• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اگر امام ابو حنیفہ رحم اللہ نے ایسا کیا ہے تو وہ اسلام سے خارج ہیں

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
عشاء کی وضوء سے فجر پڑھنا اسیی وقت ممکن ہے جب کوئی رات کو نہ سوئے اور آج کے مجتھدین کے ہاں اب یہ امر خارج اسلام امر ہو گيا
پہلے یہ روایت دیکھیں

أخرجه الدينوري في "المجالسة وجواهر العلم"(3586) فقال : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ، نا مُحَمَّدُ بْنُ عمر، حدثنا الْمَدَائِنِيُّ؛ قَالَ: كَتَبَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَشْتَكِي إِلَيْهِ مَا يَلْقَى مِنْ أَهْلِ مِصْرَ، فَوَقَّعَ عُمَرُ فِي قِصَّتِهِ: كُنْ لِرَعِيَّتِكَ كَمَا تُحِبُّ أَنْ يَكُونَ لَكَ أَمِيرُكَ، وَرُفِعَ إِلَيَّ عَنْكَ أَنَّكَ تَتَّكِئُ فِي مَجْلِسِكَ، فَإِذَا جَلَسْتَ؛ فَكُنْ كَسَائِرِ النَّاسِ وَلا تَتَّكِئْ. فَكَتَبَ إِلَيْهِ عَمْرٌو: أَفْعَلُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، وَبَلَغَنِي يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَنَّكَ لا تَنَامُ بِاللَّيْلِ وَلا بِالنَّهَارِ؛ إِلا مُغَلَّبًا! فَقَالَ: يَا عَمْرُو! إِذَا نِمْتُ بِالنَّهَارِ ضَيَّعْتُ رَعِيَّتِي، وَإِذَا نِمْتُ بِاللَّيْلِ ضَيَّعْتُ أَمْرَ رَبِّي
أخرجه ابن عساكر في "تاريخ دمشق" (ص233)
وأخرجه أحمد في "الزهد" (2/32_مكتبة النهضة)
: ثنا عبد الله بن يزيد ، ثنا موسى بن علي ، قال : سمعت أبي يقول : حدثني معاوية بن خديج ؛ قال : "بعثني عمرو بن العاص إلى عمر بن الخطاب..." وذكر نحوه.
والخبر في "التذكرة الحمدونية" (1/409/رقم1039) عن عمرو بن الخطاب ، بينما نسب في "نثر الدر" (2/188) ، و"محاضرات الراغب" (2/405)، لعمر بن عبد العزيز ".
وهو قوله: "لئن نمت النهار لأضيعن الرعية ولئن نمت الليل لأضيعن نفسي فكيف بالنوم مع هذين يا معاوية ؟!"
وأخرجه ابن عبد الحكم في فتوح مصر ص94: حدثنا عبدالله بن يزيد المقرئ به.

ان روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے جب پوچھا گیا کیا آپ نہ دن کو سوتے ہیں اور نہ رات کو تو حضرت عمر رضي اللہ عنہ جواب دیا کہ اگر میں دن کو سوؤں گا تو اپنی رعیت کو ضائع کردوں گا اور اگر رات کو سوؤوں گا تو حکم ربی کو ضائع کردوں گا
اگر ہر رات کو جاگنے سے اسلام سے خارج ہونا لازم ہوتا ہے تو آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق کیا کہیں گے
1- اگر کہا جائے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کی خبر نہ تھی جس میں رات کو شب بیداری سے منع کیا گيا ہے تو یہ بات امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق بھی کہی جاسکتی ہے ، اس حدیث سے لاعلمی سے اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شان میں کوئي فرق نہیں آتا تو امام ابو حنیفہ کی شان میں بھی فرق نہیں آئے گا
2- اگر کہا جائے مذکورہ حدیث سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو مفہوم لیا وہ کچھ اور تھا تو یہ بات ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق بھی کہی جاسکتی ہے
فما کان جوابکم فھو جوابنا
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
عشاء کی وضوء سے فجر پڑھنا اسیی وقت ممکن ہے جب کوئی رات کو نہ سوئے اور آج کے مجتھدین کے ہاں اب یہ امر خارج اسلام امر ہو گيا
پہلے یہ روایت دیکھیں

أخرجه الدينوري في "المجالسة وجواهر العلم"(3586) فقال : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ، نا مُحَمَّدُ بْنُ عمر، حدثنا الْمَدَائِنِيُّ؛ قَالَ: كَتَبَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَشْتَكِي إِلَيْهِ مَا يَلْقَى مِنْ أَهْلِ مِصْرَ، فَوَقَّعَ عُمَرُ فِي قِصَّتِهِ: كُنْ لِرَعِيَّتِكَ كَمَا تُحِبُّ أَنْ يَكُونَ لَكَ أَمِيرُكَ، وَرُفِعَ إِلَيَّ عَنْكَ أَنَّكَ تَتَّكِئُ فِي مَجْلِسِكَ، فَإِذَا جَلَسْتَ؛ فَكُنْ كَسَائِرِ النَّاسِ وَلا تَتَّكِئْ. فَكَتَبَ إِلَيْهِ عَمْرٌو: أَفْعَلُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، وَبَلَغَنِي يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَنَّكَ لا تَنَامُ بِاللَّيْلِ وَلا بِالنَّهَارِ؛ إِلا مُغَلَّبًا! فَقَالَ: يَا عَمْرُو! إِذَا نِمْتُ بِالنَّهَارِ ضَيَّعْتُ رَعِيَّتِي، وَإِذَا نِمْتُ بِاللَّيْلِ ضَيَّعْتُ أَمْرَ رَبِّي
أخرجه ابن عساكر في "تاريخ دمشق" (ص233)
وأخرجه أحمد في "الزهد" (2/32_مكتبة النهضة)
: ثنا عبد الله بن يزيد ، ثنا موسى بن علي ، قال : سمعت أبي يقول : حدثني معاوية بن خديج ؛ قال : "بعثني عمرو بن العاص إلى عمر بن الخطاب..." وذكر نحوه.
والخبر في "التذكرة الحمدونية" (1/409/رقم1039) عن عمرو بن الخطاب ، بينما نسب في "نثر الدر" (2/188) ، و"محاضرات الراغب" (2/405)، لعمر بن عبد العزيز ".
وهو قوله: "لئن نمت النهار لأضيعن الرعية ولئن نمت الليل لأضيعن نفسي فكيف بالنوم مع هذين يا معاوية ؟!"
وأخرجه ابن عبد الحكم في فتوح مصر ص94: حدثنا عبدالله بن يزيد المقرئ به.

ان روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے جب پوچھا گیا کیا آپ نہ دن کو سوتے ہیں اور نہ رات کو تو حضرت عمر رضي اللہ عنہ جواب دیا کہ اگر میں دن کو سوؤں گا تو اپنی رعیت کو ضائع کردوں گا اور اگر رات کو سوؤوں گا تو حکم ربی کو ضائع کردوں گا
اگر ہر رات کو جاگنے سے اسلام سے خارج ہونا لازم ہوتا ہے تو آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق کیا کہیں گے
1- اگر کہا جائے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کی خبر نہ تھی جس میں رات کو شب بیداری سے منع کیا گيا ہے تو یہ بات امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق بھی کہی جاسکتی ہے ، اس حدیث سے لاعلمی سے اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شان میں کوئي فرق نہیں آتا تو امام ابو حنیفہ کی شان میں بھی فرق نہیں آئے گا
2- اگر کہا جائے مذکورہ حدیث سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو مفہوم لیا وہ کچھ اور تھا تو یہ بات ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق بھی کہی جاسکتی ہے
فما کان جوابکم فھو جوابنا
حضرت عمر رضی الله عنہ کے فرمان "اگر میں دن کو سوؤں گا تو اپنی رعیت کو ضائع کردوں گا اور اگر رات کو سوؤوں گا تو حکم ربی کو ضائع کردوں گا" کا صحیح مطلب یہ ہے کہ آپ بہت کم سوتے تھے - قرآن کریم میں ان اصحاب رضی الله عنہ کا ذکر الله نے اس انداز میں کیا ہے -

وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا سوره الفرقان ٦٤
اور وہ لوگ جو اپنے رب کے سامنے سجدہ میں اور کھڑے ہوکر رات گزارتے ہیں-

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں لیا جا سکلتا کہ آپ رضی الله عنہ بلکل سوتے ہی نہیں تھے - ویسے بھی یہ ایک انسان کے لئے نا ممکن ہے کہ وہ مسلسل کئی راتیں جاگتا رہے - یہ انسان کے بس سے باہر ہے - -حضرت عمر رضی الله عنہ قول کا مطلب ایسا ہی ہے جسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں بندہ دن رات محنت کرتا ہے - اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ بہت زیادہ محنت کرتا ہے - یہ نہیں کہ وہ ٢٤ گھنٹے ہی محنت کرتا ہے - لہذا نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی حدیث اور حضرت عمر کے فعل میں کوئی تعارض نہیں ہے -

امام ابو حنیفہ رح کے متعلق ان کے مقلدین کے یہ کہنا کہ چالیس سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرتے رہے - غلو کی ایک بدترین مثال ہے -کیا یہ لوگ اس سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جو کام نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی الله نہ کر سکے وہ امام ابو حنیفہ رح نے کر دکھایا - اور دوسرے یہ کہ ان مقلدوں کو یہ کیسے پتا چلا کہ ان کے امام چالیس سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرتے تھے کیا امام صاحب خود لوگوں کو یا اپنے شاگردوں کو بتاتے پھرتے تھے کہ میں ایک وضو سے چالیس سال عشاء و فجر کی نمازیں ادا کرتا رہا ہوں - اور ایک رات میں اتنی اتنی مرتبہ قرآن کریم ختم کرتا رہا ہوں - ( براہ مہربانی کوئی حوالہ پیش کریں ) - ؟؟؟
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
ان تمام اعتراضات کا ایک ہی جواب ہے۔۔۔
جو کئی صدیوں پہلے دیا جاچکا ہے۔۔۔
لہذا مسائل پر بحث وتکرار بےجا ہے۔۔۔
امام صاحبؒ اہل الرائے کے امام ہیں۔۔۔ اور یہ ساری شریعت امامؒ کی وفات کے بعد۔۔۔
جنہوں نے جمع کی تو اس تراش خراش کا سہرا اُن کے شاگردوں کے سر ہے۔۔۔
جن میں خود بھی اکثر مسئلوں میں اختلاف ہے۔۔۔ اگر لولی بھائی وہ بھی پیش کردے۔۔۔
قصہ ہی ختم ہو۔۔۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
حضرت عمر رضی الله عنہ کے فرمان "اگر میں دن کو سوؤں گا تو اپنی رعیت کو ضائع کردوں گا اور اگر رات کو سوؤوں گا تو حکم ربی کو ضائع کردوں گا" کا صحیح مطلب یہ ہے کہ آپ بہت کم سوتے تھے - قرآن کریم میں ان اصحاب رضی الله عنہ کا ذکر الله نے اس انداز میں کیا ہے -

وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا سوره الفرقان ٦٤
اور وہ لوگ جو اپنے رب کے سامنے سجدہ میں اور کھڑے ہوکر رات گزارتے ہیں-

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں لیا جا سکلتا کہ آپ رضی الله عنہ بلکل سوتے ہی نہیں تھے - ویسے بھی یہ ایک انسان کے لئے نا ممکن ہے کہ وہ مسلسل کئی راتیں جاگتا رہے - یہ انسان کے بس سے باہر ہے - -حضرت عمر رضی الله عنہ قول کا مطلب ایسا ہی ہے جسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں بندہ دن رات محنت کرتا ہے - اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ بہت زیادہ محنت کرتا ہے - یہ نہیں کہ وہ ٢٤ گھنٹے ہی محنت کرتا ہے - لہذا نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی حدیث اور حضرت عمر کے فعل میں کوئی تعارض نہیں ہے -

امام ابو حنیفہ رح کے متعلق ان کے مقلدین کے یہ کہنا کہ چالیس سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرتے رہے - غلو کی ایک بدترین مثال ہے -کیا یہ لوگ اس سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جو کام نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی الله نہ کر سکے وہ امام ابو حنیفہ رح نے کر دکھایا - اور دوسرے یہ کہ ان مقلدوں کو یہ کیسے پتا چلا کہ ان کے امام چالیس سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرتے تھے کیا امام صاحب خود لوگوں کو یا اپنے شاگردوں کو بتاتے پھرتے تھے کہ میں ایک وضو سے چالیس سال عشاء و فجر کی نمازیں ادا کرتا رہا ہوں - اور ایک رات میں اتنی اتنی مرتبہ قرآن کریم ختم کرتا رہا ہوں - ( براہ مہربانی کوئی حوالہ پیش کریں ) - ؟؟؟
اسید بن عمیر نے جو چالیس کا عدد بولا وہ کثرت کی بنا پر ہے جیسے عربی محاورات میں کثرت کے لئیے 70 کا عدد آتا ہے اس سے متعین عدد 70 مراد نہیں جس طرح 24 گھنٹے سے مراد آپ نے متعین 24 گھنٹے نہیں لئیے
حضرت عمر کے واقعہ کے بتانے کا مقصود صرف یہ تھا کہ جب حدیث میں ہے کہ مسلسل رات نہ جاگو تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو مسلسل جاگے ہیں تو کیا ان کو بھی حدیث کا مخالف ٹھرایا جائے گا (معاذ اللہ )
اگر حضرت رضی اللہ عنہ کا معمول رات کو سونا بھی ہوتا اور جاگنا بھی تو حضرت عمرو اور دیگر حضرت عمر سے مسلسل شب بیداری کی وجہ نہ پوچھتے کیوں رات کو بعض حصہ میں جاگ کر عبادت کرنا صحابہ کا عام معمول تھا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے جب شب بیداری کے متعلق جو خصوصا پوچھا گیا اور کئی مختلف افراد نے پوچھا تو اس کا مطلب ہے انہوں نے مسلسل کئی رات شب بیداری کرتے تھے اسی لئيے دیگر صحابہ نے آپ رضی اللہ عنہ سے استفسار کیا
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا سوره الفرقان ٦٤
اور وہ لوگ جو اپنے رب کے سامنے سجدہ میں اور کھڑے ہوکر رات گزارتے ہیں-

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں لیا جا سکلتا کہ آپ رضی الله عنہ بلکل سوتے ہی نہیں تھے - ویسے بھی یہ ایک انسان کے لئے نا ممکن ہے کہ وہ مسلسل کئی راتیں جاگتا رہے-
اگر یہ آپ نے لکھا ھے تو قرآن مجید کی اس آیت پر آپ کا انداز بیان و طریقہ کار درست نہیں اور تفسیر بھی قرآنی آیت کے خلاف ھے۔

ابھی بھی ایسے لوگ ہیں جو عشاء کے وضو سے فجر پڑھتے ہیں رات عبادت میں گزارتے ہیں اور فجر پڑھ کے سوتے ہیں ظہر سے پہلے تک، یہی ان کی نیند ھے۔

رہی بات جاب کے حوالہ سے 24 گھنٹہ کام کی تو بہت سے سرکاری اداروں میں نائٹ شفٹ بھی ہوتی ہیں جس میں زیادہ تر نائٹ شفٹ 12 گھنٹہ کی ہوتی ھے اور اس میں کچھ لوگ سوتے ہیں اور کچھ نیک لوگ رات عبادت میں گزارتے ہیں کیونکہ نائٹ شفٹ میں سٹینڈ بائی رہنا ہوتا ھے اگر کام ہو تو کر لیا جاتا ھے ورنہ نیک لوگ اس فارغ وقت میں نوافل یا قرآن مجید کی تلاوت میں گزارتے ہیں۔

آپ کی نظر میں غار حرا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرنے جایا کرتے تھے اگر مناسب سمجھیں تو اس پر تھوڑی روشنی ضرور ڈالیں۔

والسلام
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
السلام علیکم
ابھی بھی ایسے لوگ ہیں جو عشاء کے وضو سے فجر پڑھتے ہیں رات عبادت میں گزارتے ہیں اور فجر پڑھ کے سوتے ہیں ظہر سے پہلے تک، یہی ان کی نیند ھے۔والسلام
کنعان بھائی۔۔۔ لفظ ایسے یا ویسے۔۔۔
سے دور رہ کر ایک سوال۔۔۔
کیا آپ ایسے لوگوں کو اپنا امام تسلیم کریں گے۔۔۔ جن کی پیروی کی جائے۔۔۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

کنعان بھائی۔۔۔ لفظ ایسے یا ویسے۔۔۔
سے دور رہ کر ایک سوال۔۔۔

کیا آپ ایسے لوگوں کو اپنا امام تسلیم کریں گے۔۔۔ جن کی پیروی کی جائے۔۔۔

شداد بھائی، آپ حروف پر غور فرمایا کریں۔ میری جتنی بھی گفتگو ھے اس میں امام کا کوئی ذکر نہیں عبادت پر ھے۔ میں نے آپکو کب کہا کہ میرا فلاں مسلک، فقہ یا فرقہ ھے یا میں اس پر فارموں میں دھاگے بنا بنا کے تھک چکا ہوں، آپ کوشش کیا کریں کہ کنورسیشن کا علمی اعتبار سے حصہ بنیں پھر اپنی قابلیت کو جاننے کا آپ کو بھرپور موقع ملے گا۔ سوال کیا ہیں کسی بھی جگہ بیچ میں داخل ہو کر لکھ دو۔ وہ لولی نے مرحوم زبیر علی زئی پر ایک مراسلہ میں دو طرفہ معیار پر جواب پوچھا ھے جسے آپ چھوڑ آئے ہیں شاکر بھائی کا نام لکھ کر وہاں اگر ہو سکے تو اپنا جواب تحریر فرمائیں۔

والسلام
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
کنعان یااللہ!۔۔۔ یار کنعان بھائی سوال پوچھنا آپ نے جرم بنایا دیا۔۔۔
آپ ذکر کریں یا نہ کریں لیکن گفتگو کا محور مسلک اور فرقہ کے گرد گھوم رہا ہے۔۔۔
سادہ سا سوال تھا جس کا آپ مثبت یا نفی میں جواب دے سکتے تھے۔۔۔
میں اس کی وضاحت دے دوں۔۔۔

میں نے امام ماننے والی بات اس لئے کہی کے آپ کی رائے کہ آنے بعد۔۔۔
دوسرا سوال یہ ہوتا اگر جواب مثبت میں ہوتا کہ آپ نے ان کو امام اگر مانا ہے۔۔۔
تو امام صاحب کے اس عمل کی دلیل تو آپ کے پاس ضرور ہوگی۔۔۔
اور اگر آپ کہتے نہیں میں امام نہیں مانتا تو پھر۔۔۔
یقینا آپ کے پاس دلیل ہوگی۔۔۔ اُن کے اس عمل کو رد کرنے کی۔۔۔
جہاں تک یہ بات ہے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی بات ہے۔۔۔
تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ وہ صرف اہل الرائے کے امام ہیں۔۔۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی شخصیت کو متنازعہ بنانے والے۔۔۔ خود اُن ہی پیروکار ہیں۔۔۔
کیونکہ جب کوئی مقلد امام صاحب کے قول کو اپنا عمل بنا کر پیش کرتا ہے۔۔۔ تو
اس عمل کے رد میں جس کی بنیاد قول پر کوئی دلیل پیش کردی جائے۔۔۔ تو ہٹ دھرمی۔۔۔
مقلد کی امام صاحب کی شخصیت کو متنازعہ بنا دیتی ہے۔۔۔ بلکل اُسی طرح سے جیسے۔۔۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا ذمہ دار پوری رافضیت حضرت یزید رحمہ اللہ کو مانتی ہے۔۔۔
تو متنازعہ بنانے والے کون ہیں؟؟؟۔۔۔ رد پیش کرنے والے دلیل سے یا پھر رد کو نہ تسلیم کرنے والے؟؟؟۔۔۔
امام صاحب چالیس سال ایک وضو سے نماز پڑھیں یا ساری زندگی ایک ہی وضو سے نمازیں پڑھتے رہے ہوں۔۔۔
وہ میری لئے حجت نہیں ہے۔۔۔ اور نہ ہی خود امام صاحب کے لئے اُن کے کسی امام کا قول حجت ہوگا۔۔۔
غلطی کتاب کی عبارت لکھنے والے کی ہے کہ اُس نے جس ڈھنگ سے عبارت کو پیش کیا اس سے ایک عامی کو کیا تاثرملے۔۔۔
اب یہ فیصلہ بھی آپ ہی کیجئے ایک عبارت کو لولی بھائی نے پیش کیا اس پر آپ نے ایک وجہ بیان کی۔۔۔
تو ایک طرف کیا تھا اور دوسری طرف کیا۔۔۔ لیکن سب سے اچھی بات محمد ارسلان نے کہی۔۔۔
یہ خود ساختہ عقائد امام صاحب کی طرف منسوب کردیئے گئے ہیں۔۔۔
اس لئے میں لولی بھائی سے یہ درخواست کی کہ امام صاحب کے شاگروں کے اختلاف کو پیش کردیں۔۔۔
تاکہ قاری کو خود سمجھ میں آجائے کہ امام صآحب کی شخصیت ان شاگروں کی وجہ سے اور بعد میں۔۔۔
اُن علماء سوء کی وجہ سے متنازعہ بن گئی جو زمین آسمان کی قلابیں ملاتے ہیں۔۔۔تب ہی میں نے کہا۔۔۔
تھا کہ یہ بات صدیوں سے پتہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اہل الرائے کے امام ہیں۔۔۔
اور آپ ماشاء اللہ باشعور شخص ہے تو یہ آپ بھی جانتے ہونگے کہ رائے کی اہمیت کس وقت تک رہتی ہے۔۔۔
اور کب وہ اپنی اہمیت کھوتی ہے۔۔۔
اُمید ہے آپ کی جو نارضگی مجھ سے ہے وہ دور ہوگئی ہوگی۔۔۔
ان شاء اللہ۔۔۔


نوٹ شاکر بھائی کو ٹیگ اس لئے کیا تھا کہ لولی بھائی نے اس کو سوال جوب سیکشن میں منتقل کرنے کی بات کی تب میں نے سوچا کہ شاکر بھائی کو ٹیک کردوں وہ خود دیکھ لیں گے۔۔۔ امید ہے یہ غلط فہمی بھی دور ہوگئی ہوگی۔۔۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
حنفی حضرات کا یہی رویّہ ہے جس سے اختلاف ہوتا ہے۔ کہ اپنے علماء کے متعلق ہر صحیح وغلط بات کی توجیہ میں پڑ جاتے ہیں، یہ دیکھے بغیر کہ یہ ممکن بھی ہے یا نہیں؟ یا یہ جائز بھی ہے یا نہیں؟ ہر ہر بات کی الٹی سیدھی ایسی توجیہات بیان کی جاتی ہیں کہ الامان والحفیظ!

اگر ایسا غلو روا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی مذمت کیوں فرمائی اور انہیں غلو سے کیوں روکا: ﴿ يـٰأَهلَ الكِتـٰبِ لا تَغلوا فى دينِكُم وَلا تَقولوا عَلَى اللَّـهِ إِلَّا الحَقَّ ۚ﴾ ۔۔۔ سورة النساء

ارسلان بھائی نے کتنی اچھی بات کہی:
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ باتیں ابوحنیفہ صاحب کی طرف منسوب کی گئی ہوں اور انہوں نے ایسا نہ کہا ہو، یا نہ دعویٰ کیا ہو، بہرحال جو بھی ہو، خلاف سنت کیے گئے تمام اعمال برباد ہیں۔اللہ ہدایت عطا فرمائے آمین
اول تو یہ بات ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص چالیس چال عشاء کے وضوء سے فجر کی نماز پڑھے یا ایک رکعت میں پورا قرآن پڑھے وغیرہ وغیرہ۔ اور اگر بالفرض یہ ممکن بھی ہو اور کسی نے ایسا کیا بھی ہو تو یہ خلافِ شریعت ہے۔ نبی کریمﷺ کی صحیح وصریح فرمانات کے خلاف ہے۔

نیک لوگوں کے بارے میں فرمانِ الٰہی:
﴿ وَالَّذينَ يَبيتونَ لِرَبِّهِم سُجَّدًا وَقِيـٰمًا ٦٤ ﴾ ۔۔۔ سورة الفرقان
اور جو اپنے رب کے سامنے سجدے اور قیام کرتے ہوئے راتیں گزار دیتے ہیں (64)

﴿ تَتَجافىٰ جُنوبُهُم عَنِ المَضاجِعِ يَدعونَ رَبَّهُم خَوفًا وَطَمَعًا وَمِمّا رَزَقنـٰهُم يُنفِقونَ ١٦ ﴾ ۔۔۔ سورة السجدة
ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وه خرچ کرتے ہیں (16)

ان آیات کریمہ اور اس قسم کے اقوال کہ فلاں رات کو جاگتا ہے دن کو روزہ رکھتا ہے وغیرہ وغیرہ سے مراد بھی کثرت سے رات کا قیام اور دن کا روزہ ہوتا ہے۔ یہ مراد ہرگز نہیں ہوتا ہے کہ وہ پوری رات سوتا ہی نہیں اور کوئی دن بھی روزے کے بغیر نہیں گزارتا۔

درج بالا آیات کریمہ کی بہترین تفسیر وہی ہے جو قرآن نے کی ہے:
﴿ كانوا قَليلًا مِنَ الَّيلِ ما يَهجَعونَ ١٧ وَبِالأَسحارِ هُم يَستَغفِرونَ ١٨ ﴾ ۔۔۔ سورة الذاريات
وه رات کو بہت کم سویا کرتے تھے (17) اور وقت سحر استغفار کیا کرتے تھے (18)

اور اسی بات کا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو حکم دیا تھا:
﴿ يـٰأَيُّهَا المُزَّمِّلُ ١ قُمِ الَّيلَ إِلّا قَليلًا ٢ نِصفَهُ أَوِ انقُص مِنهُ قَليلًا ٣ أَو زِد عَلَيهِ وَرَتِّلِ القُرءانَ تَرتيلًا ٤ ﴾ ... سورة المزمل
اے کپڑے میں لپٹنے والے (1) رات (کے وقت نماز) میں کھڑے ہوجاؤ مگر کم (2) آدھی رات یا اس سے بھی کچھ کم کرلے (3) یا اس پر بڑھا دے اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر (صاف) پڑھا کر (4)

ان آیات کریمہ سے ثابت ہوا کہ مکمل رات قیام کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔

بلکہ مکمل رات قیام کرنا اور مستقلاً بالکل نہ سونا رہبانیت ہے اور یہ بالکل حرام اور نبی کریمﷺ کی مبارک سنت سے بے رغبتی ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے:
جاء ثلاثُ رهطٍ إلى بُيوتِ أزواجِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم ، يَسأَلونَ عن عبادةِ النبيِّ ﷺ، فلما أُخبِروا كأنهم تَقالُّوها ، فقالوا : أين نحن منَ النبيِّ ﷺ؟ قد غفَر اللهُ له ما تقدَّم من ذَنْبِه وما تأخَّر ، قال أحدُهم : أما أنا فإني أُصلِّي الليلَ أبدًا ، وقال آخَرُ : أنا أصومُ الدهرَ ولا أُفطِرُ ، وقال آخَرُ : أنا أعتزِلُ النساءَ فلا أتزوَّجُ أبدًا ، فجاء رسولُ اللهِ ﷺ فقال : ( أنتمُ الذين قلتُم كذا وكذا ؟ أما واللهِ إني لأخشاكم للهِ وأتقاكم له ، لكني أصومُ وأُفطِرُ ، وأُصلِّي وأرقُدُ ، وأتزوَّجُ النساءَ ، فمَن رغِب عن سُنَّتي فليس مني ).
الراوي: أنس بن مالك المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 5063


کسی کے متعلق یہ دعویٰ کرنا کہ وہ چالیس سال عشاء کے وضوء سے فجر کی نماز پڑھتا رہا۔ تو اس کا سراسر یہی مطلب ہے کہ وہ رات کو سوتا نہیں تھا کیونکہ سونا ناقض وضو ہے۔ اور یہ بات ایک عام آدمی کیلئے جائز نہیں۔ تو اتنے بڑے امام کے بارے میں یہ بات کیسے تصور کی جا سکتی ہے؟؟؟

اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کے غلوّ سے محفوظ رکھیں!
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

حنفی حضرات کا یہی رویّہ ہے جس سے اختلاف ہوتا ہے۔ کہ اپنے علماء کے متعلق ہر صحیح وغلط بات کی توجیہ میں پڑ جاتے ہیں، یہ دیکھے بغیر کہ یہ ممکن بھی ہے یا نہیں؟ یا یہ جائز بھی ہے یا نہیں؟ ہر ہر بات کی الٹی سیدھی ایسی توجیہات بیان کی جاتی ہیں کہ الامان والحفیظ!
محترم میں تو پھر بھی کوشش کرتا ہوں مگر آپ کا شمار بھی انہی میں ھے رٹا کے سواہ اپنی کوئی کیمسٹری نہیں، بس اھلحدیث میں یہ ھے مگر وہ ثابت کرنے میں ایسے نہیں ویسے، اگر ممبر شپ کی پناہ ہو تو آپ کی یہ کمزوریاں آپ کو اگلے مراسلوں میں ثابت بھی کی جا سکتی ہیں۔

والسلام
 
Top