ بن جاریہ کے خلاف کوئی انتقامی جذبہ کارفرما نہیں ہے ، بلکہ سچ مچ اصول حدیث کے قواعد ہی کی بنا پر اس کی روایت کوردّ کر دیا گیا ہے تو انہی قوا عد کی رو سے ابوشیبہ کی روایت کے رد کر دینے میں کیوں تامل ہو رہا ہے ۔ عیسیٰ کی طرح اس کے بارے میں بھی کیوں صاف صاف نہیں کہہ دیا جاتا کہ '' ابو شیبہ منکر الحدیث راوی ہے اور منکر الحدیث ہونا آدمی کا ایسا وصف ہے کہ اس کی وجہ سے وہ اس بات کا مستحق ہو جاتا ہے کہ اس کی حدیث ترک کر دی جائے ، نہ اس سے حجت پکڑی جائے ، نہ اس کو قبول کیا جائے ۔ لہٰذا ازروئے اصل ابو شیبہ کی یہ روایت قابل قبول نہیں ہو سکتی ۔ بالخصوص جب کہ حضرت ابن عباس سے اس بات کو نقل کرنے میں وہ متفرد ہے ۔ دوسرا کوئی اس کا مؤید و متابع موجود نہیں ۔ نہ کسی دوسرے صحابہ کی حدیث اس کی شاہد ہے ''۔
وضوح دلائل کے بعد اعترافِ حق سے یہ انقباض دیکھ کر تو علامہ فلانی کی اس بات کی تصدیق کرنی پڑتی ہے کہ واذا مر علیہم حدیث یوافق من قلدوہ وانبسطوا واذا مرعلیہم حدیث لا یوافق قولہم او یوافق مذہب غیرہ فانقبضوا ۔ (ایقاظ ہمم اولی الابصار ص١٠١)
یعنی ان مقلدین کا یہ حال ہے کہ اگر ان کو کوئی ایسی حدیث مل جاتی ہے جو ان کے امام کے قول کے موافق ہو (جیسے حدیث ابو شیبہ) تو بڑے خوش ہوتے ہیں ، لیکن اگر کوئی ایسی حدیث سامنے آجائے جو ان کے مذہب کے موافق نہ ہو یا کسی دوسرے کے مذہب کی اس سے تائید ہوتی ہو (جیسے حدیث عیسیٰ) تواس کے قبول کرنے سے ان کو بڑا انقباض ہوتاہے ۔
(فائدہ) ا س سلسلہ میں ہماری یہ بات خیال سے محو نہ ہونی چاہئیے کہ عیسیٰ پر جو مبہم جرحیں کی گئی ہیں ان کے مقابلہ میں بعض مستند اور ماہرِ فن محدثوں نے ان کی توثیق و تعدیل بھی کی ہے ۔ اور انہی الفاظ کے ساتھ کی ہے جو تعدیل کے باب میں عند المحدثین معروف و متداول ہیں جس کا بیان پہلے گزر چکا ۔ اس کے برخلاف ابراہیم پر سخت سخت جرحیں کی گئی ہیں ان کے مقابلہ میں کسی محدث نے بھی کوئی ایسا لفظ ابراہیم کی بابت استعمال نہیں کیا ہے جو تعدیل کے باب میں محدثین کی نزدیک بلحاظ فرق و مراتب مستعمل ومتداول ہیں تاکہ کسی ادنیٰ درجہ ہی میں ابراہیم کی تعدیل ثابت ہو سکے ۔ اسی لئے ''علامہ'' مئوی مجبور ہوئے ہیں کہ یزید بن ہارون نے جو ابراہیم کے ''عدل فی القضائ'' کی تعریف کی ہے اسی کو اپنی منہ زوری سے ابراہیم کے علم او ردیانت داری دونوں کی ''زبردست شہادت'' قرار دے کر کچھ دل کی بھڑاس نکال لیں ، لیکن ظاہر ہے کہ محدثین کی شدید جرحوں کے مقابلہ میں اس کی حیثیت ''ڈوبتے کو تنکے کا سہارا'' سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے ۔
قولہ : اس کے بعد مجھے یہ بھی عرض کرنا ہے کہ ابو شیبہ کی یہ حدیث چاہے اسناد کے لحاظ سے ضعیف ہو ، مگر اس لحاظ سے وہ بے حد قوی اور ٹھوس ہے کہ عہد فاروقی کے مسلمانوں کا اعلانیہ عمل اسی کے موافق تھا ۔یاکم از کم آخر میں وہ لوگ اسی پر جم گئے اور روایتوں سے حضرت علی کے زمانے کے مسلمانوں کا عمل بھی اسی کے موافق ثابت ہوتا ہے اور چہار ائمۂ مجتہدین کے اقوال بھی اسی کے مطابق ہیں ۔ (رکعات ص٦٠)
ج: اسناد ہی نہیں بلکہ متن (مضمون حدیث) کے لحاظ سے بھی ابو شیبہ کی اس حدیث کو محدثین نے اس کے مناکیر ہی میں شمار کیا ہے ۔ ملاحظہ ہو حافظ ابن حجر کی تہذیب التہذیب اور حافظ ذہبی کی میزان الاعتدال اور ابن عدی کی الکامل ۔ اگر واقعی بات وہی ہوتی جو ''علامہ'' مئوی فرما رہے ہیں تو کم از کم اس کے متن کو تو محدثین اول علماء محققین نے منکر نہ قرار دیا ہوتا ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسناد او رمتن دونوں ہی کے اعتبار سے یہ حدیث ضعیف اور منکر ہے ۔
رہا مسلمانوں کاعمل تو چلئے فرض کر لیجئے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد صدیقی کے بعد حضرت عمر اور حضرت علی کے زمانے میں مسلمان تراویح کی بیس ہی رکعات پڑھتے تھے ، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان مسلمانوں میں سے کسی ایک نے بھی یہ کہا ہے کہ ہم بیس اس لئے پڑھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیس ہی پڑھتے تھے؟ کتب احادیث کا سار دفتر چھان ڈالیے اور اسکا ایک ایک ورق پڑھ جائیے ، مگر پوری کوشش صرف کرنے کے بعد بھی کسی صحابی یا کسی تابعی کا کوئی قول اس قسم کا ہر گز نہیں مل سکتا ..... تو پھر محض بیس رکعات پڑھنے سے اس حدیث کو قوت کیسے پہنچ گئی ؟ اور اس کا ضعف کیسے دور ہو گیا ؟ یہ تو اس وقت ہوتا جب کہ عمل کرنے والوں نے اس حدیث کو اپنے عمل کا ماخذ اور مبنی قرار دیا ہوتا ۔
اکابر اور مستند علمائِ احناف کے اقوال ہم پہلے پیش کر چکے ہیں جن میں انہوں نے صاف صاف اس بات کا اقرار کیا ہے کہ تراویح کی بیس رکعتیں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں ہے بلکہ خلفاء راشدین کی سنت ہے ۔
بتائیے اگر اس عمل کے لئے صحابہ نے حدیث ابو شیبہ ہی کو اپنا معمول بہ بنایا تھا تو ان علمائِ احناف نے یہ کیوں نہیں کہاکہ '' یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں ہے '' ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ یا تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے ، لیکن اس میں قیام لمبا کرتے تھے :
فلما کان ذالک یشق علی الناس قام بہم ابی بن کعب فی زمن عمر بن الخطاب عشرین رکعة یوتر بعدہا اوی یخفف فیہا القیام فکان تضعیف العدد عوضا عن طول القیام وکان بعض السلف یقوم اربعین رکعة فیکون قیامہااخف ویوتر بعدہا بثلاث وکان بعضہم یقوم بست وثلاثین رکعة یوتر بعدہا انتہیٰ (فتاویٰ ابن تیمیہ ص١٤٨ ج١)
یعنی جب طول قیام لوگوں پر شاق ہونے لگا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں حضرت ابی بن کعب قیام میں تخفیف کر کے وتر کے علاوہ لوگوں کو بیس رکعات پڑھانے لگے ۔ رکعات کی یہ تعداد زیادتی طولِ قیام کے عوض میں تھی ۔ بعض سلف چالیس رکعتیں پڑھتے تھے تو ان کا قیام اور بھی ہلکا ہوتا تھا ۔ اس کے بعد تین رکعت وتر پڑھتے تھے اور بعض بلا وتر چھتیس رکعتیں پڑھتے تھے ۔
امام ابن تیمیہ کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ گیارہ یا تیرہ رکعات پر (جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی سنت ہے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ کے زمانے میں رکعات کا جو اضافہ ہوا ہے اس کی بنیاد ابوشیبہ کی حدیث نہیں ہے ۔ ورنہ ٣٦ اور ٤٠ رکعتیں نہ پڑھی جاتیں ۔ بلکہ یہ اضافہ طولِ قیام کے عوض میں ہے ۔ گویا یہ ایک اجتہادی امر ہے ۔ اسی واسطے جن لوگوں نے جتنا ہی قیام ہلکا کیا اتنا ہی انہوں نے رکعات کی تعداد میں اضافہ کر دیا ۔ یہی بات علامہ زرقانی نے بھی شرح مؤطا میں باجی کے حوالہ سے مزید وضاحت کے ساتھ لکھی ہے ۔ ملاحظہ ہو زرقانی شرح مؤطا مطبوعہ مصر ص ٢١٥ جلد اول ۔
یہی حال ہر چہار ائمہ مجتہدین کا ہے ۔ ان میں سے کسی امام سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے بیس رکعت تراویح کی بنیاد اور دلیل حدیث اور ابوشیبہ کو قرار دیا ہو ۔ حتی کہ خود امام ابوحنیفہ سے بھی یہ منقول نہیں ہے کہ انہوں نے اس عمل کے لئے حدیث ابوشیبہ کو ماخذ بتایا ہو ۔ ''علامہ'' مئوی یا کسی دوسرے حنفی عالم میں اگر دم ہے تو کم ازکم اپنے ہی امام سے اس کا ثبوت دیدیں ۔
پس جب بیس رکعات پر عمل کرنے والے صحابہ یا تابعین یا ائمہ دین سے یہی ثابت ہی نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے عمل کا متمسک حدیث ابوشیبہ کو قرار دیا ہو۔ تو پھر ''اس حدیث پر ان کے عمل'' اور ''تلقی بالقبول'' سے اس کے ضعف کو دور کرنے کا خواب کس طرح شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے ؟ یہ بالکل ایک بے حقیقت افسانہ ہے جو محض عوام کو مغالطہ دینے کے لئے پیش کیا گیا ہے ۔
یہ واضح رہے کہ صحابہ کے بیس رکعات پر عمل کرنے کی تحقیقی بحث آئندہ آئے گی ۔ یہاں جو کچھ ہم نے عرض کیا ہے یہ علی سبیل الفرض ہے
نیز یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ یہ نقض ہم نے ''فی جماعة'' کی قید کو نظر انداز کر کے وارد کیا ہے ورنہ اس قید کا لحاظ کرنے کے بعد تو ابوشیبہ والی حدیث کا لگاؤ ''مسلمانوں کے علانیہ عمل'' کے ساتھ بالکل باقی نہیں رہتا ۔ اس لئے اس ''عمل'' سے حدیث ابوشیبہ کے ضعف کے دور ہو جانے کا خواب ، بس خواب ہی خواب اور ہوس ہی ہوس ہے ۔
ان سب کے آخر میں مجھے یہ بھی بتا نا ہے کہ امام سیوطی نے صاف صاف لکھا ہے کہ ''اجماع'' کی موافقت کسی حدیث کی صحت کی دلیل نہیں ہے ۔ ان کے الفاظ یہ ہیں :
مما لا یدل علی صحة الحدیث ایضا کما ذکرہ اھل الاصول موافقة الا جماع لہ علی الاصح لجواز ان یکون المستند غیرہ (تدریب الراوی ص ١٥)
قولہ : ان باتوں کے انضمام سے ابوشیبہ کی حدیث اس قدر قوی اور مستحکم ہو جاتی ہے کہ اس کے بعد اس کو ضعیف کہہ کر جان چھڑانا ناممکن سی بات ہو جاتی ہے (رکعات ص ٦٠)
ج : ابو شیبہ کی حدیث کے ساتھ ان باتوں کا انضمام ہوتا ہی نہیں ۔ اس لئے اس کا ضعف اپنی جگہ جوں کا توں باقی ہے بلکہ اس لحاظ سے تو اس ضعف اور غیر مقبولیت اور زیادہ نمایاں اور محقق ہو جاتی ہے کہ خود بیس رکعات تراویح کے پڑھنے والے سلف بھی اس حدیث کو اپنی حجت قرار نہیں دیتے ۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ان کے نزدیک بھی یہ مرفوع حدیث قابل احتجاج اور لائق استدلال نہیں ہے ۔
رہا ''جان چھڑانے'' کامعاملہ تو مولانا ! یہ اہل حدیث کا کام نہیں ہے یہ مقلدین کا شیوہ ہے ۔ چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ شیخ عزیز الدین بن عبدالسلام المتوفی ٦٦٠ ھ سے نقل فرماتے ہیں :
ومن العجب العجیب ان الفقھاء المقلدین یقف احدھم علی ضعف ما خذ امامہ بحیث لا یجد لضعفہ مدفعا وھو مع ذلک یقلدہ فیہ و یترک من شھد الکتاب والسنة والا قیسة الصحیحة لمذھبھم جموداً علی تقلید امامہ بل یتحیل لدفع ظاہر الکتاب والسنة وتولھا بالتویلات البعیدة الباطلة نضالاً عن مقلدہ انتھی (حجة اللہ ص ١٥٥ طبع مصر) ۔
''یعنی یہ تعجب کی بات ہے کہ بعض فقہاء مقلدین اپنے امام کی دلیل کے ضعف پر اچھی طرح مطلع ہو جانے کے باوجود بھی ان کی تقلید سے باز نہیں آتے اور اس کی بات نہیں مانتے جس کے مذہب کی تائید قرآن و سنت اور قیاس صحیح سے ہوتی ہے، بلکہ الٹے ظا ہرکتاب و سنت سے جان چھڑانے کے لئے طرح طرح کے حیلے ڈھونڈتے ہںی اور اپنے امام کے قول کی حمایت میں قرآن اور حدیث کی غلط اور باطل تاویلیں کرتے ہیں '' ۔
علامہ فلانی فرماتے ہیں :
فتری کل واحد منھم یعظم امامہ المجتھد تعظیما لا یبلغ بہ احد من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم واذا وجد حدیثا یوافق مذھبہ فرح بہ وانقاد لہ و سلم وان وجد حدیثا صحیحاً سالماً من النسخ والمعارض مؤید المذھب غیر امامہ فتح لہ باب الاحتمالات البعیدة و ضرب عنہ الصفح والعارض ویلتمس لمذھب امامہ او جھاً من الترجیح انتھی (ایقاظ ھھم اولی الابصار ص ١٠٩)
''یعنی مقلدین کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے امام کی ایسی تعظیم کرتے ہیں جیسی صحابہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ کی تھی ۔ کسی امام کا مقلد جب کوئی حدیث اپنے امام کے مذہب کے موافق پاتا ہے تو خوش ہو کر اس کو قبول کرلیتا ہے ، لیکن یہی شخص جب کوئی حدیث اپنے امام کے علاوہ کسی دوسرے کے مسلک کی تائید میں پاتا ہے تو اس کے قول کرنے سے اعراض کرتا ہے اور اس سے جان چھڑانے کے لئے طرح طرح کی بعید تاویلوں کے دروازے کھولتا ہے اور اس حدیث کے مقابلہ میں اپنے امام کے مذہب کو راجح ثابت کرنے کے دلیلیں ڈھونڈتا ہے حالانکہ وہ حدیث اپنی جگہ بالکل صحیح اور قابل قبول ہوتی ہے '' ۔
''علامہ'' مئوی اس آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھ لیں ۔ ان کے سارے خط و خال صاف صاف نظر آ رہے ہیں ۔
قولہ : مولانا ثناء اللہ امرتسری نے ایک موقع پر اعتراف کیا ہے کہ ''بعض ضعف ایسے ہیں جو امت کی تلقی بالقبول سے رفع ہو گئے ہیں '' (اخبار اہلحدیث مؤرخہ ١٩ اپریل ١٩٠٧ء )
ج : اخبار اہل حدیث کا یہ شمارہ اس وقت ہمارے پاس موجود نہیں ہے اس لئے ہم وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ اصل عبارت کیا ہے اور غالب گمان یہ ہے کہ مولانا مئوی نے بھی اخبار اہل حدیث امرت سر کا یہ پچاس برس کا شمارہ نہ تو ملا حظہ کیا ہے اور نہ یہ حوالہ انہوں نے براہِ راست وہاں سے اخذ کیا ہے ۔ بلکہ یہ حوالہ پیر زادہ مولانا بہاء الحق قاسمی امرتسری کے رسالہ تنویر المصابیح سے لیا گیا ہے جو حجة الاسلام علامہ ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کے ایک مضمون کے جواب میں ١٣٦٢ھ مطابق ١٩٤٣ء میں امرتسر سے شائع ہوا ہے اس رسالے کے ص ٧ کے حاشیہ میں یہ موجود ہے ۔ یا مولانا ابو یوسف محمد شریف کوٹلوی کی کتاب التراویح سے نقل کیا گیا ہے جو اس سے بھی پہلے شائع ہوئی ہے ، کیوں کہ ہم نے مقابلہ کر کے دیکھا ہے کہ مولانا مئوی کی اس کتاب کے بیشتر حوالے پنجاب کے اسی قسم کے پرنے شائع شدہ رسالوں ہی سے ماخوذ ہیں ، لیکن اپنی وسعت نظر اور کثرت مطالعہ کی دھونس جمانے کے لئے مولانا مئوی نے ان رسالوں کے بجائے اصل ماخذوں کا حوالہ دے دیا ہے ۔ بہر حال اگر مولانا امرتسری مرحوم و مغفور نے یہ لکھا بھی ہو تو اس کو اس موقع پر پیش کرنا بالکل بے محل ہے ۔ اس لئے کہ اولاً تو مولانا نے ''بعض ضعیف'' لکھا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس ''بعض'' سے مراد وہی ضعف ہو سکتا ہے جو معمولی درجہ کا ہو۔ ایسا نہیں کہ جس کے راوی کو کاذب ، رجل مذموم ، منکر الحدیث ، متروک الحدیث ، ترکوا حدیثہ لا یکتب حدیثہ ، ساقط ارم بہ وغیرہ سخت جرحوں سے مطعون کیا گیا ہو ۔
ثانیاً ابوشیبہ کی جو حدیث اس وقت زیر بحث ہے اس کے متعلق صحابہ اور تابعین کے اقوال سے ''تلقی بالقبول'' کا ثبوت نہیں نہیں ہے ۔ ا س لئے مولانا امرتسری کے اس قول حدیث ابوشیبہ کی بابت فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا یقینا ناسمجھی ہے یا تجاہل ۔
قولہ : بعض بعض مسائل ایسے بھی ہیں کہ ان کے باب میں سوائے ایک ضعیف حدیث کے دوسری کوئی چیز موجود نہیں ہے مگر ساری امت کا عمل اسی پر ہے ... ... مثلا ...... (رکعات ٦١)
ج : یہ بات بھی یہاں بالکل بے موقع پیش کی گئی ہے ۔ اس لئے کہ تراویح کی رکعات کی تعداد کے باب میں صحیح حدیثیں موجود ہیں ۔ اس لئے یہ مسئلہ ان مسائل میں سے نہیں ہے جن کے باب میں ''سوائے ایک ضعیف حدیث کے دوسری کوئی چیز موجود نہیں ہے '' اور جب صحیح حدیثیں موجود ہیں تو اب اس مسئلہ میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔ اسی واسطے کسی صحابی یا کسی تابعی یا کسی ذمہ دار محدث سے اس قسم کا کوئی قول منقول نہیں ہے کہ والعمل علی حدیث ابی شیبة فی ھذا الباب یعنی رکعات تراویح کے باب میں ابو شیبہ کی حدیث پر لوگوں کا عمل ہے ۔ جیسا کہ امام ترمذی نے میراث کے اس مسئلہ کی بابت جس کو آپ نے اس موقع پر مثال میں پیش کیا ہے کہا ہے والعمل علی ھذا الحدیث عندا اھل العلم ۔ یعنی اہل علم کے نزدیک اسی حدیث پر عمل ہے ۔
قولہ : ابو شیبہ کی اس حدیث پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ وہ صحیحین کی حدیث ما کان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرة رکعة (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے) کی مخالف ہیے ، مگر یہ اعتراض سراسر غفلت اور ذہول پر مبنی ہے ۔ (رکعات ص ٦١، ٦٢) ۔
ج : تعجب ہے کہ مولانا مئوی نے اس موقعہ پر اپنی عادت کے خلاف ان علماء کے نام کیوں نہیں بتائے جنہوں نے ابوشیبہ کی اس حدیث پر یہ اعتراض وارد کیا ہے ۔ کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں ہے کہ اس ''سراسر غفلت اور ذہول پر مبنی اعتراض' ' کرنے والوں میں خود احناف کے بڑے بڑے علماء بھی شامل ہیں ۔ وہ علماء جن میں ہر ایک اپنی اپنی جگہ پر ایوانِ حنفیت کا صدر نشین اور قصرِ حنفیت کا ایک مظبوط ستون ہے ۔ مثلاً علامہ ابن الہمام المتوفی ص ٨٦١ھ اور علامہ زیلعی المتوفی ٧٦٢ ھ ۔
علماء احناف میں علامہ ابن الہمام کا علمی مقام کتنا اونچا ہے اس کا اندازہ مولانا عبدالحئی حنفی لکھنوی کے مندرجہ ذیل بیان سے ہو سکتا ہے ۔ لکھتے ہیں :
عدہ ابن نجیم فی بحر الرائق مناہل الترجیح و بعضہم من اہل الاجتہاد وھو رای نجیح تشہد بذلک تصانیفہ و توالیفہ انتہی (فوائد بہیہ ص٦٥)
ابن نجیم نے ابن الہمام کو اہل ترجیح میں شمار کیا ہے جو اصطلاحاً مجتہد کا ایک درجہ ہے اور بعض نے تو ان کو مجتہد ہی کہا ہے اور یہ رائے بالکل صحیح ہے، ان کی تصانیف اس کی شاہد ہیں ۔

علامہ زیلعی کے متعلق لکھتے ہیں :
کان من علماء الاعلام و برع فی الفقہ والحدیث مات سنة٢ ٧٦ لہ تخریج احادیث الہدایہ وغیرہ ...و تخریجہ شاہد علی تجرہ فی فن الحدیث و اسماء الرجال و وسعة نظرہ فی فروع الحدیث الی الکمال ولہ فی مباحث الحدیث انصاف لایمیل الی الاعتساف انتہی ۔ (فوائد بہیہ ص ٨٢)
علماء اعلام میں سے تھے ، فقہ اور احادیث میں ممتاز تھے ۔ ہدایہ وغیرہ کی حدیثوں کی تخریج کی ہے ۔ ( یعنی ان کا پتہ بتایا ہے کہ حدیث کی کن کن کتابوں میں یہ ملیں گی ) ان کی تخریج سے رجال اور حدیث کے فن میں ان کے تجر اوروسعت نظر کا پتہ لگتا ہے ۔ حدیث کے مباحث میں انہوں نے انصا ف سے کام لیا ہے ان میں ضد اور عصبیت نہ تھی ''۔
مولانا لکھنوی مرحوم نے ابن الہمام کے متعلق بھی یہی بات لکھی ہے کہ ان میں مذہبی تعصب نہ تھا ۔ ان کے الفاظ یہ ہیں :
قد سلک فی اکثر تصانیف لا سیما فی فتح القدیر مسلک الانصاف متجنباً عن التعصب المذھبی والاعتساف الا ماشاء اﷲ انتھی ۔ (فوائد بہیمہ ص٦٥)
'' یعنی ابن الہمام نے اپنی اکثر تصانیف بالخصوص فتح القدیر (شرح ہدایہ) میں مذہبی تعصب اور عناد سے ہٹ کر انصاف کی راہ اختیار کی ہے ۔'' شائد یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان لوگوں کو اس بات کے اعتراف کرنے کی توفیق دی کہ ابو شیبہ کی یہ حدیث ضعیف ہے ۔اور حضرت عائشہ کی صحیح حدیث کے مخالف بھی ہے ۔ ( اس لئے قابل قبول نہیں ہے )
اگر ''علامہ '' مؤی کی طرح یہ لوگ بھی ضدی اور معاند حنفی ہوتے تو کبھی ان کی زبان ِ قلم سے یہ بات نہ نکلتی کہ اس '' سراسر غفلت اور ذہول پر مبنی اعتراض '' وارد کرنے والوں میں مشہور محدث حافظ ابن حجر المتوفی ٨٥٢ھ بھی ہیں ۔ بلکہ بقول مولانا عبدالحئی لکھنوی جماعة من العلماء (علماء کی ایک جماعت ہے کذا فی التعلیق الممجد)
فتح الباری کے حوالہ سے حافظ کا یہ کلام پہلے نقل ہو چکا ہے ۔ اس لئے اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہاں حافظ کی علمی شان کی طرف کچھ اشارہ ضروری ہے ۔
مولانا عبدالحئی ان کی شان میں لکھتے ہیں :
وکل تصانیفہ تشھد بانہ امام الحافظ محقق المحدثین زبدة الناقدین لم یخلف بعدہ مثلہ انتہی ۔ (تعلیقات فوائد بہیہ ص ١٢)
یعنی'' ان کی تمام تصانیف اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ وہ حفاظ حدیث کے امام محدثین میں بڑے محقق اور حدیثوں کے پرکھنے والوں میں سب سے بہتر تھے ۔ اپنے بعد انہوں نے اپنے جیسا کوئی عالم نہیں چھوڑا''۔ علامہ سیوطی المتوفی ٩١١ھ لکھتے ہیں :
انتہت الیہ الرحلة والریاسة فی الحدیث فی الدنیا باسرھا فلم یکن فی عصرہ حافظ سواہ انتہی (حاشیہ شرح نخبہ ص٢ )
یعنی ساری دنیا میں حدیث کے فنون کی سرداری انہی پر ختم ہوگئی ۔ ان کے زمانہ میں ان کے سوا کوئی دوسرا حافظ ِ حدیث نہ تھا '' ۔
ان گذارشات کے پیش کرنے سے ہمارا منشاء صرف یہ دکھانا ہے کہ یہ حضرات اتنے گئے گذرے نہیں ہیں کہ مولانا حبیب الرحمن اعظمی جیسے لوگ ان کو منہ چڑائیں ۔

ع: لاکھ نادان سہی پر کیا تجھ سے بھی نادان ہوں گے​

اس اعتراض کے جواب میں مولانا مؤی نے جو کچھ فرمایا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ '' حدیث صحیحین میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمیشہ کی عادت نہیں بتائی گئی ہے ، کیوں کہ حضرت عائشہ ہی نے دوسری جگہ فرمایا ہے کہ آپ تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے ۔ تو جس طرح یہ کہنا کہ اکثر اوقات کے علاوہ کسی کسی وقت آپ نے تیرہ رکعتیں پڑھی ہیں ، حدیث صحیحین کے خلاف نہیں ہے ۔ اسی طرح یہ بیان کرنا کہ کسی وقت آپ نے بیس بھی پڑھی ہیں ۔ حدیثِ صحیحینکے خلاف نہیں ہو سکتا ۔''
لیکن یہ بات تو وہ کہہ سکتا ہے جو بیس رکعات کا پڑھنا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت اور صحیح مانتا ہو ۔ جو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں وہ کیسے کہ سکتے ہیں کہ آپ نے کسی وقت میں بیس بھی پڑھی ہیں ۔ چنانچہ جن لوگوں نے یہ اعتراض وارد کیا ہے ۔ انہوں نے سب سے پہلے یہی کہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بسندصحیح بیس کا پڑھنا ثابت نہںپ ہے بلکہ اس کے بر خلاف صحیح طور پر جو ثابت ہے وہ گیارہ یا تیرہ رکعات ہیں ۔ اس سے زیادہ نہیں ۔ ایسی متضاد بات کون ذی عقل انسان کر سکتا ہے ؟کہ ایک طرف تو وہ یہ کہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیس پڑھنا ثابت نہیں او ر دوسری طرف وہ یہ بھی تسلیم کرے کہ کسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس بھی پڑھی ہیں ۔ اختلافات ِ اوقات و احوال پر ان اعمال کو محمول کیا گیاہے جن کا صحیح طور پر ثبوت مسلّم ہے ۔ گیارہ اور تیرہ کے اختلافات کے متعلق تفصیلی بحث پہلے گذر چکی ہے ۔ وہاں ہم نے بتایا ہے کہ مولانا مؤی نے حافظ ابن حجر کی بیان کردہ توجیہات کے نقل کرنے میں بڑی تلبیس و تدلیس سے کام لیا ہے ۔ وہی حرکت مولانا مؤی نے یہاں بھی کی ہے ۔ تنویرالحوالک کے حوالہ سے باجی شارح مؤطا کا جو قول نقل کیا ہے اس کے آخر کا ٹکڑا حذف کر دیا ہے جو ان کے مطلب کے خلاف ہے ۔ اس عبارت کا آخری حصہ یہ ہے :
اور ضمت فیہ ماکان یفتتح بہ صلاتہ من رکعتین خفیفتین قبل الاحدی عشرة انتھی ۔
یعنی گیارہ اور تیرہ رکعات کے اختلاف کو دور کرنے کے لئے یا تو یہ کہا جائے کہ جس روایت میں تیرہ رکعات پڑھنے کا ذکر ہے اس میں حضرت عائشہ نے دو ہلکی رکعتوں کو بھی شمار کر لیا ہے جو گیارہ رکعات سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے ۔
اس توجیہہ کو حافظ نے ارجح بتایا ہے ، مگر مولانا مؤی نے اپنی پوری کتاب میں کہیں اس کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں کیا ہے ۔ اس لئے کہ اس توجیہہ کے مطابق بیس کو کہیں ''کھپانے'' کی گنجائش نہیں ملتی ۔
قولہ: علاوہ بریں ابو شیبہ کی حدیث صحیحین کی حدیث کی مخالف اس لیے بھی نہیں ہے کہ حدیث صحیحین میں تہجد کا بیان ہے (جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے)اور حدیث ابو شیبہ میں تراویح کا ۔ (رکعات ص٦٢و ٦٣)
ج : صحیحین کی حدیث میں تہجد اور تراویح دونوں چیزوں کا بیان ہے ۔ جیسا کہ تفصیل کے ساتھ اوپر بتایا جا چکا ہے اور اس کے خلاف مؤی صاحب کی تمام تلبیسات و تشکیکات کا پردہ اچھی طرح چاک کر دیا گیا ہے ۔ جب اس میں تراویح کا بھی بیان ہے اور اس حصر کیساتھ ہے کہ گیارہ رکعات (بلا رکعتین خفیفتین اور تیرہ رکعات بشمول رکعتین خفیفتین ) سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۔ تو اب حدیث ابو شیبہ کیساتھ (جس میں بیس رکعتوں کا پڑھنا بیان کیا گیا ہے ) مخالفت ظاہر ہے ۔ایسی صورت میں جو حدیث صحیح اور مقبول ہے وہی معتبر ہوگی اور جو ضعیف اور نامقبول ہے و ہ رد کر دی جائے گی ۔
مولانا مؤی نے کوئی ٹوٹی پھوٹی دلیل بھی اپنے دعوے پر پیش نہیں کی ہے کہ اب ابو شیبہ حدیث میں صرف تراویح کا بیان ہے ، تہجد کا نہیں ہے ۔ اگر وہ کوئی دلیل لاتے تو مقابلةً اسی سے پتہ لگ جاتا کہ حدیث عائشہ (زیر بحث) میں تراویح کا بیان ہے یا نہیں ۔ بشرطیکہ وہ دلیل نفس حدیث کے الفاظ سے متعلق ہوتی ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
احناف کی دوسری دلیل پر بحث
قولہ : (دوسری دلیل ) امام بیہقی کی سنن کبریٰ ص ٤٩٦٢ میں حضرت سائب بن یزید راوی ہیں :کانوا یقومون علی عہد عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنہ فی شہر رمضان بعشرین رکعة ۔ یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ رمضان کے مہینے میں بیس رکعت پڑھتے تھے او ر اسی اثر کو امام بیہقی نے دوسرے طریق سے معرفتہ السنن میں بھی روایت کیا ہے ۔ ( رکعاتص٦٣)
ج : سنن کبریٰ کی اس روایت میں جہاں بیس رکعت پڑھنے کا ذکرہے وہیں ان بیس رکعتوں کے اد ا کرنے کی کیفیت کا بھی بیان ہے ، لیکن مولانا مؤی نے مصلحتاً اس کو حذف کر دیا ہے ۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
قال و کانوا یقرؤن بالمئین و کانوا یتوکؤن علی عصیہم فی عہد عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ من شدة القیام ۔
یعنی لوگ وہ سورتیں پڑھتے تھے جن میں آیتوں کی تعداد سو سے زیادہ ہے اور حضرت عثمان کے زمانے میں تو اتنا لمبا قیام کرتے تھے کہ لوگ( تھک کر) لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے تھے ''۔
مولانا مؤی نے یہاں اس روایت کا یہ ٹکڑا اس لیے حذف کر دیا ہے کہ احناف بیس رکعتوں پر تو عامل ہیں ، مگر اس کی اس کیفیت پر عامل نہیں ہیں ۔ اور مولانا مؤی اس سے پہلے اہل حدیث کو یہ الزام دے چکے ہیں کہ یہ لوگ جس حدیث کی بنیاد پر گیارہ رکعت تراویح کے قائل ہیں ، اس حدیث میں گیارہ رکعتوں کے ادا کرنے کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے اس پر اہل حدیث عمل نہیں کرتے ......تو اب بعینہ یہ الزام احناف پر بھی عائد ہوتا ہے اور مولانا کے پاس اس کا کوئی جواب تھا نہیں ۔اس لئے ''جان چھڑانے '' کی اس کے سوا کوئی صورت نظر نہ آئی کہ اس ٹکڑے کو حذف ہی کر دیں (١) ۔
ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند
اس روایت کی اسناد پر کلام : مولانا شوق نیموی مرحوم نے آثار السنن ص٥٤٢ پر تعلیق میں اس روایت کے تمام راویوں کی توثیق بیان کی ہے ۔ چنانچہ اس کے پہلے راوی ابو عبداللہ بن فنجویہ کی بابت لکھا ہے فھو من کبار المحدثین فی زمانہ لا یسئل عن مثلہ (یہ اپنے زمانے کے بڑے محدثوں میں ہیں ۔ ان جیسوں کے متعلق یہ سوال نہیں ہو سکتا کہ وہ کیسے ہیں ) نیموی کی اس بات پر محدث مبارک پوری نے تحفة الاحوذی ص٧٥٢ میں گرفت فرمایا اورلکھا ہے کہ مجرد کونہ من کبار المحدثین لا یستلزم کونہ ثقة ( یعنی صرف اتنی بات سے کہ وہ بڑے محدثوں میں ہیں ، یہ لازم نہیں کہ وہ ثقہ بھی ہوں ) اس عبارت میں مجرد کونہ (صرف بڑے محدث ہونے ) کا لفظ خاص طورسے قابل لحاظ تھا ۔ مگر مولانا مؤی کی دیانت دیکھیے کہ انہوں نے اس عبارت کا
(١) اس سے پہلے رکعات ص٢ اور ص ٥٣ کے حاشیہ میں جو مختصر تذکرہ اس ٹکڑے کا مولانامئوی نے کیاہے وہاں بھی اس الزام کا کوئی جواب نہیں دیا ہے ۔
جو ترجمہ پیش کیا ہے ۔ اس میں اس لفظ کا ترجمہ ہی چھوڑ دیا ہے ۔ لکھتے ہیں : ''بڑے محدث ہونے سے ثقہ ہونا لازمی نہیں آتا ''۔ (رکعات ص ٤١)
بتلائیے اس ترجمہ سے ''مجرد کونہ'' کا مفہوم کس طرح اداہوتا ہے؟
یہ '' اختصار'' صرف اس لئے فرمایا گیا ہے کہ اس '' تصرف '' کے بغیر ان اعتراضات کے لئے کوئی گنجائش ہی نہیں ملتی جن کو مولانا مئوی نے اس موقع پر اپنے زعم میں بڑے اہتمام و ادعا کے ساتھ پیش فرمایا ہے اس لئے ک حدیث اور رجال پر نظر رکھنے والا کوئی اہل علم اس بات میں شک نہیں کر سکتا کہ '' محض بڑا محدث یا بڑا عالم ہونا '' اس کی عدالت اور ثقاہت کو مستلزم نہیں ہے ، لیکن ہمارے مولانا مئوی کے نزدیک یہ بات بڑے اچھنبے کی ہے اس لئے ان کی تسکین کے لئے چند مثالیں ہم پیش کرتے ہیں ۔ حافظ ذہبی لکھتے ہیں :
الحارث بن عبداﷲ الہمدانی الاعور من کبار علماء التابعین علٰی ضعف فیہ (میزان الاعتدال ص٢٠٢ ج ١)
یعنی حارث اعور تابعین میں بڑے علماء میں سے ہیں ، مگر روایت میں ضعیف ہیں ''۔
امام نووی ان کے متعلق لکھتے ہیں متفق علٰی ضعفہ یعنی ان کے ضعف پر سب کا اتفاق ہے (شرح مسلم ص١٤ج١) حافظ ذہبی نے ان کے متعلق یہ بھی لکھا ہے وکان من اوعیة العلم یعنی علم کے جامع تھے ...... گویا حدیث ، فقہ ، تفسیر وغیرہ ہبت سے علوم کے اعتبار سے ان کا شمار ''بڑے علما'' میں ہے ۔ بالفاظ دیگر بڑے محدث ، بڑے فقیہ وغیرہ ہیں ، لیکن پھر بھی ثقہ نہیں بلکہ ضعیف ہیں ۔
(٢) یہی حافظ ذہبی حسن بن عمارہ کوفی کی نسبت لکھتے ہیں وکان من کبار الفقہاء فی زمانہ ۔ (میزان الاعتدال ص٢٣٨ ج١) یعنی اپنے زمانے کے بڑے فقہاء میں سے ہیں لیکن روایت کے اعتبار سے بالاتفاق ضعیف اور ناقابلِ وثوق ہیں ۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے ۔
(٣) عبدالکریم بن ابی المخارق ابو امیہ کی بابت امام نووی لکھتے ہیں : وکان عبدالکریم ہذا من فضلاء فقہاء البصرة (یعنی یہ عبدالکریم بصرہ کے فضلاء فقہاء میں سے ہیں ) لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھتے ہیں : وممن نص علی ضعف عبد الکریم ہذا سفیان بن عیینة وعبدالرحمن بن مہدی ویحی بن سعید القطان واحمد بن حنبل وابن عدی انتہیٰ (شرح مسلم ص١٦ ج١) یعنی ان سب محدثین نے ان کی بصراحت تضعیف کی ہے ۔ فتح الملہم ص٢٣٦ ج١ میں ہے : وقال ابن عبد البر مجمع علیٰ ضعفہ یعنی ان کے ضعف پر محدثین کا اجماع ہے ۔
(٤) نعیم بن حماد الخزاعی احد الائمة الاعلام علی لین فی حدیثہ کنیتہ ابو عبد ا للہ الغرضی الاعور الحافظ سکن مصر ۔ (میزان الاعتدال ص٢٣٨ ج٣ )
غور کیجئے ! حافظ ذہبی نے نعیم بن حماد کو ایک بڑا امام اور حافظ کہا ہے ، لیکن اس کے باوجود روایتِ حدیث کے اعتبار سے ان کی شان میں وہ لفظ استعمال کیا ہے جس کا شمار تعدیل و توثیق میں نہیں بلکہ الفاظ جرح میں ہے ۔ خواہ معمولی او ر ہلکے درجہ کی سہی ۔ تاہم ہے جرح ہی ۔ اس کو توثیق نہیں کہیں گے ۔ اسماء الرجال کی کتابوں میں ایسی بہت سی مثالیں موجودہیں مگر

اند کے با تو گفتم و بدل تر سیدم
کہ آزردہ شوی ورنہ سخن بسیا راست​

ان مثالوں کی موجودگی میں اب اس میں کیا شبہہ باقی رہ جاتا ہے کہ محدث مبارک پوری نے مولانا نیموی کی جو گرفت کی ہے وہ بالکل حق اور صواب ہے ۔ اس گرفت کا جواب دینے کے لئے مولانا مئوی نے ہاتھ پاؤں تو بہت مارے ہیں ، لیکن مغالطہ آمیز باتوں اور غیر متعلق عبارتوں کے سوا اور کچھ پیش نہیں کر سکے ۔

چنانچہ ابن الصلاح اور خطیب کے حوالے سے ا س بحث کے سلسلے میں جتنی عبارتیں مولانا مئوی نے نقل کی ہیں وہ سب بے محل اور امر زیر بحث سے قطعًا بے تعلق ہیں ۔ ان میں کسی میں بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص فنی معلومات کی وجہ سے بڑا عالم ، بڑا فقیہ ، بڑا محدث مانا جائے تو محض اتنی ہی بات سے لازم آ جاتا ہے کہ وہ روایت کے اعتبار سے بھی ان تمام صفات و شروط کا حامل ہے جو روایت کی مقبولیّت اور راوی کی ثقاہت کے لئے ضروری قرار دی کئی ہیں ۔ حافظ ابن الصلاح او رعلامہ خطیب نے تو بالکل ایک دوسری ہی بات کہی ہے ۔ انہوں نے جو کچھ کہا ہے اس کا حاصل تو یہ ہے کہ جس راوی کی عدالت ، ثقاہت ، امانت ، شہرت عام رکھتی ہو ، بکثرت اس کا چرچا اور شیوع ہو ، جیسے امام مالک ، شعبہ ، سفیان ، ا وزاعی ، لیث ، ابن المبارک ، وکیع ، احمد بن حنبل ، یحیٰ بن معین ، علی بن المدینی وغیرہم ۔ تو ایسے لوگوں کی عدالت و ثقاہت کا ثبوت اس بات کا محتاج نہیں ہے کہ کوئی خاص شخص نصّاً و لفظًا ان کی توثیق کرے ۔ حافظ ابن الصلاح کے ان الفاظ پر غور کیجئے :
فمن اشتہرت عدالتہ بین اہل النقل او نحوہم من العلم وشاع الثناء علیہ بالثقة والامانة استغنیٰ فیہ بذلک من بینة شاہدة بعد التہ تنصیصًا ۔ (مقدمہ ص٤٠)
حافظ ابو بکر خطیب بغدادی کے باب کا حوالہ تو آپ نے دے دیا ، لیکن اس کے الفاظ پر غور کرنے کی توفیق نہ ہوئی ۔ وہ لکھتے ہیں :
باب فی المحدث المشہور بالعدالة والثقةَ والامانة لا یحتاج الٰی تزکیة المعدل ۔ (کفایہ ص٨٦)
دیکھئے ! یہ حضرات یہ نہیں کہتے کہ جس کے محدث ہونے کی شہرت ہو جائے ، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ جس کی عدالت ، ثقاہت ، اور امانت کی عام شہرت ہو وہ تزکیہ معدل سے مستغنیٰ ہے ۔
پھر ان عبارتوں کو آپ کے مدعا سے کیا تعلق ہے ۔ خواہ مخواہ عوام کو مغالطہ دینا اور ان کی ناواقفیت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا ، یہ کہاں کی دیانت ہے ؟
اسی سلسلے میں رکعات ص٤٣ پر ابن عبدالبر کا جو کلام مولانا مئوی نے مقدمہ ابن الصلاح کے حوالہ سے نقل کیا ہے ، افسوس ہے کہ اس کے نقل کرنے میں بھی خیانت کی گئی ہے ۔ اس کی آخر کا وہ حصہ جس میں حافظ ابن الصلاح نے ابن عبدالبر کی تردید کی ہے ، اس کو نقل نہیں کیا گیا ۔ مولانا مئوی کی خیانت کا یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے ۔ بلکہ اس کتاب میں بیشتر مقامات میں انہوں نے اس افسوسناک حرکت کا ارتکاب کیا ہے ۔ اگر دیدۂ عبرت ہو تو یہی بات اس نزاع کا بآسانی فیصلہ کر دیتی ہے کہ کسی کو محض ''علامہ کبیر'' اور '' محدث شہیر'' لکھ دینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس میں ثقاہت ، عدالت اور امانت کا تحقق بھی ہو ۔ فافہم
اس تمہید کے بعد مولانا مئوی نے ابن فنجویہ کی عدالت و ثقاہت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے مگر کوئی ''بڑا محدث'' بھی ثابت نہ کر سکے ۔ ثقاہت اور ثقاہت کی عام شہرت تو بڑی بات ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
قولہ : جب یہ ثابت ہو چکا تو اب سنئے کہ ابن فنجویہ کی علمی شہرت اور محدثین میں ان کی مقبولیت کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت چاہئیے کہ وہ بھی سنن نسائی کے اس نسخہ کے جو ہندوستان میں متداول ہے ،ایک راوی ہیں ۔ جنہوں نے ابن السنی سے اس کو سنا ہے ۔ (رکعات ص٤٤)
ج: لیکن میں کہتاہوں کہ ابن فنجویہ کی عدم شہرت اور محدثین میں ان کی غیر مقبولیت کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت چاہئیے کہ علامہ حافظ تاج الدین سبکی نے طبقات الشافعیہ ص٩٦ ج٢ میں امام ابو بکر ابن السنی کا ترجمہ تفصیل سے پیش کیا ہے ۔ ان کے اساتذہ اور تلامذہ دونوں کے ناموں کی فہرست پیش کی ہے ، لیکن اس سلسلے میں ابن فنجویہ کا نام کہیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ علامہ سبکی کی نگاہ میں ان کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے ۔ اگر واقعی وہ ''علمی شہرت'' اور '' محدثین میں مقبولیت'' کے حامل ہوتے تو علامہ سبکی ان کو کبھی نظر اندازنہ کرتے ۔
قولہ : اور ذہبی نے ٤١٤ ھ میں مرنے والے مشاہیر کے ضمن میں ان کا ذکر یوں کیا ہے : والمحدث ابو عبداﷲ حسین بن محمد بن حسین بن عبداللہ بن فنجویہ (١) الثقفی الدینوری نیشا پوری (٢) (ص٢٤٤ ج٣ ، رکعات ص....)
ج: لیجئے صرف ''محدث'' لکھا ہے ۔ نہ محدث شہیر نہ محدث کبیر نہ من کبار المحدثین نہ اس قسم کا کوئی اور لفظ ۔ تو کیا اتنی سی بات سے ان کی ثقاہت یا ثقاہت کی شہرت عام کا ثبوت ہو گیا ؟
میں کسی طرح باور نہیں کر سکتا کہ آپ اتنا بھی نہ جا نتے ہوں گے کہ
(١) فنجویہ بفتح الفاء و مسکون النون و فتح الجیم کذا فی ھامش التذکرة الحافظ للذہبی ۔
(٢) نیشا پوری غلط ہے ۔ صحیح ''بنیسا بور'' ہے ۔ دیکھو ! تذکرة ا لحفاظ للذہبی ص٢٤٤ جلد ٣ ۔
''محدث''ثقہ بھی ہوتا ہے اور غیر ثقہ بھی ۔ مقبول بھی ہوسکتا ہے ا ور غیر مقبول بھی ۔ پھر اس حوالے کے پیش کرنے سے آپ کو کیا فائدہ پہونچا؟
قولہ : اور ابن الاثیر جزری نے لکھا ہے :
عرف بہا ابو عبداﷲ الحسین بن محمد بن الحسین بن
فنجویہ ٠ الفنجوی الدینوری الحافظ روی عن ابی الفتح
محمد بن الحسین الازدی الموصلی و ابی بکر بن مالک القطعی وغیرہما روی عنہ ابو اسحاق الثعلبی فاکثر فی تفسیرہ و یذکر کثیرا فیقول اخبرنا الفنجوی ( رکعات ص )

ج : مولانا مؤی نے اس عبارت کے متعلق اپنی کتاب میں کوئی حوالہ نہیں دیا ہے کہ ابن الاثیر جزری نے یہ کہاں لکھا ہے ۔ اس لئے اولاً تو ایسی بے حوالہ بات قابلِ التفات ہی نہیں ہے اور ثانیاً محض ''حافظ'' کہنے سے ان کی توثیق لازم نہیں آتی ۔ جیسا کہ نعیم بن حماد کی بابت امام ذہبی کا بیان گذرچکا کہ انہوں نے نعیم کو حافظ کہا ہے اور اس کے باوجود ان پر جرح بھی کر دی ہے ۔ ثالثاً ان کے استاد اورکچھ شاگرد کے نام معلوم ہو جانے سے زیادہ سے زیادہ یہ ہوگاکہ ان کی ذات مجہول نہ رہے گی ، لیکن اس سے ان کی عدالت ثابت نہ ہوگی ۔ حافظ ابو بکر خطیب بغدادی لکھتے ہیں :
و اقل ما تر تفع بہ الجہالة ان یروی عن الرجل اثنان فصاعداً من المشہورین بالعلم ...... قلت الاانہلا یثبت لہ حکم العدالة یروایتہما عنہ و قد زعم قوم ان عدالتہ تثبت بذلک و نحن نذکر فساد قولہم بمشیئة اﷲ و توفیقہ انتہی ۔ (کفایہ ص٨٨)
یعنی جس شخص سے کم از کم دو مشہور محدث روایت کر یں اس کو مجہول نہیں کہا جائیگا .......مگر اس سے اس کے لیے عدالت کا حکم ثابت نہیں ہوگا ۔ کچھ لوگوں کا یہ زعم ہے کہ اس سے اس کا عادل ہونا ثابت ہو جائیگا (مگریہ قول فاسد ہے) ہم اس کا فاسد ہونا ثابت کرتے ہیں ( اس کے بعد خطیب نے اس قول کے فاسد ہونے کے دلائل ذکر کیے ہیں )
قولہ : اور سمعانی نے برہان دینوری کے شاگردوں میں ان کا نام لیا ہے اور امام بیہقی نے سنن میں ان سے بکثرت روایت کی ہے ۔ (رکعات ص....)
ج: لیکن سمعانی نے ان کو نہ تو '' من کبار المحدثین '' کہا ہے ۔ جیسا کہ مولانا نیموی کا عویٰ ہے اور نہ ان کی عدالت و ثقاہت کی ''عام شہرت'' کو ثابت کیا ہے ۔ جیسا کہ آپ کی تمہیدکا منشاء ہے ۔ اس لئے یہ حوالہ بھی آپ کے لئے کچھ مفید نہیں ....... اسی طرح امام بیہقی نے یہ کب دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے اپنی سنن میں صرف ''ثقہ'' راویوں سے روایتیں لی ہیں ۔ اور صرف صحیح روایتوں کے لانے کا التزام کیا ہے ۔ جب ایسا نہیں ہے تو اس سے ابن فنجویہ کا ثقہ ہونا کیسے ثابت ہو گیا؟ ۔
قولہ : کیا ان تفصیلات کے بعد بھی کسی میں جر ات ہے جو یہ کہہ سکے کہ بڑا محدث ہونے سے ثقہ ہونا لازم نہیں آتا ۔(رکعات ص...)
ج: کیا ان بے جان تفصیلات کی حقیقت معلوم ہوجانے کے بعد بھی کسی میں جرات ہے جویہ کہہ سکے کہ ان تفصیلات سے ابن فنجویہ کا ''بڑا محدث ہونا'' یا ان کی ثقاہت یا ثقاہت کی عام شہرت کا ثبوت ہو گیا ۔ نہیں اور ہر گز نہیں ۔ اسی لئے محدث مبارک پوری علیہ الرحمہ نے ابن فنجویہ کی بابت فرمایا ہے :
لم اقف علٰی ترجمتہ ای علی ترجمة التی تدل علی کونہ ثقة قابلا للاحتجاج ۔
یعنی میں ان کے ایسے حالات پر مطلع نہیں ہوا جن سے ان کا ثقہ اور قابل احتجاج ہونا ثابت ہوتاہو ۔ یہ منشاء نہیں ہے کہ یہ معمولی باتیں بھی ان کے علم میں نہ تھیں جو مولانا مئوی کے لئے سر پایۂ افتخار بنی ہوئی ہیں ۔ پس محدث مبارک پوری کا یہ مطالبہ اپنی جگہ جوں کا توں قائم ہے کہ :
فمن یدعی صحة ہٰذالاثر ان یثبت کونہ ثقة قابلا للاحتجاج
یعنی جو شخص اس اثر کی صحت کا مدعی ہو اس پر لازم ہے کہ وہ ابن فنجویہ کا ثقہ اور قابل احتجاج ہونا ثابت کر ے۔
قولہ : اس کے بعد میں یہ بتانا چا ہتا ہوں کہ ابن فنجویہ کی نسبت لکھنے کو تو مولانا یہ لکھ گئے ، لیکن اگر ان کے اصول پر عمل شروعکر دیا جائے تو صحیحین کی بہت سی حدیثوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا ۔ (رکعات ص....)
ج: آپ لوگ تو پہلی ہی '' صحیحین کی بہت سی حدیثوں سے ہاتھ دھوئے'' بیٹھے ہیں ۔ اس لئے کہ علامہ زیلعی (مشہور حنفی عالم) نے لکھا ہے کہ امام بخاری جامع صحیح میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہ حدیثیں لائے ہیں جن سے امام ابو حنیفہ کے مذہب پر اعتراض وارد ہوتا ہے ۔ (والبخاری کثیر التتبع لما یرد علی ابی حنیفة من السنة کذا فی نصب الرایہ ص٣٥٦ ج١) تو اگر خدا نحواستہ اس قسم کا کوئی ''اصول'' بن رہا ہو تو یہ تو آپ لوگوں کی منشاء کے مطابق ہی ہے پھر آپ اس سے کیوں فکر مند ہیں ؟
اور اگر اس نکتہ آفرینی سے اہل حدیثوں کو ''ڈرانا'' مقصود ہے ، تو فکر نہ کیجئے ہم خوب سمجھ رہے ہیں کہ محدث مبارک پوری نے ہر گز کوئی ایسا ''اصول'' نہیں پیش کیاہے جس کی وجہ سے کسی ایک حدیث سے بھی '' ہاتھ دھونا'' پڑے ۔
قولہ : شائد مولانا اس سے بھی آگاہ نہیں تھے کہ مالک بن الحسیر الزیادی پر ابن القطان نے یہ کلام کر دیا کہ اس کی عدالت ثابت نہیں ۔ یعنی اس کو کسی نے ثقہ نہیں کہا ہے تو حافظ ذہبی نے ابن القطان کا یوں ردّ کیا کہ :
فی رواة صحیحین عدد کثیر ما علمنا ان احد نص علی توثیقہم والجمہور علی ان من کان من المشائخ قد روی عنہ جماعة فلم یت بما ینکر علیہ ان حدیثہ صحیح انتہٰی (میزان ص٣ج٣) (رکعات ص٤٥)
ج: مولانا (مبارک پوری) توا س سے خوب آگاہ تھے ، مگر آپ ابھی تک سمجھے ہی نہیں ہیں کہ ابن القطان نے کیاکہا ہے ، اور محدث مبارک پوری نے کیا فرمایا ۔ ابن القطان کی بات حافظ ذہبی نے اسی میزان الاعتدال میں حفص بن بعیل کے ترجمہ میں زیادہ وضاحت سے پیش کی ہے ۔ لکھتے ہیں :
فان ابن القطان یتکلم فی کل من لم یقل فیہ امام عاصر ذلک الرجل واخذ عمن عاصرہ ما یدل علی عدالتہ ..... ۔
'' یعنی ابن القطان ہر اس راوی پر جرح کرتے ہیں جس کی تعدیل کسی ایسے امام نے نہ کی ہو جو اس راوی کے معاصر ہوں ، یا اس کے معاصر سے نقل کرتے ہوں '' ۔
گویا ابن القطان کے نزدیک کسی راوی کی عدالت و ثقاہت ثابت ہونے کی ایک خاص صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ اس راوی کی تعد یل و توثیق اسی کے ہم زمانہ کسی امام نے کی ہو ۔ یا ہم زمانہ امام سے یہ تعدیل لی گئی ہو ۔کیا محدث مبارک پوری کے کلام میں بھی اس قسم کی کوئی تخصیص اور تقیید ہے ؟ نہیں اور قطعًا نہیں ۔ وہ تو صرف یہ فرما رہے ہیں کہ ابن فنجویہ کی عدالت و ثقاہت ثابت کرو ۔ اب اس کے ثابت کرنے کا جو طریقہ بھی محدثین کے نزدیک معتبر ہو ۔ وہ ان سب طریقوں کو قبول کرتے ہیں ۔ اس کے لئے کسی خاص طریقے کی تعیین اپنی طرف سے نہیں کرتے ، لیکن اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ سرے سے یہ مطالبہ ہی ترک کر دیا جائے اور راوی کی عدالت کا ثبوت ہوئے بغیر ہی اس روایت کی صحت کو تسلیم کر لیا جائے تو اہل حدیث سے اس کی توقع نہ رکھئے ۔ اس لئے کہ بقول حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ، کسی روایت کی قبولت کے لئے راوی کی عدالت شرط ہے ۔ لکھتے ہیں :
ولا یقبل حدیث المبہم مالم یسم لان شرط قبول الخبر عدالة راویہ ومن ابہم اسمہ لا تعرف عینہ فکیف عدالتہ انتہٰی ( شرح نخبہ ص٧٠)
'' یعنی کسی مبہم راوی کی حدیث تاوقتیکہ ا س کا نام نہ معلوم ہو جائے مقبول نہیں ۔ کیونکہ جب ا س کی ذات ہی نہیں معلوم ہے توا س کی عدالت کیسے معلوم ہو گی ۔ اور جب تک راوی کی عدالت نہ معلوم ہو، اس کی روایت مقبول نہیں ''۔
میرا منشاء یہ نہیں ہے کہ ابن فنجویہ مبہمہ ہے ، بلکہ غرض یہ ہے کہ مبہم کی حدیث کے نامقبول ہونے کی جو علت ہے وہ یہاں بھی متحقق ہے ۔ لہٰذا اس اصول کی رو سے ابن فنجویہ کی یہ روایت مقبول نہیں ۔ کیونکہ اس کی ذات اگرچہ معلوم ہے ، مگر اس کی عدالت معلوم نہیں ۔ تقریب مع التدریب ص١١٥ میں ہے :
روایة مجہول العدالة ہراً وباطنًا مع کونہ معروف العین براویة عدلین عنہ لا تقبل عند الجماہیرآہ .......
باقی رہا حافظ ذہبی کا وہ فیصلہ جو مولانا مئوی نے اس موقع پر نقل کیا ہے ، تواس کی رو سے بھی ابن فنجویہ کی یہ روایت صحیح نہیں ہے ۔ اس لئے کہ قد روی عنہ جماعة لم یت بما ینکر علیہ (اس سے محدثین کی ایک جماعت نے روایت لی ہو اور اس کی روایت ثقات کے خلاف بھی نہ ہو ) یہ دونوں شرطیں یہاں نہیں پائی جاتیں ، کیونکہ ابن الاثیر جزری نے ان سے روایت لینے والوں میں صرف ابو اسحاق ثعلبی کا نام ذکر کیا ہے ۔ابو بکر بن مالک قطعی ابن فنجویہ کے شاگر نہیں ہیں ۔ جیساکہ مولانا مئوی نے لکھا ہے۔ بلکہ یہ تو ان کے استاد ہیں اور یہ روایت ان ثقات کے خلاف بھی ہے جنہوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق گیارہ رکعات کا حکم دینا بیان کیا ہے ۔ جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
یہ بات بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں ہے کہ ثعلبی جنہوں نے بقول ابن اثیر جزری کے اپنی تفسیر میں بکثرت باتیں ابن فنجویہ سے لی ہیں ۔ اخبار و قصص کے بیان کرنے میں بہت غیر محتاط ہیں ۔ جھوٹے اور سچے سبھی قسم کے واقعات نقل کر دئیے ہیں ۔ صاحب کشف الظنون لکھتے ہیں :
والاخباری لیس لہ شغل الا القصص واستیفائہا والاخبار عمن سلف سواء کانت صحیحة اور باطلة ومنہم الثعلبی انتہٰی ..... (کشف الظنون ص٢٠٠ ج١)
یعنی ''وہ مفسرین جن پر تاریخ کا غلبہ ہے ، ان کی تمام تر توجہ بس قصوں کی طرف ہوتی ہے وہ گزشتہ لوگوں سے باتیں نقل کرنا جانتے ہیں ۔ اس سے بحث نہیں کہ وہ صحیح ہیں یا غلط ۔ انہی میں سے ثعلبی بھی ہیں '' ۔ ان سب سے بڑھ کر یہ کہ ثعلبی نے اپنی تفسیر میں بہت سی موضوع روایتیں بھی ذکر کی ہیں ۔ دیکھو ظفر الامانی ص٢٥٥ ۔ کیا اس سے ثعلبی کے استاد ابن فنجویہ پر کچھ روشنی نہیں پڑتی ؟
یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ حافظ ذہبی نے صحیحین کے راویوں کی بابت یہ تصریح کر دی ہے ۔ ماضعفہم احد ولا ہم بمجاہیل ۔ (میزان الاعتدال ص٢٦٠ ج ١) یعنی ان کو کسی نے ضعیف نہیں کہا اور نہ وہ مجہول ہیں ۔ حافظ ابن حجر نے اسی بات کو زیادہ وضاحت سے پیش کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :
فاما جہالة الحال فمندفعة عن جمیع من اخرج لہم فی الصحیح لان شرط الصحیح ان یکون راویہ معروفا بالعدالة فمن زعم ان احدا منہم مجہول فکانہ نازع المصنف فی دعواہ انہ معروف ولاشک ان المدعی لمعرفتہ مقدم علٰی من یدعی عدم معرفتہ لما مع المثبت من زیادہ العلم ومع ذلک فلا تجد فی رجال الصحیح احدا ممن یسوغ اطلاق اسم الجہالة علیہ اصلا کما سنبینہ انتہٰی (مقدمہ فتح الباری ص١١١ ج٢)
یعنی '' حالات کے اعتبار سے تو صحیح بخاری کا کوئی راوی بھی مجہول نہیں ہے ۔ اس لئے کہ صحیح کی شرط یہ ہے کہ اس کا راوی معروف بالعدالة ہو ۔ لہٰذا جس کا یہ زعم ہو کہ صحیح بخاری کا کوئی راوی مجہول ہے تو گویا کہ وہ امام بخاری کے اس دعویٰ کا معارضہ کر رہا ہے کہ یہ معروف العدالة ہے ۔ بلا شبہہ مدعی معرفت کی رائے مقدم ہو گی مدعی عدم معرفت کی رائے پر ۔ اس لئے کہ نافی سے مثبت کا علم زیادہ ہوتا ہے ۔ صحیح بخاری کے راویوں میں تم کوئی ایسا راوی نہ پاؤ گے جس کی بابت یہ کہا جا سکے کہ یہ مجہول ہے ''۔
اسی کے ساتھ حافظ کا یہ بیان بھی سامنے رکھئے :
وقبل الخوض فیہ ینبغی لکل منصف ان یعلم ان تخریج صاحب الصحیح لای راو کان مقتض لعدالتہ عندہ وصحة ضبطہ وعدم غفلتہ ولا سیما ما انضاف الیٰ ذالک من اطباق جمہور الائمة علی تسمیة الکتابین بالصحیحین وہٰذا معنی لم یحصل لغیر من خرج عنہ فی الصحیح فہو بمثابة اطباق الجمہور علیٰ تعدیل من ذکر فیما ہٰذا اذا خرج لہ فی الاصول .......... وقد کان الشیخ ابو الحسن المقدسی یقول فی الرجل الذی یخرج عنہ فی الصحیح ہہذا جاز القنطرة یعنی بذالک انہ لا یلتفت الٰی ما قیل فیہ قال الشیخ ابو الفتح الفشیری فی مختصرہ و ہکذا نعتقد وبہ نقول ولا نخرح عنہ الا بحجة ظاہرة وبیان شاف یزید فی غلبة الظن علٰی المعنی الذی قدمناہ من اتفاق الناس بعد الشیخین علٰی تسمیة کتابیہما بالصحیحین ومن لوازم ذالک تعدیل رواتہما قلت فلا یقبل الطعن فی احد منہم الا بقادح واضح ۔ (حوالۂ مذکور)
حافظ کے ان بیانات کی ر وشنی میں یہ با ت با لکل صا ف ہو جا تی ہیکہ ہر
وہ راوی جس سے شیخین نے صحیحین میں احتجاجًا و اصالةً کسی حدیث کی تخریح کی ہے وہ معروف العدالة ہے ۔ جمہور ائمہ مسلمین نے ان دونوں کتابوں کا ''صحیح'' ہونا تسلیم کیا ہے ۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ان کے راویوں کی عدالت پر بھی جمہورِ امت کا اتفاق ہے۔
مولانا مئوی نے اسید بن زید کی جو مثال پیش کی ہے کہ ان کی روایت صحیح بخاری میں موجود ہے ۔ حالانکہ حافظ ابن حجر نے ان کی نسبت لکھا ہے کہ ''میں نے ان کے حق میں کسی کی توثیق نہیں دیکھی'' تو ''علامہ'' مئوی کی یہ بات مغالطہ سے خالی نہیں ہے ۔ حافظ نے ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیا ہے کہ : وقد روی عنہ البخاری فی کتاب الرقاق حدیثا واحدا مقرونا بغیرہ (مقدمہ ص١١٧ ج٢)
یعنی اسید بن زید سے بخاری نے ایک روایت کی ہے ، لیکن دوسرے ثقہ راوی کے ساتھ ملا کر۔ گویا صرف اسید کی روایت پر بخاری نے اعتماد نہیں کیا ہے او رنہ تنہاان کے بیان کو حجت قرار دیا ہے ۔
الحاصل ''علامہ'' مئوی ابن فنجویہ کی تعدیل کی نسبت کچھ نہیں ثابت کر سکتے اور ہر طرح سے عاجز ہیں تو کم از کم اتنا ہی ثابت کر دیں کہ یہ صحیحین کے روات میں سے ہیں اور شیخین نے ان سے احتجاجًا روایت لی ہے ۔ بس اس کے بعد ان کی تعدیل کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہے گا ۔ جیساکہ علامہ ابن دقیق العید الاقتراح میں لکھتے ہیں :
تعرف ثقة الراوی بالتنصیص علیہ من روایة اوذکرہ فی تاریخ الثقات اوتخریج احد الشیخین لہ فی الصحیح وان تکلم فی بعض من خرج لہ فلا یلتفت الیہ اور تخریح من اشتر الصحة لہ او من خرج علٰی کتب الشیخین اٰہ ۔ (بحوالہ کتاب الجرح والتعدیل للشیخ جمال الدین قاسمی الدمشقی طبع مصر ص٥)
یہ بھی سن لیجئے کہ امام ابو بکر خطیب بغدادی نے اہل عراق کے اس زعم کی پر زور تردید کی ہے کہ راوی کی عدالت کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ مسلمان ہو اور کھلم کھلا فسق سے محفوظ ہو ۔خطیب نے اس کی تردید کے لئے اس کی تردید کے لئے ایک مستقل عنوان ہی قائم کیا ہے : باب الرد علی من زعم ان العدالة ہی اظہار الاسلام وعدم الفسق الظاہر (کفایہ ص٨١)

معرفت السنن والی روایت کی حقیقت : ۔
سنن کبریٰ کی ا س روایت کی تائید میں مولانا مئوی نے امام بیہقی کی دوسری کتاب '' معرفتہ السنن'' سے ایک دوسرے طریق کا حوالہ دیا ہے جس کی انتہا بھی انہی یزید بن خصیفہ عن السائب بن یزید پر ہے ۔ جن سے سنن کبریٰ میں یہ اثر مروی ہے اس لئے در حقیقت یہ کوئی دوسری روایت نہیں ہے ۔
معرفتہ السنن میں یہ اثر جس طریق سے مروی ہے اس میں دو راوی ایسے ہیں جن کی عدالت و ثقاہت کا حال معلوم نہیں ہے ۔ ایک ابو طاہر زیادی ، دوسرے ابو عثمان بصری ۔ ابو طاہر زیادی کی نسبت سبکی نے امام الفقہا ء والمحدثین بنیسا بور فی زمانہ لکھا ہے جس کو مولانا مئوی نے بڑی اہمیت دی ہے ، لیکن ہم اس کی نظیریں پہلے پیش کر چکے ہیں کہ اس قسم کے الفاظ مجروح اور متکلم راویوں کے متعلق بھی استعمال کئے گئے ہیں ۔ مثلاً حارث اعور کو من کبار التابعین اور حسن بن عمارہ کو من کبار الفقہاء فی زمانہ اور نعیم بن حماد کو احد الائمة الاعلام حافظ ذہبی نے لکھا ہے اور عبد الکریم ابو امیہ کو من فضلا فقہاء البصرة امام نووی نے لکھا ہے ، لیکن کیا یہ سب ثقہ ، غیر مجروح اور غیر متکلم فیہ ہیں ؟
کسی فن کے مسائل کی معلومات میں وسعت اور مہارت کے اعتبار سے شہرت و امامت کا حاصل ہو جانا یہ ہر گز اس بات کو مستلزم نہیں ہے کہ وہ ضبط و عدالت کے اعتبار سے بھی ان جملہ شروط و اوصاف کا حامل ہے جو روایت کی مقبولیت کے لئے شرط ہیں ۔ جیسا کہ مذکورہ بالا مثالوں سے واضح ہے سبکی او رعبد الغافر نے بھی ابو طاہر کی جو تعریف کی ہے وہ تفقہ ، تحدیث ، افتاء ، عربیت وغیرہ علوم و فنون میں مہارت ہی کی کی ہے ۔ عدالت و ثقاہت کے متعلق کچھ نہیں کہا ہے ۔ اس لئے خطیب کی جو عبارت کفایہ ص٨٧ کے حوالہ سے مولانا مئوی نے اس موقع پر نقل کی ہے وہ بالکل بے محل ہے ۔ خطیب نے یہ نہیں لکھا ہے کہ جس کے افتاء و مشیخت ، تفقہ و تحدیث کی شہرت ہو وہ تعدیل و تزکیہ سے مستغنیٰ ہے ، بلکہ یہ لکھا ہے کہ ان العلم بظہور سترہما واشتہار عدالتہما اقوی فی النفوس من تعدیل واحد واثنین ۔
اس عبارت میں واشتہار عدالتہما کے لفظ پر غور کیجئے ۔ جس شاہد اور راوی کی عدالت صرف ثابت ہی نہیں بلکہ اس درجہ ثابت ہے کہ وہ ''عام شہرت'' رکھتی ہے تو اب اس کے متعلق کیا سوال ہو سکتا ہے کہ وہ ثقہ اور عادل ہے یانہیں ؟ سوال تو اس کی بابت ہوگا جس کی ''عدالت'' مشہور نہیں ۔ خواہ علم و تفقہ وغیرہ مشہور ہی کیوں نہ ہو ۔ چنانچہ اسی کفایہ میں اور اسی عبارت کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے :
والشاہد والمخبر انما یحتاجان الی التزکیہ متی لم یکونا مشہوری العدالة والرضا وکان امرہما مشکلا ملتبسا و مجوزا فیہ العدالة وغیرہا انتھی (کفایہ ص٨٧)
یعنی (شاہد وہی مقبول ہے جو بحکم ممن ترضون من الشہداء مرضے اور پسندیدہ ہو ) لہذا جس مخبر کی عدالت اور جس شاہد کا مرضی ہونا مشہور نہ ہو ، بلکہ اس اعتبار سے اس کا معاملہ مشتبہ ہو ،اس کی شہادت اور روایت کی مقبولیت تعدیل و تزکیہ کی محتاج ہے ۔
مولانا مؤی نے بڑی شیخی اور شوخی کیساتھ لکھا ہے کہ '' حافظ سخاوی نے لفظ امام اور حافظ کو بھی الفاظ توثیق میں شمار کیا ہے ''۔ (رکعات ص ٤٨)
لیکن جناب کو پتہ نہیں ہے کہ حافظ ذہبی نے ان دونوں الفاظ کو مجروح کی نسبت بھی استعمال کیا ہے ۔ پھر عدالت و ثقاہت کا استلزام کہاں باقی رہا ۔ حافظ سخاوی نے جو کچھ لکھا ہے اس کا منشاء یہ ہے کہ جب کسی عادل کے حق میں یہ الفاظ استعمال کیے جائیں گے تو اس وقت ان کا شمار الفاظِ توثیق میں ہوگا ۔ یہ منشاء نہیں ہے کہ جہاں علم و فن کی مہارت اور کمال کا اظہار مقصود ہو یا کوئی مجہول الحال راوی ہو وہاں بھی تعدیل ہی مراد ہوگی ۔ چنانچہ حافظ ابن الصلاح لکھتے ہیں :
اما الفاظ التعدیل فعلی مراتب الاولی قال ابن ابی حاتم اذا قیل للواحد انہ ثقة متقن فھو ممن یحتج بحدیثہ قلت و کذا اذا قیل ثبت اور حجة و کذا اذا قیل فی العدل انہ حافظ اور ضابط واﷲ اعلم ۔ (مقدمہ ص٤٧)
دیکھیے حافظ ابن صلاح صاف صاف لکھ رہے ہیں کہ اذا قیل فی العدل انہ حافظ او ضابط ۔ (یعنی جب کسی ''عادل '' راوی کے حق میں کہاجائے گا کہ یہ ''حافظ'' ہے ۔ تب اس کی حدیث حجت ہوگی ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر راوی مجہول الحال ہو تو اس لفظ سے اس کی عدالت ثابت نہیں ہوگی اور نہ اس کی روایت حجت ہوگی ۔ ملامحب اللہ بہاری مسلم الثبوت میں لکھتے ہیں :ارفعہا فی التعدیل حجة و ثقة و حافظ و ضابط توثیق للعدل ۔ یعنی کسی راوی کے تزکیہ کے بارے میں سب سے بلند الفاظ یہ ہیں کہ اسکو کہا جائے کہ وہ حجت ہے یا ثقہ ہے یا حافظ ہے یا ضابطہ ہے ۔ یہ سب الفاظ ''عادل''راوی کی توثیق کا موجب ہیں ۔

مولانا بحر العلوم اس کی شرح میں لکھتے ہیں :
فان تلک الالفاظ لیست مبینة عن العدالة فلا بد من علمہا بوجہ اٰخر ۔ (مسلم الثبوت مع شرح بحر العلوم ص ٤٣٥)
'' یعنی ان الفاظ سے راوی کی عدالت ظاہر نہیں ہوتی ۔ اس لئے عدالت کے ثبوت کے لئے کسی دوسری دلیل کا ہونا ضروری ہے ''۔ ان سب کے علاوہ ایک بڑی پرلطف بات یہ ہے کہ مولانا مؤی اپنی کتاب الاعلام المرفوعہ کے ص٤ پر ابو الفتح ازدی کی نسبت لکھتے ہیں :
'' علاوہ بریں ابو الفتح کی جرحیں بالکل ناقابل اعتبارہیں ۔ اولاً اس لئے کہ وہ خود ضعیف وصاحب مناکیر و غیر مرضی ہیں .........الخ ''۔
لیکن یہی ابو الفتح ہیں جن کی نسبت خطیب بغدادی نے اپنے شیخ کے حوالے سے الحافظ لکھا ہے ۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں :
اخبرنا محمد بن جعفر بن علان قال انا ابو الفتح محمد بن الحسین الازدی الحافظ قال ثنا ابو عروبة الحرانی الخ ( دیکھو کفایہ ص ٩١ )
لیجیے اب تو اسمیں کوئی شبہہ نہیں رہا کہ ''حافظ''کا لفظ راوی کی عدالت و ثقاہت کو مستلزم نہیں ہے ، بلکہ ہوسکتا ہے کہ جس کے حق میں ''حافظ'' کہا گیا ہے ، وہ بقول مولانا مؤی ''ضعیف و صاحب منا کیر وغیر مرضی ہو ''۔
اب رہے ابو عثمان بصری تو ان کی نسبت اتنا معلوم ہے کہ ان کا نام عمرو بن عبداللہ ہے اس کے بعد علماء احناف اور علماء اہل حدیث سب کو تسلیم ہے کہ ان کا ترجمہ اسماء الرجال کی کتابوں میں کہیں نہیں ملتا ۔ گویا ان کی عدالت مجہول ہے اور تدریب الراوی کا حوالہ پہلے گذر چکا کہ مجہول العدالة ظاہرا و باطنا کی روایت عندالجمہور غیر مقبول ہے اور اگر باصطلاحِ محدثین ان کو ''مستور' ' کہا جائے تب بھی جمہور محدثین کے نزدیک ان کی روایت مردود ہے ۔ البتہ حافظ ابن حجر نے ایسے شخص کی روایت کو درجہ توقف میں رکھا ہے جو عملاً ردّ ہی کے حکم میں ہے۔ (دیکھو شرح نخبہ ص٧١)
اور حنفیہ کے نزدیک تو مستور کی روایت کا وہی حکم ہے جو فاسق کی روایت کا ہے ۔ تفصیل آیندہ آئے گی ۔ فانتظرہ مفتشاً۔
قولہ : اور محدثین میں سے کسی شخص نے ان کی تضعیف نہیں کی ہے ۔ زیادہ سے زیادہ ان کی نسبت اتنی بات کہی جاسکتی ہے کہ ہم کو معلوم نہیں ہے کہ ان کو کسی نے صراحةً ثقہ کہا ہے ۔ تو ایسے راوی تو صحیحین میں بھی بکثرت موجود ہیں ۔ (رکعات ص٤٩)
ج : ابو عثمان عمرو بن عبداللہ کا جب ترجمہ ہی کہیں نہیں ملتا تو اب اس کیا سوال کہ اس کو کسی نے ضعیف نہیں کہا ۔ نہ ضعیف کہا ہے ، نہ ثقہ کہا ہے ۔ اس لئے یہ دونوں کا احتمال رکھتا ہے ۔ جب تک عدالت کا ظن غالب نہ ہو گا ، روایت مقبول نہیں ہو سکتی ......
للاجماع علی ان الفسق یمنع القبول فلابد من ظن عدمہ وکونہ عدلاً وذلک مغیب عنا انتہیٰ ... (حاشیہ شرخ نخبہ ص٧١)
یعنی اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ راوی کا فسق حدیث کی مقبولیت سے مانع ہے ۔ لہٰذا اس کے عدم کا اور راوی کے عدل کا ظن غالب ہونا ضروری ہے اور یہ بات یہاں مفقود ہے (اس لئے ایسے راوی کی حدیث مقبول نہیں ہو گی)
صحیحین میں کوئی ایک راوی بھی ایسا نہیں ہے جس کا ترجمہ اسماء الرجال کی کتابوں میں نہ ملتا ہو ۔ اس لئے ابو عثمان بصری کو صحیحین کے راوی کے ساتھ تشبیہ دینا سراسر مغالطہ ہے یا افسوسناک جرات ۔ ابن فنجویہ پر بحث کے ذیل میں ہم اچھی طرح ثابت کر چکے ہیں کہ صحیحین کا ہر وہ راوی جس سے شیخین نے احتجاجًا و اصالةً تخریج کیا ہے جمہور امت کے نزدیک معروف العدالة ہے ۔ صحیحین کے راوی پر دوسرے راویوں کا قیاس کرنا محدثین کی تصریحات سے ناواقفیت کی دلیل ہے ۔
مولانا مئوی نے ایک بات یہ بھی لکھی ہے کہ معرفة السنن کی اس روایت کا ضعف سنن کبریٰ والی روایت سے دفع ہو جائے گا ۔ کیونکہ تعدد طرق سے روایت کا ضعف دور ہو جاتا ہے ۔ (رکعات ص٤٩)
لیکن مولانا کو معلوم ہونا چاہئیے کہ تعدد طرق سے وہ ضعف دور ہوتا ہے جو معمولی درجہ کا ہو ۔ ہر ضعف تعدد طرق سے دور نہیں ہوتا ۔ حافظ ابن الصلاح فرماتے ہیں :
لیس کل ضعف فی الحدیث یزول بمجیئہ من وجوہ بل ذلک یتفاوت فمنہ یزیلہ ذلک بان یکون .........ان قال ومن ذلک ضعف لا یزول بنحو ذلک لقوة الضعف وتقاعد ھ الجابر عن جبرہ ومقاومتہ ۔ (مقدمہ ص١٤)
جب ضعف کے انجبار اور عد م انجبار کا معاملہ درجات ضعف کے فیصلے پر موقوف ہے تو ظاہرہے کہ یہ اسی وقت ممکن ہے جب راوی کے ترجمہ اور حالات کا علم ہو ۔ جس راوی کا کچھ حال ہی معلو م نہ ہو کہ وہ ثقہ ہے یا ضعیف ؟ اگر ضعیف ہے تو کس درجہ کا ضعیف ہے اور وجۂ ضعف کیا ہے ؟ اس کے متعلق یہ کیسے فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ تعد دطرق سے اس کا ضعف دور ہو گیا ۔ محدث مبارک پوری رحمة اللہ علیہ نے ابکار المنن کے صفحہ ١٧٨ ، ١٧٩ میں جس روایت کی بابت یہ قاعدہ پیش کیا ہے اس کا کوئی راوی مجہول الحال نہیں ہے ۔ اس لئے ان کے کلام کو اس موقع پر استشہادًا پیش کرنا جیسا کہ ''علامہ'' مئوی نے کیا ہے ، محض نادانی اور جہالت ہے ۔
الحاصل ان تفصیلات سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ سنن کبریٰ اور معرفة السنن کے حوالے سے اس روایت کے جو دو طریق علماء احناف پیش کرتے ہیں ان میں سے کسی کی بھی صحت باصول محدثین ثابت نہیں ہے ۔ اس لئے سندًا یہ روایت قابل احتجاج نہیں ہے ۔اسناد پر بحث ختم کرنے کے بعد اب ہم اس کے متن (مضمون) پر تفصیلی گفتگو کرنا چاہتے ہیں ۔ اسی سلسلہ بحث میں انشاء اللہ اس حقیقت کی نقاب کشائی بھی ہو جائے گی کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گیارہ رکعات تراویح اداکرنے کا حکم فرمایا تھا یا بیس کا ؟

فرمان فاروقی کیا تھا ؟
یہ خیال رہے کہ اس وقت زیر بحث حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں لوگ بیس رکعتیں پڑھتے تھے ۔ اسی کو مولانامئوی نے اپنے مذہب کی دوسری دلیل قرار دیا ہے ۔
یہ اثر بروایت یزید بن خصفیہ دو طرق سے مروی ہے ، لیکن ان دونوں میں سے کسی طریق میں بھی یہ صراحت نہیں ہے کہ یہ تعداد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ''حکم'' سے پڑھی جاتی تھی یا ان کو اس کی اطلاع تھی ۔ اس کے برخلاف حضرت سائب ہی کا بیان جو بروایت محمد بن یوسف منقول ہے اس کے بعض طرق میں یہ صراحت خود حدیث ہی میں موجود ہے کہ حضرت عمر نے ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو ''حکم'' دیا کہ لوگوں کوگیارہ رکعتیں پڑھائیں ۔ اور بعض طرق میں یہ بھی تصریح ہے کہ حضرت ابی اور تمیم داری لوگوں کو اسی تعداد کے مطابق پڑھاتے بھی تھے ۔ (دیکھو آثار السنن للنیموی مع التعلیقات ص ٥٢ ،٥٣ ج٢)
اس فرمان فاروقی کے خلاف پوری دنیائے اسلام میں ایک آواز بھی نہ اٹھی ۔ اجلّہ صحابہ و تابعین موجود تھے ، لیکن کسی نے بھی اس پر ردّ و انکار نہ کیا ۔ تو کیا یہ گیارہ رکعات کی مشروعیت پر اس وقت کے تمام صحابہ و تابعین کا اجماع نہ ہوا ؟ اور کیا اس سے گیارہ رکعات کی کوئی خصوصیت اور اہمیت ثابت نہیں ہوتی ؟
پس اس فرمان فاروقی کے ہوتے ہوئے اوّلاً توہمیں یہ تسلیم ہی نہیں ہے کہ حضرت عمر کے عہد میں بیس پر عمل ہوا ، کیونکہ اس کے مقابلہ میں جو روایتیں پیش کی جاتی ہیں ان کی صحت ثابت نہیں جس کا بیان پچھلے صفحات میں گزر چکا ۔
ثانیًا بالفرض اگر یہ تسلیم کر لیا جائے تو پھر یہ تسلیم نہیں ہے کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی اطلاع تھی ۔ اس لئے کہ حضرت سائب بن یزید کے جس بیان کو حنفیہ اپنی دلیل قرار دیتے ہیں اس میں صرف حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ''زمانے'' میں بیس پڑھی جانے کا ذکر ہے ۔ حضرت عمر کا ''حکم'' تو بڑی بات ہے ۔ ان کے علم و اطلاع تک اس کا میں کوئی ذکر نہیں ہے اور حضرت سائب کے بیان کے علاوہ جن روایتوں میں ''حکم'' دینے کا ذکر ہے وہ سب منقطع السند اور غیر صحیح ہیں ۔ جیسا کہ ہم آگے بتائیں گے ۔
رہا ''علامہ'' مئوی کا استدلال کہ :
جب سارے نمازی خواہ امام ہو یا مقتدی ان کے عہد خلا فت میں بیس پڑھتے تھے اور ان کے شہر میں پڑھتے تھے ، بلکہ جس مسجد میں وہ نماز پنجگانہ ادا فرماتے تھے ، اسی مسجد میں پڑھتے تھے ۔ اور یہ بھی ثابت ہے کہ جماعت تراویح کا معائنہ کرنے بھی وہ تشریف لاتے تھے ۔ تو یقینا ان لوگوں کا بیس پڑھنا ان کے علم و اطلاع میں تھا ... ... ... ... (رکعات ص٦٩)
تو ہم کیا عرض کریں کہ یہ دعویٰ کتنا غلط اور پر فریب و مغالطہ آمیز ہے کوئی ان سے پوچھے کہ ان عمر جمع الناس علی ابی وتمیم فکان یصلیان احدی عشرة رکعة (ابو بکر بن ابی شیبہ بحوالہ تعلیق آثار السنن ص٥٣ ج٢) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو حضرت ابی اور تمیم داری کے پیچھے تراویح پڑھنے کا حکم دیا ۔اس کے بعد یہ دونوں گیارہ رکعتیں پڑھاتے تھے (اس روایت میں ان عمر جمع الناس علی ابی ... اور فکان یصلیان ... کی فاء تعقیب پر غو رکیجئے ) کیا یہ واقعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت کا نہیں ہے ۔ کیا یہ امام اور مقتدی ان کے شہر میں ، بلکہ اس مسجد میں نہیں پڑھتے تھے جس مسجد میں وہ نماز پنجگانہ ادا فرماتے تھے ؟ ... پھر ''سارے نمازی ... بیس پڑھتے تھے '' ۔ یہ کلیہ غلط ، پُر فریب او رمغالطہ آمیز نہیں تو اور کیا ہے ؟

نیز یہ دعویٰ نرا تحکم او رمحض بے دلیل ہے کہ جو لوگ بیس پڑھتے تھے وہ حضرت عمر کے شہر میں ، بلکہ اس مسجد میں پڑھتے تھے جس میں وہ نماز پنجگانہ ادا فرماتے تھے ۔ سنن کبریٰ اور معرفتہ السنن کی جن روایتوں کوحنفی مذہب کی دلیل میں پیش کیا گیاہے ۔ ان میں تو ''علیٰ عہد عمر بن الخطاب'' اور ''فی زمان عمر بن الخطاب'' سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔ نہ کسی شہر کا ذکر ہے اور نہ کسی مسجد کا
مانا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جماعت تراویح کا معائنہ کرنے مسجد میں تشریف لاتے تھے ، لیکن اس جماعت کا جس کوا نہوں نے خود قائم کیا تھا اور جس کا امام ابی بن کعب اور تمیم داری کو مقرر کیا تھا ۔ جیسا کہ بخاری کی اس روایت سے ثابت ہوتاہے :
عن عبدالرحمن بن عبد القاری انہ قال خرجت مع عمر بن الخطاب لیلة فی رمضان الی المسجد فاذا الناس اوزاع متفرقون ... فقال عمر انی اری لو جمعت ہٰولاء علی قارٔ واحد لکان امثل ثم عزم فجمعہم علی ابی بن کعب ثم خرجت معہ لیلة اخری والناس یصلون بصلوة قارئہم .................. ( بخاری ص٢٦٩ ج١ )
یعنی عبدالرحمن بن عبد بیان کرتے ہیں کہ رمضان شریف مین ایک رات کو میں حضرت عمر کے ساتھ مسجد میں گیا ۔ دیکھا کہ لوگ منتشر طور پر نمازیں پڑھ رہے ہیں ۔ کوئی تنہا پڑھ رہا ہے کسی کے پیچھے چند آدمی شامل ہیں ۔ حضرت عمر نے فرمایا میرا خیال ہو رہا ہے کہ ان سب لوگوں کو ایک ہی امام کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ بہتر ہو گا ۔ (کچھ غور خوض کے بعد) انہوں نے اپنی یہ رائے پختہ کر لی اور لوگوں کو ابی بن کعب کے پیچھے اکٹھے ہونے کا حکم دے دیا ۔ (عبدالرحمن بن عبد کہتے ہیں ) پھر میں کسی دوسری شب میں حضرت عمر کے ساتھ ہی مسجد میں آیا تو دیکھاکہ لوگ اپنے انہی امام (ابی بن کعب) کے پیچھے نماز (تراویح) پڑھ رہے ہیں ........................
اور یہ معلوم ہو چکا کہ حضرت ابی بن کعب کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گیارہ رکعتیں پڑھانے کا حکم دیا تھا اور وہ اسی کے مطابق پڑھاتے بھی تھے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی جماعت کا معائنہ کرنے آتے بھی تھے ۔ تو اب یہ بات بالکل صاف ہو جاتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس جماعت کا معائنہ فرمانے آتے تھے جو گیارہ رکعتیں پڑھتی تھی ۔ وہ جماعت جو بیس رکعات پڑھتی تھی اس کا معائنہ بھی حضرت عمر فرماتے تھے ، صحیح حدیثوں سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ۔ ا سلئے نہ یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قولی سنت ہوئی اور نہ تقریری ۔ بلکہ کیارہ رکعت یہی ان کی قولی سنت بھی ہے ا ور تقریری بھی ۔
ثالثًا چلئے مان لیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علم و اطلاع میں یہ بات تھی کہ لوگ بیس رکعتیں پڑھتے ہیں ۔ اس تقدیر پر آپ کا بڑا اعتراض یہ ہے کہ جب فرمان فاروقی گیارہ رکعات پڑھنے کا تھااور اس کے باوجود لوگ بیس رکعتیں پڑھتے تھے تو
اس کا مطلب یہ ہو ا کہ عہد فاروقی کے صحابہ وتابعین نے ان کے حکم کی خلاف ورزی کی ۔ ا س کی وجہ اس کے سوا کوئی دوسری نہیں ہو سکتی کہ ان کے علم میں بیس کی کوئی ایسی زبردست دلیل تھی جو وجوب اطاعت خلیفہ کی حدیثوں سے بڑھ کر واجب العمل تھی ......... خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنی حکم کی اس خلاف ورزی پر کوئی نکیر نہیں فرمائی ۔ روکنے کے بجائے اس کو برقرار رکھا ۔ (تلخیص از رکعات ص٦٩ ، ٧٠)
جوابًا گزارش ہے کہ گیارہ اور بیس رکعات کے مسئلہ پر ہمارے اور آپ کے درمیان جو اختلاف ہے اس اختلاف کی نوعیت کیا ہے ؟ شروع میں یہ بات اچھی طرح سمجھا دی گئی ہے ۔ لیجئے ایک بار پھر سن لیجئے کہ یہ اختلاف معروف و منکر او راطاعت و معصیت کا اختلاف نہیں ہے ۔ بلکہ افضل اور غیر افضل، یا فعل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت اور غیر ثابت کا اختلاف ہے ۔ تراویح بجائے خود ایک نفل نماز ہے نہ یہ خود واجب ہے اور نہ اس کی رکعتوں کی کوئی خاص تعداد واجب ہے ۔
اس لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گیارہ رکعات کے پڑھنے کا جو حکم دیا تھا ، تو اس کا منشا یہ نہ تھا کہ اس تعداد کی پابندی واجب ہے ، بلکہ یہ تو افضل عمل کے لئے ایک مشورہ اور راہ نمائی تھی ۔ جیسا کہ تراویح کے متعلق انہوں نے فرمایا تھا والتی ینامون عنہا افضل من التی یقومون فیہا ۔ حافظ ابن حجررحمة اللہ علیہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں : ہٰذا تصریح منہ بان الصلوٰة فی اٰخر اللیل افضل من اولہ ۔ (فتح الباری ص٢٠٤ ص٤) یعنی اس فقرہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ (تراویح و تہجد کی ) نماز آخر شب میں پڑھنا ، اول شب میں پڑھنے سے افضل ہے ۔
لیکن اس کے باوجود لوگ اوّل شب میں پڑھتے تھے اور آج تک پڑھتے ہیں ۔ اسی طرح گیارہ کی تعداد کے متعلق بھی چوں کہ امر وجوبی نہ تھا اور اختلاف کی گنجائش خود خلیفہ ہی کی طرف سے موجود تھی ۔ اس لئے ''ان کے حکم کی خلاف ورزی'' کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
لہٰذا گر تکثیر رکوع و سجود کے شوق میں لوگ نفلی نماز کی رکعتوں کو زیادہ تعداد میں ادا کر رہے تھے تو فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے روکتے کیوں ؟ یہ کوئی معصیت او رمنکر کام تو تھا نہیں ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ افضلیت کے خلاف تھا۔ جیسے وقت کے لحاظ سے ان کا عمل افضلیت کے خلاف تھا ، مگر مگر اس کو برقرار رکھا ۔ اسی طرح اس کو بھی برقرار رکھا ۔
اس تقریر کے بعد ''علامہ'' مئوی کا بیس کی ''زبردست دلیل'' والا خواب تو شرمندہ تعبیر نہ ہو گا ۔ ہاں البتہ اتنا ضرور ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی گیارہ رکعتوں کو افضل اور بیس کو تطوعًا جائز سمجھتے تھے ۔ اسی لئے گیارہ کا حکم دیا اور بیس پر نکیر نہیں فرمائی ۔
یہی اہل حدیث کا مذہب بھی ہے ۔
یہ جواب تواس تقدیر پر ہے کہ بیس پر لوگوں کا عمل خود اپنی رائے اور اجتہاد کی بنیاد پر رہا ہو ، لیکن اگر وہ صورت رہی جو بیہقی ، زرقانی ، سیوطی ، ابن تیمیہ وغیرہم نے لکھی ہے ۔ (جس کی تفصیل آگے آئے گی) کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے گیارہ رکعات کا حکم دیا تھا پھر تطویل قرات سے جب لوگ گھبرائے تو اس میں تخفیف کر کے اس کے عوض میں رکعات کی تعداد بیس کر دی ...تو اس صورت میں بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم کی خلاف ورزی کا سوال ختم ہوجاتا ہے ۔ اور جب یہ سوال ختم ہو جائے گا تو اس واہمہ کے لئے بھی گنجائش باقی نہیں رہے گی کہ '' ان کے علم میں بیس کی کوئی ایسی زبردست دلیل تھی جو وجوب اطاعت خلیفہ کی حدیث سے بڑھ کر واجب العمل تھی ''۔
ہاں اس صورت میں یہ شبہہ ضرور پیدا ہو گا کہ گیارہ کا عمل عارضی تھا اور بیس کا آخری اور مستقل ۔ تو ان شاء اللہ اس کا جواب ہم آئندہ تفصیل سے دیں گے ۔ اس سے پہلے ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ مولانا مئوی کے ان شبہات کا جواب دے دیں جو گیارہ رکعات والے فرمانِ فاروقی پر انہوں نے وارد کئے ہیں ۔ وما توفیقی الا باﷲ ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
فرمان فاروقی سے جان چھڑانے کے لئے''علامہ'' مئوی کا اضطراب
گیارہ رکعات کی بابت فرمانِ فاروقی والی جس روایت کا حوالہ ہم نے اوپر دیا ہے وہ باصول محدثین بالکل صحیح اور قابل ا حتجاج ہے ۔ کسی محدث نے بھی اس کو قابل ردقرار نہیں دیا ہے ۔ خود علمائِ احناف بھی اس کی صحت کو تسلیم کرتے ہیں ۔ مولانا نیموی نے لکھا اسنادہ صحیح (آثار السنن ص٥٢ ص٢) علامہ طحاوی نے شرح معانی الاثار جلد اوّل ص١٧٣ میں اس روایت کو تین رکعت وتر کے ثبوت میں پیش کیا ہے اور کسی قسم کا کوئی ادنیٰ کلام بھی نہیں کیا ہے ۔ مولانا مئوی کے اصول کے مطابق اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ طحاوی کے نزدیک یہ روایت صحیح اور قابل حجت ہے ۔ طحاوی حدیث دانی کے اعتبار سے علمائِ احناف کے نزدیک کیا مقام رکھتے ہیں اس کے بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ علامہ سیوطی نے اس روایت کی نسبت لکھا ہے ۔ سندہ فی غایة الصحة (المصابیح ص٨) مؤطا امام مالک میں بھی یہ روایت موجود ہے او رمؤطا کی مرسل او رمنقطع روایتوں کو مولانا مئوی صحیح سمجھتے ہیں ۔ ......... (دیکھو رکعات ص٦٣،٦٤) تو پھر اس متصل روایت کی صحت میں کیا کلام ہو سکتا ہے ۔
اس لئے اس روایت کو دیکھ کر مولانا مئوی کو بڑا اضطراب لاحق ہوا اور جان چھڑانے کے لئے اس فکر میں پڑے کہ کسی نہ کسی طرح ا س پر کوئی جرح کی جائے ۔ کچھ نہ ملا تو راویوں کے تعبیر و بیان کے تھوڑے سے لفظی اختلاف سے ہی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ۔ اور اسی کو خوب پھیلا کر اور نمایاں کر کے پیش کر دیا او رعوام کو مغالطہ دینے کے لئے یہ دعویٰ کر دیاکہ ''اصول حدیث کی رو سے یہ روایت مضطرب ہے '' ۔ (رکعات ص٨)
لطف یہ ہے کہ ساتھ ہی ترجیح و تطبیق کی بعض صورتیں بھی نقل کی ہیں ، حالانکہ اصولِ حدیث کا ایک معمولی طالب علم بھی جانتا ہے کہ جو اختلاف ترجیح یہ تطبیق کے ذریعے دو رہو سکتا ہو ا س کو اصطلاحًا اضطراب نہیں کہا جاتا اور نہ وہ روایت عند المحدثین مضطرب ہوتی ہے ۔ حافظ ابن الصلاح لکھتے ہیں :
المضطرب من الحدیث ہو الذی تختلف الروایة فیہ فیرویہ بعضہم علیٰ وجہ وبعضہم علیٰ وجہ اٰخر مخالف لہ وانما تسمیہ مضطربا اذا تساوت الروایات اما اذا ترجحت احداہما بحیث لا تقاومہا الاخریٰ بان یکون راویہا احفظ واکثر صحبة للمروی عنہ اوغیر ذالک من وجوہ الترجیحات المعتمدة فالحکم للراجحة ولا یطلق علیہ حینئذٍ وصف المضطرب ولا لہ حکمہ انتہیٰ (مقدمہ ص٣٥ ، ٣٦)
حافظ ابن حجر فتح الباری جلد سابع ص٣٨٢ طبع مصر میں لکھتے ہیں :
وہذہ عادتہ (ای عادة البخاری) فی الروایات المختلفة اذا رجح بعضہا عندہ اعتمدہ واشار الیٰ البقیة وان ذلک لا یستلزم القدح فی الروایة الرجحة لان شرط الاضطراب ان تتساوی وجوہ الاختلاف فلا یرجح شیٔ منہا انتہیٰ ۔
یہی حافظ ابن حجر مقدمۂ فتح الباری میں لکھتے ہیں :
الاختلاف علٰی الحفاظ فی الحدیث لا یوجب ان یکون مضطربا الا بشرطین احداہما استواء الوجوہ الاختلاف فمتی رجح احد الاقوال قدم ولا یعمن الصحیح بالمرجوح وثانیہما مع الاستواء ان یعتذر الجمع علیٰ قواعد المحدثین انتہٰی ۔
ان سب عبارتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اضطراب کے لئے شرط یہ ہے کہ وجوہ اختلاف سب برابر ہوں ۔ کسی کو کسی پر ترجیح نہ ہو اور نہ جمع و تطبیق کی صورت ممکن ہو ۔اگر ترجیح یا تطبیق ممکن ہو تو اس کو اضطراب نہیں کہتے اور نہ یہ اختلاف حدیث کے لئے کچھ مضر ہے ۔
اس لئے حدیث زیر بحث کے اختلاف کی بابت ترجیح یا تطبیق کی صورتوں کو جانتے ہوئے بھی اس کو ''مضطرب'' کہنا فن اصول سے بے خبری کی دلیل ہے ۔ یاعوام کی ناواقفیت سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش ہے ۔
بہر حال اب ہم ان اختلافات کو آپ کے سامنے رکھتے ہیں جن کو مئوی صاحب ''اضطراب'' سمجھ رہے ہیں ۔
مولانا مئوی نے اگرچہ راویوں کے اس لفظی اختلاف کی ''لذیذ حکایت'' کو بڑی دراز نفسی کے ساتھ بیان کیا ہے ، مگر تلخیص کے بعد اختلاف کی صرف دو صورتیں قابل ذکر نکلتی ہیں ۔
پہلی یہ کہ ایک استاد کے پانچ شاگردو ں میں سے صرف ایک شاگرد نے اس کا ذکر کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گیارہ رکعت پڑھنے کا حکم دیا تھا ۔ باقی چار شاگرد اس کے ذکر سے خاموش ہیں ۔ یعنی ان کی روایت میں حکم دینے کا ذکر نہیں ہے ۔
دوسری یہ کہ رکعات کی تعداد میں اختلاف ہے ۔ تین شخصوں نے گیارہ کا عدد بیان کیا ہے ایک نے تیرہ کا ۔ ایک نے اکیس کا ۔
اس اجمال کے بعد اختلاف کی ان دونوں صورتوں کی تفصیل الگ الگ خود مولانا مئوی کی زبان سے سنئے ۔

پہلے اختلاف کی تفصیل :
''سائب کے اثر کو ان سے محمد بن یوسف نقل کرتے ہیں اور محمد بن یوسف کے پانچ شاگرد ہیں ۔ (١) امام مالک (٢)یحی قطان (٣) عبدالعزیز بن محمد (٤) ابن اسحاق (٥) عبدالرزاق کے استاد ۔ او ران پانچوں میں سوائے امام مالک کے کوئی دوسرایہ بیان نہیں کرتا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گیارہ کا حکم دیا ......... امام مالک اگرچہ اما م اور حافظ ہیں ، مگر دوسرے چا رراوی بھی اہل حدیث کی تصریحات کے بموجب ثقہ اور حافظ ہیں ، بلکہ ان میں سے یحیٰ تو حافظہ ہیں امام مالک کی ٹکر کے ہیں ۔ لہٰذا ایک ثقہ حافظ کے مقابلہ میں چار ثقہ حافظوں کا بیان ترجیح پائے گا اور اس اثر سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سرے سے حکم دینا ہی ثابت نہ ہو سکے گا ''۔ (رکعات ص٣٧ ، ٣٨)

اس کا جواب
قارئین سے ہماری درخواست ہے کہ وہ اس اختلاف کی نوعیت کو پہلے اچھی طرح سمجھ لیں ۔ اس کے بعد ہمارے جواب پر غور کریں ۔ اختلاف کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ امام مالک نے جو بات بیان کی ہے دوسرے روایوں نے اس کا انکار اور اس کی نفی کی ہے ۔ تاکہ دونوں میں منافات لازم آئے ، بلکہ صورت یہ ہے کہ امام مالک کی روایت میں حکم دینے کاذکر ہے اور دوسروں کی روایت میں اس کاذکر نہیں ہے ۔ بالفاظ دیگر دوسروں نے جس بات کے ذکر سے سکو ت کیا ہے ۔ (نفی نہیں کی ہے ) امام مالک کی روایت میں اس کااظہار اور بیان ظاہر ہے کہ ''سکوت''اور ''بیان'' میں کوئی منافات اور معارضہ نہیں ہے ۔ گویا امام مالک( جو چار مشہور اماموں میں ایک جلیل القدر ، ثقہ ، حافظ اور متقن امام ہیں ) کی روایت میں ایک ایسی ''زیادتی ''پائی جاتی ہے جو دوسرے ثقات کی روایت کے منافی اور معارض نہیں ہے اور کسی ثقہ کی ایسی ''زیادتی'' بالاتفاق محدثین مقبول و معتبر ہے۔ ایسا اختلاف ہرگز کسی قدح اور جرح کا موجب نہیں ہے ۔ حافظ ابن الصلاح لکھتے ہیں :
اذا انفرد الراوی بشٔ نظر فیہ فان کان ما انفرد بہ مخالفا لما راوہ من ھو اولی منہ بالحفظ لذلک واضبط کان ما تفرد بہ شاذا مردوداً وان لم یکن فیہ لما رواہ غیرہ وانما امر رواہ ھو ولم یروہ غیرہ فینظر فی ھذا الراوی المنفرد فان کان عدلا حافظاً موثوقاً باتقانہ وضبطہ قبل ما انفرد بہ ولم یقدح الانفراد فیہ الخ (مقدمہ ص ٣٠)
جب راوی کسی بات کے بیان کرنے میں متفرد ہو تو دیکھا جائے گا کہ اس کی یہ بات اس سے زیادہ حفظ و ضبط والے راویوں کی بات کے مخالف ہے یا نہیں ۔ اگر مخالف ہے تو یہ شاذ اور مردود ہے اور اگر مخالف نہیں ہے بلکہ یہ صورت ہے کہ اس نے جو بات کہی دوسروں کی روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے تو ایسی حالت میں اگر یہ منفرد راوی ثقہ اور قابل اعتماد ہے تو اس کی بات مقبول ہو گی اور اس کے انفراد کی وجہ سے یہ روایت مجروح نہ ہو گی ۔
دیکھئے حافظ ابن صلاح نے صاف صاف لکھ دیا ہے کہ اگر منفرد راوی ثقہ اور حافظ ہے تو صرف کسی بات کے ذکر اور عدم ذکر کے اختلاف کی وجہ سے اس منفرد راوی کی بات نا مقبول نہیں ہو گی اور نہ وہ روایت مجروح قرار دی جائے گی ۔ یہی حافظ ابن الصلاح آگے چل کر ص ٣٣ پر لکھتے ہیں :
وقد ریت تقسیم ما ینفرد بہ الثقة الی ثلثة اقسام احدھا ان یقع مخالفاً منا فیاً لما رواہ سائر الثقات فھذا حکمہ الرد کما سبق فی نوع الشاذ الثانی ان لا یکون فیہ منافاة ومخالفة اصلا لما رواہ غیرہ کالحدیث الذی تفرد بروایة جملتہ ثقة ولا تعرض فیہ لما رواہ الغیر لمخالفة اصلا فھذا مقبول وقد ادعی الخطیب فیہ اتفاق العلماء علیہ وسبق مثالہ فی نوع الشاذ الثالث ما یقع بین ھاتین المرتبتین مثل زیادة لفظة فی حدیث لم یذکر ھا سائر من روی ذلک الحدیث مثالہ ... فاخذبھا غیر واحد من الئمة واحتجوا بھا منھم الشافعی و احمد رضی اللہ عنہم انتھی ۔
اس عبارت کا حاصل بھی یہی ہے کہ کسی ثقہ راوی کی زیادتی اسی صورت میں نا مقبول اور مردود ہے جب کہ وہ دوسروں کی روایت کے منافی اور معارض ہو ۔ اسی بات کو حافظ ابن حجر نے زیادہ وضاحت کے ساتھ لکھا ہے ۔ فرماتے ہیں :
وزیادة اویھما ای الصحیح والحسن مقبولة ما لم تقع منافیة لروایة من ھو اوثق ممن لم یذکر تلک الزیادة لان الزیادة اما ان تکون لا تنافی بینھا وبین روایة من لم یذکرھا فھذہ تقبل مطلقاً لانھا فی حکم الحدیث المستقل الذی یتفرد بہ الثقة ولا یرویہ عن شیخہ غیرہ واما ان تکون منافیة بحیث یلزم من قبولھا رد الروایة الاخری فھذہ ھی التی یقع الترجیح بینھا وبین معارضھا فیقبل الراجح ویرد المرجوح انتھی (شرح نخبہ ص ٣٧) ۔
یعنی صحیح اور حسن حدیث کے راوی کی زیادتی جب تک دوسرے اوثق راوی کی روایت کے (جس نے یہ زیادتی ذکر نہیں کی ہے) بالکل منافی اور معارض نہ ہو ۔ مطلقاً مقبول ہے ۔ ہاں اگر ثقہ راوی کی زیادتی اوثق راوی کی روایت کے اس طرح مخلاف اور منافی ہے کہ اس کے مان لینے سے اوثق کی روایت کا رد کرنا لازم آتا ہے تو ایسی صورت میں وجوہ ترجیح پر غور کر کے راجح مقبول ہو گی اور مرجوح رد کر دی جائے گی ۔
حافظ کے اس بیان کی رو سے امام مالک کی زیر بحث روایت کے مقبول ہونے میں تو کوئی شبہ ہی نہیں ہو سکتا ۔ اس لئے کہ یہاں امام مالک اور دوسروں کے بیان میں نہ تو منافات ہے اور نہ دوسرے امام مالک کے مقابلہ میں اوثق ، احفظ اور اضبط ہی ہیں ۔
یہی حافظ ابن حجر ''مقدمہ فتح الباری'' ٢/٨٢ میں لکھتے ہیں :
ما تفرد بہ بعض الرواة بزیادة فیہ دون من ھو الثر عددا او اضبط ممن یذکرھا فھذا لا یؤثر التعلیل بہ الا ان کانت الزیادة منا فیة بحیث یتعذر الجمع اما ان کانت الزیادة لامنافاة فیھا بحیث تکون کالحدیث المستقل فلا اللھم الا ان وضع بالدلائل القویة ان تلک الزیادة مدرجة فی المتن من کلام بعض رواتہ فما کان من ھذ القسم فھو مؤثر انتھی ۔
دیکھئے حافظ صاف لکھ رہے ہیں کہ اگر کوئی راوی کسی بات کے بیان کرنے میں منفرد ہو اور دوسرے راوی جو تعداد میں زیادہ ہوں یا حافظہ میں بڑھ کر ہوں ، اس بات کو ذکر نہ کریں تو اس کی وجہ سے متفرد راوی کی حدیث معلول نہیں ہو گی مگر یہ کہ دونوں کے مدلول و مفہوم میں ایسی مخالفت اور منافات ہو کہ جمع و تطبیق متعذر ہو ۔ اگر دونوں کے مفہوم میں کوئی منافات نہیں ہے تو حدیث بلا شبہ مقبول ہو گی ۔
الحاصل محدثین کے فیصلے کی رو سے امام مالک کا یہ بیان قطعاً صحیح ، مقبول اور قابل حجت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گیارہ رکعات پڑھانے کا ''حکم'' دیا ۔ کسی دیانت دار ، حق پسند کے لئے اس سے جان چھڑانا ناممکن ہے اور اس اختلاف کی بابت یہ کہنا از روئے اصول بالکل غلط ہے کہ ''ایک ثقہ حافظ کے مقابلہ میں چار ثقہ حافظوں کا بیان ترجیح پائے گا'' ۔ اس لئے کہ ان کے بیانوں میں کوئی منافات اور معارضہ نہیں ہے ۔
اب دوسرے اختلاف کی تفصیل سنیئے :
دوسرے اختلاف کی دلیل : علامہ مئوی لکھتے ہیں :
''عبدالرزاق کے استاد تو سرے سے گیارہ کا نام ہی نہیں لیتے بلکہ وہ اکیس کا عدد ذکر کرتے ہیں ۔ اسی طرح ابن اسحق بھی گیارہ کے بجائے تیرہ کا عدد ذکر کرتے ہیں ، باقی یح ا ور عبدالعزیز گیارہ کا عدد ضرور ذکر کرتے ہیں مگر یہ نہیں کہتے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے گیارہ کا حکم دیا ہے'' (رکعات ص ٣٨)
اس کا جواب : حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حکم دیا یا نہیں اور اگر دیا تو کتنی رکعات کا ؟ اس کی تفصیلی بحث گذر چکی اور اس کے متعلق مولانا مئوی کی تمام تشکیکات و تلبیسات کا پردہ چاک کر کے ہم نے بتا دیا کہ حقیقت کیا ہے ۔ اس لئے اب اس بحث سے قطع نظر کرکے صرف تعداد رکعات کے اختلاف کی بابت ''علامہ'' مئوی کے اضطراب کو دور کرنا ہے ۔ ہم نے پہلے بتایا ہے کہ اس اختلاف کی بابت مولانا مئوی نے ترجیح اور تطبیق کی بعض صورتیں اپنی کتاب میں ذکر کی ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس روایت کو ''مضطرب'' کہہ کر فن اصول سے اپنی ناواقفیت کا ثبوت دیا ہے ۔ یا عوام کو مظالطہ میں ڈالنے کے لئے تجاہل سے کام لیا ہے ۔ بہرحال مئوی صاحب نے جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ درج ذیل ہے :
''اس اختلاف میں ابن اسحاق جو خود راوی اثر ہیں انہوں نے تیرہ کو ترجیح دی ہے اور ابن عبدالبر نے اکیس کو ترجیح دی ہے اور گیارہ کو وہم قرار دیا ہے ۔ لہذا اس اثر سے گیارہ کا ثبوت بھی نہ ہو سکے گا ، الا یہ کہ گیارہ کی ترجیح کسی محدث سے ثابت کی جائے ۔ ہم دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ اگلے محدثین میں سے کسی ایک محدث سے بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ اس تیرہ اور اکیس کے مقابل میں گیارہ کو ترجیح دی ہے ۔ محدثین نے ترجیح اگر دی ہے تو تیرہ یا اکیس کو ورنہ یوں تطبیق دی ہے کہ پہلے گیارہ رکعتیں تھی بعد میں اضافہ کر دیا گیا '' ۔ (رکعات ص ٣٩)
ترجیح یا تطبیق کے متعلق ان اقوال کے نقل کرنے سے مولانا مئوی کا منشا دراصل روایت کے اختلاف کو دور کرنا تو ہے نہیں ، بلکہ ان کی اصل غرض تو گیارہ رکعات کی بابت لوگوں کو شک اور التباس میں ڈالنا ہے ، اسی لئے انہوں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان اقوال میں بعض مردود اور غلط ہیں ، ان کو بھی بلا دریغ نقل کر دیا ہے اور ان کی کمزوری اور غلطی کی طرف کوئی ادنیٰ سا اشارہ بھی نہیں کیا ہے ۔ کیا یہ شرمناک تعصب اور افسوسناک بددیانتی نہیں ہے ؟ ۔
بلا شبہ ابن عبدالبر نے گیارہ کو امام مالک کا وہم قرار دیا ہے اور اس لفظ کی روایت میں ان کو متفرد کہا ہے ، لیکن مصابیح ، زرقانی شرح مؤطا ، تحفت لاخیار جن تین کتابوں کا آپ نے اس موقع پر حوالہ دیا ہے ان تینوں کتابوں میں جہاں ابن عبدالبر کا یہ قول منقول ہے وہیں ساتھ ہی اس کی مدلل تردید بھی موجود ہے ۔ معلوم نہیں یہ آپ کی ''کرامت'' ہے یا ''حسن اتفاق'' کہ ابن عبدالبر کے اس قول پر تو آپ کی نظر پڑی ، مگر اس کی تردید جو وہیں موجود تھی ، آپ کو نظر نہ آئی ایسے تعصب سے خدا کی پناہ ۔
اور تو اور مئوی صاحب کے علامہ شوق نیموی نے بھی ابن عبد البر کے اس قول کی پرزور تردید کی ہے : لکھتے ہیں
قلت ما قالہ ابن عبدالبر من وھم مالک فغلط جداً لان مالکا قد تابعہ عبدالعزیز بن محمد عند سعید بن منصور فی سننہ ویح بن سعید القطان عند ابی بکر بن ابی شیبة فی مصنفہ کلاھما عن محمد بن یوسف وقالا احدی عشرة کما رواہ مالک عن محمد بن یوسف انتھی (تعلیق اثار السنن ص ٥٢ جلد ٢) ۔
یعنی'' ابن عبدالبر نے گیارہ کے عدد کو جو امام مالک کا وہم قرار دیا ہے یہ بات ان کی بالکل غلط ہے ۔ امام مالک اس لفظ کی روایت میں متفرد نہیں ہیں ، بلکہ یح بن سعید قطان اور عبدالعزیز بن محمد نے بھی ان کی متابعت کی ہے اور جیسے ا مام مالک نے محمد بن یوسف سے گیارہ کا عدد روایت کیا ہے ویسے ہی ان دونوں نے بھی ابن یوسف سے یہی عدد نقل کیا ہے '' ۔
اسی تعصب کے جوش میں مئوی صاحب کو خود اپنے گھر کی خبر ہی نہیں رہی اور یہ نہ سوچا کہ اگر ابن عبدالبر نے گیارہ کو وہم قرار دے کر اکیس کو ترجیح دی ہے تو اس کی زد میں حنفی مذہب بھی آ جاتا ہے اس لئے کہ اس صورت میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اکیس رکعت وتر کے ساتھ تھیں یا بغیروتر کے ۔ اگر وتر کے ساتھ تھی تو وتر ایک رکعت تھی یا تین ۔ اگر ایک تھی تو حنفیہ کا یہ مذہب باطل ہوا کہ وتر تین رکعت سے کم جائز نہیں ہے ۔ اور اگر وتر تین تھی تو تراویح کی رکعتیں اٹھارہ ہوئیں ۔ پھر بیس پر ''اجماع'' کا حشر کیا ہو گا ؟ نیز اس کا کیا بنے گا کہ بیس رکعت سنتِ مؤکدہ ہے ۔ اس کا تارک گنہ گار ہے اور شفاعتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے محروم ؟
سچ ہے نسوا اﷲ فانساھم انفسھم
اس روایت میں اکیس کا عدد بیان کرنے وا لے صرف ایک شخص عبدالرزاق کے استاد ہیں ۔ اگر ان کا ثقہ اور حافظ و ضابطہ ہونا تسلیم بھی ہو تب بھی یہ تو یقینی ہے کہ ان اوصاف میں وہ امام مالک کے برابر نہیں ہیں ۔ تو اگر امام مالک گیارہ کا عدد بیان کرنے میں متفرد بھی ہوتے جب بھی تنہا انہیں کا بیان عبدالرزاق کے شیخ کے مقابلہ میں راجح ہوتا ۔ چہ جائیکہ امام مالک کے ساتھ یح قطان (وہی یح جو باقرار مولانا مئوی حافظہ میں امام مالک کی ٹکر کے ہیں ) اور عبدالعزیز بن محمد جیسے حفاظ و متقنین بھی ہوں تو کون انصاف پسند کہہ سکتا ہے کہ گیارہ کا عدد وہم ہے اور اکیس کا راجح ۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
ولا یتشکک من لہ ادنی مما رسة بالعلم واخبار الناس ان مالکا لو شا فھہ بخبر علم انہ صادق فیہ فاذا الضناف الیہ ایضا من ھو فی تلک الدرجة از داد قوة و بعد علمایخشی علیہ من السھو
یعنی جس کو علم حدیث اور روایات کے ساتھ ادنی لگاؤ بھی ہو گا وہ اس میں شک نہیں کر سکتا کہ بالفرض اگر امام مالک آمنے سامنے ہو کر خود اس کی خبر دیتے تو وہ یقینا ان کو اس خبر میں سچا جانتا تو جب امام مالک کے
انتھی (شرح نخبہ ص ٢١ )
ساتھ انہی جیسا کوئی دوسرا حافظ ضابط اس خبردینے میں شریک ہو تب تو ظاہر ہے کہ اس کی قوت اور بڑھ جائے گی اور سہو کا جو احتمال اور خطرہ تھا وہ بھی دور ہو جائے گا ''
اور یہ کہنا تو نری ڈھٹائی اور عصبیت کی بات ہے کہ ''اس اثر سے گیارہ کا ثبوت بھی نہ ہو سکے گا'' ۔ گیارہ کے ثبوت اور ترجیح کی دلیل اس سے بڑھ کر اور کیا چاہئیے کہ تین تین ائمہ ثقات و حفاظ اس کے راوی اور ناقل ہیں وہ ائمہ جن کی ثقاہت اورحفظ و ضبط عندالمحدثین شہرت عام رکھتی ہے اور ان کے مقابلہ میں صرف ایک شخص اکیس کا عدد بیان کرتا ہے اور وہ بھی ایسا شخص جس کے حفظ و ضبط کا ثبوت محتاجِ دلیل ہے یا کم از کم یہ کہ ان ائمہ ثقات کا مقابلہ کا نہیں ہے ۔
الغرض اس تحقیق کے بعد قواعد محدثین کے مطابق اس میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ اس روایت میں گیارہ کا عدد ثابت اور متحقق ہے اور اس کے خلاف اکیس کا عدد ہرگز ثابت نہیں ہے ۔
مولانا مئوی یح اور عبدالعزیز کی متابعت کے متعلق بھی ایک ''دلچسپ اضطراب'' میں مبتلا ہیں چنانچہ لکھتے ہیں :
''یہ تینوں (یعنی امام مالک ، یح ، عبدالعزیز) گیارہ کا لفظ بولنے میں تو بے شک متفق ہیں مگر گیارہ کے باب میں تینوں تین بات کہتے ہیں ۔ ایک کہتا ہے کہ حضرت عمر نے گیارہ کا حکم دیا ہے ۔ دوسرا کہتا ہے کہ ابی اور تمیم گیارہ پڑھتے تھے اور تیسرا کہتا ہے کہ ہم گیارہ پڑھتے تھے یعنی روایت کا مضمون بیان کرنے میں تینوں باہم مختلف ہیں '' ۔ (رکعات ص ١٠ ، ١١)
اولا میں مولانا مئوی سے یہ پوچھتا ہوں کہ جب آپ کو یہ تسلیم ہے کہ گیارہ کا لفظ بولنے میں تو بے شک تینوں متفق ہیں '' تو پھر یہ جانتے اور مانتے ہوئے آپ نے ابن عبدالبر کے اس اعتراض کو کیوں اہمیت دی کہ ''گیارہ کا لفظ بولنے میں امام مالک متفرد ہیں اور یہ ان کا وہم ہے '' ۔ اور اس بنیاد پر آپ نے یہ کیسے نتیجہ نکال لیا کہ ''اس اثر سے گیارہ کا ثبوت بھی نہ ہو سکے گا'' ۔ کیا ''محدثانہ احتیاط اور منصفانہ طرز گفتگو'' اسی کا نام ہے ؟ خود رافضیحت دیگراں را نصیحت اسی کو کہتے ہیں ۔
ثانیاً آپ کو معلوم ہونا چا ہئے کہ ہر اختلاف کو محدثین ''اضطراب'' اور حدیث کے لئے موجب قدح و ضعف قرار نہیں دیتے ۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
فالتعلیل بجمیع ذلک من اجل مجرد الاختلاف غیر قادح اذلا یلزم من مجدد الاختلاف یوجب الضعف ... (مقدمہ فتح الباری ص ٢٨ جلد ٢)
حافظ کا یہ قول پہلے گذر چکا کہ اضطراب کے لئے شرط یہ ہے کہ وجوہ اختلاف برابر ہوں اور ان میں بقواعدِ محدثین و تطبیق متعذر ہو ۔
اس قاعدہ کی رو سے مذکورہ بالا تینوں باتوں میں کوئی اضطراب نہیں ہے ، بلکہ تینوں کا مضمون باہم ایک دوسرے کے ساتھ بالکل مربوط ہے اور تینوں کے ملانے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سائب نے محمد بن یوسف کے سامنے یہ تینوں باتیں کہیں تھیں ۔ اور گویا اس طرح کہی تھیں کہ حضڑت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو امام بنایا اور ان دونوں کو حکم دیا کہ لوگوں کو گیارہ رکعتیں پڑھائیں (ان کے حکم کے مطابق) یہ دونوں گیارہ رکعتیں پڑھاتے تھے اور ہم لوگ (ان کے پیچھے) گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے ۔ محمد بن یوسف نے اپنے شاگردوں کے سامنے سائب کی یہ تینوں باتیں بیان کیں ۔ پھر ان کے شاگردوں نے حسب موقع ان باتوں کو الگ الگ نقل کر دیا ۔ بتائیے اس میں کیا تناقض اور تضاد ہے ؟
اختلاف کی اس نوعیت کو چھوڑ کر آپ مطلقاً لفظی اختلافات کو اہمیت دیں گے اور کسی بات کے ذکر اور اس کے عدم ذکر کو بہر صورت ''اضطراب'' قرار دیں گے تو یاد رکھئے کہ اس کا اختلاف تو حضرت سائب کے دوسرے شاگرد یزید بن خصیفہ کے شاگردوں میں بھی موجود ہے ۔ حالانکہ انکے متعلق آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ ''اس کے رواة میں کوئی ادنی اختلاف بھی نہیں ہے '' ۔ اور یزید کے دونوں شاگرد متفق اللفظ ہو کر یزید سے اور یزید حضرت سائب سے روایت کرتے ہیں کہ لوگ عہد فاروقی میں بیس پڑھتے تھے (رکعات ص ٤٠ ، ٤١) ۔
''متفق اللفظ'' ہوکر اور ''ادنی اختلاف بھی نہیں '' کے ادعائی مبالغہ کو سامنے رکھیے اور یزید بن خصیفہ کے شاگردوں کی روایتوں کے مندرجہ ذیل الفاظ پر غور کیجئے ۔ یزید بن خصیفہ کے ایک شاگرد ابن ابی ذئب کا بیان یہ ہے :
عن یزید بن خصیفة عن السائب بن یزید قال کانوا یقومون علی عھد عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فی شھر رمضان بعشرین رکعة قال و کانوا یقرؤن بالمئین وکانوا یتوکؤن علی عصیھمفی عھد عثمان بن عفان من شدة القیام رواہ( البیھقی ج ٢ ص ٤٩٦) ۔
اور یزید کے دوسرے شاگرد محمد بن جعفر کا بیان یہ ہے :
حدثنی یزید بن خصیفة عن السائب بن یزید قال کنا نقوم فی زمان عمر بن الخطاب بعشرین رکعة والوتر انتھی (تعلیق ا
السنن ص ٥٤ ج ٢)

سرسری نگاہ ڈالنے سے بھی دونوں روایتوں کے الفاظ اور مضامین کا فرق نمایاں ہو جاتا ہے مثلاً
(١) ایک کہتا ہے ''لوگ بیس پڑھتے تھے '' (اپنا کیا عمل تھا اس کا کوئی ذکر نہیں )
(٢) دوسرا کہتا ہے ''ہم بیس پڑھتے تھے'' (دوسرے لوگوں کا کیا عمل تھا اس کا کوئی ذکر نہیں ) ۔
(٣) ایک کہتا ہے ''رمضان کے مہینے میں بیس پڑھتے تھے '' ۔
(٤) دوسرا رمضان یا غیر رمضان کسی مہینے کا کوئی نام نہیں لیتا ۔
(٥) ایک کہتا ہے ''بیس رکعت پڑھتے تھے'' (وتر کے ساتھ یا بغیر وتر کے ۔ اس کا کوئی ذکر نہیں ) ۔
(٦) دوسرا کہتا ہے ''بیس رکعت اور وتر پڑھتے تھے'' ۔
(٧) ایک کہتا ہے حضرت عثمان کے عہد میں شدت قیام کی وجہ سے لوگ اپنی اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے تھے ۔
(٨) دوسرے کی روایت میں نہ عہد ِ عثمان کا ذکر ہے اور نہ اس کیفیت ادا کا ۔

بتائیے بیس کا لفظ بولنے کے سوا اور کس بات میں ''دونوں متفق اللفظ'' ہیں ۔ تو اگر کسی تاویل و توجیہ کی بنیاد پر آپ اس روایت کو ''مضطرب'' نہیں سمجھتے اور ان نمایاں اختلافات کو کالعدم قرار دے کر پوری ڈھٹائی کے ساتھ یہ دعوی کر بیٹھتے ہیں کہ اس کہ تو پھر ہمیں یہ حق کیوں حاصل نہیں ہے کہ ہم بھی کسی معقول توجیہ کی بنا پر گیارہ والی روایت کے لفظی اختلاف کو کالعدم قرار دیں ۔ ماہو جوابکم فہو حوابنا ۔
گیارہ والی رویت کے متعلق ایک اوراہم اور قابل ذکر بات رہی جاتی ہے ۔وہ یہ کہ آئمہ متبوعین میں سے مشہور امام ،امام شافعی نے بھی اپنے استاذ امام مالک سے یہی تعداد روایت کی ہے ۔ امام بہیقی اپنی کتاب معرفتہ السنن و الآثار جلد اول ص ٤٤٧ میں نقل فرماتے ہیں :
قال الشافعی اخبرنا مالک عن محمد بن یوسف عن السائب بن یزید قال امر عمر بن الخطاب ابی بن کعب و تمیما الداری ان یقوما للناس باحدی عشرة رکعة الحدیث ۔ (رکعات التراویح ص ١٤ طبع کلکتہ )
یہ وہی معرفة السنن ہے جس کا حوالہ مولانا مئوی نے اپنے مذہب کی دوسری دلیل کے سلسلہ میں دیا ہے ۔ جس روایت میں سند کا یہ سلسلہ ہو وہ باصول محدثین راجح ہو گی اس روایت پر جو اس سے خالی ہو ۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :
ان ما احتف بالقرائن ارجح مما خلا عنھا والخبر المحتف بالقرائن انواع منھا ما اخرجہ الشیخان فی صحیحیھما ... الی ان قال ومنھا المسلسل بالائمة الحافظ المتقنین حیث لا یکون غریباً کالحدیث الذی یرویہ احمد بن حنبل مثلا ویشارکہ فیہ غیرہ عن الشافعی و یشارکہ فیہہ غیرہ عن مالک بن انس فانہ یفید العلم عند سامعہ بالاستدلال من جھتم جلالة وراتہ وان فیھم من الصفات الائقة الموجبة للقبول ما یقوم مقام العدد لکثیر من غیر ھم (شرح نخبہ ص ١٧ تا ٢١)
یعنی ''جو حدیث محتف بالقرائن (قرائن سے گھر ہوئی) اس کو اس حدیث پر ترجیح ہو گی جو ان قرائن سے خالی ہو ۔ حدیث محتف بالقرائن کی چند قسمیں ہیں ۔ انہیں میں سے وہ حدیث ہے جس کو شیخین (امام بخاری اور امام مسلم) نے اپنی اپنی صحیح میں روایت کیا ہو ... اور انہیں میں سے وہ حدیث ہے جس کی سند میں مسلسل ائمہ حفاظ ہوں ۔ بشرطیکہ وہ غیریب نہ ہو جیسے وہ حدیث جس کو مثلاً امام احمد بن حنبل امام شافعی سے روایت کریں اور کوئی دوسرا بھی اس میں ان کے ساتھ شریک ہو ۔ اسی طرح امام شافعی مالک سے روایت کریں تو اسناد کا یہ سلسلہ حدیث کے مضمون کے متعلق یقین پیدا کرے گا، کیونکہ اس کے راویوں کی جلالتِ شان اور ان میں ان صفات کا تحقق جو حدیث کی قبولیت کا باعث ہیں دوسروں کے مقابلے میں عدد کثیر کے قام مقام ہے '' ۔
غور کیجئے حافظ نے مسلسل بالائمہ کی جو مثال دی ہے اس میں اور گیارہ والی زیر بحث روایت کے سلسلہ اسناد میں صرف اتنا ہی فرق ہے کہ اس (گیارہ والی) میں امام احمد کا نام نہیں ہے ۔ باقی امام شافعی اور امام مالک ان دونوں اماموں کے اسمائے گرامی اس کی سند میں موجود ہیں اور دوسروں کی شرکعت و متابعت کے ساتھ موجود ہیں گویا مسلسل بالائمہ والی حدیث کی ترجیح کے جو وجوہ حافظ نے بیان کئے ہیں وہ مکمل طور پر نہیں تو بڑی حد تک گیارہ والی زیر بحث روایت میں متحقق ہیں ۔ اس کے بر خلاف اکیس والی اور تیرہ والی روایتیں ان وجوہ سے یکسر خالی ہیں ۔ اس لئے اصولاً گیارہ ہی والی روایت راجح اور مقبول ہو گی اور اس کے مقابلہ میں اکیس والی اور تیرہ والی روایتیں مرجوح اور غیر مقبول ہو گی ۔
فائدہ : محدث اعظم مبارک پوری رحمہ اللہ نے تحفت الاحوذی میں اکیس کی روایت کے مرجوح ہونے کی ایک وجہ یہ بتائی ہے کہ اس روایت کو تنہا عبدالرزاق اپنی کتاب میں لائے ہیں ۔ ان کے سوا کوئی دوسرا اس کو بیان نہیں کرتا ۔ وہ اگرچہ ثقہ حافظ ہیں لیکن آخر عمر میں وہ نابینا ہو گئے تھے ۔ ان کے حافظہ میں فرق آ گیا تھا کما صرح بہ الحافظ فی التقریب
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
دوسری طرف ان کے مقابل گیارہ کے راوی امام مالک ہیں جن کی شان میں حافظ نے لکھا ہے امام دار الھجرة رس المتقنین کبیر المتثبتین جن کی سند کو امام بخاری جیسے ناقد حدیث نے تمام دنیا کی اسانید میں اصح اور اعلی کہا ہے (قال البخاری اصح الاسانید کلھا مالک عن نافع عن ابن عمر کذا فی التقریب) پھر وہ عبدالرزاق کی طرح اس لفظ کی روایت میں متفرد بھی نہیں ہیں ، بلکہ وہ دو ثقہ اور متقن راوی ان کے متابع و مؤید ہیں جن میں ایک یح بن سعید القطان تو امام الجرح والتعدیل ہیں (جو باقرار مولانا مئوی حافظہ میں امام مالک کی ٹکر کے ہیں ) اس لئے اختلاف اور تعارض کی صورت میں یقینا امام مالک ہی کی روایت کو ترجیح ہو گی ۔ پس حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے اثر کی بابت گیارہ ہی کی روایت صحیح اور ثابت و محفوظ ہے ۔ اکیس کی روایت غیر محفوظ بلکہ وہم ہے ۔
حضرت مولانا مبارک پوری رحمة اللہ علیہ کے اس بیان پر مولانا مئوی نے تنقید کی ہے :
''اس کے جواب میں عرض ہے کہ عبدالرزاق نے کتاب نابینا ہونے سے پہلے لکھی ہے ۔ لہذا نابینائی کے بعد حافظہ خراب ہو جانے سے کتاب کی روایتوں پر کیا برا اثر پڑھے گا ہاں نابینائی کے بعد اپنی یاد سے جو روایتیں انہوں نے بیان کی ہوں ان پر شک کا اظہار کیجئے تو معقول بھی ہے '' ۔ (رکعات ص ١١)
افسوس ہے کہ مولانا مئوی نے محدث مبارک پوری کی بات سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور سچ تو یہ ہے کہ وہ اس کی کوشش کیوں کرتے ۔ جب کہ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ جواب کا نام ہو جائے ۔ چاہے کام ہو یا نہ ہو ... محدث مبارک پوری نے یہ نہیں کہا ہے کہ اکیس کی روایت اس لئے مرجوح ہے کہ وہ عبدالرزاق کے حافظہ کے تغیر کے بعد کی ہے ۔ ان کا منشا تو یہ ہے کہ یہ روایت تغیرِ حافظہ سے قبل کی سہی ، لیکن ہے ایسے راوی کی جس کے حافظہ پر جرح ہوئی ہے ۔ (اور ایسی جرح جس کا انکار مولانا مئوی بھی نہیں کر سکے ہیں ) ۔ اس کے بر خلاف گیارہ کی روایت ایسے امام کی روایت ہے جو حفاظ کا رئیس اور متثبتین کا سردار ہے جو اصح الاسانید کا تاجدار ہے جس کا حافظہ پوری زندگی میں کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی داغدار نہیں ہوا ۔ اور پھر ان تمام صفات وہ اس لفظ کی روایت میں متفرد بھی نہیں ہے ۔ بلکہ دو بڑے حافظ و ضابط اس کے مؤید ہیں ایسی صورت میں تنہا عبدالرزاق کی روایت تغیر حافظہ کی جرح کے بغیر بھی قابل ترجیح نہ تھی ۔ چہ جائیکہ اس جرح کے بعد اس کو راجح قرار دیا جائے ۔
الغرض محدث مبارک پوری نے عبدالرزاق اور امام مالک کے حالات کا مقابلہ کیا ہے کہ ان دونوں میں کون ایسے صفات کا حامل ہے جو اس کی روایت کی صحت کا غلبہ ظن پیدا کرتے ہیں اور ترجیح کا موجب ہو سکتے ہیں ۔ یہ مقصد نہیں ہے کہ عبدالرزاق کی یہ روایت تغیرِ حافظہ کے بعد کی ہے ۔ اس لئے مرجوح ہے ۔ سچ ہے وکم منعائب قولا صحیحا
و اٰفتہ من الفھم السقیم
مولانا مئوی اور ابن اسحق کی ترجیح : اس عام بحث کے علاوہ تیرہ والی روایت کا ایک خاص جواب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ گیارہ اور تیرہ والی روایتوں میں کوئی حقیقی اختلاف نہیں بلکہ محض اعتباری اور اضافی ہے اور ابن اسحق نے جو تیرہ کو اختیار کیا ہے اور ترجیح دی ہے تو یہ گیارہ کے مقابلہ میں نہیں جیسا کہ مولانا مئوی سمجھ رہے ہیں ، بلکہ درحقیقت یہ اکیس کا مقابلہ ہے کیونکہ انہوں نے اپنی ترجیح کی بنیاد اس بات پر رکھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ شب کی تعداد بھی تیرہ تھی ۔وذلک ان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کانتا لہ من اللیل ثلث عشرة رکعة (قیام اللیل المروزی ص ٩١)
حافظ ابن حجر فتح الباری جلد رابع ص ٢٠٥ باب فضل من قام رمصان میں لکھتے ہیں :
قال ابن اسحق وھذا اثبت ما سمعت فی ذالک وھو موافق لحدیث عائشة فی صلوة النبی صلی اللہ علیہ وسلم من اللیل انتھی ۔
''یعنی ابن اسحق نے کہا ہے کہ میرے علم میں تیرہ والا عدد زیادہ قوی ہے اور یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی اس حدیث کے موافق ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ شب (کی تعداد) کا بیان ہے '' ۔
ظاہر ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیثوں میں صرف تیرہ ہی رکعات کا بیان نہیں ہے بلکہ گیارہ کا بھی ہے اور نسبتہً زیادہ قوت اور طرق و اسانید کی کثرت کے ساتھ ہے اسی واسطے جن علماء نے گیارہ رکعات کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم دینے اور بیس رکعتیں ان کے زمانے میں پڑھی جانے والی روایتوں کے درمیان تطبیق کی یہ صورت اختیار کی ہے کہ گیارہ کا حکم پہلے دیا اور بعد میں اس میں اضافہ کر دیا ... انہوں نے ساتھ ہی (جزماً یا احتمالاً) یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گیارہ کا حکم پہلے اس لئے دیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی تعداد بھی گیارہ تھی ۔ گویا فعل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے عدد کی اقتداء اور تشہیر پیش نظر تھی ۔ چنانچہ ذیل میں ہم چند علماء کے اقوال نقل کرتے ہیں :
1۔ علامہ زرقانی شرح مؤطا میں لکھتے ہیں :
قال الباجی لعل عمر ذلک من صلوة النبی صلی اللہ علیہ وسلم ففی حدیث عائشة انھا سئلت عن صلوتہ فی رمضان فقالت ما کان یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرة رکعة انتھی (زرقانی ص ٢١٥ ج ٢)
یعنی باجی نے کہا ہے کہ حضرت عمر نے شاید گیارہ رکعات کے حکم کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو اپنا ماخذ قرار دیا ہے ۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی بابت سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ رمضان ہو یا غیر رمضان حضور صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۔
2 ۔ ملا علی قاری لکھتے ہیں :
قولہ (باحدی عشرة رکعة) ای فی اول الامر لما قال ابن عبدالبر ھذاہ الروایة وھو الذی صح انھم کانوا یقومون علی عہد عمر بعشرین رکعة واعتراض بان سند تلک صحیح ایضا ویجاب بانہ لعلھم فی بعض اللیالی قصد والتشبیہ بہ صلی اللہ علیہ وسلم فانہ صح عنہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ صلی بھم ثمان رکعات والوتر وان کان الذی استقر علیہ امرھم العشرین انتھی (مرقاة ج ٢ ص ١٧٤)
یعنی شاید کچھ دنوں تک لوگوں نے گیارہ کا عدد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے ساتھ اپنے عمل کی تشبیہ کی غرض سے اختیار کیا تھا ، کیونکہ یہ صحیح طور پر ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے با جماعت آٹھ رکعت اور وتر ادا فرمایا تھا (ملخصا)
٣۔ علامہ سیوطی لکھتے ہیں :
وھذا یضا موافق لحدیث عائشة وکان عمر لما امر بالتراویح اقتصر اولاً علی العدد الذی صلاہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ثم زاد فی اخر الامر انتھی (المصابیح)
یعنی ''گیارہ کا عدد یہ حدیث عائشہ کے موافق ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جب تراویح ادا کرنے کا لوگوں کو حکم دیا تو پہلے اپنے حکم کو اسی عدد پر محصور کر دیا جس کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا ہے ۔ پھر اس کے بعد اس میں اضافہ کر دیا '' ۔
٤۔ امام بیہقی فرماتے ہیں :
روایة احدی عشرة موافقة لروایة عائشة فی عدد قیامہ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان و غیر وکان عمر امر بھذا العدد زمانا ثم کانوا یقومون علی عہدہ بعشرین رکعة وکانوا یقرؤن بالمئین وکانوا یتوکون علی العصی انتھی (تحفة الاخیار ص ١٨ و مرقاة ج٢ ص ١٧٤)
یعنی گیارہ کا عدد یہ حضرت عائشہ کی اس حدیث کے موافق ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے ایک زمانے تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسی عدد کے مطابق لوگوں کو پڑھنے کا حکم دیا تھا ۔ پھر بعد میں لوگ ان کے زمانے میں بیس پڑھتے تھے اور سو آیتوں سے اوپر والی سورتیں پڑھتے تھے ۔ اور (تھک کر) لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے تھے ۔
مولانا مئوی نے بھی ''رکعات'' ص ٥٢ پر یہ عبارت نقل کی ہے ، لیکن اپنی عادت کے مطابق پوری خیانت سے کام لیا ہے ۔ شروع اور آخر کا حصہ جو ان کے مطلب کے خلاف تھا حذف کر دیا ہے ۔ صرف بیچ والا حصہ لے لیا ہے ۔

ع ناطقہ سربگریباں کہ اسے کیا کہئے​

جب یہ بات بلا شبہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز شب (تراویح ہو یا تہجد ) گیارہ رکعات ہی تھی ۔ تو اب گیارہ کے مقابلہ میں تیرہ کو ترجیح دینے کی یہ وجہ کس طرح صحیح ہو سکتی ہے کہ ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز شب کی تعداد تیرہ تھی'' ۔ یہ علت تو دونوں میں مشترک ہے پھر ان میں سے کسی ایک کے لئے دوسرے کے مقابلے میں وجہ ترجیح کیسے بنے گی ؟ ۔
ہاں ! اکیس کے مقابلہ میں تیرہ کی ترجیح کی یہ وجہ بے شک صحیح ہو سکتی ہے کیونکہ اکیس کی تعداد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بسند صحیح ایک مرتبہ بھی ثابت نہیں ہے اسی لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق کسی نے یہ نہیں لکھا ہے کہ رکعات کی تعداد میں اضافہ کر کے انہوں نے جو بیس کر دیا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بیس بھی پڑھا ہے ۔
پس ابن اسحق کی نسبت یہ خیال کرنا کہ انہوں نے گیارہ کے مقابلے میں تیرہ کو ترجیح دی ہے ، سراسر غفلت اور قلت تدبر پر مبنی ہے ۔ گیارہ اور تیرہ تو بقول امام مالک (المصابیح) اور حافظ ابن حجر (فتح الباری جلد رابع ص ٢٠٤ طبع مصر) قریب قریب ایک ہی درجہ میں ہیں ۔ اس لئے ان دونوں کے مقابلہ میں کسی ایک کی ترجیح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ مقابلہ جو کچھ ہے وہ اکیس کے ساتھ ہے لہذا ابن اسحق کا تیرہ کو اکیس پر ترجیح دینے کا مطلب یہ ہوا کہ انہوں نے گیارہ کی ترجیح کو بھی اکیس پر تسلیم کیا ہے اس لحاظ سے حضرت عمر کے متعلق بیس یا اکیس والی روایت ہرگز قابل اعتماد باقی نہیں رہتی اور اس عدد کا ثبوت ان سے کسی طرح نہیں ہو سکتا ۔
رہا یہ سوال کہ ہم نے یہ کیسے کہا ہے کہ گیارہ اور تیرہ والی روایتوں میں کوئی حقیقی اختلاف نہیں ہے بلکہ محض اعتباری اور اضافی ہے ... تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کتاب کے شروع میں جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز شب کی بابت گیارہ اور تیرہ کے اختلاف کی بحث آئی ہے وہاں ہم نے بتایا ہے کہ بقول حافظ ابن حجر اس کی راجح توجیہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شب کے شروع میں پہلے دو رکعتیں ہلکی ہلکی پڑھتے تھے ۔ اس کے بعد لمبی لمبی رکعتیں ادا فرماتے تھے ۔ تو راوی نے تعداد کی میزان میں شروع کی دو ہلکی رکعتوں کو کبھی شمار کیا اور کبھی نہیں شمار کیا جب شمار کیا تو پوری تعداد تیرہ بیان کی اور جب اس کو نہیں شمار کیا بلکہ صرف لمبی لمبی رکعتوں کا لحاظ کیا تو کل تعداد گیارہ بتائی ۔ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ حضرت عمر کے زمانے میں بھی لوگوں نے یہی صورت اختیار کی ہو ۔ اس لئے حضرت سائب نے رکعتوں کی تعداد کبھی تیرہ بتائی اور کبھی گیارہ ۔
اس توجیہ میں کوئی تکلف نہیں ہے اور اس کی بنیاد سراسر روایات صحیحہ پر ہے اسی لئے محدث مبارک پوری نے گیارہ اور تیرہ کے اختلاف کو کالعدم قرار دیا ہے اور یہ توجیہہ چونکہ تحفت الاحوذی میں بسلسلہ حدیث عائشہ ما کان یزید فی رمضان الخ گذر چکی تھی اس لئے اس موقع پر دوبارہ اس کے ذکر کی ضرورت نہیں سمجھی گئی ۔ فاندفع ماتوھم ورودہ ۔
مولانا مئوی کے دعوے کی حقیقت : اب ہم آپ کو مئوی صاحب کے اس دعوے کی حقیقت بتاتے ہیں کہ ''اگلے محدثین میں کسی ایک محدث سے بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے تیرہ اور اکیس کے مقابل میں گیارہ کو ترجیح دی ہے'' ۔
یہ صرف ایک مغالطہ ہے جو عوام کی ناواقفیت سے فائدہ اٹھانے کے لئے پیش کیا گیا ہے ورنہ جب یہ معلوم ہو چکا کہ اگلے محدثین کو یہ تسلیم ہے کہ گیارہ کا عمل فعل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ماخوذ ہے اور اکیس کے لئے کوئی ایسا ماخذ نہیں ہے تو آپ سے آپ اکیس پر گیارہ کی ترجیح ثابت ہو جاتی ہے ۔ اس کے بعد اس کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی کہ کسی محدث سے نصاً اس کی ترجیح ثابت کی جائے ۔ تاہم عوام کو جو مغالطہ دیا گیا ہے اس کے ازالے کے لئے ہم اس کا ثبوت بھی دیتے ہیں ۔ سنیئے :
علامہ سبکی لکھتے ہیں :
قال الجوزی من اصحابنا عن مالک انہ قال الذی جمع علیہ الناس عمر بن الخطاب احب الی وھو احدی عشر رکعة وھی صلوة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیل لہ احدی عشرة رکعة بالوتر قال نعم و ثلاث عشڑة قریب قال ولا ادری من این احدث ھذا لرکوع الکثیر انتھی (المصابیح ص ٨)
یعنی ہمارے اصحاب شافعیہ میں سے جوزی نے کہا ہے کہ امام مالک نے فرمایا ہے کہ (تراویح کی رکعتوں کے بارے میں ) مجھے وہ عدد زیادہ محبوب ہے جس پر حضرت عمر نے لوگوں کو جمع کیا تھا اور وہ ہے گیارہ رکعات ۔ یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز (تراویح و تہجد کا عدد) ہے ۔ امام مالک سے پوچھا گیا کیا گیارہ رکعات وتر کے ساتھ انہوں نے جواب دیا ہاں ۔ امام مالک نے کہا تیرہ بھی گیارہ کے قریب ہے (یعنی اس کے معارض و مخالف نہیں ہے ۔ دونوں میں صرف اعتباری فرق ہے) ۔ اس کے بعد امام مالک نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا یہ بہت سی رکعتیں (بیس وغیرہ) لوگوں نے کہاں سے نکالی ہیں ۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل سے تو ان کا کوئی ثبوت نہیں ہے ) ۔
علامہ عینی نے شرح بخاری میں لکھا ہے :
وقیل احدی عشرة رکعة وھو اختیار مالک لنفسہ واختارہ ابو بکر بن العربی انتھی (عمدة القاری جلد ٥ ص ٢٥٧) ۔
یعنی'' تراویح کے متعلق بعض لوگ گیارہ رکعت کے قائل ہیں اور یہی امام مالک کے نزدیک مختار ہے اور اسی کو ابوبکر ابن العربی نے بھی اختیار کیا ہے '' ۔
لیجئے ! محدث ہی نہیں مالک بن انس جیسے امام المحدثین نے گیارہ کو ترجیح دی ہے ۔ وہی مالک جن کی شخصیت اپنی جلالت شان کی وجہ سے بقول حافظ ابن حجر عدد کثیر کی قائم مقام ہے ۔ محض ترجیح ہی نہیں دی بلکہ اس عدد کو اپنا محبوب بتایا ہے اور اس لئے محبوب بتایا ہے کہ محبوب رب العالمین کا یہ معمول تھا قربان جائیے سنت نبویہ علی صاحبہا الصلوة والتحیہ) کے ساتھ اس والہانہ عقیدت اور مومنانہ محبت پر ۔
کاش اس سے تقلید کے ان ضدی متوالوں کو کچھ عبرت حاصل ہوتی جو اس سنت کو مٹانے کے در پے ہیں ۔ امام مالک نے گیارہ اور تیرہ کے اختلاف کو بھی کالعدم قرار دیا ہے ۔
ابوبکر ابن العربی چھٹی صدی ہجری کے ایک نامور محدث ہیں جو صحیح بخاری و جامع ترمذی و موطاء مالک جیسی اہم حدیث کی کتابوں کے شارح ہیں انہوں نے بھی گیارہ کو اختیار کیا ہے ۔ ان کی شان میں قاضی القضاة برہان الدین الیعمری لکھتے ہیں : الامام العلامة الحافظ المتبحر ختام علماء الاندلس واخر ائمتھا و حفاظھا (دیباچہ از ناشر احکام القرآن لابن العربی ) یعنی ابو بکر ابن العربی امام ہیں ، علامہ ہیں ، حافظ حدیث ہیں ، علم کا سمندر ہیں ۔ اندلس کے علماء اور ائمہ و حفاظ کا انہیں پر خاتمہ ہے ۔
ان دونوں حوالوں میں سے ابن العربی کے متعلق تو مولانا مئوی کو کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ تسلیم ہے کہ وہ گیارہ ہی رکعت کے قائل تھے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں ''ان کے (یعنی امام مالک کے) متبعین میں فقط ایک شخص گیارہ کے قائل تھے اور وہ ابوبکر ابن العربی ہیں '' ۔ (رکعات صفحہ ١٤)۔
یہ ابن العربی وہ ہیں جنہوں نے جامع ترمذی کی شرح لکھی ہے اس لئے کم از کم ترمذی میں بیس کی جو روایت حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کی گئی ہے وہ ان کے علم میں تھی اس کے باوجود انہوں نے گیارہ کو اختیار کیا تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ان کے نزدیک بیس والی روایت قابل اعتماد نہیں ہے اور اس کے مقابل گیارہ ہی والی روایت راجح اور قابل اعتماد ہے ۔
نیز وہ امام مالک کی مؤطا کے بھی شارح ہیں ۔ لہذا یزید بن رومان کی بیس والی روایت اور امام مالک کی گیارہ والی روایت (جو مؤطا میں مروی ہیں ) دونوں ان کے سامنے تھیں اس کے بعد گیارہ کو اختیار کرنے کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہے کہ انہوں نے گیارہ کو یعنی وہ شخص جو پورا مومن نہیں ہے جو اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنی ذات کے لئے پسند کرتا ہے ۔
پس امام مالک کے نظریہ کی یہ ترجمانی یقینا غلط ہے کہ وہ گیارہ کو اپنی ذات کے لئے تو پسند کرتے تھے ، لیکن دوسرے مسلمانوں کو اس پر عمل کرنے کا فتویٰ نہیں دیتے تھے ۔
گیارہ اور بیس کی تطبیق کا جواب : جب گذشتہ مباحث میں گیارہ کی ترجیح کی بابت تمام شکوک و شبہات کا جواب دے کر یہ ثابت کر دیا گیا کہ گیارہ ہی والی روایت راجح ہے اور اس کے مقابلہ میں بیس والی مرجوح ہے تو اب ان دونوں میں تطبیق کا سوال ہی نہیں باقی رہتا ، بلکہ اصولاً راجح مقبول ہو گی اور مرجوح نامقبول و مردود ۔ لیکن کچھ علماء نے ان دونوں میں تطبیق کی صورت بھی اختیار کی ہے ۔ اس تطبیق کو مولانا مئوی نے بڑی اہمیت دی ہے اور اسی تطبیق کی بنیاد پر انہوں نے یہ عمارت کھڑی کی ہے کہ عہد فاروقی میں گیارہ پر عمل محض چند روز ہوا اور اس کے بعد متروک ہو گیا ۔ مستقل اور آخری عمل بیس ہی پر ہوا ہے ۔ لہذا اب قابل عمل صرف بیس کا عدد ہے گیارہ کا نہیں ۔
ہم چاہتے ہیں کہ تطبیق کی صورت کو بھی بفرض محال صحیح مان کر اس کا بھی جواب دیدیں تاکہ بحث کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہ جائے اور مئوی صاحب کو بھی معلوم ہو جائے کہ ان کے مزعومہ دلائل کی حقیقت کیا ہے:

فسوف تری اذا انکشف الغبار
فرس تحت رجلک ام حمار

مولانا مئوی لکھتے ہیں :
''بہیقی نے جو تطبیق ذکر کی ہے وہ احتمال عقلی کی بنیاد پر نہیں ہے ، بلکہ واقعات کی بنیاد پر ہے ۔ یعنی ان کے نزدیک واقعتا یہی تاریخی ترتیب ہے کہ پہلے گیارہ پر اور بعد میں بیس پر عمل ہوا ۔ چنانچہ ان کا لفظ فانھم کا نوا یقومون الخ ہے ۔ بیہقی یہ نہیں کہتے کہ ممکن ہے پہلے گیارہ پڑھتے ہوں بعد میں بیس پڑھنے لگے ہوں ۔ بلکہ یہ کہتے ہیں کہ بہ تحقیق وہ پہلے گیارہ پڑھتے تھے اور بعد میں بیس پڑھنے لگے ۔ چنانچہ بیہقی نے ایک اور مقام پر لکھا ہے : کان عمر امر بھذا العدد زمانا ثم کانوا یقومون علی عہدہ بعشرین رکعة (مرقاة شرح مشکوة) یعنی عمر نے کچھ دنوں تک اسی عدد (گیارہ) کا حکم دیا تھا پھر بعد میں انہیں کے عہد میں لوگ بیس رکعت پڑھتے تھے ۔ بیہقی کے علاوہ مالکیہ میں ابن حبیب بھی اس کو احتمال عقلی نہیں بلکہ واقعہ بتاتے ہیں ۔ فرماتے ہیں : انھا کانت اولا احدی عشرة رکعة الا انھم کانوا یطیلون القراء ة فیہ فثقل ذلک علیھم فزاد وافی عدد الرکعات و خففوا القراء ة وکانوا یصلون عشرین رکعة یر الوتر ۔ا تحفت الاخیار ص ١٩٢ یعنی پہلے گیارہ تھی مگر لوگ قرت لمبی کرتے تھے تو یہ گماں ہوا ۔ اس لئے رکعتوں کی تعداد میں اضا ت میں تخفیف کر دی اور لوگ وتر کے سوا بیس پڑھتے تھے ۔
ظاہر ہے کہ محض ظن و تخمین سے کوئی چیز واقعہ نہیں بن سکتی اور بیہقی وابن حبیب کسی چیز کے واقعہ ہونے کا دعوی بلا دلیل و ثبوت محض احتمال عقلی سے نہیں کر سکتے ۔ اس لئے ان کے علم میں اس کا ثبوت ہو گا ۔ وہ ثبوت اگرچہ ہمیں معلوم نہیں مگر ہمارے پاس بہت سے قرائن و شواہد موجود ہیں جس سے ان کی تصدیق ہوتی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے جو واقعہ بتایا ہے وہی واقعہ ہے '' (رکعات ص ٥٢ ، ٥٣) ۔
یہ طویل اقتباس ہم نے اس لئے پیش کیا ہے کہ ایک طرف تو خود مئوی صاحب کی بات اچھی طرح سمجھ میں آ جائے اور دوسری طرف ہمارے آنے والے جواب کی بنیاد بھی معلوم ہو جائے کیونکہ ہم جو کچھ لکھیں گے وہ ان شاء اللہ مولانا مئوی ہی کے مسلمات اور انہیں کی پیش کی ہوئی عبارتوں اور اقوال پر مبنی ہو گا جن کی انہوں نے پرزور تائید و تصدیق کی ہے ۔
سب سے پہلے ہم مولانا مئوی کی اس حرکت پر اظہار افسو س کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ انہوں نے مرقاة شرح مشکوة کے حوالے سے بیہقی کی اور تحفت الاخیار کے حوالے سے ابن حبیب مالکی کی جو عبارتیں نقل کی ہیں ان دونوں عبارتوں کے نقل کرنے میں انہوں نے صریح خیانت کی ہے ۔ بیہقی کی پوری عبارت ہم دو تین ورق پہلے نقل کر چکے ہیں اور وہاں بھی اس خیانت پر متنبہ کر دیا ہے ، ملا کر دیکھ لیجئے ۔
ابن حبیب کی عبارت جتنی مئوی صاحب نے یہاں نقل کی ہے اس کے بعد یا ٹکڑا یہ ہے ثم خففوا القراء ة وجعلوا عدد رکعاتھا ستا ثلثین و مضی الامر علی ذلک (دیکھو تحفت الاخیار)
عبارت کا یہ آخری حصہ مولانا مئوی نے حذف کر دیا ہے کیونکہ ان کے مدعا کے خلاف ہے ۔ (تفصیل آگے آ رہی ہے ) ۔
اس کے بعد میری گذارش یہ ہے کہ جب ''بیہقی اور ابن حبیب نے جو کچھ لکھا ہے وہ احتمال عقلی کی بنیاد پر نہیں ہے ، بلکہ واقعات کی بنیاد پر ہے اور جس کو انہوں نے واقعہ بتایا ہے وہی واقعہ ہے '' ...... تو اب بیہقی اور ابن حبیب کی ان ادھوری نہیں بلکہ پوری عبارتوں کو سامنے رکھ کر غور کیجئے کہ انہوں نے صرف اتنا ہی نہیں لکھا ہے کہ عہد فاروقی میں گیارہ پر عمل پہلے ہوا اور بیس پر بعد میں ، بلکہ اسی کے ساتھ کچھ اور باتیں بھی لکھی ہیں وہ سب بھی واقعات ہی کی بنیاد پر ہیں یا صرف وہی بات جو آپ کے مطلب کے موافق ہے ؟
مثلاً بیہقی نے لکھا ہے :
روایة احدی عشرة موافقة لروایة عائشة فی عدد قیامہ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان وغیرہ وکان عمر امر بھذا لعدد زمانا رای بھذا العدد الھاثور عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم وھو احدی عشرة
یعنی حضرت عمر کے متعلق جو گیارہ کی روایت ہے یہ حضرت عائشہ کی اس روایت کے موافق ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز شب (تراویح اور تہجد) کی تعداد گیارہ ہی رکعات بتائی گئی ہے اسی تعداد کے مطابق حضرت عمر نے بھی پہلے لوگوں کو تراویح پڑھنے کا حکم دیا تھا الخ ۔
بیہقی کے اس بیان سے دو فائدے حا صل ہوتے ہیں ایک یہ کہ حضرت عائشہ کی حدیث سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تراویح کی رکعات کا گیارہ ہونا ثابت ہے ۔ دوسرا یہ کہ حضرت عمر نے گیارہ رکعت پڑھنے کا جو حکم دیا تھا وہ اسی حدیث کے مطابق تھا ۔ پھر یہ سب کچھ جانتے ہوئے آپ نے یہ کیسے لکھا ہے کہ :
''آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے گیارہ رکعت تراویح کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے ...... لہذا پہلے اس کو ثابت کیجئے اس کے بعد گیارہ پر عمل کو اس کے مطابق کہیے'' (رکعات ص ٥٥)
جان بوجھ کر ایسے مغالطوں کا مقصد سوا اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ عوام کی نا واقفیت سے ناجائز فائدہ اٹھایا جائے ؟ اسی مغالطے کی گنجائش نکالنے کے لئے تو آپ نے بیہقی کی اس عبارت کو ادھوری نقل کیا ہے ؟ کیا یہ حرکت آپ کی شان تقدس کے منافی نہیں ہے ؟
اسی طرح ابن حبیب نے لکھا ہے کہ تراویح پہلے گیارہ رکعت تھی ، مگر لوگ اس میں قرات لمبی کرتے تھے جب یہ ان پر گراں ہوئی تو ان لوگوں نے رکعات کی تعداد بڑھا دی اور قرات میں تخفیف کر دی ۔ وتر کے علاوہ بیس پڑھتے تھے ثم خففوا القرة وجعلوا عدد رکعتھا ستاو ثلثین و مضی الامر علی ذلک یعنی پھر قرات میں اور تخفیف کیا تو رکعات کی تعداد بھی بڑھا کر چھتیس کر دیا اور اسی چھتیس پر عمل جاری رہا ۔
ابن حبیب کے اس بیان سے بھی دو فائدے حاصل ہوتے ہیں ایک یہ کہ عہد فاروقی میں گیارہ کے عدد پر رکعات کا جو اضافہ ہوا ہے وہ تخفیف قرات کے عوض میں ہے ۔ دوسرا یہ کہ مستقل اور آخری عمل چھتیس کا ہے ۔ بیس کا نہیں ۔ جیسے مولانا مئوی کا دعوی ہے ۔ اسی واسطے مولانا مئوی نے ابن حبیب کی عبارت کا یہ حصہ نقل کرنے سے گریز کیاہے ۔
اب ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ ان دونوں باتوں میں سے کون صحیح ہے ''واقعات کی بنیاد پر'' آخری عمل بیس کا ہے یا چھتیس کا ؟

کس کا یقین کیجئے کس کا یقین نہ کیجئے
لائے ہیں بزم دوست سے یار خبر الگ الگ​

ان ضمنی گذارشات کے بعد اصل مقصد کی طرف رجوع کرتا ہوں
تنقیح طلب دو سوال : بیہقی اور ابن حبیب دونوں کے بیانوں سے یہ بات تو متفقہ طور پر ثابت ہوتی ہے کہ عہد فاروقی میں بھی پہلے عمل گیارہ ہی پر ہوا ۔ اس کے بعد رکعتوں میں اضافہ کیا گیا ۔ اب یہاں تنقیح طلب دو سوال ہیں
١۔ ایک یہ کہ گیارہ پر جب عمل ہوا تو اس کا سبب اور داعی کیا تھا ؟ اور یہ عدد پہلے کیوں اختیار کیا گیا ؟
٢۔ دوسرا یہ کہ جب رکعتوں میں اضافہ کیا گیا اور بیس یا چھتیس پر عمل ہونے لگا تو اس کا سبب اور داعی کیا ہوا ؟
پہلے سوال کے جواب کے لئے ان عبارتوں کو سامنے رکھیے جو ابھی چند صفحے پہلے (ابن اسحق کی ترجیح پر بحث کے ذیل میں ) باجی ، ملا علی قاری ، سیوطی اور بیہقی کے حوالے سے ہم نقل کر چکے ہیں ۔ ان سب حضرات نے بالاتفاق یہ تسلیم کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز شب (تراویح اور تہجد) کی تعداد گیارہ تھی ۔ اس کے بارے میں تو کسی نے کوئی ادنی شبہ بھی ظاہر نہیں کیا ہے ۔ یہ بھی ان سب کو تسلیم ہے کہ حضرت عمر نے بھی پہلے گیارہ کا حکم دیا تھا ۔ رہا یہ سوال کہ پہلے گیارہ ہی کا حکم انہوں نے کیوں دیا اور یہ عدد پہلے کیوں اختیار کیا ؟ تو اس کے بارے میں باجی نے لکھا ہے لعل عمر اخذ ذلک من صلوة النبی صلی اللہ علیہ وسلم (شاید حضرت عمر نے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے اخذ کیا ) ۔ ملا علی قاری نے لکھا ہے : لعلھم فی بعض اللیالی قصدوا التشبیہ بہ صلی اللہ علیہ وسلم (شاید ان لوگوں نے کچھ راتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تشبیہ کا ارادہ کیا) سیوطی نے لکھا ہے کان عمر لما امر بالتراویح اقتصرا ولا علی العدد الذی صلہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (جب حضرت عمر نے لوگوں کو تراویح پڑھنے کا حکم دیا تو پہلے اسی عدد کو اختیار کیا جس کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا ہے ) ۔ بیہقی نے لکھا ہے وکان عمر امر بھذا لعدد زمانا (حضرت عمر نے پہلے کچھ دنوں تک اسی عدد کے مطابق حکم دیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے) علامہ ابن ابی جمرة الاندلسی المتوفی ٦٧٩ ھ نے لکھا ہے :
انہ اقتدی فی ذلک التحدید بما روتہ عائشة رضی اللہ عنھا ان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم لم یزد فی تنفلہ فی رمضان ولا غیرہ علی احدی عشرة رکعة (بہجة النفوس شرح مختصر بخاری ص ٧ جلد ٢)
یعنی حضرت عمر نے تراویح کے لئے جو گیارہ رکعتوں کی تحدید کی تھی تو اس حکم میں انہوں نے اس روایت کی اقتدا کی تھی جو حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے ۔
یعنی علامہ باجی اور ملا علی قاری نے احتمالاً اور حافظ سیوطی اور امام بیہقی اور علامہ ابن ابی جمرة اندلسی نے جزماً لکھا ہے کہ گیارہ کا عدد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے اس لئے اختیار کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عدد بھی گیارہ ہی تھا ۔
اب دوسرے سوال کو لیجئے یعنی یہ کہ گیارہ پر رکعتوں کا جو اضافہ ہوا تو اس کا سبب کیا تھا ؟ اس کے جواب کے لئے سب سے پہلے ابن حبیب کی اسی عبارت پرغور کیجئے جس کو خود مولانا مئوی نے (تھوڑی سی خیانت کے ساتھ) پیش کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ گیارہ رکعت پڑھنے میں قرات لمبی کی جاتی تھی یہ بات لوگوں پر گراں ہوئی تو قرات کی مقدار کم کر دی گئی اور اس کے عوض میں رکعتوں کی تعداد بڑھا دی گئی ۔ گیارہ سے بڑھا کر بیس کی گئی ۔ یہ بھی گراں ہوئی تو قرات کی مقدار اور گھٹائی گئی اور رکعتوں کی تعداد بیس سے چھتیس کر دی گئی ۔ آخر میں عمل اسی پر جاری ہوا ۔ علامہ زرقانی نے شرح مؤطا میں باجی سے نقل کیا ہے
قال الباجی فامرھم اولا بتطویل القرة لانہ افضل ثم ضعف الناس فامرھم بثلاث وعشرین فخفف من طول القرة واستدرک بعض الفضیلة بزیادة الرکعات انتھی (زرقانی ص ٢١٥ ج ١)
یعنی'' عمر نے پہلے تطویل قرات کا حکم دیا ، کیونکہ یہ افضل ہے پھر لوگوں میں کمزوری آ گئی تو (وتر سمیت) تیئس رکعتوں کا حکم دیا اور قرات کی مقدار کم کر دی اس طرح طولِ قرات کی فضیلت کی کچھ کمی کو رکعتوں کی زیادتی سے پورا کر دیا '' اسی قسم کی بات شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی لکھی ہے جو پہلے دو جگہ نقل ہو چکی ہے انہوں نے لکھا ہے کہ ''جب طولِ قیام لوگوں پر شاق ہوا تو حضرت ابی بن کعب لوگوں کو بیس پڑھاتے تھے اور اسی میں قرات ہلکی کرتے تھے ''۔
فکان تضعیف العدد عوضا عن طول القیام وکان بعض السلف یقوم اربعین رکعة فیکون قیامھا اخف و یوتر بعدھا بثلاث الخ
یعنی رکعتوں کی تعد اد میں زیادتی طول قیام کے عوض میں تھی (اسی لئے قیام میں جتنی تحفیف کرتے تھے اسی کے لحاظ سے رکعتیں بڑھا دیتے تھے چنانچہ) بعض سلف چالیس رکعتیں وتر کے علاوہ پڑھتے تھے ۔ تو ان کا قیام (بیس والوں سے بھی) زیادہ ہلکا ہوتا تھا۔ اور بعض وتر کے علاوہ چھتیس پڑھتے تھے ۔
حاصل یہ ہے کہ گیارہ رکعت پر اضافہ کرکے جو بعد میں بیس یا اس سے زائد رکعتیں پڑھی گئی تو اس کا داعی اور سبب یہ نہ تھا کہ یہ زیادتی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل سے ثابت نہیں ہے ، بلکہ مصلحتاً قرات میں تخفیف کی گئی تھی اور اس کے عوض میں اپنی رائے و اجتہاد سے رکعتوں کی تعداد بڑھا دی گئی بالفاظ دیگر تراویح کی گیارہ رکعتوں کا ماخذ تو بلا شبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعل سنت ہے مگر بیس یا اس سے زائد (بشرط یہ کہ ثابت بھی ہو) صحابہ کی اجتہادی رائے ہے ۔
گیارہ رکعت تراویح قابلِ ترک نہیں : پس گیارہ اور بیس کے اختلاف کی بابت مولانا مئوی کی پیس کردہ اس تطبیق کو اگر بالفرض صحیح بھی مان لیا جائے کہ عہدِ فاروقی میں گیارہ پر عمل پہلے ہوا اور اس کے بعد بیس پر عمل جاری ہو گیا تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا یقینا غلط ہے کہ گیارہ رکعت تراویح قابل ترک ہے اور اس کے مقابلے میں بیس ہی قابل عمل اور مستحق تمسک ہے اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت صحیحہ ثابتہ کے مقابلے میں صحابہ کی ''رائے'' کو ترجیح دینا دلائل شرعیہ کی رو سے قطعاً باطل ہے ۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے :
فان تنازعتم فی شٔ فردوہ الی اللہ و الرسول ان کنتم تؤمنون باﷲ والیوم الاخر (النسا ع ٨)
یعنی آپس میں اگر تمہارے درمیان اختلاف پیدا ہو جائے تو اس نزاع کو اللہ تعالی اور اس کے رسول کی طرف منتقل لٹاؤ اگر تم سچے مومن ہو ۔ نیز فرمایا :
لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوة حسنة الخ (الاحزاب)
یعنی'' تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے عمل میں ) عمدہ نمونہ موجود ہے''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
من یعش منکم بعد فسیری اختلافا کثیرا فعلیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین الحدیث (احمد ، ابوداؤد ، ترمذی)
یعنی'' تم میں سے جو لوگ میرے بعد زندہ رہیں گے وہ بہت سے مسئل میں لوگوں کا اختلاف پائیں گے تو اس حالت میں تم لوگ (پہلے) میری سنت کو (دیکھنا اگر اس مسئلہ میں میری سنت مل جائے تو اسی کو) مضبوطی سے تھام لینا اور (اگر میری سنت نہ ملے تو) خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرنا'' ۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق مروی ہے :
کان ابن عباس اذ سئل عن الامر فکان فی القران اخبربہ وان لم یکن فی القرآن وکان عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اخبر بہ فان لم یکن فعن ابی بکر و عمر فان لم یکن قال فیہ بریہ (سنن دارمی طبع مصر ص ٥٩ جلد ١)
یعنی'' حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جب کوئی مسئلہ دریافت کیا جاتا تو پہلے قرآن میں غور کرتے اگر اس میں مل جاتا تو اسی کے مطابق بتا دیتے اور اگر قرآن میں نہ ہوتا تو حدیث دیکھتے ۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل سے اس کی بابت کچھ معلوم ہو جاتا تو اسی کے مطابق حکم دیتے ۔ اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ نہ ملتا تب ابوبکر اور عمر کا قول و فعل دیکھتے ، اگر یہ بھی نہ ہوتا تو اپنی رائے سے جو سمجھ میں آتا کہتے '' ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ملک شام کے ایک شخص نے حج تمتع کے متعلق سوال کیا تو حضرت ابن عمر نے فرمایا حسن جمیل (جائز ہے اچھا کام ہے ) ۔ اس شخص نے کہا فان اباک کان ینھی عن ذل(آپ کے والد حضرت عمر تو اس سے منع کرتے تھے) حضرت ابن عمر نے کہا :
ویلک فان کان ابی قد نہی عن ذلک وقد فعلہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم وامر بہ فبقول ابی تاخذام بامر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
(افسوس ہے تم پر بتاؤ اگر میرے باپ نے اپنی و اجتہاد سے اس کام سے منع کیا ہو ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کیا ہو اور کرنے کا حکم بھی دیا ہو تو تم میرے باپ کی رائے کو مانو گے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانو گے؟ ) ۔ اس شخص نے کہا بامر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم (میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا حکم مانوں گا) ۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا بس تو جاؤ ۔ (دیکھو طحاوی جلد ١ ص ٣٧٢) اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عثمان کے عہد خلافت میں حج قران کے ساتھ لبیک پکارا ۔ حضرت عثمان نے ان کی آواز سنی تو لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ حضرت علی ہیں ۔ حضرت عثمان حضرت علی کے پاس آئے اور ان سے کہا الم تعلم انی نہیت عن ھذا کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ میں نے اس کام سے منع کیا ہے ؟ حضرت علی نے جواب دیا بلی ولکنی لم اکن لادع قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لقولک معلوم تو ضرور ہے لیکن میں رسول اللہ کے قول کو آپ کے قول کی وجہ سے چھوڑ نہیں سکتا ۔ (دیکھو طحاوی جلد اول ص ٣٧٦ )خود فقہائے حنفیہ نے بھی لکھا ہے فان سنة النبی اقوی من سنة الصحابة (کشف اصول البزروی جلد ٢ ص ٣٠٨) یعنی صحابہ کی سنت کے مقابلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی سنت قوی اور راجح ہے ۔ ان صاف اور روشن دلائل کی موجودگی میں کون کہہ سکتا ہے (اور اگر کوئی جہالت سے کہے بھی تو اس کی بات کب قابل سماعت ہو سکتی ہے ) کہ گیارہ رکعت تراویح کو تو چھوڑ دیا جائے جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوئہ حسنہ اور آپ کی سنت ثابتہ ہے اور اس کے بدلے میں بیس ہی کو معمول بنایا جائے جو صحابہ کی اجتہادی رائے کا ثمرہ ہے
اتستبدلون الذی ھو ادنی بالذی ھو خیر
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
مرسل روایتوں کا جواب
مولانا مئوی نے حنفی مذہب کی دوسری دلیل کی تائید میں کچھ ''مرسل'' روایتں پیش کی ہیں اب ہم ان کے اس استدلال کی بھی نقاب کشائی کر دینا چاہتے ہیں ۔ حسب سابق یہاں بھی ان کی باتوں کے لئے قولہ اور اپنے جواب کے لئے ج کا عنوان اختیار کیا گیا ہے ۔
قولہ : حضرت عمر کے عہد میں تراویح کی بیس رکعتوں پر عمل کا ثبوت تنہا سائب ہی کی روایت سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے علاوہ متعدد روایات سے ہوتا ہے ۔ از انجملہ یزید بن رومان کی روایت سے ... جس کے الفاظ یہ ہیں ... یعنی حضرت عمر کے زمانے میں لوگ تیئس رکعتیں (مع وتر) پڑھتے تھے ۔ اس روایت پر اعتراض ہے کہ یزید بن رومان نے حضرت عمر کا زمانہ نہیں پایا ۔ اس لئے منقطع ہے ۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ اثر امام مالک کی موطا میں منقول ہے اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے حجة اللہ البالغہ ج ١ جلد ١٠٦ میں فرمایا ہے :
قال الشافعی اصح الکتب بعد کتاب اللہ مؤطا مالک واتفق اھل الحدیث علی ان جمیع مافیہ صحیح علی ری مالک ومن وافقہ واما علی ری غیرہ فلیس فیہ مرسل ولا منقطع الاقد اتصل السند بہ من طرق اخر فلا ١جرم انھا صحیحة من
(١) اس عبارت کا یہ خط کشیدہ ٹکڑا مولانا مئوی نے تو اپنی کتاب میں نقل نہیں کیا ہے کیونکہ ان کے مطلب کے خلاف ہے ، مگر ہم نے شاہ صاحب (باقی اگلے صفحہ پر)
ھذا الوجہ وقد صنف فی زمان مالک مؤطات کثیرة فی تخریج احادیثہ مثل کتاب ابن ابی ذئب وابن عیینہة والثوری و معمر (رکعات ص ٦٣) ۔
ج : شاہ صاحب کی اس عبارت میں ''ھل رای مالک ومن وافقہ'' اور ''من ھذا الوجہ'' کے فقرے خاص طور پرقابل توجہ ہیں ۔ شاہ صاحب نے یہ نہیں لکھا ہے کہ مؤطا میں جتنی روایتں ہیں وہ سب کی سب واقع میں اور تمام محدثین کے نزدیک صحیح ہیں بلکہ یہ لکھا ہے کہ امام مالک اور ان کے مقلدین کی رائے میں صحیح ہیں ۔ لہذا یہ قول ہم ''غیر مقلدوں '' پر حجت نہیں ہو سکتا ۔ نیز مؤطا کی مرسل اور منقطع روایتوں کی بابت شاہ صاحب نے یہ لکھا ہے کہ دوسرے طریق سے اس کی سند یں متصل ہیں اور اس ''اعتبار'' سے وہ صحیح ہیں یعنی ان کا متصل ہونا صحیح ہے ، لیکن حدیث اور اصولِ حدیث کا ایک مبتدی طالب علم بھی جانتا ہے کہ صرف ''اتصال'' ثابت ہو جانے سے کسی روایت کا ''صحیح'' اور مقبول ہونا لازم نہیں آتا ۔ کتنی ہی روایتں ہیں جو ''متصل'' ہیں ، مگر ضعیف اور مردود ہیں
پس یزید بن رومان کے زیر بحث اثر پر ''منقطع'' ہونے کا جو اعتراض کیا گیا ہے اس سے صرف انقطاع کی علت کا اظہار مقصود نہیں ہے بلکہ اس اعتراض کا منشا یہ ہے کہ درمیان سے جو راوی ساقط ہے اس کی ذات بھی مجہول ہے اور اس کے اوصاف و احوال بھی مجہول ہیں اس لئے جب تک راوی کی ذات معلوم نہ ہو
اس کی عدالت اور حفظ و ضبط وغیرہ تمام شرائط صحت متحقق نہ ہو ں یہ روایت صحیح اور حجت نہیں ہو سکتی ۔
کی پوری عبارت یہیں نقل کر دیہے تاکہ مئو ی صاحب کی اس خیانت پر متنبہ کرنے کے لئے دوبارہ پوری عبارت نقل کرنے کی طوالت سے بچ جائیں ۔
لہذا اس اعتراض کے جواب میں مجمل اور مبہم طور پر محض اتنا کہہ دینے سے جان نہیں چھوٹ سکتی کہ ''دوسرے طریق سے مؤطا کی منقطع روایتوں کا اتصال ثابت ہے '' ۔ بلکہ اتصال کے ساتھ اس کی صحت کو بھی ثابت کرنا ہو گا۔ کیونکہ محدثین ہی کے بیان کے مطابق مؤطا کی بلاغات میں غیر صحیح روائیتں بھی ہیں چنانچہ مولانا بشیر احمد عثمانی مقدمہ فتح الملہم ص ٤٩ میں لکھتے ہیں :
واما قول الامام الشافعی ما علی وجہ الارض بعد کتاب اﷲ اصح من کتاب مالک فانہ کانا قبل وجود کتابیھما (ای کتاب محمد بن اسماعیل البخاری و کتاب مسلم بن الحجاج النیسابوری) واما قول بعضھم ان مالکا اول من صنف فی الصحیح فھوم مسلم غیر انہ لم یقتصر فی کتابہ علیہ بل ادخل فیہ المرسل والمنقطع والبلاغات ومن بلاغاتہ احادیث لا تعرف کما ذکرہ الحافظ بن عبدالبر فھو لم یجرد الصحیح ...... قال المحافظ ابن حجر ان کتاب مالک صحیح عندہ وعند من یقلدہ علی اقتضاہ نظرہ من الاحتجاج بالمرسل والمنقطع وغیرھما لا علی الشرط الذی تقدم التعریف بہ ...... قال ابن حزم وفی المؤطا نیف و سبعون حدیثا قد ترک مالک نفسہ العمل بھا و فیھا احادیث ضعیفة وھاھا جمہور العلماء انتھی ملخصا ۔
یعنی'' امام شافعی نے جو یہ فرمایا ہے کہ روئے زمین پر کتاب اللہ کے بعد مؤطا مالک سے بڑھ کر کوئی صحیح کتاب موجود نہیں ہے تو یہ امام بخاری اور امام مسلم کی صحیحن کے وجود میں آنے سے پہلے کی بات ہے ۔ بعض محدثین کا یہ کہنا بھی تسلیم ہے کہ امام مالک پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے صحیح حدیثیں جمع کیں ، مگر امام مالک نے اپنی کتاب (مؤطا) میں صرف صحیح حدیثوں پر ہی اقتصار نہیں کیا ہے بلکہ اس میں مرسل ، منقطع اور بلاغات بھی داخل کی ہیں ۔ ان بلاغات میں بعض ایسی بھی ہیں جو محدثین کے نزدیک معروف نہیں ہیں (منکر اور ضعیف ہیں ) جیسا کہ حافظ ابن عبدالبر نے ذکر کیا ہے ۔ لہذا مؤطا میں صرف صحیح ہی حدیثیں نہیں ہیں ۔ حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ مؤطا امام مالک اور ان کے مقلدین کے نزدیک صحیح ہے ، کیونکہ وہ مرسل اور منقطع روایتوں کو بھی قابل حجت سمجھتے ہیں ۔ اس شرط کے مطابق نہں جو حدیث صحیح کی بابت پہلے بیان کی گئی ہے اور علامہ ابن حزم نے تو کہا ہے کہ مؤطا میں ستر سے زیادہ ایسی حدیثیں موجود ہیں جن پر خود امام مالک نے عمل ترک کر دیا ہے اور اس میں ایسی حدیثیں بھی ہیں جن کو جمہور علما نے ضعیف قرار دیا ہے '' ۔
مولانا بشیر احمد عثمانی نے یہ تمام باتیں بلا کسی کلام اور رد و انکار کے نقل کی ہیں حتی کہ ابن حزم کی بات پر بھی انہوں نے کوئی تنقید نہیں کی ہے ۔ اس لئے مولانا مئوی کے اصول کے مطابق اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مولانا عثمانی کو یہ تسلیم ہے کہ مؤطا کی سب روایتیں صحیح اور قابل عمل نہیں ہیں ۔ امام سیوطی نے بھی علامہ ابن حزم کی اس بات پر کوئی رد و انکار نہیں کیا (دیکھو تدریب ص ٣٣) ۔
حافظ ابن کثیر الباعث الحثیث ص ٦ میں لکھتے ہیں :
ھذا مع مافیہ من الاحادیث المتصلة الصحیحہ والمرسلة والمنقطعة والبلاغات اللاتی لا تکاد توجد مسندة الاعلی ندور انتھی ۔
یعنی'' امام مالک کی مؤطا میں صحیح اور متصل حدیثوں کے ساتھ مرسل و منقطع اور ایسی بلاغات بھی ہیں جو پوری سند کے ساتھ متصل ہو کر بہت کم پائی جاتی ہیں '' ۔
صحیح مسلم کے مقدمہ میں ہے کہ بشیر بن عمر نے بیان کیا ہے کہ میں نے امام مالک سے ایک راوی کا حال دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ کیا اس راوی کی کوئی روایت تم نے میری کتابوں میں دیکھی ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں ۔ انہوں نے فرمایا لوکان ثقة لریتہ فی کتبی ۔ یعنی اگر یہ راوی ثقہ ہوتا تم اس کو میری کتابوں میں دیکھتے ۔ امام نووی تو اس کے ذیل میں لکھتے ہیں :
ھذا تصریح من مالک بان من ادخلہ فی کتابہ فھم ثقة فمن وجدناہ فی کتابہ حکمنا بانہ ثقة عند مالک وقد لا یکون ثقة عند غیرہ
یعنی یہ امام مالک کی طرف سے اس بات کی تصریح ہے کہ جس راوی کو انہوں نے اپنی کتاب میں داخل کیا ہے وہ ثقہ ہے اس لئے جس راوی کو ہم نے ان کی کتاب میں پائیں گے اس کی بابت حکم لگائیں گے کہ یہ امام مالک کے نزدیک ثقہ ہے ۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ وہ راوی دوسرے محدثین کے نزدیک ثقہ نہ ہو لیکن مولانا عثمانی نے اس کے خلاف لکھا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :
کذا قال النووی الا ان لفظة مالک انما تدل علی ان من لم یرو عنہ فی کتبہ فلیس بثقة عندہ لا علی ان کل من روی عنہ فی کتبہ ثقة واﷲ اعلم (فتح الملہم ج ١ ص ١٤٢ )
یعنی نووی نے تو ایسا کہا ہے ، مگر امام مالک کے الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جس راوی سے انہوں نے اپنی کتابوں میں روایت بیان نہیں کی ہے وہ راوی ان کے نزدیک ثقہ نہیں ہے ۔ ان الفاظ سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ ہر وہ راوی جس سے انہوں نے اپنی کتابوں میں روایت لی ہے وہ ثقہ ہے ۔
بالفاظ دیگر مولانا عثمانی کے بیان کے مطابق امام مالک کے کلام کا مدلول یہ نہیں ہے کہ مؤطا کا ہر راوی ثقہ ہے ۔ ظاہر ہے کہ جب اس کے ہر راوی کا ثقہ ہونا متحقق نہیں ہے تو اس کی ہر روایت کا صحیح اور حجت ہونا کیسے متحقق ہو گا ؟
پس یزید بن رومان کا یہ اثر ہو ، یا اس قسم کے دوسرے آثار ہوں ، ازروئے تحقیق ان میں سے کوئی بھی قابل اعتماد نہیں تاوقتیکہ ان کے تمام راوی اور ان راویوں کی عدالت و ثقاہت کا حال ہم کو معلوم نہ ہو جائے۔
حافظ خطیب بغدادی لکھتے ہیں :
والذی یدل علی ذلک ان ارسال الحدیث یؤدی الی الجھل بعین روایہ ویستحیل العلم بعد التہ مع الجھل بعینہ وقد بینا من قبل انہ لا یجوز قبول الخبر الا ممن عرفت عدالتہ فوجب لذلک کونہ غیر مقبول انتھی (کفایہ ص ٣٨٧) ۔
قولہ : دوسرا جواب یہ ہے کہ مرسل کے قبول و عدم قبول میں ائمہ کا اختلاف ہے امام مالک اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک وہ مطلقاً قبول ہے ... اور امام شافعی کے نزدیک اگرچہ مرسل مقبول نہیں ہے مگر وہ بھی تصریح فرماتے ہیں کہ جب کسی مرسل کی تائید کسی دوسرے مسند یا مرسل سے ہوتی ہو تو مقبول ہے ۔ چنانچہ حافظ ابن حجر شرح نخبہ میں فرماتے ہیں .........رکعات ص ٤٦)
ج : صرف امام شافعی ہی نہیں بلکہ جمہور محدثین اور اکثر ائمہ کا مذہب یہی ہے کہ مرسل حدیث مقبول نہیں ہے وہی خطیب بغدادی جن کی ناقص عبارت آپ نے حاشیہ مںش نقل کی ہے اسی عبارت کے ساتھ لکھتے ہیں :
وقال محمد بن ادریس الشافعی وغیرہ من اھل العلم لا یجب العمل بہ وعلی ذلک اکثر من الائمة من حفاظ الحدیث و نقاد الاثر (کفایہ ص ٣٨٤)
حافظ ابن صلاح لکھتے ہیں :
وما ذکرنا من سقوط الاحتجاج بالمرسل ولحکم بضعفہ ھوالذی استقر علیہ اراء جماھیر حفاظ الحدیث و نقاد الاثر (مقدمہ ص ٢١)
حافظ زین الدین عراقی لکھتے ہیں :
وذھب اکثر اہلحدیث الی ان المرسل ضعیف لا یحتج بہ (فتح المغیث للعراقی ص ٦٩)
تقریب للنووی اور تدریب للسیوطی میں ہے :
ثم المرسل حدیث لا یجتح بہ عند جماہیر المحدثین والشافعی (تدریب ص ٦٦)
امام ترمذی فرماتے ہیں :
قال ابوعیسی والحدیث اذ کان مرسلا فانہ لا یصح عند الثر اھل الحدیث قد ضعفہ غیر واحد منھم انتھی (کتاب العمل ص ٢٤٥)
الحاصل اکثر محدثین کے نزدیک صحیح مسلک یہی ہے کہ مرسل روایت ضعیف اور نا قابل احتجاج ہے ۔ امام شافعی چند شرطوں کے ساتھ اس کو مقبول کہتے ہیں ۔ حافظ ابن حجر نے نخبہ میں (جو اصولِ حدیث کی مختصر کتاب ہے)ان شرطوں کو بہت اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔ مولانا مئوی نے اس اختصار سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اور اس بحث کے سلسلہ میں بار بار امام شافعی کا حوالہ دیا ہے ۔ حالانکہ اگر وہ وسعت مطالعہ سے کام لیتے اور شرح نخبہ جیسی مختصر کتاب ہی پر اپنی نظر مقصور نہ کر دیتے تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ امام شافعی کا مسلک اس باب میں ان کیلئے کچھ بھی مفید نہیں ہے بلکہ الٹا مضر ہے ۔
اس وقت ہمارے سامنے ا مام شافعی کا ''الرسالة'' بھی موجود ہے ، مگر اس کی طویل عبارت نقل کرنے کی بجائے ان کا خلاصہ ہم مشہور محدث حافظ عماد الدین ابن کثیر کے لفظوں میں پیش کرتے ہیں ۔ لکھتے ہیں :
والذی عول علیہ کلامہ فی الرسالة ان مراسیل کبار التابعین حجة ان جاء ت من وجہ اخر ولو مرسلة او اعضدت بقول صحابی او اکثر العلماء او کان المرسل لو سمی لا یہی الاثقة فحینئذ یکون مرسلہ حجة ولا یلتھض الی رتبة المتصل ۔ قال الشافعی وامامراسیل غیر کبار التابعین فلا اعلم احد اقبلھا انتھی (اختصار علوم الحدیث ص ١٥) ۔
یعنی امام شافعی نے اپنی کتاب ''الرسالہ'' میں لکھا ہے کہ کبار تابعین کی مرسل روایتیں حجت ہیں بشرط یہ کہ وہ کسی دوسرے طریق سے بھی مروی ہوں ۔ خواہ وہ دو سرا طریق مرسل ہی کیوں نہ ہو ۔ یا ان کی تائید کسی صحابی یا اکثر علماء کے قول سے ہوتی ہو یا ارسال کرنے والا راوی جب نام لے تو ثقہ ہی کا نام لے ۔ ان شرائط کے ساتھ مرسل حجت ہو گی مگر پھر بھی وہ متصل کے برابر نہیں ہو سکتی ۔ امام شافعی نے یہ بھی لکھا ہے کہ غیر کبار تابعین (یعنی متوسطین اور صغار تابعین) کی مرسل روایتوں کی بابت میں کسی (اہل علم) کو نہیں جانتا جس نے ان کو قبول کیا ہو ۔
لیجئے امام شافعی کے نزدیک حدیث مرسل کے مقبول ہونے کی سب سے پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ کبار تابعین سے مروی ہو اور یہی روایت دوسری مسند یا مرسل روایتوں کی تائید وغیرہ سے قوت پکڑے گی اور حجت ہو گی غیر کبار تابعین کی مراسیل تو کسی حال میں بھی مقبول نہیں ہیں ۔ حافظ ابن حجر ایک جگہ لکھتے ہیں :
والشافعی انما یعتضد عندہ اذا کان من روایة کبار التابعین (فتح الباری باب صب الماء علی البول فی المسجد)
یعنی مرسل روایت امام شافعی کے نزدیک اس وقت قوت پکڑتی ہے جب وہ کبار تابعین سے مروی ہو ۔
امام شافعی کی اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے اس کے بعد آگے بڑھیے ۔
قولہ : جب یہ ذہن نشین ہو چکا تو سنیے کہ یزید بن روما ن کا اثر اگرچہ مرسل ہے ، مگر اس کی تائید کئی دوسرے مرسلوں سے ہوتی ہے جو ابھی مذکور ہوں گے لہذا بالاتفاق مقبول اور حجت ہے (رکعات ص ٩٥)
ج : ہم نے بھی ابھی جو کچھ عرض کیا ہے اگر وہ ذہن سے محو نہ ہو چکا ہو تو سنیئے کہ یزید بن رومان صغار تابعین میں سے ہیں ۔ اس لئے ان کے اس اثر کی تائید خواہ کتنے ہی مرسلوں سے ہوتی ہو ۔ نہ وہ امام شافعی کے نزدیک مقبول ہے اور نہ اکثر ائمہ و محدثین کے نزدیک ۔ اس لئے آپ کا یہ دعویٰ بالکل غلط اور سراسر ناواقفیت پر مبنی ہے کہ ''وہ بالاتفاق مقبول اور حجت ہے'' ۔
یہی حال ان تمام ''مرسلوں '' کا ہے جو آپ نے اس موقع پر ذکر کئے ہیں ان میں سے کوئی مرسل بھی ایسا نہیں ہے جو کبار تابعین سے مروی ہو ۔ اس لئے یہ سب مراسیل مردود اور ناقابل حجت ہیں ۔ یزید بن رومان کے متعلق حافظ ابن حجر تقریب التہذیب ص ٣٩٧ میں لکھتے ہیں : ثقة من الخامسة یعنی ثقہ ہے اور پانچویں طبقہ میں سے ہے ۔ پانچویں طبقہ کی بابت حافظ ابن حجر ہی اسی تقریب کے شروع میں لکھتے ہیں :
الخامسة الطبقة الصغری منھم یعنی پانچواں طبقہ صغار تابعین کا طبقہ ہے ۔
قولہ : از انجملہ عبدالعزیز بن رفیع کا اثر ہے ... یہ ا ثر بھی مرسل ہے مگر چونکہ یزید بن رومان کا مؤید ہے اس لئے اس کا مرسل ہونا مضر نہیں ہے۔ جیسا کہ امام شافعی کی تصریح سے ثابت ہو چکا ہے (رکعات ص ٦٥)
ج : یہ دوسرا اثر ہے جو مولانا مئوی نے پیش کیا ہے ، لیکن امام شافعی کی تصریح کی رو سے تب بھی مقبول نہیں ہے کیونکہ عبدالعزیز بن رفیع بھی کبار تابعین سے نہیں ہیں ۔ ان کی بابت حافظ ابن حجر لکھتے ہیں : ثقة من الرابعة (تقریب ص ٢٤١) یعنی یہ چوتھے طبقہ کے راوی ہیں اور چوتھا طبقہ وہ ہے جو تابعین کے طبقہ وسطی کے قریب ہے جن کی اکثر روایتیں کبار تابعین سے لی گئی ہیں ، صحابہ سے نہیں ۔ (دیکھو تقریب ص ٣)
قولہ : از انجملہ یح بن سعید انصاری کا اثر ہے ... یہ بھی مرسل ہے مگر چونکہ مؤید ہے اس لئے کوئی مضائقہ نہیں (رکعات ص )
ج : یہ تیسرا اثر مولانا مئوی نے پیش کیا ہے ، لیکن یہ بھی مردود ہے اور اس سے یزید بن رومان کے اثر کو کوئی قوت نہیں پہنچے گی کیونکہ یحی بن سعید انصاری بھی کبار تابعین سے نہیں ہیں ۔ حافظ ابن حجر ان کی بابت لکھتے ہیں : ثقہ من الخامسة (تقریب ٣٩١) یعنی پانچوں طبقہ کے راوی ہیں اور پانچویں طبقہ کے متعلق گذر چکا ہے کہ یہ صغار تابعین کا طبقہ ہے ۔
قولہ : از انجملہ خود حضرت ابی کی روایت ہے ... اس روایت کی اسناد کا حال معلوم نہیں ، مگر چونکہ یہ یزید بن رومان کے اثر کی مؤید ہے اس لئے اگر ضعیف الاسناد بھی ہو تو کچھ ہرج نہیں ۔ (رکعات ص)
ج : ضعیف الاسناد ہی کیا ۔ اگر موضوع بھی ہو تو کچھ حرج نہیں اس لئے کہ حنفی مذہب کی تائید میں ایک دلیل کی تعداد تو بڑھ جائے گی ؟ آخر جب سند کا حال معلوم نہیں ہے تو سب اس کا اقل درجہ ضعیف الاسناد ہی ہونے کا آپ نے کیوں فرض کر لیا ؟ اس کے موضوع ہونے کا احتمال کیوں غلط ہے ؟
مولانا مئوی کے انصاف و دیانت کا یہ تماشا بھی دیدنی ہے کہ جلسہ واحدہ میں تین طلاق کے مسئلہ پر بحث کے سلسلے میں اہل حدیث عالم نے ایک روایت پیش کی تو اس کی بابت مولانا نے بڑے معصومانہ انداز میں فرمایا کہ ہمارے مخالفین جب اپنے کسی دعوے کے ثبوت میں کوئی روایت پیش کرتے ہیں تو شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ کسی روایت سے استدلال اسی وقت صحیح ہو سکتا ہے جب کہ وہ صحیح بھی ہو ۔ لہذا پیش کردہ روایت کی نسبت کسی محدث کی تصحیح یا کم از کم کتب رجال سے اسناد کے راویوں کی توثیق نقل کرنا ضروری ہے ... پس مخالفین سے میرا مطالبہ یہ ہے کہ کم از کم اس روایت کے رجال کی توثیق پیش کریں (الاعلام المرفوعہ ص ٢٤) لیکن جب اپنا مطلب آ پڑا تو خود بھی اسی ''بھول'' میں مبتلا ہو گئے جس کا الزام و ہ دوسروں کو دے رہے تھے ۔ لہذا انہیں کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق ان سے میرا مطالبہ یہ ہے کہ اس روایت کی نسبت کسی معتبر محدث کی تصحیح یا کتب رجال سے اس کے اسناد کی توثیق پیش کریں ۔
قولہ : از انجملہ محمد بن کعب قرظی کا اثر ہے ... یہ اثر بھی مرسل ہے (کعات ص٦٦) ۔
ج : لیکن محمد بن کعب قرظی بھی کبار تابعین سے نہیں ہیں اس لئے یہ اثر بھی بے اثر ہے ۔ حافظ ابن حجر ان کے متعلق لکھتے ہیں ثقة عالم من الثالثة (تقریب ص ٣٣٦) یعنی ثقہ ہیں ، عالم ہیں تیسرے طبقے کے ہیں اور تیسرا طبقہ تابعین متوسطین کا طبقہ ہے (دیکھو تقریب ص ٦٦) ۔
قولہ : اعمش نے کہا کہ حضرت ابن مسعود وتر کے علاوہ بیس رکعتیں پڑھتے تھے (رکعات صفحہ ) ۔
ج : اعمش بھی کبار تابعین سے نہیں ہیں ۔ حافظ ان کی بابت لکھتے ہیں من الخامسة (تقریب ص ١٦٠) یعنی یہ پانچویں طبقہ کے ہیں اور پانچواں طبقہ صغار تابعین کا ہے ۔ اس لئے یہ مرسل بھی کالعدم ہے ۔
قولہ : بہر حال یہ سارے مرسل یزید بن رومان کے مرسل کے مؤید ہیں اور یہ تو کل پانچ مرسل ہیں ۔ اگر ایک بھی ہوتا تو امام شافعی کی تصریح کے بموجب یزید کا مرسل مقبول اور قابلِ احتجاج ہوتا ... اس حالت میں بھی اگر کوئی شخص اس کو مرسل کہہ کے ناقابلِ استدلال ظاہر کرتا ہے تو بڑا شرمناک تعصب اور خلافِ دیانت بات ہے ۔ (رکعات ص ١٧٦) ۔
ج : جی نہیں امام شافعی کی تصریح کے بموجب تو نہ یزید کا مرسل مقبول اور قابلِ احتجاج ہے اور نہ یہ ''سارے مرسل'' اس کی تائید و تقویت کا باعث ہیں اور یہ تو آپ نے ''کل پانچ'' ہی مرسل پیش کئے ہیں ایسے ایسے پچاس مرسل بھی اگر آپ پیش کر دیتے تو امام شافعی کی تصریح کے بموجب ایک بھی کام کا نہ ہوتا ۔ ایسی حالت میں اگر کوئی شخص یزید کے مرسل کو امام شافعی کے قول کے بموجب قابلِ استدلال ظاہر کرتا ہے تو بڑا شرمناک تعصب اور خلافِ دیانت بات ہے َ
مرسل روایتوں کا دوسرا جواب : آخر میں ایک بات اور سن لیجئے ۔ امام شافعی فرماتے ہیں :
واذا وجدت الدلائل بصحة حیثہ بما وصفت اجبنا ان تقبل مرسلہ ولا نستطیع ان نزعم ان الحجة تتثبت بالموتصل(١) انتھی (الرسالہ بشرح احمد محمد شاکر ص ٤٦٤)
یعنی ایسے راوی کی حدیث کی صحت کے دلائل اگر ہماری بیانکردہ شرطوں کے مطابق پائے جائیں گے تو ہم اس کی مرسل روایت کو قبول کرلینا پسند کریں گے ۔ (لیکن بایں ہمہ) ہم یہ کہنے کی جرات نہیں کر سکتے کہ اس مرسل روایت سے اسی طرح حجت قائم ہو گی جس طرح کسی متصل روایت سے ہوتی ہے ۔ اسی بات کو حافظ ابن کثیر نے ان لفظوں میں ادا کیا ہے ولا ینتھض الی رتبة المتصل یعنی یہ مرسل حدیث (شرائط صحت کے تحقق کے بعد بھی ) کسی متصل روایت کے برابر نہیں ہو سکتی ۔
تیسرا جواب : یہ گذارشات تو اس تقدیر پر پیش کی گئی ہیں کہ مولانا مئوی کی پیش کردہ ان تمام روایتوں کا ''مرسل'' ہونا تسلیم ہو ۔ ورنہ جمہورمحدثین (جن میں امام شافعی بھی شامل ہیں ) کی اصطلاح کے مطابق ان روایتوں میں سے کوئی ایک روایت بھی ''مرسل'' نہیں ہے بلکہ یہ سب ''موقوف منقطع'' ہیں ۔ کیونکہ
(١) قولہ بالموتصل ہذة لغة الحجاز کذا قال احمد محمد شاکر فی شرح ١٢
جمہور محدثین کے نزدیک ''مرسل'' وہ حدیث ہے جس میں تابعی نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول یا فعل یا تقریر کو بیان کیا ہو اور ان روایتوں میں سے کسی روایت میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر کے کوئی بات نہیں بیان کی گئی ہے ، بلکہ ان سب روایتوں مںل صحابہ اور تابعین کے فعل کا بیان ہے اور صحابی کے قول یا فعل یا تقریر کو ''موقوف'' کہتے ہیں خواہ وہ متصل ہو یا منقطع ۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
(والثانی) وھو ما سقط عن اخرہ من بعد التابعی (ھو المرسل) و صورتہ ان یقول التابعی سواء کان کبیرا او صغیرا قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم وعلی الہ و صحبہ وسلم کذا او فعل کذا او فعل بحضرتہ کذا و تحو ذلک ۔ (شرح نخبہ ص ٥٠)
حافظ عراقی لکھتے ہیں :
اختلف فی حد الحدیث المرسل فالمشہور انہ ما رفعہ التابعی الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم الخ (فتح المغیث ص ٦٧)
کشف الاسرار علی اصول البزدوی ص ٢ جلد ٣ میں ہے :
الارسال خلاف التقیید لغة ...... وھو فی اصطلاح المحدثین ان یترک التابعی الواسطة التی بینہ وبین الرسول علیہ السلام فیقول قال رسول اﷲ علیہ السلام کذا انتھی
ظفر الامانی ص ١٩١ میں ہے :
القول الرابع انہ مرفوع التابعی صغیرا کان او کبیرا او ھوالمشہور بین ائمة الحدیث انتھی
امام نووی لکھتے ہیں
واما الموقوف فما اضیف الی الصحابی قولاً لہ او فعلاً او نحوہ ستصلا کان او منقطعا ...... واما المرسل فھو عند الفقھاء واصحاب الاموال والخطیب الحافظ ابی بکر البغدادی و جماعة من المحدثین ما انقطع اسنادہ علی ای وجہ کان انقطاعہ فھو عندھم بمعنی المنقطع وقال جماعات من المحدثین او اکثرھم لا یسمی مرسلا الاما اخبر فیہ التابعی عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم انتھی ۔(مقدمہ شرح مسلم ص ١٧)
امام شافعی فرماتے ہیں :
المنقطع مختلف فمن شاھد اصحاب رسول اﷲ من التابعین فحدث حدیثا منقطعا عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم اعتبر علیہ بامور الخ (الرسالہ بشرح احمد محمد شاکر ص ٤٦١)
غور کیجئے یہ عبارتیں صاف اس بات پر د لالت کر رہی ہیں کہ اکثر محدثین کی معروف اصطلاح کی رو سے ''مرسل'' وہ حدیث ہے جس میں تابعی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی بات منسوب کرے ۔ امام شافعی نے اگرچہ اس کو ''منقطع'' میں داخل کیا ہے مگر بہر حال اسی ''مرفوع منقطع'' کی مقبولیت کے لئے انہوں نے اپنے مخصوص شرائط بیان کئے ہیں ۔ ''موقوف منقطع'' کے لئے نہیں ۔ لہذا آثار مذکورہ (جو سب کے سب موقوف منقطع ہیں ) کی بابت امام شافعی کی ''تصریح'' کا بار بار حوالہ دینا بالکل بے محل بلکہ بے خبری کی بات ہے ۔ ان کی ''تصریح'' کے بموجب '' تو ان میں سے ایک بھی مقبول اور قابل حجت نہیں ہے خواہ وہ یزید بن رومان کا اثر ہو یا دوسرے آثار کیونکہ امام شافعی کی بیان کردہ شرطوں کا تعلق اس نوعیت کی روایات کے ساتھ ہے ہی نہیں ۔
احنا ف کی دوسری دلیل پر بحث ختم ہو گئی اب آگے ان کی تیسری دلیل کا جواب پڑھیئے جو مولانا مئوی کے بیان کے مطابق ان کی آخری دلیل ہے ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
احناف کی تیسری دلیل پر بحث
قولہ : (تیسری دلیل) سنن ب ہیقی وغیرہ میں مروی ہے کہ حضرت علی نے رمضان میں قراء کو بلایا اور ان میں سے ایک کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعتیں پڑھایا کرے اور وتر حضرت علی پڑھاتے تھے ۔ حضرت علی کا یہ اثر دوسرے طریق سے بھی مروی ہے جس کو ابن ابی شیبہ نے اپنے مصنف میں ذکر کیا ہے اور وہ یہ ہے :
ثنا وکیع عن الحسن بن صالح عن عمرو بن قیس عن ابی الحسناء ان علیا امر رجلا یصلی بھم عشرین رکعة ......
ابوالحسناء کی یہ روایت بیہقی میں ایک د وسرے طریق سے مروی ہے اور اس طریق کو بیہقی نے ضعیف کہا ہے ، مگر یہ ضعف مضر نہیں ہے ، اس لئے کہ اس طریق کا مؤید مصنف کا طریق ہے ۔
حافظ عبداللہ صاحب غا زی پوری نے رکعات التراویح میں حضرت علی کے ان آثار کی سندوں پر کلام کر کے یہ کہہ دیا ہے کہ یہ صحیح نہیں ہیں ، مگر حافظ صاحب کا یہ کلام بیہقی اور ابن تیمیہ کے مقابل میں کوئی وزن نہیں رکھتا ۔ (ملخصا از رکعات ص ٧٠ ، ٧١ ، ٧٢)
ج : ان آثار کی سندوں پر یعنی ان کے راویوں پر حافظ صاحب نے جو ''کلام'' کیا ہے وہ ''کلام'' ان کا نہیں ہے وہ تو محض ناقل ہیں ۔ ''کلام'' تو امیرالمؤمنین فی الحدیث بخاری کا ہے ۔ یح بن معین کا ہے ۔ جن کو آپ نے بھی اپنے مطلب کے موقع پر امامِ فنِ جرح و تعدیل تسلیم کیا ہے ۔ (دیکھو رکعات ص ٢٧) امام نسائی کا ہے ابن عدی کا ہے ابو حاتم کا ہے حافظ ابن حجر کا ہے ۔ حافظ ذہبی کا ہے اور ایک سند کے متعلق تو خود بیہقی کا ہے ۔
فرمایئے ! کیا ان اکابر اور نقاد کا ''کلام'' بھی کوئی وزن نہیں رکھتا ؟
ہاں ! ذرا یہ بھی بتاتے جائیے کہ بیہقی تو تسلیم کرتے ہیں کہ حدیث عائشہ (ما کان یزید فی رمضان الخ) کا تعلق تروایح سے بھی ہے (حوالہ گذر چکا) مگر آپ کو اس سے انکار ہے ۔ نیز بیہقی اور ابن تیمیہ دونوں مانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے تراویح کی گیارہ رکعتیں ثابت ہیں (اس کا بھی حوالہ گذر چکا ) مگر آپ کو اس سے انکار ہے ۔ تو کیا ان باتوں کے متعلق بیہقی اور ابن تیمیہ کے مقابلے میں آپ کا کلام کوئی وزن رکھتا ہے ؟ ان سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کے علامہ شوق نیموی نے بھی ان آثار کی سندوں پر وہی کلام کیا ہے جو حافظ صاحب غازی پوری نے کیا ہے اور ان کا کوئی جواب نہیں دیا ہے ۔ تو بتائیے بیہقی اور ابن تیمیہ کے مقابل میں نیموی کا بھی یہ کلام کوئی وزن رکھتا ہے یا نہیں ؟
سنن بیہقی کے حوالے سے مولانا مئوی نے جو سب سے پہلی روایت پیش کی ہے اس کی اسناد کا زیر بحث سلسلہ یہ ہے :
حماد بن شعیب عن عطاء بن السائب عن ابی عبدالرحمن السلمی عن علی رضی اللہ عنہ قال دعا القراء فی رمضان الحدیث
اس روایت میں حماد بن شعیب اور ان کے استاد عطاء بن السائب دونوں مجروح اور متکلم فیہ راوی ہیں ۔ چنانچہ حماد بن شعیب کی نسبت حافظ ذہبی لکھتے ہیں ... یعنی حماد بن شعیب حمانی کوفی ابوالزبیر وغیرہ سے روایت کرتے ہیں ۔ یح بن معین نے ان کو ضعیف کہا ہے اور یح بن معین نے ایک بار یہ بھی کہا ہے کہ یہ اس قابل بھی نہیں ہیں کہ ان کی حدیث لکھی جائے اور امام بخاری نے ان کے حق میں فیہ نظر١ کہا ہے ۔ اور نسائی نے بھی ان کو ضعیف کہا ہے اور ابن عدی نے کہا کہ ان کی اکثر حدیثیں اس قسم کی ہوتی ہیں جن پر ان کی کوئی متابعت نہیں کرتا اور ابو حاتم نے کہا کہ'' یہ قوی نہیں ہیں '' ۔ (میزان الاعتدال ص ٢٧٩ ج ١ طبع مصر) ۔
عطا بن سائب کی نسبت حافظ ذہبی نے جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ ترجمہ یہ ہے ۔ عطاء بن سائب کو فی علماء تابعین میں سے ایک عالم ہیں ۔ آخر میں ان کے حافظہ میں تغیر آگیا تھا اور حافظہ بگڑ گیا تھا ۔ امام احمد بن حنبل نے کہا جن راویوں نے ان سے قبل میں حدیث سنی وہ صحیح ہے اور جنہوں نے بعد میں سنی وہ کچھ نہیں ہے ۔ احمد بن ابی خیثمہ نے یح سے نقل کیا کہ شعبہ اور سفیان نے عطاء سے جو سنا ہے وہ ٹھیک ہے اس کے سوا عطاء بن سائب کی سب حدیث ضعیف ہے ۔ یح بن سعید نے کہا کہ حماد بن زید نے بھی عطاء سے ان کے حافظہ کے تغیر سے پہلے سنا ہے ۔ امام بخاری نے کہا کہ عطاء بن سائب کی قدیم حدیثیں صحیح ہیں ۔ ابو حاتم نے کہا کہ عطاء حافظہ کے تغیر سے پہلے سچائی کے محل تھے ۔ نسائی نے کہا عطاء اپنی قدیم حدیثوں کے بارے میں ثقہ ہیں ۔ کیونکہ بعد میں ان کے حافظہ میں تغیر آ گیا تھا ۔ شعبہ اور سفیان ثوری اور حماد بن زید نے عطاء سے جو حدیثیں روایت کی ہیں
(١) قولہ فیہ نظر قال الحافظ السیوطی البخاری یطلق فیہ نظر و سکتوا عنہ فیمن ترکوا حدیثہ ویطلق منکر الحدیث علی من لا تحل الروایة عنہ (تدریب الراوی ص ١٢٧ وکذا قال العراقی فی شرح الفیة ج ٢ ص ٤١)
وہ اچھی ہیں ۔ (میزان الاعتدال ص ١٩٧ ج ٢) ۔
اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ شعبہ ، سفیان ثوری اور حماد بن زید یہی تین اشخاص ایسے ہیں جنہوں نے عطاء بن سائب سے ان کے تغیر حافظہ سے قبل سنا ہے ۔ لیکن حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں ان کے علاوہ بھی کچھ ایسے راویوں کے نام پیش کئے ہیں جنہوں نے عطاء مذکور سے ان کے تغیر حافظہ سے قبل روایت لی ہے مگر ان ناموں میں بھی حماد بن شعیب کا ذکر نہیں ہے اس ثابت سے ہوتا ہے کہ ماہرین فن محدثین کے تتبع کے مطابق حماد بن شعیب ان راویوں میں سے نہیں ہے جنہوں نے عطاء بن سائب سے ان کے حافظہ کے تغیر سے قبل سنا ہے لہذا یا تو یہ کہا جائے کہ اس نے تغیر حافظہ کے بعد سنا ہے تو اس صورت میں یہ روایت بالجرم مردود قرار پائے گی یا یہ کہا جائے کہ اس کے بارے میں توقف کیاجائے گا تب بھی عملاً یہ رد ہی کے حکم میں ہو گی ۔ بہر حال یہ روایت استناد و احتجاج کے قابل نہیں ہے ۔
یہ جرح تو اس تقدیر پر ہے کہ حماد بن شعیب ثقہ ہوتے لیکن جبکہ وہ خود بھی مجروح اور ضعیف ہیں ۔ ایسی حالت میں تو اس روایت کے ضعیف ہونے میں شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں باقی رہتی ۔ اور درجہ اعتبار سے وہ بالکل ساقط ہو جاتی ہے ۔
مولانا مئوی اس جرح کے جواب میں لکھتے ہیں :
''حافظ صاحب نے حضرت علی کے اثر بروایت ابوعبدالرحمن پر جماد بن شعیب اور عطاء بن السائب کی وجہ سے کلام کیا ہے اور ان کو معلوم ہے کہ حضرت علی کے اس اثر کا یہی ایک طریق نہیں ہے ، بلکہ دوسرا طریق ابولحسناء کا بھی ہے اور اس میں مذکورہ بالا دونوں راوی نہیں ہیں ... (رکعات ٧٢)
ج : گویا مولانا مئوی صاحب کو تسلیم ہے کہ بلا شبہ دونوں راوی ضعیف اور مجروح ہیں اور محدثین نے ان دونوں پر جو جرحیں کیں ہیں وہ سب مقبول اور معتبر ہیں پھر جان بوجھ کر ایسے راویوں کی روایت کو حنفی مذہب کی دلیل میں پیش کرنے کا منشا اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ ''دلیلوں '' کی تعداد بڑھا کر ناواقف عوام کو مغالطہ میں ڈالا جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنتِ صحیحہ ثابتہ سے لوگوں کو بلا وجہ برگشتہ کیا جائے ۔ ایسے جمود اور تعصب سے اللہ کی پناہ ۔
ان دونوں راویوں کا ضعف تسلیم کرنے کے بعد مولانا مئوی نے ابوالحسنا کے طریق کا حوالہ دیا ہے حالانکہ ان کو معلوم ہے کہ حافظ صاحب نے اس طریق کا بھی ناقابل اعتماد ہونا ثابت کر دیا ہے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں :
''معہذا جو اس روایت کی سند لکھی ہے اس میں ایک راوی ابوالحسناء ہیں جو حضرت علی سے روایت کرنے والے قرار دیئے گئے ہیں ۔ معلوم نہیں یہ ابوالحسناء کون بزرگ ہیں اگر یہ وہی ابوالحسناء ہیں جو تقریب التہذیب میں مذکور ہیں تو ان کو تو حضرت علی سے لقاء ہی نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ ابوالحسناء طبقہ سابعہ سے ہیں جو کبار اتباعِ تابعین کا طبقہ ہے جس کو کسی صحابی سے لقا نہیں ہے ۔ چہ جائیکہ حضرت علی سے لقا ہو اور جب حضرت علی سے ان کی لقاء ثابت نہیں ہوئی تو یہ روایت بھی بوجہ منقطع السند ہونے کے صحیح نہ ٹھہری ۔ علاوہ بریں یہ ابوالحسناء مجہول راوی بھی ہیں ۔ تو اس وجہ سے بھی یہ روایة صحیح ثابت نہ ہوئی'' (رکعات التراویح طبع کلکتہ ص ٢٢)
یہ گفتگو تو حافظ صاحب نے ابوالحسنا ء کی اس روایت پر فرمائی ہے جو مصنف ابن ابی شیبہ میں منقول ہے ۔ رہا اس کا وہ طریق جو بیہقی میں مروی ہے تو اس کی بابت حافظ صاحب لکھتے ہیں کہ :
اس روایت کا جواب تو خود اسی روایت کے آخر میں مذکور ہے کہ فی ہذاالاسنادضعف یعنی اس روایت کی سند ضعیف ہے اس کے ضعف کے چند وجوہ ہیں ازانجملہ ایک وجہ یہ ہے کہ اس روایت کی سند میں ایک راوی ابو سعد بقال ہیں اور وہ اس درجے ضعیف ہیں کہ امام ذہبی فرماتے ہیں کہ ''میرے علم میں کسی نے بھی ان کی توثیق نہیں کی ہے و معہذا یہ مدلس بھی ہیں اور یہ روایت انہوں نے عن کے ساتھ کی ہے اور جب راوی مدلس عنعنہ کرے یعنی عن کے ساتھ روایت کرے تو اس کی وہ روایت صحیح نہیں ہوتی ۔ اگرچہ وہ راوی ثقہ ہی کیوں نہ ہو ۔ تو جب وہ راوی غیر ثقہ ہو جیسے ابو سعد بقال تو اس کی روایت کیونکر صحیح ہو گی یعنی اس کی تو بطریق اولی صحیح نہ ہو گی ۔ الحاصل یہ روایت بھی صحیح نہ نکلی ... ازانجملہ ایک وجہ یہ ہے کہ اس روایت کی سند میں ایک راوی ابوالحسناء بھی ہیں جو ابو سعد بقال مذکور کے شیخ ہیں اور حضرت علی سے اس اثر کے روایت کرنے والے قرار دیئے گئے ہیں ان ابوالحسناء میں جو کلام ہے رسالہ میں مفصل مذکور ہو چکا ہے '' ۔ (رکعات التراویح طبع کلکتہ ص ٢٩ ، ٣٠) ۔
مولانا مئوی کی نتقیدیں اور ان کا جواب : حافظ صاحب کے ان جوابوں پر مولانا مئوی نے جو تنقید کی ہیں اب ہم آپ کے سامنے ان کی ایک ایک تنقید اور اس کا جواب عرض کرتے ہیں :
قولہ : حافظ صاحب نے حضرت علی کے اثر بروایت ابوالحسناء پر جو کلام کیا ہے وہ بھی غلط ہے ۔ اس لئے کہ ایک کلام ان کا یہ ہے کہ اس کی سند میں ابو سعد بقال راوی ہے جو ثقہ بھی نہیں ہے ا ور مدلس بھی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حافظ صاحب کو معلوم ہے کہ ابو سعد بقال کی متابعت (تائید) عمرو بن قیس نے کی ہے اور اصول حدیث میں مصرع ہے کہ مدلس یا ضعیف راوی کی متابعت کوئی دوسرا مدلس یا ضعیف بھی کر دے تو اس کی روایت مقبول ہو جاتی ہے ۔ لہذا ابو سعد کی وجہ سے اس کی اسناد کی تضعیف اصولاً غلط ہے ۔
ہم یہ کہنے کی جرات تو نہیں کر سکتے کہ اصول کا ایسا موٹا مسئلہ بھی حافظ صاحب کو معلوم نہ تھا ، لیکن مشکل یہ ہے کہ سب جاننے کے باوجود انہوں نے خواہ مخواہ ابوسعد پر کلام اور اس کی وجہ سے سند کو ضعیف قرار دیا ۔ اس کو کیا کہا جائے (رکعات ص ٧٨) ۔
ج : سبحان اللہ کیا معصومانہ انداس ہے ۔ الفاظ کے استعمال میں بظاہر کتنی احتیاط برتی گئی ہے ، مگر کیا اپنے ''پندارِ علمی'' کے مظاہرے اور حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ کی ''تجہیل'' میں کوئی کسر چھوڑی گئی ہے ؟ بقول شخصے

ع کہنے کو کیا نہیں کہا کچھ بھی مگر کہا نہیں ۔​

مولانا ! کسی بات کا جان لینا ہی کمال نہیں ہے بلکہ اس کی گہرائیوں تک پہنچنا اور حقیقت شناس ہونا کمال ہے ۔ اصول کا یہ ''موٹا مسئلہ'' آپ جانتے ضرور ہوں گے مگر اس کی گہرائیوں سے بے خبراور حقیقت سے نا آشنا ہیں ۔ آپ کا یہ علم مخض سطحی اور طالب علمانہ ہے ۔ آئیے ہم آپ کو اس کی گہرائیوں تک پہونچائیں
سب سے پہلے اس بات پر غور کیجئے کہ ابو سعد بقال اور عمرو بن قیس جو بظاہر ابوالحسناء کے شاگر معلوم ہوتے ہیں ان دونوں کی سندوں میں عن ابی الحسناء کا لفظ ہے اور ''عن'' کے متعلق اصول حدیث میں یہ صراحت موجود ہے کہ اس لفظ کے ساتھ روایت کرنے کی صورت میں راوی اور مروی عنہ کے مابین لقاء اور عدم لقاء سماع اور عدم سماع دونوں کا احتمال ہوتا ہے ۔ چنانچہ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں : ثم عن و نحوھا من الصیغ المحتملة للسماع والاجازة وعدم السماع ایضا( شرح نخبہ ص ٩٦) یعنی ادائے حدیث کے لئے عند المحدثین جو صیغے اور الفاظ معتبر ہیں ان میں ''عن'' اور اس جیسے الفاظ کا درجہ سب سے نیچے ہے ۔ اور یہ سماع اور عدم سماع ، اجازت اور عدم اجازت دونوں کا احتمال رکھتے ہیں '' اسی لئے اس لفظ کو ''سماع'' پر محمول کرنے کے لے یہ شرط ہے کہ راوی اور مروی عنہ دونوں معاصر یعنی ایک زمانے کے ہوں ۔ حافظ ہی لکھتے ہیں :
وعنعنة المعاصر محمولة علی السماع بخلاف غیر المعاصر فانھا تکون مرسلة او منقطعة فشرط حملھا علی السماع ثبوت المعاصرة الا من المدلس فانھا لیست محمولة علی السماع انتھی ( شرح نخبہ ص ٨٩)
''یعنی معاصر کا عنعنہ سماع پر محمول ہوتا ہے غیر معاصر کا نہیں اس کا عنعنہ تو مرسل یا منقطع ہو گا ۔ لہذا کسی راوی کے عنعنہ کو سماع پر محمول کرنے کے لئے معاصرت کا ثبوت شرط ہے ۔ ہاں اگر راوی مدلس ہو تو (معاصرت کے ثبوت کے باوجود) اس کا عنعنہ سماع پر محمول نہیں ہو گا'' ۔
اس عبارت کا لفظ ثبوت المعاصرة (معاصرت کا ثبوت شرط ہے) اچھی طرح یاد رکھیے گا ۔ اسی سلسلے میں حافظ ہی کی ایک اور عبارت آپ کے سامنے رکھتا ہوں ۔ لکھتے ہیں :
ومن المھم فی ذلک عند المحدثین معرفة طبقات الرواة وفائدتہ الا من من تداخل المشتبھین وامکان الاطلاع علی تبیین التدلیس والوقوف علی حقیقة المراد من العنعنة (شرح نخبہ ص ١٠٩)
یعنی محدثین کے نزدیک فن حدیث میں جو باتیں خاص اہمیت رکھتی ہیں انہی میں سے راویوں کے طبقات کا جاننا بھی ہے ۔ منجملہ دوسرے فوائد کے اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ عنعنہ کی حقیقی مراد کا پتہ لگ جائے گا کہ (راوی اور مروی عنہ کے درمیان اتصال ہے یا انقطاع) حافظ ابن الصلاح لکھتے ہیں :
الاسناد المعنعن وھو الذی یقال فیہ فلان عن فلان عدہ بعض الناس من قبیل المرسل والمنقطع حتی یتبین اتصالہ بغیرہ والصحیح الذی علیہ العمل انہ من قبیل الاسناد المتصل والی ھذا ذھب الجماھیر من ائمة الحدیث وغیرہم واودعہ المشترطون للصحیح فی تصانیفھم فیہ وقبلوہ وکاد ابو عمر بن عبدالبرالحافظ یدعی اجماع ائمة الحدیث علی ذلک وادعی ابو عمرو الدانی المقری الحافظ اجماع اھل النقل علی ذلک وھذا بشرط ان یکون الذین اضیفت العنعنة الیھم قد ثبت ملاقاة بعضہم بعضا مع برتھم من وصمة التدلیس فحینئذ یحمل علی ظاہر الاتصال الا ان یظھر فیہ خلاف ذلک انتھی (مقدمہ للنوع الحاوی عشر)
اس عبارت کا بھی خلاصہ مطلب یہی ہے کہ جماہیر محدثین کے نزدیک اسناد معنعن اسناد متصل کے قبیل سے ہے ، مگر اس شرط کے ساتھ کہ جس کی طرف عنعنہ کی نسبت کی گئی ہے ۔ ان کی آپس میں ملاقات ثابت ہو اور معنعن (بکسر العین) تدلیس کے عیب سے بری ہو ۔ یہی بات تدریب مع التقریب میں بھی ہے (دیکھو ص ٧٣ ، ٧٤) ۔
اگر اصول کی یہ باتیں ذہن نشین ہو گئی ہوں تو اب سنیئے کہ جب آپ پورے جزم و یقین کے ساتھ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ''ابو سعد بقال کی متابعت عمرو بن قیس نے کی '' ۔ تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ یہ بھی دعوی کر رہے ہیں کہ ابو سعید بقال اور عمرو بن قیس دونوں ابوالحسناء کے معاصر ہیں اور یہ روایت ان دونوں نے بلا ارسال و انقطاع کے براہ راست ابوالحسنا سے لی ہے ۔
لیکن کیا ان دعووں میں سے کوئی ایک دعوی بھی آپ رجال کی کتابوں سے ثابت کر سکتے ہیں ؟ اور ایک آپ کیا ، میں تو کہتا ہوں اگر سارے علماء احناف مل کر بھی زور لگائیں تو ان دعووں کا ثبوت رجال کی کتابوں سے نا ممکن ہے ۔ اس لئے کہ رجال کی تمام متداول کتابیں کھنگال ڈالئے آپ کوکہیں بھی کسی ایسے راوی کا کوئی تذکرہ نہیں ملے گا جس کا نام یا کنیت ابوالحسنائء ہو اور ا س کے استاذ حضرت علی اور شاگرد ابو سعد بقال اور عمرو بن قیس ہوں ۔
پس جب اس ابوالحسناء کا کچھ پتہ ہی نہیں ہے کہ یہ کون ہے ؟ کس زمانے میں ہوا ہے ؟ کس طبقے کا راوی ہے ؟ کس سے اس کی ملاقات ہے اور کس سے نہیں ہے ؟ کون اس کے استاذ ہیں ؟ اور کون شاگرد ہیں ؟ الغرض کتب رجال سے نہ اس کی شخصیت کا کچھ پتہ ہے اور نہ حالات کا ۔ تو اب محض (من ابی الحسنائ) کہنے سے نہ اس کی شخصیت متعین ہوتی ہے اور نہ کسی کے ساتھ اس کی معاصرت ثابت ہو سکتی ہے اور جب معاصرت ہی ثابت نہیں تو پھر ملاقات اور حدیث کا سماع اور روایت تو محض خواب و خیال کی باتیں ہیں ۔ ہاں ''عن'' میں احتمال معاصرت اور امکان لقاء کی گنجائش ہے ، مگر حافظ ابن حجر کے قول کے بموجب صرف احتمال اور امکان کافی نہیں بلکہ معاصرت کا ''ثبوت'' شرط ہے اور حافظ ابن الصلاح کے قول کے بموجب تو ملاقات کا ثبوت بھی شرط ہے اور یہاں جب معاصرت ہی ثابت نہیں ہے تو ملاقات کے ثبوت کا کیا سوال؟
اور ابو سعد بقال تو مدلس بھی ہے ۔ اس لئے اس کا عنعنہ تو کسی حال میں بھی سماع پرمحمول نہیں ہو سکتا ۔ عمرو بن قیس اگرچہ مدلس نہیں ہے ، مگر ابوالحسناء کے ساتھ اس کی معاصرت بھی ثابت نہیں ہے اور جب تک معاصرت ثابت نہ ہو جائے اصولِ حدیث کی رو سے اس کا عنعنہ بھی اتصال و سماع پر محمول نہیں ہو سکتا اور جب راوی اور مروی عنہ کے مابین اتصال ہی ثابت نہ ہو تو متابعت کہاں سے ثابت ہو گی ؟ لہذا یہ دعوی اصولاً قطعاً غلط اور نرا تحکم ہے کہ ''عمرو بن قیس نے ابو سعد بقال کی متابعت کی ہے'' ۔ پہلے ابو سعد بقال اور عمرو بن قیس اور ابوالحسناء ان تینوں کی معاصرت تو ثابت کیجئے ؟
غالباً اب آپ کی سمجھ میں آ گیا ہو گا کہ حافظ صاحب مرحوم نے اس ''متابعت'' کو کیوں قابل اعتنا نہیں سمجھا ۔

وکم من عائب قولا صحیحا
و ا فتہ من الفھم السقیم

(فائدہ) یہ گفتگو چونکہ عمرو بن قیس کی ''متابعت'' کے سلسلے میں تھی اس لئے اب تک جو کچھ ہم نے عرض کیا ہے اس کا تعلق ابو الحسناء کے مزعوم 'شاگردوں ' سے تھا اب ہم اس کی بھی تحقیق کرنا چاہتے ہیں کہ ابو الحسناء نے حضرت علی سے جو اثر نقل کیا ہے تو کیا ابوالحسناء اور حضرت علی کی ملاقات یا کم ازکم معاصرت ہی ثابت ہے ؟
اس کے متعلق بھی سب سے پہلے قابل غور سلسلہ اسناد کے یہ الفاظ ہیں عن ابی الحسناء ان علیا امر یعنی یہ روایت لفظ ''ان'' کا بھی وہی حکم ہے جو عن کا ہے ۔ حافظ ابن الصلاح لکھتے ہیں :
اختلفوا فی قول الراوی ان فلانا قال کذا و کذا ھل ھو بمنزلة عن فی الحمل علی الاتصال اذا ثبت التلاقی بینھما حتی یتبین فیہ الانقطاع مثالہ مالک عن الزھری ان سعید بن المسیب قال کذا افر وینا عن مالک انہ کان یری عن فلان وان فلانا سواء وعن احمد بن حنبل انھما لیسا سوا ، وحکی ابن عبدالبر عن جمہور اھل العلم ان عن و ان سواء وانہ لا اعتبار بالحروف والالفاظ وانھا ھو باللقاء والمجالسة والسماع بعضھم من بعض صحیحا کان حدیث بعضھم عن بعض بان لفظ و رد محمولاً علی الاتصال حتی یتبین فیہ انقطاع انتھی (مقدمہ النوع الحادی عشر ص ٢٤) ۔
یعنی محدثین کا اس میں اختلاف ہے کہ جب راوی اور مروی عنہ کے مابین ملاقات ثابت ہو تو اس صورت میں لفظ ''ان'' بھی ''عن'' ہی کی طرح اتصال پر محمول ہوگا یا نہیں تو امام مالک سے مروی ہے کہ ''عن'' اور ''ان'' دونوں برابر ہیں اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک دونوں برابر نہیں ہیں ۔ ابن عبدالبر نے جمہور علما اہل علم سے نقل کیا ہے کہ عن اور ان دونوں برابر ہیں اور یہ کہ الفاظ اور حروف کا درحقیقت کوئی اعتبار نہیں بلکہ دارومدار اس بات پر ہے کہ دونوں میں ملاقات اٹھنا بیٹھنا روایت کا سننا اور ایک دوسرے کو دیکھنا ثابت ہو ۔ جب باہمی ملاقات اور سماع کا ثبوت ہو جائے گا تو اس حالت میں ایک دوسرے سے خواہ کسی لفظ کے ساتھ حدیث بیان کریں وہ اتصال ہی پر محمول ہو گا ۔ بشرط یہ کہ راوی مدلس نہ ہو اور نہ کسی واضح دلیل سے انقطاع ثابت ہو ۔
اس قاعدہ کی رو سے زیر بحث اثر میں ''ان علینا'' کے لفظ کو اتصال پر محمول کرنا اسی وقت صحیح ہو گا جب کہ کسی معتبردلیل سے ابوالحسناء اور حضرت علی کی باہمی ملاقات اور سماع کا ثبوت ہو جائے (یا جمہور کے قول کے مطابق کم از کم معاصرت ہی ثابت ہو جائے ) اور یہ ثبوت نا ممکن ہے اس لئے کہ تاریخ رجال کی کتابوں میں کہیں ایسے ابوالحسناء کا کوئی ذکر نہیں ملتا جس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی ہو یا کم سے کم یہ کہ ان کا ہم عصر ہو ۔ ظاہر ہے کہ جب معاصرت ہی ثابت نہیں ہے تو ملاقات اور سماع و روایت کا کیا ذکر ۔
پس حضرت علی کے اس اثر کے ضعیف اور نا قابل اعتماد ہونے کی یہ ایک دوسری وجہ ہوئی ۔ لہذا اس اثر کو اصولاً صحیح اور مقبول قرار دینا غلط اور قواعد و اصول سے بے خبری کی دلیل ہے ۔
قولہ : حافظ صاحب کا دوسرا کلام ابوالحسناء پر ہے لکھا ہے ... ''یہ ابوالحسناء مجہول بھی ہیں '' حافظ صاحب کی یہ بات بھی ویسی ہی ہے ۔ ان کو معلوم ہے کہ دو شخصوں کی روایت کے بعد کوئی راوی مجہول نہیں رہ سکتا ۔ لہذا جب ابوالحسناء سے ابو سعد اور عمرو بن قیس دو شخص روایت کرتے ہیں تو وہ مجہول کہاں ہوا ۔ اس کو مستور کہئے ...(رکعات ص ٧٨) ۔
ج : آپ کو بھی معلوم ہے کہ ابوالحسناء سے ابو سعد اور عمرو بن قیس دونوں کی روایتیں لفظ ''عن'' کے ساتھ ہیں ۔ اور ابھی ہم نے بتا دیا کہ از روئے اصول یہ لفظ اتصا ل پر اس وقت محمول ہو گا جب کہ راوی اور مروی عنہ کے مابین ملاقات یا کم از کم معاصرت ثابت ہو ۔ اور یہ بات یہاں مفقود ہے لہذا ابوالحسنا سے ابو سعد اور عمرو بن قیس کی بالاتصال روایت کا ثبوت نہیں ہوا ۔ اور جب روایت کا ثبوت نہیں ہوا تو اب ابوالحسنا کے مجہول ہونے میں کیا شک رہا ۔
ایسے راوی کو ''مستور'' کہنا اصول سے نا واقفیت پر مبنی ہے ۔ تفصیل آگے آ رہی ہے ۔
قولہ : یہاں تو ابوالحسناء کو مجہول قرار دے کر (درآنحالیکہ وہ قطعاً مجہول نہیں ہے اور اس کو مجہول کہنا بے خبر ی ہے) اس کی روایت کو مولانا عبدالرحمن اور حافظ صاحب دونوں نے ناقابلِ استدلال کہہ دیا ... مگر تحقیق کلا م میں عبداللہ بن عمرو بن الحارث کی روایت اپنی تائید میں پیش کی ۔ حالانکہ وہ قطعاً مجہول ہے ... (رکعات ص ٧٧)
ج : ابھی مولانا مئوی نے یہ اصول پیش کیا ہے کہ ''دو شخصوں کی روایت کے بعد کوئی راوی مجہول نہیں رہ سکتا '' مگر چند ہی سطروں کے بعد اپنے اس اصول کو بھول گئے یا ان کو معلوم نہیں ہے کہ امام بیہقی کے بیان کے مطابق عبداللہ بن عمرو بن الحارث سے روایت کرنے والے دو شخص ہیں ، شعیب بن ابی حمزہ اور اسحق بن عبداللہ بن ابی فردہ (دیکھو کتا ب القراة للبیہقی ص ٤١) تو اب بقول آپ کے دو شخصوں کی روایت کے بعد وہ مجہول کہاں رہا ؟ اس لئے اس کو مجہول کہنا یقینا بے خبری ہے ۔ رہا ابو الحسناء کا معاملہ تو ہم نے ثابت کر دیا کہ وہ مجہول ہے اور ایسا مجہول ہے کہ نہ اس کی شخصیت کا پتہ ہے اور نہ حالات کا ۔ اسی لئے مولانا شوق نیموی نے بھی ابوالحسناء نسبت لکھا ہے لا یعرف (یعنی کچھ نہیں معلوم کہ یہ کون ہے اور کیسا ہے ) مولانا نیموی کے پورے الفاظ یہ ہیں ۔ قلت مدار ھذا الاثر علی ابی الحسناء وھو لا یعرف انتھی (تعلیق آثار السنن ص ٥٠ جلد ٢) یعنی اس اثر کا دارومدار ابوالحسنا پر ہے اور وہ نامعلوم ہے ۔
قولہ : اگر کوئی کہے کہ علامہ شوق نیموی نے ابوالحسناء کی نسبت لا یعرف (یعنی وہ معلوم و مشہور نہیں ہے) لکھا ہے تو عرض ہے کہ اس لفظ نے خود ہی ابوالحسناء کے دونوں شاگردوں کی روایتیں نقل کی ہیں ۔ لہذا ان کی مراد اس لفظ سے یہ ہے کہ اس کا حال معلوم نہیں ۔ یعنی اصطلاح محدثین میں وہ مستور ہے (رکعات ص ٨١) ۔
ج : ہم نہیں کہہ سکتے کہ مولانا مئوی کے عقیدت مندوں کا حلقہ علم و فہم کے اعتبار سے کس معیار کا ہے کہ وہ کھلی ہوئی غلط بیانی کرتے ہوئے اپنے حلقے سے بھی نہیں شرماتے ۔ غور کیجئے ایک طرف تو مولانا نے لا یعرف کا مغالطہ آمیز ترجمہ یہ کیا کہ ''وہ معروف و مشہور نہیں ہے'' اور دوسری طرف ایک ہی سطر کے بعد اس لفظ کی مراد یہ بتائی کہ''اس کا حال معلوم نہیں '' انصاف سے کہیے کیا ان دونوں جملوں کا مدلول و مفہوم ایک ہی ہے ؟
 
Top