• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

انکارِ حدیث کرنے والوں سے 50 سوالات

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لله رب العالمین والصلوٰة والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین نبینا محمدا و علی الہ و صحبہ اجمعین۔ اما بعد!
آج کے اس پرفتن ماحول میں جہاں قدم قدم پر نت نئے فتنوں کا سامنا ہے ان فتنوں میں عوام الناس اس لئے مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ان فتنوں کا داعی اپنے باطل مقصد کو قرآن و سنت سے زبردستی ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے مثلاً منکرین حدیث کا کہنا کہ ہمیں کتاب اللہ کافی ہے، دلیل یہ ہے کہ جناب عمر t نے ایک موقع پر کہا تھا: ”حسبنا کتاب الله“۔ یعنی ہمیں کتاب اللہ کافی ہے۔ (بحوالہ بخاری)۔ نیز صحیح مسلم کے حوالے سے کبھی اس حدیث کو بھی نقل کر دیتے ہیں کہ رسول اللہ e نے فرمایا کہ مجھ سے قرآن کے علاوہ کچھ اور نہ لکھو، اب کون کج فہم منکرین حدیث معلوم کرے کہ جناب بخاری و مسلم کی جن دو حدیثوں کا آپ نے حوالہ دیا ہے کیا ان احادیث کی صحت کی اطلاع انہیں جبرئیل امین نے آکر دی ہے؟ یہ وہ خبط ہے جس میں منکرین حدیث ملوث ہیں۔ نہ ان کے پاس کوئی اصول ہے نہ ہی کوئی ٹھوس بنیاد اور نہ ہی کوئی دلیل۔ بس سرسری کانٹ چھانٹ کر حدیث و قرآن کو پیش کرنا اور سمجھ لینا کہ ہم نے کوئی قلعہ فتح کر لیا ہے۔
اور یوں عوام الناس دھوکہ کھا جاتے ہیں اور ان کے دام فریب میں آجاتے ہیں۔ لیکن ان کی یہ سازش اہل علم پر مخفی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ منکرین سنت/حدیث علماء کو تو جاہل کہہ کر خود ان کے سامنے آنے سے کنی کترا جاتے ہیں یہ ہے ان کا مبلغ علم کہ عوام کو قائل کرنا ان پر محنت کرنا اور علماء سے دور بھاگنا۔ عوام الناس کو حقائق سے آگاہ کرنے کے اس سلسلہ میں علماء نے ماضی میں بڑی ضخیم و مختصر کتب اس موضوع پر لکھیں اور اس فتنہ کی سرکوبی کی رب کریم ان کی ان کاوشوں کو قبول فرمائے آمین۔ اور اس سلسلہ میں ایک مختصر مگر جامع کاوش بنام ”انکارِ حدیث کرنے والوں سے 50 سوالات“ حماد اقبال صاحب جو کہ اچھا مطالعہ رکھتے ہیں اور علم دوست ساتھی ہیں نے کی ہے۔
رب کریم اس کتاب کو منکرین حدیث فتنہ کے لئے بھی اور جو اس حوالے سے شکوک و شبھات میں گرفتار ہیں ان سب کے لئے ہدایت کا سبب بنا دے۔ آمین اور جملہ معاونین کو بھی اجر عظیم سے نوازے آمین۔

کتبہ :
حافظ محمد سلیم
مدرس المعھد السلفی گلستان جوہر کراچی
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
۲۲۔صفر ۱۴۲۸ھ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ ِللهِ نَحْمَدُہ وَ نَسْتَعِیْنُہ وَ نَسْتَغْفِرُہ وَ نَعُوْذُ بِاللهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَیِّاٰتِ اَعْمَالِنَا مَنْ یَّھْدِہِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَہ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلَا ھَادِیَ لَہ وَ اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلاَّ اللهُ وَحْدَہ لَا شَرِیْکَ لَہ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَ رَسُوْلُہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِہ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَآءً وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِیْ تَسَاءَ لُوْنَ بِہِ وَالْاَرْحَامَ اِنَّ اللهَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا (سورہ النساء) یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا اللهَ حَقَّ تُقَاتِہ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (آل عمران) یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا اللهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلاً سَدِیْدًا یُصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَ مَنْ یُّطِعِ اللهَ وَ رَسُوْلَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا (الاحزاب:۷۰ تا ۷۱) (حوالہ ابوداود، ترمذی باب النکاح)
سب تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں (اس لئے) ہم اس کی تعریفیں کرتے ہیں اور (اپنے ہر کام) میں اُسی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہم اس (رب العالمین) سے اپنے گناہوں کی بخشش چاہتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں اور اُسی (پاک ذات) پر ہمارا بھروسہ ہے۔ ہم اپنے نفس کی شرارتوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں اور اپنے اعمال کی برائیوں سے (بھی) اُس کی پناہ میں آتے ہیں۔ (یقین مانو) جسے اللہ راہ دکھا دے، اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ (خود ہی) اپنے دَر سے دھتکار دے اس کے لئے کوئی رہبر نہیں ہو سکتا۔ اور ہم (تہ ِ دل سے) گواہی دیتے ہیں کہ معبود برحق (صرف) اللہ تعالیٰ ہی ہے اور وہ اکیلا ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں۔ اور (اسی طرح تہِ دل سے) ہم اس بات کے بھی گواہ ہیں کہ محمدe اس کے بندے اور آخری رسول ہیں۔ حمد و صلوٰة کے بعد یقینا تمام باتوں سے بہتر بات اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور تمام راستوں سے بہتر راستہ محمد e کا ہے۔ اور تمام کاموں سے بدترین کام وہ ہیں جو اللہ کے دین میں اپنی طرف سے نکالے جائیں (یاد رکھو) دین میں جو نیا کام نکالا جائے وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی دوزخ میں لے جانے والی ہے۔
نبی کریم e کا یہ ایسا جامع خطبہ ہے جو آپe ہر وعظ اور تقریر کے شروع میں پڑھا کرتے تھے۔ اس میں دو باتیں واضح ہوتی ہیں: ایک یہ اعمال کی قبولیت کے لئے نیت خالص ہو یعنی یہ کام صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ عمل صرف اور صرف رسول اللہ e کے طریقے کے مطابق کیا جا رہا ہے۔ اگر ان دونوں شرطوں سے کوئی بھی عمل خالی ہے تو وہ اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ جو شخص ان دونوں شرطوں سے انکار کرے، کسی دوسرے راستے پر چلے، نبی e کا کلمہ پڑھنے کے باوجود کسی اور کی بات اور قول و عمل کے مطابق نماز اور دیگر اعمال کرے، تو ایسا شخص سیدھے راستے سے گمراہ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ دے اور خالص دین پر چلائے آمین یا رب العالمین۔
منکرین حدیث کا فتنہ آج کل شدید ہوتا جارہا ہے اور لوگوں کو اعمال سے دور کر کے یہ خود ساختہ نظریہ دیا جارہا ہے کہ ہم کو صرف قرآن کافی ہے۔ احادیث عجمی سازش ہے جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ انتہائی گمراہ کن نظریہ ہے۔ کیونکہ جس ہستی پر قرآن نازل ہوا ہے کیا انہوں نے قرآن پر عمل بھی کیا تھا؟ وہ عمل کیا تھا؟ کیا اُن کا عمل قرآن پر صحیح تھا؟
آج لوگوں کو اسلام سے دُور کرنے کے لئے قرآن کی خود ساختہ تاویل کی جاتی ہے، من مانے معنی بنائے جاتے ہیں اور کہا یہ جاتا ہے کہ ہمارے لئے صرف قرآن کافی ہے۔ قرآن ہی حجت ہے۔ قرآن ہی کی حفاظت ہو رہی ہے۔ صرف قرآن ہی پر عمل کرنا چاہیئے۔ پھر مزید احادیث کے خلاف یوں کہا جاتا ہے کہ احادیث عجمی سازش ہے۔ دین میں اضافہ ہے۔ مولویوں کا اسلام ہے۔ احادیث کا کوئی بھروسہ نہیں۔ اس قسم کی باتیں کر کے عام فہم لوگوں کو اسلام کے خلاف کیا جارہا ہے اور اسلام اور کفر کے درمیان ایک نیا راستہ بنایا جارہا ہے۔
ہم عام فہم لوگوں کی آسانی کے لئے اُن حضرات سے 50 سوالات کرتے ہیں جو لوگوں کو یہ دھوکہ دیتے ہیں کہ صرف قرآن کی ہی بات کی جائے، احادیث کی بات نہ کی جائے۔ وہ ہمارے ان سوالوں کے جواب صرف اپنے قانون کے مطابق قرآن ہی سے دیں اور اگر وہ ان سوالوں کے جواب قرآن سے نہ دے سکے تو اُن کو چاہیئے کہ حق کو تسلیم کر لیں کہ جس طرح قرآن حجت اور دین ہے اسی طرح صاحب قرآن: محمد رسول اللہ e کا عالیشان فرمان اور عمل بھی ہمارے لئے دین کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ آپ e صرف وحی کی پیروی کرتے تھے (اپنے پاس سے اعمال نہیں کرتے تھے) (سورئہ یونس)۔
بعض لوگ اپنی من پسند احادیث کو تسلیم کرتے ہیں۔ جن احادیث کو انہوں نے تسلیم نہ کرنا ہو اُس کے لئے منکرین احادیث نے خود ساختہ نظریات بنائے کہ جو حدیث عقل کے خلاف ہو وہ تسلیم نہیں کی جائے گی۔ جو حدیث قرآن کے خلاف ہو وہ تسلیم نہیں کی جائے گی جبکہ یہ نظریہ ہی باطل ہے۔ ثابت شدہ احادیث کو تسلیم کرنا پڑے گا چاہے وہ ہماری عقل میں آئے یا نہ آئے۔ اسی طرح کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں۔ یہ ہماری عقل کا قصور ہے۔ دونوں میں تطبیق دے کر دونوں کو تسلیم کرنا ہو گا۔ اگر بظاہر قرآنی دو آیات ایک دوسرے کے خلاف ہوں تو ہم ایک کو ضعیف کہہ کر ردّ نہیں کر دیتے بلکہ دونوں کو تسلیم کر کے تطبیق دیتے ہیں۔ اسی طرح صحیح احادیث اور قرآن میں اختلاف نہیں۔ اگر کوئی ایسی بات ظاہری طور پر محسوس ہوتی ہے تو دونوں میں تطبیق دے کر دونوں کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ ایسے سوالات ان شاء اللہ آئندہ صفحات میں آپ کو ملیں گے جن کے جوابات اپنی مرضی کی احادیث کو ماننے اور نہ ماننے والے اور تمام احادیث کا انکار کرنے والے کسی کے پاس نہیں ہیں (ان شاء اللہ) اللہ ہم سب کو دین اسلام پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ توفیق دینے والی ذات صرف اور صرف اللہ رب العزت کی ہے۔ اور ہم اُسی سے توفیق کا سوال کرتے ہیں۔
حجیت حدیث اور فتنہ انکارِ حدیث
انکارِ حدیث کا فتنہ پڑھے لکھے جاہلوں اور کھاتے پیتے آسودہ حال، متمول لوگوں کا فتنہ ہے۔ نبی اکرم e نے اس فتنہ کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا:
الا یوشک رجل شبعان علی اریکتہ یقول علیکم بھذا القرآن فما وجدتم فیہ من حلال فاحلوہ و وجدتم فیہ من حرام فحرموہ
خبردار! عنقریب ایک شکم سیر آدمی اپنے ”مزین و آراستہ پلنگ یا صوفے پر بیٹھ کر کہے گا کہ تم پر اس قرآن کا (اتباع) فرض ہے۔ اس میں جو حلال ہے تم اسے حلال جانو اور جو اس میں حرام ہے تم اسے حرام جانو۔ (ابوداؤد:۱۶۳، مشکوٰة باب الاعتصام ص:۲۹)۔
اور امام ترمذی a نے ابورافع سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ e نے فرمایا کہ میں تم میں سے کسی کو اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ اپنے پلنگ پر تکیہ لگائے بیٹھا ہو، اس کے سامنے میرا حکم (از قسم امر و نہی) پیش ہو اور وہ کہے:
لا ادری ما وجنا فی کتاب الله اتبعناہ
میں اسے نہیں جانتا، ہم تو جو کچھ کتاب اللہ میں پائیں گے اسی پر عمل کریں گے۔ (مشکوة: باب الاعتصام بالکتاب والسنة)۔
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ منکرین حدیث پر تکلف امیرانہ زندگی گذارتے ہوں گے اور خوب پیٹ بھر کر آراستہ و پیراستہ تختوں، مسندوں پر، نرم و نازک تکیوں سے ٹیک لگا کر احادیث کا ردّ اور انکار کریں گے۔ منکرین احادیث پر اللہ کے سچے مخبر صادق e کی یہ پیشگوئی لفظ بہ لفظ پوری ہو رہی ہے اور آج بنگلوں میں ٹھاٹھ سے رہنے والے اور فراغت و خوشحالی و عیش و نشاط سے زندگی گذارنے والی ہیں اور صرف قرآن کو حجت قرار دیتے ہیں۔
لسانِ رسالت سے اس فتنہ کی تردید
منکرین حدیث کے اس استدلال کا رَدّ بھی آپ e نے خود فرما دیا:
الا انی اوتیت القرآن و مثلہ معہ … وان ما حرم رسول الله کما حرم الله الا لا یحل لکم الحمار الاھلی
خبردار رہو! بلاشبہ مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کیساتھ اسکی مثل بھی دی گئی ہے … اور بلاشبہ جو رسول اللہ e نے حرام کیا ہے وہ اسی طرح حرام ہے جس طرح اللہ کا حرام کردہ ہے۔ خبردار رہو! پالتو گدھا تمہارے لئے حلال نہیں … (مشکوة: باب الاعتصام بالکتاب والسنة)
ثابت ہوا کہ رسول اللہ e کی حرام کردہ چیزیں (جو کہ احادیث میں ہیں) وہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کی طرح حرام ہیں۔ آپ e نے کئی چیزوں کی حرمت کا ذکر فرمایا جن کی حرمت قرآن میں نہیں ہے مثلاً گدھے کا حرام ہونا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر قرآن میں نہیں کیا بلکہ اسے رسول اللہ e نے حرام کیا ہے اور آپ e نے اپنے حکم کو اللہ کے حکم سے تعبیر کیا ہے۔ چونکہ رسول اللہ e کا حرام کرنا بھی اللہ کی وحی سے ہی ہوتا ہے۔ ثابت ہوا کہ حدیث رسول e قرآن کی طرح حجت ہے اور حدیث بھی قرآن کی طرح منزل من اللہ ہے۔
قرآن کریم سے اس کا ثبوت
رسول اللہ e پر صرف قرآن نازل نہیں ہوا بلکہ قرآن کے ساتھ حکمت بھی نازل ہوئی۔
وَ مَا اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنَ الْکِتَابِ وَ الْحِکْمَةِ (سورة البقرة:۲۳۱)
اور جو اتاری تم پر کتاب اور حکمت
وَ اَنْزَلَ اللهُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَةَ (سورة النسآء:۱۱۳)
اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل کی۔
پھر نبی کریمe کتاب اللہ کی طرح اس الحکمة کی بھی تعلیم دیتے تھے:
وَ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَةَ (سورة البقرة:۱۲۹)
”آپ ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے تھے“۔
حکمت کیا ہے؟
اللہ رب العزت نے اُمھات المؤمنین کو حکم دیا کہ یاد کرو اللہ کی آیات اور حکمت جو تمہارے گھروں میں تلاوت کی جاتی ہیں۔ (سورئہ احزاب:۳)
نبی e کی بیویوں کے گھروں میں جو اللہ کی آیات اور حکمت کی باتیں کی جاتی ہیں اللہ نے ان کو یاد کرنے کا حکم دیا۔ اللہ کی آیات سے مراد تو قرآن اور حکمت سے مراد رسول اللہ e کی باتیں ہی ہوتی تھیں۔ پس قرآن سے بھی یہ ثابت ہوا کہ حکمت سے مراد فرمانِ رسول e ہے جو اللہ نے نازل کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول e پر کتاب (قرآن) کے ساتھ جو حکمت نازل فرمائی ہے اس سے کیا مراد ہے؟ سیدنا قتادہt کہتے ہیں کہ ”والحکمة أی السنة“ حکمت یعنی سنت نبوی e ہے۔
امام شافعی a فرماتے ہیں: ”والسنة الحکمة التی فی روعہ عن الله عز و جل“ اور رسول اللہ e کی سنت وہ حکمت ہے جو آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈالی گئی ہے۔
قرآن اور حدیث میں فرق
یہ بات تو واضح ہو گئی کہ قرآن کی طرح سنت و حدیث e بھی منزل من الله اور وحی الٰہی ہے۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ قرآنِ کریم کا مضمون بھی ربانی ہے اور الفاظ بھی ربانی ہیں۔ جبرئیل امین الفاظِ قرآنی رسول اللہ e پر نازل کرتے تھے۔
جبکہ حدیث نبوی e کا مضمون تو ربانی ہے مگر الفاظ ربانی نہیں۔ مقامِ تعجب ہے کہ منکرین حدیث جناب محمد رسول اللہ e کو رسول اللہ تو مانتے ہیں مگر آپ eکے ارشادات کو وحی الٰہی نہیں مانتے بلکہ محمد بن عبداللہ کی ذاتی بات مانتے ہیں۔ یہ لوگ یا تو دِل سے آپ e کو رسول نہیں مانتے یا پھر رسول کے معنی نہیں جانتے۔ رسول کے معنی ہیں: پیغام پہنچانے والا۔ پیغام پہنچانے والا دوسرے کا پیغام پہنچاتا ہے، اپنی نہیں سناتا۔ اگروہ دوسرے کا پیغام پہنچانے کے بجائے اپنی بات شروع کر دیتا ہے تو وہ ”امین“ نہیں، خائن ہے۔ (معاذ اللہ)۔ رسول کی پہلی اور آخری صفت یہ ہے کہ وہ ”امین“ ہو۔ آپ e مسند رسالت پر فائز ہونے سے قبل ہی ”امین“ مشہور تھے۔
”رسول“ اس کو کہتے ہیں جو اپنی بات نہ کہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا پیغام حرف بحرف پہنچا دے۔ جو لوگ محمد رسول اللہ e کے اِرشادات کو نبی e کی ذاتی بات سمجھ کر رَدّ کر دیتے ہیں وہ صرف منکرین حدیث ہی نہیں درحقیقت وہ منکر رسالت ہیں۔ اگر رسول اللہ e کی رسالت کے سچے دل سے قائل ہوتے تو آپ e کی احادیث آیاتِ قرآنی کی طرح سر آنکھوں پر رکھتے۔
محمد بن عبداللہ یا محمد رسول اللہ e
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اپنی تو وہ کہتا ہے جس کا تعارف ذاتی ہوتا ہے۔ وہ اپنے نام سے متعارف ہوتا ہے، نبی کریم e کے سوا، سب اپنے باپ کے نام سے پہچانے اور پکارے جاتے ہیں جیسے عثمان بن عفان، عمر بن خطاب، ابوبکر بن ابی قحافہ وغیرہ ] سب اپنے اپنے والد کے نام سے پکارے جاتے ہیں مگر ایک محمد رسول اللہ e ہیں جو اپنے باپ کے نام سے نہیں بلکہ محمد رسول اللہ e سے متعارف ہوئے۔ کوئی کافر لاکھ محمد بن عبداللہ کہے، وہ مسلمان نہیں ہو گا۔ لیکن دل سے لا الہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ e کہے گا تو مسلمان ہو جائے گا۔
قرآن ہو، اذان ہو، تکبیر ہو، تشہد ہو، کلمہ ہو، ہر جگہ محمد رسول اللہ e ہیں محمد بن عبداللہ کسی جگہ پر بھی وارد نہیں۔ تو محمد بن عبداللہ، محمد بن عبداللہ ہو کر بھی محمد بن عبداللہ نہ کہلائے بلکہ محمد رسول اللہ e ہو گئے۔ اب آپ کی بات محمد بن عبداللہ کی بات نہ ہوئی، اب تو آپ کی ہر بات اللہ کی بات ہوئی۔ منصب رسالت کا مطلب ہی یہ ہے کہ آپ e کا ہر بول جو دین کے احکام سے متعلق ہو وہ اللہ کا بول ہے۔ بس زبان آپ e کی ہے۔
وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی (النجم:۳،۴)
آپe اپنی خواہش سے نہیں بولتے بلکہ آپ کا ارشاد وحی ہے
تو حقیقت یہ ہے کہ دین کے دائرے کے اندر نبی کا ہر ارشاد اللہ کا ارشادہے اور منزل من اللہ ہے۔
صحابہ کرام y حکم رسول کو حکم الٰہی مانتے ہیں
اصحابِ رسول آپ e کے اوامر و نواہی کو اللہ کا اَمر و نہی مانتے تھے۔ سیدنا سعد بن معاذ t فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ e کے ہر فرمان کو ہمیشہ اللہ کا اِرشاد سمجھا۔ علقمہ روایت کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود t نے فرمایا کہ:
”ان عورتوں پر اللہ نے لعنت کی ہے جو جسم کو گوندتی یا گوندواتی ہیں یا خوبصورتی کے لئے بال چنتی یا چنواتی ہیں، اور دانتوں کو باریک کرتی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ صورت میں تغیر و تبدل کرنا چاہتی ہیں“۔
ایک عورت ان کے پاس آئی اور کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اس اس قسم کی عورتوں پر لعنت کی ہے۔ آپ t نے فرمایا: جن پر رسول اللہ e نے لعنت فرمائی ہے، میں ان پر کیوں لعنت نہ کروں اور وہ چیز کتاب اللہ میں بھی موجود ہے۔ اس نے کہا کہ میں نے سارا قرآن پڑھا ہے، اس میں تو یہ بات مجھے نہیں ملی جو آپ فرماتے ہیں۔ تو آپ t نے فرمایا:اگر تو قرآن کو سمجھ کر پڑھتی تو یہ بات ضرور اس میں پالیتی۔ کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی:
وَمَا اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہ‘ وَ مَا نَھَاکُمْ عَنْہ‘ فَانْتَھُوْا
جو کچھ تمہیں رسول دیں اسے لے لو اور جس سے تمہیں منع کریں، اس سے رُک جاؤ۔
اس عورت نے کہا: ہاں یہ تو پڑھا ہے۔ پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود t نے کہا: یقینا رسول اللہ e نے ان افعال کی ممانعت فرمائی ہے (صحیح بخاری کتاب اللباس)
صحابہ کرام y احکامِ شریعت کو قرآنی حکم کی تعمیل میں تسلیم کرتے، گویا اس کو کتاب اللہ ہی سمجھتے بلکہ یوں کہئے کہ انہوں نے ہر حدیث کو قرآن کی طرح تسلیم کیا، اس لئے کہ حدیث کے ماننے کا حکم قرآن مجید میں ہے۔ چنانچہ وہ خاتون سیدنا ابن مسعود t کا جواب سن کر مطمئن ہو گئی۔ (صحیح مسلم) قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں میں ایسا ہی طرز عمل پایا جاتا تھا۔
حدیث کتاب اللہ ہے
سیدنا ابوہریر t اور سیدنا زید بن خالد t روایت کرتے ہیں کہ:
”ہم لوگ رسول اللہ e کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی اثناء میں ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ میں آپ e کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کر دیجئے۔ پھر فریق ثانی کھڑا ہوا … وہ زیادہ سمجھ دار تھا … اس نے بھی کہا: اقض بیننا بکتاب الله اور پھر فیصلہ طلب واقعہ یوں سنایا کہ میرا لڑکا اس شخص کے ہاں مزدور تھا، اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا، میں نے اس کی طرف سے سو بکریاں اور ایک خادم بطور فدیہ ادا کیا۔ پھر میں نے اہل علم سے دریافت کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے لڑکے کو سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی کی سزا دی جائے گی اور اس کی بیوی کو سنگسار کیا جائے گا۔ رسول اللہ e نے فرمایا:
”قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں ضرور تمہارا فیصلہ کتاب اللہ سے کروں گا۔ سو بکریاں اور خادم تمہیں واپس کیا جائے اور تمہارے بیٹے کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور ایک سال کیلئے جلاوطن کیا جائے“۔ (صحیح بخاری کتاب المحاربین)
مذکورہ بالا حدیث سے ثابت ہوا کہ احادیث کو بھی کتاب اللہ کہا جاتا ہے کیونکہ جو سزا یہاں بیان کی گئی ہے، وہ حدیث ہی میں ہے، قرآن میں کہیں نہیں۔ صرف قرآن قرآن کا دعویٰ کرنے والوں کو اتنی سیدھی سی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ قرآن اور حدیث دونوں ہی وحی ہیں، دونوں زبانِ نبوت سے ادا ہوتے ہیں، اِن میں سے بعض کو ہم قرآن قرار دیتے ہیں اور بعض کو حدیث نبوی e۔ کیونکہ ہمیں ہمارے نبی e نے بتایا کہ فلاں الفاظ بطور رقرآن ہیں اور فلاں بطور حدیث۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر انہیں نبی کریم e کے فرمان پر یقین نہیں ہے تو پھر بتائیے، قرآن بھی کس کے کہنے سے ”قرآن“ بنتا ہے؟ فرمانِ نبوی نے ہی بتلایا کہ یہ قرآن ہے۔ ہم سے نہ اللہ نے یہ فرمایا، نہ جبرئیل امین نے کہا کہ یہ قرآن ہے۔ کس قدر گمراہی کی طرف جا رہے ہیں یہ لوگ جو آج قرآن کی آڑ لے کر حدیث کے انکار پر تلے ہوئے ہیں جبکہ احادیث ہی نے انہیں قرآن سے روشناس کیا۔
اگر حدیث سے انکار ہے تو قرآن کا ثبوت کیسے ممکن ہے؟ اگر حدیث کا اعتبار نہیں تو قرآن کا ہم کو کس نے بتایا کہ یہ قرآن ہے؟۔ حدیث ہی نے ہمیں بتلایا کہ یہ قرآن ہے۔ منکرین کس منہ سے قرآن کو ”کتاب اللہ“ کہتے ہیں؟ قرآن تو صرف انہی بانصیب کے لئے ”کتاب اللہ“ ہے جن کا حدیث رسول e پر ایمان ہے اور جن کے لئے حدیث حجت ہے۔
تدوین حدیث
منکرین حدیث میں سے کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو احادیث کو اس شرط پر قبول کرتے ہیں کہ وہ انسانی عقل کے مطابق ہوں جبکہ بعض منکرین حدیث ایسے ہیں جو احادیث کی تدوین پر عدم اعتماد کو بنیاد بنا کر کلی طور پر احادیث نبوی کو قبول ہی نہیں کرتے۔ جبکہ قرآن مجید جو حدیث کی بنسبت اعلیٰ معیار پر محفوظ ہے، وہ ان دونوں کی اسنادی تحقیق میں بنیادی فرق ملحوظ رکھے بغیر دونوں کیلئے یکساں اسلوب اور مساوی درجہ حفاظت کا تقاضا کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کے کلام الٰہی ہونے کی حیثیت سے الفاظ کی بھی محفوظ رہے اور حدیث مفہومِ کلامِ الٰہی ہونے کے ناطے مفہوم کی حفاظت کے اصولوں پر روایت و تدوین ہوتی ہے۔
اسی طرح منکرین حدیث موجودہ حالات پر قیاس کرتے ہوئے صحیح تجزیہ کئے بغیر برسوں قبل کے حالات کو اپنے دور کے اندازوں کے مطابق پرکھنا چاہتے ہیں۔ انسان کی محدود عقل و فراست میں یہ صلاحیت بڑی نادر ہے کہ وہ حالت کے معروضی فرق کو ملحوظ رکھ کر ہر دور کے تقاضوں اور اس کے مسلمات کو سمجھ سکے۔ جس طرح ہمارے مغرب گزیدہ مفکرین نے اسلام کے اسلوبِ استدلال کو ملحوظ نہ رکھ کر اور دونوں کے معروضی حالات کا فرق نہ کر کے جدید علم الکلام کو اپنایا اور اس کو ترقی یافتہ قرار دیا جو کہ داراصل ایمان ویقین کی کمزوری کی علامت کا مظہر ہے۔ اسی طرح دورِ نبوت میں حفاظت کے تقاضوں کو آج کے دور کے حفاظت کے تقاضوں سے پرکھنا بھی ایسی ہی بڑی غلطی ہے۔ موجودہ دور میں اگر کتابت کو حفاظت کا معتمد ذریعہ مانا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیشہ سے کتابت ہی معتمد اور مستند ترین ذریعہ رہا ہو بلکہ شاید مستقبل میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت کتاب و تدوین بھی اپنی موجودہ حیثیت برقرار نہ رکھ سکے۔
اسلام کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔ نبی آخرالزمان eپر نبوت کا سلسلہ ختم ہوا تو ضروری تھا کہ قیامت تک ایک مکمل دین انسانوں کے لئے محفوظ ترین صورت میں موجود ہو۔ اسی طرح اسلام کے احکام اپنے پیروکاروں کے لئے ہمیشہ ایک جیسے رہے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی حکم پہلے مخاطبین اوّل صحابہ کرام yکے لئے تو دین کا درجہ رکھتی ہو اور بعد میں آنے والوں کے لئے اس کی کوئی دینی حیثیت نہ ہو۔ احادیث نبویہ کی تعمیل صحابہ کرام پر فرض تھی اور وہ اپنے نبی e کے احکامات ماننے کے پابند تھے ضروری ہے کہ ان پر لاگو شرعی احکام آگے بھی اسی حیثیت سے منتقل ہوں کیونکہ اسلام تب ہی اللہ کا بھیجا ہوا دائمی آخری دین ہو سکتا ہے جب وہ قیامت تک اپنی اصل شکل اور یکساں حیثیت میں سب کے لئے موجود ہو۔ دین کی حفاظت کی یہ ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ذریعے اس طرح سادہ انداز میں پوری کرائی ہے جو ہر دور میں حفاظت کا آسان اور مروجہ انداز رہا ہے اور اس پر عمل کرنا، اس کے تقاضے بجالانا انسانوں کے لئے بآسانی ممکن رہا ہے۔ چنانچہ ابتداء میں قرآن و حدیث کو بحفاظت آگے منتقل کرنے کے لئے جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ بنیادی طور پر حافظہ پر اعتماد کا طریقہ ہے جس کو بعد میں کتابت اور دیگر ذرائع سے بھی تقویت دی گئی ہے۔
منکرین حدیث نے یہ فرض کر لیا ہے کہ قرآن تو گویا ہمیشہ سے تحریری شکل میں محفوظ چلا آرہا ہے، جبکہ حدیث کی تدوین میں زیادہ اعتماد صرف حافظہ پر رہا ہے، اس لئے احادیث ناقابل اعتماد ہیں۔
کیا مکتوبہ چیز ہی قابل اعتماد ہے…؟
یہ بات کہی جاتی ہے کہ چونکہ حدیث لکھی ہوئی نہ تھی، عہد رسالت میں صرف حافظہ کی مدد سے ہی اس کو محفوظ رکھا جاتا تھا یا حدیث عہد رسالت یا عہد خلافت میں لکھوائی نہیں گئی تھی اس لئے حجت نہیں (حالانکہ احادیث عہد رسالت اور صحابہ کرام y کے دور میں بھی لکھی گئی تھیں)۔ قرآنِ مجید کو جس وجہ سے لکھوایا گیا تھا وہ یہ تھی کہ اس کے الفاظ و معانی دونوں ہی من جانب اللہ تھے اس کے الفاظ کی ترتیب ہی نہیں اس کی آیتوں، سورتوں کی ترتیب بھی اللہ کی جانب سے تھی۔ اس کے الفاظ کو دوسرے الفاظ سے بدلنا بھی جائز نہ تھا۔ تاکہ جس طرح نازل ہوا لوگ انہی الفاظ و انداز میں اسی ترتیب سے اس کو محفوظ کریں۔ سنت کی نوعیت اس سے مختلف تھی اس کے الفاظ قرآن کے الفاظ کی طرح نازل نہیں ہوئے تھے بلکہ رسول اللہ e نے اس کو اپنے قول و فعل سے ادا کیا تھا۔ پھر اس کا بڑا حصہ ایسا تھا جسے رسول اللہ e کے شاگردوں نے اپنے الفاظ میں بیان کیا تھا۔ مثلاً رسول اللہ e کے اخلاق ایسے تھے، زندگی ایسی تھی، فلاں موقع پر رسول اللہ e نے فلاں کام کیا، رسول اللہ e کے اقوال و افعال نقل کرنے میں کوئی پابندی نہ تھی کہ انہیں سامعین لفظ بلفظ نقل کریں بلکہ سامعین کے لئے یہ جائز تھا کہ وہ آپ e کے قول و فعل کو معنی و مفہوم بدلے بغیر اسے اپنے الفاظ میں بیان کر دیں۔ رسول اللہ eکے الفاظ کی تلاوت مقصود نہ تھی بلکہ اس تعلیم کی پیروی مقصود تھی جو آپ e نے دی تھی۔ احادیث میں قرآن کی آیتوں اور سورتوں کی طرح ترتیب محفوظ رکھنا بھی ضروری نہ تھا کہ فلاں حدیث پہلے ہو اور فلاں بعد میں۔ اس بنا پر احادیث کے معاملے میں یہ کافی تھا کہ لوگ انہیں یاد رکھیں اور دیانت کے ساتھ انہیں دیگر لوگوں تک پہنچائیں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ کسی چیز کے حجت ہونے کے لئے اس کا لکھا ہوا ہونا ضروری نہیں ہے۔ اعتماد کی اصل بنیاد اس شخص یا اشخاص کا بھروسہ کے قابل ہونا ہے، جس کے ذریعہ بات دوسروں تک پہنچے خواہ مکتوب ہو یا غیر مکتوب اللہ تعالیٰ نے بھی پورا انحصار اس بات پر کیا کہ جو لوگ نبی کو سچا مانیں گے وہ نبی کے اعتماد پر قرآن کو بھی کلام الٰہی مان لیں گے۔
نبی کریمe کی جتنی تبلیغ و اشاعت تھی زبانی تھی۔ آپ e کے صحابہ y مختلف علاقوں میں جا کر تبلیغ کرتے۔ وہ قرآن کی سورتیں لکھی ہوئی نہ لے جاتے تھے۔ تقریباً ساری تبلیغ و اشاعت زبانی ہوتی تھی۔ چند ایک خطوط تھے جو آپ e نے لکھوائے تھے۔
نئے ایمان لانے والے، صحابہ پر اعتماد کرتے تھے کہ جو کچھ وہ سنا رہے ہیں وہ اللہ کا کلام ہے یا پھر رسول اللہ e کا حکم ہے، جو حکم وہ پہنچا رہے ہیں۔
تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ لکھی ہوئی چیز خود کبھی قابل اعتماد نہیں ہوتی جب تک زندہ انسانوں کی شہادت اس کی توثیق نہ کرے۔ محض لکھی ہوئی چیز اگر ہمیں ملے اور ہم لکھنے والے کا خط (لکھائی کا انداز) نہ پہچانتے ہوں یا لکھنے والا خود نہ بتائے یہ اس کی تحریر ہے یا ایسے شواہد موجود نہ ہوں جو اِس امر کی تصدیق کریں کہ یہ تحریر اسی شخص کی ہے جس کی طرف منسوب کی گئی ہے تو ہمارے لئے وہ تحریر کیا معنی ہو سکتی ہے؟
کسی چیز کا لکھا ہوا ہونا ہی حجت نہیں جب تک زندہ انسانوں کی شہادت موجود نہ ہو۔ قرآن رسول اللہ e کو تحریری شکل میں نہیں دیا گیا تھا۔ جبرئیل امین زبانی ہی وحی لاتے تھے اور رسول اللہ e بھی زبانی ہی صحابہ y کو بتاتے تھے۔ آج بھی قرآن اس لئے حجت نہیں کہ یہ لکھا ہوا ہمارے پاس موجود ہے بلکہ زندہ انسانوں کی شہادت ہے جو مسلسل اس کو سنتے اور بعد میں آنے والوں تک اسے پہنچاتے چلے آرہے ہیں۔ اگر قرآن کے سلسلہ میں زندہ انسانوں کی شہادت حجت ہے تو سنت رسول e کے بارے میں حجت کیوں نہیں؟؟
اب ان لوگوں سے سوالات کئے جاتے ہیں جو کسی بھی حوالے سے کسی بھی صحیح ثابت شدہ حدیث کا انکار کرتے ہیں وہ اگر اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو ان 50 سوالات کے جوابات صرف قرآن ہی سے دیں ورنہ اپنے باطل عقیدہ سے توبہ کر لیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
سوال نمبر1 ۔
قرآن مجید کی جو 114 سورتیں ہیں ان سورتوں کے نام کس نے رکھے ہیں کیا قرآن نے خود ان سورتوں کے نام رکھے ہیں؟ اگر یہ نام قرآن نے رکھے ہیں تو کس پارے میں یہ نام موجود ہیں؟ یا یہ نام رسول اللہ e نے رکھے ہیں؟ اگر یہ نام رسول اللہ e نے رکھے ہیں تو کیا آپ e کے پاس اختیار تھا کہ اللہ نے بغیر نام کے سورتوں کو نازل کیا اور آپ نے اُن کے نام رکھ دیئے؟ یا پھر اللہ کے حکم سے رسول اللہ e نے رکھے ہیں؟
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
سوال نمبر2۔
قرآن مجید میں 15 مقامات پر (آیت سجدہ پڑھ کر) سجدہ کرنے کا حکم ہے کیا یہ حکم قرآن میں موجود ہے یا یہ حکم رسول اللہ e نے دیا ہے؟
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
سوال نمبر3۔
قرآن مجید کی ہر سورت کی ابتداء بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوتی ہے سوائے سورئہ توبہ کے۔ سورة انفال اور سورئہ توبہ کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں ہے۔ یہ کس نے بتایا کہ اب سورة توبہ شروع ہو گئی؟ یہ بات قرآن میں موجود ہے یا پھر رسول اللہ e نے بتایا کہ سورة انفال کے بعد بغیر بسم اللہ الرحمن الرحیم کے سورئہ توبہ شروع ہوتی ہے۔ تو کیا رسول اللہ e کا اِرشاد دین ثابت نہیں ہوتا؟
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
سوال نمبر4 ۔
کیا قرآن نے حروف مقطعات کے معنی بیان کئے ہیں؟ اگر کئے ہیں تو کس سورت میں بیان کئے ہیں؟ اور اگر قرآن اس پر خاموش ہے تو کیا قرآن نے اس کی وجہ بتائی ہے؟
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
سوال نمبر5۔
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیٰةٍ اَوْ نُنْسِھَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَآ اَوْ مِثْلِھَااَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللهَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ (سورئہ بقرہ:106)
ہم جس آیت کو منسوخ کر دیتے یا اس کو فراموش کرا دیتے ہیں تو اُس سے بہتر یا ویسی ہی اور آیت لے آتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہے؟
اس آیت قرآنی میں اللہ نے بتایا ہے کہ ہم جس آیت کو چاہیں منسوخ کر دیں۔ کیا قرآنی آیات منسوخ بھی ہوتی ہیں؟ آیات کی منسوخی کے لئے کوئی آیت نازل ہوئی ہے کہ فلاں آیت اب منسوخ ہے یا پھر رسول اللہ e نے بتایا کہ فلاں آیت اب منسوخ ہے؟ اگر احادیث سے پتہ چلا کہ فلاں آیت منسوخ ہے تو پھر یقینا یہ کہنا پڑے گا اور ماننا پڑے گا کہ جس طرح قرآن حجت اور دین ہے اسی طرح رسول اللہ e کا اِرشاد دین اور حجت ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
سوال نمبر6۔
وَ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اِنَّہ لَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ وَ مَا اللهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ وَ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہ لِئَلاَّ یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّةٌ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْھُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِیْ وَ لِاُتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ (بقرہ 149۔ 150)
اور تم جہاں سے نکلو اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لیا کرو بلاشبہ وہ تمہارے رب کی طرف سے حق ہے اور تم لوگ جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے۔ اور تم جہاں سے نکلو مسجد محترم کی طرف منہ کرو اور مسلمانو تم جہاں ہوا کرو اسی (مسجد) کی طرف رخ کیا کرو (یہ تاکید) اس لئے (کی گئی ہے) کہ لوگ تمہیں کسی طرح کا الزام نہ دے سکیں مگر اُن میں سے جو ظالم ہیں (وہ الزام دیں تو دیں) سو اُن سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تمہیں اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہِ راست پر چلو ۔
اِن آیات میں قرآن کریم نے یہ حکم دیا ہے کہ ہم جب بھی جہاں پر بھی ہوں ہر حال میں ہر وقت اپنے چہرے مسجد الحرام کی طرف کر لیں۔ بتائیں اس آیت پر عمل کیسے ہو گا؟ دنیا میں کون ہے جو اس حکم پر عمل کر سکے؟ جب تک احادیث کو تسلیم نہیں کیا جائے گا جب تک اس حکم پر عمل ممکن ہی نہیں۔ احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حکم صرف حالت نماز کیلئے ہے۔ اب بتائیے کیا احادیث دین نہیں؟
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
سوال نمبر7۔
اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللهُ وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی وَ اتَّقُوْنِ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ
حج کے مہینے (معیّن ہیں جو) معلوم ہیں تو جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کر لے تو حج (کے دنوں) میں نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی بُرا کام کرے نہ کسی سے جھگڑے اور جو نیک کام تم کرو گے اس کو اللہ جانتا ہے اور زادِ راہ (یعنی رستے کا خرچ) ساتھ لے جاؤ کیونکہ بہتر (فائدہ) زادِ راہ (کا) پرہیز گاری ہے اور اے اہل عقل مجھ سے ڈرتے رہو ۔ (سورئہ بقرہ آیت نمبر197)۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حج کے مہینے معلوم ہیں۔ اشھر جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جو کہ کم از کم 3 کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اب آپ قرآن سے بتائیے کہ حج کے کون کون سے مہینے ہیں؟ یا پھر اس آیت کو سمجھنے کے لئے بھی حدیث کی ضرورت ہے؟ تو پھر ماننا پڑے گا کہ احادیث بھی قرآن کی طرح دین کا حصہ ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
سوال نمبر8۔
وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْھُرٍ وَّ عَشْرًا فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْ اَنْفُسِھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ (سورئہ بقرہ آیت نمبر234)۔
اور جولوگ تم میں سے مر جائیں اور عورتیں چھوڑ جائیں تو عورتیں ”چار مہینے اور دس“ اپنے آپ کو روکے رہیں اور جب (یہ) عدت پوری کر چکیں تو اپنے حق میں پسندیدہ کام (یعنی نکاح) کر لیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں اور اللہ تعالیٰ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے ۔
اس آیت میں اللہ رب العزت نے بتایا کہ جو عورتیں ایام عدت میں ہوں یعنی جن کے شوہر انتقال کر جائیں وہ 4 مہینے اور دس … انتظار کریں۔ اب قرآن سے بتائیے کہ یہ دس کیا ہیں؟ چار مہینے اور دس دن؟ چار مہینے اور دس ہفتے؟ چار مہینے اور دس عشرے؟ چار مہینے اور دس سال؟ کیا قرآن نے اس کی وضاحت کی ہے؟۔
 
Top