محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,785
- پوائنٹ
- 1,069
اوباما کیوں ایران کو کھلی چھوٹ دے رہے ہیں؟
ڈاکٹر ماجد رفیع زادہ
ایران مسلسل عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے مگر امریکی صدر اوباما اس کے باوجود تہران کے تمام مطالبات کے سامنے جھکتے جارہے ہیں۔ انہوں نے ایران کی جانب سے شام میں اپنی فوجی مداخلت میں اضافہ کرنے کے جواب میں کیا کیا؟ انہوں نے تہران کو شام کے تنازع پر ایک امن کانفرنس میں شرکت کی دعوت دے دی۔
ایران نے کئی امریکی شہریوں کو قید کر لیا مگر تہران پر دباؤ ڈالنے کے بجائے اوباما نے ایٹمی مذاکرات جاری رکھے۔ پھر ایران نے دبئی میں امریکی بزنس مین سیامک نامازی کو گرفتار کر لیا۔ اوباما نے تہران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کیا جس نے ایران کو عالمی پابندیوں سے آذاد کیا مگر ایرانی پاسداران انقلاب کور نے اس کے فوری بعد اس معاہدے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بیلسٹک میزائلوں کے مزید کئی تجربات کر لیے۔
اوباما نے کانگریس سے کہا کہ نئی پابندیاں ایران کے گیارہ اداروں اور افراد پر عاید کی جائیں گی۔ ایران نے اس کا جواب اس طرح دیا کہ اس نے اعلان کیا کہ وہ اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام کو تیزی سے مکمل کرے گا، اور اوباما نے ایران پر نئی پابندیوں کا اطلاق ملتوی کر دیا اور اس کے خلاف مزید سفارتی اقدامات بھی معطل کر دیے۔
اس ہفتے کئی ممالک نے ایران کی جانب سے سعودی سفارتخانے اور قونصل خانے کو جلانے کے جواب میں تہران سے سفارتے تعلقات منقطع یا محدود کر دیے، مگر تہران نے سرکشی جاری رکھتے ہوئے ایک نئے زیر زمین میزائل ’عماد‘ کی رونمائی کی جو ایٹمی ہتھیار لے جانے کو صلاحیت رکھتا ہے۔ مزید برآں ایرانی پاسدارن انقلاب کے نائب کمانڈر بریگیڈیر جنرل حسین سلامی نے دنیا کو بتایا کہ ایران کے پاس کتنے میزائل ہیں۔ یہی نہیں، مزید اشتعال انگیزی کرتے ہوئے ایران نے ایک راکٹ داغا جو آبنائے ہرمز میں لنگر انداز امریکی طیارہ بردارجہاز ہیری ٹرومین کے قریب جا گرا۔ ایران اشتعال دلاتا رہا مگر اوباما اور ان کے مغربی اتحادی اسے نظرانداز کرتے ہوے دوسری جانب دیکھتے رہے۔
چھڑی نہیں، صرف گاجر
ایران کی جانب اوباما کی چھڑی کے بجائے صرف گاجر پیش کرنے کی پالیسی نے دنیا کو یہ یقین کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ایران کی تمام جارحیت اور غیر قانونی اقدامات کے کوئی تادیبی نتائج نہیں ہوں گے، اور اس سرکشی میں تمام اعتدال پسند اور سخت گیر سمجھے جانے والے لیڈروں کا تعاون شامل ہے۔
ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کو اوباما اپنی خارجہ پالیسی کی کی معراج اور مشرق وسطی کی پالیسی کی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے ایسے کسی اقدام سے گریز کیا ہے جو اس معاہدے کے لیے نقصان دہ ہو۔ مگر اس طرح ایران کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے کہ وہ کھلے اور چھپے جارحیت جاری رکھے۔ اس کے امریکی قومی اور علاقائی سلامتی پر سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔
اوباما یہ دیکھنے میں ناکام رہے کہ ایٹمی معاہدے کی امریکہ سے زیادہ ایران کو ضرورت تھی تاکہ وہ اپنے اقتصادی بحران پر قابو پاسکے۔ ان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایران کو ہاتھ پکڑاؤ تو وہ بازو پکڑ لیتا ہے پھر سر پر سوار ہو جاتا ہے۔ اس لیے تہران کو صرف گاجر دکھانے کی پالیسی کبھی مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکے گی۔
ایرانی سرکشی پر عالمی طاقتوں کی جانب سے موزوں رد عمل کی غیر موجودگی میں علاقائی طاقتیں اس پر مجبور ہوں گی کہ متحد ہو کر ایرانی توسیع پسندی اور جارحانہ عزایم کا مقابلہ کریں۔ یہ ایک مثبت پیش رفت ہوگی کیونکہ اس سے ایسی علاقائی قیادت ابھرے گی جو عالمی طاقتوں کے اثرونفوز اور ان کے مفادات کی رسہ کشی سے آزاد ہو گی۔
اس کا مطلب یہ نہیں کو عالمی طاقتیں خطے میں مداخلت بند کر دیں گی بلکہ خود مختار علاقائی اتحاد کی موجودگی میں وہ کسی یکطرفہ اقدام سے قبل اپنی پالیسیوں کا مزید باریک بینی سے جائزہ لیں گی۔
ڈاکٹر ماجد رفیع زادہ
ایران مسلسل عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے مگر امریکی صدر اوباما اس کے باوجود تہران کے تمام مطالبات کے سامنے جھکتے جارہے ہیں۔ انہوں نے ایران کی جانب سے شام میں اپنی فوجی مداخلت میں اضافہ کرنے کے جواب میں کیا کیا؟ انہوں نے تہران کو شام کے تنازع پر ایک امن کانفرنس میں شرکت کی دعوت دے دی۔
ایران نے کئی امریکی شہریوں کو قید کر لیا مگر تہران پر دباؤ ڈالنے کے بجائے اوباما نے ایٹمی مذاکرات جاری رکھے۔ پھر ایران نے دبئی میں امریکی بزنس مین سیامک نامازی کو گرفتار کر لیا۔ اوباما نے تہران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کیا جس نے ایران کو عالمی پابندیوں سے آذاد کیا مگر ایرانی پاسداران انقلاب کور نے اس کے فوری بعد اس معاہدے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بیلسٹک میزائلوں کے مزید کئی تجربات کر لیے۔
اوباما نے کانگریس سے کہا کہ نئی پابندیاں ایران کے گیارہ اداروں اور افراد پر عاید کی جائیں گی۔ ایران نے اس کا جواب اس طرح دیا کہ اس نے اعلان کیا کہ وہ اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام کو تیزی سے مکمل کرے گا، اور اوباما نے ایران پر نئی پابندیوں کا اطلاق ملتوی کر دیا اور اس کے خلاف مزید سفارتی اقدامات بھی معطل کر دیے۔
اس ہفتے کئی ممالک نے ایران کی جانب سے سعودی سفارتخانے اور قونصل خانے کو جلانے کے جواب میں تہران سے سفارتے تعلقات منقطع یا محدود کر دیے، مگر تہران نے سرکشی جاری رکھتے ہوئے ایک نئے زیر زمین میزائل ’عماد‘ کی رونمائی کی جو ایٹمی ہتھیار لے جانے کو صلاحیت رکھتا ہے۔ مزید برآں ایرانی پاسدارن انقلاب کے نائب کمانڈر بریگیڈیر جنرل حسین سلامی نے دنیا کو بتایا کہ ایران کے پاس کتنے میزائل ہیں۔ یہی نہیں، مزید اشتعال انگیزی کرتے ہوئے ایران نے ایک راکٹ داغا جو آبنائے ہرمز میں لنگر انداز امریکی طیارہ بردارجہاز ہیری ٹرومین کے قریب جا گرا۔ ایران اشتعال دلاتا رہا مگر اوباما اور ان کے مغربی اتحادی اسے نظرانداز کرتے ہوے دوسری جانب دیکھتے رہے۔
چھڑی نہیں، صرف گاجر
ایران کی جانب اوباما کی چھڑی کے بجائے صرف گاجر پیش کرنے کی پالیسی نے دنیا کو یہ یقین کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ایران کی تمام جارحیت اور غیر قانونی اقدامات کے کوئی تادیبی نتائج نہیں ہوں گے، اور اس سرکشی میں تمام اعتدال پسند اور سخت گیر سمجھے جانے والے لیڈروں کا تعاون شامل ہے۔
ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کو اوباما اپنی خارجہ پالیسی کی کی معراج اور مشرق وسطی کی پالیسی کی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے ایسے کسی اقدام سے گریز کیا ہے جو اس معاہدے کے لیے نقصان دہ ہو۔ مگر اس طرح ایران کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے کہ وہ کھلے اور چھپے جارحیت جاری رکھے۔ اس کے امریکی قومی اور علاقائی سلامتی پر سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔
اوباما یہ دیکھنے میں ناکام رہے کہ ایٹمی معاہدے کی امریکہ سے زیادہ ایران کو ضرورت تھی تاکہ وہ اپنے اقتصادی بحران پر قابو پاسکے۔ ان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایران کو ہاتھ پکڑاؤ تو وہ بازو پکڑ لیتا ہے پھر سر پر سوار ہو جاتا ہے۔ اس لیے تہران کو صرف گاجر دکھانے کی پالیسی کبھی مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکے گی۔
ایرانی سرکشی پر عالمی طاقتوں کی جانب سے موزوں رد عمل کی غیر موجودگی میں علاقائی طاقتیں اس پر مجبور ہوں گی کہ متحد ہو کر ایرانی توسیع پسندی اور جارحانہ عزایم کا مقابلہ کریں۔ یہ ایک مثبت پیش رفت ہوگی کیونکہ اس سے ایسی علاقائی قیادت ابھرے گی جو عالمی طاقتوں کے اثرونفوز اور ان کے مفادات کی رسہ کشی سے آزاد ہو گی۔
اس کا مطلب یہ نہیں کو عالمی طاقتیں خطے میں مداخلت بند کر دیں گی بلکہ خود مختار علاقائی اتحاد کی موجودگی میں وہ کسی یکطرفہ اقدام سے قبل اپنی پالیسیوں کا مزید باریک بینی سے جائزہ لیں گی۔