• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اَحرف سبعہ اور ان کا مفہوم

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی طرح حدیث بالا کی روشنی میں احرف سبعہ کے نزول کو تخفیف اورتیسیر علی الامۃ قرار دیا گیا ہے تو ان مذکورہ بالا اوجہ کی تخفیف اورتیسیر کے ساتھ کیا مناسبت بنتی ہے؟ مثلاً تقدیم وتاخیر کے اختلاف کا ایک اعرابی بدو کے ساتھ کیا واسطہ؟ اسی طرح زیادتی ونقصان اوراختلاف اعراب یا اختلاف حروف جس میں تغیر معنی وصورت ہو یا نہ ہو ان تمام چیزوں کا تعلق تسہیل وتیسیر کے ساتھ کمزور ترین نظر آتا ہے۔
البتہ ایک قول اس بارے میں خاصا اقرب معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ’ حروف سبعہ‘ سے مراد لغاتِ سبعہ ہیں اور یہ اہل عرب کے افصح ترین لغات ہیں خواہ وہ لغاتِ سبعہ ایک کلمہ میں مکمل اتفاق رکھتے ہوں یا ان میں باہم اختلاف ہو اور وہ اختلاف دو وجہوں میں یا تین وجوہ میں یا چارمیں یا اس سے زیادہ میں ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی ایک کلمہ تمام لغات میں ایک ہی وضع اور کیفیت کا ہوتا ہے تو اس میں ایک ہی قراء ۃ ہو گی اور کبھی ایک لغت کے لوگ کیفیت نطق میں اختلاف کر رہے ہوتے ہیں تو ایک لغت میں دو قراء تیں ہو جاتی ہیں۔
یہ قول جمہور اہل علم اور محققین فن کا ہے۔ جن میں مکی بن ابی طالب القیسی رحمہ اللہ ابوعبید القاسم بن سلام ابو حاتم السجستانی رحمہ اللہ امام طبری رحمہ اللہ،ابو جعفر الطحاوی رحمہ اللہ اورعصر حدیث کے ادب اورفن بلاغت کے امام مصطفی صادق الرافعی رحمہ اللہ کے اسماء قابل ذکر ہیں۔
البتہ اس قول پر دواعتراض ہوسکتے ہیں لیکن دونوں اعتراض مضبوط دلائل کے سامنے کمزور ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلا اعتراض
اگر احرف سبعہ سے مراد لغات سبعہ ہیں توپھر ہر کلمہ میں سات وجوہ قراء ا ت ہونی چاہئیں جبکہ عملاً کم یا زیادہ ہوتی ہیں؟
اس کا جواب یہی ہے کہ کبھی مختلف لغات ایک کلمہ پر متفق ہو جاتے ہیں تو ان میں ایک ہی قراء ۃ ہو گی اور کبھی سات لغات میں دو وجہوں پر اختلاف ہوتا ہے تو ان میں دوہی قراء تیں ہو ں گی ۔لہٰذا یہ اعتراض ختم ہوا ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسرا اعتراض
اگر لغات کا اختلاف مراد ہے توپھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ سے اختلاف کیوں کر رہے ہیں جبکہ دونوں کا لغت قریش کا لغت ہے؟ اور ایک لغت میں باہم مختلف ہونا اس قول کی تردید کرتا ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جواب
قرآن کریم کی تلاوت کادارومدار لغت پر نہیں رہا بلکہ اعتماد سماع پر ہے اس لیے حضورﷺنے جس کو جیسے لغت میں پڑھایا وہ اسی کا پابند ٹھہرا۔ اس کی مضبوط دلیل ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی وہ روایت ہے جس میں فرماتے ہیں کہ دو آدمیوں کا ایک سورۃ میں قراء ت کا اختلاف ہوادونوں کا دعویٰ یہی تھا کہ مجھے حضورﷺنے اس طرح پڑھایا ہے جب حضورﷺکو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے غصہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ویسے ہی پڑھو جیسے تمہیں پڑھایا گیا ہے۔
اور خود حضرت عمر tکاقول بھی اسی پر دال ہے جب انہوں نے حضرت ہشام رضی اللہ عنہ سے اختلاف کیا تودونوں نے یہی کہا کہ ہٰکذا أقرأنیہا رسول اﷲ ﷺ اور حضورﷺکے سامنے بھی یہی جملہ دہرایا کہ یہ سورۃ الفرقان اس طریقے پر نہیں پڑھتے جس طرح آپ نے مجھے پڑھایا ہے تو ان میں سے کسی نے بھی اپنے لغت کی طرف نسبت نہیں کی کہ تیری قراء ت لغت قریش کے خلاف ہے بلکہ نسبت سماع عن النبیﷺکی طرف ہے اس سے صراحت ہو گئی کہ اعتماد سماع عن النبی ﷺپر ہے نہ کہ لغت پر تو یہ اعتراض بھی مندفع ہو جاتا ہے۔
پھر اعتماد سماع پر ہونے کی وجہ سے لغات کا اختلاط ہوا اورعرضۂ اخیرہ سے پہلے ان لغات سبعہ کے وہ ابعاض جن کا تعلق تخفیف اور تیسیر کے ساتھ تھا وہ منسوخ ہوگئے اورباقی ابعاضِ سبعہ آج تک موجود ہیں۔ اور جب سیدنا عثمان رضی اللہ نے باجماع صحابہ رسم المصحف کا التزام کیا تو وہ اوجہ جن کو رسم عثمانی کاشمول نہ ہو سکا تو وہ شاذہ ٹھہریں اور اس پر اجماع صحابہ ثابت ہو چکا ہے اب ان قراء ت کوتفسیر وفقہ اورنحو وادب کے احکام میں استنباط کے طور پر تو لیا جاتاہے، لیکن قرآن سمجھ کر ان کی تلاوت ناجائز ہے اس لیے کہ قرآن مکمل طور پر متواتر ہے۔

٭_____٭_____٭
 
Top