تو فبھت الذی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پڑھ دیں ان پر بھی؟
اصل پیغام ارسال کردہ از: muslim
کیا آپ کے پاس اس بات کی کوئی شہادت ھے کہ کتب احادیث میں لکھی ہوئی احادیث " قول رسول کریم " ہیں؟
کیا آپ شیعہ محدّثین کی مرتّب کردہ احادیث کو بھی مانتے ہیں؟
محدّثین آپ کو بتا رہے ہیں کہ کیا صحیح ھے کیا غلط ۔
اگر یہ محدثین نہ ہوتے تو دین کا کیا ھوتا؟ کیا اللہ نے اپنا دین اسلام، محدّثین پر چھوڑ دیا؟
کیا انبیاء سابقین کے لیئے بھی محدّث تھے؟ اگر نہیں تو دین کیسے پھیلا؟
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے کام پورا نہیں کیا؟ اور امّت کو اہل سنّت اور شیعہ محدّثین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا؟
کیا کسی بھی حدیث کی کتاب کی تصدیق اللہ کے رسول نے کی ھے؟
آپ حدیث کی کتابوں میں لکھی ہوئی باتوں کو قول رسول کریم کیوں سمجھتے ہیں؟
جبکہ اللہ اپنی کتاب میں بتا رہا ھے کہ " قول رسول کریم کیا ھے"۔ کیا یہ ہمارے لیئے کافی نہیں ھے؟
فَلَا أُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُونَ ﴿٣٨﴾ وَمَا لَا تُبْصِرُونَ ﴿٣٩﴾ إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ﴿٤٠﴾ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ ﴿٤١﴾ وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ ﴿٤٢﴾ تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٤٣﴾ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ﴿٤٤﴾ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ﴿٤٥﴾ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ﴿٤٦﴾ فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ ﴿٤٧﴾ وَإِنَّهُ لَتَذْكِرَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٤٨﴾ وَإِنَّا لَنَعْلَمُ أَنَّ مِنكُم مُّكَذِّبِينَ ﴿٤٩﴾ وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكَافِرِينَ ﴿٥٠﴾ وَإِنَّهُ لَحَقُّ الْيَقِينِ ﴿٥١﴾ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ ﴿٦٩-٥٢﴾
تو مجھے قسم ان چیزوں کی جنہیں تم دیکھتے ہو، (38) اور جنہیں تم نہیں دیکھتے (39) بیشک یہ قرآن قول رسول کریم ھے (40) اور وہ کسی شاعر کی بات نہیں کتنا کم یقین رکھتے ہو (41) اور نہ کسی کاہن کی بات کتنا کم دھیان کرتے ہو (42) اس نے اتارا ہے جو سارے جہان کا رب ہے، (43) اور اگر وہ ہم پر ایک بات بھی بنا کر کہتے (44) ضرور ہم ان سے بقوت بدلہ لیتے، (45) پھر ان کی رگِ دل کاٹ دیتے (46) پھر تم میں کوئی ان کا بچانے والا نہ ہوتا، (47) اور بیشک یہ قرآن ڈر والوں کو نصیحت ہے، (48) اور ضرور ہم جانتے ہیں کہ تم کچھ جھٹلانے والے ہیں، (49) اور بیشک وہ کافروں پر حسرت ہے (50) اور بیشک وہ یقین حق ہے (51) تو اے محبوب تم اپنے عظمت والے رب کی پاکی بولو (52)
رسول نے کوئی اقوال نہیں کہے بجز اس کے جو اللہ نے ان پر نازل کیئے۔
یہ تو راوی حضرات اور محدّثین کا کمال ھے کہ وہ اللہ کے رسول کی جانب اقوال منسوب کررہے ہیں۔
کیا، اللہ نے انسانیت کی ہدایت کے لیئے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ حق کے ساتھ الکتاب نازل کی یا محدّثین کو بھیجا؟ کہ وہ لوگوں
کو بتایئں کہ حق کیا ھے اور باطل کیا ھے؟
كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّـهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۖ فَهَدَى اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ۗ وَاللَّـهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٢-٢١٣﴾
لوگ ایک امّت تھے پھر اللہ نے انبیاء بھیجے خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے اور ان کے ساتھ سچی الکتاب اتاری کہ وہ لوگوں میں ان کے اختلافوں کا فیصلہ کردے اور کتاب میں اختلاف اُنہیں نے ڈالا جن کو دی گئی تھی بعداس کے کہ ان کے پاس روشن حکم آچکے آپس میں سرکشی سے تو اللہ نے ایمان والوں کو وہ حق بات سوجھا دی جس میں جھگڑ رہے تھے اپنے حکم سے، اور اللہ جسے چاہے سیدھی راہ دکھائے،
غور کریں آیت مبارکہ میں نہ تو کسی محدّث کا ذکر ھے اور نہ ہی ان کی کتابوں کا۔ ہر فیصلہ صرف اللہ کی کتاب سے ہو رہا ھے۔
کیا نبی کریم کے لیئے اللہ کی سنّت تبدیل ہوئی؟ یا تمام انبیاء پر دو طرح کی وحی نازل ہوئی؟ (یاد رہے کہ، اللہ کی سنّت کبھی تبدیل نہیں ہوتی ھے)
اگر تمام انبیاء پر دو طرح کی وحی نازل ہوئی تو ان کی احادیث کہاں ہیں؟
اللہ کی کتاب کے ساتھ کوئی اور کتاب؟
کیا یہ شرک نہ ھوگا؟
امّید ھے جلد وضاحت فرمائیں گے۔[/COL]