• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اُسوۂ حسنہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
10- عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ؓ قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى النَّبِيِّ ﷺبِالْبَطْحَاءِ وَهُوَ مُنِيخٌ فَقَالَ: أَحَجَجْتَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ قَالَ: بِمَ أَهْلَلْتَ؟ قُلْتُ: لَبَّيْكَ بِإِهْلَالٍ كَإِهْلَالِ النَّبِيِّ ﷺقَالَ: أَحْسَنْتَ طُفْ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ أَحِلَّ فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ أَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ قَيْسٍ فَفَلَتْ رَأْسِي ثُمَّ أَهْلَلْتُ بِالْحَجِّ فَكُنْتُ أُفْتِي بِهِ حَتَّى كَانَ فِي خِلَافَةِ عُمَرَ فَقَالَ: إِنْ أَخَذْنَا بِكِتَابِ اللهِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُنَا بِالتَّمَامِ وَإِنْ أَخَذْنَا بِقَوْلِ النَّبِيِّ ﷺفَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ. ([1])
(۱۰)ابو موسیٰ اشعری ؓنے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺکی خدمت میں بطحاء میں حاضر ہوا آپ وہاں( حج کے لئے جاتے ہوئے اترے ہوئے تھے) آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارا حج ہی کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا میں نے اسی کا احرام باندھا ہے ۔جس کا نبی کریم ﷺنے احرام باندھا ہو۔ آپ نے فرمایا تو نے اچھا کیا اب بیت اللہ کا طواف اور صفا اور مروہ کی سعی کر لے پھر احرام کھول دےچنانچہ میں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کی سعی ،پھر بنو قیس کی ایک عورت کے پاس آیا اور انہوں نے میرے سر کی جوئیں نکالیں اس کے بعد میں نے حج کا احرام باندھا ۔میں(رسول اللہ ﷺکی وفات کے بعد) اسی کے مطابق لوگوں کو مسئلہ بتایا کرتا تھا جب عمر ؓکی خلافت کا دور آیا تو آپ نے فرمایا کہ ہمیں کتاب اللہ پر عمل کرنا چاہیئے کہ اس میں ہمیں(حج اور عمرہ) پورا کرنے کا حکم ہوا ہے اور رسول اللہ ﷺکی سنت پر عمل کرنا چاہیئے کہ اس وقت آپ نے احرام نہیں کھولا تھا جب تک ہدی کی قربانی نہیں ہو گئی تھی۔


12- عَنْ الْبَرَاءِؓ قَالَ: كُنْتُ مَعَ عَلِيٍّ حِينَ أَمَّرَهُ النَّبِيُّ ﷺعَلَى الْيَمَنِ فَأَصَبْتُ مَعَهُ أَوَاقِي فَلَمَّا قَدِمَ عَلِيٌّ عَلَى النَّبِيِّ ﷺقَالَ عَلِيٌّ: وَجَدْتُ فَاطِمَةَ قَدْ نَضَحَتْ الْبَيْتَ بِنَضُوحٍ قَالَ: فَتَخَطَّيْتُهُ فَقَالَتْ لِي: مَا لَكَ فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺقَدْ أَمَرَ أَصْحَابَهُ فَأَحَلُّوا قَالَ: قُلْتُ: إِنِّي أَهْلَلْتُ بِإِهْلَالِ النَّبِيِّ ﷺقَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺفَقَالَ لِي: كَيْفَ صَنَعْتَ؟ قُلْتُ: إِنِّي أَهْلَلْتُ بِمَا أَهْلَلْتَ قَالَ: فَإِنِّي قَدْ سُقْتُ الْهَدْيَ وَقَرَنْتُ. ([2])
(۱۲)براء بن عازب ؓسے روایت ہے کہ میں علی ؓکے ساتھ تھا جب رسول اللہ ﷺنے ان کو مقرر کیا یمن پر میں نے ان کے ساتھ کئی اوقیے کمائے (ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے) جب وہ رسول اللہ ﷺکے پاس آئے (مکہ میں) تو فاطمہ زھرا کو دیکھا انہوں نے گھر میں خوشبو پھیلائی ہے۔ علی ؓنے کہا میں نے ان سے کہا تم نے برا کیا۔ انہوں نے کہا تمہیں کیا ہوا ہے رسول اللہ ﷺنے اپنے اصحاب کو حکم کیا انہوں نے احرام کھول دیا میں نے کہا میں نے تو رسول اللہ ﷺکی طرح احرام باندھا ہے ،پھر میں آپ ﷺکے پاس آیا آپ ﷺنے فرمایا تو نے کیا کیا ؟ میں نے کہاا ٓپ کی طرح احرام باندھا ہے ۔ آپﷺ نے فرمایا میں نے تو قران کیا ہے اور ہدی ساتھ لایا ہوں۔



[1] - (صحيح) صحيح سنن النسائي رقم (2745)، سنن النسائي،كِتَاب مَنَاسِكِ الْحَجِّ، باب الْحَجُّ بِغَيْرِ نِيَّةٍ يَقْصِدُهُ الْمُحْرِمُ، رقم (2695)
[2] - صحيح البخاري،كِتَاب الْحَجِّ، بَاب مَتَى يَحِلُّ الْمُعْتَمِرُ رقم (1668)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
13- عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍؓ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺقَالَ: مَا مِنْ نَبِيٍّ بَعَثَهُ اللهُ فِي أُمَّةٍ قَبْلِي إِلَّا كَانَ لَهُ مِنْ أُمَّتِهِ حَوَارِيُّونَ وَأَصْحَابٌ يَأْخُذُونَ بِسُنَّتِهِ وَيَقْتَدُونَ بِأَمْرِهِ ثُمَّ إِنَّهَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلُوفٌ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ وَيَفْعَلُونَ مَا لَا يُؤْمَرُونَ. مَنْ جَاهَدَهُمْ بِيَدِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ. وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِلِسَانِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِقَلْبِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلَيْسَ وَرَاءَ ذَلِكَ مِنْ الْإِيمَانِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ قَالَ أَبُو رَافِعٍ: فَحَدَّثْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ فَأَنْكَرَهُ عَلَيَّ. فَقَدِمَ ابْنُ مَسْعُودٍ فَنَزَلَ بِقَنَاةَ فَاسْتَتْبَعَنِي إِلَيْهِ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ يَعُودُهُ. فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ. فَلَمَّا جَلَسْنَا سَأَلْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَحَدَّثَنِيهِ كَمَا حَدَّثْتُهُ ابْنَ عُمَرَ. ([1])
(۱۳)عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا کہ جس کے اس کی امت میں سے حواری نہ ہوں اور اصحاب نہ ہوں جو اس کے طریقے پر چلتے ہیں اور اس کے حکم کی پیروی کرتے ہیں پھر ان لوگوں کے بعد ایسے نالائق لوگ پیدا ہوتے ہیں جو زبان سے کہتے ہیں اور کرتے نہیں اور ان کاموں کو کرتے ہیں جن کا حکم نہیں ۔پھر جو کوئی ان نالائقوں سے ہاتھ سے لڑے وہ مومن ہے اور جو کوئی زبان سے لڑے (ان کو برا کہے ان کی باتوں کا رد کرے) وہ بھی مومن ہے اور جو کوئی ان سے دل سے لڑے (ان کو برا جانے) وہ بھی مومن ہے اور اس کے بعد رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہیں ،(اگر دل سے بھی برا نہ جانے تو اس میں ذرا برابر بھی ایمان نہیں)ابو رافعؓ نے کہا میں نے یہ حدیث عبداللہ بن عمر ؓسے روایت کی انہوں نے نہ مانا اور انکار کیا۔ اتفاق سے میرے پاس عبداللہ بن مسعود ؓآئے اور قناہ (نامی مقام) میں اترے تو عبداللہ بن عمر ؓمجھے اپنے ساتھ عبداللہ بن مسعود ؓکی عیادت کرنے کے لئے لےگئے ۔ جب ہم بیٹھے تو میں نے عبداللہ بن مسعود ؓسے اس حدیث کے بارےمیں پوچھا تو انہوں نے اسی طرح بیان کیا جیسے میں نے ابن عمر سے بیان کیا تھا۔

14- عَنِ ابْنِ عُمَرَؓ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِﷺ: لَا يَبِيتُ أَحَدٌ ثَلَاثَ لَيَالٍ إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ مَكْتُوبَةٌ قَالَ: فَمَا بِتُّ مِنْ لَيْلَةٍ بَعْدُ إِلَّا وَوَصِيَّتِي عِنْدِي مَوْضُوعَةٌ. ([2])
(۱۴)ابن عمر فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا کسی شخص پر تین راتیں نہ گزریں اس حال میں کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی ہو ۔ابن عمر فرماتے ہیں اس کے بعد میں نے کوئی رات ایسی نہیں گذاری سوائے اس کے کہ میری وصیت میرے پاس ہوتی ہے۔

15- عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّؓ أَنَّهُ قَالَ: لَأَرْمُقَنَّ صَلَاةَ رَسُولِ اللهِ ﷺاللَّيْلَةَ قَالَ: فَتَوَسَّدْتُ عَتَبَتَهُ أَوْ فُسْطَاطَهُ فَصَلَّى رَسُولُ اللهِ ﷺرَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ طَوِيلَتَيْنِ طَوِيلَتَيْنِ طَوِيلَتَيْنِ ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا ثُمَّ أَوْتَرَ فَذَلِكَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً. ([3])
(۱۵)زید بن خالد جہنی ؓنے کہا میں نے کہا کہ آج رسول اللہ ﷺکی رات کی نماز دیکھوں گا توآپ ﷺنے دو رکعت ہلکی پڑھیں ، پھر دو رکعت پڑھیں لمبی سے لمبی اور لمبی سے لمبی پھر دو رکعت اور کہ وہ ان سے کم تھیں ،پھر دو اور کہ وہ ان سے بھی کم تھیں پھر دو اور کہ وہ ان سے بھی کم تھیں پھر دو اور کہ وہ ان سے بھی کم تھیں پھر وتر پڑھا، یہ سب تیرہ رکعات ہوئیں۔


[1] - صحيح مسلم، كِتَاب الْإِيمَانِ، بَاب بَيَانِ كَوْنِ النَّهْيِ عَنْ الْمُنْكَرِ مِنْ الْإِيمَانِ ...، رقم (71)
[2] - (صحيح) صحيح الترغيب والترهيب رقم (3482)، مسند أحمد رقم (4239)
[3] - (صحيح)، صحيح سنن أبي داود رقم: (1366)، سنن أبى داود،كِتَاب الصَّلَاةِ، بَاب فِي صَلَاةِ اللَّيْلِ، رقم: (1159)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
16-عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ؓ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللهِ ﷺعَشَرَةً عَيْنًا وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيَّ جَدَّ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْهَدَا بَيْنَ عَسْفَانَ وَمَكَّةَ ذُكِرُوا لِحَيٍّ مِنْ هُذَيْلٍ يُقَالُ لَهُمْ بَنُو لِحْيَانَ فَنَفَرُوا لَهُمْ بِقَرِيبٍ مِنْ مِائَةِ رَجُلٍ رَامٍ فَاقْتَصُّوا آثَارَهُمْ حَتَّى وَجَدُوا مَأْكَلَهُمْ التَّمْرَ فِي مَنْزِلٍ نَزَلُوهُ فَقَالُوا: تَمْرُيَثْرِبَ فَاتَّبَعُوا آثَارَهُمْ. فَلَمَّا حَسَّ بِهِمْ عَاصِمٌ وَأَصْحَابُهُ لَجَئُوا إِلَى مَوْضِعٍ، فَأَحَاطَ بِهِمْ الْقَوْمُ فَقَالُوا لَهُمْ: انْزِلُوا فَأَعْطُوا بِأَيْدِيكُمْ وَلَكُمْ الْعَهْدُ وَالْمِيثَاقُ أَنْ لَا نَقْتُلَ مِنْكُمْ أَحَدًا فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ: أَيُّهَا الْقَوْمُ أَمَّا أَنَا فَلَا أَنْزِلُ فِي ذِمَّةِ كَافِرٍ ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ أَخْبِرْ عَنَّا نَبِيَّكَﷺ: فَرَمَوْهُمْ بِالنَّبْلِ فَقَتَلُوا عَاصِمًا وَنَزَلَ إِلَيْهِمْ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ عَلَى الْعَهْدِ وَالْمِيثَاقِ مِنْهُمْ خُبَيْبٌ وَزَيْدُ بْنُ الدَّثِنَةِ وَرَجُلٌ آخَرُ فَلَمَّا اسْتَمْكَنُوا مِنْهُمْ أَطْلَقُوا أَوْتَارَ قِسِيِّهِمْ فَرَبَطُوهُمْ بِهَا قَالَ الرَّجُلُ الثَّالِثُ: هَذَا أَوَّلُ الْغَدْرِ وَاللهِ لَا أَصْحَبُكُمْ إِنَّ لِي بِهَؤُلَاءِ أُسْوَةً يُرِيدُ الْقَتْلَى فَجَرَّرُوهُ وَعَالَجُوهُ فَأَبَى أَنْ يَصْحَبَهُمْ فَانْطُلِقَ بِخُبَيْبٍ وَزَيْدِ بْنِ الدَّثِنَةِ حَتَّى بَاعُوهُمَا بَعْدَ وَقْعَةِ بَدْرٍ فَابْتَاعَ بَنُو الْحَارِثِ بْنِ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلٍ خُبَيْبًا وَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ قَتَلَ الْحَارِثَ بْنَ عَامِرٍ يَوْمَ بَدْرٍ فَلَبِثَ خُبَيْبٌ عِنْدَهُمْ أَسِيرًا حَتَّى أَجْمَعُوا قَتْلَهُ فَاسْتَعَارَ مِنْ بَعْضِ بَنَاتِ الْحَارِثِ مُوسًى يَسْتَحِدُّ بِهَا فَأَعَارَتْهُ فَدَرَجَ بُنَيٌّ لَهَا وَهِيَ غَافِلَةٌ حَتَّى أَتَاهُ فَوَجَدَتْهُ مُجْلِسَهُ عَلَى فَخِذِهِ وَالْمُوسَى بِيَدِهِ قَالَتْ: فَفَزِعْتُ فَزْعَةً عَرَفَهَا خُبَيْبٌ فَقَالَ: أَتَخْشَيْنَ أَنْ أَقْتُلَهُ؟ مَا كُنْتُ لِأَفْعَلَ ذَلِكَ قَالَتْ: وَاللهِ مَا رَأَيْتُ أَسِيرًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ خُبَيْبٍ وَاللهِ لَقَدْ وَجَدْتُهُ يَوْمًا يَأْكُلُ قِطْفًا مِنْ عِنَبٍ فِي يَدِهِ وَإِنَّهُ لَمُوثَقٌ بِالْحَدِيدِ وَمَا بِمَكَّةَ مِنْ ثَمَرَةٍ وَكَانَتْ تَقُولُ: إِنَّهُ لَرِزْقٌ رَزَقَهُ اللهُ خُبَيْبًا فَلَمَّا خَرَجُوا بِهِ مِنْ الْحَرَمِ لِيَقْتُلُوهُ فِي الْحِلِّ قَالَ لَهُمْ خُبَيْبٌ: دَعُونِي أُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ فَتَرَكُوهُ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ فَقَالَ: وَاللهِ لَوْلَا أَنْ تَحْسِبُوا أَنَّ مَا بِي جَزَعٌ لَزِدْتُ ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ أَحْصِهِمْ عَدَدًا وَاقْتُلْهُمْ بَدَدًا وَلَا تُبْقِ مِنْهُمْ أَحَدًا ثُمَّ أَنْشَأَ يَقُولُ:
فَلَسْتُ أُبَالِي حِينَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا عَلَى أَيِّ جَنْبٍ كَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِي
وَذَلِكَ فِي ذَاتِ الْإِلَهِ وَإِنْ يَشَأْ يُبَارِكْ عَلَى أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ
ثُمَّ قَامَ إِلَيْهِ أَبُو سِرْوَعَةَ عُقْبَةُ بْنُ الْحَارِثِ فَقَتَلَهُ وَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ سَنَّ لِكُلِّ مُسْلِمٍ قُتِلَ صَبْرًا الصَّلَاةَ وَأَخْبَرَ - يَعْنِي النَّبِيُّﷺ- أَصْحَابَهُ يَوْمَ أُصِيبُوا خَبَرَهُمْ. وَبَعَثَ نَاسٌ مِنْ قُرَيْشٍ إِلَى عَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ حِينَ حُدِّثُوا أَنَّهُ قُتِلَ أَنْ
يُؤْتَوْا بِشَيْءٍ مِنْهُ يُعْرَفُ وَكَانَ قَتَلَ رَجُلًا عَظِيمًا مِنْ عُظَمَائِهِمْ فَبَعَثَ اللهُ لِعَاصِمٍ مِثْلَ الظُّلَّةِ مِنْ الدَّبْرِ فَحَمَتْهُ مِنْ رُسُلِهِمْ فَلَمْ يَقْدِرُوا أَنْ يَقْطَعُوا مِنْهُ شَيْئًا.

([1])
(۱۶) ابو ہریرہ ؓنے کہا کہ نبی کریم ﷺنے دس جاسوس بھیجے اور ان کا امیر عاصم بن ثابت انصاری کو بنایا جو عاصم بن عمر بن خطاب ؓکے نانا ہوتے ہیں۔ جب یہ لوگ عسفان اور مکہ کے درمیان مقام ہدہ پر پہنچے تو بنی ہذیل کےایک قبیلہ کو ان کے آنے کی اطلاع مل گئی۔ اس قبیلہ کا نام بنی لحیان تھا۔ اس کے سو تیر انداز ان صحابہ کی تلاش میں نکلے اور ان کے نشان قدم کے اندازے پر چلنے لگے ۔ آخر اس جگہ پہنچ گئے جہاں بیٹھ کر ان صحابہ نے کھجور کھائی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ یثرب (مدینہ) کی کھجور ( کی گٹھلیاں ہیں)۔ پھر وہ ان کے نشان قدم کے اندازے پر چلنے لگے ۔جب سیدنا عاصم بن ثابت ؓاور ان کے ساتھیوں نے ان کے آنے کو معلوم کر لیا تو ایک (محفوظ) جگہ پناہ لی۔ قبیلہ والوں نے انہیں اپنے گھیرے میں لےلیا اور کہا کہ نیچے اتر آؤ ۔اور ہماری پناہ خود قبول کر لو تو تم سے ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمہارے کسی آدمی کو قتل نہیں کریں گے۔ عاصم بن ثابت ؓنے کہا مسلمانوں! میں کسی کافر کی پناہ میں نہیں اتر سکتا ۔پھر انہوں نے دعا کی اے اللہ ! ہمارے حالات کی خبر اپنے نبی ﷺ کو کر دے۔ آخر قبیلہ والوں نے مسلمانوں پر تیر اندازی کی اور عاصم ؓکو شہید کر دیا۔ بعد میں ان کے وعدہ پر تین صحابہ اتر آئے ۔یہ جناب خبیب ،زید بن دثنہ اور ایک تیسرے صحابہ تھے۔ قبیلہ والوں نے جب ان تینوں صحابیوں پر قابو پالیا تو ان کی کمان سے تانت نکال کر اسی سے انہیں باندھ دیا۔ تیسرےصحابی نے کہا یہ تمہاری پہلی دغابازی ہے میں تمہارے ساتھ کبھی نہیں جا سکتا میرے لئے تو انہیں کی زندگی نمونہ ہے۔آپ کا اشارہ ان صحابہ کی طرف تھا جو ابھی شہید کئے جا چکے تھے۔ کفار نے انہیں گھسیٹنا شروع کیا اور زبردستی کی لیکن وہ کسی طرح ان کے ساتھ جانے پر تیار نہ ہوئے۔ (تو انہوں نے ان کو بھی شہید کر دیا) اور جناب خبیب ؓ اور جناب زید بن دثنہ ؓ کو ساتھ لے گئے اور(مکہ میں لے جا کر) انہیں بیچ دیا۔ یہ بدر کی لڑائی کے بعد کا واقعہ ہے۔ حارث بن عامر بن نوفل کے لڑکوں نے جناب خبیب  کو خرید لیا۔ انہوں ہی نے بدر کی لڑائی میں حارث بن عامر کو قتل کیا تھا۔ کچھ دنوں تک تو وہ ان کے یہاں قید رہے۔آخر انہوں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا انہیں دنوں حارث کی کسی لڑکی سے انہوں نے موئے زیر ناف صاف کرنے کے لئے استرہ مانگا۔ اس نے دے دیا اس وقت اس کا ایک چھوٹا سا بچہ ان کے پاس (کھیلتا ہوا) اس عورت کی بے خبری میں چلا گیا۔ پھر جب وہ ان کی طرف آئی تو دیکھا کہ بچہ ان کی ران پر بیٹھا ہوا ہے اور استرہ ان کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ دیکھتے ہی وہ اس درجہ گھبرا گئی کہ جناب خبیب ؓنے اس کی گھبراہٹ کو دیکھ لیا اور بولے کیا تمہیں اس کا خوف ہے کہ میں اس بچے کو قتل کر دوں گا؟ یقین رکھو کہ میں ایسا ہر گز نہیں کر سکتا ان خاتون نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی قیدی جناب خبیب ؓسے بہتر نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم ! میں نے ایک دن انگور کے ایک خوشے سے انگور کھاتے دیکھا جو ان کے ہاتھ میں تھا حالانکہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور مکہ میں اس وقت کوئی پھل بھی نہیں تھا۔ وہ بیان کرتی تھیں کہ وہ تو اللہ کی طرف سے بھیجی ہوئی روزی تھی جو اس نے خبیب ؓکے لئے بھیجی تھی ۔پھر بنو حارثہ انہیں قتل کرنے کے لئے حرم سے باہر لے جانے لگے تو خبیب ؓنے ان سے کہا کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دے دو۔ انہوں نے اس کی اجازت دی تو انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا اللہ کی قسم اگر تمہیں یہ خیال نہ ہونے لگتا کہ میں پریشانی کی وجہ سے(دیر تک نماز پڑھ رہا ہوں) تو اور زیادہ دیر تک پڑھتا۔ پھر انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ! ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ ہلاک کر اور ایک کوبھی باقی نہ چھوڑ۔اور یہ اشعار پڑھے :”جب میں اسلام پر قتل کیا جا رہا ہوں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ اللہ کی راہ میں مجھے کس پہلو پر پچھاڑا جائے گا اور یہ تو صرف اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہے ۔اگر وہ چاہے گاتو میرے جسم کے ایک ایک جوڑ پر ثواب عطا فرمائے گا“۔ اس کے بعد ابو سروعہ عقبہ بن حارث ان کی طرف بڑھا اور انہیں شہید کر دیا۔ جناب خبیب ؓنے اپنے عمل حسنہ سے ہر اس مسلمان کے لئے جسے قید کر کے قتل کیا جائے(قتل سے پہلے دو رکعت) نماز کی سنت قائم کی ہے۔ ادھر جس دن ان صحابہ رضی اللہ عنہم پر مصیبت آئی تھی رسول اللہ ﷺنے اپنے صحابہ کو اسی دن اس کی خبر دے دی تھی۔ قریش کے کچھ لوگوں کو جب معلوم ہواکہ عاصم بن ثابت ؓشہید کر دیئے گئے ہیں تو ان کے پاس اپنے آدمی بھیجے تاکہ ان کے جسم کا کوئی ایسا حصہ لائیں جس سے انہیں پہچانا جا سکے۔ کیوں کہ انہوں نے بھی(بدر میں) ان کے ایک سردار(عقبہ بن ابی معیط) کو قتل کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی لاش پر بادل کی طرح بھڑوں کی ایک فوج بھیج دی اور ان کے جسم کا کوئی حصہ بھی نہ کاٹ سکے۔


[1] - صحيح البخاري،كِتَاب الْمَغَازِي، بَاب فَضْلُ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا، رقم (3690)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اسوہ حسنہ کے متعلق آثار اور علماء و مفسرین کے اقوال

(۱)ابو وائل رحمہ اللہ نے کہا میں شیبہ کے پاس اس مسجد میں بیٹھا، اس نے کہا میرےپاس تیری اس جگہ پر جناب عمر بن خطاب ؓ بیٹھے اور کہا: میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں کعبۃ اللہ کے اندر جو بھی سونا اور چاندی ہے وہ سارا کا سارا مسلمانوں کے درمیان تقسیم کر دوں ۔میں نے کہا تو ایسا نہیں کر سکتا ،کہا کیوں؟ میں نے کہا یہ کام تیرے دونوں (پیش رو) ساتھیوں (یعنی رسول اللہ ﷺاور ابو بکر )نے نہیں کیا ہے۔ تو جناب عمر ؓنے کہا ان دونوں کی ہی اقتدا ء کی جائے۔([1])

(۲)جناب عمر بن خطاب ؓحجر اسود کے پاس آئے پھر اس کو چوما اور کہا: میں جانتا ہوں کہ، تو پتھر ہے ،نہ نقصان دے سکتا ہے اور نہ نفع۔ اگر میں رسول اللہ ﷺکو تجھے چومتے ہوئے نہ دیکھتا توکبھی نہ چومتا۔([2])

(۳)عمر بن خطاب ؓنے طلحہ بن عبید اللہ کو احرام کے اندر رنگین کپڑا پہنے ہوئے دیکھا۔ عمر نے کہا :اے طلحہ!یہ رنگین کپڑا کیوں پہنا ہے؟طلحہ نے کہا امیر المو منین یہ تو مٹی (کا رنگ)ہے۔جناب عمر ؓنے کہا اے جماعت (صحابہ) تم رہنما ہو ۔ لوگ تمہاری پیروی کر رہے ہیں اور اگر کوئی جاہل (یعنی عام بے علم) شخص یہ کپڑا دیکھے گا تو کہے گا طلحہ بن عبید اللہ احرام کے اندر رنگین (یعنی زعفران وغیرہ سے رنگے ہوئے) کپڑے پہنتا تھا ۔لہٰذا اے جماعت (صحابہ) ان رنگین کپڑوں میں سے بالکل کچھ بھی نہیں پہنا کرو۔([3])

(۴)ابن عباس نے اپنے بھائی عبیداللہ کو (نو ذوالحج یعنی) عرفات کے دن کھانے کے لئے بلایا تو انہوں نے کہا میں روزہ سے ہوں۔ ابن عباس نے کہا تم رہنما ہو تمہاری اقتداء کی جاتی ہے۔میں نے رسول اللہ ﷺکو اس دن (یعنی عرفات کے دن) دیکھا آپ ﷺنے پانی منگایا اور پھر پیا۔([4])

(۵)جابر بن سمرہ ؓنے کہا کہ عمر ؓنے جناب سعد ؓسے کہا کہ: لوگوں نے تیرے خلاف ہر چیز کے متعلق شکایت کی ہے ۔ یہاں تک کہ نماز کے بارے میں بھی۔جناب سعد ؓنے عرض کیا :میں تو پہلی دونوں رکعتیں لمبی کرتا ہوں اور پچھلی دونوں رکعتیں ہلکی کرتا ہوں اور میں رسول اللہ ﷺکی نماز کی اقتداء میں کوتا ہی نہیں کرتا۔ جناب عمر ؓنے کہا تیرے بارے میں یہی گمان تھا۔ یا کہامیرا بھی تیرے بارے میں یہی گمان ہے۔([5])


[1] - صحيح البخاري رقم (13/7275)
[2] - صحيح البخاري رقم (5/1597)
[3] - تنوير الحوالك رقم (1/304)
[4] - مسند أحمد رقم (1/346)
[5] - صحيح البخاري رقم (2/707)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
(۶)نافع سے روایت ہے کہ جناب عبداللہ بن عمر کے پاس ان کا بیٹا عبداللہ آیا اور ان کی سواری گھر کے اندر تھی۔ اس (بیٹے) نے کہا: مجھے خطرہ ہے کہ اس سال لوگوں کے درمیان لڑائی ہوگی۔ پھر آپ کو بیت اللہ (کا حج کرنے )سے روک دیا جائیگا۔ اگر آپ رک جائیں (تو بہتر ہوگا)عبداللہ بن عمر ؓنے کہا :رسول اللہ ﷺبھی (عمرے کے لئے) نکلے تھے پھر کفار قریش آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہو گئے۔ لہٰذا اگر میرے اور بیت اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ ہوتی ہے تو میں بھی ویسے ہی کروں گا جیسے رسول اللہ ﷺنے کیا تھا۔ عبداللہ بن عمر نے یہ آیت پڑھی: (لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَ‌سُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ) (الأحزاب) اور کہا میں نے (خود پر) عمرہ کو واجب کر دیا ہے ۔پھر چلنے لگا یہاں تک کہ (ذوالحلیفۃکے قریب)بیداء کے پاس آئے تو کہا :میں ان دونوں( یعنی حج و عمرہ ) کا مسئلہ ایک جیسا ہی سمجھتا ہوں میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے عمرہ کے ساتھ حج بھی واجب کر دیا ہے ۔پھر آئے اور دونوں کے لئے ایک ہی طواف کیا۔([1])

(۷)سعید بن یسار نےکہا میں عبداللہ بن عمر کے ساتھ مکہ کے راستے پر چل رہا تھا پھر جب مجھے صبح صادق ہونے کا ڈر لگا تو سواری سے اترا اور وتر نماز ادا کی پھر میں ان کو جا کے پہنچا ۔ابن عمر نے کہا کدھر تھے؟میں نے کہا مجھے فجر ہونے کا ڈر لگا اس لئے اتر کر وتر نماز ادا کی (یوں دیر ہوگئی) جناب عبداللہ بن عمر نے کہا: کیا تیرے لئے رسول اللہ ﷺکی ذات میں اسوہ اور نمونہ نہیں ہے؟ میں نے کہا ہاں اللہ کی قسم! کہا :رسول اللہ ﷺسواری پر وتر ادا کرتے تھے۔([2])

(۸)عبداللہ بن عباس نے کہا عیینہ بن حصن بن حذیفہ بن برد آیااور اپنے بھتیجے حر بن قیس بن حصن کے پاس ٹھہرا ۔حر ان افراد میں سے تھا جنہیں عمر بن خطاب ؓاپنے قریب رکھتا تھا۔ اور اہل علم ہی جناب عمر ؓکی مجلس و مشاورت میں ہوتے تھے، بوڑھے ہوں یا جوان ۔پھر عیینہ نے اپنے بھتیجے سے کہا کیا آپ کی بات امیر المومنین کے پاس چلتی ہے تاکہ تم میری اس سے ملاقات کراؤ؟ اس نے کہا ہاں میں آپ کی ان سے ملاقات کرا دیتا ہوں۔ابن عباس wنے کہا، حر نے عیینہ کے لئے جناب عمر ؓسے اجازت دلوائی اور جب وہ اندر داخل ہوا تو کہا: اے خطاب کے بیٹے!نہ تو تو ہمیں بخشش و عطیہ دیتا ہے اور نہ ہی ہمارے درمیان انصاف کرتا ہے۔ جناب عمر ؓکو غصہ آیا، یہاں تک کہ اسے سزا دینے کا ارادہ کیا، تو حر نے کہا اے امیر المومنین اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺکو فرمایا ہے: خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ‌ بِالْعُرْ‌فِ وَأَعْرِ‌ضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ (الأعراف: ١٩٩) یعنی معاف کرنے کو اختیار کر اور نیکی کا حکم کر اور جاہلوں سے اعراض کر ۔اور یہ شخص جاہلوں میں سے ہے۔ پس اللہ کی قسم اس آیت کو جب حر نے تلاوت کیا تو عمر ؓنے اس سے تجاوز نہیں کیا۔اور وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب (سے دلیل آنے )پر ہمیشہ رک جاتے تھے. ([3])

(۹)جناب سعید بن جبیر نے کہا :میں عبداللہ بن عمر کے ساتھ تھا جب وہ عرفات سے واپس مزدلفہ کی طرف آئے اور مغرب اور عشاء کی نماز پڑھی اور جب فارغ ہوئے تو کہا اس جگہ رسو ل اللہ ﷺنے وہی عمل کیا ہے جو میں نے کیا ہے۔ اور راوی ہشیم نے ایک دفعہ کہا :انہوں نے ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی اور پھر کہا نماز پڑھو اور انہوں نے (نماز عشاءکی )دو رکعت پڑھی پھر کہا اسی طرح رسول اللہ ﷺنے اس جگہ ہمیں نماز پڑھائی ہے۔([4])

(۱۰)ابراہیم بن ادہم رحمہ اللہ نے کہا: میں نے ابن شبرمہ سے کسی چیز کے متعلق پوچھا اور میرے پاس بہت شدید مسئلہ تھا، میں نے کہا، اس مسئلہ میں غور کریں اللہ تم پر رحم فرمائے ،انہوں نے کہا :جب میرے لئے راستہ واضح ہو جائے گا اور حدیث مل جائے گی تو(آپ سے بات نہیں چھپاؤں گا)۔ ([5])

(۱۱)مجاہد رحمہ اللہ نے اس آیت: وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ﴿٧٤ (الفرقان: ٧٤) کی تفسیر میں کہا ہے :ایسے امام (بنا کہ) ہم اپنے سے پہلوں کی (یعنی صحابہ و تابعین) کی اقتداء کریں اور پچھلے لوگ ہماری اقتداء کریں ۔([6])

(۱۲)ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے کہا: میں نے ایسے لوگ دیکھے ،کہ اگر وہ ایک ناخن کے برابر آگے نہ جاتے تو میں بھی نہ جاتا ۔اور لوگوں کی اہانت کے لئے یہ کافی ہے کہ ان کے افعال کی مخالفت کی جائے ۔([7])

(۱۳) جناب امام ابن القیم رحمہ اللہ نے کہا :بغیر اخلاص اور اقتداء (یعنی اتباع سنت)کے عمل کی مثال اس طرح ہے کہ ایک مسافر اپنی تھیلی ریت سے بھرتا ہے جو اسے اٹھانے میں تو بھاری لگتی ہے مگر کوئی فائدہ نہیں دیتی۔([8])

(۱۴) امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس آیت: لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَ‌سُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الأحزاب) کی تفسیر میں کہا ہے :یہ آیت کریمہ بہت بڑا اصول ہے رسول اللہ ﷺکے اقوال ،افعال اور احوال میں آپ ﷺ کی اقتداء کرنے کے لئے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو یوم الاحزا ب کو نبی ﷺکی آپ کے صبر، مقابلہ کے دوران جمے رہنے، سخت جدو جہد اور اپنےر ب کی طرف سے کشادگی کے انتظار کرنے میں اقتداء کا حکم فرمایا ہے۔([9])

(۱۵) امام ابن حجر نے کہا کہ: نبی ﷺکے بعد امراء و خلفاء بھی اہل علم میں سے اصحاب امانت سے مباح امور کے اندر مشاورت کرتے تھے ۔تاکہ آسان چیز پر عمل کریں۔ پھر جب کتاب اللہ یا سنت سے دلیل مل جاتی تھی تو اس کو چھوڑ کر کسی دوسری چیز کی طرف نہیں جاتے تھے بلکہ نبی ﷺکی اقتداء کرتے تھے۔([10])

(۱۶)کسی نے رسول اللہ ﷺکے اسوہ ٔ حسنہ پر عمل کرنے کے متعلق کہا ہے: جب ہم رات کو چلتے ہیں اور آپ ہمارے امام ہوتے ہیں تو سواریوں کی حدی کے لئے آپ کا پاک ذکر (یعنی درود) ہی کافی ہوتا ہے اور اگر ہم راستہ بھول جاتے ہیں اور کوئی رہبر نہیں پاتے تو آپ کے چہرہ انور کا نور ہماری رہبری کے لئے کافی ہوتاہے۔([11])

(۱۷) وہب بن منبہ نے کہا کہ بنی اسرائیل میں ایک جابر(حکمران) لوگوں کو خنزیر کا گوشت نہ کھانے پر قتل کرتا تھا۔ اور معاملہ ایسے ہی چلا (یعنی روزانہ لوگوں کو پکڑ کر زبردستی خنزیر کا گوشت کھلایا جاتا تھا) یہاں تک کہ ان کے عابدوں میں سے ایک عابد کو بھی پکڑ کر لایا گیا ۔ یہ بات لوگوں کے لئے تکلیف دہ تھی۔ پولیس افسر نے کہا میں آپ کے لئے ایک سالہ بکری کا بچہ ذبح کرتا ہوں جب ظالم آپ کو کھانے کے لئے بلائے تو کھا لیجئے گا ۔ پھر جب اس نے اس کو کھانے کے لئے کہا تو انکار کر دیا ظالم نے کہا، اس کو لے جاؤ اور اس کی گردن اڑا دو ۔ پولیس افسر نے اس عابد کو کہا کہ آپ نے بکری کے بچے کا گوشت کیوں نہیں کھایا حالانکہ میں نےآپ کو بتادیا تھا کہ یہ بکری کے بچے کا گوشت ہے۔ عابد نے کہا: لوگوں کی نظریں میری طرف ہیں اور میں نے اس بات کو برا سمجھا کہ لوگ میری غلطی کی پیروی کریں، راوی نے کہا پھر اس کو قتل کر دیا گیا ۔([12])


[1] - مسند أحمد رقم (4480)
[2] - صحيح مسلم رقم (700)
[3] - صحيح البخاري رقم (13/7286)
[4] - مسند أحمد رقم (4460)
[5] - سنن الدارمي رقم (1/83)
[6] - الفتح رقم (13/265)
[7] - سنن الدارمي رقم (1/83)
[8] - الفوائد لإبن القيم رقم (67)
[9] - تفسير ابن كثير رقم (3/483)
[10] - فتح الباري رقم (13/351)
[11] - الفوائد لإبن القيم رقم (56)
[12] - كتاب الورع لإبن أبي الدنيا رقم (114-115)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اسوہ ٔحسنہ کے فوائد

(۱) اسوہ حسنہ میں رسول اللہ ﷺ ہی سب سے اعلیٰ نمونہ ہیں۔ اپنے اخلاق ، افعال ، اقوال اور ساری صفات میں۔

(۲) مسلمان جب اپنی عبادات اور معاملات میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور ان کو اسی طرح چلاتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ﷺنے حکم دیا ہے تو وہ رسول اللہ ﷺکے اسوہ حسنہ پر چلنے والا ہے۔

(۳)رسول اللہ ﷺکے ساتھ محبت کی دلیل یہ ہے کہ ہم آپ کے اسوہ ٔ حسنہ کی اقتداء کریں۔

(۴) جب مسلمان کا ظاہر رسول اللہ ﷺکے اسوۂ حسنہ پر چلنے کا مظہر ہوگا تو لوگ اس سے محبت کریں گے اور اس پر وثوق اور بھروسہ کریں گے اور اس کو قدوہ بنائینگے جس کی اقتداء کی جائے۔

(۵) منہج نبوی پر چلنے والا مسلمان اور سلف صالحین کے نقش قدم پر چلنے والا اپنے اندر بڑی سعادت محسوس کرے گا۔ اس لئے کہ اسے پتہ ہے کہ وہ بصیرت و ہدایت پر ہے اور نور سے دیکھتا ہے اور صحیح راستے پر چلتا ہے۔

(۶)علماء کرام پر واجب ہے کہ وہ لوگوں کے لئے عملی نمونہ بنیں ،کیوں کہ وہ مقام اسوہ ہیں (یعنی عوام اسوۂ رسول اللہ ﷺکو انہیں سے حاصل کرتے ہیں)۔

(۷) کتاب و سنت پر عمل کرنا رسول اللہ ﷺ کی اقتداء ہے۔

(۸) تربیت کے میدان میں کامیابی اسوۂ حسنہ (پر عمل کرنے ) پر ہی منحصر ہے ۔

(۹) تشدد اور بے اعتدالی کے اندر اقتداء رسول ﷺ سے انحراف ہے۔

(۱۰) دین کے اندر اسوہ پر عمل اس طرح ہوتا ہے کہ انسان اپنے سے افضل کو دیکھے جبکہ دنیاوی معاملات میں اپنے سے کم کو دیکھنا چاہیئے۔

(۱۱) جو شخص نیکی کا رواج ڈالتا ہے ،پھر لوگ اس کو قدوہ اور نمونہ بناتے ہیں تو اس شخص کو اس کا اجر ملے گا اور جو اس نیکی پر عمل کرےگا اس کا اجر بھی اس کو ملے گا۔

نضرۃ النعیم
 
Top