• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل حدیث نعت کی حیثیت کو کتنا مانتے ہیں ؟؟؟

شمولیت
مارچ 08، 2012
پیغامات
215
ری ایکشن اسکور
147
پوائنٹ
89
آپ کی بات لغت کے لحاظ سے صحیح ہوسکتی ہے، لیکن حدیث کے لحاظ درست نہیں ،کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے،(عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا قال الرجل لأخيه: جزاك الله خيرا، فقد أبلغ في الثناء "المصنف في الأحاديث والآثار
بارک اللہ فی علمک یا اخی،
مگر میرا سوال "جزاک اللہ" پر کیے جانے والے اعتراض پر تھا۔ "جزاک اللہ خیرا" میں بے شک ابلاغ ہے، مگر "جزاک اللہ" کہنے پر اعتراض کیسا؟
"السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ" کی بجائے کوئ "السلام علیکم" کہے تو کیا ہم اس پر بھی اعتراض کریں گے؟ کہ نہیں آپ تیس نیکیاں ہی کمائیں۔۔۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
محفل نعت کا تصور تو واضح ہو گیا ہے۔ ، لیکن پچھلے صفحات کے دلائل سے مسجد میں نعت پڑھنے کا جواز مل رہا ہے۔ جبکہ رواج کے تحت پڑھنا دوسری بات ہے۔اس بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟
@اسحاق سلفی
ویسے حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا منبر کے قریب نعت پڑھنے سے متعلق یہ بات تو کہی جا سکتی ہے کہ منبر بھی مسجد میں ہی شامل تھا!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
محفل نعت کا تصور تو واضح ہو گیا ہے۔ ، لیکن پچھلے صفحات کے دلائل سے مسجد میں نعت پڑھنے کا جواز مل رہا ہے۔ جبکہ رواج کے تحت پڑھنا دوسری بات ہے۔اس بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟
@اسحاق سلفی
ویسے حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا منبر کے قریب نعت پڑھنے سے متعلق یہ بات تو کہی جا سکتی ہے کہ منبر بھی مسجد میں ہی شامل تھا!
السلام علیکم : (۱)محفل نعت ،اور (۲)مسجد میں نعت اور (۳)رواج کے تحت پڑھنا ، ان تینوں سوالوں کا جواب گزشتہ عبارات میں موجود ہے ، جو مندرجہ ذیل ہے :
(۱) : نعت کےلئے اگر اتفاقاً ، (مثلاً کسی نے جناب حسان کے نعتیہ اشعار پڑھے اورکچھ لوگ جمع ہوکر سننے لگے ) یا تبعاً ،(مثلاً کسی اور مقصد کےلئے اجتماع تھا اس میں کسی نے نعتیہ اشعار سنادیے )،،یاکسی خاص دینی ضرورت سے محفل بن جائے توحرج نہیں ،
(۲): مروجہ محافل کئی وجوہ سے غلط ہیں ،جوگزشتہ عبارت میں موجود ہیں،
(۳) :مسجد میں نعت ، اور محفل کا حکم بھی مندرجہ بالا کے مطابق ہی ہے ،اگر کبھی شرعی آداب وشرائط کے ساتھ (جو کہ آپ کومعلوم ہیں ) مدح رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے،تو سیدنا حسان رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق جائز ہوگی ،
اگر اس جواب میں کوتاہی و خطا پائیں تو ضرور آگاہ فرمائیں ،،
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
مکرم بھائی کا کہنا ہے : ۔۔
مگر میرا سوال "جزاک اللہ" پر کیے جانے والے اعتراض پر تھا۔ "جزاک اللہ خیرا" میں بے شک ابلاغ ہے، مگر "جزاک اللہ" کہنے پر اعتراض کیسا؟
محترم بھائی آپ نے شاید غور نہیں کیا ،آپ نے خود ہی اپنے خلاف دلیل پیش کردی،۔۔۔دیکھئے :صرف ،،السلام علیکم ،،کہنا بے شمار احادیث سے ثابت وموجود ہے ،مثلاً سنن کی مشہور روایت (۔۔۔۔فقال النبي صلى الله عليه وسلم لخادمه: " اخرج إلى هذا فعلمه الاستئذان، فقل له:
قل السلام عليكم، أأدخل؟ " فسمعه الرجل، فقال: السلام عليكم، أأدخل؟ فأذن له النبي صلى الله عليه وسلم، فدخل )
جبکہ صرف ،،جزاک اللہ ،،کہنا ،میرے علم میں نہیں ،اگر آپ ایسی کوئی حدیث آپ کے علم میں ہے تو آگاہ فرمائیں؛
اور یاد رہے ،،۔۔۔
(خیراً ) کے اضافہ سے (ابلاغ ) نہیں بلکہ پورا جملہ "جزاک اللہ خیرا"کہنے سے ابلاغ ہے؛
اور جس حدیث میں یہ جملہ آیا ہے اس کی شرح اہل علم یوں کرتے ہیں : (إذا قال الرجل) يعني الإنسان (لأخيه) أي في الإسلام الذي فعل معه معروفا (جزاك الله خيرا) أي قضى لك خيرا وأثابك عليه: يعني أطلب من الله أن يفعل ذلك بك (فقد أبلغ في الثناء) أي بالغ فيه وبذل جهده في مكأفاته عليه بذكره بالجميل وطلبه له من الله تعالى الأجر الجزيل فإن ضم لذلك معروفا من جنس المفعول معه كان أكمل هذا ما يقتضيه هذا الخبر لكن يأتي في آخر ما يصرح بأن الاكتفاء بالدعاء إنما هو عند العجز عن مكافأته بمثل ما فعل معه من المعروف. )فيض القدير شرح الجامع الصغير۔۔
اور دلیل الفالحین میں ہے : (فقد أبلغ في الثناء) أي: بالغ في ثنائه على فاعله وجازى المحسن إليه بأحسن مما أسداه إليه حيث أظهر عجزه، وأحاله على ربه)

 
Last edited:

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
۔
السلام علیکم : (۱)محفل نعت ،اور (۲)مسجد میں نعت اور (۳)رواج کے تحت پڑھنا ، ان تینوں سوالوں کا جواب گزشتہ عبارات میں موجود ہے ، جو مندرجہ ذیل ہے :
(۱) : نعت کےلئے اگر اتفاقاً ، (مثلاً کسی نے جناب حسان کے نعتیہ اشعار پڑھے اورکچھ لوگ جمع ہوکر سننے لگے ) یا تبعاً ،(مثلاً کسی اور مقصد کےلئے اجتماع تھا اس میں کسی نے نعتیہ اشعار سنادیے )،،یاکسی خاص دینی ضرورت سے محفل بن جائے توحرج نہیں ،
(۲): مروجہ محافل کئی وجوہ سے غلط ہیں ،جوگزشتہ عبارت میں موجود ہیں،
(۳) :مسجد میں نعت ، اور محفل کا حکم بھی مندرجہ بالا کے مطابق ہی ہے ،اگر کبھی شرعی آداب وشرائط کے ساتھ (جو کہ آپ کومعلوم ہیں ) مدح رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے،تو سیدنا حسان رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق جائز ہوگی ،
اگر اس جواب میں کوتاہی و خطا پائیں تو ضرور آگاہ فرمائیں ،،
جزاک اللہ خیرا۔۔۔۔حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے جو نعتیہ اشعار پڑھے ،اس حدیث سے پڑھنے کا جواز تو ملتا ے ، مگر آج جو شرک سے پاک نعتیں پڑھی جاتی ہیں ، انھیں ترنم اور گانے کے طرز پر بیان کیا جاتا ہے ، اس کے جواز کی کیا دلیل ہے؟کیا نعت سے مراد اسی طرح پڑھنا ہی ہے یا سادگی سے اشعار کہنا؟ نیز مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ نعتیہ انداز کب اور کیسے مسلمانوں میں آیا!!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
۔

جزاک اللہ خیرا۔۔۔۔حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے جو نعتیہ اشعار پڑھے ،اس حدیث سے پڑھنے کا جواز تو ملتا ے ، مگر آج جو شرک سے پاک نعتیں پڑھی جاتی ہیں ، انھیں ترنم اور گانے کے طرز پر بیان کیا جاتا ہے ، اس کے جواز کی کیا دلیل ہے؟کیا نعت سے مراد اسی طرح پڑھنا ہی ہے یا سادگی سے اشعار کہنا؟ نیز مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ نعتیہ انداز کب اور کیسے مسلمانوں میں آیا!!
السلام علیکم:
یہ بڑا اہم سوال کہ ترنم اور گانے کی طرز پر نعت کب سے شروع ہوئی
اس کا جواب اختصار سے کچھ یوں ہے کہ : متاخرین صوفیا نے تصوف کو دیدہ زیب اور جازب دل بنانے کے لئے چوتھی یا پانچویں صدی ہجری میں کئی عوام پسند چیزیں تصوف میں داخل کیں ،جن میں وجد ، حال ،سماع ، ذکر اور جسمانی مشقتیں ،اور کرامت کے خوشنما نام پر شعبدے متعارف کروائے،
ان میں عوام کالانعام کے جو لذیذ آئیٹم تھا وہ یہی سماع تھا ،جو ساز کے ساتھ بھی ساز کے بغیر بھی حمد ونعت کا ترنم اور مخصوص لے اور خوشنما آواز سے ہوتا تھا ،قدیم صوفیا کے ہاں جو سماع کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی وہ حقیقتاً یہی تھی ،
امام ابن تیمیہ اور ان کے ہمعصر علما نے اپنی اپنی کتب میں سماع کارد کیا ہے وہ یہی سماع تھا
ا
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم:
یہ بڑا اہم سوال کہ ترنم اور گانے کی طرز پر نعت کب سے شروع ہوئی
اس کا جواب اختصار سے کچھ یوں ہے کہ : متاخرین صوفیا نے تصوف کو دیدہ زیب اور جازب دل بنانے کے لئے چوتھی یا پانچویں صدی ہجری میں کئی عوام پسند چیزیں تصوف میں داخل کیں ،جن میں وجد ، حال ،سماع ، ذکر اور جسمانی مشقتیں ،اور کرامت کے خوشنما نام پر شعبدے متعارف کروائے،
ان میں عوام کالانعام کے جو لذیذ آئیٹم تھا وہ یہی سماع تھا ،جو ساز کے ساتھ بھی ساز کے بغیر بھی حمد ونعت کا ترنم اور مخصوص لے اور خوشنما آواز سے ہوتا تھا ،قدیم صوفیا کے ہاں جو سماع کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی وہ حقیقتاً یہی تھی ،
امام ابن تیمیہ اور ان کے ہمعصر علما نے اپنی اپنی کتب میں سماع کارد کیا ہے وہ یہی سماع تھا
ا
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ !۔۔۔۔کیا "سماع" کے موضوع پر آپ امام ابن تیمیہ یا دیگر علماء کرام کی کتب بتا سکتے ہیں ؟میں انھیں پڑھنا چاہتی ہوں۔جزاک اللہ خیرا کثیرا۔۔۔تکلیف کے لیے معذرت کہ میں آج کل اسی موضوع پر مواد جمع کر رہی ہوں ، اور تحقیق بھی ۔ چاہتی ہوں کہ مستند ہو اور میرے ساتھ بہت سوں کا بھی بھلا ہو جائے! باذن اللہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ !۔۔۔۔کیا "سماع" کے موضوع پر آپ امام ابن تیمیہ یا دیگر علماء کرام کی کتب بتا سکتے ہیں ؟میں انھیں پڑھنا چاہتی ہوں۔جزاک اللہ خیرا کثیرا۔۔۔تکلیف کے لیے معذرت کہ میں آج کل اسی موضوع پر مواد جمع کر رہی ہوں ، اور تحقیق بھی ۔ چاہتی ہوں کہ مستند ہو اور میرے ساتھ بہت سوں کا بھی بھلا ہو جائے! باذن اللہ
سلام علیکم :دو کتابیں ضرور پڑھیں ،السماع والرقص لابن تیمیۃ رحمہ اللہ ،،الکلام علی مسالۃ السماع ،لابن قیم ،
ان میں پہلی کا اردو ترجمہ بھی لاہور کے کسی پبلشر نےشائع کیا تھا ، اب یاد نہیں کافی عرصہ ہوا،آپ مکتبہ سلفیہ سے رابطہ کر کے پوچھ لیں
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
سلام علیکم :دو کتابیں ضرور پڑھیں ،السماع والرقص لابن تیمیۃ رحمہ اللہ ،،الکلام علی مسالۃ السماع ،لابن قیم ،
ان میں پہلی کا اردو ترجمہ بھی لاہور کے کسی پبلشر نےشائع کیا تھا ، اب یاد نہیں کافی عرصہ ہوا،آپ مکتبہ سلفیہ سے رابطہ کر کے پوچھ لیں
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ !۔۔۔۔۔۔جزاک اللہ خیرا بھائی۔سماع کے متعلق امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "منہاج القاصدین " میں ایک باب بھی دیا ہے، یہ اگر چہ مختصر ہے ، مگر تفصیل کے لیے انھوں نے اپنی کتاب "تلبیس ابلیس" میں سماع کا تذکرہ کیا ہے۔واللہ اعلم!
 
Top