• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ ﷺ کیسے تھے؟

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
١٩: آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نفاست پسند تھے

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عربوں میں نفاست پسندی بالکل نہ تھی۔ وہ جہاں چاہتے تھوک دیتے اور راستہ میں رفع حاجت کر لیا کرتے تھے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس عادت کو بہت ناپسند فرماتے تھے اور اس سے منع کرتے تھے۔ احادیث میں کثرت سے روایتیں موجود ہیں کہ حضور(صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان لوگوں پر لعنت کی ہے جو راستوں میں یا درختوں کے سایہ میں پیشاب پاخانہ کرتے ہیں۔ امراء اپنی کاہلی کی وجہ سے کسی برتن میں پیشاب کر لیا کرتے تھے۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) اس سے بھی منع فرماتے تھے۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے بیٹھ کر پیشاب کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔

عرب میں پیشاب کر کے استنجا کرنے یا پیشاب سے کپڑوں کو بچانے کا کوئی دستور نہ تھا۔ حضور(صلی اللہ علیہ وسلم) ایک دفعہ کہیں تشریف لیے جا رہے تھے ، راستہ میں دو قبریں نظر آئیں، آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ان میں سے ایک پر اس لیے عذاب ہو رہا ہے کہ وہ اپنے کپڑوں کو پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں بچاتا تھا۔

اللہ اللہ یہ فیضانِ ختمِ رسلﷺ
جس کو کہتے تھے دنیا وہ دیں بن گئی
(ماہر القادری)
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
٢٠: آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) دوستوں کا خیال رکھتے تھے

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں سے بیحد محبت کرتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ سچا مسلمان وہ ہے جو اپنے دوستوں سے سچی محبت کرے اور اس کے دوست اس سے محبت کریں۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی سیرت کے مطالعہ سے ہمیں دوستی کے سلسلہ میں حسب ذیل ہدایت ملتی ہیں:

1۔ ہمیشہ نیک ، شریف اور سچے شخص سے دوستی کرنا چاہئے۔
2۔ دوستی خلوص کے ساتھ کرنی چاہئے۔ اس میں کوئی مطلب یا غرض شامل نہ ہو۔
3۔ دوستوں پر بھروسہ کرنا چاہئے ، ان کے ساتھ خیر خواہی اور وفاداری سے پیش آنا چاہئے۔
4۔ ان کے دکھ درد میں ہمیشہ شریک رہیں اور مسکراتے ہوئے ملیں۔
5۔ اگر وہ کسی معاملے میں مشورہ چاہیں تو نیک نیتی اور سچے دل سے مشورہ دیں۔
6۔ دوست کی طرف سے اگر کوئی بات طبیعت کے خلاف بھی ہو تو زبان پر قابو رکھیں اور نرمی سے جواب دیں۔
7۔ اگر کسی بات پر آپس میں اختلاف ہوجائے تو جلد ہی صلح صفائی کر لیں۔
8۔ اپنی اور اپنے دوست کی اچھے ڈھنگ سے اصلاح و تربیت کی کوشش کرتے رہیں ۔۔۔۔۔۔ !
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
٢١: آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) حسنِ سلوک کے عادی تھے

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک کے ساتھ بڑے اخلاق سے پیش آتے تھے ، پاس بیٹھے ہوئے ہر شخص سے آپ اس طرح مخاطب ہوتے جیسے سب سے زیادہ آپ اسی سے محبت کرتے ہیں اور ہر شخص یہی محسوس کرنے لگتا کہ جیسے حضور(صلی اللہ علیہ وسلم) سب سے زیادہ اسی کو چاہتے ہیں۔

جب کوئی شخص کوئی بات دریافت کرتا تو آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) مسکراتے ہوئے اس کا جواب دیتے۔ جب کسی خاندان یا قبیلہ کا کوئی معزز آدمی آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتا ، اُس کے مرتبہ کے مطابق اس کی عزت فرماتے لیکن دوسروں کو نظر انداز بھی نہیں فرماتے تھے۔

ایک مرتبہ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) حضرت حسن (رضی اللہ عنہ) کو گود میں لیے پیار کر رہے تھے۔ ایک صحابی نے عرض کیا "یا رسول اللہ ! میں تو اپنی اولاد کا بوسہ نہیں لیتا۔" آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا "اگر اللہ تمہارے دل سے محبت کو چھین لے تو میں کیا کروں۔"

جب آپ صحابہ کی مجلس میں بیٹھتے تو کبھی ان کی طرف پاؤں نہ پھیلاتے۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) مشورہ کے محتاج نہ تھے پھر بھی صحابہ سے برابر مشورہ فرماتے تھے۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
٢٢: آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) دوسروں کے کام آتے تھے

دوسروں کے آڑے وقت میں کام آنا ، ان کی مدد کرنے کے لئے تیار رہنا ، یہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صفت تھی ، آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) خدمت خلق کے پیکر تھے۔

ایک مرتبہ حضرتِ خباب بن ارت(رضی اللہ عنہ) کسی جنگی مہم پر گئے ہوئے تھے۔ ان کے گھر میں کوئی اور مرد نہ تھا۔ عورتوں کو دودھ دوہنا نہیں آتا تھا۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) روزآنہ ان کے گھر تشریف لے جاتے اور دودھ دوھ آیا کرتے تھے۔

ایک بار آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نماز کی نیت باندھے جا رہے تھے کہ ایک بدو آیا۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کا دامن پکڑ کر بولا "میری ایک معمولی سی ضرورت رہ گئی ہے میں بھول جاؤں گا ، اُسے اِسی وقت پورا کر دیجئے۔" آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) فوراً اس کے ساتھ تشریف لے گئے ، اس کا کام کر دیا اور پھر واپس آکر نماز ادا کی۔

بیواؤں اور یتیموں ، مسکینوں اور معذوروں کی مدد کرنا نہ آپ کوئی عار سمجھتے تھے اور نہ تھکتے تھے بلکہ ان کی خدمت کر کے آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) اطمینان ، سکون اور خوشی محسوس فرماتے تھے۔ صحابہ کو بھی آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) اس کی تلقین کرتے رہتے تھے۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
٢٣: آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) معاملے کے کھرے تھے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت داری اور معاملات کی صفائی کا ذکر بیان سے باہر ہے یہ اوصاف آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذاتِ مبارک میں اس طرح نمایاں تھے کہ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے دشمن بھی ان کا انکار نہ کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ "صادق" اور "امین" کے لقب آپ کو اہلِ خاندان نے نہیں ، دوستوں نے نہیں بلکہ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے دشمنوں نے دیا تھا اور اسی لقب سے آپ کو پکارا کرتے تھے۔

مشرکینِ مکہ کے دل آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف سے بغض و کینہ اور نفرت و عداوت سے بھرے ہوئے تھے مگر اپنی امانتیں وہ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) ہی کے سپرد کر کے مطمئن ہوتے تھے۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے مقابلے میں وہ کسی دوسرے کا اعتبار نہیں کرتے تھے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ہجرت کرتے وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ کی امانتوں کا کتنا معقول انتظام فرمایا تھا۔

ایک دفعہ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے کسی سے ایک اونٹ قرض لیا۔ جب واپس کیا تو اس سے بہتر اونٹ واپس کیا اور فرمایا "سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض کو خوش معاملگی سے ادا کرتے ہیں۔"
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
24: آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) بہت سخی تھے

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سخاوت کے دریا تھے۔ سوال کرنے والے کو خالی ہاتھ واپس کرنا آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) جانتے ہی نہ تھے۔ اگر اس وقت آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس کچھ نہ ہوتا تو آئندہ اُسے دینے کا وعدہ فرما لیتے۔

ایک روز عصر کی نماز پڑھ کر معمول کے خلاف آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) گھر کے اندر تشریف لے گئے اور پھر فوراً واپس بھی آگئے۔ صحابہ کو بہت تعجب ہوا۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان کی حیرت کو دور کرنے کے لیے فرمایا "کچھ سونا گھر میں پڑا رہ گیا تھا۔ رات ہونے کو آئی اس لیے اُسے خیرات کر دینے کو کہنے گیا تھا۔"

ایک بار بحرین سے خراج آیا۔ اس میں اتنی زیادہ رقم تھی کہ اس سے پہلے کبھی نہیں آئی تھی۔ حضور(صلی اللہ علیہ وسلم) نے مسجد کے صحن میں بیٹھ کر تقسیم کرنا شروع کردی۔ شام ہونے سے پہلے ہی آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) دامن جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔

آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس کوئی بھی کھانے پینے کی چیز آتی ، آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) اسے تنہا نہیں کھاتے بلکہ تمام صحابہ کو جو وہاں موجود ہوتے اس میں شریک فرما لیتے تھے۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
25: آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) بہت انکسار پسند تھے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی سر اٹھا کر مغرورانہ انداز میں نہیں چلتے تھے، آپ ہمیشہ نظریں نیچی رکھتے تھے۔ جب دوسروں کے ساتھ چلتے تو خود پیچھے چلتے اور دوسروں کو آگے کر دیتے۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) بڑے خاکساری کے ساتھ بیٹھتے، کھانا کھاتے وقت غلاموں کی طرح بیٹھتے۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) فرمایا کرتے تھے "میں اللہ کا فرمانبردار بندہ ہوں اور اس کے غلاموں کی طرح کھانا کھاتا ہوں۔

جب کسی مجلس میں پہنچتے تو بیٹھے ہوئے لوگوں کے سروں کو پھلانگتے ہوئے نہیں گزرتے تھے ، بلکہ پیچھے کی صف میں جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتے۔ جب آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کو آتا دیکھ کر صحابہ کرام تعظیم کے لیے کھڑے ہوجاتے تو آپ فرماتے "میری تعظیم کے لیے کھڑے ہوکر عجمیوں کی نقل نہ کرو۔"

فتح مکہ کے موقع پر جب آپ شہر میں داخل ہو رہے تھے تو عاجزی اور انکساری کے طور پر سرِ مبارک کو اس قدر جھکا لیا تھا کہ وہ اونٹ کے کجاوے کو چھو رہا تھا۔ ایک شخص آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کی رعب دار شخصیت کو دیکھ کر کانپنے لگا۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) اس کے قریب گئے اور فرمایا "میں تو اس غریب قریشی عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت پکا کر کھاتی تھی۔"
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
26: آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کوغرور پسند نہ تھا

انسان میں جب کوئی خاص صفت یا کمال پیدا ہو جاتا ہے تو قدرتی طور پر وہ اترانے لگتا ہے۔ یہ کوئی بری عادت نہیں ہے بلکہ اِسی کو فخر کرنا کہتے ہیں لیکن جب وہ دوسرے لوگوں کو جن میں یہ صفت یا کمال نہیں ہوتا ، اپنے سے ذلیل یا کم درجہ کا سمجھنے لگتا ہے تو اسی کو غرور کہتے ہیں۔ غرور کی عادت کو اللہ تعالیٰ بالکل پسند نہیں فرماتا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک خوبصورت شخص حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے خوبصورتی پسند ہے اور میں یہ نہیں چاہتا کہ خوبصورتی میں کوئی بھی مجھ سے بازی لے جائے۔ کیا یہ غرور ہے؟ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے جواب دیا "نہیں یہ غرور نہیں ہے غرور تو یہ ہے کہ تم دوسروں کو اپنے سے حقیر(کم درجہ) سمجھو۔"
ایک اور موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی غرور ہوگا ، وہ جنت میں نہ جائے گا"۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بری عادت سے محفوظ رکھے۔
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
27: آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) بہت مہمان نواز تھے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہمانوں کا بہت خیال کرتے تھے اس کام کے لیے آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت بلال (رضی اللہ عنہ) کو خاص طور پر مقرر فرمایا تھا تاکہ مہمان کی خاطر تواضع ٹھیک سے ہو سکے۔ باہر سے جو وفد آتے آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) خود ان کی خاطر مدارات فرماتے تھے۔ اگر ان کو کوئی مالی ضرورت ہوتی تو آپ اس کا بھی انتظام فرما دیتے۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی خاطرداری کافر اور مسلمان دونوں کے لیے عام تھی۔ کوئی غیر مسلم بھی آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے یہاں آجاتا تو اس کی تواضع بھی مسلمان مہمان کی طرح سے ہوتی۔

اکثر ایسا ہوتا رہتا کہ گھر میں کھانے پینے کا جو سامان ہوتا وہ مہمانوں کے سامنے پیش کردیا جاتا اور آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) اور آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے گھر والے فاقہ سے رہ جاتے۔
ایک دن اصحابِ صُفّہ کو لے کر آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے گھر پہنچے (خود آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے یہاں کچھ نہ تھا) اور کھانا لانے کے لئے فرمایا۔ چونی کا پکا ہوا کھانا لایا گیا ، پھر چھو ہارے کا حریرہ آیا اور آخر میں ایک بڑے پیالے میں دودھ۔ یہی کل کھانا تھا۔
راتوں کو اٹھ اٹھ کر آپ مہمانوں کی خبر گیری فرماتے۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا:
"مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ میزبان کے یہاں اتنا ٹھہرے کہ اس کو پریشانی میں مبتلا کر دے۔"
 

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
28: آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) بہت خودار تھے

سوائے اس کے جب کسی کی ضرورت اسے ہاتھ پھیلانے پر بالکل مجبور کردے ، آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) سوال کرنے اور بھیک مانگنے کو بہت زیادہ ناپسند فرماتے تھے۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ "اگر کوئی شخص لکڑی کا گٹھا پیٹھ پر لاد کر لائے اور بیچ کر اپنی آبرو بچائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ لوگوں سے سوال کرے۔"

ایک دفعہ ایک انصاری آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آئے اور کچھ سوال کیا۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے دریافت کیا:
تمہارے پاس کچھ ہے؟۔" وہ بولے بس ایک بچھونا اور ایک پیالہ ہے۔ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے انہیں لے کر فروخت کیا اور رقم ان انصاری کو دے کر فرمایا "ایک درہم کا کھانا لاکر گھر میں دے آؤ اور دوسرے سے رسی خرید کر جنگل جاؤ۔ لکڑی باندھ کر لاؤ اور شہر میں بیچ لو۔"

15 روز کے بعد وہ انصاری آئے ان کے پاس کچھ درہم جمع ہوگئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" یہ اچھا ہے یا یہ کہ قیامت کے دن چہرے پہ گداگری کا داغ لگا کر جاتے۔"
آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا صرف 3 شخصوں کے لیے مناسب ہے۔
1۔ وہ شخص جو بہت زیادہ قرضدار ہو۔
2۔ وہ شخص جس پر ناگہانی مصیبت آپڑی ہو۔
3۔ وہ شخص جو کئی فاقوں سے ہو۔
ان کے علاوہ اگر کوئی کچھ مانگتا ہے تو حرام کھاتا ہے۔"
 
Top