عشاء کی وضوء سے فجر پڑھنا اسیی وقت ممکن ہے جب کوئی رات کو نہ سوئے اور آج کے مجتھدین کے ہاں اب یہ امر خارج اسلام امر ہو گيا
پہلے یہ روایت دیکھیں
أخرجه الدينوري في "المجالسة وجواهر العلم"(3586) فقال : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ، نا مُحَمَّدُ بْنُ عمر، حدثنا الْمَدَائِنِيُّ؛ قَالَ: كَتَبَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَشْتَكِي إِلَيْهِ مَا يَلْقَى مِنْ أَهْلِ مِصْرَ، فَوَقَّعَ عُمَرُ فِي قِصَّتِهِ: كُنْ لِرَعِيَّتِكَ كَمَا تُحِبُّ أَنْ يَكُونَ لَكَ أَمِيرُكَ، وَرُفِعَ إِلَيَّ عَنْكَ أَنَّكَ تَتَّكِئُ فِي مَجْلِسِكَ، فَإِذَا جَلَسْتَ؛ فَكُنْ كَسَائِرِ النَّاسِ وَلا تَتَّكِئْ. فَكَتَبَ إِلَيْهِ عَمْرٌو: أَفْعَلُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، وَبَلَغَنِي يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَنَّكَ لا تَنَامُ بِاللَّيْلِ وَلا بِالنَّهَارِ؛ إِلا مُغَلَّبًا! فَقَالَ: يَا عَمْرُو! إِذَا نِمْتُ بِالنَّهَارِ ضَيَّعْتُ رَعِيَّتِي، وَإِذَا نِمْتُ بِاللَّيْلِ ضَيَّعْتُ أَمْرَ رَبِّي
أخرجه ابن عساكر في "تاريخ دمشق" (ص233)
وأخرجه أحمد في "الزهد" (2/32_مكتبة النهضة)
: ثنا عبد الله بن يزيد ، ثنا موسى بن علي ، قال : سمعت أبي يقول : حدثني معاوية بن خديج ؛ قال : "بعثني عمرو بن العاص إلى عمر بن الخطاب..." وذكر نحوه.
والخبر في "التذكرة الحمدونية" (1/409/رقم1039) عن عمرو بن الخطاب ، بينما نسب في "نثر الدر" (2/188) ، و"محاضرات الراغب" (2/405)، لعمر بن عبد العزيز ".
وهو قوله: "لئن نمت النهار لأضيعن الرعية ولئن نمت الليل لأضيعن نفسي فكيف بالنوم مع هذين يا معاوية ؟!"
وأخرجه ابن عبد الحكم في فتوح مصر ص94: حدثنا عبدالله بن يزيد المقرئ به.
ان روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے جب پوچھا گیا کیا آپ نہ دن کو سوتے ہیں اور نہ رات کو تو حضرت عمر رضي اللہ عنہ جواب دیا کہ اگر میں دن کو سوؤں گا تو اپنی رعیت کو ضائع کردوں گا اور اگر رات کو سوؤوں گا تو حکم ربی کو ضائع کردوں گا
اگر ہر رات کو جاگنے سے اسلام سے خارج ہونا لازم ہوتا ہے تو آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق کیا کہیں گے
1- اگر کہا جائے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کی خبر نہ تھی جس میں رات کو شب بیداری سے منع کیا گيا ہے تو یہ بات امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق بھی کہی جاسکتی ہے ، اس حدیث سے لاعلمی سے اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شان میں کوئي فرق نہیں آتا تو امام ابو حنیفہ کی شان میں بھی فرق نہیں آئے گا
2- اگر کہا جائے مذکورہ حدیث سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو مفہوم لیا وہ کچھ اور تھا تو یہ بات ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق بھی کہی جاسکتی ہے
فما کان جوابکم فھو جوابنا
پہلے یہ روایت دیکھیں
أخرجه الدينوري في "المجالسة وجواهر العلم"(3586) فقال : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ، نا مُحَمَّدُ بْنُ عمر، حدثنا الْمَدَائِنِيُّ؛ قَالَ: كَتَبَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَشْتَكِي إِلَيْهِ مَا يَلْقَى مِنْ أَهْلِ مِصْرَ، فَوَقَّعَ عُمَرُ فِي قِصَّتِهِ: كُنْ لِرَعِيَّتِكَ كَمَا تُحِبُّ أَنْ يَكُونَ لَكَ أَمِيرُكَ، وَرُفِعَ إِلَيَّ عَنْكَ أَنَّكَ تَتَّكِئُ فِي مَجْلِسِكَ، فَإِذَا جَلَسْتَ؛ فَكُنْ كَسَائِرِ النَّاسِ وَلا تَتَّكِئْ. فَكَتَبَ إِلَيْهِ عَمْرٌو: أَفْعَلُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، وَبَلَغَنِي يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَنَّكَ لا تَنَامُ بِاللَّيْلِ وَلا بِالنَّهَارِ؛ إِلا مُغَلَّبًا! فَقَالَ: يَا عَمْرُو! إِذَا نِمْتُ بِالنَّهَارِ ضَيَّعْتُ رَعِيَّتِي، وَإِذَا نِمْتُ بِاللَّيْلِ ضَيَّعْتُ أَمْرَ رَبِّي
أخرجه ابن عساكر في "تاريخ دمشق" (ص233)
وأخرجه أحمد في "الزهد" (2/32_مكتبة النهضة)
: ثنا عبد الله بن يزيد ، ثنا موسى بن علي ، قال : سمعت أبي يقول : حدثني معاوية بن خديج ؛ قال : "بعثني عمرو بن العاص إلى عمر بن الخطاب..." وذكر نحوه.
والخبر في "التذكرة الحمدونية" (1/409/رقم1039) عن عمرو بن الخطاب ، بينما نسب في "نثر الدر" (2/188) ، و"محاضرات الراغب" (2/405)، لعمر بن عبد العزيز ".
وهو قوله: "لئن نمت النهار لأضيعن الرعية ولئن نمت الليل لأضيعن نفسي فكيف بالنوم مع هذين يا معاوية ؟!"
وأخرجه ابن عبد الحكم في فتوح مصر ص94: حدثنا عبدالله بن يزيد المقرئ به.
ان روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے جب پوچھا گیا کیا آپ نہ دن کو سوتے ہیں اور نہ رات کو تو حضرت عمر رضي اللہ عنہ جواب دیا کہ اگر میں دن کو سوؤں گا تو اپنی رعیت کو ضائع کردوں گا اور اگر رات کو سوؤوں گا تو حکم ربی کو ضائع کردوں گا
اگر ہر رات کو جاگنے سے اسلام سے خارج ہونا لازم ہوتا ہے تو آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق کیا کہیں گے
1- اگر کہا جائے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کی خبر نہ تھی جس میں رات کو شب بیداری سے منع کیا گيا ہے تو یہ بات امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق بھی کہی جاسکتی ہے ، اس حدیث سے لاعلمی سے اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شان میں کوئي فرق نہیں آتا تو امام ابو حنیفہ کی شان میں بھی فرق نہیں آئے گا
2- اگر کہا جائے مذکورہ حدیث سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو مفہوم لیا وہ کچھ اور تھا تو یہ بات ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق بھی کہی جاسکتی ہے
فما کان جوابکم فھو جوابنا