• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اَوقافِ قرآنیہ پر قراء ات کے اَثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَوقافِ قرآنیہ پر قراء ات کے اَثرات

ڈاکٹر عبد الکریم صالح
مترجم: نصیر الرحمن​
اللہ رب العزت نے قرآن کریم کو سات حروف پر اس لیے نازل فرمایاتاکہ پوری اُمت، خصوصاً اہل عرب کو اس کی تلاوت میں آسانی مہیا ہو سکے، کیونکہ عرب کے مختلف قبائل تھے جن کے مابین لہجات، آوازوں کے اُتار چڑھاؤ اور الفاظ کی اَدائیگی میں اختلاف پایا جاتا تھا۔ ان تمام کو عام عربی یکجا کرتی تھی جس کے ذریعے اَہل عرب ایک دوسرے سے ہم کلام ہوتے تھے، چنانچہ اگر قرآن کو بھی ایک قرا ء ت میں نازل کردیا جاتا تو اہل عرب کے لیے اس کی تلاوت اور اس کا فہم مشکل ہوجاتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ محقق ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قرآن کا سات حروف میں نزول کا مقصد بطورِ شرف ، اُمت پر آسانی اور تخفیف کرنا، اس اُمت کی فضیلت کا اِظہار کرنا اورحضورنبی کریم 1 کی دعا قبول کرنا ہے کہ جب جبریل علیہ السلام نے سرورکونینﷺسے کہا :
’’إِنَّ اﷲَ یَأْمُرُکَ أَنْ تَقْرَأَ أُمَّتَکَ عَلـی حَرْفٍ‘‘، فقال !: ’’أَسْأَلُ اﷲَ مُعَافَاتَہٗ وَمَغْفِرَتَہٗ فَإِنَّ اُمَّتِي لاَ تَطِیْقُ ذٰلِکَ‘‘۔ (صحیح مسلم: ۱۳۵۷)
مزید یہ کہ قرآن کو مختلف قراء ات کے ساتھ پڑھنے سے متنوع اَحکام اورمتنوع معانی کا ظہور ہوتاہے، تنوع قراءات سے قرآن کریم کے مخفی معانی و مفاہیم کی وضاحت اس بات کی گواہی ہے کہ یہ منزل من عنداللہ ہیں۔ لہٰذا قرآن کریم کو چاہے کسی بھی قراء ت میں پڑھا جائے وہ اپنے اَندر قرانیت کا اِعجاز رکھتا ہے اور تعدد وجود تعدد اعجاز پہ دلالت کرتی ہبں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
خلاصہ
تنوعِ قراء ات تعدد آیات کی طرح ہے اور یہ بلاغہ کی اَقسام میں سے ایک قسم ہے۔ اس کا آغاز جمال اعجاز اور اس کی اِنتہا کمال اعجاز ہے۔
اِختلاف قراء ات کا اَثر اَوقاف پر بھی ہوتاہے جس سے معنی میں ردوبدل بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ وقف بھی اس قراء ت کے تابع ہوگا جس میں تلاوت کی جارہی ہے۔ تو قاری کو چاہئے کہ جب وہ کسی قراء ت میں تلاوت قرآن کر رہا ہو تو اس قراء ت کے ضمن میں مقامات وقوف کا خیال بھی رکھے کہ کہاں پر رکنا ہے اور کہاں سے آغاز کرنا ہے۔
درج ذیل مثالیں اس کی اَثر انگیزی کی وضاحت کرتی ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلی مثال
’’ إِنَّآ أَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لَا تُسْئَلُ عَنْ أَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ ‘‘ (البقرۃ: ۱۱۹)
اس آیت میں ’تَسْئَلْ‘ بصیغۂ نہی پڑھا جائے تو ’نَذِیْرًا‘ پر وقف کافی ہو گا۔ تو آیت کا معنی یہ ہو گا کہ آپﷺ ان کے بارے میں سوال کرنے سے منع فرما رہے ہیں جس سے ان کے کثرت عذاب اور زیادتی عقاب کی طرف اِشارہ مقصود ہے۔
یعنی ’’لا تسأل یا محمد عن أصحاب الجحیم ، فقد بلغوا غایۃ العذاب التي لیس بعدہا مستزاد‘‘
’’اے نبیﷺ تو اصحاب جحیم کے متعلق نہ پوچھ، کیونکہ وہ انتہائی عذاب کو پہنچ چکے ہیں کہ جس کے بعد مزید عذاب کی گنجائش نہیں۔‘‘
اور اگر اس آیت میں وَلَا تُسْئَلُ پڑھا جائے تو اس کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں:
(١) یہ ہے کہ نذیراً پہ وقف کرتے ہوئے ہم اس کے معنی کی مناسبت سے رفع دیں گے کہ ’ولست تسأل‘ تجھ سے ان کے متعلق مواخذہ یا سوال نہیں ہوگا ۔ اس طرح یہ ’’إِنَّآ أَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا ‘‘ سے الگ ہوگا اور ’نذیرًا‘ پر وقف بھی کیا جائے گا۔
(٢) یہ کہ نذیراً پر وقف نہیں کریں گے بلکہ پہلے سے متعلق ہونے کی بناء پر ملا کے پڑھیں گے۔ اس وقت معنی یہ ہوگا کہ اے نبی نہ ہی تو سائل عنھم ہے اور نہ ہی مسؤول عنہم ہے کہ باوجود اس کے کہ ان کے کفر کو (انذار کے باوجود) جانتا ہے تو ان کے متعلق سوال کرے۔ لہٰذا تجھے سوال کا حق نہیں۔ اور تیرے ان کو ڈرانے اور خوشخبری دینے کے باوجود بھی اگر وہ ’أصحب جحیم‘ میں سے ہوئے تو تجھ سے کوئی مواخذا نہیں ہوگا، کیونکہ تو نے اپنا فرض اَدا کردیا تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسری مثال
’’وَ یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ قُلْ ھُوَ أَذًی فَاعْتَزِلُوا النِّسَآئَ فِی الْمَحِیْضِ وَ لَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْھُرْنَ فَإِذَا تَطَھَّرْنَ فَاْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمُ اللّٰہُ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوّٰبِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ ‘‘(البقرۃ:۲۲۲)
اَب اس آیت میں قراء ات کے اختلاف کی وجہ سے ’’ حَتّٰی یَطْھُرْنَ ‘‘ پر وقف کے بارے میں بھی اختلاف ہوگیا۔ نافع، ابن کثیر، ابوعمرو، ابن عامر اور حفص کے مطابق عاصم کے نزدیک ’یَطْھُرْنَ‘ ہو گا کیونکہ اس قراء ت کے مطابق طھر سے مراد حیض کے خون کا رک جانا ہے۔ اب اس قراء ت کے مطابق ’یطھرن‘ پر وقف ہوگا کیونکہ اس آیت میں دو چیزوں کے متعلق کلام کیا گیا ہے۔
حمزہ، کسائی (اورابوبکر کے مطابق عاصم ) کے نزدیک یَطَّھَرْنَ ہے۔ کہ یہاں طھر سے مراد ایام حیض کے بعد کا غسل ہے کہ آدمی اپنی عورت سے غسل حیض کے بعد وطی کرے اس صورت میں یطھرن پر وقف جائز نہیں ہوگا، کیونکہ یہ اور اس کے بعد والا ایک ہی کلام ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تیسری مثال
’’ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ إِنْ تُبْدُوْا مَا فِیٓ أَنْفُسِکُمْ أَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ‘‘ (البقرۃ: ۲۸۴)
اس آیت میں عاصم، ابن عامر، یعقوب، ابوجعفر اور حسن کے نزدیک اگر فَیَغْفِرُ اور وَیُعَذِّبُ پڑھا جائے تو ’’یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ ‘‘ پر وقف کافی ہوگا اس لیے کہ یہ دونوں مستأنفہ ہیں اور نافع، ابوعمر، ابن کثیر، کسائی، حمزہ اور اعمش کے نزدیک اگر فَیَغْفِرْ اور وَیُعَذِّبْ پڑھا جائے تو پھر ’’ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ ‘‘ میں لفظ جلالہ پہ وقف نہیں ہوگا کیونکہ یہ دونوں جو اب شرط پر معطوف ہیں لہٰذا ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں جائے گا بلکہ ملا کے بغیر وقف کے پڑھا جائے گا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چوتھی مثال
’’ فَتَقَبَّلَھَا رَبُّھَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَّ أَنْبَتَھَا نَبَاتًا حَسَنًا وَّکَفَّلَھَا زَکَرِیَّا کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْھَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَھَا رِزْقًا قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ ھٰذَا قَالَتْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ ‘‘ (آل عمران:۳۷)
اس آیت میں قراء ات کے اختلاف کی بدولت ’حسنًا‘ پہ وقف اور عدم وقف کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ چنانچہ اگر ’وکفلھا‘ بغیر تشدید الفاء پڑھا جائے تو حسنًا پہ وقف ہوگا، کیونکہ حسنًا اور وکفلھا دو الگ کلام ہیں وہ اس طرح کہ حسنا تک اللہ تعالیٰ نے مریم علیہا السلام کی پیدائش کا ذکر کیا اور پھر ’کفلھا‘ سے اس بات کی توضیح کی کہ کفالت زکریا نے کی۔ جیسا کہ اللہ کا فرمان ذیشان ہے کہ’’ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلٰمَھُمْ اَیُّھُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ ‘‘(آل عمران:۴۴)
تو پھر لوگوں نے مریم علیہا السلام کی کفالت کی ذمہ داری پہ آپس میں جھگڑا اور اختلاف کیا اور ہر کوئی اپنے آپ کو مریم علیہا السلام کی کفالت کے لیے موزوں سمجھتا تھا چنانچہ انہوں نے قلموں کے ذریعے قرعہ اَندازی کی تو اللہ کے فیصلے کے مطابق زکریا علیہ السلام کے نام کا قرعہ نکل آیا۔ لہٰذا مریم علیہا السلام کی کفالت زکریا علیہ السلام نے کی۔
اس میں اگر ’کَفَلَھَا زَکَرِیَّائُ‘ پڑھا جائے تو ’کفلھا‘ کا فاعل ’زکریاء‘ بنتا ہے جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ حسناً تک اللہ تعالیٰ کے فعل کا ذکر ہے کہ اللہ نے مریم علیہا السلام کی پیدائش ٹھیک ٹھاک طریقے سے کی اور ’کفلھا زکریا‘ الگ جملہ ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اور اگر ’کَفَّلَھَا زَکَرِیَّا‘ پڑھا جائے تو ’حسناً‘ پہ وقف نہیں ہوگا، کیونکہ یہ مکمل ایک کلام ہے کہ جس میں فاعل صرف اللہ ہے کہ جس نے مریم علیہاالسلام کو پیدا کیا اور پھر اس کی کفالت زکریا سے کروائی گویا زکریا اور مریم علیہا السلام دونوں مفعول ہیں۔
علامہ سجاوندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب ایک جملے کا دوسرے جملے پہ عطف ڈالا جائے تو بھی بعض کے نزدیک وقف جائز ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پانچویں مثال
’’وَ لَا تُؤْمِنُوْٓا إِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِیْنَکُمْ قُلْ إِنَّ الْھُدٰی ھُدَی اللّٰہ أَنْ یُّؤْتٰٓی أَحَدٌ مِّثْلَ مَآ أُوْتِیْتُمْ أَوْ یُحَآجُّوْکُمْ عِنْدَ رَبِّکُمْ قُلْ إِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَ اللّٰہُ وٰسِعٌ عَلِیْمٌ‘‘(آل عمران:۷۳)
اس آیت کریمہ میں ’ھدی اﷲ‘ پہ وقف کی بناء ہو گی۔ اس کو بعد والے کے ساتھ ملانے کے بارے میں قراء کا اختلاف ہے۔ جو ’أن یؤتی‘ کو خبر پہ محمول کرے گا وہ ’ھدی اﷲ‘ پہ وقف نہیں کرے گا، کیونکہ ’أن یؤتی‘ میں أن مفعول ہے ’ولا تؤمنوا‘ کا۔ یا محل جر میں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حاصل کلام
اگر اس آیت کا معنی یہ کیا جائے :
’’ولاتصدقوا ولاتقروا بأن یؤتی أحد مثل ما أوتیتم من العلم والحکمۃ إلا لمن اتبع دینکم۔‘‘
’’یعنی نہ تم تصدیق کرو اور نہ اِقرار کرو اس بات کا کہ ان کو بھی تمہاری طرح علم و حکمت دی جائے گی، مگر وہ لوگ کہ جو تمہارے دین کے تابع ہوئے۔‘‘
یا یہ معنی کیا جائے :
’’أو لا تؤمنو إلا لمن تبع دینکم ولا تؤمنوا أن یؤتی أحد مثلہ ولا تصدقوا أن یحاجوکم۔‘‘
’’نہ تم یقین کرو مگر ان لوگوں کا جو تمہارے دین کے تابع ہوئے اور نہ تم یقین رکھو اس بات کا کہ وہ بھی تمہارے مثل دیئے جائیں گے اور نہ تم تصدیق کرو اس بات کی کہ وہ تم سے جھگڑیں گے۔‘‘
اس صورت میں ’ھدی اﷲ‘ پہ وقف نہیں ہوگا اور اگر کوئی ’أن یؤتی‘ سے پہلے ہمزہ استفہام مقدر مان کے پڑھے یعنی’’ئأن یؤتی أحد مثل ما أوتیتم لا تؤمنون۔‘‘
یہ استفہام انکاری ہے اور علماء یہود کی طرف سے ان کے عوام پہ ڈانٹ ڈپٹ ہے تاکہ وہ ان کے طریقے کے ساتھ چمٹے رہیں۔
تو اس صورت میں ’ھدی اﷲ‘ پر وقف ہوگا، کیونکہ ’ئَأَنْ ‘ سے نئے جملے کا آغاز ہورہا ہے ۔
 
Top