• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

برزخی زندگی اور اعادہ روح

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
برزخی زندگی اور اعادہ روح

محمد رفيق طاهر​

سب سے پہلے تو اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ عذاب ِ قبر برحق ہے۔ قبر وبرزخ کے اندر سزاو جزاکا ہونادرست ہے، اللہ کے جو نیک بندے ہوتے ہیں، مرنے کے بعد قیامت سے پہلےان کی روحیں ان کے بدنوں میں لوٹا دی جاتی ہیں، انہیں راحت وآرام پہنچتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے نافرمان بندے ہوتے ہیں، ان کی روحیں، مرنے کے بعد قیامت سے پہلے ان کے بدنوں میں لوٹا دی جاتی ہیں اور ان کو سزا وعقاب ہوتا ہے۔
allah rooh ko wapis nahin kerta.png



صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2724 حدیث قدسی مکررات 1 متفق علیہ 1 بدون مکرر
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا بُدَيْلٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاهَا مَلَکَانِ يُصْعِدَانِهَا قَالَ حَمَّادٌ فَذَکَرَ مِنْ طِيبِ رِيحِهَا وَذَکَرَ الْمِسْکَ قَالَ وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَائِ رُوحٌ طَيِّبَةٌ جَائَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْکِ وَعَلَی جَسَدٍ کُنْتِ تَعْمُرِينَهُ فَيُنْطَلَقُ بِهِ إِلَی رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ يَقُولُ انْطَلِقُوا بِهِ إِلَی آخِرِ الْأَجَلِ قَالَ وَإِنَّ الْکَافِرَ إِذَا خَرَجَتْ رُوحُهُ قَالَ حَمَّادٌ وَذَکَرَ مِنْ نَتْنِهَا وَذَکَرَ لَعْنًا وَيَقُولُ أَهْلُ السَّمَائِ رُوحٌ خَبِيثَةٌ جَائَتْ مِنْ قِبَلِ الْأَرْضِ قَالَ فَيُقَالُ انْطَلِقُوا بِهِ إِلَی آخِرِ الْأَجَلِ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَرَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَيْطَةً کَانَتْ عَلَيْهِ عَلَی أَنْفِهِ هَکَذَا
عبید اللہ بن عمر قواریری حماد بن زید بدیل عبداللہ بن شقیق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب کسی مومن کی روح نکلتی ہے تو دو فرشتے اسے لے کر اوپر چڑھتے ہیں تو آسمان والے کہتے ہیں کہ پاکیزہ روح زمین کی طرف سے آئی ہے اللہ تعالی تجھ پر اور اس جسم پر کہ جسے تو آباد رکھتی تھی رحمت نازل فرمائے پھر اس روح کو اللہ عزوجل کی طرف لے جایا جاتا ہے پھر اللہ فرماتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے لے چلو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کافر کی روح جب نکلتی ہے تو آسمان والے کہتے ہیں کہ خبیث روح زمین کی طرف سے آئی ہے پھر اسے کہا جاتا ہے کہ تم اسے آخری وقت کے لئے سجن کی طرف لے چلو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے اپنی چادر اپنی ناک مبارک پر اس طرح لگالی تھی

(کافر کی روح کی بدبو ظاہر کرنے کے لییے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا)

 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436

صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1584 حدیث مرفوع مکررات 4
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَمَّا ثَقُلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ يَتَغَشَّاهُ فَقَالَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام وَا کَرْبَ أَبَاهُ فَقَالَ لَهَا لَيْسَ عَلَی أَبِيکِ کَرْبٌ بَعْدَ الْيَوْمِ فَلَمَّا مَاتَ قَالَتْ يَا أَبَتَاهُ أَجَابَ رَبًّا دَعَاهُ يَا أَبَتَاهْ مَنْ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهْ يَا أَبَتَاهْ إِلَی جِبْرِيلَ نَنْعَاهْ فَلَمَّا دُفِنَ قَالَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام يَا أَنَسُ أَطَابَتْ أَنْفُسُکُمْ أَنْ تَحْثُوا عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التُّرَابَ
سلیمان بن حرب، حماد، ثابت، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض کی زیادتی سے بیہوش ہو گئے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے روتے ہوئے کہا افسوس میرے والد کو بہت تکلیف ہے، آپ نے فرمایا، آج کے بعد پھر نہیں ہوگی، پھر جب آپ کی وفات ہوگئی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یہ کہہ کر روئیں کہ اے میرے والد، آپ کو اللہ نے قبول کرلیا ہے
، اے میرے والد آپ کا مقام جنت الفردوس ہے
، ہائے میرے ابا جان میں آپ کی وفات کی خبر جبریل کو سناتی ہوں، جب آپ کو دفن کیا جا چکا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا تو لوگوں نے کیسے گوارہ کرلیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹی میں چھپا دو.

سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1847 حدیث موقوف مکررات 4

أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ فَاطِمَةَ بَکَتْ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ مَاتَ فَقَالَتْ يَا أَبَتَاهُ مِنْ رَبِّهِ مَا أَدْنَاهُ يَا أَبَتَاهُ إِلَی جِبْرِيلَ نَنْعَاهْ يَا أَبَتَاهُ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهُ
اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، معمر، ثابت، انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوگئی تو حضرت فاطمہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات پر رونے لگ گئیں اور عرض کرنے لگیں کہ
اے میرے والد تم اپنے پروردگار کے نزدیک آگئے
اے میرے والد ماجد! میں تمہاری وفات کی خبر حضرت جبرائیل تک پہنچاتی ہوں اے میرے والد! تمہارا مقام جنت ہے۔

سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 1629 حدیث مرفوع مکررات 4

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ أَبُو الزُّبَيْرِ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ لَمَّا وَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ کَرْبِ الْمَوْتِ مَا وَجَدَ قَالَتْ فَاطِمَةُ وَا کَرْبَ أَبَتَاهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا کَرْبَ عَلَی أَبِيکِ بَعْدَ الْيَوْمِ إِنَّهُ قَدْ حَضَرَ مِنْ أَبِيکِ مَا لَيْسَ بِتَارِکٍ مِنْهُ أَحَدًا الْمُوَافَاةُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
نصر بن علی، عبداللہ بن زبیر، ثابت بنانی، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سکرات شروع ہوئی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہائے میرے والد کی تکلیف۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آج کے بعد تمہارے والد پر کبھی سختی اور تکلیف نہ آئے گی۔ تمہارے والد پر وہ وقت آگیا جو سب پر آنے والا ہے
اب قیامت کے روز ملاقات ہوگی۔

سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 1630 حدیث موقوف مکررات 4
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ حَدَّثَنِي حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنِي ثَابِتٌ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قَالَتْ لِي فَاطِمَةُ يَا أَنَسُ کَيْفَ سَخَتْ أَنْفُسُکُمْ أَنْ تَحْثُوا التُّرَابَ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ و حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ فَاطِمَةَ قَالَتْ حِينَ قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَا أَبَتَاهُ إِلَی جِبْرَائِيلَ أَنْعَاهُ وَا أَبَتَاهُ مِنْ رَبِّهِ مَا أَدْنَاهُ وَا أَبَتَاهُ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهُ وَا أَبَتَاهُ أَجَابَ رَبًّا دَعَاهُ قَالَ حَمَّادٌ فَرَأَيْتُ ثَابِتًا حِينَ حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ بَکَی حَتَّی رَأَيْتُ أَضْلَاعَهُ تَخْتَلِفُ
علی بن محمد، ابواسامہ، حماد بن زید، ثابت، حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت فاطمہ نے کہا اے انس ! تمہارے دلوں کو یہ کیسے گوارا ہو کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مٹی ڈال دی۔ حضرت ثابت ، حضرت انس سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا تو حضرت فاطمہ نے کہا آہ میرے والد ! میں جبرائیل علیہ السلام کو ان کے وصال کی اطلاع دیتی ہوں۔
آہ میرے والد ! اپنے ربّ کے کس قدر قریب ہو گئے۔ آہ میرے والد ! جنت فردوس ان کا ٹھکانہ ہے
۔ حماد کہتے ہیں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ ثابت ہمیں یہ حدیث سناتے ہوئے رو رہے تھے حتیٰ کہ ان کی پسلیاں اوپر تلے ہو گیئں ۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436


امارت اور خلافت کا بیان
شہدا کی روحوں کے جنت میں ہونے اور شہدا کے زندہ ہونے اور اپنے رب سے رزق دیے جانے کے بیان میں
صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 388 حدیث قدسی مکررات 4 متفق علیہ 1 بدون مکرر
حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی وَأَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ کِلَاهُمَا عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ح و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ وَعِيسَی بْنُ يُونُسَ جَمِيعًا عَنْ الْأَعْمَشِ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَا حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ سَأَلْنَا عَبْدَ اللَّهِ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَائٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ قَالَ أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ تَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شَائَتْ ثُمَّ تَأْوِي إِلَی تِلْکَ الْقَنَادِيلِ فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ اطِّلَاعَةً فَقَالَ هَلْ تَشْتَهُونَ شَيْئًا قَالُوا أَيَّ شَيْئٍ نَشْتَهِي وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنْ الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْنَا فَفَعَلَ ذَلِکَ بِهِمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَنْ يُتْرَکُوا مِنْ أَنْ يُسْأَلُوا قَالُوا يَا رَبِّ نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّی نُقْتَلَ فِي سَبِيلِکَ مَرَّةً أُخْرَی فَلَمَّا رَأَی أَنْ لَيْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِکُوا
یحیی بن یحیی، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابی معاویہ، اسحاق بن ابراہیم، جریر، عیسیٰ بن یونس، اعمش، ، محمد بن عبداللہ بن نمیر حضرت مسروق سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت عبداللہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا جنہیں اللہ کے راستہ میں قتل کیا جائے انہیں مردہ گمان نہ کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس سے رزق دیے جاتے ہیں تو انہوں نے کہا ہم نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کی روحیں سر سبز پرندوں کے جوف میں ہوتی ہیں ان کے لئے ایسی قندیلیں ہیں جو عرش کے ساتھ لٹکی ہوئی ہیں اور وہ روحیں جنت میں پھرتی رہتی ہیں جہاں چاہیں پھر انہیں قندیلوں میں واپس آ جاتی ہیں ان کا رب ان کی طرف مطلع ہو کر فرماتا ہے کیا تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے وہ عرض کرتے ہیں ہم کس چیز کی خواہش کریں حالانکہ ہم جہاں چاہتے ہیں جنت میں پھرتے ہیں اللہ تعالی ان سے اس طرح تین مرتبہ فرماتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ انہیں کوئی چیز مانگے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا تو وہ عرض کرتے ہیں اے رب ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دیں یہاں تک کہ ہم تیرے راستہ میں دوسری مرتبہ قتل کئے جائیں جب اللہ دیکھتا ہے کہ انہیں اب کوئی ضرورت نہیں تو انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
قرآن کی تفسیر کا بیان
باب سورةآل عمران کے متعلق

جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 928 حدیث قدسی مکررات 4
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ قَوْلِهِ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَائٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَقَالَ أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِکَ فَأُخْبِرْنَا أَنَّ أَرْوَاحَهُمْ فِي طَيْرٍ خُضْرٍ تَسْرَحُ فِي الْجَنَّةِ حَيْثُ شَائَتْ وَتَأْوِي إِلَی قَنَادِيلَ مُعَلَّقَةٍ بِالْعَرْشِ فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّکَ اطِّلَاعَةً فَقَالَ هَلْ تَسْتَزِيدُونَ شَيْئًا فَأَزِيدُکُمْ قَالُوا رَبَّنَا وَمَا نَسْتَزِيدُ وَنَحْنُ فِي الْجَنَّةِ نَسْرَحُ حَيْثُ شِئْنَا ثُمَّ اطَّلَعَ إِلَيْهِمْ الثَّانِيَةَ فَقَالَ هَلْ تَسْتَزِيدُونَ شَيْئًا فَأَزِيدُکُمْ فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَمْ يُتْرَکُوا قَالُوا تُعِيدُ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّی نَرْجِعَ إِلَی الدُّنْيَا فَنُقْتَلَ فِي سَبِيلِکَ مَرَّةً أُخْرَی قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
ابن ابی عمر، سفیان، اعمش، عبداللہ بن مرة، مسروق، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے اس آیت ولا تحسبن الذین۔ کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ ہم نے بھی اسکی تفسیر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھی تھی۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ان کی )یعنی شہداء کی( روحیں سبز پرندوں )کی شکل( میں جو جنت میں جہاں چاپتے ہیں وہاں پھرتے ہیں۔ ان کا ٹھکانہ عرش سے لٹکی ہوئی قندیلیں ہیں پھر اللہ تعالی نے ان کی طرف جھانکا اور پوچھا کیا تم لوگ کچھ اور بھی چاہتے ہو جو میں تمہیں عطا کروں گا۔ انہوں نے عرض کیا یا اللہ ہم اس سے زیادہ کیا چاہیں گے کہ ہم جنت میں جہاں چاہتے ہیں گھومتے پھرتے ہیں پھر دوبارہ اللہ تعالی نے ان سے اسی طرح کیا تو ان شہداء نے سوچا کہ ہم اس وقت تک نہیں چھوٹیں گے جب تک کوئی فرمائش نہیں کریں گے۔ تو انہوں نے تمنا ظاہر کی کہ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں واپس کر دی جائیں تاکہ ہم دنیا میں جائیں اور دوبارہ تیری راہ میں شہید ہو کر آئیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 929 حدیث مرفوع مکررات 4
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ مِثْلَهُ وَزَادَ فِيهِ وَتُقْرِئُ نَبِيَّنَا السَّلَامَ وَتُخْبِرُهُ عَنَّا أَنَّا قَدْ رَضِينَا وَرُضِيَ عَنَّا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ
ابن ابی عمر، سفیان، عطاء بن سائب، ابوعبیدہ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ ابن ابی عمر نے بواسطہ سفیان، عطاء بن سائب اور ابوعبیدہ، حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے اسکی مثل روایت کیا لیکن اس میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ ہمارے نبی کو ہماری طرف سے سلام پہنچایا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ ہم اپنے رب سے راضی اور ہمارا رب ہم سے راضی ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
جہاد کا بیان
اللہ کی راہ میں شہادت کی فضیلت

سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 958 حدیث قدسی مکررات 4
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ فِي قَوْلِهِ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَائٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ قَالَ أَمَا إِنَّا سَأَلْنَا عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ أَرْوَاحُهُمْ کَطَيْرٍ خُضْرٍ تَسْرَحُ فِي الْجَنَّةِ فِي أَيِّهَا شَائَتْ ثُمَّ تَأْوِي إِلَی قَنَادِيلَ مُعَلَّقَةٍ بِالْعَرْشِ فَبَيْنَمَا هُمْ کَذَلِکَ إِذْ اطَّلَعَ عَلَيْهِمْ رَبُّکَ اطِّلَاعَةً فَيَقُولُ سَلُونِي مَا شِئْتُمْ قَالُوا رَبَّنَا مَاذَا نَسْأَلُکَ وَنَحْنُ نَسْرَحُ فِي الْجَنَّةِ فِي أَيِّهَا شِئْنَا فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَا يُتْرَکُونَ مِنْ أَنْ يَسْأَلُوا قَالُوا نَسْأَلُکَ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا إِلَی الدُّنْيَا حَتَّی نُقْتَلَ فِي سَبِيلِکَ فَلَمَّا رَأَی أَنَّهُمْ لَا يَسْأَلُونَ إِلَّا ذَلِکَ تُرِکُوا
علی بن محمد، ابومعاویہ، اعمش، عبداللہ بن مرہ، مسروق، حضرت عبداللہ بن مسعود ارشاد خداوندی (وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ( 3۔ آل عمران:169) جو لوگ راہ خدا میں شہید کر دئیے جائیں انہیں ہرگز مردہ خیال مت کرنا بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس رزق دئیے جاتے ہیں ۔ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں غور سے سنو ہم نے اس آیت کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا شہداء کی روحیں سبز پرندوں کی مانند جنت میں جہاں چاہتی ہیں چرتی پھرتی ہیں پھر رات کو عرش سے متعلق قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں۔ ایک بار وہ اسی حالت میں تھیں کہ اللہ رب العزت انکی طرف خوب متوجہ ہوئے اور فرمایا مجھ سے جو چاہو مانگ لو ان روحوں نے عرض کیا اے ہمارے پروردگار ! ہم آپ سے کیا مانگیں حالانکہ ہم جنت میں جہاں چاہتی ہیں چرتی پھرتی ہیں۔ جب انہوں نے یہ دیکھا کہ کچھ مانگے بغیر انہیں چھوڑانہ جائے گا )اور مانگے بغیر کوئی چارہ نہیں( تو عرض کیا ہم آپ سے یہ سوال کرتی ہیں کہ ہم )روحوں کو( ہمارے جسموں میں داخل کر کے دوبارہ دنیا بھیج دیں تاکہ پھر آپ کی راہ میں لذت شہادت سے متمتع ہوں جب اللہ نے دیکھا کہ انکی صرف یہی خواہش ہے )جو قانون خداوندی کے لحاظ سے پوری نہیں کی جاسکتی( تو انکو انکے حال پر چھوڑ دیا۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

neend mout hai.jpg



دیگر انسانوں بشمول انبیاء کرام کا معاملہ بھی دیکھتے ہیں، اور اس حوالے سے بھی صحیح بخاری میں ایک بڑی تفصیلی حدیث ملتی ہے جس سے ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ تمام اچھے اور برے انسان بشمول انبیاء اور مومنین عالمِ برزخ میں زندہ ہیں جہاں وہ اکٹھے راحت و عذاب کے سلسلے سے گزارے جاتے ہیں ۔ اسی طرح اس حدیث سے ہمیں یہ بھی علم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی مدینہ والی قبر میں نہیں بلکہ جنت کے سب سے اعلی گھر میں زندہ ہیں اور اس حدیث کے مطابق انہیں اپنا یہ مقام دکھایا گیا جہاں اپنی وفات کے بعد انہوں نے رہنا تھا۔ یہ حدیث کافی لمبی ہے لیکن انتہائی اہمیت کی حامل ہے



سمرہ بن جندبؓ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلوٰۃ الفجر پڑھنے کے بعد (عموماً) ہماری طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے اور پوچھتے کہ آج رات کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تو بیان کرو۔ راوی نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو اسے وہ بیان کر دیتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعبیر اللہ کو جو منظور ہوتی بیان فرماتے۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمول کے مطابق ہم سے دریافت فرمایا کیا آج رات کسی نے تم میں کوئی خواب دیکھا ہے؟ ہم نے عرض کی کہ کسی نے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے کہ دو آدمی میرے پاس آئے۔ انہوں نے میرے ہاتھ تھام لیے اور وہ مجھے ارض ِمقدس کی طرف لے گئے۔ اور وہاں سے عالم ِبالا کی مجھ کو سیر کرائی ، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص تو بیٹھا ہوا ہے اور ایک شخص کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکس تھا جسے وہ بیٹھنے والے کے جبڑے میں ڈال کر اس کے سرکے پیچھے تک چیردیتا پھر دوسرے جبڑے کے ساتھ بھی اسی طرح کرتا تھا۔ اس دوران میں اس کا پہلا جبڑا صحیح اور اپنی اصلی حالت پر آ جاتا اور پھر پہلے کی طرح وہ اسے دوبارہ چیرتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیاہو رہا ہے؟ میرے ساتھ کے دونوں آدمیوں نے کہا کہ آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک ایسے شخص کے پاس آئے جو سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لیے اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سر کو کچل دیتا تھا۔ جب وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو سر پر لگ کر وہ پتھر دور چلا جاتا اور وہ اسے جا کر اٹھا لاتا۔ ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہو جاتا۔ بالکل ویسا ہی جیسا پہلے تھا۔ واپس آ کر وہ پھر اسے مارتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک تنور جیسے گڑھے کی طرف چلے۔ جس کے اوپر کا حصہ تو تنگ تھا لیکن نیچے سے خوب فراخ۔ نیچے آگ بھڑک رہی تھی۔ جب آگ کے شعلے بھڑک کر اوپر کو اٹھتے تو اس میں جلنے والے لوگ بھی اوپر اٹھ آتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اب وہ باہر نکل جائیں گے لیکن جب شعلے دب جاتے تو وہ لوگ بھی نیچے چلے جاتے۔ اس تنور میں ننگے مرد اور عورتیں تھیں۔ میں نے اس موقع پر بھی پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ لیکن اس مرتبہ بھی جواب یہی ملا کہا کہ ابھی اور آگے چلو ' ہم آگے چلے۔ اب ہم خون کی ایک نہر کے اوپر تھے نہر کے اندر ایک شخص کھڑا تھا اور اس کے بیچ میں ایک شخص تھا۔ جس کے سامنے پتھر رکھا ہوا تھا۔ نہر کا آدمی جب باہر نکلنا چاہتا تو پتھر والا شخص اس کے منہ پر اتنی زور سے پتھر مارتاکہ وہ اپنی پہلی جگہ پر چلا جاتا اور اسی طرح جب بھی وہ نکلنے کی کوشش کرتا وہ شخص اس کے منہ پر پتھر اتنی ہی زور سے پھر مارتاکہ وہ اپنی اصلی جگہ پر نہر میں چلا جاتا۔ میں نے پوچھا یہ کیاہو رہا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم اور آگے بڑھے اور ایک ہرے بھرے باغ میں آئے۔ جس میں ایک بہت بڑا درخت تھا اس درخت کی جڑ میں ایک بڑی عمر والے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ کچھ بچے بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ درخت سے قریب ہی ایک شخص اپنے آگے آگ سلگا رہا تھا۔ وہ میرے دونوں ساتھی مجھے لے کر اس درخت پر چڑھے۔ اس طرح وہ مجھے ایک ایسے گھر میں لے گئے کہ اس سے زیادہ حسین و خوبصورت اور بابرکت گھر میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس گھر میں بوڑھے، جوان ' عورتیں اور بچے (سب ہی قسم کے لوگ) تھے۔ میرے ساتھی مجھے اس گھر سے نکال کر پھر ایک اور درخت پر چڑھا کر مجھے ایک اور دوسرے گھر میں لے گئے جو نہایت خوبصورت اور بہتر تھا۔ اس میں بھی بہت سے بوڑھے اور جوان تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم لوگوں نے مجھے رات بھر خوب سیر کرائی۔ کیا جو کچھ میں نے دیکھا اس کی تفصیل بھی کچھ بتلاؤ گے؟ انہوں نے کہا ہاں وہ جو تم نے دیکھا تھا اس آدمی کا جبڑا لوہے کے آنکس سے پھاڑا جا رہا تھا تو وہ جھوٹا آدمی تھا جو جھوٹی باتیں بیان کیا کرتا تھا۔ اس سے وہ جھوٹی باتیں دوسرے لوگ سنتے۔ اس طرح ایک جھوٹی بات دور دور تک پھیل جایا کرتی تھی۔ اسے قیامت تک یہی عذاب ہوتا رہے گا۔ جس شخص کو تم نے دیکھا کہ اس کا سر کچلا جا رہا تھا تو وہ ایک ایسا انسان تھا جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا تھا لیکن وہ رات کو پڑا سوتا رہتا اور دن میں اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔ اسے بھی یہ عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا اور جنہیں تم نے تنور میں دیکھا تو وہ زناکار تھے۔ اور جس کو تم نے نہر میں دیکھا وہ سود خوار تھا اور وہ بزرگ جو درخت کی جڑ میں بیٹھے ہوئے تھے وہ ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کے اردگرد والے بچے ' لوگوں کی نابالغ اولاد تھی اور جو شخص آگ جلارہا تھا وہ دوزخ کا داروغہ تھا اور وہ گھر جس میں آپ پہلے داخل ہوئے جنت میں عام مومنوں کا گھر تھا اور یہ گھر جس میں تم اب کھڑے ہو ' یہ شہداء کا گھر ہے اور میں جبرائیل ہوں اور یہ میرے ساتھ میکائیکل ہیں۔ اچھا اب اپنا سر اٹھاؤ میں نے جو سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر بادل کی طرح کوئی چیز ہے۔ میرے ساتھیوں نے کہا کہ یہ تمہارا مکان ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ پھر مجھے اپنے مکان میں جانے دو۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تمہاری عمر باقی ہے جو تم نے پوری نہیں کی
اگر آپ وہ پوری کر لیتے تو اپنے مکان میں آ جاتے۔
صحیح بخاری ، کتاب الجنائز

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے حوالے سے ہمیں ایک اور صحیح حدیث بھی ملتی ہے جو انکی وفات سے ذرا پہلے کی ہے اور عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں حاضر و نا ظر رہنے کی بجائے اللہ کی رفاقت کی دعا کی یعنی جنت میں دکھائے گئے مقام پر رہنے کو ترجیح دی ۔
عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار نہیں تھے تو فرمایا کرتے تھے کہ جب بھی کسی نبی کی روح قبض کی جاتی تو پہلے جنت میں اس کا ٹھکانا دکھا دیا جاتا ہے ، اس کے بعد اسے اختیار دیا جاتا ہے ( کہ چاہیں دنیا میں رہیں یا جنت میں چلیں) چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور سرمبارک میری ران پر تھا ۔ اس وقت آپ پر تھوڑی دیر کے لئے غشی طاری ہوئی ۔ پھر جب آپ کو اس سے کچھ ہوش ہوا تو چھت کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے ، پھر فرمایا ''اللھم الرفيق الاعلیٰ'' یعنی '' اے اللہ رفیق اعلیٰ '' ۔ میں نے سمجھ لیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اب ہم دنیا والوں (کی رفاقت) اختیار نہ کریں گے ۔ میں سمجھ گئی کہ جو بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحت کے زمانے میں بیان فرمایا کرتے تھے ، یہ وہی بات ہے ۔ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری کلمہ تھا جو آپ نے زبان سے ادا فرمایا کہ
''اللھم الرفيق الاعلیٰ''۔
صحیح بخاری، کتاب الدعوات
لہذا اس طرح سے قران و صحیح حدیث کی روشنی میں یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ ہر انسان کی اصلی قبر عالمِ برزخ ہے



 
Top